Najam Mirani مراسلہ: 26 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 26 مئی 2013 مؤلف: ایک صاحب جن کا میلان قدرے وہابیت کی طر ف تھا، انہوں نے علمِ غیبِ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی نسبت سوال کیا تو فرمایا :ارشاد :کیا آپ مطلق علمِ غیب کو پوچھتے ہیں یا علمِ مَا کَانَ وَ مَا یَکُون، (یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا ان سب کا علم ) ، جیسا سوال ہو اُس کے موافق جواب دیا جائے ۔عرض : میں حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلمکو سب سے افضل واعلیٰ جانتا ہوں اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو روشن ضمیر مانتا ہوں مگر یہ کہ وہ دلوں کی بات جانتے ہیں، یہ نہیں مانتا ۔ارشاد : روشن ضمیر ہونے کے تویہی معنی ہیں کہ دلوں کی حالتیں جانیں (پھر اس کے ثبوت کی طرف توجہ فرمائی)قرآنِ عظیم فرماتا ہے : وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیۡبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ اے عام لوگو اللہ(عَزَّوَجَلَّ)اس لئے نہیں کہ تمہیں غیب پر مطلع فرمادے ۔ ہاں اپنے رسولوں سے چن لیتا ہے جسے چاہے۔(پ۴، اٰل عمرٰن:۱۷۹)اور فرماتا ہے: عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا اللہ تعالیٰ عالمِ الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں فرماتا مگر اپنے پسندیدہ رسول کو ۔(پ۲۹، الجن :۲۶)صرف اظہار ہی نہیں بلکہ رسولوں کو علمِ غیب پر مسلط فرمادیا ۔ (اس کے بعد ارشاد فرمایا ) کہ علمائے اہلِ سنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اتفاق ہے کہ جو فضائل اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو عنایت فرمائے گئے وہ سب باکمل وجوہ(یعنی اَکمل طور پر)، ان سے بد ر جہا (یعنی کئی درجے ) زائد حضور سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مرحمت (یعنی عطا)ہوئے اور اہلِ باطن کا اس پر اتفاق ہے کہ جو کچھ فضائل اور انبیاء صلواتُ اللہ تعالیٰ وسلامہ علٰی سیدہم وعلیہم کو ملے وہ سب حضور کے دیئے سے اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کے طفیل میں ۔اصحابِ صحیح بخاری ومسلم نے روایت کی: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ میں بانٹنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ ( صحیح البخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ۔۔۔۔۔۔ الخ، الحدیث۷۱، ج۱، ص۴۳) ( صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النھی عن المسألۃ، الحدیث۱۰۳۷، ص۵۱۷) اللہ تعالیٰ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابت (کے بارے میں)فرماتا ہے: وَکَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبْرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یعنی اَیسا ہی ہم ابراہیم کو آسمان وزمین کی ساری سلطنت دکھاتے ہیں۔(پ۷، الانعام:۷۵)اور لفظ ''نُرِیْ'' اِستمرار وتجدُّد (یعنی ہمیشگی اور تکرار )پر دال (یعنی دلالت کرتا)ہے جس کا یہ مطلب کہ وہ دکھانا ایک بار کے لئے نہ تھا بلکہ مُسْتَمِرّ (یعنی ہمیشہ )ہے تو یہ صفت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اَکمل طو ر پر ثابت ، حضورکے دیئے سے اور حضور کے طفیل میں حضور کے جدِّا کرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ ابیہ وبارَک وسلم کو یہ فضلیت ملی ۔اس کا اِنکار نہ کریگا مگر کو ربا طن (یعنی کینہ رکھنے والا) اَعَاذَنَا اللہُ تَعَالٰی مِنْ ھٰذِہِ الْعَقِیْدَۃِ الْبَاطِلَۃِ (یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں اس باطل عقیدے سے بچائے۔ت) اور لفظ ''کَذٰلِکَ''تشبیہ کے واسطے ہے جسے ہر معمولی عربی داں جانتا ہے اور تشبیہ کے لئے مُشَبَّہ(یعنی جسے تشبیہ دی گئی) اور مُشَبَّہ بِہٖ (یعنی جس سے تشبیہ دی گئی)ضرور (یعنی لازِم)ہے۔''مُشَبَّہ ''تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ باقی رہا ''مُشَبَّہ بِہٖ'' وہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ اے حبیب لبیب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) جیسے ہم آپ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کو آسمانوں اور زمینوں کی سلطنتیں دکھا رہے ہیں یونہی آپ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے طفیل میں آپ کے والد ماجد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو بھی ان کا معائنہ کرار ہے ہیں او رقرآن کریم میں اِرشاد فرماتا ہے : وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾ یعنی میرا محبوب غیب پر بخیل نہیں۔