DeoKDushman مراسلہ: 5 دسمبر 2013 Report Share مراسلہ: 5 دسمبر 2013 ماہ محرم الحرام اسلامی تاریخ میں ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا ہے ۔ یہی و مبارک و مسعود مہینہ ہے جس میں اسلام کو شر کے چنگل سے آزاد کرانے والے حسین ابن علی(رضی اللہ عنہما) نے شہادت کے صحیح معنوں کو اجاگر کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمالیا ۔ لیکن آج بعض دہشت گرد ‘مجاہدین’ کے بھیس میں اپنا سر ابھار رہے ہیں جو بے گناہ شہریوں کا بے دریغ قتل کرتے ہیں، علماء وفضلائے اسلام کے سر قلم کرتے ہیں، مسلموں اور غیر مسلموں دونوں پر خود کش حملہ کرتے ہیں اور پھر ان کی موت کے بعد ان کے مذہبی پیشوا انہیں ‘شہید’ کا درجہ دیتے ہیں ۔ مقام شہادت کی اس ہتک آمیز بے حرمتی نے آج اقوام عالم کی نظروں میں اسلام کے مقدس تصور شہادت کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ تقریبا تمام مسلم ممالک میں حصول شہادت اور دخول جنت کے باطل زعم میں آج کے نام نہاد ‘مسلم مجہادین’ بے گناہ بچوں،عورتوں اور ضعیف شہریوں کے قتل عام سے دریغ نہیں کرتے۔ اگر چہ دنیا بھر کے اعتدال پسند مسلمان جہاد اور شہادت کے نام پر کئے جا رہے ان دہشت گردانہ اور پرتشدد سرگرمیوں کی مخالفت کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی اس خونیں سلسلہ میں کسی طرح کی کوئی کمی ظاہر نہیں ہو رہی ہے۔ ہم جس شد ومد سے ساتھ ان کی مخالفت کرتے ہیں یہ مذہبی دہشت گرد اس سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں حملے انجام دیتے ہیں ۔ دنیا بھر کے اعتدال پسند مسلمانوں کی شدید مزاحمت کے تئیں ان جہادیوں اور طالبانیوں کی بے اعتنائی کو بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذہبی پیشوا اور فکری نظریہ ساز انہیں منظم طور پر قرآن وحدیث سے ان کی کارستانیوں کا اسلامی جواز فراہم کرتے ہیں۔ وقت بہ وقت یہ کٹر مذہبی غنڈے انہیں بھڑکیلی نظریاتی بنیادیں اور مذہبی محرکات فراہم کرتے ہیں اور انہیں مزید جذباتی اور غضبناک بناتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اسی طرح کی ایک عقل میں نہ آنے والی مثال دیکھنے کو ملی جس سے سواد اعظم سے جڑے مسلمانوں کے ہوش اڑ گئے۔ حال ہی جماعت اسلامی پاکستان کے چیئرمین منور حسن اور جے یو آئی ایف کے چیف فضل الرحمٰن نے تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو ‘‘شہید ’’ قرار دیا۔ فضل الرحمٰن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو کوئی بھی امریکیوں کے ہاتھو مارا جائے اسے شہید سمجھا جائے گا خواہ وہ کتا ہی کیوں نہ ہو۔ انتہا پسندانہ مزاج کے حامل ان مذہبی وسیاسی مسلم لیڈروں اور ان کے غیراسلامی بیانات کی وجہ سے اسلام کے بنیادی عقائد وتصورات کو دنیا بھر میں ٹھیں پہیچ رہی ہے۔ سردست عرض یہ ہے کہ مذکورہ بیان نے اسلامی شہادت کے تصور کو عالمی میڈیا میں موضوع بحث بنا دیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے سنی اتحاد کونسل نے سنی صوفی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی مختلف مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کے مقتول سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دئے جانے کی مذمت میں بر وقت ایک اجتماعی فتویٰ صادر کیا اور دو ٹوک لفظوں میں یہ کہا ہے کہ سینکڑوں معصوم لوگوں کی جان لینے والے دہشت گرد کو کبھی شہید نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس صوفی سنی جماعت نے تقریباً 30 معروف سنی مفتیوں کی اجتماعی رائے کی بنیاد پر فوراً یہ فتویٰ جاری کیا اور صاف لفظوں میں یہ بیان جاری کیا کہ ایک ایسے شخص کو شہید قرار دینا جو لا تعداد بے گناہ زندگیوں کی ہلاکت کا سبب بنا ہو قرآن و سنت کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہندو پاک کے مسلمانوں کو سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا حامد رضا رضوی کا تہہ دل سے شکرگزار ہونا چاہئے (دلچسپ بات ہے کہ ان کے نام کے ساتھ جڑا ‘رضوی’ کا لاحقہ مولانا احمد رضا خان کی طرف منسوب ہے جو کہ برصغیر ہندو پاک میں سنی صوفی مکتب فکر کے اہم نظریہ سازوں میں سے ہیں) جنہوں نے جماعت اسلامی اور طالبان کی جعلی اسلامی شہادت کے خلاف بر وقت زبردست فتویٰ جاری کرنے کی مومنانہ اور بصیرت افروز جرأت کی ۔ ہر ماہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں اس بات کی تحریک دیتی ہے کہ ہم لوگوں کو کھل کر یہ بتائیں کہ دور حاضر کے انتہاپسند جہادی / طالبانی جو ‘مجاہد’ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور پرتشدد کارنامے اور خود کش حملے انجام دے کر خود کو ‘شہید’ کہلواتے ہیں، وہ صرف اور صرف‘‘ دہشت گرد’’ ہیں ۔ اس لئے کہ ان کی یہ تمام سرگرمیاں حسینی جہاد کی اصل روح کے خلاف ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس ظالم و جابر حکمران یزید کے خلاف جہاد کیا تھا جو کہ جمہوری قیادت کے اسلامی تصور سے کوسوں دور جا چکا تھا اور ایک مکمل آمرانہ حکومت کی بنیاد ڈال چکا تھا۔ اسی لئے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو شہادت، آزادی، جمہوریت اور عدل و انصاف کے صحیح اسلامی اصول کے احیائے نو کا علمبردار مانا جاتا ہے ۔ کربلا کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے امام حسین نے اپنے پیروکاروں سے فرمایا تھا: ‘‘اے لوگو، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک ظالم و جابر حاکم کو اللہ کےقائم کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہوا اور لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہوا دیکھتا ہے لیکن الفاظ یا اقدام کے ذریعہ حالات کو بدلنے کے لئے کچھ نہیں کرتا تو پھر اسے کیفر کردار تک پہنچانا اللہ ہی کا کام ہے ۔ کیا تم یہ نہیں دکھتے کہ معاملات کس حد تک ابتر ہو چکے ہیں؟ کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ لوگ حق کو چھوڑرہے ہیں اور باطل بے حد و حساب پھیل رہا ہے ۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں زندگی کو حصول شہادت کا ذریعہ مانتا ہوں۔ میں ظالموں کے درمیان زندگی کو ایک بیماری اور مصیبت سمجھتا ہوں ۔’’ یہ ہے شہادت کا صحیح اسلامی تصور جس کی لازوال اور زندہ و تابندہ مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کےعظیم نواسے نے میدان کربلا میں قائم کی۔ ابتدائے اسلام میں دفاعی اسلامی جنگوں میں شہید کئے جانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنھما کو شیعہ اور سنی دونوں مکتبہ فکر میں اسلامی شہادت کی سب سے عظیم مثال شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اسلام کے وہ عظیم المرتبت شہداء ہیں جن کے بارے میں قرآن کا ارشاد گرامی ہے : ‘‘وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ’’ (3:169) ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے قرآن انہیں ‘‘شہداء’’ کا بھی نام دیتا ہے یہ لفظ عربی کے لفظ ‘‘شہید ’’ کی جمع ہے جس کا مادہ ‘‘شہادۃ’’ ہے جس کے معنیٰ ‘دیکھنا ’ ، ‘گواہ بننا’، ‘تصدیق کرنا ’ اور ‘نمونہ بننا’ ہیں ۔ قرآن نے لفظ ‘شہید’ کو بنیادی طور پر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا ہے جو حق کی شہادت دینے ہیں اورجنہوں نے حکم الٰہی کی بجا آوری میں اپنی جان قربان کر دی (قرآن 16:89) اور ثانیا، قرآن کریم نے یہ لفظ واضح طور پر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا ہے جو اپنے مذہب یا خاندان کے دفاع میں لڑتے ہوے مارے گئے۔ درحقیقت، اسلام میں شہید (اللہ کی راہ میں جان دینے والے کے معنیٰ میں) وہ ہے جو سچائی کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے لئے جسمانی طور پر باطل کا سامنا کرتا ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتا ہے، اس حد تک کہ وہ نہ صرف زبانی طور پر اس کی گواہی دیتا ہے بلکہ پہلے تو وہ اس کے خلاف پر امن طریقے سے جد و جہد کرتا ہے پھر اگر حالات میں بہتری پیدا آتی، تو وہ سچائی کے لئے اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور اس طرح اسے مقام شہادت حاصل ہوتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام میں شہادت ایک انتہائی اہم مقام ہے۔ لیکن اسلامی شہادت کا حقیقی مفہوم شہادت کے موجودہ طالبانی تصور سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے شہادت کا جو تصور قائم کر رکھا ہے وہ خود کش حملے اور بڑے پیمانے پر معصوم شہریوں کے قتل کے مترادف ہے ۔ کافی عرصے سے طالبان، القاعدہ ، بوکو حرام اور ان کے فکری و مذہبی اکابرجن کا تعلق وہابی ، سلفی اور اہل حدیث جیسے انتہاپسند مکاتب فکر سے ہے، شہادت کے اسلامی تصور کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ غریب اور سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے ہیں اور انہیں اس عقیدے کی تعلیم دیتے ہیں کہ غیر مسلموں کے خلاف عام طور پر اور غیر وہابی مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر دہشت پھیلانے سے اللہ کی نظر میں انہیں شہادت جیسا ارفع و اعلیٰ مقام حاصل ہوگا اور انہیں ان عظیم انعامات سے نوازا جائے گا جن کا وعدہ قرآن کریم میں شہداء کے لئے کیا گیا ہے ۔ان کے وہابی نظریہ سازوں نے انہیں خود کش حملوں کا جواز فراہم کرنے کے لئے ‘استشہاد ’ کی اصطلاح عطا کرکے ایک دائمی مذہبی محرک فراہم کر رکھا ہے ، جو نہ صرف حرام ہے بلکہ چند حالات میں کفر کے برابر ہے ۔ ان نام نہاد جہادیوں کی متعدد میگزین، مجلے اور جرائد ہیں جو قرآن وحدیث میں مذکور شہادت کے مقام ومراتب اور انعامات کی باضابطہ تفصیلات شائع کرکے کم پڑھے لکھے افغانی وپاکستانی نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ ہر شمارہ میں درجنوں مضامین لکھے جاتے ہیں جن میں خود کش حملوں، بم دھماکوں، اور معصوم وغیر جنگجو شہریوں کے قتل عام کو مذہبی جواز فراہم کرنے کے لئے شہادت سے متعلق قرآن و حدیث کے اقتباسات کی غلط اور گمراہ کن تشریح کی جاتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کے اس طرح کے زہر آلود مذہبی جریدے، مجلے اور اخبارات پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں دستیاب ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ تو آن لائن مختلف زبانوں میں موجود ہیں۔ چند کے نام یہ ہیں: ‘‘ماہ نامہ الشریعہ ’’ ، ‘‘اذان’’ ، ‘‘ماہنامہ نوائے افغان جہاد ’’ ، ‘‘حطین ، ‘‘مرابطون’’ ، ‘‘القلم ’’ ، ‘‘ضرب مؤمن ’’ ، ‘‘الہلال’’ ، ‘‘صدائے مجاہد’’ ، ‘‘جیش محمد ’’ ‘‘راہ وفا ’’ وغیرہ۔ ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ طالبانی مصنفین سادہ لوح مسلم قارئین کو شہادت کے نام پر خود دہشت گردانہ جرائم اور کش بم حملوں پر آمادہ کرنے کے لئے انہیں کس طرح بھڑکاتے ہیں۔ ایک مثال حاضر ہے۔ طالبانی میگزین ‘نوائے افغان جہاد’ کے مستقل قلمکار مولانا یوسف بنوری لکتھے ہیں کہ :اسلام میں شہادت کا بہت اعلیٰ مقام ہے .....شہادت سے ایک ابدی زندگی یقینی ہو جاتی ہے اور آنے والے زمانے میں اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن اور حدیث میں جہاد کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا گیا ہے ....... ہمارے لئے جہاد پر آمادہ کرنے والی اس بڑی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اللہ اپنے بندوں کی جان اور جائداد کا خریدار ہے اور اس کا فرمان ہے کہ اس وعدے کا ذکر صرف قرآن میں ہی نہیں بلکہ تورات اور انجیل میں بھی ہے .....یہ شہدا ء خدا کی بارگاہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں خدا انہیں عظیم مقام و مرتبہ عطاء کرتا ہے ۔ (نوائے افغان جہاد، مئی 2013 ) ماخذ: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/the-place-of-martyrdom-in-islam/d/11742 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر اپنی امت کو اس بات کی تاکید کی تھی کہ وہ حسین (رضی اللہ عنہ) کو نہ بھولے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تاکید اس امر کی طرف غماز ہے کہ جو شخص کربلا اور امام حسین کی شہادت کو فراموش کر یگا وہ ان کے مشن میں سمجھوتے کا سبب بنے گا ۔ آج جو مسلمان امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے معتقد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کے باجود خاموشی کے ساتھ تماشائی بن کر مذہبی انتہا پسندوں اور نام نہاد جہادیوں کو استشہاد (شہادت ) کے نام پر بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرتے ہوئ دیکھتے رہتے ہیں وہ دراصل حسینی شہادت کی روح ساتھ بڑی نا انصافی کررہے ہیں ۔ (انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام) نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی ایک عالم اور فاضل (اسلامی سکالر ) ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی ہے، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے ، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
shahzad6058811 مراسلہ: 5 دسمبر 2013 Report Share مراسلہ: 5 دسمبر 2013 ya log apnay followers ko hadees shareef suna kar dhoka daitay hain k ham wo grouh hain jo hind par hamla karay ga aur (jahanam ke aag say mehfooz rahay ga) is hadees ko sun kar bholay bhaalay choti umer kay log in k chungal main phans jaatay hain . hadees sharif k mutabiq wo group/grouh hamla k baad HAZRAT EISSA aley hissalaam say ja kar milay ga. us grouh ka zamana hazrat EIssa alahissalaam kay zamana say mutsil hay. magar ya naam nihaad talibaan logoon ko gumrah kar rahay hain. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