Najam Mirani مراسلہ: 16 جون 2013 Report Share مراسلہ: 16 جون 2013 (ترمیم شدہ) سیدا لشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت 5 شعبان 4ھکو مدینہ منورہ میں ہوئی۔حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کانام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب سبط رسول اللہ اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل ہے اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اور اپنافرزند فرمایا۔10 محرم ۶۱ھ جمعہ کے دن کربلا کے میدان میں یزیدی ستم گاروں نے انتہائی بیدردی کے ساتھ آپ کو شہید کردیا۔ حضور اقدس نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی۔ حدیث شریف میں ا ر شادہوا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ ۔ جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن وامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔ '' المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب رکوب الحسن...الخ،الحدیث:۴۸۳۰،ج۴،ص۱۵۶ جنتی جوانوں کا سردار فرمانے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ راہ خدا عزوجل میں اپنی جوانی میں راہ جنت ہوئے حضرت امامین کریمین ان کے سردار ہیں اور جوان کسی شخص کو بلحاظ اس کے نو عمری کے بھی کہا جاتا ہے اور بلحاظ شفقت بزرگانہ کے بھی، آدمی کی عمر کتنی بھی ہو اس کے بزرگ اس کو جوان بلکہ لڑکا تک کہتے ہیں، شیخ اور بوڑھا نہیں کہتے ہیں اسی طرح بمعنی فُتُوَّت و جوانمردی بھی لفظ ِجوان کا اطلاق ہوتاہے خواہ کوئی شخص بوڑھا ہومگر ہمتِ مردانہ رکھتا ہو وہ اپنی شجاعت وبَسالَت کے لحاظ سے جوان کہلایا جاتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف اگرچہ وقتِ وصال پچاس سے زائد تھی۔ مگر شجاعت و جوانمردی کے لحاظ سے نیز شفقت پدری کے اقتضاء سے آپ کو جوان فرمایا گیا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ انبیائے کرام و خلفائے راشدین کے سوا امامین جلیلین تمام اہل جنت کے سردار ہیں کیونکہ جوانا نِ جنت سے تمام اہل جنت مراد ہیں اس لئے کہ جنت میں بوڑھے اور جوان کافر ق نہ ہوگا۔ وہاں سب ہی جوان ہوں گے اور سب کی ایک عمر ہوگی۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں فرزندوں کو اپنا پھول فرمایا۔ ھُمَا رَیْحَانَیْ مِنَ الدُّنْیَا وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ (الصواعق المحرقۃ،الباب الحادی عشر،الفصل الثالث، ص۱۹۳وصحیح مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی دوام نعیم اھل الجنۃ...الخ،الحدیث:۲۸۳۷،ص۱۵۲۱ماخوذاًومشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب اہل البیت...الخ،الحدیث:۶۱۴۵،ج۲،ص۴۳۷)(رواہ الترمذی) حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرح سونگھتے او رسینۂ مبارک سے لپٹا تے۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی...الخ،الحدیث:۳۷۹۷،ج۵،ص۴۲۸)(رواہ الترمذی حضورپرنورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ ایک روزحضورانور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم آج میں نے ایک پریشان خواب دیکھا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا؟عرض کیا: وہ بہت ہی شدیدہے۔ ان کو اس خواب کے بیان کی جرآت نہ ہوتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مکرردریافت فرمایا تو عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ جسد اطہر کاایک ٹکڑا کاٹا گیا اور میری گود میں رکھا گیا۔ ارشادفرمایا :تم نے بہت اچھا خواب دیکھا، ان شاء اللہ تعالیٰ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیٹا ہوگا او ر وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا۔ ایساہی ہوا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے اور حضرت ام الفضل کی گود میں دیئے گئے۔ ام الفضل فرماتی ہیں: میں نے ایک روز حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر حضرت اما م حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں دیا،کیا دیکھتی ہوں کہ چشم مبارک سے آنسو ؤں کی لڑیاں جاری ہیں۔ میں نے عرض کیا: یانبی اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ حضو رپر قربان! یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا:جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ خبر فرمائی کہ میری امت اس فرزند کو قتل کرے گی۔ میں نے کہا: کیااس کو؟ فرمایا:ہاں اور میرے پاس ا س کے مقتل کی سرخ مٹی بھی لائے۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،جماع ابواب اخبار النبی...الخ،باب ما روی فی اخبارہ...الخ،ج۶،ص۴۶۸) (رواہ البیہقی فی الدلائل) کراماتکنوئیں سے پانی ابل پڑا ابوعون کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے راستے میں ابن مطیع کے پاس سے گزرہوا ۔انہوں نے عرض کیا کہ اے ابن رسول! میرے اس کنوئیں میں پانی بہت کم ہے اس میں ڈول بھرتا نہیں میری ساری تدبیریں بیکار ہوچکی ہیں ۔ کاش!آپ ہمارے لئے برکت کی دعا فرمائیں ۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کنوئیں کا پانی منگایا اورآپ نے ڈول سے منہ لگا کر پانی نوش فرمایا۔ پھراس ڈول میں کلی فرما دی اورحکم دیا کہ سارا پانی کنوئیں میں انڈیل دیں جب ڈول کا پانی کنوئیں میں ڈالاتو نیچے سے پانی ابل پڑا۔ کنوئیں کا پانی بہت زیادہ بڑھ گیا اورپانی پہلے سے بہت زیادہ شیریں اورلذیذ بھی ہوگیا۔ (ابن سعدج۵،ص۱۴۴) بے ادبی کرنے والا آگ میں میدان کربلا میں ایک بے باک اوربے ادب مالک بن عروہ نے جب آپ کے خیمہ کے گرد خندق میں آگ جلتی ہوئی دیکھی تو اس بد نصیب نے یہ کہا کہ اے حسین! تم نے آخرت کی آگ سے پہلے ہی یہاں دنیا میں آگ لگالی ؟حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ اے ظالم !کیا تیرا گمان ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گا؟ پھر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مجرو ح دل سے یہ دعا مانگی کہ ''خداوند ا!تو اس بدنصیب کو نارِ جہنم سے پہلے دنیا میں بھی آگ کے عذاب میں ڈال دے ۔ ''امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ فورا ً ہی مالک بن عروہ کا گھوڑا پھسل گیا اور یہ شخص اس طرح گھوڑے سے گرپڑاکہ گھوڑ ے کی رکاب میں اس کا پاؤں الجھ گیا اور گھوڑا اس کو گھسیٹتے ہوئے خندق کی طرف لے بھاگااوریہ شخص خیمہ کے گرد خندق کی آگ میں گرکر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ (روضۃ الشہداء،ص۱۶۹) نیزہ پر سراقدس کی تلاوت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾ (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹ اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی : وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲) (روضۃ الشہداء ،ص230 تبصرہ ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔ Edited 16 جون 2013 by Najam Mirani 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