خاکسار مراسلہ: 2 جنوری 2013 Report Share مراسلہ: 2 جنوری 2013 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
خاکسار مراسلہ: 2 جنوری 2013 Author Report Share مراسلہ: 2 جنوری 2013 4 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
خاکسار مراسلہ: 2 جنوری 2013 Author Report Share مراسلہ: 2 جنوری 2013 3 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
RaziAttari مراسلہ: 4 مارچ 2013 Report Share مراسلہ: 4 مارچ 2013 سبحان اللہ بہت ہی مفید معلومات ہیں رفع یدین کے بارے میں ہم سنیوں کی کم علمی کی وجہ سے بہت سے لوگ بے جا ہم کو مختلف مسائل میں الجھا کر فتوے لگاتے رہتے ہیں 3 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 ماشاء اللہ حسین علی بھائی 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 مدونہ الکبریٰ کا نام بھی لیا گیا ھے اس کی سند میں موجود عبدالرحمٰن بن قاسم کا کسی جگہ سے تعارف دے دیں کہ ان کا کسی کوئی پتہ نہیں بعد میں امام مالک(رح) سے اسے منسوب کریں 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 اپنے دلائل میں حیرت کی بات ھے کہ طحاوی اور محمد بن حسن الشیبانی کے حوالے بھی دیے ھوے ھیں ان کی بات تو کرنی ہی نہیں چاہیے کہ وہ مسلک کے حساب سے حنفی تھے 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 بالکل صحیح کہا مجاہد اسلام بھائی 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء، “عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے" عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام “وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744 “علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے" عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866 “انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868 “جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء، “عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے" عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام “وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744 “علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے" عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866 “انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868 “جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔ جزاکم اللہ خیرا استاذ مجاہد اسلام 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 246 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 59 متفق علیہ 11 حدثنا قتيبة وابن أبي عمر قالا حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن سالم عن أبيه قال رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة يرفع يديه حتی يحاذي منکبيه وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع وزاد ابن أبي عمر في حديثه وکان لا يرفع بين السجدتين قال أبو عيسی حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي حدثنا سفيان بن عيينة حدثنا الزهري بهذا الإسناد نحو حديث ابن أبي عمر قال وفي الباب عن عمر وعلي ووال بن حجر ومالک بن الحويرث وأنس وأبي هريرة وأبي حميد وأبي أسيد وسهل بن سعد ومحمد بن مسلمة وأبي قتادة وأبي موسی الأشعري وجابر وعمير الليثي قال أبو عيسی حديث ابن عمر حديث حسن صحيح وبهذا يقول بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم منهم ابن عمر وجابر بن عبد الله وأبو هريرة وأنس وابن عباس وعبد الله بن الزبير وغيرهم ومن التابعين الحسن البصري وعطا وطاوس ومجاهد ونافع وسالم بن عبد الله وسعيد بن جبير وغيرهم وبه يقول مالک ومعمر والأوزاعي وابن عيينة وعبد الله بن المبارک والشافعي وأحمد وإسحق و قال عبد الله بن المبارک قد ثبت حديث من يرفع يديه وذکر حديث الزهري عن سالم عن أبيه ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلی الله عليه وسلم لم يرفع يديه إلا في أول مرة قتیبہ، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے بھی اسی طرح کرتے ابن عمر نے اپنی حدیث میں (وَکَانَ لَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ) کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں فضل بن صباح بغدادی سفیان بن عیینہ سے اور وہ زہری سے اسی سند سے ابن عمر کی روایت کے مثل روایت کرتے ہیں اس باب میں حضرت عمر علی وائل بن حجر مالک بن حویرث انس ابوہریرہ ابوحمید ابواسید سہل بن سعید محمد بن سلمہ ابوقتادہ ابوموسی اشعری جابر اور عمیر لیثی سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی کہتے ہیں حدیث ابن عمر حسن صحیح ہے اور صحابہ میں سے اہل علم جن میں ابن عمر جابر بن عبداللہ ابوہریرہ انس ابن عباس عبداللہ بن زبیر اور تابعین میں سے حسن بصری عطاء طاؤس مجاہد نافع سالم بن عبداللہ سعید بن جبیر اور آئمہ کرام میں سے عبداللہ بن مبارک امام شافعی امام احمد امام اسحاق ان سب کا یہی قول ہے اور عبداللہ بن مبارک کا کہنا ہے کہ جو شخص ہاتھ اٹھاتا ہے اس کی حدیث ثابت ہے جسے زہری نے بواسطہ سالم ان کے والد سے روایت کیا اور ابن مسعود کی یہ حدیث ثابت نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ رفع یدین کیا 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 11 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 11 مئی 2013 عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ. سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609 “ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193 “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے" عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610 ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے" اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 12 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 12 مئی 2013 yar rafaye den mansookh hai, sare sawalo ke jawaab pehli post me the, ghor se perh te to samajh ajata... 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 12 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 12 مئی 2013 yar rafaye den mansookh hai, sare sawalo ke jawaab pehli post me the, ghor se perh te to samajh ajata... 1.jpg 2.jpg شائد آپ نے میرا جواب غور سے نہیں پڑھا۔ آپ کی پوسٹس کا ہی جواب دیا ہے تفصیلی۔ تھوڑا دقت کریں پلیز اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 12 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 12 مئی 2013 mene yehi kaha hai ke sahi parha nahi, phir jo dobara mene page post kia hai usko paho, usme jo hadees hai wo parho...ok اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
hussainali مراسلہ: 12 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 12 مئی 2013 mene yehi kaha hai ke sahi parha nahi, phir jo dobara mene page post kia hai usko paho, usme jo hadees hai wo parho...ok نماز میں چارمقامات پررفع الیدین ثابت ہے لیکن بعض حضرات صحیح مسلم کی ایک غیرمتعلق حدیث پیش کرکے عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ اس میں مسنون رفع الیدیں سے منع کردیا گیا ہے: سب سے پہلے صحیح مسلم کی یہ حدیث ملاحظہ ہو: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ» [صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430] مذکورہ حدیث کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے کئی دلائل ہیں ۔ پہلی دلیل: اس میں ہاتھ اٹھانے کا موقع ومحل ذکرنہیں ہے۔ یعنی یہ صراحت نہیں ہے کہ اس حدیث میں قبل الرکوع وبعدہ یا بعدالقیام من الرکعتین والے رفع الیدین سے روکا جارہا ہے جبکہ ان مواقع پررفع الیدین صراحتا ثابت ہے، لہٰذا یہ روایت ان مواقع کے علاوہ دیگرمواقع کے لئے ہے اوران مواقع پرہم بھی کسی طرح کا رفع الیدین نہیں کرتے۔ دوسری دلیل: رفع الیدین (ہاتھ اٹھانے) کی کیفیت مبہم ہے۔ اورہاتھ اٹھا نا کئی طرح کا ہوتا ہے، مثلا: الف: دعاء کے لئے رفع الیدین یعنی ہاتھ اٹھانا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں: وَقَالَ أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ: «دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ» صحيح البخاري (8/ 74) نیزصحیح بخاری حدیث نمبر4323 کے تحت ایک ایک روایت کا ٹکڑا ہے: فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ (صحيح البخاري 5/ 156 رقم 4323 ) ب: سلام کے لئے ہاتھ اٹھانا ، امام طبرانی فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 ) اس حدیث سے معلوم ہوا بوقت سلام ہاتھ اٹھانے پر بھی رفع الیدین کے الفاظ حدیث میں مستعمل ہیں ۔ تیسری دلیل: قران قران کی تفسیر ہے اسی طرح حدیث حدیث کی تفسیرہے ۔ اورصحیح مسلم کی زیربحث راویت کی تشریح درج ذیل روایت سے ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق بوقت سلام والے رفع الیدین سے ہے: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 ) تنبیہ بلیغ: یہی حدیث صحیح مسلم میں اسی سند متن کے ساتھ ہیں لیکن اس میں ’’مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کی جگہ ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورجب ہم زیربحث روایت کی تشریح میں مسلم کی اس دوسری روایت کو پیش کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو صحیح مسلم ہی میں اس دوسری حدیث کی تشریح موجود ہے کہ اس سے مراد بوقت سلام والا رفع الیدین ہے ، تو حنفی حضرات چیخنے لگتے ہیں کہ نہیں مسلم کی اس اگلی حدیث میں تو’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کے الفاظ ہیں اورپہلی حدیث میں ’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اسی لئے ہم نے مسلم والی دوسری حدیث کے الفاظ نہ نقل کرکے طبرانی کے الفاظ نقل کئے ہیں جوبعینہ اس سند متن سے ہے جو مسلم میں آگے موجودہے۔ اورطبرانی کی یہ روایت اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ مسلم کی اگلی روایت میں ’’«عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کے الفاظ اورپہلی روایت میں’’«مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ،‘‘ کے الفاظ میںکوئی فرق نہیں ہے۔ طبرانی کی اس روایت اورمسلم میں اگلی والی روایت دونوں کی سند یکساں ہے: مسلم کی اگلی والی روایت کی سند یہ ہے: وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا۔۔۔۔۔۔۔الخ اورطبرانی والی روایت کی سند یہ ہے: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا ۔۔۔۔۔ چوتھی دلیل : الفاظ حدیث ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘کی دلالت: اس حدیث میں جس رفع الیدین کا ذکرہے اسے سرکش گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اوریہ مسنون رفع الیدین سے ایک الگ شکل ہے کیونکہ اس صورت میں ہاتھ دائیں بائیں ہلے گا جساکہ درج ذیل حدیث اس کی دلیل ہے: عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 ) اس حدیث میں غورکریں یہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس میں بوقت سلام والے رفع الیدین کا تذکرہ ہے ، اورہاتھ کو دائیں بائیں اٹھانے کی بھی صراحت ہے ، اوریہاں اس صورت کو ’’كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہواکہ ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟‘‘ کی صورت جس رفع الیدین میں پائے جاتی ہے اس کا مسنون رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پانچویں دلیل: یہ ممنوع عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب ہواہے۔ مسلم کی زیربحث حدیث میں ’’ «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ‘‘ کے الفاظ پرغور کریں اس میں جس رفع الیدین پرعمل سے روکا گیا ہے اس عمل کو صرف صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہیں ہے، کیونکہ ایسا ہوتا تویہ عمل صرف صحابہ کی طرف منسوب نہ کیا جاتا اس لئے کہ یہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا جیسا کہ فریق دوم کو بھی یہ بات تسلیم ہے۔ ایسی صورت میں جمع متکم کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے یعنی اس طرح ’’مالنا نرفع ایدینا‘‘ ۔ اورحدیث میں ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ ممنوعہ رفع الیدین صرف صحابہ کا اپنا عمل تھا اورمسنون رفع الیدین جس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام سب عمل کرتے تھے اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چھٹی دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹوکنے پرصحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا: زیربحث مسلم کی حدیث میں جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے رفع الیدین کی وجہ پوچھی تو صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق مسنون رفع الیدین سے نہ تھا کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل تھا اورایسی صورت میں صحابہ آپ کا حوالہ فورا دیتے کے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیھکا اس لئے ہم نے بھی کیا ، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتاہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: «مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ» ، قَالُوا: رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا - أَوْ قَالَ: أَذًى - " وَقَالَ: " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ: فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا "،سنن أبي داود (1/ 175 رقم 650) اس حدیث میں غورکریں کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر عمل کیا اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا توفوراآپ کا حوالہ دے دیا کہ آپ نے ایسا کیا اس لئے ہم نے بھی ایسا کیا۔ معلوم ہوا کہ اگرزیربحث حدیث میں مسنون رفع الیدین پر صحابہ کرام کو ٹوکا گیا ہوتا تو صحابہ یہاں بھی فورآ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ، اس سے ثابت ہوا کہ اس حدیث میں مسنون رفع الیدین سے نہین روکا گیا ہے۔ ساتویں دلیل: اس عمل کو سرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دینا: اس حدیث میں ممنوعہ رفع الیدین کوسرکش گھوڑوں کی دم کی حرکت سے تشبہ دی گئی ہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کا اس کا تعلق ایسے عمل سے نہیں ہوسکتا جسے آپ نے کبھی بھی انجام دیاہو، اورمسنون رفع الیدین تو آپ کا عمل رہا ہے ، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پل کے لئے بھی ایسے عمل کوانجام دے سکتے جس کی اتنی بری مثال ہو؟؟؟ آٹھویں دلیل: محدثین کا اجماع۔ محدثین کا اس بات پراجماع ہے کہ زیربحث روایت میں ممنوعہ رفع الیدین کا تعلق تشہد کے وقت ہے۔ 1: امام نووی نے باب قائم کیا: بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ، وَرَفْعِهَا عِنْدَ السَّلَامِ، وَإتْمَامِ الصُّفُوفِ الْأُوَلِ وَالتَّرَاصِّ فِيهَا وَالْأَمْرِ بِالِاجْتِمَاعِ صحيح مسلم (1/ 322) 2:امام ابوداؤد نے باب قائم کیا: بَابٌ فِي السَّلَامِ سنن أبي داود (1/ 261) 3: امام نسائی نے باب قائم کیا: بَابُ السَّلَامِ بِالْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ سنن النسائي (3/ 4) 4:امام ابونعیم نے باب قائم کیا: بَابُ الْكَرَاهِيَةِ أَنْ يَضْرِبَ الرَّجُلُ بِيَدَيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلاةِ المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم (2/ 53) 5: امام ابن حبان نے باب قائم کیا: ذِكْرُ الْخَبَرِ الْمُقْتَضِي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا بِأَنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا أُمِرُوا بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الْإِشَارَةِ بِالتَّسْلِيمِ دُونَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ صحيح ابن حبان (5/ 199) 6:امام ابن ابی شیبہ نے باب قائم کیا: مَنْ كَرِهَ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ مصنف ابن أبي شيبة (2/ 230) 7: امام ابن حجرنے فرمایا: وَلَا دَلِيلَ فِيهِ عَلَى مَنْعِ الرَّفْعِ عَلَى الْهَيْئَةِ الْمَخْصُوصَةِ فِي الْمَوْضِعِ الْمَخْصُوصِ وَهُوَ الرُّكُوعُ وَالرَّفْعُ مِنْهُ لِأَنَّهُ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّ مُسْلِمًا رَوَاهُ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ التلخيص الحبير ط العلمية (1/ 544) 8: امام نووی نے فرمایا: وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَاءِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ بِالسُّنَّةِ لِأَنَّ الْحَدِيثَ لَمْ يَرِدْ فِي رَفْعِ الْأَيْدِي في الركوع والرفع منه لكنهم كَانُوا يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي حَالَةِ السَّلَامِ مِنْ الصلاة ويشيرون بها الي الجانبين ويريدون بِذَلِكَ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَنْ الْجَانِبَيْنِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ بَيْنَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمَنْ لَهُ أَدْنَى اخْتِلَاطٍ بِأَهْلِ الْحَدِيثِ وَيُبَيِّنُهُ أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ الْحَجَّاجِ رَوَاهُ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِينَ المجموع شرح المهذب (3/ 403) 9: امام بخاری نے فرمایا: وَأَمَّا احْتِجَاجُ بَعْضِ مَنْ لَا يَعْلَمُ بِحَدِيثِ وَكِيعٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ رَافِعِي أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ، فَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي التَّشَهُّدِ لَا فِي الْقِيَامِ» كَانَ يُسَلِّمُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَفْعِ الْأَيْدِي فِي التَّشَهُّدِ , وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31) 10: امام ابن الملقن نے فرمایا: (أما) الحَدِيث الأول، وَهُوَ حَدِيث (جَابر بن) سَمُرَة فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات لسنة سيدنَا رَسُول الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم -؛ لِأَنَّهُ لم يرد فِي رفع الْأَيْدِي فِي الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ، وَإِنَّمَا كَانُوا يرفعون أَيْديهم فِي حَالَة السَّلَام من الصَّلَاة، ويشيرون بهَا إِلَى (الْجَانِبَيْنِ) يُرِيدُونَ بذلك السَّلَام عَلَى من (عَلَى) الْجَانِبَيْنِ، وَهَذَا لَا (اخْتِلَاف) فِيهِ بَين أهل الحَدِيث وَمن لَهُ أدنَى اخْتِلَاط بأَهْله، البدر المنير (3/ 485) تلک عشرۃ کاملہ۔ مؤخرالذکردونوں حوالوں میں عدم اختلاف یعنی اجماع کی صراحت ہے۔ نویں دلیل: عموم مان لیں تو مسنون رفع الیدین کی استثناء ثابت ہے: جس طرح اس حدیث کے ہوتے ہوئے احناف تکبیرات عیدین میں اوروترمیں اورتکبیرتحریمہ میں دیگردلائل کی بنا پررفع الیدین کرتے ہیں اسی طرح مسنون رفع الیدین کے بھی دلائل موجود ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں: وَلَا يَحْتَجُّ بِمِثْلِ هَذَا مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْعِلْمِ، هَذَا مَعْرُوفٌ مَشْهُورٌ لَا اخْتِلَافَ فِيهِ , وَلَوْ كَانَ كَمَا ذَهَبَ إِلَيْهِ لَكَانَ رَفْعُ الْأَيْدِي فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرَةِ , وَأَيْضًا تَكْبِيرَاتُ صَلَاةِ الْعِيدِ مَنْهِيًّا عَنْهَا؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَسْتَثْنِ رَفْعًا دُونَ رَفْعٍ قرة العينين برفع اليدين في الصلاة (ص: 31) دسویں دلیل: خود علمائے احناف کا اعتراف: محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں: ’’باقی رہا اذناب خیل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے، کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز اشارہ بالید کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومنع فرمادیا (الورد الشذی :ص: 65) محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں: ’’لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اورکمزورہے۔۔۔(درس ترمذی: ج 2ص36) اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
mujahid islam مراسلہ: 12 مئی 2013 Report Share مراسلہ: 12 مئی 2013 مسلم کی ایک روایت تو بڑی نظر آتی ھے آپ لوگوں کو یہ حدیث بھی حدیث ہی ھے یہ کیوں نہیں دیکھتے تم لوگ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 965 حدیث مرفوع مکررات 9 متفق علیہ 2 حدثنا أبو بکر بن أبي شيبة قال حدثنا وکيع عن مسعر ح و حدثنا أبو کريب واللفظ له قال أخبرنا ابن أبي زادة عن مسعر حدثني عبيد الله بن القبطية عن جابر بن سمرة قال کنا إذا صلينا مع رسول الله صلی الله عليه وسلم قلنا السلام عليکم ورحمة الله السلام عليکم ورحمة الله وأشار بيده إلی الجانبين فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم علام تومون بأيديکم کأنها أذناب خيل شمس إنما يکفي أحدکم أن يضع يده علی فخذه ثم يسلم علی أخيه من علی يمينه وشماله ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، مسعر، ابوکریب، ابن ابی زائدہ، مسعر، عبیداللہ بن