Mustafvi مراسلہ: 7 نومبر 2012 Report Share مراسلہ: 7 نومبر 2012 ایک اہل حدیث فورم پر ایک اہل حدیث نے یہ ٹاپک شروع کیا تھا کہ اصلواہ واسلام علیک یا رسول اللہ پکارنا غلط ہے اس پر میری اہل حدیث حضرات سے جو گفتگو ہوئی وہ پیش خدمت ہے۔ اہل حدیث اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔ سورة الأحزاب 56 اس آیت میں ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﻛﮯ ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭ ﻣﻨﺰﻟﺖ ﰷ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣ ﺍﻋﻠﲐ ( ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ) ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﹲ ﻛﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﻛﮧ ﺍﹴ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺛﻨﺎﻭ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻛﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﹲ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺩﺭﺟﺎﺕ ﻛﯽ ﺩﻋﺎ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﹴ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﻔﻠﯽ ( ