Jump to content

Aalahzrat Aur Shia Se Ta'aluq Jawaab Chahiye


MunAAm

تجویز کردہ جواب

 Firqa Barelviyat Pak - o - Hind Ka Tehqeeqi Jaiza.... KYA IS BOOK KA RADD LIKHA GAYA HAI?

 

NADIR ALI SHAH THA KON? MAINE SAEEDI BHAI KA ARTICLE PADHA PAR USME ISKA ZIKR NAHI HAI

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Edited by Mughal...
Don not post images with Deobandi site links
Link to comment
Share on other sites

 زندگی

نادر شاہ کا تعارف :

نادر قلی خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

ابتدائی فتوحات

افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیئے لیکن اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیئے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میںرکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کردیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔ نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خودمختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہوگیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کرلیا۔ باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر سے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کئے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کردیا۔

تخت نشینی

مشہد میں نادر شاہ کا مقبرہ

ان فتوحات نے نادر کی شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ ایرانی اس کو ایران کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے تخت ایران پیش کردیا لیکن نادر نے ایرانیوں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے وہ بادشاہت قبول نہیں کرسکتا۔ [1]۔ ایرانیوں نے اس کا یہ مطالبہ منظور کرلیا اور نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہوگئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کرلیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

ہندوستان پر حملہ

اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کرلیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کرلیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لئے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت کی بد انتظامی اور اندرونی خلفشار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نادر تو کابل سے 600 میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا لیکن محمد شاہ المعروف محمد شاہ رنگیلا اپنی پوری فوج 70 میل دور کرنال تک میں جمع نہ کرسکا اور توپ خانے کے پہنچنے سے پہلے ہی لڑائی شروع ہوگئی۔ نتیجہ ظاہر تھا، نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پذیر رہا۔

ایران واپسی

اس دوران دہلی کے اوباشوں نے شہر میں گھومنے پھرنے والے ایرانی فوجیوں پر حملے شروع کردیئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کردیا۔ نادر کے روکنے کے باوجود حملے بند نہیں ہوئے تو اس نے قتل عام کا حکم دے دیا جس میں تقریبا 20 ہزار افراد مارے گئے۔ نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارااور خیوہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

آخری ایام:

اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہوگئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہوگیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کردیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔ ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہوگئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہوگئے۔ آخر کار 1747ء میں اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمےمیں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کردیا۔

 

 

یہاں اعتراض کرنے والے نے خودساختہ وضاحت کی ہے.................

عموما بادشاہ عیش پسند ہوتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر ما تحت یا وزیر اسے خوش کرنے کے لئے سامان عیش ہی فراہم کرے....................

بادشاہ ان کی دوسری خوبیوں کے سبب بھی انھں پسند کر سکتا ہے ..آخر اعتراض کرنے والا تاریخ بیان کر رہا ہے یا اسے اپنی پسند کا رنگ دے رہا ہے ...؟ہو سکتا ہے بادشاہ کو ان کی نیکی یا اخلاص پسند آیا ہو یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کے بادشاہوں نے علما یا دین داروں کو ان کی نیکی سے خوش ہو کر جائیداد عطا کیں یہ کوئی بڑی  بات نہیں.....

 

شیعیت کے پھیلنے کا اتنا افسوس .....اور جو نجدیت پھیلی اس پر فخر     ......؟

دشمنی اعلحضرت سے ہے یا ان کے سارے خاندان سے ......؟

قطب الوقت مولانا شاہ رضا علی خاں رحمت اللہ کے زمانے سے اعلحضرت علیہ رحمہ کے خاندان مبارک میں حکومت کا رنگ ختم ہوا اور درویشی اور فقر کا رنگ غالب ہوا ورنہ آپ سے پہلے بزرگو کا یہ عالم تھا کہ شروع میں امور سلطنت کے عھدوں پر فائز رہتے اور پھر آخر میں اس سے الگ ہو کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتے ......

 

 یہ نام والا اعتراض تو انتہائی فضول ہے.....ہر شخص اپنا نام کسی بھی عمر میں اپنی پسند کا رکھ سکتا ہے اخبارات میں نام کی تبدیلی کا اشتہار چھپتا ہی رہتا ہے اور خود یہ اپنے اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں ....یہ تو آپ کا اپنے محبوب سے اظہار محبت کا انوکھا طریقہ ہے جو حقیقت بھی ہے بے شک حضور علیہ الصلات و السلام کے ہم غلام ہی ہیں آپ نہ مانیں تو حق بدل نہ جاےگا ، حق حق ہی رہے گا . شاید اسی کا زیادہ افسوس ہے.....اللہ پاک کے حبیب کی شان میں گستاخی کرنے والے ان کے مبارک نام کا چرچا برداشت نہیں کر سکتے . اسی لئے اعلحضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں........