قبطیہ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے یہ حدیث تو معاملہ پوری طرح بیان کر رہی ھے مگر اس پر نظر نہیں جاتی کہ مطلب کی جو نہیں ھے 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zaib Abbasi مراسلہ: 19 اگست 2013 Report Share مراسلہ: 19 اگست 2013 ما شاءاللہ بہت ہی اچھی پوسٹ کی آپ نے جزاک اللہ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Real Salafi مراسلہ: 11 جون 2014 Report Share مراسلہ: 11 جون 2014 Tah 1.png 2.png 3.png 4.png 5.png 6.png 7.png 8.png 9.png Manazron mein Ulama e Ahl e Sunnat k samny bolny ki him-mt nai hoti agr bolein b tou jawab zbr dst............Jnab ap isy mozo pr manazry ka pamphlet (ishtihar) shaya krein phir daykhein jeet-ta kon hy.ye 2 rupy ki tahqeeq blky tqleed qbr mein kam nai dy gi. Janab nayk cduao k sath....... اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
M Afzal Razvi مراسلہ: 26 نومبر 2015 Report Share مراسلہ: 26 نومبر 2015 hansi aati hy mujhy ghair-muqaldeen hazraat pe.. dawa karty hain k ham taqleed nahi karty..jab k Aima arba ko chor k apny molviyon ki andhi taqleed karty hain.. Zubair ali zayi ki kitab se screen shot ly kar laga deny se ap kiya sabit karna chahty hain..? is baat ki mujhy samjh nahi ayi..Jab k Us book k rad mein sunniyon ne puri book likh k zubair ali zayi sahib ki khyantain btayain hain..Dusri baat Imam Tirmizi se ziada ilam rakhta hain ghair-muqallid sahib jo K Imam Tirmiz ko ghalt sabit karny pe lagy howy hain. Us hadees ki sand sahih hy.. ye main sabit karon ga..magar us se pehly mery kuch mutalbaat hain..1-ghair muqaldeen siraf apny tareeqy (yani 4 muqamat pe rafa-ul-yadain) ki bas 5 sahih sand k sath ahadees dikha dain.. 5 ziada toh 4 kar lain..note: Hanbali / Shafi tareeqa 3 muqamaat (yani wo dusri rakaat se uth'ty waqt nahi karty) hy..2- Dusri baat Sajdon mein rafa-ul-yadain ki jo 2 se 3 ahadees hain..jin ko bohat se ghair-muqaldeen ne sahih mana hy.. Un ahadees k bary mein kiya kahain gy..?kiya sajdon mein rafa-ul-yadain karna mansookh ho gya hy..??Uski daleel pesh kar dain..Mazeed bhi bohat c btain hain.. jo apka reply any k baad.. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Arslan fayyaz مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 Report Share مراسلہ: 8 اکتوبر 2016 hansi aati hy mujhy ghair-muqaldeen hazraat pe.. dawa karty hain k ham taqleed nahi karty.. jab k Aima arba ko chor k apny molviyon ki andhi taqleed karty hain.. Zubair ali zayi ki kitab se screen shot ly kar laga deny se ap kiya sabit karna chahty hain..? is baat ki mujhy samjh nahi ayi.. Jab k Us book k rad mein sunniyon ne puri book likh k zubair ali zayi sahib ki khyantain btayain hain.. Dusri baat Imam Tirmizi se ziada ilam rakhta hain ghair-muqallid sahib jo K Imam Tirmiz ko ghalt sabit karny pe lagy howy hain. Us hadees ki sand sahih hy.. ye main sabit karon ga.. magar us se pehly mery kuch mutalbaat hain.. 1-ghair muqaldeen siraf apny tareeqy (yani 4 muqamat pe rafa-ul-yadain) ki bas 5 sahih sand k sath ahadees dikha dain.. 5 ziada toh 4 kar lain.. note: Hanbali / Shafi tareeqa 3 muqamaat (yani wo dusri rakaat se uth'ty waqt nahi karty) hy.. 2- Dusri baat Sajdon mein rafa-ul-yadain ki jo 2 se 3 ahadees hain.. jin ko bohat se ghair-muqaldeen ne sahih mana hy.. Un ahadees k bary mein kiya kahain gy..? kiya sajdon mein rafa-ul-yadain karna mansookh ho gya hy..?? Uski daleel pesh kar dain.. Mazeed bhi bohat c btain hain.. jo apka reply any k baad.. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Noor-e-hidayat مراسلہ: 15 اکتوبر 2019 Report Share مراسلہ: 15 اکتوبر 2019 Sanad ?????? plzzzz اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