Zulfi.Boy مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔ (آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم ص51 وسندہ حسن) امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے (امام) احمد (بن حنبل)سے پوچھا: کیا (امام) اوزائی، مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اپنے دین میں، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔۔۔الخ (مسائل ابی داودص277 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا: اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح) سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: "میں بحمدللہ متعصب نہیں ہوں لیکن میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ میرے فتووں کی بنیاد قال اللہ اور قال الرسول پر ہے حنابلہ یا دوسروں کی تقلید پر نہیں" (المجلة رقم806 تاریخ 25 صفر 1416 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرمایا: اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلم کا نہیں ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ جلد ۲۲ص۹۴۲) فقہ حنفی کے ایک اہم ستون ملا عینی حنفی نے کہا: پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے (البنایة شرح الھدایہ جلد۱ ص۷۱۳) اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sher-e-Raza مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 Assalam-o-Alaikum Dear Brother Wahabi Saudi Mufti Bin Baaz Ko r.t.a. Na Likho Q Ke Usne 2005 Ya 2006 Ke Haj Me Jo Hajio Ko Books Di Unme Likha Tha Allah Ke Naam Ke Sath Ism-e-Mohammad sallaho alehe wassalam Aa Jaye To Ye Shirk Hai.... 2nd: Ibn-e-Taimia Sahab Hum Par Nahi Wahabio Par Hujjat Hain... 3rd: Imam Shafai r.t.a. Or Ahmed Bin Hambal r.t.a. Ki Taqleed Hum Nahi Karte Al Batta Aqeede Me Hum Unke Muqalid Hain...!!! 4rth: Imam-e-Aazam r.a. Ki Taqleed Par Main Nexy Post Me Share Karta Hoon I Hope U'll Get Ur Anser...!!! اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sher-e-Raza مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 (ترمیم شدہ) Edited 5 فروری 2013 by Sher-e-Raza 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 5 فروری 2013 Author Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 sory mene ibne tayyima ka dekha nahi tha,, aur imame azam ka quol ke امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا: اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ iska jawab nahi hai isme, ye kitab mene pehle se parhi hui hai.... aur iska jawab zaroori hai اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sher-e-Raza مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 امام ابو حنیفہ کی کتابیں! امام ابو حنیفہ کی طرف تین کتابیں اور دو رسالے منسوب ہیں، وہ یہ ہیں : 1 الفقہ الأکبر 2 العالم والمتعلّم 3 کتاب الحیل 4 الوصیّۃ 5 رسالۃ إلی عثمان البتّی ان میں سے کتاب الحیل کے علاوہ کوئی بھی کتاب امام صاحب سے ثابت نہیں۔ محض جھوٹی نسبت کی بنا پر مشہور ہیں۔ان کا تفصیل جائزہ پیش خدمت ہے : 1 الفقہ الأکبر : (ا) اس کی ایک سند یہ ہے : محمّد بن مقاتل الرازي، عن عصام بن یوسف، عن حمّاد بن أبي حنیفۃ، عن أبي حنیفۃ .کسی کتاب کی نسبت صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنف تک با سند صحیح ثابت ہو، اب ہم اس کتاب کی سند کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے راویوں حالات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں : 1 محمد بن مقاتل رازی کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ (المغني في الضعفاء : 2/635)اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ (تقریب التہذیب : 6319)نے ''ضعیف'' کہا ہے۔اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں، نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : وَہُوَ مِنَ الضُّعَفَاءِ الْمَتْرُوکِینَ . ''یہ راوی متروک درجے کے ضعیف راویوں میں سے ہے۔''(تاریخ الإسلام للذہبي : 5/1247) 2 عصام بن یوسف بلخی راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَقَدْ رَوٰی عِصَامٌ ہٰذَا عَنِ الثَّوْرِيِّ وَعَنْ غَیْرِہٖ أَحَادِیثَ لَا یُتَابَعُ عَلَیْہَا .''اس عصام نے امام سفیان ثوری اور دیگر اساتذہ سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی کسی نے متابعت نہیں کی۔'' (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 5/371، وفي نسخۃ : 5/2008) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَکَانَ صَاحِبَ حَدِیثٍ، ثَبْتًا فِي الرِّوَایَۃِ، رُبَّمَا أَخْطَأَ . ''یہ محدث تھا اور روایت میں قابل اعتماد تھا، کبھی کبھار غلطی کر لیتا تھا۔''(الثقات لابن حبان : 8/521) امام خلیلی فرماتے ہیں : وَہُوَ صَدُوقٌ . ''یہ سچا راوی ہے۔'' (الإرشاد للخلیلي : 3/937) تنبیہ : حافظ ابن حجررحمہ اللہ ، امام ابن سعد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : کَانَ عِنْدَہُمْ ضَعِیفًا فِي الْحَدِیثِ . ''یہ راوی محدثین کرام کے ہاں حدیث کے معاملے میں کمزور تھا۔''(لسان المیزان لابن حجر : 4/168) لیکن یہ حوالہ طبقات ابن سعد سے نہیں مل سکا۔ 3 حماد بن ابی حنیفہ''ضعیف'' راوی ہے۔ اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : لَا أَعْلَمُ لَہ، رِوَایَۃً مُسْتَوِیَۃً فَأَذْکُرَہَا . ''میں اس کی ایک بھی درست روایت نہیں جانتا جسے ذکر کر سکوں۔''(الکامل لابن عدي : 2/253، وفي نسخۃ : 2/669) نیز فرماتے ہیں : وَإِسْمَاعِیلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِیفَۃَ لَیْسَ لَہ، مِنَ الرِّوَایاَتِ شَيْئٌ، لَیْسَ ہُوَ، وَلَا أَبُوہُ حَمَّادٌ، وَلَا جَدُّہ، أَبُو حَنِیفَۃَ مِنْ أَہْلِ الرِّوَایَاتِ، وَثَلَاثَتُہُمْ قَدْ ذَکَرْتُہُمْ فِي کِتَابِي ہٰذَا فِي جُمْلَۃِ الضُّعَفَاءِ . ''اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ اسماعیل بن حماد ، اس کے والد حماد اور اس کے دادا ابوحنیفہ ، تینوں ہی احادیث کے قابل (محدث) نہیں تھے۔ (یہی وجہ ہے کہ)میں نے ان تینوں کو اپنی کتاب میں ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔'' (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 1/314) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضَعَّفَہُ ابْنُ عَدِيٍّ وَغَیْرُہ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ . ''اسے امام ابن عدی وغیرہ نے حافظے کی کمزوری کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔'' (میزان الاعتدال للذہبي : 1/590) یہ تو تھا کتاب کی سند کا حال۔ علمی دنیا میں دل کیسے مطمئن ہو سکتا ہے کہ یہ تصنیف امام ابوحنیفہ کی ہے؟ یہ جھوٹی نسبت ہے ، اسی لیے محدثین اور علمائے حق نے اس کی طرف التفات تک نہیں کیا۔ پھر یہ پانچ چھ صفحات پر مشتمل رسالہ گمراہی و ضلالت سے لبریز ہے۔اس میں گمراہ کن اشعری عقیدہ درج ہے۔ ملا علی قاری حنفی معتزلی نے اس کی شرح میں معتزلی عقیدہ کا اضافہ کر کے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اس میں اہل سنت والجماعت ، اہل حق کے عقائد کے موافق کوئی بات نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ جہالت و ضلالت اور کذب و زُور کا پلندہ ہے۔ 