(پ۳۰، التکویر:۲۴)جس میں اِستعداد(یعنی صلاحیت) پاتے ہیں اسے بتاتے بھی ہیں اور ظاہر کہ بخیل وہ جس کے پاس مال ہو اور صَرف(یعنی خرچ) نہ کرے۔ وہ کہ جس کے پاس مال ہی نہیں کیا بخیل کہا جائے گا؟ اور یہاں بخیل کی نفی کی گئی تو جب تک کوئی چیز صرف (یعنی خرچ) کی نہ ہو (نفی کا) کیا مَفاد(یعنی فائدہ) ہوا؟ لھٰذا معلوم ہوا کہ حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) غیب پر مطلع(یعنی خبردار) ہیں ، اور اپنے غلاموں کو اس پر اِطِّلاع بخشتے ہیں اور فرماتا ہے: وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیٰنًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ہم نے تم پر یہ کتاب ہر شے کا روشن بیان کردینے کے لئے اُتاری۔(پ۱۴، النحل:۸۹) ''تِبْیَانًا''ارشاد فرمایا، ''بَیَانًا ''نہ فرمایا کہ معلوم ہوجائے کہ اس میں بیانِ اشیا اس طر ح پر ہے کہ اصلاًخِفا (یعنی پوشیدگی)نہیں اور حدیث میں ہے جسے امام ترمذی وغیرہ نے دس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کیا کہ صحابہ کرام( رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ) فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم صبح کو نمازِ فجر کے لئے مسجدنبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام )میں حاضر ہوئے، اور حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کی تشریف آوری میں دیر ہوئی ۔ حَتّٰی کِدْنَا اَنْ نَّتَرَای عَیْنَ الشَّمْسِ یعنی قریب تھا کہ آفتاب طلوع کر آئے ۔ اتنے میں حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) تشریف فرما ہوئے ، اور نماز پڑھائی ۔ پھر صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم جانتے ہو کیوں دیر ہوئی؟سب نے عرض کی '' اَللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ'' اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)خوب جانتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : فَاِذَا اَنَا بِرَبِّی تَبَارَکَ وتعالٰی فِی اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ میرا ربّ(عَزَّوَجَلَّ ) سب سے اچھی تجلی میں میرے پاس تشریف لایا ۔یعنی میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا ۔ اس نماز میں عبد (یعنی بندہ)درگاہِ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وہاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلی ہوئی ۔ ' 'قَالَ یَا مُحَمَّدُ فِیْمَا یَخْتَصِمُ الْمَلَاءُ الْاَعْلٰی '' اس نے فرمایا :''اے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرشتے کس بات میں مُخاصَمہ (یعنی تنازعہ) اور مُباہات (یعنی فخر)کرتے ہیں ؟ '''' فَقُلْتُ لَا اَدْرِیْ'' میں نے عرض کی میں بے تیرے بتائے کیا جانوں، فَوَضَعَ کَفَّہ، بَیْنَ کَتِفَیَّ فَوَجَدْتُّ بَردَ اَنَامِلِہٖ بَیْنَ ثَدَیَّ فَتَجَلّٰی لِیْ کلُّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ ( جامع ترمذی ، کتاب التفسیر ، الحدیث ۳۲۴۶، ج۵، ص۱۶۰) تو ربّ العزّت (عَزَّوَجَلَّ )نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور میرے سامنے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی۔صرف اسی پر اِکْتِفا نہ فرمایا کہ کسی وہابی صاحب کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ کل شے سے مراد ہر شے متعلق بشرا یع (یعنی شریعتوں کے متعلق ہر چیز)ہے بلکہ ایک روایت میں فرمایا: مَا فِی السَّمٰوٰتِ ومَافِی الْاَرْضِ میں نے جان لیا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔ ( جامع ترمذی، کتاب التفسیر، الحدیث۳۲۴۴،ج۵،ص۱۵۸) اور دوسری روایت میں فرمایا: فَعَلِمْتُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اور میں نے جان لیا جو کچھ مشرق سے مغرب تک ہے ۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، الحدیث۳۲۴۵، ج۵، ص۱۵۹) یہ تینوں روایتیں صحیح ہیں تو تینوں لفظ ارشادِ اقدس (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)سے ثابت ہیں۔ یعنی میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ مشرق سے مغرب تک ہے۔ ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی اور روشن ہونے کے ساتھ پہچان لینا اس لئے فرمایا کہ کبھی شے معروف (یعنی معلوم )ہوتی ہے پیشِ نظر نہیں اور کبھی شے پیشِ نظر ہوتی ہے اور معروف نہیں جیسے ہزار آدمیوں کی مجلس کو چھت پر سے دیکھو ، وہ سب تمہارے پیشِ نظر ہوں گے مگر ان میں بہت کو پہچانتے نہ ہوں گے۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ تمام اشیائے عالَم ہمارے پیشِ نظر بھی ہوگئیں ، اورہم نے پہچان بھی لیں کہ ان میں نہ کوئی ہماری نگاہ سے باہر رہی نہ علم سے خارج وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ مسلمان دیکھیں نصوص میں بلا ضرورت تاویل وتخصیص باطل ونا مسموع ہے(یعنی ناقابلِ قبول ہے)۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا ہر چیز کا روشن بیان کردینے کو یہ کتاب ہم نے تم پر اُتاری۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی تو بلاشبہ یہ رویت ومعرفت (یعنی دیکھنا اور پہچاننا)، جمیع مکنوناتِ قلم ومکتوباتِ لوح (یعنی قلم اور لوحِ محفوظ کے تمام سربستہ رازوں) کو شامل ہے جس میں سب ''مَاکَانَ وَمَا یَکُونُ مِنَ الْیَوْمِ الْاَوَّلِ اِلٰی یَوْمِ الْاٰخِرِ '' (یعنی روزِ اول سے روزِ آخر تک جو کچھ ہوا ..یا ..ہوگا )وجملہ ضمائر وخواطر (یعنی تمام پوشیدہ اُمور بشمول احوالِ دِل)سب کچھ داخل ولھٰذا طبرانی ونعیم بن حماد اُستاذ اما م بخاری وغیر ہمانے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَانَا اَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ اِلٰی مَا ھُوَکَائِنٌ فِیْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلَی کَفِّیْ ھٰذِہ بے شک اللہ(عَزَّوَجَلَّ)نے میرے سامنے دنیا اٹھالی ہے تو میں اسے اور اس میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو۔ ( مجمع الزوائدکتاب علامات النبوۃ باب ۳۳، الحدیث ۱۴۰۶۷، ج۸، ص۵۱۰) اور حضور(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) کے صدقے میں اللہ تعالیٰ نے حضور کے غلاموں کو یہ مرتبہ عنایت فرمایا ۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں : ''وہ مرد نہیں جو تمام دنیا کو مثل ہتھیلی کے نہ دیکھے ۔'' انہوں نے سچ فرمایا اپنے مرتبہ کا اظہار کیا ۔ ان کے بعد حضرت شیخ بہاء الملۃ والدین نقشبندقُدِّسَ سِرُّہ، نے فرمایا :'' میں کہتا ہوں مرد وہ نہیں جو تمام عالم کو انگوٹھے کے ناخن کی مثل نہ دیکھے۔'' اور وہ جو نسب میں حضور کے صاحبزادے اور نسبت میں حضور کے ایک اعلیٰ جاہ کَفَش بردار (یعنی بلند رتبہ غلام )ہیں اَعْنِی (یعنی ) حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قصیدہ غوثیہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : نَظَرْتُ اِلٰی بِلاَدِ اللہ جَمْعًا کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتِّصَالٖ یعنی میں نے اللہ(عَزَّوَجَلَّ )کے تمام شہروں کو مثل را ئی کے دانے کے ملاحظہ کیا۔ اور یہ دیکھنا کسی خاص وقت سے خاص نہ تھا بلکہ عَلَی الْاِتِّصال (یعنی لگاتار)یہ ہی حکم ہے ، اور فرماتے ہیں : ''اِنَّ بُؤْبُؤۃ عَیْنِی فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ میری آنکھ کی پتلی لوحِ محفو ظ میں لگی ہے۔''لوحِ محفوظ کیا ہے ۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَکُلُّ صَغِیۡرٍ وَّکَبِیۡرٍ مُّسْتَطَرٌ ﴿۵۳﴾ ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔(پ۲۷، القمر:۵۳)اور فرماتا ہے: مَا فَرَّطْنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھانہ رکھی ۔(پ۷، الانعام:۳۸)اور فرماتا ہے : وَلَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۵۹﴾ کوئی تروخشک ایسا نہیں جو کتابِ مبین میں نہ ہو ۔(پ ۷، الانعام:۵۹)تو جب لوحِ محفوظ کی یہ حالت کہ اس میں تمام کائنات روزِا ول سے روزِ آخرتک محفو ظ ہیں تو جس کو اس کا علم ہو ، بے شک اسے ساری کائنات کا علم ہوگا ۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت صفحہ 77ٓ -82 ) 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