Najam Mirani مراسلہ: 31 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 31 مئی 2013 (ترمیم شدہ) حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا ” علم غیب ” بھی ہے ۔اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ علم غیب ذاتی تو خدا کے سوا کسی اور کو نہیں مگر اﷲ اپنے برگزیدہ بندوں یعنی اپنے نبیوں اور رسولوں وغیرہ کو علم غیب عطا فرماتا ہے۔ یہ علم غیب عطائی کہلاتا ہے قرآن مجید میں ہے کہ عٰلِمُ الْغَيْْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰی غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (سورہ جن ، آیت 26، پارہ 29) (اﷲ) عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ وَمَاکَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَيْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ص( سورہ آل عمران، آیت 179، پارہ 4 اﷲ کی شان نہیں کہ اے عام لوگوں! تمہیں غیب کا علم دے دے۔ ہاں اﷲ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بے شمار غیوب کا علم عطا فرمایا ۔اور آپ نے ہزاروں غیب کی خبریں اپنی امت کو دیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ تو قرآن مجید میں ہے باقی ہزاروں غیب کی خبروں کا ذکر احادیث کی کتابوں اور سیر و تواریخ کے دفتروں میں مذکور ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ تِلْکَ مِنْ اَنۡۢبَآءِ الْغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ (سورہ هود، آیت 49، پارہ 12 یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ ہم یہاں ان بے شمار غیب کی خبروں میں سے مثال کے طور پر چند کا ذکر تحریر کرتے ہیں۔ پہلے ان چند غیب کی خبروں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ غالب مغلوب ہوگا:۔ ء614 ء میں روم اور فارس کے دونوں بادشاہوں میں ایک جنگ ِعظیم شروع ہوئی چھبیس ہزار یہودیوں نے بادشاہ فارس کے لشکر میں شامل ہوکر ساٹھ ہزار عیسائیوں کا قتل عام کیا یہاں تک کہ ۶۱۶ ء میں بادشاہ فارس کی فتح ہوگئی اور بادشاہ روم کا لشکر بالکل ہی مغلوب ہوگیا اور رومی سلطنت کے پرزے پرزے اڑگئے۔ بادشاہ روم اہل کتاب اور مذہباً عیسائی تھا اور بادشاہ فارس مجوسی مذہب کا پابند اور آتش پرست تھا۔ اس لیے بادشاہ روم کی شکست سے مسلمانوں کو رنج و غم ہوا اور کفار کو انتہائی شادمانی و مسرت ہوئی۔ چنانچہ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا اور کہنے لگے کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور اہل فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر فتح یاب ہو کر غالب آ گئے اسی طرح ہم بھی ایک دن تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ کفار کے ان طعنوں سے مسلمانوں کو اور زیادہ رنج و صدمہ ہوا۔ اس وقت رومیوں کی یہ افسوسناک حالت تھی کہ وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتوں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ شہنشاہ روم بالکل نالائق تھا۔ ان حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بادشاہ روم بادشاہ فارس پر غالب ہو سکتا تھا مگر ایسے وقت میں نبی صادق نے قرآن کی زبان سے کفار مکہ کو یہ پیش گوئی سنائی کہ الممّ ٓغُلِبَتِ الرُّوْمُ فِيْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ط( سورہ الروم ،آیت 2 ، پارہ 21) رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میں اور وہ اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برسوںمیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صرف نو سال کے بعد خاص “صلح حدیبیہ” کے دن بادشاہ روم کا لشکر اہل فارس پر غالب آ گیا اور مخبر صادق کی یہ خبر غیب عالم وجود میں آگئی۔ ہجرت کے بعد قریش کی تباہی:۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس بے سر و سامانی کے ساتھ ہجرت فرمائی تھی اور صحابہ کرام جس کسمپر سی اور بے کسی کے عالم میں کچھ حبشہ، کچھ مدینہ چلے گئے تھے۔ ان حالات کے پیش نظر بھلا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ یہ بے سرو سامان اور غریب الدیار مسلمانوں کا قافلہ ایک دن مدینہ سے اتنا طاقتور ہو کر نکلے گا کہ وہ کفار قریش کی ناقابل تسخیر عسکری طاقت کو تہس نہس کر ڈالے گا جس سے کافروں کی عظمت و شوکت کا چراغ گل ہو جائے گا اور مسلمانوں کی جان کے دشمن مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہلاک و برباد ہو جائیں گے۔ لیکن خداوند علام الغیوب کا محبوب دانائے غیوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہجرت سے ایک سال پہلے ہی قرآن پڑھ پڑھ کر اس خبر غیب کا اعلان کر رہا تھا کہ وَاِنْ کَادُوْالَيَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْکَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰـفَکَ اِلَّا قَلِيْلًا(بنی اسرائيل) اگر وہ تم کو سر زمین مکہ سے گھبرا چکے تا کہ تم کو اس سے نکال دیں تو وہ اہل مکہ تمہارے بعد بہت ہی کم مدت تک باقی رہیں گے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ہی سال کے بعد غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین نے کفار قریش کے سرداروں کا خاتمہ کر دیا اور کفار مکہ کی لشکری طاقت کی جڑ کٹ گئی اور ان کی شان و شوکت کا جنازہ نکل گیا۔ مسلمان ایک دن شہنشاہ ہوں گے:۔ ہجرت کے بعد کفارِ قریش جوشِ انتقام میں آپے سے باہر ہوگئے اور بدر کی شکست کے بعد تو جذبہ انتقام نے ان کو پاگل بنا ڈالا تھا۔ تمام قبائل عرب کو ان لوگوں نے جوش دلا دلا کر مسلمانوں پر یلغار کر دینے کے لئے تیارکردیا تھا۔ چنانچہ مسلسل آٹھ برس تک خونریز لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں مسلمانوں کو تنگ دستی، فاقہ مستی، قتل و خونریزی، قسم قسم کی حوصلہ شکن مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کو ایک لمحہ کے لیے سکون میسر نہیں تھا۔ مسلمان خوف و ہراس کے عالم میں راتوں کو جاگ جاگ کر وقت گزارتے تھے اور رات رات بھر رحمت عالم کے کاشانہ نبوت کا پہرہ دیا کرتے تھے لیکن عین اس پریشانی اور بے سرو سامانی کے ماحول میں دونوں جہان کے سلطان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کا یہ اعلان نشر فرمایا کہ مسلمانوں کو ” خلافت ارض ” یعنی دین و دنیا کی شہنشا ہی کا تاج پہنایا جائے گا۔ چنانچہ غیب داں رسول نے اپنے دلکش اور شیریں لہجہ میں قرآن کی ان روح پرور اور ایمان افروز آیتوں کو علی الاعلان تلاوت فرمانا شروع کر دیا کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ص وَلَيُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ط(سورہ نور) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین کا خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان کے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور جو دین ان کے لیے پسند کیا ہے اس کو مستحکم کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ مسلمان جن نامساعد حالات اور پریشان کن ماحول کی کشمکش میں مبتلا تھے ان حالات میں خلافت ِارض اور دین و دنیا کی شہنشاہی کی یہ عظیم بشارت انتہائی حیرت ناک خبر تھی بھلا کون تھا جو یہ سوچ سکتا تھا کہ مسلمانوں کا ایک مظلوم و بے کس گروہ جس کو کفار مکہ نے طرح طرح کی اذیتیں دے کر کچل ڈالا تھا اور اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آ کر چند نیک بندوں کے زیر سایہ پناہ لی تھی اور اس کو یہاں آ کر بھی سکون و اطمینان کی نیند نصیب نہیں ہوئی تھی بھلا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس گروہ کو ایسی شہنشاہی مل جائے گی کہ خدا کے آسمان کے نیچے اور خدا کی زمین پر خدا کے سوا ان کو کسی اور کا ڈر نہ ہوگا۔ بلکہ ساری دنیا ان کے جاہ و جلال سے ڈر کر لرزہ بر اندام رہے گی مگر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ بشارت پوری ہوئی اور ان مسلمانوں نے شہنشاہ بن کر دنیا پر اس طرح کامیاب حکومت کی کہ اس کے سامنے دنیا کی تمام متمدن حکومتو ں کا شیرازہ بکھر گیا اور تمام سلاطین عالم کی سلطانی کے پرچم عظمت اسلام کی شہنشاہی کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ کیا اب بھی کسی کو اس پیشین گوئی کی صداقت میں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی شک و شبہ ہو سکتا ہے۔ فتح مکہ کی پیشگوئی:۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے اس طرح ہجرت فرمائی تھی کہ رات کی تاریکی میں اپنے یارِغار کے ساتھ نکل کر غار ثور میں رونق افروز رہے۔ آپ کی جان کے دشمنوں نے آپ کی تلاش میں سرزمین مکہ کے چپے چپے کو چھان مارا اور آپ ان دشمنوں کی نگاہوں سے چھپتے اور بچتے ہوئے غیر معروف راستوں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ ان حالات میں بھلا کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ آ سکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں چھپ کر روتے ہوئے اپنے پیارے وطن مکہ کو خیرباد کہنے والا رسولِ برحق ایک دن فاتح مکہ بن کر فاتحانہ جاہ و جلال کے ساتھ شہر مکہ میں اپنی فتح مبین کا پرچم لہرائے گا اور اس کے دشمنوں کی قاہر فوج اس کے سامنے قیدی بن کر دست بستہ سر جھکائے لرزہ براندم کھڑی ہوگی۔ مگر نبی غیب داں نے قرآن کی زبان سے اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًا(سوره نصر) جب اﷲ کی مدد اور فتح (مکہ) آجائے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اﷲ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے اُس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی کہ ۸ ھ میں مکہ فتح ہوگیا اور آپ فاتح مکہ ہونے کی حیثیت سے افواجِ الٰہی کے جاہ و جلال کے ساتھ مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہوئے اور کعبہ معظمہ میں داخل ہو کر آپ نے دوگانہ ادا فرمایا اور اہل عرب فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ حالانکہ اس سے قبل اِکاد ُکا لوگ اسلام قبول کرتے تھے۔ جنگ ِبدر میں فتح کا اعلان:۔ جنگ بدر میں جب کہ کل تین سو تیرہ مسلمان تھے جو بالکل ہی نہتے، کمزور اور بے سر و سامان تھے بھلا کسی کے خیال میں بھی آ سکتا تھا کہ ان کے مقابلہ میں ایک ہزار کا لشکر جرار جس کے پاس ہتھیار اور عسکری طاقت کے تمام سامان و اوزار موجود تھے شکست کھا کر بھاگ جائے گا اور ستر مقتول اور ستر گرفتار ہو جائیں گے مگر جنگ بدر سے برسوں پہلے مکہ مکرمہ میں آیتیں نازل ہوئیں اور رسول برحق نے اقوام عالم کو کئی برس پہلے جنگ بدر میں اس طرح اسلامی فتح مبین کی بشارت سنائی کہ اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرِ کیا وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم سب متحد اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ لشکر عنقریب شکست کھا جائیگا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ وَلَوْ قَاتَلَکُمُْ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَايَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا( فتح) اور اگر کفار تم (مسلمانوں) سے لڑیں گے تو یقینا وہ پیٹھ پھیرکر بھاگ جائیں گے پھر وہ کوئی حامی و مدد گار نہ پائیں گے۔ یہودی مغلوب ہوں گے:۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف کے یہودی قبائل بہت ہی مالدار، انتہائی جنگجو اور بہت بڑے جنگ باز تھے اور ان کو اپنی لشکری طاقت پر بڑا گھمنڈ اور ناز تھا۔ جنگ ِبدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کا حال سن کر ان یہودیوں نے مسلمانوں کو یہ طعنہ دیا کہ قبائل قریش فنون جنگ سے ناواقف اور بے ڈھنگے تھے اس لیے وہ جنگ ہار گئے اگر مسلمانوں کو ہم جنگ بازوں اور بہادروں سے پالا پڑا تو مسلمانوں کو ان کی چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اور واقعی صورتحال ایسی ہی تھی کہ سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا کہ مٹھی بھر کمزور اور بے سروسامان مسلمانوں سے قبائل یہود کا یہ مسلح و منظم لشکرکبھی شکست کھا جائے گا۔ مگر اس حال و ماحول میں غیب داں رسول نے قرآن کی زبان سے اس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا کہ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ لَنْ يَّضُرُّوْکُمْْ اِلَّا ٓ اَذًی ط وَاِنْ يُّقَاتِلُوْکُمْ يُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَ قف ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ(آل عمران) اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے یہ بہترہوتا ان میں کچھ ایماندار اور اکثر فاسق ہیں اور وہ تم (مسلمانوں) کو بجز تھوڑی تکلیف دینے کے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اگر وہ تم سے لڑیں گے تو یقینا پشت پھیر دیں گے پھر ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہود کے قبائل میں سے بنو قريظهقتل کر دیئے گئے اور بنو نضیر جلا وطن کر دیئے گئے اور خیبر کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور باقی یہود ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ عہد نبوی کے بعد کی لڑائیاں:۔ قرآن مجید کی پیشگوئیاں اور غیب کی خبریں صرف انہیں جنگوں کے ساتھ مخصوص و محدود نہیں تھیں جو عہد نبوی میں ہوئیں بلکہ اس کے بعد خلفاء کے دور خلافت میں عرب و عجم میں جو عظیم و خوں ریز لڑائیاں ہوئیں ان کے متعلق بھی قرآن مجید نے پہلے سے پیشگوئی کر دی تھی جو حرف بحرف پوری ہوئی۔ مسلمانوں کو رُوم و ایران کی زبردست حکومتوں سے جو لڑائیاں لڑنی پڑیں وہ تاریخ اسلام کے بہت ہی زریں اوراق اور نمایاں واقعات ہیں مگر قرآن مجید نے برسوں پہلے ان جنگوں کے نتائج کا اعلان ان لفظوں میں کر دیا تھا: قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰي قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ج( فتح) جہاد میں پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم کو ایک سخت جنگجو قوم سے جنگ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تم لوگ ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔ اس پیش گوئی کا ظہور اس طرح ہوا کہ روم و ایران کی جنگجو اقوام سے مسلمانوں کو جنگ کرنی پڑی جس میں بعض جگہ خونریز معر کے ہوئے اور بعض جگہ کے کفار نے اسلام قبول کر لیا۔ الغرض اس قسم کی بہت سی غیب کی خبریں قرآن مجید میں مذکور ہیں جن کو غیب داں رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے واقعات کے واقع ہونے سے بہت پہلے اقوام ِعالم کے سامنے بیان فرما دیا اور یہ تمام غیب کی خبریں آفتاب کی طرح ظاہر ہو کر اہل عالم کے سامنے زبان حال سے اعلان کر رہی ہیں اور قیامت تک اعلان کرتی رہیں گی کہ رفعت شانِ رفعنا لک ذِکرک دیکھے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے احادیث میں غیب کی خبریں اسلامی فتوحات کی پیشگوئیاں ابتداء اسلام میں مسلمان جن آلام و مصائب میں گرفتار اور جس بے سرو سامانی کے عالم میں تھے اس وقت کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند نہتے، فاقہ کش اور بے سرو سامان مسلمان قیصر و کسریٰ کی جابر حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے۔ لیکن غیب جاننے والے پیغمبر صادق نے اس حالت میں پورے عزم و یقین کے ساتھ اپنی امت کو یہ بشارتیں دیں کہ اے مسلمانوں! تم عنقریب قسطنطنیہ کو فتح کرو گے اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے دست تصرف میں ہوں گی۔ مصر پر تمہاری حکومت کا پرچم لہرائے گا۔ تم سے ترکوں کی جنگ ہوگی جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور چہرے چوڑے چوڑے ہوں گے اور ان جنگوں میں تم کو فتح مبین حاصل ہوگی۔(بخاری جلد۱ ص ۵۰۴ تاص ۵۱۳باب علامات النبوۃ) تاریخ گواہ ہے کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دی ہوئی یہ سب غیب کی خبریں عالم ظہور میں آئیں۔ قیصر و کسریٰ کی بربادی:۔ عین اس وقت جب کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے پرچم انتہائی جاہ و جلال کے ساتھ دنیا پر لہرا رہے تھے اور بظاہر ان کی بربادی کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا تھا مگر غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ غیب کی خبر سنائی کہ اِذَا هَلَکَ کِسْرٰي فَلاَ کِسْرٰي بَعْدَهٗ وَاِذَا هَلَکَ قَيْصَرُ فَلاَ قَيْصَرَ بَعْدَهٗ وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَتُنْفَقَنَّ کُنُوْزُهُمَا فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ۔ (بخاری جلد۱ ص ۵۱۱ باب علامات النبوۃ) جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے ضرور ان دونوں کے خزانے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں (مسلمانوں کے ہاتھ سے) خرچ کیے جائیں گے۔ دنیا کا ہر مؤرخ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں کسریٰ اور قیصر کی تباہی کے بعد نہ پھر کسی نے سلطنت فارس کا تاج خسروی دیکھا نہ رومی سلطنت کا روئے زمین پر کہیں وجود نظر آیا۔ کیوں نہ ہو کہ یہ غیب داں نبی صادق کی وہ غیب کی خبریں ہیں جو خداوند علامُ الغیوب کی وحی سے آپ نے دی ہیں۔ بھلا کیونکر ممکن ہے کہ غیب داں نبی کی دی ہوئی غیب کی خبریں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی خلاف واقع ہو سکیں۔ یمن، شام، عراق فتح ہوں گے:۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یمن و شام و عراق کے فتح ہونے سے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دی تھی کہ یمن فتح کیا جائے گا تو لوگ اپنی سواریوں کو ہنکاتے ہوئے اور اپنے اہل و عیال اور متبعین کو لے کر (مدینہ سے) یمن چلے آئیں گے حالانکہ مدینہ ہی کا قیام ان کے لیے بہتر تھا۔ کاش وہ لوگ اس بات کو جان لیتے۔ پھر شام فتح کیا جائے گا تو ایک قوم اپنے گھر والوں اور اپنے پیروی کرنے والوں کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے) شام چلی آئے گی حالانکہ مدینہ ہی ان کے لیے بہتر تھا کاش ! وہ لوگ اس کو جان لیتے۔ پھر عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ اپنے گھر والوں اور جو ان کا کہنا مانیں گے ان سب کو لے کر سواریوں کو ہنکاتے ہوئے (مدینہ سے) عراق آ جائیں گے حالانکہ مدینہ ہی کی سکونت ان کے لیے بہتر تھی کاش! وہ اس کو جان لیتے۔(مسلم جلد ۱ ص ۴۴۵ باب ترغيب الناس فی سکني المدينه) یمن ۸ ھ میں فتح ہوا اور شام و عراق اس کے بعد فتح ہوئے لیکن غیب جاننے والے مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبریں دے دی تھیں جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔ فتح مصر کی بشارت حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ عنقریب مصر کو فتح کرو گے اور وہ ایسی زمین ہے جہاں کا سکہ “قیراط” کہلاتا ہے۔ جب تم لوگ اس کو فتح کرو تو اس کے باشندوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان ایک تعلق اور رشتہ ہے۔ (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مصر کی تھیں جن کی اولاد میں سارا عرب ہے۔) اور جب تم دیکھنا کہ وہاں ایک ا ینٹ بھر جگہ کے لیے دو آدمی جھگڑا کرتے ہوں تو تم مصر سے نکل جانا۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنی آنکھ سے مصر میں یہ دیکھا کہ عبدالرحمن بن شرحبیل اور ان کے بھائی ربیعہ ایک ا ینٹ بھر جگہ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق مصر چھوڑ کر چلے آئے۔(مسلم جلد۲ ص ۳۱۱ باب وصية النبی صلی اﷲ تعالیٰ عليه وسلم) بیت المقدس کی فتح بیت المقدس کی فتح ہونے سے برسوں پہلے حضورِ اقدس مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے اپنی امت سے ارشاد فرمایا کہ قیامت سے پہلے چھ چیزیں گن رکھو (۱) میری وفات (۲) بیت المقدس کی فتح (۳) پھر طاعون کی وبا جو بکریوں کی گلٹیوں کی طرح تمہارے اندر شروع ہو جائے گی۔(۴) اس قدر مال کی کثرت ہو جائے گی کہ کسی آدمی کو سو دینار دینے پر بھی وہ خوش نہیں ہوگا۔ (۵) ایک ایسا فتنہ اٹھے گاکہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں رہے گا جس میں فتنہ داخل نہ ہوا ہو۔ (۶) تمہارے اور رومیوں کے درمیان ایک صلح ہوگی اور رومی عہد شکنی کریں گے وہ اَسی جھنڈے لے کر تمہارے اوپر حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی۔(بخاری جلد۱ ص ۴۵۰ باب مايحذرمن الغدر) خوفناک راستے پرامن ہو جائیں گے حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر تھا تو ایک شخص نے آکر فاقہ کی شکایت کی پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے راستوں میں ڈاکہ زنی کا شکوہ کیا۔ یہ سن کر شہنشاہِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عدی ! اگر تمہاری عمر لمبی ہوگی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک پردہ نشین عورت اکیلی “حیرہ” سے چلے گی اور مکہ آکر کعبہ کا طواف کرے گی اور اس کو خدا کے سوا کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا قبیلہ ” طی ” کے وہ ڈاکو جنہوں نے شہروں میں آگ لگا رکھی ہے کہاں چلے جائیں گے؟ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے لمبی عمر پائی تو یقینا تم دیکھو گے کہ کسریٰ کے خزانوں کو مسلمان اپنے ہاتھوں سے کھولیں گے اور اے عدی! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ضرور ضرور دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر تلاش کرتا پھرے گا کہ کوئی اس کے صدقہ کو قبول کرے مگر کوئی شخص ایسا نہیں آئے گا جو اس کے صدقہ کو قبول کرے (کیونکہ ہر شخص کے پاس بکثرت مال ہوگا اور کوئی فقیر نہ ہوگا۔) حضرت عدی بن حاتم کا بیان ہے کہ اے لوگوں!