2 (ب) اس کی دوسری سند یہ ہے : الحسین بن علي الکاشغري، عن أبي مالک نصران بن نصر الختلي، عن أبي الحسن علي بن أحمد الفارسي، عن نصر بن یحیٰی، عن أبي مطیع . (مقدمۃ کتاب العالم والتعلّم للکوثري) اس کے راویوں کا مختصر حال بھی ملاحظہ ہو : 1 حسین بن علی کاشغری سخت جھوٹا راوی ہے۔یہ خود احادیث گھڑ لیتا تھا۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مُتَّہَمٌ بِالْکِذْبِ . ''اس پر جھوٹ کا الزام ہے۔''(میزان الاعتدال : 1/544) حافظ سمعانی فرماتے ہیں : یَضَعُ الْحَدِیثَ . ''یہ خود حدیث گھڑ لیتا ہے۔''(لسان المیزان لابن حجر : 2/305) ابن نجار کہتے ہیں : کَانَ شَیْخًا صَالِحًا مُتَدَیِّنًا، إِلَّا أَنَّہ، کَتَبَ الْغَرَائِبَ، وَقَدْ ضَعَّفُوہُ وَاتَّہَمُوہُ بِالْوَضْعِ . ''یہ نیک اور دیندار شیخ تھا لیکن اس نے منکر روایات لکھیں۔ محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا اور اس کو حدیثیں گھڑنے کے ساتھ متہم کیا۔''(لسان المیزان : 3/305) 2 نصران بن نصر ختلی راوی ''مجہول'' ہے۔ اس کی توثیق تو درکنار اس کا ذکر تک کہیں سے نہیں ملتا۔ 3 علی بن احمد فارسی راوی بھی ''مجہول''ہے۔کتب ِ رجال میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا۔ 4 نصر بن یحییٰ بلخی راوی بھی نامعلوم ہے۔اس کا بھی رجال کی کتب میں نام و نشان نہیں۔ 5 ابو مطیع حکم بن عبد اللہ بلخی راوی سخت ترین مجروح اور ''ضعیف'' ہے۔ ثابت ہوا کہ فقہ اکبر جھوٹی کتاب ہے جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کر دی گئی ہے۔ لہٰذا جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ : ''بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی تصنیف نہیں اور خصوصاً الفقہ الأکبر ان کی نہیں، لیکن یہ ان حضرات کا نِرا وہم ہے۔'' (مقام أبی حنیفہ از صفدر، ص : 108) معلوم ہوا کہ فقہ اکبر کو امام صاحب کی تصنیف قرار دینا صفدر صاحب کا ''نِرا وہم'' ہے۔ 2 العالم والمتعلّم : اس کتاب کی بھی نسبت امام ابوحنیفہ کی طرف بالکل غلط ہے۔ اس کی سند یہ ہے : أبو محمّد الحارثيّ البخاريّ، عن محمّد بن یزید، عن الحسن بن صالح، عن أبي مقاتل، عن أبي حنیفۃ . (مقدمۃ کتاب العالم والمتعلّم للکوثري) اس سند کے راویوں کے مختصر حالات یہ ہیں : 1 ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب حارثی بخاری سخت مجروح راوی ہے۔ امام ابو زرعہ احمد بن حسین رازی رحمہ اللہ (م :357ھ) فرماتے ہیں : ضَعِیفٌ . ''یہ ضعیف راوی تھا۔'' (سوالات السہمي للدارقطني، ص : 228، ت : 318، تاریخ بغداد للخطیب : 10/127) علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں : قَالَ أَبُو سَعِیدٍ الرُّؤَاسُ : یُتَّہَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ . ''ابو سعید رواس کا کہنا ہے کہ یہ متہم بالکذب راوی تھا۔'' (میزان الاعتدال للذہبي : 4/496) احمد سلیمانی کہتے ہیں : کَانَ یَضَعُ ہٰذَا الْإِسْنَادَ عَلٰی ہٰذَا الْمَتْنِ، وَہٰذَا الْمَتْنَ عَلٰی ہٰذَا الْإِسْنَادِ . ''یہ شخص ایک سند کو دوسرے متن کے ساتھ اور ایک متن کو دوسری سند کے ساتھ لگا دیتا تھا۔''(میزان الاعتدال : 4/496) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَہٰذَا ضَرْبٌ مِّنَ الْوَضْعِ . ''ایسا کرنا حدیث گھڑنے کی ایک قسم ہے۔''(میزان الاعتدال : 4/496) امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہُوَ صَاحِبُ عَجَائِبَ وَأَفْرَادَ عَنِ الثِّقَاتِ . ''یہ ثقہ راویوں سے عجیب و غریب روایات بیان کرنے والا شخص تھا۔'' (میزان الاعتدال : 4/496) حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَاحِبُ عَجَائِبَ وَمَنَاکِیرَ وَغَرَائِبَ . ''یہ شخص عجیب وغریب اور منکر روایات بیان کرنے والا تھا۔'' (تاریخ بغداد للخطیب : 10/127) نیز فرماتے ہیں : وَلَیْسَ بِمَوْضِعِ الْحُجَّۃِ . ''یہ حجت پکڑنے کے قابل نہیں۔''