Jump to content

تمام صحابہ علیہم الرضوان بر حق ہیں


Najam Mirani

تجویز کردہ جواب

 قرآن کریم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حقانیت وصداقت کا اعلان فرما رہا ہے ، فرماتا ہے :
 

(1) الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ

وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن ) شک کی جگہ نہیں اس میں۔(پ1،البقرۃ:1۔2)
    اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایاکہ قرآن میں کوئی شک وتردد نہیں۔ شک کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو بھیجنے والا غلطی کرے یا لانے والا غلطی کرے یا جس کے پاس آیا ہو وہ غلطی کرے یا جنہوں نے اس سے سن کر لوگو ں کو پہنچا یاانہوں نے دیانت سے کام نہ لیا ہو۔ اگر ان چاروں درجوں میں کلام محفوظ ہے تو واقعی شک وشبہ کے لائق نہیں۔قرآن شریف کا بھیجنے والا اللہ تعالیٰ،لانے والے حضرت جبریل علیہ السلام ،لینے والے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضور سے لے کر ہم تک پہنچا نے والے صحابہ کرام ہیں ( رضی اللہ عنہم اجمعین) اگر قرآن شریف اللہ تعالیٰ ، جبریل علیہ السلام ، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک تو محفو ظ رہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سچے نہ ہوں او ران کے ذریعہ قرآن ہم کو پہنچے تو یقینا قرآن میں شک پیدا ہوگیا کیونکہ فاسق کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

 اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا

اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لاوے تو تحقیق کرلیا کرو۔(پ26،الحجرات:6)
     اب قرآن کا بھی اعتبار نہ رہے گا قرآن پر یقین جب ہی ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام کے تقویٰ ودیانت پر یقین ہو۔

(2) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ

قرآن ہدایت ہے ان متقیوں کو جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3)
        یعنی اے کافر و!جن پر ہیز گارو ں یعنی جماعت صحابہ کو تم دیکھ رہے ہو انہیں قرآن نے ہی ہدایت دی اور یہ لوگ قرآن ہی کی ہدایت سے ایسے اعلیٰ متقی بنے ہیں۔ قرآن کریم نے ہی ان کی کایاپلٹ دی اگر قرآن کا کمال دیکھنا ہو تو ان صحابہ کرام کا تقویٰ دیکھو ۔ اس آیت میں قرآن نے صحابہ کرام کے ایمان وتقویٰ کو اپنی حقانیت کی دلیل بنایا اگر وہاں ایمان وتقویٰ نہ ہو تو قرآن کا دعویٰ بلادلیل رہ گیا ۔

(3) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾

 

اور وہ جو ایمان لائے او رانہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ جنہوں نے رسول کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74)
    اس آیت میں صحابہ کرام، مہاجرین اور انصار کا نام لے کر انہیں سچا مومن ، متقی او رمغفور فرمایا گیا ۔

 

(4) لِلْفُقَرَآءِ الْمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخْرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ وَ اَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوۡنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾


ان فقیر ہجرت والوں کے لئے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ ورسول کی مدد کرتے ہیں وہ ہی سچے ہیں۔(پ28،الحشر:8)
    اس آیت میں تمام مہاجرصحابہ کو نام وپتہ بتا کر سچا کہا گیا ہے یعنی یہ ایمان میں سچے اور اقوال کے پکے ہیں ۔

 

(5) وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَ الْاِیۡمَانَ مِنۡ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوۡنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمْ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤْثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿ۚ۹﴾
 


اور وہ جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جوان کی طرف ہجرت کر کے آئے او راپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں بہت محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا یا گیا وہ ہی کامیاب ہے ۔(پ28،الحشر:9)
    اس آیت میں انصار مدینہ کونام لے کر پتہ بتا کر کامیاب فرمایا گیا۔ معلوم ہواکہ سارے مہاجرین وانصار سچے اور کامیاب ہیں۔

 

(6) لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قَاتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ
 

تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے خرچ او رجہاد کیا وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح خرچ اور جہادکیا اوران سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ہے ۔(پ27،الحدید:10)
    اس آیت نے بتا یا کہ سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے رب تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمالیا ہے لیکن وہ خلفاء راشدین جو فتح مکہ سے پہلے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار رہے وہ بہت درجے والے ہیں ان کے درجہ تک کسی کے وہم وگمان کی رسائی نہیں کیونکہ رب تعالیٰ نے ساری دنیا کو قلیل یعنی تھوڑا فرمایا اور اتنے بڑے عرش کو عظیم یعنی بڑا فرمایا لیکن ان خلفائے راشدین کے درجہ کو چھوٹا نہ کہا،بڑا نہ فرمایا بلکہ اعظم یعنی بہت ہی بڑا فرمایا ۔

(7) وَ سَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی ﴿ۙ۱۷﴾الَّذِیۡ یُؤْتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ﴿ۚ۱۸﴾وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰۤی ﴿ۙ۱۹﴾اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی ﴿ۚ۲۰﴾وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾

 

اور دو زخ سے بہت دور رکھا جائے گا وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جاوے صرف اپنے رب کی رضا چاہتاہے اوربے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا ۔(پ30،اللیل:17۔21)
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھاری قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا،کفار نے حیرت سے کہا کہ شاید حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آپ پر کوئی احسان ہوگا جس کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آپ نے اتنی بڑی قیمت سے خرید کر آزاد کیا۔ ان کفار کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی اس میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حسب ذیل خصوصی صفات بیان ہوئے :
ان کا دوزخ سے بہت دور رہنا ،ان کا سب سے بڑا متقی ہونا یعنی اتقی، ان کابے مثل سخی ہونا، ان کے اعمال طیبہ طاہرہ کاریا سے پاک ہونا خالص رب عزوجل کے لیے ہونا اور جنت میں انہیں رب تعالیٰ کی طر ف سے ایسی نعمتیں ملنا جس سے وہ راضی ہوجاویں۔
لطیفہ: اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿۵﴾ آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجاویں گے۔(الضحٰی:۵)   اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے فرمایا وَ لَسَوْفَ یَرْضٰی ﴿٪۲۱﴾ عنقریب صدیق راضی ہوجاویں گے۔(اللیل:۲۱)  معلوم ہوا کہ آپ کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے  بہت ہی قرب ہے ۔

(9) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ

اے نبی آپ کو اللہ اور آپ کی پیروی کرنے والے یہ مومن کافی ہیں۔(پ10،الانفال:64)
    یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے پر نازل ہوئی جس میں فرمایاگیا کہ حقیقتاً آپ کو اللہ کافی ہے اور عالم اسباب میں عمر کافی ہیں۔

 

(10)وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمْ

جو صحابہ ان نبی کے ساتھی ہیں وہ کافروں پر سخت ،آپس میں نرم ہیں۔(پ26،الفتح:29)

(11) ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنۡجِیۡلِ  ۚ۟ۛ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ؕ

یہ جماعت صحابہ وہ ہیں جن کی مثال تو ریت وانجیل میں اس کھیت سے دی گئی ہے جس نے اپنا پٹھا نکالا... (یہاں تک کہ فرمایا)تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں۔(پ26،الفتح:29)
    اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمہارے صحابہ کے نام کے ڈنکے ہم نے توریت وانجیل میں بجادیئے وہ تو میری ہر ی بھری کھیتی ہیں جنہیں دیکھ کر میں تو خوش ہوتا ہوں اور میرے دشمن رافضی جلتے ہیں۔
     لطیفہ : قرآن کریم نے بعض لوگو ں پر صاف صاف فتویٰ کفر دیا ایک تو نبی کی توہین کرنے والے ، اور دوسرے صحابہ کرام کے دشمن،صحابہ کرام کے دشمنوں پر رب تعالیٰ نے کفر کافتویٰ دیا کسی اور سے نہ دلوایا ۔

 

(12) ثَانِیَ اثْنَیۡنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ

ابو بکر دومیں کے دوسرے ہیں جبکہ وہ غار میں ہیں جب فرماتے تھے رسول اپنے ساتھی سے غم نہ کر ۔(پ10،التوبۃ:40)
    یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اتری، اس میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ جب غار میں یار کولے کر بیٹھے اورمارسے اپنے کو کٹوایا ۔ اس آیت نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحابیت کا صراحۃً اعلان فرمایا ، ان کی صحابیت ایسی ہی قطعی اور یقینی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت او رنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کیونکہ جس قرآن نے تو حید ورسالت کا صراحۃً اعلان کیا ،اسی قرآن نے صدیق کی صحابیت کا ڈنکا بجایا لہذا ان کی صحابیت وعدالت پر ایمان لانا ایساہی ضروری ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانااور ان کی صحابیت کا منکر ایسا ہی بے دین ہے جیسے توحید ونبوت کامنکر ۔

(13) وَلَا تَہِنُوۡا وَلَا تَحْزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعْلَوْنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾

نہ سست پڑو تم لوگ نہ غمگین ہو اورتم ہی بلند ہو اگر تم سچے مومن ہو۔(پ4،اٰل عمران:139)

(14) وَعَدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمۡ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِہِمْ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ؕ

اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے او راچھے کام کئے ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور جمادے گا ان کے لئے ان کا وہ دین جو ان کیلئے پسند کیااور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا ۔(پ18،النور:55)

 

