Najam Mirani مراسلہ: 19 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 19 مئی 2013 تمہارے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی ! اللہ کے پیاروں کی زبان کن کی کنجی ہے جو ان کے منہ سے نکل جاتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پورا ہوجاتا ہے ۔ اس پر قرآن شریف کی آیتیں گواہ ہیں۔(1) قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ ۚموسی علیہ السلام نے فرمایا اچھا جا تیری سزا دنیا کی زندگی میں یہ ہے کہ تو کہتا پھر یگا کہ چھونہ جانا اور بے شک تیرے لئے ایک وعدے کا وقت ہے جوتجھ سے خلاف نہ ہوگا (پ16،طہ:97)موسیٰ علیہ السلام سامری سے ناراض ہوگئے کیونکہ اس نے بچھڑا بنا کر لوگوں کو مشرک کردیا تھا توآپ کے منہ سے نکل گیا جا تیرے جسم میں یہ تاثیرپیدا ہوجائے گی کہ جس سے تو چھوجاوے تو اسے بھی بخا ر آجاوے او رتجھے بھی ایسا ہی ہواو روہ لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ مجھے کوئی نہ چھونا اور فرمایا کہ یہ تو دنیا کی سزا ہے ۔ آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔(2) وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمْرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسْتَفْتِیٰنِ ﴿ؕ۴۱﴾اور لیکن دوسرا قید ی پس سولی دیا جائیگا او رپھر پرندے اس کا سر کھائیں گے فیصلہ ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے ہو۔(پ12،یوسف:41) یوسف علیہ السلام سے جیل میں ایک قیدی نے اپنا خواب بیان کیا آپ نے تعبیر دی کہ تجھے سولی ہوگی ۔ وہ بولا کہ میں نے خواب تو کچھ بھی نہ دیکھا تھا میں تو مذاق میں کہتا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تو نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو جو میرے منہ سے نکل گیا وہ رب تعالیٰ کے ہاں فیصلہ ہوگیا،پتا لگا کہ ان کی زبان رب کا قلم ہے ۔(1) رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوۡبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿۸۸﴾ موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب فرعونیوں کے مال برباد کردے اور ان کے دل سخت کردے پس یہ نہ ایمان لاویں جب تک کہ درد ناک عذاب دیکھ لیں ۔(پ11،یونس:88) موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے لئے تین بد دعائیں کیں ایک یہ کہ ان کے مال ہلاک ہو جائیں ۔ دوسرے اپنے جیتے جی یہ ایمان نہ لاویں ۔ تیسرے یہ کہ مرتے وقت ایمان لاویں اور پھر ایمان قبول نہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعونیوں کا روپیہ پیسہ، پھل، غلہ سب پتھر ہوگیا اور ایمان کی توفیق زندگی میں نہ ملی ۔اور ڈوبتے وقت فرعون ایمان لایا اور بولا اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ میں حضرت موسی اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں مگر ایمان قبول نہ ہوا۔ دیکھو فرعون کے سواکوئی کافر قوم ایمان لاکر نہ مری جو کلیم اللہ علیہ السلام کے منہ سے نکلا وہ ہی ہو ا۔(1) وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِجب ابراہیم نے عرض کیا کہ مولیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنادے اور یہاں کے باشندوں کوطر ح طر ح کے پھل دے ۔(پ1،البقرۃ:126)(2) وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۪ابراہیم نے دعا کی کہ ہماری اولاد میں ہمیشہ ایک جماعت فرمانبردار رکھ۔(پ1،البقرۃ:128) (3) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِکَاے رب ہمارے اسی مسلم جماعت میں وہ رسول آخری بھیج جوان پر تیری آیتیں تلاوت کرے ۔(پ1،البقرۃ:129)(4) رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسْکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرْعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ ﴿۳۷﴾اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک جنگل میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے رب ہمارے اس لئے کہ نماز قائم رکھیں تو توکچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شائد وہ احسان مانیں ۔(پ13،ابرٰھیم:37)ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی حسب ذیل دعاؤں کا ذکر فرمایا : اس جنگل کو شہر بنادے (۲) شہرامن والا ہو(۳) یہاں کے باشندوں کو روزی اورپھل دے (۴) ہماری اولاد سب کافر نہ ہوجائے ۔