Toheedi Bhai مراسلہ: 28 نومبر 2012 Report Share مراسلہ: 28 نومبر 2012 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Smart Ali مراسلہ: 28 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 28 نومبر 2012 Hazrat Sahih Muslim ka to koi jawab day dien jo oper hadith attach ki hien اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 29 نومبر 2012 Report Share مراسلہ: 29 نومبر 2012 (ترمیم شدہ) Edited 30 نومبر 2012 by Toheedi Bhai 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 30 نومبر 2012 Report Share مراسلہ: 30 نومبر 2012 (ترمیم شدہ) توحیدی بھائی ، بحوالہ پوسٹ نمبر 26 اپ نے لکھا اس تھریڈ میں ایک محقق صاحب نے لکھا کہ اصحاب کھف کے مزارات کے قریب مسجد بنانا سابقہ شریعت کا فعل ہے ہماری شریعت میں نہیں حالانکہ میں نے یہ بات اس انداز سے نہیں لکھی تھی بلکہ میں نے لکھا تھا اصحاب کھف پر جن لوگوں نے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو کیا وہ فیصلہ ان کا ذاتی تھا یا ان کی شریعت میں قبر پر مسجد بنانا جائز تھا؟ اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی مستند ثبوت نہیں۔ قران میں بھی صرف ان دو گروہوں کی ارا کا ذکر ہے۔ قران نہ ان کی ان ارا کی تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول امام طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا کہ مسجد بنانے کا فیصلہ کن کا تھا۔ حدثنـي مـحمد بن سعد، قال: ثنـي أبـي، قال: ثنـي عمي، قال: ثنـي أبـي، عن أبـيه، عن ابن عبـاس، قوله: { قالَ الَّذِينَ غَلَبُوا علـى أمْرِهِمْ لَنَتَّـخِذَنَّ عَلَـيْهِمْ مَسْجِداً } قال: يعنـي عدوّهم. دوسری بات یہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کی ممانعت ا چکی ہے تو پھر پچھلی شریعت میں اگرچہ یہ سب جائز بھی ہو تو ہمارے لئے جائز نہیں۔ اپ نے نورالاانوار کا جو حوالہ دیا ہے اسے میں بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے اپ یہ تو ثابت کریں کہ واقعی قبروں پر مسجد بنانا پچھلی شریعتوں میں جائز تھا؟ اور قران اس کو بحثیت سابقہ شریعتی حکم کے بیان کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قران کی رو سے جن لوگوں نے اصحاب کھف کی قبروں کے پاس مسجد بنانے کا فیصلہ کیا وہ لوگ تھے کون؟ وہ کس شریعت کو فالو کر رہے تھے؟ اور کیا واقعی ان کی شریعت میں یہ جائز بھی تھا کہ نہیں؟ حضرت ابن عباس کے مطابق تو یہ اصحاب کھف کے دشمنوں کا فیصلہ تھا۔ تو کیا ان دشمنوں کا فیصلہ ہمارے لئے قابل تقلید ہے؟ اپ نے لکھا کہ تفسیر قرطبی میں بیان کردہ احادیث کا قبوں سے کیا تعلق؟ امام قرطبی کی تفسیر پیش کرنے کا ایک مقصد تو اس بارے میں ان کی رائے پیش کرنا تھا کہ فاتخاذ المساجد على القبور والصلاة فيها والبناء عليها، إلى غير ذلك مما تضمّنته السنة من النهي عنه ممنوع لا يجوز؛ اور دوسرا ان احادیث میں قبروں پر عمارت بنانے اور مساجد بنانے کی ممانعت موجود ہے۔ مثلا وروى الصحيحان عن عائشة: " أن أم حبيبة وأمّ سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً وصوّروا فيه تلك الصور أولئك شرارُ الخلق عند الله تعالى يوم القيامة اور وروى مسلم عن جابر قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصّص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه بنو علی قبرہ مسجدا سے صاف ظاہر ہے کہ وہ قبر کے پاس مسجد بنا لیتے تھے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔ اور اپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علی صرف اوپر ہی کے لئے نہیں اتا بلکہ پاس کے اور قریب کے معنوں میں بھی اتا ہے جیسے سورہ توبہ ایت 84 میں ہے کہ ولا تقم علی قبرہ یعنی اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ ظاہری بات ہے یہاں عین قبر پر کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ قبر کے پاس کھڑے ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ اور سورہ کھف میں بھی علیھم مسجدا سے یہی مراد ہے کہ ان کے قریب مسجد بنانا ( جا،الحق میں بھی یہی لکھا ہے) اور ان یبنی علیہ سے قبور پر عمارت بنانے کی ممانعت ہے۔ اس لئے قبر کو قبلہ بنا لینا، قبر کو سجدہ کرنا یا قبر کے پاس مسجد بنا لینا یا قبر پر عمارت بنا لینا سب ممنوع ہے۔ اور ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ امام محمد نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ کا قول بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ قبر کو نہ تو پختہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے پاس مسجد بنائی جائے او یجعل عندہ مسجد جب اپ مقلد ہیں تو اپنے امام کے قول کے خلاف اپ کیسے کوئی استدلال کر سکتے ہیں؟ باقی رہا حضرت حسن بن حسن کی بخاری شریف والی روایت کا مسئلہ تو اس کو میں نے صرف بخاری شریف کے حوالے سے بے سند کہا تھا کیونکہ امام بخاری نے اس کی سند کو بیان نہیں کیا ورنہ تغلیق التعلیق علی بخاری کے بارے میں علم تھا۔ بہرحال اس میں جو سند بیان کی گئی ہے اس میں ایک محمد بن حمید ہے جس کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ فی حدیثہ نظر ، امام نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ، امام جوزانی اسے غیر ثقہ اور بد مذہب کہتے ہیں، امام صالح جزرہ کہتے ہیں اس سے بڑھ کر کسی کو جھوٹ پر دلیر نہیں پایا، امام ابو نعیم کا کہنا ہے کہ محدث ابو حاتم کے گھر ابن خراش اور فقہا، کی ایک جماعت موجود تھی اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ ابن حمید سخت ضعیف ہے، امام ابو حاتم اور امام حمزہ کنانی دونوں اسے کذاب کہتے ہیں، امام ابن حبان کے مطابق ثقات سے مقلوب روایات بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اب ایسے راوی کی روایت کا کیا اعتبارہے؟ اور اس روایت کے باطل ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ باالفرض روایت صحیح بھی ہو تو بھی کیا حاصل کیونکہ اصول یہی ہے کہ قول صحابی بھی اگر حدیث رسول کے خلاف ہو تو ناقابل قبول ہے۔ حضرت حسن کی بیوی نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کام کیا تھا پھر جب حالت سنبھلی تو خیمہ اکھاڑ کر واپس چلی گئیں اور سنا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ کیا تو نے اس چیز کو پا لیا ہے جس کو گم کیا تھا دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ مایوس ہو کر لوٹ ائے۔ یعنی حضرت حسن کی بیوی کے اس عمل کا ایک قسم کا مذاق اڑایا گیا۔ باقی رہا صحابہ کرام کی موجودگی کا مسئلہ تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا حضرت حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تھی اور مدینہ کے اخری صحابی 78ھ میں فوت ہو گئے تھے اور سب سے اخری صحابی 110ھ میں فوت ہوئے تو اپ خود اندازہ کر سکتے ہیں 97ھ کے بعد بلاد اسلامیہ کے مختلف حصوں میں کتنے صحابہ زندہ ہوں گے؟ اور اگر کوئی صحابی مدینہ ایا بھی ہو گا تو ہو سکتا ہے اس نے منع بھی کیا ہو لیکن اگر اس کا روایات میں ذکر نہیں ایا تو عدم ذکر عدم نفی کو مستلزم تو نہیں ہوتا۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ہوئی اور حضرت حسن بن حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تو 97ھ میں جو صحابہ زندہ تھے ان کی عمر 86 سال تو کنفرم ہوئی اور اگر ان زندہ صحابہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےوقت کم سےکم عمر14 سال بھی فرض کی جائے تو 97ھ میں ان زندہ صحابہ کی عمر 100 سال ہو گی ۔ اس سے اپ خود اندازہ لگا لیں کہ 97ھ میں اتنی عمر کے چند گنے چنے صحابہ ہی ہوں گے اور اس ضعیف العمری میں ان کا دوسرے شہروں سے مدینہ شریف کا سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ Edited 30 نومبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Smart Ali مراسلہ: 30 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 30 نومبر 2012 Jazakallah. muhjay app kay jawab ka intayzar rahey ga. mien nay app ki baat AHLE KHABEES say poocha hay. us ka jawab jaisay hee ai ga app ko bata doon ga. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 1 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 1 دسمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Smart Ali مراسلہ: 1 دسمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 1 دسمبر 2012 Hazrat mien aik sunni brailvi hooon. mera wohi aqeedah hay jo tamam brailviooon ka hay. mien to ahle khabeees ko moo tor jawab dayna hay. or is say achi site koi or site nahi hay jo sahi ki rehnumai kerti hay or saboot kay sath, scan page kay sath rehnumai ki jati hay. or app logoon ki rehnumai say hamari knowledge may bhi izafa hota hay. mien nay ya app ka sawal us say poocha hay. sheikh muhadith dahlvi per taal matool ker raha hay. seedah jawab nahi day raha. mien bhi agay nahi berh raha. mien nay kaha hay kay pehlay is ka jawab do اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 5 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 دسمبر 2012 توحیدی بھائی کیا میں بھی امید رکھوں کہ اپ میری پوسٹ نمبر 29 پر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 5 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 دسمبر 2012 5 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ya Mohammadah مراسلہ: 6 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 6 دسمبر 2012 Towheedi bhai kya khoob post ki hai Janab Towheedi bhai ne Allah aapko or aapky muawin sab ko dono jahan ki barkaton se malamal farmaye...Ameen 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Smart Ali مراسلہ: 6 دسمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 6 دسمبر 2012 toheedi bhai app nay kiya zaberdust jawab diya hay. sath may scan page post ker kay kisi ko bolnay kay liya gunjaish hee nahi chori. Hazrat ager Sahih MUslim ki jo hadiths hien jo mien nay scan page post bhi kiya hay oper. us ka bhi jawab inayat ker dien to mera masla solve ho jai ga. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 7 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 7 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) مزید حوالے Edited 7 دسمبر 2012 by Toheedi Bhai 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 7 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 7 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) جناب توحیدی بھائی اس سے پہلے کہ میں اپ کی پوسٹ نمبر 34 پر اپنی رائے کا اظہار کروں میں اپ کو اتنے خوصورت انداز میں اپنی پوسٹس کو پریزینٹ کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ایک گزارش بھی کروں گا کہ اگر اپ مجھے ان پیج سے جہاں پر پوسٹ کرنے کا طریقہ بتا دیں تو میں اپ کا انتہائی مشکور ہوں گا۔ اب اتے ہیں اپ کی پوسٹ کی طرف تو عرض یہ ہے کہ اپ نے میری پوسٹ نمبر 29 کا جواب ادھورا دیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ اپ اس پوری پوسٹ کا جواب عنایت فرمائیں گے۔ اپ نے لکھا کہ اپ اس کام کا منسوخ ہونا ثابت کریں تو گزارش یہ کہ میں نے یہی تو سوال اٹھایا تھا کہ پہلے اپ اس کام کا حکم تو ثابت کریں منسوخی کی بات تو بعد کی ہے۔ میں نے اپنی پوسٹ نمبر 29 میں نے درج ذیل سوالات اپ سے کئے تھے مگر اپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ اپ نے نورالاانوار کا جو حوالہ دیا ہے اسے میں بھی تسلیم کرتا ہوں لیکن پہلے اپ یہ تو ثابت کریں کہ واقعی قبروں پر مسجد بنانا پچھلی شریعتوں میں جائز تھا؟ اور قران اس کو بحثیت سابقہ شریعتی حکم کے بیان کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قران کی رو سے جن لوگوں نے اصحاب کھف کی قبروں کے پاس مسجد بنانے کا فیصلہ کیا وہ لوگ تھے کون؟ وہ کس شریعت کو فالو کر رہے تھے؟ اور کیا واقعی ان کی شریعت میں یہ جائز بھی تھا کہ نہیں؟ میں نے طبری سے صرف حضرت ابن عباس کا قول اس لئے پیش کیا تھا کیونکہ دوسرا قول اس قول کے بالکل متضاد ہے اور ان دو متضاد اقوال میں سے یقینا حضرت ابن عباس کا قول ترجیع رکھتا ہے کیونکہ تفسیر قران میں حضرت ابن عباس کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔ یہاں ایک نہایت اہم نکتہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے کہ جا،الق میں مفتی احمد یار صاحب نے سورہ کھف کی زیر بحث ایت سے اولیا، اللہ کی قبروں پر قبہ و عمارات بنانے کا استدلال کیا ہے۔ تو انصاف پسند قارئین سے التماس ہے وہ توحیدی بھائی کے پیش کردہ مفسرین کے حوالہ جات چیک کر لیں کہ اصحاب کھف پر عمارت بنانے کا فیصلہ مشرکوں اور کافروں کا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے منع کر دیا ہے تو پھر اس ایت سے استدلال کرنا بے سود ہے۔ وروى الصحيحان عن عائشة: " أن أم حبيبة وأمّ سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجداً وصوّروا فيه تلك الصور أولئك شرارُ الخلق عند الله تعالى يوم القيامة بنو علی قبرہ مسجدا سے صاف ظاہر ہے کہ وہ قبر کے پاس مسجد بنا لیتے تھے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے۔ اور اپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ علی صرف اوپر ہی کے لئے نہیں اتا بلکہ پاس کے اور قریب کے معنوں میں بھی اتا ہے جیسے سورہ توبہ ایت 84 میں ہے کہ ولا تقم علی قبرہ یعنی اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ ظاہری بات ہے یہاں عین قبر پر کھڑے ہونے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ قبر کے پاس کھڑے ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ اور سورہ کھف میں بھی علیھم مسجدا سے یہی مراد ہے کہ ان کے قریب مسجد بنانا ( جا،الحق میں بھی یہی لکھا ہے) اور ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ امام محمد نے کتاب الاثار میں امام ابو حنیفہ کا قول بیان کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ قبر کو نہ تو پختہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے پاس مسجد بنائی جائے او یجعل عندہ مسجد جب اپ مقلد ہیں تو اپنے امام کے قول کے خلاف اپ کیسے کوئی استدلال کر سکتے ہیں؟ کچھ مفسرین کا یہ کہنا کہ یہود و نصاری قبروں کو بت بنا کر پوجتے تھے تو اس بات کی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں کہ انہوں نے کسی قبر کو بت بنا کر پوجا ہو۔ اج بھی یہود و نصاری موجود ہیں کیا اپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس قبر کو بت بنا کر پوج رہے ہیں ؟ اور احادیث کے اندر بھی اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ باقی مفسرین کا اصحاب کھف پر مسجد بنانے والوں کے بارے میں اظہار خیال کرنا کہ وہ مسلمان تھے تو ان مفسرین کا اس حوالے سے سورس اف نالج کیا ہے؟ عام طور پر یہی گمان کیا جاتا ہے کہ اصحاب کھف کا واقعہ حضرت عیسی علیہ السلام کےاسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کا ہے تو اگر واقعی یہ بات درست ہے تو صعود عیسی کے بعد سچے اور حقیقی پیروان عیسی تو کبھی بھی غلبہ کی پوزیشن میں نہیں رہے تو پھرغلبو علی امرھم سے یہ لوگ کیسے مراد لئے جا سکتے ہیں۔ اور یہ دلیل پیش کرنا کہ حطیم میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قبر ہے تو یہ ایک بے ثبوت بات ہے اور اگر یہ بات باالفرض درست بھی ہو تو چونکہ اس قبر کا وہان کوئی نام و نشان نہیں تو اس سے استدلال بھی غلط ہوا۔ حضرت حسن بن حسن کی بیوی کے حوالے سے اپ کے استدلال کا جواب بھی جو میں نے موسٹ 29 میں دیا تھا اسے دوبارہ یہاں پیسٹ کر دیتا ہوں تاکہ اپ کو جواب کی اسانی رہے۔ باقی رہا حضرت حسن بن حسن کی بخاری شریف والی روایت کا مسئلہ تو اس کو میں نے صرف بخاری شریف کے حوالے سے بے سند کہا تھا کیونکہ امام بخاری نے اس کی سند کو بیان نہیں کیا ورنہ تغلیق التعلیق علی بخاری کے بارے میں علم تھا۔ بہرحال اس میں جو سند بیان کی گئی ہے اس میں ایک محمد بن حمید ہے جس کے بارے میں امام بخاری کہتے ہیں کہ فی حدیثہ نظر ، امام نسائی کہتے ہیں ثقہ نہیں ، امام جوزانی اسے غیر ثقہ اور بد مذہب کہتے ہیں، امام صالح جزرہ کہتے ہیں اس سے بڑھ کر کسی کو جھوٹ پر دلیر نہیں پایا، امام ابو نعیم کا کہنا ہے کہ محدث ابو حاتم کے گھر ابن خراش اور فقہا، کی ایک جماعت موجود تھی اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ ابن حمید سخت ضعیف ہے، امام ابو حاتم اور امام حمزہ کنانی دونوں اسے کذاب کہتے ہیں، امام ابن حبان کے مطابق ثقات سے مقلوب روایات بیان کرنے میں منفرد ہے۔ اب ایسے راوی کی روایت کا کیا اعتبارہے؟ اور اس روایت کے باطل ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ باالفرض روایت صحیح بھی ہو تو بھی کیا حاصل کیونکہ اصول یہی ہے کہ قول صحابی بھی اگر حدیث رسول کے خلاف ہو تو ناقابل قبول ہے۔ حضرت حسن کی بیوی نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کام کیا تھا پھر جب حالت سنبھلی تو خیمہ اکھاڑ کر واپس چلی گئیں اور سنا کہ ایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ کیا تو نے اس چیز کو پا لیا ہے جس کو گم کیا تھا دوسرے نے جواب دیا نہیں بلکہ مایوس ہو کر لوٹ ائے۔ یعنی حضرت حسن کی بیوی کے اس عمل کا ایک قسم کا مذاق اڑایا گیا۔ باقی رہا صحابہ کرام کی موجودگی کا مسئلہ تو میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا حضرت حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تھی اور مدینہ کے اخری صحابی 78ھ میں فوت ہو گئے تھے اور سب سے اخری صحابی 110ھ میں فوت ہوئے تو اپ خود اندازہ کر سکتے ہیں 97ھ کے بعد بلاد اسلامیہ کے مختلف حصوں میں کتنے صحابہ زندہ ہوں گے؟ اور اگر کوئی صحابی مدینہ ایا بھی ہو گا تو ہو سکتا ہے اس نے منع بھی کیا ہو لیکن اگر اس کا روایات میں ذکر نہیں ایا تو عدم ذکر عدم نفی کو مستلزم تو نہیں ہوتا۔ اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ہوئی اور حضرت حسن بن حسن کی وفات 97ھ میں ہوئی تو 97ھ میں جو صحابہ زندہ تھے ان کی عمر 86 سال تو کنفرم ہوئی اور اگر ان زندہ صحابہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےوقت کم سےکم عمر14 سال بھی فرض کی جائے تو 97ھ میں ان زندہ صحابہ کی عمر 100 سال ہو گی ۔ اس سے اپ خود اندازہ لگا لیں کہ 97ھ میں اتنی عمر کے چند گنے چنے صحابہ ہی ہوں گے اور اس ضعیف العمری میں ان کا دوسرے شہروں سے مدینہ شریف کا سفر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ Edited 7 دسمبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 9 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 9 دسمبر 2012 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 9 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 9 دسمبر 2012 واہ توحیدی صاحب دل خوش کر دتا ای۔ 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 9 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 9 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) post deleted Edited 9 دسمبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 9 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 9 دسمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 9 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 9 دسمبر 2012 3 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mughal... مراسلہ: 11 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 11 دسمبر 2012 جہاں اللہ عزوجل کے انبیاء اولیاء کے قدم مبارک لگ جاتے ہیں وہ جگہ بابرکت ہوجاتی ہیں وہاں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی (مقام ابراہیم کی مثال ہمارئے سامنے ہے وہاں تو نماز پڑھنا بھی باعث ثواب ہے)۔ تو جہاں انبیاء اولیاء عبادت کرتے ہوں اس جگہ پر کتنی برکتیں نازل ہوتی ہوں گئیں اور جہاں وہ مدفن ہوں تو اس جگہ کتنی رحمتیں نازل ہوتی ہوں گئیں وہابی اس لئے یہ بات نہیں مانتا کیوں جہاں ان کے بزرگ بیٹھتے ہوں گئیں یا مدفن ہوں گئیں وہ جگہ باعث برکت نہیں ہوگئ ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 12 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 12 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) ابھی تک مزارات پر عمارات تعمیر کرنے اور ان کے پاس مساجد تعمیر کرنے کے حوالے سے دو دلائل پیش کئے گئے ہیں جن کا جواب میں نے اپنی پوسٹ نمر 38 میں دے دیا تھا۔ جس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ صرف مفسرین کے حوالے پیش کئے گئے ہیں اور صرف مفسرین کے حوالے پیش کرنا ہی جواب نہیں ہوا کرتا۔ بات تو دلیل کی ہوتی ہے اور مفسرین کی دلیل بھی چیک کرنی پڑے گی کہ وہ کس بنیاد پر یہ بات کر رہے ہین۔ میں قائرین سے گزارش کروں گا کہ وہ ایک بار پھر پوسٹ نمبر 38 کا مطالعہ کرکے خود اندازہ لگا لیں کہ اس میں پیش کئے گئے نکات اتنے غیر اہم نہیں ہیں کہ ان کو نظر انداز کیا جائے۔ اب پوسٹ نمبر39 میں چند مزید دلائل پیش کئے ہیں جن کا جائزہ پیش خدمت ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو ام المومنین کے حجرہ میں بنانے سے استدلال کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر دو وجوہات کی بنا پر حجرہ میں بنائی گئی۔ ایک تو اس لئے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی روایت کے مطابق کہ اللہ کا نبی جس جگہ فوت ہوتا ہے اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے اور دوسرا حضرت عائشہ کے اس فرمان کے مطابق کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اندیشے کی وجہ سےکہ اپ کی قبر سجدہ گاہ نہ بن جائے اس لئے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرہ میں دفن کیا گیا۔ اس حوالے سے ایک اہم بات پیش نظر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو حجرہ میں بنانے کو صحابہ کرام نے کبھی اس دلیل کے طور پر نہیں لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ بھی اپنے وفات شدگان کو اسی طریقے سے دفن کرنا شروع کر دیتے بلکہ وہ سنت کے مطابق اپنے مردوں کو عام قبرستان میں دفن کرتے رہے۔ دوسری دلیل کے طور پر حجرت ملا علی قاری رح کا ایک قول مرقاہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے حالانکہ اسی مرقاۃ میں ایک مقام پر و من ابتدع بدعتہ ضلالہ کی شرح کے تحت فرما چکے ہیں کہ بدعت ضلالت وہ ہے جس کا ائمہ مسلمین نے انکار کیا ہو جیسے قبروں پر عمارت بنانا اور انہیں پختہ کرنا۔ اب اپ خود اندازہ فرمائیں جو چیز بدعت ضلالت ہو وہ کیونکر جائز ہو سکتی ہے؟ تیسری دلیل کے طور پر امام عبدالوہاب شعرانی رح کے بھائی کا قول نقل کیا گیا گیا ہے ۔ اب معلوم نہیں کہ ان کا قول کیسے شرعی حجت بن سکتا ہے جب کے وہ واضح طور پر احادیث کے خلاف بھی ہو۔ چوتھی دلیل امام ابن البر قرطبی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس حدیث میں اپ نے فرمایا کہ تمام روئے زمین کو میرے لئے مسجد بنا دیا گیا ہے، وہ حدیث ان احادیث کے لئے ناسخ ہے جن میں صالحین کے پاس مسجد بنانے کی ممانعت ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صالحین کے پاس مسجد بنانے کی ممانعت والی احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں ارشاد فرمائیں تو تمام روئے زمین کو مسجد بنانے والی حدیث ان ممانعت والی احادیث کی ناسخ کیسے ہو سکتی ہے؟؟؟ لہذا امام ابن البر قرطبی کا یہ استدلال درست نہیں ہے اور صالحین کے پاس مسجد بنانے کی ممانعت والی احادیث منسوخ نہیں بلکہ واجب العمل ہیں۔ اور روئے زمین کے مسجد ہونے والی حدیث اور صالحین کے پاس مسجد بنانے کی ممانعت والی احادیث میں تطبیق یہ دی جا سکتی ہے کہ تمام روئے زمین مسجد ہے سوائے اس جگہ کے جو کہ پاک نہ ہو(یہ شرائط نماز میں سے ہے) اور وہ جگہ جو قبروں کے پاس ہو۔ Edited 12 دسمبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 13 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 13 دسمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 13 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 13 دسمبر 2012 Note for Mustafvi Sahib : Muhtram Guzarish yeh hay Yeh forum kisi bhi gumnam shakhs ki zaati tahqeeq par discussion k leay naheen bnaya gya.Isi leay aap dekh sktay hain keh Jab bhi kisi doosray say jwab talabi k leay koi topic bnaya jata hay to wo kisi na kisi Maslak k mutaliq hota hay aor us main us maslak k Mustanad ulama k qaol-o-fel ya ebaraat par jwab talabi ki jati hay. Ab aap apnay aap ko kisi maslak say mansoob bhi naheen kartay aor hmaray maslak par aitraz bhi krtay hain. To aesi soorat-e-haal main Quran-o-Hadees k sath sath mutaqadimeen ki kutub k hawala jat aap ko bator-e-daleel pesh kiay jatay hain. Ab aap mutaqadimeen ki tahqeeq ko bhi naheen maantay. To Muhtram aap hi btaeay keh kia aesi soorat-e-haal main discussion jari rakhna mumkin hay? Toheedi bhai nay bahut saray Ulama k hawalay say aap ko Quran Majeed ki Tafseer paish ki, lekin aap nay sab ka inkaar kar diya, LEKIN baghair daleel kay. To ab aap hi btain keh discussion kesay aagay bharhay?? Agar har kisi ki zaati aara par behs shuroo kar dain to phir to forum bekar ho jaye ga. Aik shakhs 1 ; Jo apnay aap ko kisi maslak say mansoob naheen karta 2. Jis nay kabhi kisi aalim ko mustanad maan kar us ki bat ko qubool naheen kia 3. Jo gumnaam hay, jis ki tahqeeq ko mannay walay hain hi naheen. 4. Jo khud bhi kisi giroh ka mustanad aalim naheen 5. Jo Mutaqadimeen ki bat bhi naheen maanta , lekin is par apnay kisi aalim ka fatwa bhi naheen pesh krta Say disussion jari reh skti hay??? ......... Lihaza Guzarish hay keh next post bhi baghair hawalajat keh agar aap ki zaati tahqeeq par mabni hui to aap ko mazeed posts ki ijazat naheen di jaye gi. Toheedi bhai nay jo hawala jaat pesh keay hain , unko aap ghalat sabit krain. Lekin Mustanad hawala jat k sath. Aap ki Tahqeeq aap ko mubarak. Yeh forum kisi gumnam fard-e-wahid ki bila daleel zaati tahqeeq par behs k leay naheen hay. Shukria اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 13 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 13 دسمبر 2012 2 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
AbuAhmad مراسلہ: 14 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 14 دسمبر 2012 Moderator bhai ,is topic ko lock kar dai. Jab tak Aimma & Muhadiseen per Wahabi parast mohaqiq (Mustafvi) sharae hukm na lagain اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 14 دسمبر 2012 Report Share مراسلہ: 14 دسمبر 2012 (ترمیم شدہ) @ usman razawi ref ur post # 47 جناب گزارش یہ ہےکہ ابھی تک میں نے جو بات بھی کی ہے وہ دلیل کے ساتھ کی ہے چاہے وہ دلیل نقلی ہے یا عقلی دوسری بات یہ کہ میں نے ہر دلیل کا حوالہ بھی دیا ہے سوائے ایک آدھ بات کہ وہ بھی اس لئے کہ وہ بات اتنی مشہور ہے کہ حوالہ کی ضرورت نہیں ۔ بہرحال آیندہ میں کوشش کروں گا کہ کوئی بات حوالے کے بغیر نہ ہو۔ Edited 14 دسمبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