یہ تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ واقعی ’’ حیرہ ‘‘سے ایک پردہ نشین عورت اکیلی طوافِ کعبہ کے لیے چلی آئی ہے اور وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور میں خود ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو کھول کر نکالا۔ یہ دو چیزیں تو میں نے دیکھ لیں اے لوگوں! اگر تم لوگوں کی عمریں دراز ہوئیں تو یقینا تم لوگ تیسری چیز کو بھی دیکھ لو گے کہ کوئی فقیر نہیں ملے گا جو صدقہ قبول کرے۔(بخاری جلد۱ ص ۵۰۷ تاص ۵۰۸ باب علامات النبوۃ) فاتح خیبر کون ہوگا جنگ خیبر کے دوران ایک دن غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کل میں اس شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جو اﷲ و رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ و رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور اسی کے ہاتھ سے خیبر فتح ہوگا۔ اس خوشخبری کو سن کر لشکر کے تمام مجاہدین نے اس انتظار میں نہایت ہی بے قراری کے ساتھ رات گزاری کہ دیکھیں کون وہ خوش نصیب ہے جس کے سر اس بشارت کا سہرا بند ھتا ہے۔ صبح کو ہر مجاہد اس امید پر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا کہ شاید وہی اس خوش نصیبی کا تاجدار بن جائے۔ ہر شخص گوش بر آواز تھا کہ ناگہاں شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ ارشاد فرمایا کہ قاصد بھیج کر انہیں بلاؤ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا کر دعا فرما دی جس سے فی الفور وہ اس طرح شفایاب ہوگئے کہ گویا انہیں کبھی آشوب چشم ہوا ہی نہیں تھا۔ پھر آپ نے ان کے ہاتھ میں جھنڈا عطا فرمایا اور خیبر کا میدان اسی دن ان کے ہاتھوں سے سر ہوگیا۔(بخاری جلد ۲ ص ۶۰۵ باب غزوہ خیبر) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن قبل ہی یہ بتا دیا کہ کل حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خیبر کو فتح کریں گے۔ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا طیعنی ” کل کون کیا کرے گا ” کا علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا فرمایا۔ تیس برس خلافت پھر بادشاہی:۔ حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تیس برس تک خلافت رہے گی اس کے بعد بادشاہی ہو جائے گی۔ اس حدیث کو سنا کر حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ گن لو! حضرت ابو بکر کی خلافت دو برس اور حضرت عمر کی خلافت دس برس اور حضرت عثمان کی خلافت بارہ برس اور حضرت علی کی خلافت چھ برس یہ کل تیس برس ہوگئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم(مشکوٰۃ جلد۲ ص ۴۶۲ کتاب الفتن) ھ 70 ھ اور لڑکوں کی حکومت حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ۷۰ ھ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۳۲۳) اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو میں ان لڑکوں کے نام بتا سکتا ہوں وہ فلاں کے بیٹے اور فلاں کے بیٹے ہیں۔(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوۃ) تاریخ اسلام گواہ ہے کہ ۷۰ ھ میں بنوامیہ کے کم عمر حاکموں نے جو فتنے بر پا کیے واقعی یہ ایسے فتنے تھے کہ جن سے ہر مسلمان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہئے۔ ان واقعات کی برسوں پہلے نبی برحق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی جو یقینا غیب کی خبر ہے۔ ترکوں سے جنگ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک تم لوگ ایسی قوم سے نہ لڑو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے ور جب تک تم لوگ قوم ترک سے نہ لڑو گے جو چھوٹی آنکھوں والے، سرخ چہروں والے، چپٹی ناکوں والے ہوں گے۔ ان کے چہرے گویا ہتھوڑوں سے پیٹی ہوئی ڈھالوں کی مانند (چوڑے چپٹے) ہوں گے اور ان کے جوتے بال کے ہوں گے۔ اوردوسری روایت میں ہے کہ تم لوگ “خوزوکرمان” کے عجمیوں سے جنگ کرو گے جن کے چہرے سرخ، ناکیں چپٹی ، آنکھیں چھوٹی ہوں گی۔ اورتیسری روایت میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تم لوگ ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بال کے ہوں گے وہ اہل ” بارز ” ہیں۔ (یعنی صحراؤں اور میدانوں میں رہنے والے ہیں۔)(بخاری جلد ۱ ص ۵۰۷ باب علامات النبوۃ) غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خبریں اس وقت دی تھیں جب اسلام ابھی پورے طور پر زمین حجاز میں بھی نہیں پھیلا تھا ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ تمام پیشگوئیاں پہلی ہی صدی کے آخر تک پوری ہوگئیں کہ مجاہدین اسلام کے لشکروں نے ترکوں اور صحراؤں میں رہنے والے بربریوں سے جہاد کیا اور اسلام کی فتح مبین ہوئی اور ترک و بربری اقوام دامن اسلام میں آ گئیں۔ ہندوستان میں مجاہدین:۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہندوستان میں اسلام کے داخل اور غالب ہونے کی خوشخبری سناتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو جہنم سے آزاد فرما دیا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم مسلمانوں سے ہندوستان میں جہاد کرنے کا وعدہ فرمایا تھا تو اگر میں نے وہ زمانہ پا لیا جب تو میں اس کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کر دوں گا اور اگر میں اس جہاد میں شہید ہوگیا تو میں بہترین شہید ٹھہروں گا اور اگر میں زندہ لوٹا تو میں دوزخ سے آزاد ہونے والا ابو ہریرہ ہوں گا۔