Najam Mirani مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 (ترمیم شدہ) عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں، نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں نہ احکام میں، نہ اسماء میں ، واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔) عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ ) عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ ) عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل۔ عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔) عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ ) عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ ) عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے ، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔ عقیدہ (۱۱): و ہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ ) عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔ ) عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ) عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔) عقیدہ (۱۶): حیا۱ت، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلا۵م، علم۶، اِرادہ ۷ اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے، حادث و مخلوق نہیں، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ھمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے اُسے کافر کہا، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ ) عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ھمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ھمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ھمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ھمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ھمارا حفظ کرنا حادث ہے اور جو ہم نے حفظ کیا قدیم یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ ) شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت سب کو جانتا ہے ، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔ علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔ عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔) عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے ، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں۔ ) عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ ) عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔ مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔ اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔ اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔ وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی ہوئے کہ اپنے رب سے جھگڑنے لگے، اُن کا رب فرماتا ہے۔ ( یُجَادِلُنَا فِیۡ قَوْمِ لُوۡطٍ ﴿ؕ۷۴﴾ (پ۱۲، ھود: ۷۴ )''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں۔'' یہ قرآنِ عظیم نے اُن بے دینوں کا رَد فرمایا جو محبوبانِ خدا کی بارگاہِ عزت میں کوئی عزت و وجاہت نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اس کے حضور کوئی دَم نہیں مار سکتا، حالانکہ اُن کا رب عزوجل اُن کی وجاہت اپنی بارگاہ میں ظاہر فرمانے کو خود ان لفظوں سے ذکر فرماتا ہے کہ : ''ہم سے جھگڑنے لگا قومِ لوط کے بارے میں''، حدیث میں ہے: شب ِمعراج حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص اﷲ عزوجل کے ساتھ بہت تیزی اور بلند آواز سے گفتگو کر رہا ہے، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبریل امین علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت فرمایا :''کہ یہ کون ہیں؟ '' عرض کی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام، فرمایا: ''کیا اپنے رب پر تیز ہو کر گفتگو کرتے ہیں؟'' عرض کی: اُن کا رب جانتا ہے کہ اُن کے مزاج میں تیزی ہے۔ جب آیہ کریمہ (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ) ــ نازل ہوئی کہ ''بیشک عنقریب تمھیں تمھارا رب اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔'' حضور سیّدالمحبوبین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذاً لاَّ أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِّنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ)).( ''التفسیر الکبیر''، پ۳۰، الضحی: تحت الآیۃ: ۵، ج۱۱، ص۱۹۴ )''ایسا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا، اگر میرا ایک اُمتی بھی آگ میں ہو۔'' یہ تو شانیں بہت رفیع ہیں، جن پر رفعت عزت وجاہت ختم ہے۔ صلوات اﷲ تعالیٰ و سلامہ علیہم مسلمان ماں باپ کا کچّا بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے اُس کے لیے حدیث میں فرمایا: کہ ''روزِ قیامت اﷲ عزوجل سے اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے ایسا جھگڑے گا جیسا قرض خواہ کسی قرض دار سے، یہاں تک کہ فرمایا جائے گا: ((أَیُّـھَا السِّقْطُ المُرَاغِمُ رَبَّـہٗ)).(''سنن ابن ماجہ''، أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء فیمن أصیب بسقط، الحدیث: ۱۶۰۸، ج۲، ص۲۷۳. ''اے کچے بچے! اپنے رب سے جھگڑنے والے! اپنے ماں باپ کا ہاتھ پکڑ لے اور جنت میں چلا جا۔'' خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، مگر ایمان والوں کے لیے بہت نافع اور شیاطین الانس کی خبا ثت کا دافع تھا، کہنا یہ ہے کہ قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ علیہ الصّلاۃ والسلام اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا:''اے ابراہیم! اس خیال میں نہ پڑو ... بیشک اُن پر وہ عذاب آنے والاہے جو پھرنے کا نہیں۔'' اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں، اُس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ''میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا: ((إِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ القَضَاءَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ)).