Jump to content

میت کا کفن


Jad Dul Mukhtar

تجویز کردہ جواب

<span style="font-family: urdu naskh asiatype"><span style="font-size: 16pt; line-height: 100%"><span style="line-height: 172%">

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ

 

 

میت کا کفن

 

 

میت کو کفن دینا فرض کفایہ ہے ـ اور کفن کے تین درجے ہیں ـ

 

ـ1 ـ کفن ضرورت

ـ 2 ـ کفن کفایت اور

ـ 3 ـ کفن سنت ـ حوالہ : ـ بھار شریعت ، حصہ 4 ، ص 138

 

 

کفن ضرورت : ـ

مرد اور عورت دونوں کے لیے یہ کہ جو میسر آئے اور کم از کم اتنا تر ہو کہ سارا بدن ڈھک جائے ـ یعنی وقت ضرورت جو میسر آئے ، اگرچہ صرف ایک ہی کپڑا جو کہ سر سے پاؤں تک ہو ـ مرد اور عورت دونوں کے لیے بس ہے ـ

 

کفن کفایت : ـ

مرد کے لیے : ( 1 ) لفافہ یعنی چادر ، ( 2 ) ازار یعنی تہبند

عورت کے لیے : ( 1 ) لفافہ یعنی چادر ، ( 2 ) ازار یعنی تہبند ، ( 3 ) اوڑھنی ـ : یا : ـ

ازار کی جگہ کفنی یعنی قمیص

 

کفن سنت : ـ

مرد کے لیے : ( 1 ) لفافہ ( چادر ) ، ( 2 ) تہبند ( ازار ) ، ( 3 ) کفنی ( قمیص ) ـ

عورت کے لیے : ( 1 ) لفافہ ( چادر ) ، ( 2 ) تہبند ( ازار ) ، ( 3 ) کفنی ( قمیص ) ، ( 4 ) اوڑھنی ، ( 5 ) سینہ بند

 

 

کفن کی مقدار یعنی ناپ

 

 

لفافہ : ـ

لفافہ یعنی چادر جو مرد اور عورت دونوں کے کفن میں ہوتی ہے ، اس کی مقدار یہ ہے کہ میت کے قد سے اتنی زیادہ ہو کہ سر اور پاؤں تک پہنانے ( لپیٹنے ) کے بعد اوپر اور نیچے دونوں کی طرف سے باندھ سکیں ـ یعنی سر کی طرف اتنی زیادہ ہو کہ سر کی طرف باندھ سکیں اور پاؤں کی طرف بھی اس قدر زیادہ ہو کہ پاؤں کی طرف سے بھی باندھ سکیں ـ

 

تہبند : ـ

تہبند یعنی ازار جو مرد اور عورت دونوں کے کفن میں ہوتی ہے ، اس کی مقدار جاننے سے پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ عام طور سے تہبند اس چادر کو کہتے ہیں جو کمر میں شلوار یا پاجامہ کی جگہ استعمال ہو ، اور اس کا لنگی بھی کہتے ہیں ، لیکن میت کے کفن میں جو تہبند یعنی ازار ہوتا ہے ، وہ صرف کمر سے لے کر پاؤں تک نہیں ، بلکہ سر سے لے کر پاؤں تک ہوتا ہے ، البتہ تہبند یعنی ازار کے طور پر استعمال ہونے والی چادر کی مقدار ( لمبائی ) لفافہ کی چادر سے کم ہوتی ہے ـ یعنی تہبند سر سے لے کر پاؤں تک ہے ، لفافہ کی طرح قد سے زیادہ نہیں ہوتا ـ اسے لفافہ کے اوپر بچھا دینا چاہیئے ـ کمر میں باندھنا یا لپیٹنا نہیں چاہیئے ـ

 