(نسائي جلد ۲ ص ۶۳ باب غزوة الهند) امام نسائی نے ۳۰۲ ھ میں وفات پائی اور انہوں نے اپنی کتاب سلطان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان ۳۹۲ ھ سے تقریباً سو برس پہلے تحریر فرمائی۔ تمام دنیا کے مؤرخین گواہ ہیں کہ غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زبان قدسی بیان سے ہندوستان کے بارے میں سینکڑوں برس پہلے جس غیب کی خبر کا اعلان فرمایا تھا وہ حرف بحرف پوری ہو کر رہی کہ محمد بن قاسم نے سر زمین سندھ و مکران پر جہاد فرمایا اور محمود غزنوی و شہاب الدین غوری نے ہندوستان کے سومنات و اجمیر و غیرہ پر جہاد کر کے اس ملک میں اسلام کا پرچم لہرایا۔ یہاں تک کہ سر زمین ہند میں نا گا لینڈ کی پہاڑیوں سے کوہ ہندو کش تک اور راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اسلام کا پرچم لہرا چکا ۔ حالانکہ مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی اس وقت دی تھی جب اسلام سر زمین حجاز سے بھی آگے نہیں پہنچ پایا تھا۔ ان غیب کی خبروں کو لفظ بلفظ پورا ہوتے ہوئے دیکھ کر کون ہے جو غیب داں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں اس طرح نذرانہ عقیدت نہ پیش کرے گا کہ ؎ ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر ( اعلیٰ حضر ت بریلوی علیہ الرحمۃ ) کون کہاں مرے گا:۔ جنگ ِبدر میں لڑائی سے پہلے ہی حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر میدان جنگ میں تشریف لے گئے اور اپنی چھڑی سے لکیر کھینچ کھینچ کر بتایا کہ یہ فلاں کافر کی قتل گاہ ہے۔ یہ ابوجہل کا مقتل ہے۔ اس جگہ قریش کا فلاں سردار مارا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ ہر سردار قریش کے قتل ہونے کے لیے آپ نے جو جو جگہیں مقرر فرما دی تھیں اسی جگہ اس کافر کی لاش خاک و خون میں لتھڑی ہوئی پائی گئی۔(مسلم جلد ۲ ص ۱۰۲ باب غزوہ بدر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کب ہوگی:۔ حضرت رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے پاس بلا کر ان کے کان میں کوئی بات فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ان کے کان میں ایک اور بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے اس رونے اور ہنسنے کا سبب پوچھا، تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا راز ظاہر نہیں کر سکتی۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دوبارہ دریافت کرنے پر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ میرے کان میں یہ فرمایا تھا کہ میں اپنی اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا۔ یہ سن کر میں فرط غم سے رو پڑی پھر فرمایا کہ اے فاطمہ ! میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم وفات پا کر مجھ سے ملو گی۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے میری جدائی کا زمانہ بہت ہی کم ہوگا۔(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۲) اہل علم جانتے ہںر کہ یہ دونوں غبک کی خبریں حرف بحرف پوری ہوئں کہ آپ نے اپنی اسی بما ری مں وفات پائی اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی صرف چھ مہینے کے بعد وفات پا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملیں۔ خود اپنی وفات کی اطلاع:۔ جس سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علہا وسلم نے اس دناق سے رحلت فرمائی ، پہلے ہی سے آپ نے اپنی وفات کا اعلان فرمانا شروع کر دیا۔ چنانچہ حجۃ الوداع سے پہلے ہی حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علہاوسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر روانہ فرمایا تو ان کے رخصت کرتے وقت آپ نے ان سے فرمایا کہ اے معاذ! اب اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو گے جب تم واپس آؤ گے تو مرلی مسجد اور مرای قبر کے پاس سے گزرو گے۔(مسند امام احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۳۵) اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب کہ عرفات میں ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد مسلمانوں کا اجتماع عظیم تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں دوران خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ شاید آئندہ سال تم لوگ مجھ کو نہ پاؤ گے۔ اسی طرح مرض وفات سے کچھ دنوں پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ چا ہے تو دنیا کی زندگی کو اختیار کر لے اور چا ہے تو آخرت کی زندگی قبول کر لے تو اس بندے نے آخرت کو قبول کر لیا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رونے لگے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ آپ تو ایک بندے کے بارے میں یہ خبر دے رہے ہیں تو اس پر حضرت ابو بکر ( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ) کے رونے کا کیا موقع ہے؟ مگر جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے چند ہی دنوں کے بعد وفات پائی تو ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والے تھے۔( کیونکہ انہوں نے ہم سب لوگوں سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ وہ اختیار دیا ہوا بندہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں۔)(بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب قول النبي صلی اﷲ تعالیٰ عليه وسلم سدواالابواب الخ) حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما شہید ہوں گے:۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے۔ اس وقت پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اے احد! ٹھہر جا اور یقین رکھ کہ تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو (عمرو عثمان) شہید ہیں۔ span class=”ref-ar”> (بخاری جلد ۱ ص ۵۱۹ باب فضل ابی بکر) نبی اور صدیق کو تو سب جانتے تھے لیکن حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی شہادت کے بعد سب کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ دو شہید کون تھے۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت ملے گی:۔ حضرت ابو سعید خدری و حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خندق کھود رہے تھے اس وقت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست ِشفقت پھیر کر ارشاد فرمایا کہ افسوس! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔(مسلم جلد ۲ ص ۳۹۵ کتاب الفتن) یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگار نہ ہوں گے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا۔(حاشيه بخاری بحواله کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوة) اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کا گروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں۔ اس صورت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ” افسوس اے عمار! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ” اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا۔ ِواﷲ تعالیٰ اعلم۔ بہر حال حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا امتحان:۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے ایک باغ میں ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دروازہ کھلوا کر اندر آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت دی ۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو بھی جنت کی خوشخبری سنائی۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے ان کو جنت کی بشارت کے ساتھ ساتھ ایک امتحان اور آزمائش میں مبتلا ہونے کی بھی اطلاع دی۔ یہ سن کر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صبر کی دعا مانگی اور یہ کہا کہ خدا مددگار ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت:۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں بتادوں کہ سب سے بڑھ کر دو بدبخت انسان کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اﷲ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) بتائیے ۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قوم ثمود کا سرخ رنگ والا وہ بدبخت جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کیا اور دوسرا وہ بدبخت انسان جو اے علی!تمہارے یہاں پر (گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار مارے گا۔(مستدرک حاکم جلد ۳ ص ۱۴۰ تاص ۱۴۱مطبوعه حيدرآباد) یہ غیب کی خبر اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ ۱۷ رمضان ۴۰ ھ کو عبدالرحمن بن ملجم خارجی نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا جس سے زخمی ہو کر دو دن بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہادت سے سرفراز ہوگئے۔(تاريخ الخلفاء) حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خوشخبری:۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حجۃ الوداع میں مکہ معظمہ جا کر اس قدر شدید بیمار ہوگئے کہ ان کو اپنی زندگی کی امید نہ رہی۔ ان کو اس بات کی بہت زیادہ بے چینی تھی کہ اگر میں مر گیا تو میری ہجرت نامکمل رہ جائے گی۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے ان کی بے قراری دیکھ کر تسلی دی اور ان کے لیے دعا بھی فرمائی اور یہ بشارت دی کہ امید ہے کہ تم ابھی نہیں مرو گے بلکہ تمہاری زندگی لمبی ہوگی اور بہت سے لوگوں کو تم سے نفع اور بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان پہنچے گا۔(بخاری جلد ۱ ص ۳۸۳ کتاب الوصايا) یہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے فتوحات عجم کی بشارت تھی۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسلامی لشکر کا سپہ سالار بن کر ایران پر فوج کشی کی اور چند سال میں بڑے بڑے معرکوں کے بعد بادشاہ ایران کسریٰ کے تخت و تاج کو چھین لیا۔ اس طرح مسلمانوں کو ان کی ذات سے بڑا فائدہ اور کفار مجوس کو ان کی ذات سے نقصان عظیم پہنچا۔ ایران حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا اور اس لڑائی کا نقشہ جنگ خود امیرالمؤمنین نے ماہرین جنگ کے مشوروں سے تیار فرمایا تھا۔ حجاز کی آگ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حجاز کی زمین سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں نظر آئیں گی۔(مسلم جلد ۲ ص۳۹۳ کتاب الفتن) اس غیب کی خبر کا ظہور ۶۵۴ ھ میں ہوا۔ چنانچہ حضرت امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر فرمایا کہ یہ آگ ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ھ میں مدینہ کے اندر ظاہر ہوئی۔ یہ آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی جانب سے لے کر “حرہ” کی پہاڑیوں تک پھیلی ہوئی تھی اس آگ کا حال ملک شام اور تمام شہروں میں تواتر کے طریقے پر معلوم ہوا ہے اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔(شرح مسلم نووی جلد ۲ ص ۳۹۳ کتاب الفتن) اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ ۳ جمادی الآخرۃ ۶۵۴ ھ کو مدینہ منورہ میں ناگہاں ایک گھر گھراہٹ کی آواز سنائی دینے لگی پھر نہایت ہی زور دار زلزلہ آیا جس کے جھٹکے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد دو دن تک محسوس کیے جاتے رہے۔ پھر بالکل اچانک قبیلہ قریظہ کے قریب پہاڑوں میں ایک ایسی خوفناک آگ نمودار ہوئی جس کے بلند شعلے مدینہ سے ایسے نظر آ رہے تھے کہ گویا یہ آگ مدینہ منورہ کے گھروں میں لگی ہوئی ہے۔ پھر یہ آگ بہتے ہوئے نالوں کی طرح سیلاب کے مانند پھیلنے لگی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ پہاڑیاں آگ بن کر بہتی چلی جا رہی ہیں اور پھر اس کے شعلے اس قدر بلند ہوگئے کہ آگ کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا اور آگ کے شرارے ہر چہار طرف فضاؤں میں اڑنے لگے۔ یہاں تک کہ اس آگ کی روشنی مکہ مکرمہ سے نظر آنے لگی اور بہت سے لوگوں نے شہر بصریٰ میں رات کو اسی آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنوں کو دیکھ لیا۔ اہل مدینہ آگ کے اس ہولناک منظر سے لرزہ براندام ہو کردہشت اور گھبراہٹ کے عالم میں توبہ اور استغفار کرتے ہوئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس پناہ لینے کے لیے مجتمع ہوگئے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک یہ آگ جلتی رہی اور پھر خود بخود رفتہ رفتہ اس طرح بجھ گئی کہ اس کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا۔(تاريخ الخلفاء ص ۳۲۴) فتنوں کے علمبردار:۔ حضرت حذیفہ بن یمان صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھی بھول گئے ہیں یا جانتے ہوئے انجان بن رہے ہیں۔ واﷲ! دنیا کے خاتمہ تک جتنے فتنوں کے ایسے قائدین ہیں جن کے متبعین کی تعداد تین سو یا اس سے زائد ہوں ان سب فتنوں کے علمبرداروں کا نام، ان کے باپوں کا نام، ان کے قبیلوں کا نام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو بتا دیا ہے۔(ابوداود جلد ۲ ص ۲۳۱ کتاب الفتن) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے گمراہوں اور فتنوں کے ہزاروں لاکھوں سرداروں اور علمبرداروں کے نام مع ولدیت و سکونت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتا دیئے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم غیب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ قیامت تک کے واقعات:۔ مسلم شریف کی حدیث ہے، حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم لوگوں کو نماز فجر پڑھا کر منبر پر تشریف لے گئے اور ہم لوگوں کو خطبہ سناتے رہے یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ نے منبر سے اتر کر نماز ظہر ادا فرمائی۔ پھر خطبہ دینے میں مشغول ہوگئے یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ اس وقت آپ نے منبر سے اتر کر نماز عصر پڑھائی پھر منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھنے لگے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا تو اس دن بھر کے خطبہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والے تھے تو جس شخص نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا وہ ہم صحابہ میں سب سے زیادہ علم والاہے۔(مشکوٰۃ جلد ۲ ص ۵۴۳) ضروری انتباہ:۔ مذکورہ بالا واقعات ان ہزاروں واقعات میں سے صرف چند ہیں جن میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیب کی خبریں دی ہیں۔ بلاشبہ ہزاروں واقعات جو صحاح ستہ اور احادیث کی دوسری کتابوں میں ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں، امت کو جھنجھوڑ کر متنبہ کر رہے ہیں کہ اول سے ابد تک کے تمام علوم غیبیہ کے خزانوں کو علام الغیوب جل جلالہٗ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سینہ نبوت میں و دیعت فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہر امتی کو یہ عقیدہ رکھنا لازمی اور ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن مجید کی مقدس تعلیم کا وہ عطر ہے جس سے اہل سنت کی دنیائے ایمان معطر ہے جیسا کہ خود خداوند عالم جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ وَعَلَّمَكَ ماَلَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ط وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (۴ :۱۳) اﷲ نے آپ کو ہر اس چیز کا علم عطا فرما دیا جس کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اﷲ کا بہت ہی بڑا فضل ہے۔ Edited 1 جون 2013 by Najam Mirani 3 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Syedali09 مراسلہ: 13 ستمبر 2013 Report Share مراسلہ: 13 ستمبر 2013 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Gul مراسلہ: 20 جنوری 2014 Report Share مراسلہ: 20 جنوری 2014 jazak ALLAH اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
rehman alvi مراسلہ: 20 جنوری 2014 Report Share مراسلہ: 20 جنوری 2014 jazak ALLAH اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