Muhammad Ayyan مراسلہ: 22 اکتوبر 2013 Report Share مراسلہ: 22 اکتوبر 2013 میں نے کئی وہابیوں کو یزید کے دفاع میں امام غزالی کا قول پیش کرتے دیکھا ہے کہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا ناجائز نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس ضمن میں جن دو کتابوں کے حوالے مجھے دئیے گئے وہ ہیں قيد الشريد من أخبار يزيد اور وفيات الاعيان۔ جب کہ میری معلومات کے مطابق یہ دونوں کتب امام غزالی کی نہیں۔ اول الذکر شمس الدین بن طولون اور دوسری ابن خلقان کی۔ آپ بھائیوں میں سے کوئی اس مسئلہ میں امام غزالی کا صحیح موقف بتا سکے تو بڑی مہربانی کہ کیا یہ حوالہ جات صحیح ہیں۔ اگر ہاں تو امام غزالی کیا نعوذبااللہ ناصبی قرار پاتے ہیں یا یہ ان کی اجتہادی خطا قرار دی جائے گی۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 23 اکتوبر 2013 Report Share مراسلہ: 23 اکتوبر 2013 (ترمیم شدہ) امام غزالی نے احیا العلوم میں آفات لسان کے باب میں لکھا کہ قلنا الصواب ان یقال قاتل الحسین ان مات قبل التوبۃ لعنہ اللہ۔ یعنی ہم کہتے ہیں کہ حضرت حسین کا قاتل اگر بے توبہ کئے مرا ہو تو اُ س پر لعنت ہو۔ باقی تاریخی روایات کی اسناد پر بحث کی گنجائش ہے تو قطعی طور پر امام غزالی نے کچھ کہنا درست نہ جانا۔ اور یزید کو دعا دینے کے استحباب کا جو فتویٰ امام غزالی کی طرف منسوب ہے وہ امام غزالی کی کسی تصنیف میں نہیں ملتا ۔ امام غزالی نے احیا العلوم میں امام حسین کا خطبہ نقل کیا جس میں لکھا ہے کہ :۔۔ وإني لا أرى الموت إلا سعادة والحياة مع الظالمين إلا جرما میں ظالموں کے ساتھ جینے کو جرم اور موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ امام غزالی نے یزیدیوں کو ظالم اور قتل حسین کو باعث ِ لعنت لکھا ہے جب کہ یزیدی کہتے ہیں کہ حسین کو اُس کے نانا کی تلوار سے قتل کیا گیا ۔ Edited 24 اکتوبر 2013 by Saeedi 3 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