Jump to content

mzeeshanimtiaz

تجویز کردہ جواب

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

(bis)

kia mein ne oper jo post ki ha wo haqeeqat mein Amam Malik (رحمتہ اللہ علیہ) ka qol ha ?

iss qol k sache ye jhoote hone k mutalik kuch bayan kr dei

agar ye qol sacha ha tw Amam Malik (رحمتہ اللہ علیہ) ne phir aesa kyu kaha ha?

Edited by mzeeshanimtiaz
Link to comment
Share on other sites

(bis)


 


اس اعتراض کے دو جوابات ہیں۔ اول الزامی، دوم تحقیقی۔ الزامی جواب محترم توحیدی بھائی دے چکے ہیں۔ تحقیقی جواب نیچے دیا جاتا ہے۔


 


آپ نے جس قول کا حوالہ دیا ہے وہ کتاب الاعتصام کا ہے۔ عربی عبارت ملاحظہ ہو۔


 


قال ابن الماجشون: سمعت مالكا يقول: من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة، زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله يقول: (اليوم أكملت لكم دينكم) فما لم يكن يومئذ دينا، فلا يكون اليوم دينا


 


یہاں اس قول کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول کچھ الفاظ کے فرق سے ابن حزم نے اپنی کتاب الاحکام في اصول الاحکام میں بمع سند نقل کیا ہے۔ عربی عبارت ملاحظہ ہو۔


 


حدثنا أحمد بن عمر بن أنس ثنا الحسين بن يعقوب ثنا سعيد بن فحلون ثنا يونس بن يحيى المفامي ثنا عبد الملك بن حبيب أخبرني بن الماجشون أنه قال قال مالك بن أنس من أحدث في هذه الأمة اليوم شيئا لم يكن عليه سلفها فقد زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خان الرسالة لأن الله تعالى يقول: (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم لأسلام دينا) فما لم يكن يومئذ دينا لا يكون اليوم دينا


 

اب اس قول کی سند کو دیکھتے ہیں۔ اس قول میں عبد الملك بن حبیب القرطبی ضعیف ہیں۔ ابن حزم کے نزدیک وہ قابلِ اعتماد نہیں۔ حافظ ابو بکر نے انھیں ضعیف کہا ہے اور بعض نے ان پر جهوٹا ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ دیکھیئے لسان المیزان

 

مختصر یہ کہ یہ قول ضعیف ہے اور اس سے استدلال درست نہیں۔

 

post-14461-0-83824200-1369141496_thumb.jpg

post-14461-0-13121400-1369141513_thumb.jpg

-----------------------------------------------------

post-14461-0-61728200-1369141470_thumb.jpg

post-14461-0-28972700-1369141725_thumb.jpg

Link to comment
Share on other sites


بدعت                                  

    بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیزاصطلاح شریعت میں بدعت کہتے ہیں دین میں نیا کام جو ثواب کیلئے ایجاد کیا جائے اگر یہ کام خلاف دین ہو تو حرام ہے اور اگر اس کے خلاف نہ ہو تودرست یہ دونوں معنی قرآن شریف میں استعمال ہوئے ہیں۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے۔

(1) بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ ؕ

وہ اللہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد فرمانے والا ہے ۔(پ1،البقرۃ:117)

(2)قُلْ مَا کُنۡتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ

فرمادو کہ میں انوکھا رسول نہیں ہوں۔ (پ26،الاحقاف:9)
    ان دونوں آیتو ں میں بدعت لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی انوکھا نیا رب تعالیٰ فرماتا ہے :

 

وَ جَعَلْنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحْمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابْتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبْنٰہَا عَلَیۡہِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ ۚ وَکَثِیۡرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوۡنَ ﴿۲۷﴾

اور عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں کے دل میں ہم نے نرمی اور رحمت رکھی اور ترک دنیا یہ بات جو انہوں نے دین میں اپنی طر ف سے نکالی ۔ ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے مومنوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں سے بہت سے فاسق ہیں۔(پ27،الحدید:27)
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے رہبانیت اور تارک الدنیا ہونا اپنی طر ف سے ایجاد کیا ۔ رب تعالیٰ نے ان کو اس کا حکم نہ دیا ۔ بد عت حسنہ کے طور پر انہوں نے یہ عبادت ایجاد کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بدعت کا ثواب دیا مگر جو اسے نباہ نہ سکے یا جو ایمان سے پھر گئے وہ عذاب کے مستحق ہوگئے معلوم ہوا کہ دین میں نئی بدعتیں ایجاد کرنا جو دین کے خلاف نہ ہوں ثواب کا با عث ہیں مگر انہیں ہمیشہ کرنا چاہیے جیسے چھ کلمے ، نماز میں زبان سے نیت ،قرآن کے رکوع وغیرہ ،علم حدیث، محفل میلا د شریف ،اور ختم بزرگان، کہ یہ دینی چیزیں اگر چہ حضور صلی ا للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایجاد ہوئیں مگر چونکہ دین کے خلاف نہیں اور ان سے دینی فائدہ ہے لہٰذا باعث ثواب ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ جو اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرے اسے بہت ثواب ہوگا ۔

