Najam Mirani مراسلہ: 3 جون 2013 Report Share مراسلہ: 3 جون 2013 (ترمیم شدہ) اصطلاحاتِ قرآنیہ میں معلوم ہوچکا کہ قرآن شریف میں ایک لفظ چند معنی میں آتا ہے ،ہر مقام پر لفظ کے وہی معنی کرنا چاہئیں جو اس جگہ مناسب ہوں۔ اب ہم وہ قاعدے بیان کرتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے کہ لفظ کے معنے معلوم کرنے کے قاعدے کیا ہیں؟ کیسے معلوم کریں کہ یہاں فلاں معنی ہیں۔ ان قواعد کو بغور مطالعہ کرو تاکہ ترجمہ قرآن میں غلطی واقع نہ ہو۔ قاعدہ نمبر ۱ وحی کی معنی اور ان کی پہچان الف: جب وحی کی نسبت نبی کی طر ف ہوگی تو ا سکے معنی ہوں گے رب تعالیٰ کابذریعہ فرشتہ پیغمبر سے کلام فرمانا یعنی وحی الٰہی عرفی ۔ ب:جب وحی کی نسبت غیرنبی کی طر ف ہو تواس سے مرادہوگادل میں ڈالنا، خیال پیدا کردینا ۔ الف کی مثال ان آیا ت میں ہے : (1) اِنَّاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوْحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعْدِہٖ بے شک ہم نے وحی کی تمہاری طر ف جیسے وحی کی تھی نوح اور ان کے بعد والے پیغمبر وں کی طر ف ۔(پ6،النسآء:163 (2) وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤْمِنَ مِنۡ قَوْمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدْ اٰمَنَ اور وحی کی گئی نوح کی طر ف کہ اب ایمان نہ لا ئیگا مگر وہ جو ایمان لاچکے ۔(پ12،ھود:36) ان جیسی صدہا آیتوں میں وحی سے مراد ہے وحی ربانی جو پیغمبر وں پر آتی ہے۔ ''ب '' کی مثال یہ آیات ہیں: (1) وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸ اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈالا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتو ں میں ۔(پ14،النحل:68) (2) وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوْلِیٰٓـِٕہِمْ اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتا ہے ۔(پ8،الانعام:121) (3) وَاَوْحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنْ اَرْضِعِیۡہِ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے دل میں ڈال دیا کہ انہیں دودھ پلاؤ ۔(پ20،القصص:7) ان آیتو ں میں چونکہ وحی کی نسبت شہد کی مکھی یا موسیٰ علیہ السلام کی ماں یا شیطان کی طر ف ہے اور یہ سب نبی نہیں اس لئے یہاں وحی نبوت مراد نہ ہوگی بلکہ فقط دل میں ڈال دینا مراد ہوگا کبھی وحی اس کلام کو بھی کہا جاتا ہے جو نبی سے بلا واسطہ فرشتہ ہو ۔ جیسے اس آیت میں ہے ۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿۹﴾فَاَوْحٰۤی اِلٰی عَبْدِہٖ مَاۤ اَوْحٰی ﴿ؕ۱۰ پس ہوگئے وہ محبوب دوکمانوں کے فاصلہ پر اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی کی ۔(پ27،النجم:9۔10 معراج کی رات قرب خاص کے موقعہ پر جب فرشتہ کا واسطہ نہ رہا تھا جو رب تعالیٰ سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی اسے وحی فرمایاگیا۔ قاعدہ نمبر۲ عبد کی معنی اور ان کی پہچان الف: جب'' عبد ''کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طر ف ہو تو اس سے مراد مخلوق عابد یا بندہ ہوتا ہے ۔ ب: جب'' عبد '' کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی خادم نوکر ہوں گے ۔ '' الف ''کی مثال ان آیات میں ہے : (1) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا پاک ہے وہ جو اپنے بندہ خاص کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:1) (2) وَاذْکُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوۡبَ (3) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمْ سُلْطٰنٌ میرے خاص بندوں پر اے ابلیس تیرا غلبہ نہ ہوگا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65) ان تمام آیتو ں میں چونکہ عبدکی نسبت رب تعالیٰ کی طر ف ہے اس لئے یہاں ''عبد '' کے معنی بندہ ئعا بد ہوں گے ۔'' ب ''کی مثال ان آیات میں ہے : (1) وَ اَنۡکِحُوا الْاَیَامٰی مِنۡکُمْ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ اور نکاح کردو ان میں سے ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور لونڈیوں کا ۔(پ18،النور:32) (2) قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ فرمادو کہ اے میرے وہ غلاموجنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر مت ناامید ہو اللہ کی رحمت سے (پ24،الزمر:53 ان آیتو ں میں چونک'' عبد '' کی نسبت بندوں کی طر ف ہے اس لئے اس کے معنی مخلوق نہ ہوں گے بلکہ خادم ، غلام ہوں گے لہٰذا عبدالنبی اور عبدالرسول کے معنی ہیں نبی کا خادم۔ Edited 5 جون 2013 by Najam Mirani 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafaye مراسلہ: 4 جون 2013 Report Share مراسلہ: 4 جون 2013 السلام علیکم جزاک الله تبارک تعالى اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 5 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 5 جون 2013 وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 5 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 5 جون 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۳ رب کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب رب کی نسبت اللہ کی طر ف ہو تو اس سے مراد ہے حقیقی پالنے والا یعنی اللہ تعالیٰ ۔ ب: جب کسی بندے کو رب کہا جاوے تو اس کے معنی ہوں گے مربی ، محسن ، پرورش کرنے والا۔ّ'' الف''کی مثال یہ آیات ہیں: (1) اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱ ساری حمد یں اللہ کے لئے ہیں جو جہان کا رب ہے ۔(پ1،الفاتحۃ:1) (2) رَبَّکُمْ وَ رَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۲۶ وہ اللہ تمہارا اور تمہارے پچھلے باپ دادوں کا رب ہے ۔(پ23،الصّٰفّٰت:126) (3) قُلْ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾مَلِکِ النَّاسِ ۙ﴿۲ فرمادو میں پناہ لیتا ہوں انسانوں کے رب کی ۔(پ30،الناس:1،2)ان آیا ت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا لہٰذا اس سے مراد حقیقی پالنے والا ہے ۔''ب'' کی مثال ان آیتو ں میں ہے : (1) ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْـَٔلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعْنَ اَیۡدِیَہُنَّ اپنے مربی (بادشاہ) کی طر ف لوٹ جاپھر اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے ہاتھ کاٹے تھے ۔(پ12،یوسف:50) (2) قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّیۡۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَ فرمایا یوسف نے اللہ کی پناہ وہ بادشاہ میرا رب ہے اس نے مجھے اچھی طر ح رکھا ۔(پ12،یوسف:23) ان آیتو ں میں چونکہ بندوں کو رب کہا گیا ہے اس لئے اس کے معنے مربی اور پرورش کرنے والا ہیں۔ قاعدہ نمبر ۴ ضلال کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''ضلال'' کی نسبت غیرنبی کی طرف ہو تواس کے معنی گمراہ ہوں گے۔ب:جب ''ضلال'' کی نسبت نبی کی طر ف ہو تو اس کے معنی وار فتہ محبت یا راہ سے ناواقف ہوں گے ۔'' الف'' کی مثال یہ ہے : (1) مَنۡ یُّضْلِلِ اللہُ فَلَاہَادِیَ لَہٗ جسے خدا گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ۔(پ9،الاعراف:186) (2) غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ ان کا راستہ نہ چلا جن پر غضب ہو انہ گمراہوں کا ۔(پ1،الفاتحۃ:7) (3) وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ﴿٪۱۷﴾ جسے رب گمراہ کردے تم اس کیلئے ہادی رہبر نہ پاؤ گے ۔(پ15،الکھف:17) ان جیسی تمام آیتو ں میں چونکہ ضلال کا تعلق نبی سے نہیں غیر نبی سے ہے تو اس کے معنی ہیں گمراہی خواہ کفر ہو یا شرک یا کوئی اور گمراہی سب اس میں داخل ہوں گے ۔''ب''کی مثالیں : (1) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ اے محبوب رب نے تمہیں اپنی محبت میں وارفتہ پایا تو اپنی راہ دے دی ۔(پ30،الضحی:7) (2) قَالُوۡا تَاللہِ اِنَّکَ لَفِیۡ ضَلٰلِکَ الْقَدِیۡمِ ﴿۹۵﴾ وہ فرزندان یعقوب بولے کہ خدا کی قسم تم تو اپنی پرانی خودر فتگی میں ہو۔(پ13،یوسف:95) (3) قَالَ فَعَلْتُہَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾ فرمایا موسیٰ نے کہ میں نے قبطی کو مارنے کا کام جب کیا تھا جب مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔(پ19،الشعرآء:20) یعنی نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے قبطی مرجائے گا ۔ان جیسی تمام آیتو ں میں ''ضلال'' کے معنی گمراہی نہیں ہوسکتے کیونکہ نبی ایک آن کے لئے گمراہ نہیں ہوتے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے : (1) مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی ۚ﴿۲﴾ تمہارے صاحب محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔(پ27،النجم:2) (2)لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۱﴾ حضر ت شعیب نے فرمایا کہ مجھ میں گمراہی نہیں لیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔(پ8،الاعراف:61) ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ آیت ۲ میں''لکن'' بتارہا ہے کہ نبوت اور گمراہی جمع نہیں ہوسکتی ۔ Edited 8 جون 2013 by Najam Mirani 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۵ مکر یا خداع کے معنی اور ان کی پہچان الف: ''مکر ''یا ''خداع'' کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتو اس کے معنے دھوکہ یا فریب نہ ہوں گے کیونکہ یہ عیب ہیں بلکہ اس کے معنی ہوں گے دھوکے کی سزا دینا یا خفیہ تدبیر کرنا ۔ ب:جب اس کی نسبت بندوں کی طر ف ہو تو مکر کے معنی دھوکہ ، مکاری ، دغا بازی اور خداع کے معنی فریب ہوں گے ۔ ان دونوں کی مثالیں یہ ہیں ۔ (1) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُم وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں او ررب انہیں سزادے گا (پ5،النسآء:142) یا رب ان پر خفیہ تدبیر فرمائے گا ۔ (2) یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ وَمَا یَخْدَعُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ منافقین دھوکہ دیا چاہتے ہیں اللہ کو اور مسلمانوں کو اور نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنی جانوں کو۔(پ1،البقرۃ:9) (3) وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ اور منافقوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ تمام تدبیر یں کرنے والوں میں بہتر ہے ۔(پ3،ال عمرٰن:54)ان تمام آیتوں میں جہاں مکر یا خدا ع کا فاعل کفار ہیں ۔ اس سے مراد دھوکا فریب ہے او رجہاں اس کا فاعل رب تعالیٰ ہے وہاں مراد یا تو مکر کی سز اہے یا خفیہ تدبیر۔ قاعدہ نمبر۶ تقویٰ کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''تقویٰ'' کی نسبت رب کی طر ف ہو تو اس سے مراد ڈرنا ہوگا۔ب:جب'' تقویٰ'' کی نسبت آگ یا کفر یا گناہ کی طرف ہو تو اس سے مراد بچنا ہوگا ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے (1) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ اے لوگو ! ڈرو اپنے اس رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔(پ4،النسآء:1) (2) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ او ربچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔(پ1،البقرۃ:24) پہلے''اِتَّقُوْا''کے معنی ڈرنا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور دوسرے''اِتَّقُوْا'' کے معنی بچنا ہے کیونکہ اس کے بعد آگ کا ذکر ہے ۔ Edited 8 جون 2013 by Najam Mirani 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۷مِنْ دُوْنِ اللہِ کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' عبادت کے ساتھ آوے تو اس کے معنی ہوں گے اللہ کے سوا ء ۔ ب: جب ''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' مدد ، نصرت ، ولایت ، دعا بمعنی پکارنا کے ساتھ آوے ۔تو اس کے معنی ہوں گے اللہ کے مقابل یعنی اللہ کے سوا ء وہ لوگ جو اللہ کے مقابل ہیں۔''الف''کی مثال یہ ہے : (1) اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ تم اور وہ چیزیں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو دوزخ کا ایندھن ہیں ۔(پ17،الانبیآء:98) (2) وَمَنۡ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ اور جو کوئی اللہ کے سو ا دوسرے معبود کو پوجے ۔(پ18،المؤمنون:117) (3) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸ بے شک مسجدیں اللہ کی ہیں تو تم خدا کے ساتھ کسی کو نہ پوجو ۔(پ29،الجن:18) ان جیسی تمام آیتوں میں ''مِنْ دُوْنِ اللہِ'' کے معنی اللہ کے سوا ہیں کیونکہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔'' ب''کی مثال یہ آیات ہیں (1) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷ اور تمہارا اللہ کے مقابل نہ کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۔(پ1،البقرۃ:107) (2) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا کیا ان کے پاس ایسے معبود ہیں جو ہمارے مقابل انہیں بچا لیں۔(پ17،الانبیآء:43) (3) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ میرے مقابل کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2) (4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ بلکہ بنالئے انہو ں نے اللہ کے مقابل حمایتی ۔(پ24،الزمر:43) ان جیسی تمام آیتوں میں'' مِنْ دُوْنِ اللہِ'' سے مراد اللہ کے مقابل ہوگا یعنی اللہ کے مقابل تمہارا کوئی مدد گار ، ناصر ، سفارشی ، وکیل نہیں جو رب سے مقابلہ کر کے تمہیں اس کے عذاب سے بچالے ۔ اگر ان آیات میں اس کے معنی اللہ کے سوا کئے گئے یعنی خدا کے سوا تمہارا کوئی مدد گار نہیں تو ان آیتوں سے تعا رض ہوگا جن میں بندوں کو مدد گار بتایا گیا ہے جیسا کہ پہلے با ب میں گزر چکا ۔ اس معنی کی تائید ان آیتو ں سے ہو رہی ہے (1) قُلْ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعْصِمُکُمۡ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوۡٓءًا وہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچالے اگر وہ تمہاری برائی چاہے ۔(پ21،الاحزاب:17) (2) وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ اور اگرتمہیں رب ر سوا کرے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:160) ان آیتو ں نے بتایا کہ کوئی بندہ رب کے خلاف ہو کر اس کے مقابل رب سے کسی کو نہ بچاسکے نہ کسی کی مدد کر سکے ہاں اس کے ارادے ، اس کے اذن سے بندے ولی بھی ہیں، شفیع بھی ہیں ، مدد گار بھی ہیں، وکیل بھی ہیں ۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۸ ولی کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''ولی'' ر ب کے مقابل آوے تواس سے مراد معبود یا مالک حقیقی ہے اور ایسا ولی اختیار کرنا شرک وکفر ہے۔ ب: جب ''ولی'' رب کے مقابل نہ ہو تو اس سے مراد دوست یا مدد گار، وغیرہ ہیں۔''الف'' کی مثال یہ ہے: (1) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ کیا کافروں نے سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کو میرے سوا معبود بنائیں ۔(پ16،الکھف:102) (2) مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَیۡتًا ان کی مثال جنہوں نے خدا کے سوا کوئی معبود بنالیا مکڑی کی طر ح ہے جس نے گھر بنایا۔(پ20،العنکبوت:41) (3) وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوْلِیَآءَ اور وہ جنہوں نے اللہ کے سوا کوئی معبود بنالئے۔(پ23،الزمر:3) ان جیسی آیتو ں میں ولی بمعنی معبو د ہے یا مالک حقیقی ۔''ب'' کی مثال یہ ہے: (1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵ تمہارا دو ست یا مدد گار اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اورزکوٰۃ دیتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں ۔(پ6،المآئدۃ:55 (2) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵ پس ہمارے لئے اپنی طرف سے ولی بنادے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے مدد گار مقرر فرمادے ۔(پ5،النسآء:75) ان جیسی آیا ت میں ''ولی'' سے مراد معبود نہیں ، بلکہ دوست یا مدد گار و غیرہ مراد ہیں کیونکہ یہاں رب کے مقابل ولی نہیں فرمایا گیاہے اس کی پوری تحقیق اصطلاحاتِ قرآنیہ میں''ولی'' کے بیان میں گزرچکی ہے۔ Edited 8 جون 2013 by Najam Mirani 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۹ دعا کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب ''دعا'' کے بعد دشمنِ خدا کا ذکر ہو یا دعاکا فاعل کافر ہو یا دعا پر رب تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہو یا دعا کرنے والو ں کو رب تعالیٰ نے کا فر، مشرک، گمراہ فرمایا ہو تو دعا سے مراد عبادت ،پوجنا وغیرہ ہوگا نہ کہ محض پکارنا یا بلانا ۔ ب: جب'' دعا'' کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو وہاں اس کے معنی پکارنا ، پوجنا، دعا مانگنا ہوگا حسب موقع معنی کئے جائیں گے ۔''الف'' کی مثال یہ ہے (1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَنۡ لَّا یَسْتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الْقِیٰمَۃِ اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو خدا کے سواایسوں کو پوجے جو اس کی قیامت تک نہ سنیں ۔(پ26،الاحقاف:5) (2) وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸ بے شک مسجد یں اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پوجو۔(پ29،الجن:18) (3) ہُوَ الْحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادْعُوۡہُ وہ ہی زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بس اسے پوجو ۔(پ24،المؤمن:65) ان جیسی تمام آیات میں ''دعا'' کے معنی پوجنا ہیں پکارنا یا بلانا نہیں۔معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے سوا کسی کونہ پوجو۔ یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نہ پکارویا نہ بلاؤ۔ ''ب'' کی مثال یہ آیات ہیں : (1) اُدْعُوۡا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً اپنے رب سے دعا مانگو عاجزی سے پوشیدہ ۔(پ8،الاعراف:55) (2) اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگتے ہیں ۔(پ2،البقرۃ:186) ان جیسی آیات میں دعاسے مراد دعا مانگنا بھی ہوسکتا ہے اور پوجنا بھی ، پکارنابھی، ایک ہی لفظ مختلف موقعوں پر مختلف معانی میں ہوتا ہے اگر بے موقع معنی کئے جاویں تو کبھی کفر لازم آجاتا ہے اس کی تحقیق اصطلاحاتِ قرآنیہ میں دعا کے بیان میں گزرچکی۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۰ شرک کے معنی اور ان کی پہچان الف: جب'' شرک'' کا مقابلہ ایمان سے ہوگا تو شرک سے مراد ہر کفر ہوگا ۔ ب: جب'' شرک'' کا مقابلہ اعمال سے ہوگا تو شرک سے مراد مشرکوں کاسا کام ہوگا نہ کہ کفر ۔''الف'' کی مثال یہ ہے : (1) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ مومن غلام مشرک یعنی کافر سے بہتر ہے ۔(پ2،البقرۃ:221) (2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا مشرک یعنی کسی کا فر سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔(پ2،البقرۃ:221) (3) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ بے شک اللہ مشرک کو نہ بخشے گا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48) ان تمام آیتو ں میں شرک سے مراد کفر ہے کیوں کہ مومنہ کا کسی کافر مرد سے نکاح جائز نہیں۔ کوئی کفر جس پر انسا ن مرجاوے بخشا نہ جاوے گا۔ مومن ہر کافر سے بہتر ہے ۔اگر یہاں شرک کے معنی صرف بت پرستی کیا جاوے تو غلط ہوگا ۔ '' ب'' کی مثال یہ ہے (1) وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۙ۳۱ نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو ۔(پ21،الروم:31) اس آیت میں او راس حدیث میں مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْکَفَرَ جس نے جان بوجھ کرنمازچھوڑدی وہ کافرہوگیا۔یہ ہی مرادہے کہ نمازنہ پڑھنامشرکوں، کافروں کاساکام ہے کیوں کہ نماز نہ پڑھنا گناہ تو ہے کفر یا شرک نہیں ۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۱۱ صلوٰۃ کے معنی اور ان کی پہچان الف:جب'' صلوٰۃ'' کے بعد'' علیٰ''آوے تو اس کے معنی رحمت یا دعاءِ رحمت ہوں گے یا نماز جنازہ ۔ ب:جب'' صلوٰۃ ''کے بعد''علیٰ''نہ آوے توصلوٰۃکے معنی نمازہوں گے۔'' الف'' کی مثال یہ ہے (1) ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ وہ اللہ ہے جو تم پر رحمت کرتا ہے او راس کے فرشتے دعا ءِ رحمت کر تے ہیں ۔(پ22،الاحزاب:43) (2) وَصَلِّ عَلَیۡہِمْ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ آپ ان کے لئے دعا کریں ۔ آپ کی دعا ان کے دل کا چین ہے ۔(پ11،التوبۃ:103) (3) وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ان منافقوں میں سے کسی پر نہ آپ نماز جنازہ پڑھیں نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ۔(پ10،التوبۃ:84) (4) اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر ۔(پ22،الاحزاب:56) ان جیسی تمام آیتوں میں صلوٰۃ سے مراد دعا یا رحمت یا نماز جنازہ ہی مرادہوگا کیونکہ کہ ان میں صلوٰۃ کے بعد'' علیٰ'' آرہا ہے ۔''ب''کی مثال یہ ہے : (1) وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ۔(پ1،البقرۃ:43) (2) اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوْقُوۡتًا ﴿۱۰۳ بے شک نمازمسلمانوں پر وقت کے مطابق واجب ہے ۔(پ5،النسآء:103) ان جیسی تمام آیتو ں میں صلوٰۃ سے مراد نماز ہے کیونکہ یہاں صلوٰۃ سے علیٰ کا تعلق نہیں دوسری آیت میں اگر چہ'' علیٰ''ہے مگر علیٰ کا تعلق کتاباً سے ہے ، نہ کہ صلوٰۃ سے لہٰذا یہاں بھی مراد نماز ہی ہے Edited 8 جون 2013 by Najam Mirani 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۲مُردو ں کا سننا اور ہیت کے معنی اور ان کی پہچان جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔ (1) صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸ یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔(پ1،البقرۃ:18) (2) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ تم ان مردو ں(کافروں)کو نہیں سنا سکتے اور نہ تم بہروں کو سناسکتے ہو۔(پ20،النمل:80) (3) وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:72) یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے۔ (1) اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَمَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمْ ؕ اِنۡ تُسْمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۸۱ بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔(پ20،النمل:80،81 اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔ (2) وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿٪۴۴ اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰمۤ السجدۃ:44) اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔ (3) اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰۤی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳ یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا ۔(پ26،محمد:23 (4) وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ ٭ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ ﴿٪۴۵ جورسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم نے اللہ کے سوااور معبود بنائے ہیں جن کی پوجا کی جاوے ۔(پ۲۵،الزخرف:۴۵ اس آیت نے بتایا کہ اللہ کے پیارے بندے وفات کے بعد سنتے بھی ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اگر گزشتہ وفات یا فتہ پیغمبر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کلام نہ سنتے یا جواب نہ دیتے تو ان سے پوچھنے کے کیا معنی تھے۔ مردو ں کے سننے کی اور آیات بھی ہیں جو پہلے باب میں دعا کے معنی میں بیان کی جاچکیں۔ ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے ورنہ التحیات میں حضور کو سلام او رقبر ستان میں مردوں کو سلام نہ کرایا جاتا کیونکہ نہ سننے والے کو سلام کرنا منع ہے ۔ اسی لئے سوتے ہوئے کو سلام نہیں کرسکتے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Abdul Nabi مراسلہ: 8 جون 2013 Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 (ترمیم شدہ) subhan Allah Edited 8 جون 2013 by Abdul Nabi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۱۳ ایمان اور تقویٰ کے معنی اور ان کی پہچان جب مومن کو ایمان کا حکم دیاجائے یانبی کو تقویٰ کا حکم ہو تو اس سے مراد ایمان اور تقویٰ پر قائم رہنا ہوگا کیونکہ وہاں ایمان وتقویٰ تو پہلے ہی موجو د ہے اور تحصیل حاصل محال ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے (1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا اے ایمان والو ! ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ5،النسآء:136) (2) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللہَ اے نبی اللہ سے ڈرو یعنی اللہ سے ڈرے جاؤ ۔(پ21،الاحزاب:1) (3) اٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ اے مومنو! اللہ ورسول پر ایمان لاؤ یعنی ایمان پر قائم رہو۔(پ27،الحدید:7) ان جیسی تمام آیات میں ایمان وتقویٰ پر استقامت مراد ہے تا کہ ترجمہ درست ہو ، نیز مسلمانوں کو احکام عمل کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو احکام اس لئے دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ عمل کرائیں۔ جیسے جہاز کے مسافر پار اترنے کے لئے جہاز میں سوار ہوتے ہیں اور کپتا ن پار اتارنے کے لئے وہاں بیٹھتا ہے اسی لئے مسافر کرایہ دے کر اور کپتا ن تنخواہ لے کر سوار ہوتے ہیں ۔ قاعدہ نمبر ۱۴ خلق کے معنی اور ان کی پہچان الف:جب'' خلق'' کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد پیدا کرنا ہوگی یعنی نیست کو ہست کرنا ۔ ب:جب ''خلق'' کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوگی بنانا ، گھڑنا۔'' الف'' کی مثال یہ آیات ہیں : (1) خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا اللہ نے پیدا کیا موت اورزندگی کوتا کہ تمہارا امتحان کرے کہ کون اچھے عمل والا ہے ۔(پ29،الملک:2) (2) وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾ (پ7،الانعام:101) اور پیدا کیا اللہ نے ہر چیز کو اور وہ ہر چیز کا جا ننے والا ہے۔ (3) خَلَقَکُمْ وَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ اللہ نے پیدا کیا تم کو اور تم سے پہلے والوں کو۔ (پ1،البقرۃ:21) ان جیسی تمام آیتوں میں ''خلق'' کے معنی پیدا کرنا ہے کیونکہ اس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے ۔''ب'' کی مثال یہ ہے ۔ (1) اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بنا تا ہوں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل۔(پ3،اٰل عمرٰن:49) (2) اِنَّمَا تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوۡنَ اِفْکًا تم خدا کے سوا بتو ں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑتے ہو ۔