DeoKDushman مراسلہ: 19 ستمبر 2013 Report Share مراسلہ: 19 ستمبر 2013 ضروریاتِ دین کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ دینی مسائل جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں اقول عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کی صحبت سے فیضیاب ہوں...ورنہ بہت سے اعرابی جاہل ... خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ...ایسے ہیں جو بہت سے ضروریاتِ دین سے آشنا نہیں .. اس معنی میں نہیں کہ ضروریاتِ دین کے منکر ہیں بلکہ وہ ان سے غافل ہیں ۔ بڑا فرق ہے عدمِ علم او ر علمِ عدم میں ۔ خواہ یہ جہلِ مرکب ہی ہو . تو اس فرق سے بے خبری نہ رہے، اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبار سے بداہت و نظریت بھی مختلف ہوتی ہے ۔ بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری مسئلہ پر ہوتی ہے ۔ اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن و واضح ہو کر ایک مقررہ قاعدہ اور واضح علم کی حیثیت اختیار کر لے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لئے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی، اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آ جاتا ہے اگرچہ وُہ بذات خود نظری تھا . دیکھیے ہندسہ داں (جیومیٹری والے) کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ہر وُہ قوس جو دَور کے چار ربع میں سے ایک کامل ربع کے برابر نہ پہنچے اس کے لئے قاطع اور ظل اول ہونا ضروری ہے .۔اس میں کسی نظر کے استعمال اور فکر کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں جب کہ مشہور مسلّم مقرر مصادرہ ملحوظ ہو اگرچہ یہ کلیہ اور وہ مصادرہ بذاتِ خود دونوں ہی نظری ہیں ۔یہی حال ضروریاتِ دین کا ہے (کہ بعض لوگوں کے لئے بدیہی ، بعض کے لئے نظری اور بعض کے لئے نامعلوم۔ ۱۲ مترجم ) (ت) (ف۲)معنی ضروریات الدین ۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