    ان دوآیتوں میں مسلمانوں سے دوشرطوں پر چند وعدے کئے گئے ہیں شرطیں ایمان اورتقویٰ کی ہیں ان سے وعدہ ہے۔(۱)بلندی(۲)خلافت دنیا(۳)خوف کے بعد امن بخشنا (۴) دین کو مضبوط کرنا۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو بلندی بھی دی زمین میں خلافت بھی بخشی، امن بھی عطا کیا اوران کے زمانہ میں دین کو ایسا مضبوط فرمایا کہ آج اس مضبوطی کی وجہ سے اسلام قائم ہے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دونوں شرطیں بھی پوری کیں اور مومن بھی رہے اور پرہیز گار متقی بھی، ورنہ انہیں یہ چار نعمتیں نہ دی جاتیں۔
    یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ قرآن کریم کی بہت سی آیات ان حضرات کے فضائل میں ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ حضرات نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا مظہر ہیں جیسے حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات رب تعالیٰ کے کمال کا نمونہ ہے جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص رب تعالیٰ کے کمال کا انکار ہے ایسے ہی ان کاانکار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا انکار ہے استاد کا زور علمی شاگردو ں کی لیاقت سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر صف اول کی نماز فاسد ہو تو پچھلی صفوں کی نماز درست نہیں ہوسکتی کیونکہ اما م کو دیکھنے والی صف اول ہی ہے، اگر انجن کے پیچھے والا ڈبہ انجن سے کٹ کر رہ جائے تو پچھلے ڈبے کبھی سفر نہیں کرسکتے ، وہ حضرات اسلام کی صف اول ہیں اور ہم آخری صفیں وہ گاڑی کا اگلا ڈبہ ہم پچھلے ۔اگر وہ ایمان سے ر ہ گئے تو ہم کیسے مومن ہوسکتے ہیں؟
               اعتراض: ان آیتوں کے نزول کے وقت تو یہ سب مومن تھے مگر حضور صلی اللہ  تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا حق چھین کر اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے اسلام سے نکل گئے یہ آیات اسوقت کی ہیں بعد سے انہیں کوئی تعلق نہیں۔
     جواب: اس اعتراض کے چند جواب ہیں
    ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اگر خلفاء راشدین کاانجام اچھا نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کے فضائل قرآن شریف میں بیان نہ فرماتا نیز رب تعالیٰ نے ان مذکورہ آیتو ں میں خبر دی کہ یہ دوزخ سے بہت دور رہیں گے، ہم انہیں اتنا دیں گے کہ وہ راضی ہوجاویں گے ہم نے ان سب سے جنت کا وعدہ کرلیا۔ یہ باتیں انجام بخیر سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔
    دوسرے یہ کہ اگر یہ حضرات ایمان سے پھر گئے ہوتے تو اہلبیت اطہار خصوصاً حضرت علی مر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے خلیفہ رسول وہ ہوسکتا ہے جو مومن متقی ہوبلکہ جیسے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صفین میں جنگ کی اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کر بلا میں جان دے دی مگر یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا ،اس وقت بھی وہ جنگ کرتے ۔
    تیسرے یہ کہ جیسے صدیق اکبر وفاروق اعظم وعثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد ان کی خلافتیں میراث کے طور پر ان کی اولاد کو نہ ملیں بلکہ جس پر سب کااتفاق ہوگیا وہ خلیفہ ہوگیا اسی طر ح نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت میں نہ میراث تھی نہ کسی کی ملکیت بلکہ رائے عامہ پر ہی انتخاب ہوا ۔

 

     چوتھے یہ کہ پیغمبر کی میراث مال نہیں بلکہ علم ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:

وَوَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ

او روارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور فرمایا کہ ہم کو پرندوں کی بولی کا علم دیا گیا ۔(پ19،النمل:16)
     دیکھو داؤد علیہ السلام کے بہت بیٹے تھے مگر وارث صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور مال کے نہیں بلکہ علم کے وارث ہوئے اسی لئے نبی کی بیویاں بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث نہ پاسکیں اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے زمانہ خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تقسیم نہ فرمائی ۔
    اعتراض : تم کہتے ہو کہ سارے صحابہ متقی پر ہیز گار ہیں حالانکہ قرآن شریف ا نہیں فاسق کہہ رہا ہے۔ فرماتا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا

اے مومنو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کسی قسم کی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو ۔
    ولید بن عقبہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر خبر دی تھی کہ فلاں قوم نے زکوۃ نہ دی ۔ اس پر یہ آیت اتری جس میں ولید صحابی کو فاسق کہا گیا اور فاسق متقی نہیں ہوسکتا ۔
    جواب : اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ یہاں ان کوفاسق نہ کہا گیا بلکہ ایک قانون بیان کیا گیا کہ آئندہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیقات کرلیا کرو ۔ دوسرے یہ کہ اس خاص وقت میں ان کو فاسق گنہگار کہا گیا صحابی سے گناہ سر زد ہوسکتا ہے وہ
معصوم نہیں ہاں اس پرقائم نہیں رہتے تو بہ کی توفیق مل جاتی ہے جیسے حضرت ماعزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زنا ہوگیا مگر بعد میں ایسی تو بہ نصیب ہوئی کہ سبحان اللہ!
 

Edited by Najam Mirani
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...