Zulfi.Boy مراسلہ: 22 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 22 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) 1) imam e azam abu hanifa ne mana kia hai apni taqleed ko, aur imame azam ne farmaya ke agar mere qual ke elawa sahii hadees mil jaye to usi pe amal karo..... 2) sirf ek imam ki perwi hi kyu, jab imam ne hi mana kardia apni taqleed ko.... 3) aur sahaba me ikhtilaaf tha to iska koi saboot?? 4) kuch buzrug ke naam bataye jinhone taqleed ki ho, aur sab wahabi aur deobandi sab unko mante ho, daleel ke saath..plz 5) kis daleel se ek imam ki pairvi ko wajib kia hai?? 6) jo 4ro imam ke paas ilm hai wo sab ke paas ho sakta hai??? iska jawab 7) surah faiha me tarjuma, raste pe chala, hai ya rasto per chalo ??? iska jawab bi Edited 22 دسمبر 2012 by Mughal... اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aashiq Koun مراسلہ: 25 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 25 دسمبر 2012 حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ، الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، } اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ، وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠ { فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 } مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں ۰ يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه {{ باب ـ تاكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة والتشديد فى تركها والخروج عنها }} اعلم ان فى الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة ، وفى الأعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ، ونحن نبين ذالك بوجوه ، أحــــدهــــا " ان الأمة اجتمعت على ان يعتمدوا على السلف فى معرفة الشريعة ، فالتابعون اعتمدوا فى ذالك على الصحابة ، وتبع التابعون اعتمدوا على التابعين ، وهكذا فى كل طبقة اعتمد العلماء على مَن قبلهم ، والعقل يدل على حسن ذالك ، لأن الشريعة لاتعرف الا بالنقل والإستنباط ، والنقل لايستقيم الابأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ، ولابد فى الإستنباط من ان يعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ، ويبني عليها ، ويستعين فى ذالك كل بمن سَبقه ، لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد الا بملازمة أهلها ، وغيرذالك نادر بعيد لم يقع وان كان جائزا فى العقل ، واذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلابد من ان يكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح ، أومُدونة فى كتب مشهورة ، وان يكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ، ويخصص عمومها فى بعض المواضع ، ويقيد مطلقها فى بعض المواضع ، ويجمع المختلف منها ، ويبين علل أحكامها ، والا لم يصح الإعتماد عليها ، وليس مذهب فى هذه الأزمنة المتأخرة الا هذه المـذاهب الأربعـة ، اللهم الا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لايجوزالإعتماد على أقاويلهم ٠ وثـانـيـهــا " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعوا السوادالأعظم ، ولما اندرست المذاهب الحقة ، الا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم ، والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم ٠ وثـالـثـهــا " ان الزمان لما طال وبعد العهد ، وضيعت الأمانات ، لم يجزان يعتمد على أقوال علماء السوء من القضاة الجورة والمفتين التابعين لأهوائهم حتى ينسبوا مايقولون الى بعض من اشتهرمن السلف بالصدق والديانة والأمانة اما صريحا أودلالة وحفظ قوله ذالك ، ولاعلى على قول مَن لاندري هل جمع شروط الإجتهاد أو لا ، فاذا رأينا العلماء المحققين فى مذاهب السلف عسى ان يصدقوا فى تخريجاتهم على أقوالهم واستنباطهم من الكتاب والسنة ، وأما اذا لم نرمنهم ذالك فهيهات ، الخ { عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح } حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اوران سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں ، پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب { حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں ، 1 = ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ، اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ، اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ، ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے، 2 = رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " اتبعوا السوادالأعظم " سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے۰ 3 = جب زمانہ طویل وبعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، توپهراس حال میں علماء سُوء ( برے علماء ) ظالم قاضیوں میں سےاوراپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء ) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جوصدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ،اوراسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائزنہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کو غیر مقلدوں کے محقق ومجتہد مولانا محمد جونا گڈھی ہند کی حجت اور اللہ کی حجت لکھتے ہیں اسی طرح فرقہ اہل حدیث کے مجدد جناب نواب صدیق حسن صاحب بھوپالی رئیس المجتہدین اور سردار تسلیم کرتے ہیں اور لکھتے ہیں ،، اگر وجود او در صدر اول درزمانہ ماضی بود امام الائمہ وتاج والمجتہدین شمردہ می شود ،، کہ اگر شاہ صاحب کا وجود صدر اول (پہلے زمانہ میں ) ہوتا تو اماموں کے امام اور مجتہدین کے سردار شمار ہوتے ہیں ۔ (۱) باب تاکید الاخذ بمذاہب الاربعۃ والتشدید فی تر کہا والخروج عنہا ! اعلم ان فی الاخذ بھذہ المذاہب الاربعۃ مصطلحۃً عظیمۃً وفی الاعراض عنہا کلھا مفسدۃ کبیرۃ عقد الجید مع سلک مروارید ص ۳۱۔ ترجمہ: باب سوم ان چار مذہبوں کے اختیار کر نے کی تا کید اور ان کو چھوڑنے اور ان سے با ہر نکلنے کی ممانعت شدیدہ کے بیان میں ۔ اِعلم الخ جاننا چاہئے کہ ان چاروں مذہبوں کو اختیار کرنے میں ایک بڑی مصلحت ہے اور ان سب سے اعراض ورو گردانی میں بڑا مفسدہ ہے ۔ فائدہ ! ۱ مذاہب اربعہ میں سے کوئی ایک مذہب اختیار کرنا ضروری ہے ۔۲ چاروں مذاہب کو چھوڑنا اور غیر مقلد بننا شدید منع ہے ۔ ۳: مذاہب اربعہ کے اختیار کرنے میں عظیم مصلحت ہے ۔ ۴: ان سے اعراض کرنا بڑا فساد ہے ۔ ۵: ترک تقلید کے تمام داعیان ومبلغین فسادی ہیں۔ (۲)وثانیا قال رسول ﷺ اتبعوا السواءُ الاعظم ولمّاا اندرست المذاہب الحقہ الا ھذہ الاربعۃ کان اتبا عھا اتباعا للسواد الاعظم ۔ تر جمہ : اور مذاہب کی پا بندی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ سواد اعظم یعنی بڑے معظم جتھے کی پیروی کرو اور چونکہ مذاہب حقہ سوائے ان چاروں مذاہب کے باقی نہیں رہے تو ان کی پیروی کرنا بڑے گروہ کی پیروی کرنا ہے ۔ اور ان سے با ہر نکلنا بڑی معظم جماعت سے با ہر نکلنا ہے ( یہ رسول ﷺ کی ہدایت اور تا کید ی ارشاد کی خلاف ورزی آتی ہے ) (عقد الجید ص ۳۳) فائدہ: ملاحظہ فر مائیے ! حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذاہب اربعہ کے مقلدین کو سواد اعظم فر ما رہے ہیں ۔اور عامی غیر مقلد کو سواد اعظم(فرقہ ناجیہ) سے خارج بتلا رہے ہیں اس لئے جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے وہ شتر بے مہار کی طرح ہیں اور در حقیقت وہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ آں حضرت ﷺ کا فر مان مبارک ہے اتبعو االسواد الاعظم ( مشکوٰۃ باب الاعتصام با لکتاب والسنۃ ص ۳۰ ۔ مجمع بہار الانوار ص۱۴۳ج ۳) ۳۔ لان الناس لم یزالوا من زمن الصحابۃ الیٰ اَن ظھرت المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من احد یعتبر افکارہ ، ولو کان ذالک با طلا لانْکرہ ترجمہ: کیونکہ صحابہ کے وقت سے مذاہب اربعہ کے ظہور تک لوگوں کا یہی دستور رہا کہ جو عالم مجتہد مل جاتا اس کی تقلید کر لیتے ۔ اس پر کسی بھی قابل اعتبار شخصیت نے نکیر نہیں کی اور اگر یہ تقلید با طل ہوتی تو وہ حضرات ( صحابہ وتابعین) ضرور نکیر فر ماتے ۔عقد الجید ص ۲۹ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