(تاریخ بغداد للخطیب : 10/127) حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یُعْرَفُ بِالْـأُسْتَاذِ، لَہ، مَعْرِفَۃٌ بِہٰذَا الشَّأْنِ، ہُوَ لَیِّنٌ، ضَعَّفُوہُ، یَأْتِي بِأَحَادِیثَ یُخَالَفُ فِیہَا، حَدَّثَنَا عَنْہُ الْمَلَاحِمِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ الْبَصِیرِ بِعَجَائِبَ . ''یہ راوی استاذ کے نام سے معروف ہے۔ یہ علم حدیث کی معرفت رکھتا تھا۔ لیکن کمزور تھا ، محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ ایسی احادیث بیان کرتا ہے جن میں ثقہ راوی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے ملاحمی اور احمد بن محمد بن حسین بصیر نے منکر روایات بیان کی ہیں۔''(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی : 3/185) یہ تو استاذ حارثی کا حال ہے جس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ 2 محمد بن یزید ''مجہول'' اور نامعلوم راوی ہے۔کتب ِ رجال میں اس کا ذکر نہیں مل سکا۔ 3 حفص بن اسلم سمرقندی ''کذاب'' اور ''وضّاع'' راوی ہے۔ امام قتیبہ بن مسلم فرماتے ہیں :میںنے ابو مقاتل سے اس کی ایک حدیث کے بارے میں کہا : یَا أَبَا مُقَاتِلٍ ! ہُوَ مَوْضُوعٌ ؟، قَالَ : بَابَا، ہُوَ فِي کِتَابِي، وَتَقُولُ : ہُوَ مَوْضُوعٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ، وَضَعُوہُ فِي کِتَابِکَ . ''اے ابو مقاتل! کیا یہ من گھڑت ہے؟ اس نے کہا : بابا! یہ میری کتاب میں درج ہے اور تم کہتے ہو کہ کیا یہ موضوع ہے؟ میں نے کہا : ہاں ،جھوٹے لوگوںنے اس حدیث کو تیری کتاب میں ڈال دیا ہے۔''(الکامل لابن عدي : 2/393,392، وسندہ، صحیحٌ) احمد سلیمانی کہتے ہیں : فِي عِدَادِ مَنْ یَّضَعُ الْحَدِیثَ . ''اس راوی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خود احادیث گھڑ لیتےتھے۔'' (لسان المیزان لابن حجر : 2/323) امام جوزجانی کہتے ہیں : کَانَ یُنْشِیئُ لِلْکَلَامِ الْحَسَنِ إِسْنَادًا . '' یہ راوی اچھی بات کو کوئی سند لگا کر حدیث بنا دیتا تھا۔''(أحوال الرجال : 345) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَیْسَ ہُوَ مِمَّنْ یُّعْتَمَدُ عَلٰی رِوَایَاتِہٖ . ''یہ ان راویوں میں سے نہیں جن کی روایات پر اعتماد کیا جاسکے۔'' (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 2/394) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یَأْتِي بِالْـأَشْیَاءِ الْمُنْکَرَۃِ الَّتِي یُعْلَمُ مِنْ کُتُبِ الْحَدِیثِ أَنَّہ، لَیْسَ لَہَا أَصْلٌ یُّرْجَعُ إِلَیْہِ . ''یہ ایسی منکر روایات بیان کرتا ہے کہ کتب ِ حدیث کی طرف رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ایسی اصل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔''(المجروحین : 1/256) امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدَّثَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، وَأَیُّوبَ السُّخْتَیَانِيِّ، وَمِسْعَرٍ، وَغَیْرِہٖ بَأَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃٍ . ''اس نے عبید اللہ ، امام ایوب سختیانی ، مسعر وغیرہ کی طرف منسوب کر کے من گھڑت احادیث بیان کی ہیں۔'' (المدخل إلی الصحیح للحاکم، ص : 131,130) امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کو ''غیرقوی'' قرار دیا ہے۔ (شعب الإیمان للبیہقي : 6/187، ح : 7861) حافظ ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدَّثَ عَنْ أَیُّوبَ السُّخْتَیَانِيِّ، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَمِسْعَرٍ بِالْمَنَاکِیرِ . ''اس نے امام ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور مسعر کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں۔'' (الضعفاء للأصبہاني : 52) حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔(الکشف الحثیث : 718) نیز فرماتے ہیں : أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ . ''یہ ایک متروک راوی ہے۔'' (المغني للذہبي : 2/809) مزید فرماتے ہیں : وَہُوَ مُتَّہَمٌ، وَاہٍ . ''یہ متہم بالکذب اور کمزور راوی ہے۔''