مومن ہے وہ جو ان کی عزت پہ مرے دل سے

تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 زندگی

نادر شاہ کا تعارف :

نادر قلی خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

ابتدائی فتوحات

افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیئے لیکن اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیئے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میںرکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کردیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔ نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خودمختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہوگیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کرلیا۔ باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر سے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کئے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کردیا۔

تخت نشینی

مشہد میں نادر شاہ کا مقبرہ

ان فتوحات نے نادر کی شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ ایرانی اس کو ایران کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے تخت ایران پیش کردیا لیکن نادر نے ایرانیوں کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے وہ بادشاہت قبول نہیں کرسکتا۔ [1]۔ ایرانیوں نے اس کا یہ مطالبہ منظور کرلیا اور نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہوگئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کرلیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

ہندوستان پر حملہ

اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کرلیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کرلیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لئے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت کی بد انتظامی اور اندرونی خلفشار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نادر تو کابل سے 600 میل کا فاصلہ طے کرکے کرنال پہنچ گیا لیکن محمد شاہ المعروف محمد شاہ رنگیلا اپنی پوری فوج 70 میل دور کرنال تک میں جمع نہ کرسکا اور توپ خانے کے پہنچنے سے پہلے ہی لڑائی شروع ہوگئی۔ نتیجہ ظاہر تھا، نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پذیر رہا۔

ایران واپسی

اس دوران دہلی کے اوباشوں نے شہر میں گھومنے پھرنے والے ایرانی فوجیوں پر حملے شروع کردیئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قتل کردیا۔ نادر کے روکنے کے باوجود حملے بند نہیں ہوئے تو اس نے قتل عام کا حکم دے دیا جس میں تقریبا 20 ہزار افراد مارے گئے۔ نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارااور خیوہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

آخری ایام:

اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہوگئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہوگیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کردیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔ ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہوگئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہوگئے۔ آخر کار 1747ء میں اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمےمیں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کردیا۔

 

 

یہاں اعتراض کرنے والے نے خودساختہ وضاحت کی ہے.................

عموما بادشاہ عیش پسند ہوتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر ما تحت یا وزیر اسے خوش کرنے کے لئے سامان عیش ہی فراہم کرے....................

بادشاہ ان کی دوسری خوبیوں کے سبب بھی انھں پسند کر سکتا ہے ..آخر اعتراض کرنے والا تاریخ بیان کر رہا ہے یا اسے اپنی پسند کا رنگ دے رہا ہے ...؟ہو سکتا ہے بادشاہ کو ان کی نیکی یا اخلاص پسند آیا ہو یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کے بادشاہوں نے علما یا دین داروں کو ان کی نیکی سے خوش ہو کر جائیداد عطا کیں یہ کوئی بڑی  بات نہیں.....

 

شیعیت کے پھیلنے کا اتنا افسوس .....اور جو نجدیت پھیلی اس پر فخر     ......؟

دشمنی اعلحضرت سے ہے یا ان کے سارے خاندان سے ......؟

قطب الوقت مولانا شاہ رضا علی خاں رحمت اللہ کے زمانے سے اعلحضرت علیہ رحمہ کے خاندان مبارک میں حکومت کا رنگ ختم ہوا اور درویشی اور فقر کا رنگ غالب ہوا ورنہ آپ سے پہلے بزرگو کا یہ عالم تھا کہ شروع میں امور سلطنت کے عھدوں پر فائز رہتے اور پھر آخر میں اس سے الگ ہو کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتے ......

 

 یہ نام والا اعتراض تو انتہائی فضول ہے.....ہر شخص اپنا نام کسی بھی عمر میں اپنی پسند کا رکھ سکتا ہے اخبارات میں نام کی تبدیلی کا اشتہار چھپتا ہی رہتا ہے اور خود یہ اپنے اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں ....یہ تو آپ کا اپنے محبوب سے اظہار محبت کا انوکھا طریقہ ہے جو حقیقت بھی ہے بے شک حضور علیہ الصلات و السلام کے ہم غلام ہی ہیں آپ نہ مانیں تو حق بدل نہ جاےگا ، حق حق ہی رہے گا . شاید اسی کا زیادہ افسوس ہے.....اللہ پاک کے حبیب کی شان میں گستاخی کرنے والے ان کے مبارک نام کا چرچا برداشت نہیں کر سکتے . اسی لئے اعلحضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں........

مومن ہے وہ جو ان کی عزت پہ مرے دل سے

تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...