(پ20،العنکبوت:17) (3) فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴ پس بڑی بر کت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنا نے ولاہے۔(پ18،المؤمنون:14) قاعدہ نمبر ۱۵ حکم، گواہی، ملکیت وکالت کے معنی اور ان کی پہچان الف: حکم ، گواہی ، وکالت ، حساب لینا ، مالک ہونا ۔ ان چیز وں کو جہاں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے وہاں حقیقی ، دائمی ، مستقل مراد ہوگا مثلا کہا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے یا خدا کے سواء کسی کو وکیل نہ بناؤ تو مراد حقیقی دائمی مالک و مستقل وکیل ہے ۔ ب: جب ان چیز وں کو بندوں کی طرف نسبت کیا جاوے تو ان سے مراد عارضی ، عطائی ،مجازی ہوں گے ۔'' الف'' کی مثال یہ ہے : (1) اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ نہیں ہے حکم مگر اللہ تعالیٰ کا ۔(پ7،الانعام:57) (2) وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿۷۹ او راللہ ہی کافی گواہ ہے۔(پ5،النسآء:79) (3) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲ میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2) (4) وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیۡلًا ﴿۶۵ آپ کا رب کافی وکیل ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:65) (5) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیۡہِمْ وَکِیۡلًا ﴿۵۴ ہم نے آپ کو ان کافروں پر وکیل بناکر نہ بھیجا ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:54) (6) ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿۱۰۷ آپ ان کافروں پر وکیل نہیں ۔(پ7،الانعام:107) (7) وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیۡبًا ﴿۶ اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔(پ4،النسآء:6) (8) وَلِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرْضِ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں وہ چیزیں جو آسمانوں او رزمین میں ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:129) (9) فَاتَّخِذْہُ وَکِیۡلًا ﴿۹ پس اللہ تعالیٰ ہی کو وکیل بناؤ۔(پ29،المزمل:9) ان جیسی ساری آیتو ں میں حقیقی مالک ،حقیقی وکیل، حقیقی گواہ ، حقیقی حساب لینے والا مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی حاکم نہیں، کوئی حقیقی مالک ، حقیقی وکیل، حقیقی گواہ نہیں جیسے کہ سکندر نامے میں ہے ؎ پناہ بلندی و پستی توئیہمہ نیست اند، آنچہ ہستی توئی ''ب'' کی مثال ان آیا ت میں ہے : (1) وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا فَابْعَثُوۡا حَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہۡلِہَا اور اگر تم خاوند وبیوی کی مخالفت کا اندیشہ کرو تو ایک حکم پنچ خاوند والوں کی طر ف سے اور دوسرا حکم پنچ عورت والوں کی طر ف سے بھیجو۔(پ5،النسآء:35) (2) وَ اِذَا حَکَمْتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحْکُمُوۡا بِالْعَدْلِ اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت (فیصلہ) کرو تو انصاف سے کرو ۔(پ5،النسآء:58) (3) فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ پس آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ آپ کو اپنے اختلافا ت میں حاکم مان لیں ۔(پ۵،النسآء:۶۵ (4) وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کامقدمہ لے جاؤ۔(پ1،البقرۃ:188) (5) وَّ اَشْہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدْلٍ مِّنۡکُمْ اور اپنے میں سے دو پر ہیز گاروں کو گواہ بناؤ ۔(پ28،الطلاق:2) (6) کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا ﴿ؕ۱۴ آج تو اپنے پر خود ہی کافی حساب لینے والا ہے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:14) (7) وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیۡمَانُکُمْ اور حرام ہیں تم پر شوہر والی عورتیں سواء ان کے جن کے تم مالک ہو۔(پ5،النسآء:24) (8) وَاسْتَشْہِدُوۡا شَہِیۡدَیۡنِ مِنۡ رِّجَالِکُمْ اور اپنے مردو ں میں سے دوگواہ بنالو۔(پ3،البقرۃ:282) (9) شَہَادَۃُ بَیۡنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیۡنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنۡکُمْ تمہاری آپس کی گواہی جب تم میں سے کسی کو موت آوے وصیت کرتے وقت تو تم میں سے دو معتبر شخص ہیں۔(پ7،المآئدۃ:106) ان جیسی تما م آیتوں میں عارضی ، غیر مستقل ، عطائی ملکیت ،گواہی ، وکالت ، حکومت، حساب لینا ، بندوں کے لئے ثابت کیا گیا ہے یعنی اللہ کے بندے مجازی طور پر حاکم ہیں، وکیل ہیں،گواہ ہیں لہٰذا آیات میں تعارض نہیں ، جیسے سمیع ، بصیر ، حی وغیرہ اللہ کی صفتیں ہیں ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّہ، ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ اللہ تعالیٰ ہی سننے والا دیکھنے والا ہے (پ۱۵، بنیۤ اسراء یل:۱)او ر بندوں کی بھی صفتیں یہ ہیں ۔ فرماتا ہے: فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾ ہم نے انسان کو سننے والا ، دیکھنے والا بنادیا ، اللہ کا سننا، دیکھنا(پ۲۹،الدھر:۲) ۔دائمی، غیر محدود ، مستقل ،ذاتی ہے اور بندوں کا دیکھنا، سننا ، زندہ ہونا ۔ عارضی ، محدو د ، عطائی ، غیر مستقل ہے ۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کانام بھی ''علی'' ہے۔ وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (پ۳،البقرۃ:۲۵۵) اور حضرت علی مرتضی کانام علی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے''مولنا' 'اَنْتَ مَوْلٰنـَا (پ۳،البقرۃ:۲۸۶) اور عالموں کو مولانا صاحب کہا جاتا ہے مگر اللہ کا علی یامولیٰ ہونا اور طر ح کا ہے اور بندوں کا علی او ر مولیٰ ہونا کچھ اور قسم کا یہ فر ق ضروری ہے ۔ Edited 8 جون 2013 by Najam Mirani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۶ علم غیب کے مراتب اور ان کی پہچان الف:جہاں علم غیب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا جاوے یا اس کی بندوںسے نفی کی جاوے تو اس علم غیب سے ذاتی ، دائمی، جمیع علوم غیبیہ، قدیمی مراد ہوگا ۔ب:جہاں علم غیب بندوں کے لئے ثابت کیا جاوے یا کسی نبی کا قول قرآن میں نقل کیا جاوے کہ فلاں پیغمبر نے فرمایا کہ میں غیب جانتا ہوں وہاں مجازی، حادث ، عطائی علم غیب مراد ہوگا جیسا کہ قاعدہ نمبر ۱۵ میں دیگر صفات کے بارے میں بیان کردیا گیا ۔''الف'' کی مثال یہ ہے : (1) قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ تم فرمادو کہ آسمانوں اورزمین میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا۔