(تاریخ الإسلام للذہبي : 6/458) ابن طاہر مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں : مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ . ''یہ متروک الحدیث راوی ہے۔''(معرفۃ التذکرۃ في الأحادیث الموضوعۃ : 1/214) البتہ اس کے بارے میں حافظ خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَشْہُورٌ بِالصِّدْقِ وَالْعِلْمِ . ''یہ شخص صدق اور علم کے ساتھ مشہور ہے۔''(الإرشاد للخلیلي : 3/975) یہ حافظ خلیلی رحمہ اللہ کا تسامح ہے، انہیں اس کی شخصیت کے بارے میں علمائے کرام کی جروح کا علم نہیں ہو سکا ہو گا۔محدثین کرام کے اتفاقی فیصلے کے خلاف ان کی یہ رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ثابت ہوا کہ یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف جھوٹی منسوب ہے۔یہ کتاب بھی ضلالت و گمراہی سے اٹی پڑی ہے۔اس میں بھی اہل سنت والجماعت کے اتفاقی عقائد کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔ 3 کتاب الحِیَل : یہ کتاب امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں باقی نہیں رکھا۔ اس کا اب کوئی وجود نہیں ملتا۔ اس کتاب کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَۃَ، أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ . ''ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے بتایا ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بتایا، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارکaنے فرمایا : جو شخص امام ابوحنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلالکہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔''(تاریخ بغداد : 13/426، وسندہ، صحیحٌ) اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے ! 1 امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ امام ہیں۔ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں : أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ . ''آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔'' (تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175) 2 محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں : کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ . ''ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔''(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336) 3 امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ''آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔''(سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39) 4 محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔(تقریب التہذیب لابن حجر : 5738) 5 ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔(تقریب التہذیب لابن حجر : 1902) 6 امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔ (تقریب التہذیب لابن حجر : 3570) 4 کتاب الوصِیَّۃ : یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے۔امام صاحب تک اس کتاب کی سند یہ ہے: أبو طاہر محمّد بن المہديّ الحسینيّ، عن إسحاق بن منصور المسیاريّ، عن أحمد بن عليّ السلیماني، عن حاتم بن عقیل الجوہريّ، عن أبي عبد اللّٰہ محمد بن سماعۃ التمیميّ، عن أبي یوسف، عن الإمام أبي حنیفۃ . (أصول الدین عن أبي حنیفۃ للدکتور محمّد الخمیس، ص : 139) اب اس سند کے راویوں کے بارے میں مختصر جائزہ پیش خدمت ہے : 4۔1 محمد بن مہدی حسینی ، اسحاق مسیاری، احمد سلیمانی اور حاتم جوہری، چاروں نامعلوم و مجہول ہیں۔کتب ِ رجال میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ 5 قاضی ابویوسف جمہور محدثین کرام کے نزدیک ''ضعیف'' راوی ہے۔ یہ کتاب اہل سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف خرافات سے بھری پڑی ہے۔ 5 رسالۃ أبي حنیفۃ إلی عثمان البتّي : یہ رسالہ گمراہ کن عقیدہ ارجاء پر مشتمل ہے۔ اس کی سند امام ابوحنیفہ تک یہ بیان کی گئی ہے : یحیی بن مطرّف البلخيّ، عن أبي صالح محمّد بن الحسین السمرقنديّ، عن أبي معید سعدان بن محمّد البستي، عن أبي الحسن عليّ بن أحمد الفارسيّ، عن نصیر بن یحیی البلخيّ، عن محمّد بن سماعۃ التمیميّ، عن أبي یوسف، عن أبي حنیفۃ . (مقدمۃ کتاب العالم والمتعلّم للکوثري، ص : 6,5) اس کے راویوں کا مختصر حال درج ذیل ہے : 1۔4 یحییٰ بن مطرف بلخی، محمد بن حسین سمرقندی ، سعدان بن محمد بستی، علی بن احمد فارسی ، چاروں میں سے کسی کا کسی بھی کتاب میں تذکرہ نہیں ملتا۔یہ مجہول انسان ہیں۔ 5 نصیر بن یحییٰ بلخی راوی بھی ''مجہول'' ہے۔ اس کے متعلق ادنیٰ کلمہ توثیق بھی چابت نہیں ہو سکا۔ 6 قاضی ابو یوسف جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' راوی ہے۔ خود امام ابوحنیفہ نے ابویوسف سے فرمایا تھا : لَا تَرْوِ عَنِّي شَیْئًا، فَإِنِّي وَاللّٰہِ مَا أَدْرِي أُخْطِیئُ أَنَا أَمْ أُصِیبُ ؟ ''تم مجھ سے کوئی بات روایت نہ کرنا کیونکہ اللہ کی قسم ، میں نہیں جانتا کہ غلط بات کہہ رہا ہوتا ہوں یا درست !''(تاریخ بغداد للخطیب : 13/424، وسندہ، صحیحٌ) ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ نے صرف ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے کتاب الحیل اور امام عبد اللہ بن مبارک جو امام ابو حنیفہ کے شاگرد بھی ہیں ، ان کے بقول وہ گمراہ کن کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے ۔ آمین ! اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sher-e-Raza مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 (ترمیم شدہ) بھائی تاریخ بغداد میں جو معاملہ ہے وہ یہی ہے کے 6 قاضی ابو یوسف جمہور کے نزدیک ''ضعیف'' راوی ہے۔ خود امام ابوحنیفہ نے ابویوسف سے فرمایا تھا : لَا تَرْوِ عَنِّي شَیْئًا، فَإِنِّي وَاللّٰہِ مَا أَدْرِي أُخْطِیئُ أَنَا أَمْ أُصِیبُ ؟ ''تم مجھ سے کوئی بات روایت نہ کرنا کیونکہ اللہ کی قسم ، میں نہیں جانتا کہ غلط بات کہہ رہا ہوتا ہوں یا درست !''(تاریخ بغداد للخطیب : 13/424، وسندہ، صحیحٌ) کوئی بھی بات جو آپ نے نہیں فرمائی کوئی آپکی طرف منسوب کرے تو یہ آپ پر بوہتان ہے اور اسی وجہ سے امام اعظم رض نے منع فرمایا Edited 5 فروری 2013 by Sher-e-Raza 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sher-e-Raza مراسلہ: 5 فروری 2013 Report Share مراسلہ: 5 فروری 2013 مزید کسی بھائی کو پتا ہوگا تو وہ آپکی ضرور رہنمائی کریں گیں اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Rizwi Attari مراسلہ: 26 مارچ 2013 Report Share مراسلہ: 26 مارچ 2013 امام اعظم پر اعتراضات کی بابت ایک اہم نقطہ کی طرف معلومات ملی ، سوچا شئیر کر دوں۔ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب " تاریخ بغداد" میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پر جو الزاما ت لگاے وہ بلکل من گھڑت ہیں۔ ان اعتراضات کی اسناد کے اکثر راوی کذاب اور حد درجہ ضیف ہیں۔ ان تمام اعتراضات کا محققانہ جواب علامہ زاہد الکو ثری مصری نے اپنی کتاب " تانیب الخطیب " میں دیا ہے۔ خطیب بغدادی نے امام ساحب سے حسد کی بنیاد پر جو الزامات لگاے ہیں اس سے اسکا تعصب خوب واضح ہوتا ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