 

بدعت آئمہ و محدثین کرام کی نظر میں                

 

امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ) امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

2. وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253

’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ بدعت محمودہ
2۔ بدعت مذمومۃ

جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘

(2) اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ) معروف مفسرِ قرآن اِمام ابو عبداﷲ محمدبن احمد قرطبی بدعت کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں :

3. کل بِدعة صدرت من مخلوق فلا يخلو أن يکون لها أصل في الشرع أولا؛ فإن کان لها أصل کانت واقعة تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضّ رسوله عليه؛ فهي في حيز المدح. وإن لم يکن مثاله موجودا کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف؛ فهذا فعله من الأفعال المحمودة، وإن لم يکن الفاعل قد سبق إليه. و يعْضُدْ هذا قول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه؛ لما کانت من أفعال الخير و داخلة في حيز المدح، وهي وإن کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد صلاها إلا أنه ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس عليها؛ فمحافظة عمر رضی الله عنه، عليها وجمع الناس لها، وندبهم إليها، بدعة لکنها بدعة محمودة ممدوحة. وإن کانت في خلاف ما أمرﷲ به ورسوله فهي في حيّز الذم والإنکار؛ قال معناه الخطابي و غيره

قلت : وهو معني قوله صلي الله عليه وآله وسلم في خطبته : ’’وشَرُّ الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة‘‘(1) يريد مالم يوافق کتابا أو سنة، أو عمل الصحابة رضي اﷲ عنهم، وقد بين هذا بقوله : ’’مَنْ سَنّ فِي الإسلام سُنَّة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومَن سنّ في الإسلام سُنَّة سيئة کان عليه وزرُها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ‘‘. (2) وهذا إشارة إلي ما ابتدع من قبيح و حسن.(3)

’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے اور اگر وہ بدعت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مقام ذم میں ہوگی اور یہ معنی خطابی اور دیگر نے بھی کیا ہے تو امام قرطبی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ وہی معنی آقا علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وشرالامور محدثاتہا و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور اس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور عمل صحابہ کے موافق نہ ہو اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ’’جس نے اسلام میں کسی اچھی چیز کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کے اجر میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں ہوگی اور جس کسی نے اسلام میں کسی بری چیز کی ابتداء کی تو اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کی برائی کا وبال بھی اس پر ہوگا اور ان کے وبال میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘ اور یہ اشارہ اس کی طرف ہے جس نے کسی اچھے یا برے کام کی ابتداء کی۔

1. ابن ماجه، السنن، باب اجتناب البدع الجدل، 1 / 18، رقم : 46
2. ابن حبان، الصحيح، 1 / 186، رقم : 10
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 / 96، رقم : 8518
4. ابويعلي، المسند، 4 / 85، رقم : 2111
5. ديلمي، المسند الفردوس، 1 / 380، رقم : 1529


1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357 - 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308


قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87

(3) اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ) اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

4. والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلي الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضي الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علي فساده فتمادي عليه القائل به. (2)

’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266


ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47

(4) اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ) امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی اپنی کتاب ’’المدخل الی السنن الکبريٰ‘‘ میں ربیع بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ :

5. قال الشافعي رضي الله عنه المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340


1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

(5) اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ) امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

6. فليس کل ما أبدع منهيا بل المنهي بدعة تضاد سُنة ثابتة و ترفع أمرا من الشرع مع بقاء علته بل الابداع قد يجب في بعض الاحوال إذا تغيرت الأسباب وليس في المائدة إلا رفع الطعام عن الأرض لتيسير الأکل و أمثال ذلک مما لا کراهة فيه. والأربع التي جمعت في أنها مبدعة ليست متساوية بل الأشنان حسن لما فيه من النظافة فإن الغسل مستحب للنظافة والأشنان أتم في التنظيف، وکانوا لا يستعملونه لأنه ربما کان لا يعتاد عندهم أو لا يتيسر، أو کانوا مشغولين بأمور أهم من المبالغة في النظافة فقد کانوا لا يغسلون اليد أيضا، وکانت مناديلهم أخمص أقدامهم وذلک لا يمنع کون الغسل مستحبا. و أما المنخل فالمقصود منه تطييب الطعام وذلک مباح مالم ينته إلي التنعم المفرط. و أما المائدة فتيسير للأکل و هو أيضا مباح مالم ينته إلي الکبر والتعاظم. و أما الشبع فهو أشد هذه الأربعة فإنه يدعو إلي تهييج الشهوات و تحريک الأدواء في البدن فلتدرک التفرقة بين هذه البدعات.

’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘

غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3

(6) اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ) علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

7. البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سُنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة(5).

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514


1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


ابن أثير جزري، النهاية في غريب الحديث والأثر1 : 106

(7) اِمام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ)

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...