(پ20،النمل:65) (2) عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیۡبِ لَا یَعْلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ اس رب کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا ۔(پ7،الانعام:59) (3) اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔(پ21،لقمٰن:34) (4) وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ؕ وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوۡتُ اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ۔(پ21،لقمٰن:34) (5) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت خیر جمع کرلیتا ۔(پ9،الاعراف:188) ان جیسی تمام آیات میں علم غیب ذاتی یا قدیمی یا مستقل مراد ہے اس کی نفی بندوں سے کی جارہی ہے ۔ ب کی مثال یہ آیات ہیں: (1) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ قرآن ان پر ہیز گار وں کا ہادی ہے جو غیب پر ایمان لائیں (پ1،البقرۃ:2،3) (ظاہر ہے کہ غیب پر ایمان جان کر ہی ہوگا ) (2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ اللہ غیب کا جاننے والا ہے پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پرکسی کو سوا پسندیدہ رسول کے۔(پ29،الجن:26،27) (3) وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳ اور سکھا دیا آپ کو وہ جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔(پ5،النسآء:113) (4) وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿۶۲ یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ جوآپ نہیں جانتے(پ8،الاعراف:62) (5) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ اور خبر دیتا ہوں میں تمہیں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو او رجو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49) (6) قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ یوسف علیہ السلام نے فرمایاجو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آئیگا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتا دوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے (پ13،یوسف:37)۔ (7) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴ اور وہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔(پ30،التکویر:24) ان جیسی تمام آیتو ں میں علم غیب عطائی، غیر مستقل ،حادث ، عارضی مراد ہے کیونکہ یہ علم غیب بندہ کی صفت ہے جب بندہ خود غیر مستقل اور حادث ہے تو اس کی تمام صفات بھی ایسی ہی ہوں گی۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۷ شفاعت کی قسمیں اور ان کی پہچان الف: جن آیتوں میں شفاعت کی نفی ہے وہا ں یا تو دھونس کی شفاعت مراد ہے یاکفار کے لئے شفاعت یا بتوں کی شفاعت مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے جبراً شفاعت کوئی نہیں کرسکتا یا کافروں کی شفاعت نہیں یا بت شفیع نہیں ۔ ب:جہاں قرآن شریف میں شفاعت کاثبوت ہے وہاں اللہ کے پیاروں کی مومنوں کے لئے محبت والی شفاعت بالا ذن مراد ہے یعنی اللہ کے پیارے بندے مومنو ں کو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے محبو بیت کی بنا پر بخشوائیں گے ۔''الف ''کی مثال یہ ہے : (1) یَوْمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ؕ وہ قیامت کادن جس میں نہ خرید وفروخت ہے نہ دوستی نہ شفاعت ۔(پ3،البقرۃ:254) (2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ہُمْ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۲۳ اور اس دن سے ڈرو کہ کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوگی اور نہ اس کو کچھ لے کر چھوڑدیں اور نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے اور نہ ان کی مدد ہو ۔(پ1،البقرۃ:123) (3) فَمَا تَنۡفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیۡنَ ﴿ؕ۴۸ پس نہ نفع دے گی ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ۔(پ29،المدثر:48) (4) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ کیا کافروں نے اللہ کے مقابل سفارشی بنارکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43) (5) مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸ اور ظالموں کانہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ۔(پ24،المؤمن:18) (6) وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنۡ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۸۶ شفاعت کا اختیار نہیں سواء ان کے جو حق کی گواہی دیں اورعلم رکھیں۔(پ25،الزخرف:86) (۷) مَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖمِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ اللہ سے الگ ہو کر نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ سفارشی ۔(پ۲۱،السجدۃ:۴) ان جیسی تمام آیتو ں میں کفارکی شفاعت،بتوں کی شفاعت،جبری شفاعت کا انکار ہے ۔ ان آیتو ں کو نبیوں ،ولیوں یامومنوں کی شفاعت سے کوئی تعلق نہیں۔ ب کی مثال یہ ہے : (1) وَصَلِّ عَلَیۡہِمْ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ اور آپ انہیں دعا دیں بے شک آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔(پ11،التوبۃ:103) (2) مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشْفَعُ عِنْدَہٗۤ اِلَّا بِاِذْنِہٖ وہ کون ہے جو رب کے نزدیک اس کی بے اجازت شفاعت کرے ۔(پ3،البقرۃ:255) (3) لَا یَمْلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحْمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷ یہ لوگ شفاعت کے مالک نہیں سواء ان کے جنہوں نے رب کے نزدیک عہدلے لیا ہے ۔(پ16،مریم:87) (4) وَلَا یَشْفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی یہ حضرات نہ شفاعت کریں گے مگر اس کی جس سے رب راضی ہو ا(مومن کی)۔(پ17،الانبیآء:28) (5) لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا ﴿۱۰۹ شفاعت نفع نہ دے گی مگر ان کو جس کے لئے رب نے اجازت دی اور اس کے کلام سے رب راضی ہوا ۔(پ16،طٰہٰ:109) ان جیسی بہت سی آیتو ں میں مسلمانوں کی شفاعت مراد ہے جو اللہ کے پیارے بندے کریں گے تا کہ آیات میں تعارض نہ ہو۔ نوٹ ضروری : جس حدیث میں ارشاد ہے کہ سنت چھوڑنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ اس سے بلندی درجات کی شفاعت مراد ہے یعنی اس کے درجے بلند نہ کرائے جائیں گے کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ گناہ کبیرہ والوں کے لئے شفاعت ہے یعنی بخشش کی شفاعت ، نیز بعض روایات میں ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے والے اپنے جانور اور مال کندھے پر لادے ہوئے حاضر بارگاہ نبوی ہوں گے اور شفاعت کی درخواست کریں گے مگر انہیں شفاعت سے منع کردیا جاوے گا ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جوزکوٰۃ کے منکر ہو کر کافر ہوگئے تھے اور کافر کی شفاعت نہیں جیسے خلافت صدیقی میں بعض لوگ زکوٰۃ کے منکر ہوگئے یا مراد ہے شفاعت نہ کرنا نہ کہ نہ کرسکنا ، اس کا بہت خیال چاہیے یہاں بہت دھوکا لگتا ہے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۸ غیر خدا کو پکارنے کی قسمیں اور ان کی پہچان الف :جب غیر خدا کو پکارنے سے منع فرمایا جاوے ، یا پکارنے والوں کی برائی بیان ہوتواس پکارنے سے مراد معبود سمجھ کر پکارنا ہے یعنی پوجنا ۔ ب:جہاں غیر خدا کو پکارنے کا حکم ہے یا اس پکارنے پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو تو اس سے مراد بلانایا پکارنا ہی ہوگا۔'' الف'' کی مثال یہ ہے : (1) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کے سوا پوجے ۔(پ26،الاحقاف:5) (2) فَلَا تَدْعُوۡا مَعَ اللہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸ اور اللہ کے ساتھ کسی کونہ پوجو۔(پ29،الجن:18) ان جیسی صدہا آیتوں میں دعا کے معنی پوجنا ہے یعنی معبود سمجھ کر پکارنا نہ کہ محض پکارنا ۔''ب'' کی مثال ان آیات میں ہے : (1) وَ ادْعُوۡا مَنِ اسْتَطَعْتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اللہ کے سوا جس کو طاقت رکھتے ہو بلا لو۔(پ11،یونس:38) (2) اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ پکارو انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے ۔(پ21،الاحزاب:5) ان جیسی صدہا آیات میں دعا کے معنی پکارنا یا بلانا ہے ۔ اس کی پوری تحقیق اصطلاحاتِ قرآنیہ میں دعا کی بحث میں گذرچکی ، وہاں مطالعہ کرو ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 8 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 8 جون 2013 قاعدہ نمبر ۱۹ بندے کو ولی بنانے کی قسمیں اور ان کی پہچان الف:جب غیر خدا کو ولی بنانے سے منع کیا جائے یا ولی ماننے والوں پر ناراضگی اورعتاب ہو یا ایسے کو مشرک کافر کہا جائے تو ولی سے مراد معبود یا رب کے مقابل مدد گار ہوگا یا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ قیامت میں کا فروں کا مدد گار کوئی نہیں۔ ب:جب غیرخدا کو ولی بنانے کا حکم دیا جاوے یاا س پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو تو ولی سے مراد دوست ، مدد گار باذن اللہ یا قریب ہوگا ۔''الف'' کی مثال یہ ہے : (1) وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۸ اور ظالموں کیلئے نہ کوئی دوست ہے نہ مدد گار ۔(پ25،الشورٰی:8) (2) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷ اللہ کے مقابل تمہارا نہ کوئی دوست ہے او رنہ مدد گار۔(پ1،البقرۃ:107)ان جیسی صدہاآیتوں میں اللہ کے مقابل مدد گار مراد ہے ، ایسا مدد گار ماننا کفر ہے ۔''ب'' کی مثال ان آیات میں ہے : (1) اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵ تمہارا مدد گار اللہ اور اس کا رسول اوروہ مسلمان ہیں جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔(پ6،المآئدۃ:55) (2) وَاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّاجْعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵ ہمارے لئے اپنی طرف سے دوست بنا اورہمارے لئے اپنی طرف سے مدد گار بنادے ۔(پ7،النسآء:75) ان جیسی بے شمار آیتو ں میں اللہ کے اذن سے مدد گار مراد ہیں ۔ اس کی پوری تفصیل اصطلاحاتِ قرآنیہ میں ولی کی بحث میں گذرچکی ۔ وہا ں مطالعہ کرو ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 15 جون 2013 Author Report Share مراسلہ: 15 جون 2013 قاعدہ نمبر ۲۰ وسیلہ کی قسمیں اور ان کی پہچان الف: جہاں وسیلہ کاانکار ہے وہاں بتو ں کا وسیلہ یا کفار کے لئے وسیلہ مراد ہے ۔ یا وہ وسیلہ مراد ہے جس کی پوجا پاٹ کی جاوے ۔ ب:جہاں وسیلہ کا ثبوت ہے ، وہاں رب کے پیاروں کا وسیلہ یا مومنوں کے لیے وسیلہ مراد ہے تا کہ آیتوں میں تعارض واقع نہ ہو۔'' الف'' کی مثال یہ ہے مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی نہیں پوجتے ہیں ہم ان بتوں کو مگر اس لئے تا کہ وہ ہمیں خدا سے قریب کردیں۔(پ23،الزمر:3) اس سے معلوم ہو اکہ مشرکین عرب اپنے بتو ں کو جو اللہ کے دشمن ہیں خدا رسی کا وسیلہ سمجھ کر پوجتے تھے یعنی ان کے شرک کی وجہ دو ہوئیں ۔ ایک دشمنان خدا کو اس تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھنا ، دوسرے انہیں پوجنا ، صرف وسیلہ اختیار کرنے کی وجہ سے مشرک نہ ہوئے ۔ ''ب'' کی مثال یہ ہے (1) وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ اس رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔(پ6،المآئدۃ:35) (2) وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴ اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپکے حضور آجاویں پھر خدا سے معافی مانگیں اور ر سول بھی ان کے لئے دعا مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاویں ۔(پ5،النسآء:64 (3) وَیُزَکِّیۡہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ اور وہ رسول انہیں پاک کرتے ہیں اورانہیں کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں۔(پ4،اٰل عمرٰن:164) (4) قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ فرماؤ کہ تمہیں موت دے گا وہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔(پ21،السجدۃ:11) ان جیسی تما م آیتو ں میں وسیلہ کا ثبوت ہے مگر وہی وسیلہ مراد ہے جو اللہ کے اذن اور اجازت سے اس کا پیارا بندہ رب تک پہنچا ئے ۔ نوٹ ضروری: وسیلہ اسلام میں بڑی اہم چیز ہے کیونکہ سارے اعمال موت پر ختم ہوجاتے ہیں مگر وسیلہ پکڑنا موت ، قبر ، حشر ہرجگہ ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام پر موت ہو ، قبر میں ان کے نام پر کامیابی ہو، حشر میں ان کے طفیل نجات ہو ، نیز اور اعمال کی ضرورت صرف انسانوں کو ہے مگر وسیلہ کی ضرورت ہر مخلوق کو۔ دیکھو کعبہ معظمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلہ کے بغیر قبلہ نہ بنا اور حضور کے ہاتھوں کے بغیر بتوں کی گندگی سے پاک نہ ہوسکا۔ وسیلہ کا انکار اسلام کے بڑے اہم مسئلہ کا انکار ہے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Najam Mirani مراسلہ: 7 جولائی 2013 Author Report Share مراسلہ: 7 جولائی 2013 (ترمیم شدہ) قاعدہ نمبر ۲۱ کسی کے اعمال دوسرے کے کام آنے نہ آنے کا قاعدہ الف:جن آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کوصرف اپنے عمل ہی کام آویں گے یا فرمایا گیا ہے کہ نہیں ہے انسان کے لئے مگر وہ جو خود کرے ، اس سے مراد بدنی فرض عبادتیں ہیں یا یہ مطلب ہے کہ قابل اعتماد اپنے اعمال ہیں کسی کے بھیجنے کا یقین نہیں ۔ ب:جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ دوسروں کی نیکی اپنے کام آتی ہے۔ اس سے مراد اعمال کا ثواب ہے یا مصیبت دور ہونا یا درجے بلند ہونا ۔ ''الف''کی مثال یہ ہے۔ وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلْاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴿ۙ۳۹ نہیں ہے انسا ن کیلئے مگر وہ جو کوشش کرے ۔(پ27،النجم:39 لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیۡہَا مَا اکْتَسَبَتْ اس نفس کیلئے مفید ہیں وہ عمل جو خود کرے اور اس کو مضر ہیں وہ گناہ جو خود کرے ۔(پ3،البقرۃ:286 ان دنوں آیتوں کا منشایہ ہے کہ کوئی کسی کی طر ف سے فرض نماز نہیں پڑھ سکتا، فرضی روزہ نہیں رکھ سکتا ، ان آیتوں میں اسی لئے سعی او رکسب کا ذکر ہے یا منشاء یہ ہے کہ اپنی ملکیت انہی عملوں پر ہے جو خود کرلئے جاویں کیا خبر کوئی دوسرا ثواب بھیجے یا نہ بھیجے ۔ اس کے بھروساپر خود غافل رہنا بیوقوفی ہے ۔ ''ب'' کی مثال یہ ہے : وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنۡزَہُمَا حضرت خضرنے فرمایاکہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے او ران کا باپ نیک تھاپس تمہارے رب نے چاہاکہ یہ بالغ ہوں تو اپنا خزانہ نکالیں۔(پ16،الکھف:82 وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰہُمۡ مِّنْ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اور جو ایمان لا ئے اوران کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ۔(پ27،الطور:21 پہلی آیت سے معلوم ہو اکہ جس گرتی ہوئی دیوار کی مرمت حضرت خضر و موسیٰ علیہما السلام نے کی ۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کے نیچے خزانہ تھا جو ایک نیک آدمی کاتھا ۔ اس کے دو چھوٹے بچے تھے ، رب تعالیٰ نے چاہا کہ دیوار کھڑی رہے اور خزانہ محفوظ رہے تا کہ بچے جوان ہو کر نکال لیں ۔ اس لئے دو پیغمبر وں کو اس کی مرمت کے لئے بھیجا ، ان نابالغ یتیموں پر یہ مہربانی ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری آیت سے معلوم ہو اکہ نیکوں کی مومن اولاد جنت میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہے گی اگرچہ اولا د کے اعمال باپ سے کم درجہ کے ہوں ۔ ایسے ہی نابالغ بچے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندان حضرت طیب وطاہر وقاسم وابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنت میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے حالانکہ کوئی نیکی نہ کی۔ معلوم ہوا کہ کسی کی نیکی دوسرے کے کام آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ایصال ثواب ، فاتحہ وغیرہ کرتے ہیں بلکہ حج بدل بھی دوسرے کی طر ف سے کرسکتے ہیں۔اور زکوۃ میں دوسرے کے نائب بن سکتے ہیں۔ قاعدہ نمبر ۲۲ کسی کا بوجھ اٹھانے کی صورتیں اور ان کی پہچان الف: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں کوئی کسی کا بو جھ نہیں اٹھائے گا اس کامطلب ہے کہ بخوشی نہ اٹھائے گا یا اس طر ح نہ اٹھائے گا جس سے مجرم آزاد ہوجائے گا ۔ ب: جن آیتو ں میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں بعض لوگ بعض کابوجھ اٹھائیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً اٹھائیں گے یا یہ بھی اٹھائیں گے اور مجرم بھی یہ تو اٹھائیں گے گناہ کرانے کی وجہ سے اور مجرم بوجھ اٹھائے گا گناہ کرنے کی وجہ سے ۔ ''الف''کی مثال یہ آیت ہے وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی اور نہ کمائے گا کوئی نفس مگر اپنے ذمہ پر اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی ۔(پ8،الانعام:164 اِنْ اَحْسَنۡتُمْ اَحْسَنۡتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ ۟ وَ اِنْ اَسَاۡتُمْ فَلَہَا اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے لئے بھلائی کرو گے اور اگر بر اکروگے تو اپنا ۔(پ15، بنیۤ ا سرآء یل:7) مَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفْسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے ہی برے کوبہکا۔(پ15، بنیۤ اسرآء یل:15 (4) وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَمَا ہُمۡ بِحَامِلِیۡنَ مِنْ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲ او رکافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے بے شک وہ جھوٹے ہیں۔(پ20،العنکبوت:12 لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمۡ مَّا کَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴ اس جماعت کے لئے وہ ہے جو وہ خود کماگئی تمہارے لئے تمہاری کمائی ہے اور تم ان کے اعمال سے نہ پوچھے جاؤگے ۔(پ1،البقرۃ:134 ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ کسی کی پکڑ دوسرے کی وجہ سے نہ ہوگی اورکوئی کسی کا نہ گناہ اٹھائے نہ نیکی سے فائدہ پائے بلکہ اپنی کرنی اپنی بھرنی ہے ۔ '' ب'' کی مثال یہ ہے وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ ۫ وَ لَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفْتَرُوۡنَ ﴿٪۱۳ اوربے شک ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اور ضرور قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جو کچھ بہتان اٹھاتے تھے۔(پ9،الانفال:25 یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَ اَہۡلِیۡکُمْ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ ۔ اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(پ28،التحریم:6 وَاتَّقُوۡا فِتْنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمْ خَآصَّۃً ۚ وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ شَدِیۡدُ الْعِقَابِ ﴿۲۵ اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں سے خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا ، اور جان لو کہ اللہ کاعذاب سخت ہے ۔ وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ تم قرآن کے پہلے کافر نہ بنو۔(پ1،البقرۃ:41 ان آیات سے معلوم ہو اکہ قیامت میں بعض گنہگار دوسرے مجرموں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے اوریہ بھی پتا لگا کہ بعض کے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں بھی دوسروں پر مصیبت آجاتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنی نجات کے لئے اپنے گھر والوں کو ہدایت دینا ضروری ہے۔ مطابقت اسی طر ح ہوگی جو ہم نے عرض کردیا کہ بخوشی کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور کوئی دوسرے کا بوجھ اس طر ح نہ اٹھائے گا کہ اصلی مجرم بالکل آزاد ہوجائے ہاں گمراہ کرانے والا بری باتوں کا موجد سارے مجرموں کا بوجھ اٹھائے گا یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے ۔ Edited 7 جولائی 2013 by Najam Mirani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