کفنی : ـ

کفنی یعنی قمیص جو مرد اور عورت دونوں کے کفن میں ہوتی ہے ، اس کی مقدار یہ ہے کہ گردن سے لے کر گھٹنوں کے نیچے قدم تک ہو ـ اس قمیص میں آستین نہیں ہوتی ، علاوہ ازیں اس کے اطراف میں سلائی بھی نہیں ہوتی ـ قمیص آگے و پیچھے دونوں طرف لمبا‏ئی میں برابر (مساوی ) ہوتی ہے ـ

 

اوڑھنی : ـ

جو صرف عورت ہی کے کفن میں ہوتی ہے ، وہ تین ہاتھ یعنی ڈیڑھ گز کی ہونی چاہیئے ـ

 

سینہ بند : ـ

یہ بھی صرف عورت کے کفن میں ہوتا ہے ـ اس کی مقدار کندھوں کے نیچے سے ناف تک ہے ـ اور بہتر یہ ہے کہ کندھوں کے نیچے سے ران تک ہو ـ

 

 

کفن پہنانے کا سنت طریقہ

 

 

ـ میت کو غسل دینے کے بعد میت کے بدن کو آہستہ اور نرمی کے ساتھ پاک کپڑے سے پونچھ لیں تاکہ کفن گیلا نہ ہو ـ

 

ـ غسل سے فارغ ہونے کے بعد میت کو فورا کفن پہنا دینا چاہیئے ـ

 

ـ چارپائی پر پہلے لفافہ یعنی بڑی چادر بچھا دی جائے اور اس پر تہبند ( ازار ) یعنی چھوٹی چادر بچھا دی جائے ـ پھر چھوٹی چادر پر کفنی یعنی قمیص اس طرح رکھیں کہ بعض کا نیچے والا حصہ چھوٹی چادر پر بچھا دیا جائے اور قمیص کا اوپر والا حصہ جو میت کے سینے پر رکھا جائے گا ، اس کو چارپائی کے سرہانے کی طرف کر دیا جائے ـ

 

ـ پھر میت کو چارپائی پر قمیص یعنی کفنی پر لٹایا جائے اور قمیص کا وہ حصہ جو چارپائی کے سرہانے کی طرف کر دیا گیا تھا ، جس کو کفن سینے کے وقت چاک کرکے اس میں گلا بنایا گیا تھا ـ اس میں سے میت کے سر کو گزار دیں ، پھر قمیص کا وہ حصہ جو چارپائی کے سرہانے کی طرف کر دیا گیا تھا ، وہ حصہ اب میت کے سینے سے قدم تک کر دیں ـ

 

ـ پھر تہبند ( ازار ) یعنی چھوٹی چادر کو لپیٹا جائے ـ اس طرح کہ میت کی با‏ئیں جانب کا حصہ پہلے لپیٹیں پھر دائیں جانب کا حصہ لپیٹیں ، تا کہ دائیں طرف کا حصہ بائیں طرف کے حصہ کے اوپر رہے ـ

 

ـ لفافہ یعنی بڑی چادر کو بھی مندرجہ بالا طریقہ سے لپیٹ کر سر اور پاؤں کی طرف باندھ دیں ، تا کہ کفن کھلنے نہ پائے ـ

 

نوٹ : ـ

 

عورت کو کفن پہنانے میں حسب ذیل طریقہ اپنائیں ـ

 

ـ عورت کو کفنی یعنی قمیص پہنانے کے بعد اس کے سر کا بال دو حصے کر کے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں ـ بالوں کا ایک حصہ سینہ کے دائیں طرف اور دوسرا حصہ سینہ کے بائیں طرف ڈالیں ـ

 

ـ پھر اوڑھنی کو نصف پشت ( آدھی پیٹ ) کے نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منھ پر مثل نقاب ڈال دیں کہ اوڑھنی کا وہ حصہ سینہ پر رہے ـ اوڑھنی لمبا‏ئی میں نصف پشت سے سینہ تک یعنی تقریبا ڈیڑھ گز ہونی چاہیئے اور چوڑائی میں ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک ہونی چاہیئے ـ

