Jump to content

یاد گاریں قائم کرنا اور بڑی تا ریخوں پر خوشیاں منانا حکمِ قرآن ہے


Najam Mirani

تجویز کردہ جواب

جس تاریخ یا جس دن میں کبھی کوئی نعمت آئی ہو تا قیامت وہ تاریخ معظم ہوجاتی ہے۔ اس تاریخ میں یادگاریں منانا ، خوشیاں منانا ، خوشی میں عبادتیں کرنا حکم قرآن ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(1) شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔(پ2،البقرۃ:185)

 

(2) اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱﴾ۚۖوَ مَاۤ اَدْرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ؕ﴿۲﴾لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾

بے شک ہم نے قرآن شب قدر میں اتارا اور تمہیں کیا خبر کہ شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(پ30،القدر:1۔3)
    ان آیتو ں سے معلوم ہو اکہ شب قدر اور ماہ رمضان کی اتنی عظمت ہے کہ شب قدر تو ہزار ماہ سے افضل ہوگئی او رماہ رمضان باقی مہینوں سے بہترہوگیا اور اس کانام قرآن میں آیا اس کے سوا کسی مہینہ کا نام قرآن میں نہ آیا محض اس لئے کہ یہ مہینہ اور یہ رات قرآن کے نزول کا وقت ہے قرآن تو ایک دفعہ اتر چکا مگر ان کی یہ عظمت ہمیشہ کیلئے ہوگئی ۔

(3) وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ﴿٪۱۱﴾

اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔(پ30،الضحی:11)

(4) قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾

فرمادو کہ اللہ کے فضل اوراس کی رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ وہ ان کی دھن دولت سے بہتر ہے ۔(پ11،یونس:58)
    ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس تا ریخ میں اللہ کی نعمت ملی ہو اس کی یاد گار مناؤ، خوشیاں مناؤ ۔

(5) وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ اللہِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۵﴾

اے موسیٰ بنی اسرائیل کو اللہ کے دن یاد دلادو جن دنوں میں ان پر نعمتیں اتریں بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے شکرگزار کو ۔(پ13،ابرٰھیم:5)

 

(6) قَالَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلْ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ

عیسیٰ ابن مریم نے عرض کیا کہ یا رب ہم پر آسمان سے دستر خوان اتار کہ وہ ہمارے لئے اگلوں پچھلوں کی عید ہو اور یہ تیری طر ف سے نشانی ہو۔(پ7،المآئدۃ:114)
    ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو انعامات کی تاریخیں یادد لاتے رہوان کی یاد گاریں قائم کرو اور عیسیٰ علیہ السلام نے غیبی دستر خوان کے آنے کی تاریخ کو اپنے اگلے پچھلے سارے عیسائیوں کے لئے عید قرار دیا۔ لہٰذامیلاد شریف، گیارہویں شریف ، بزرگوں کے عرس ، فاتحہ ، چالیسواں ، تیجہ وغیرہ سب جائز ہیں کیونکہ یہ اللہ کی نعمت کی یاد گار یں ہیں او ریاد گاریں منانا حکم قرآنی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

(7) وَ اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ

اللہ کی نعمت یا د کرو جو تم پر ہے ۔(پ6،المآئدۃ:7)
    اعتراض: مسلم وبخاری کی روایت میں ہے کہ جمعہ کا روزہ نہ رکھو۔

(صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب صوم یوم الجمعۃ،الحدیث ۱۹۸۴،ج۱،ص۶۵۲، دار الکتب العلمیۃبیروت)

بعض روایتوں میں ہے کہ جمعہ کو رو زے سے خاص نہ کرو ۔
    معلوم ہوا کہ کسی دن کی تعیین منع ہے ۔ چونکہ میلا د اور عرس میں تاریخ مقرر ہوتی ہے لہٰذا منع ہے۔ (وہابی)
     جواب :اس کا جواب اسی حدیث میںآگے ہے کہ اگر جمعہ کسی ایسی تاریخ میں آجائے جس کے روزے کے تم عادی ہو تو رکھو یعنی اگر کسی کی عادت بارہویں کے روزے کی ہے اور جمعہ بارہویں کو آگیا تو رکھ لے ، نیز فرماتے ہیں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کہ'' صرف جمعہ کو رو زہ نہ رکھے بلکہ آگے پیچھے ایک دن اور بھی ملائے ''معلوم ہوا کہ مقرر کرنا منع نہیں بلکہ جمعہ کے روزہ کی ممانعت ہے ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے۔ کیا وجہ ہے؟ اس کے متعلق علماء کے بہت سے قول ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جمعہ مسلمانوں کی عید ہے اور عید کو روزہ منع ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا روزہ منع ہے یعنی یہ مشابہ عید کے ہے دوسرے یہ کہ جمعہ کا دن کام کاج کا ہے غسل کرنا، کپڑے تبدیل کرنا،جمعہ کی تیاری کرنا،خطبہ سننا ، نماز جمعہ پڑھنا، ممکن ہے کہ روزے کی وجہ سے تکلیف ہو لہٰذا ان کاموں کی وجہ سے روزہ نہ رکھے جیسے حاجی کو نویں تاریخ بقر عید کا روزہ اور حاجی کو بقرعیدکی نماز مکروہ ہے اس لئے کہ وہ دن اس کے کام کے ہیں روزے سے اس کے کاموں میں حرج ہوگا ۔ تیسرے یہ کہ صرف جمعہ کے روزے میں یہود سے مشابہت ہے کہ وہ صرف ہفتہ کا روزہ رکھتے ہیں تم اگر جمعہ کا روزہ رکھو تو آگے پیچھے ایک دن اور ملا لو تا کہ مشابہت نہ رہے۔ چوتھے یہ کہ خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ دو شنبہ کارو زہ کیساہے فرمایاکہ اسی دن ہماری ولادت ہے اسی دن نزول وحی کی ابتداء ہوئی۔ لہٰذا روزہ رکھو اور خود نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ اسی خوشی میں رکھا کہ اس تاریخ میں موسیٰ علیہ السلام کو فر عون سے نجات ملی اگریادگاریں منانابراہوتاتویہ یادگاریں کیوں منائی جاتیں؟
     اعتراض : چونکہ میلا د شریف او رعرس میں لوگ بہت حرام کام بھی کرتے ہیں لہٰذا یہ منع ہے۔
     جواب : قاعدہ غلط ہے کوئی سنت حرام کام کے ملنے سے ناجائز نہیں ہوجاتی نکاح سنت ہے مگر لوگوں نے اس میں ہزار وں خرافات ملادیں تو نکاح کو نہیں روکا جاتا بلکہ ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے۔

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...