Jump to content

۔۔۔حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے آنے والے نبی کو 4 مرتبہ نبی اللہ کے خطاب سے نوا


Sher Jaan

تجویز کردہ جواب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


براۓ مہربانی مجھے اس بارے میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں، تاکہ لوگوں کو ان فریب کاروں کے دھوکے سے بچایا جا سکے۔


آپ معزز حضرات کے جواب کا منتظر ہوں۔


post-14570-0-11442500-1365350165.jpg

Link to comment
Share on other sites

تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

جناب شیر جان صاحب یہ حدیث قادیانی لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے پیش کرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو اسی حدیث میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ (نبی اللہ عیسیٰ) نہ کہ کسی جھوٹے مسیح موعود کے بارے میں۔ تو جناب اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ روایت عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام کے بارے میں ہے جو کہ نبی کریم ﷺ سے پہلے تشریف لا چکے ہیں اور ان کو پہلے نبوت مل چکی ہے۔

قادیانی تو اس حدیث کے منکر ہیں کیونکہ اس حدیث سے ظاف ظاہر ہے کہ وہی عیسیٰ ابن مریم علیہ سلام تشریف لائیں گے جو پہلے بنی اسرائیل کی طرف آ چکے ہیں لیکن قادیانی کہتے ہیں کہ معاذ اللہ عیسیٰ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں۔

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو بدستور نبی ہوں گے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ان کی شریعت منسوخ ہوگئی اور ان کی نبوت کا دور ختم ہوگیا۔ اس لئے جب وہ تشریف لائیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ ان کی تشریف آوری ختم نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ نبی آخر الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکی تھی۔

 

خود جناب مرزا صاحب کو بھی اس کا اقرار ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

“مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجے کی پیش گوئی ہے، جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔” (ازالہ اوہام، روحانی خزائن ج:۳ ص:۴۰۰)

 

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

 

“اس امر سے دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے، بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا، اور یہ پیش گوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے۔”

 

“یہ خبر مسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانے میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہ ہوگی کہ اس کے تواتر سے انکار کیا جائے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کرکے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزارہا سے کچھ کم نہ ہوں گی۔ ہاں یہ بات اس شخص کو سمجھانا مشکل ہے جو اسلامی کتابوں سے بالکل بے خبر ہے۔” (شہادة القرآن ص:۲، روحانی خزائن ج:۶ ص:۲۹۸)

 

مرزا صاحب، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی احادیث کو متواتر اور امت کے اعتقادی عقائد کا مظہر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

“پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار ٹھہر گئی تھیں، ان کو قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے۔” (شہادة القرآن ص:۵، روحانی خزائن ج:۶ ص:۳۰۱)

 

جناب مرزا صاحب کے یہ ارشادات مزید تشریح و وضاحت کے محتاج نہیں، تاہم اس پر اتنا اضافہ ضرور کروں گا کہ:

 

۱:…احادیثِ نبویہ میں (جن کو مرزا صاحب قطعی متواتر تسلیم فرماتے ہیں)، کسی گمنام “مسیح موعود” کے آنے کی پیش گوئی نہیں کی گئی، بلکہ پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قربِ قیامت میں دوبارہ نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ پوری امتِ اسلامیہ کا ایک ایک فرد قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں صرف ایک ہی شخصیت کو “عیسیٰ علیہ السلام” کے نام سے جانتا پہچانتا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بنی اسرائیل میں آئے تھے، اس ایک شخصیت کے علاوہ کسی اور کے لئے “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام” کا لفظ اسلامی ڈکشنری میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔

 

۲:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ میں جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا عقیدہ متواتر رہا ہے، اس طرح ان کی حیات اور رفع آسمانی کا عقیدہ بھی متواتر رہا ہے، اور یہ دونوں عقیدے ہمیشہ لازم و ملزوم رہے ہیں۔

 

۳:…جن ہزارہا کتابوں میں صدی وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا لکھا ہے، ان ہی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا انکار مرزا صاحب کے بقول “دیوانگی اور جنون کا ایک شعبہ ہے” تو ان کی حیات کے انکار کا بھی یقینا یہی حکم ہوگا۔

 

دوسری حدیث سے بھی قادیانیوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔

اس کا جواب درج ذیل ہے۔

 

post-1668-0-70839800-1365365433.gif

 

post-1668-0-18978200-1365365710.gif

Link to comment
Share on other sites

  • 1 month later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...