 

ـ اوڑھنی ڈالنے کے بعد ازار ( چھوٹی چادر ) اور لفافہ ( بڑی چادر ) کو گزشتہ بیان کیے گئے طریقے سے لپیٹیں ـ

 

ـ پھر سب کے اوپر سینہ بند باندھیں ـ سینہ بند کندھوں کے نیچے سے ران بک باندھیں ـ

 

مذکورہ مسائل بحولہ : ـ

درمختار ، باب صلوۃ الجنائز ، ج 1 ، ص 121

رد المختار ، ج 1 ص 578 تا 580

فتاوی ھندیہ ، فصل ثالث ، ج 1 ، ص 161

فتاوی رضویہ ، مترجم ، ج 9 ، ص 100 تا 104

بھار شریعت ، حصہ 4 ، ص 138 تا 141

</span></span></span>

Link to comment
Share on other sites

<span style="font-family: urdu naskh asiatype"><span style="font-size: 16pt; line-height: 100%"><span style="line-height: 172%">

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالی و برکاتہ و مغفرہ

 

 

مسئلھ : ـ

مرد اور عورت کی کفنی ( قمیص ) میں فرق ہے ـ مرد کی قمیص مونڈھے پر چیریں اور عورت کی قمیص کو سینہ کی طرف چیریں ـ

 

حوالہ : ـ بھار شریعت ، حصہ 4 ، ص 139

 

 

مسئلہ : ـ

میت کو جب قمیص ( کفنی ) پہنائیں ، تو ڈاڑھی اور تمام بدن پر خوشبو ملیں اور مواضع سجود یعنی پیشانی ، ناک ، ہتھیلیاں ، گھٹنے اور قدم پر کافور لگائیں ـ

 

حوالہ : ـ عالمگیری ، در مختار ، بھار شریعت ، حصہ 4 ، ص 141

 

 

مسئلہ : ـ

میت کو کفن پہنانے سے پہلے کفن کو ایک یا تین یا پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں ، اس سے ذیادہ ـ

 

حوالہ : ـ ایضا

 

مسئلہ : ـ

جو بچہ پیدا ہو پھر اس کا انتقال ہو جائے ، چاہے وہ ایک دن یا اس سے کم کا ہو ، اسے کفن دیا جائے گا ـ

 

حوالہ : ـ

بھار شریعت ، حصہ 4 ، ص 140

 

 

مسئلہ : ـ

جو بچہ مردہ پیدا ہوا یا کچا گر گیا ، اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے کفن نہ دیا جائے ـ

 

حوالہ : ـ در مختار ، باب صلوۃ الجنائز ، ج 1 ، ص 121

فتاوی رضویہ ، متاجم ، ج 9 ، ص 100

 

 

مسئلہ : ـ

میت کو کفن مسنون کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ باندھنا علما‏ئے کرام اور مشا‏ئخ عظام و سادات کے لیے جائز اور عوام کے لیے مکروہ ہے ـ

 

حوالہ : ـ فتاوی امجدیہ ، کتاب الجنا‏ئز ، ج 1 ، ص 367

 

ـ اور علمائے متاخرین نے اس کو علماء اور سادات کے لیے مستحسن بتایا ہے ـ

 

حوالہ : ـ شامی المعروف بہ رد المختار علی در المختار ، باب الجنائز ، ج 1 ، ص 636

 

 

ـ اور ظاہر الروایہ میں کفن میں عمامہ نہیں ہے اور فتاوی میں ہے کہ علمائے متاخرین نے اسے عالم کے لیے مستحب ٹھہرایا ہے ـ

 

حوالہ : ـ فتاوی ھندیہ المعروف بہ فتاوی عالمگیری ، کتاب الجنائز ، فصل ثالث فی الکفن ، ج 1 ، ص 160

</span></span></span>

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...