( ''کنز العمال''، کتاب الأذکار، ج۱، الجزء الثاني، ص۲۸، الحدیث:۳۱۱۷. بألفاظ متقاربۃ. ''بیشک دُعا قضائے مُبرم کو ٹال دیتی ہے۔'' مسئلہ (۱): قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سببِ ھلاکت ہے، صدیق وفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنھما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ما و شما کس گنتی میں ...! اتنا سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے آدمی کو مثلِ پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس و حرکت نہیں پیدا کیا، بلکہ اس کو ایک نوعِ اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے، بُرے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں، کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسی قسم کے سامان مہیّا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اُس پر مؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا، دونوں گمراہی ہیں۔ ) مسئلہ (۲): بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِالٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے ، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔ ) عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔ عقیدہ (۲۶): دنیا کی زندگی میں اﷲ عزوجل کا دیدار نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سُنّی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں، یہ دیگر انبیا علیہم السلام بلکہ اولیا کے لیے بھی حاصل ہے۔ ھمارے امامِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں سو ۱۰۰ بار زیارت ہوئی۔ ) عقیدہ (۲۷): اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اُس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اُس کا دیکھنا اِن سب باتوں سے پاک ہوگا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہوگا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اُس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اُس تک عقل رسا نہیں، اور وقتِ دیدار نگاہ اُس کا اِحاطہ کرے، یہ محال ہے۔) عقیدہ (۲۸): وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، کسی کو اُس پر قابو نہیں اور نہ کوئی اُس کے ارادے سے اُسے باز رکھنے والا۔ اُس کو نہ اُونگھ آئے نہ نیند، تمام جہان کا نگاہ رکھنے والا ، نہ تھکے، نہ اُکتائے ، تمام عالم کا پالنے والا ماں باپ سے زیادہ مہربان، حلم والا۔ اُسی کی رحمت ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ، اُسی کے لیے بڑائی اور عظمت ہے۔ ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے صورت بنانے والا ، گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، قہر و غضب فرمانے والا ، اُس کی پکڑ نہایت سخت ہے ، جس سے بے اُس کے چھڑائے کوئی چھوٹ نہیں سکتا۔ وہ چاہے تو چھوٹی چیز کو وسیع کر دے اور وسیع کو سمیٹ دے ، جس کو چاہے بلند کر دے اور جس کو چاہے پست، ذلیل کو عزت دیدے اور عزت والے کو ذلیل کر دے ، جس کو چاہے راہِ راست پر لائے اور جس کو چاہے سیدھی راہ سے الگ کر دے ، جسے چاہے اپنا نزدیک بنالے اور جسے چاہے مردود کر دے، جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے، وہ جو کچھ کرتا ہے یا کریگا عدل وانصاف ہے ، ظلم سے پاک و صاف ہے نہایت بلند و بالا ہے ، وہ سب کو محیط ہے اُس کا کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا، نفع و ضرر اُسی کے ہاتھ میں ہیں، مظلوم کی فریاد کو پہنچتا اور ظالم سے بدلا لیتا ہے، اُس کی مشیت اور اِرادہ کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ، مگر اچھے پر خوش ہوتا ہے اور بُرے سے ناراض، اُس کی رحمت ہے کہ ایسے کام کا حکم نہیں فرماتا جو طاقت سے باہر ہے۔ اﷲ عزوجل پر ثواب یا عذاب یا بندے کے ساتھ لطف یا اُس کے ساتھ وہ کرنا جو اُس کے حق میں بہتر ہو اُس پر کچھ واجب نہیں۔ مالک علی الاطلاق ہے، جو چاہے کرے اور جو چاہے حکم دے، ہاں! اُس نے اپنے کرم سے وعدہ فرما لیا ہے کہ مسلمانوں کوجنت میں داخل فرمائے گا اور بمقتضائے عدل کفّار کو جہنم میں ، اور اُس کے وعدہ و وعید بدلتے نہیں ، اُس نے وعدہ فرمالیا ہے کہ کفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا۔) عقیدہ (۲۹): اُس کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہیں، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اُس کے فعل کے لیے غرض نہیں، کہ غرض اُس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے، نہ اُس کے فعل کے لیے غایت، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے اور نہ اُس کے افعال علّت و سبب کے محتاج، اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق عالَمِ اسباب میں مسبّبات کو اسباب سے ربط فرمادیا ہے، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، آ گ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے، وہ چاہے تو آنکھ سُنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں دن کو پہاڑ نہ سُوجھے، کروڑآگیں ہوں ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔ کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو کافروں نے ڈالا...! کوئی پاس نہ جا سکتا تھا، گوپھن میں رکھ کر پھینکا، جب آگ کے مقابل پہنچے، جبریلِ امین علیہ الصلاۃ والسلام حاضر ہوئے اور عرض کی: ابراہیم کچھ حاجت ہے؟ فرمایا: ہے مگر نہ تم سے۔ عرض کی: پھر اُسی سے کہیے جس سے حاجت ہے، فرمایا:''عِلْمُہٗ بِحَالِيْ کَفَانِي عَنْ سُؤَالِيْ''.( ''ملفوظات ''، حصہ ۴، ص ۴۶۲ ۔ یعنی: اس کا میرے حال کو جاننا یہی مجھے کفایت کرتا ہے میرے سوال کرنے سے اظہارِ احتیاج خود آنجاچہ حاجت ست۔ (اپنی حاجت کے اِظہار کی وہاں کیا حاجت ہے! ؎ ارشاد ہوا: (یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ ) پ۱۷، الأنبیآء : ۶۹. ''اے آگ! ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا ابراہیم پر۔'' اس ارشاد کو سُن کر روئے زمین پر جتنی آگیں تھیں سب ٹھنڈی ہوگئیں کہ شاید مجھی سے فرمایا جاتا ہو اور یہ تو ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ علما فرماتے ہیں کہ اگر اس کے ساتھ (وَسَلٰمًا) کا لفظ نہ فرما دیا جاتا کہ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا تو اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ اُس کی ٹھنڈک ایذا دیتی۔ (بحوالہ بہارِ شریعت حصہ اول عقائد کا بیان ) Edited 11 مئی 2013 by Najam Mirani اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