ہمیشہ کچھ مسلمان ضرورر ہیں(۵) اس مومن اولاد میں نبی آخر الزمان پیدا ہوں(۶) لوگوں کے دل اس بستی کی طرف مائل فرمادے۔(۷)یہ لوگ نماز قائم رکھیں ۔ آج بھی دیکھ لو کہ یہ سات دعائیں کیسی قبول ہوئیں ۔ وہاں آج تک مکہ شریف آبا د ہے آپ کی ساری اولاد کا فر نہ ہوئی سید صاحبان سب گمراہ نہیں ہوسکتے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسی مومن جماعت میں پیدا ہوئے ۔ وہاں باوجود یکہ کھیتی باڑی نہیں مگر رزق اورپھل کی کثرت ہے ہر جگہ قحط سے لوگ مرتے ہیں مگر وہاں آج تک کوئی قحط سے نہیں مرا مسلمانوں کے دل مکہ شریف کی طر ف کیسے مائل ہیں وہ دن رات دیکھنے میں آرہا ہے کہ فاسق وفاجر بھی مکہ پر فدا ہیں۔ نوٹ ضروری : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے منہ سے نکل گیا کہ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ بے کھیتی والاجنگل تا ثیر تو دیکھو کہ اب تک وہ جگہ ریتلی ہی ہے کہ وہاں کھیتی ہوسکتی ہی نہیں۔ یہ ان کی زبان کی تاثیر ہے ۔ اور کیوں نہ ہو رب تعالیٰ نے فرمایا: اپنالڑکا ذبح کردو ۔عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے کو نمرو د کی آگ میں ڈال دو۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ فرمایا: اپنے بچے بیوی کو ویران جنگل میں بے آب ودانہ چھوڑ آؤ ۔ عرض کیا: بہت اچھا۔ یہ نہ پوچھا کہ کیوں ؟ جب وہ رب تعالیٰ کی اتنی مانتے ہیں تو رب تعالیٰ بھی ان کی مانتا ہے ۔خلیل نے کہاجلیل نے مانا غرضکہ انکی زبان کن کی کنجی ہے ۔ (1) وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا ﴿۲۶﴾اِنَّکَ اِنۡ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنۡ دَخَلَ بَیۡتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا تَبَارًا ﴿٪۲۸﴾ اور نوح نے عرض کیا کہ اے رب میرے زمین پر کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ،بے شک اگر تو انہیں چھوڑ ے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور نہ جنیں گے مگر بدکار ناشکرکو۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا (پ29،نوح:26۔28) مگر تباہی سورہ نوح کی ان آخری تین آیتوں میں نوح علیہ السلام کی تین دعائیں ذکر ہوئیں۔سارے کافروں کوہلاک کردے کہ اب ان کی اولاد بھی کافر ہی ہوگی۔ میری اور میرے ماں باپ کی مغفرت کر اور جو میرے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی بخش دے۔ ان دعاؤں کو رب تعالیٰ نے حرف بحرف قبول فرمایا ۔سارے عالم کے کافر غرق کردیے گئے ۔آپ کے ماں باپ کی مغفرت کی گئی اور جس نے کشتی میں پناہ لی اسے بچالیاگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے نبوت کی عینک سے ان کی ہونے والی اولاد تک کا حال معلوم کرلیاکہ وہ کافر ہی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ان حضرات کی زبانیں ''کن'' کی کنجی ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جو دعاارادہ الٰہی کے خلاف ہوتی ہے اس سے انہیں روک دیا جاتاہے تا کہ ان کی زبان خالی نہ جاوے اور یہ انتہائی عظمت ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: (1) یٰۤـاِبْرٰہِیۡمُ اَعْرِضْ عَنْ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمْ اٰتِیۡہِمْ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرْدُوۡدٍ ﴿۷۶﴾اے ابراہیم اس دعا سے اعراض کرو قوم لوط پر عذاب آنے والا ہے نہیں لوٹ سکتا ۔(پ12،ھود:76)(2) وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕآپ منافقین میں سے کسی پر جو مرجائے نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔(پ10،التوبۃ:84) ابراہیم علیہ السلام نے قوم لوط کے لئے دعا فرمائی لیکن چونکہ ان کی نجات ارادہ الٰہی کے خلاف تھی لہٰذا انہیں اس سے روک دیا گیا ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو منافق پر جنازہ سے روک دیا گیا کیونکہ اس نماز میں میت کے لئے دعا بخشش ہوتی ہے اور منافقین کی بخشش ارادہ الٰہی کے خلاف ہے لہٰذا آپ کو اور آپ کے صدقے سے سب کو اس سے منع کردیاگیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات کی دعا قبول ہوتو بھی ان کی عظمت اور اگر ان کی دعا کسی وجہ سے قبول نہ بھی ہوسکے تو بھی ان کی عظمت ہے ، ان کی مثل کوئی ہوسکتا ہی نہیں ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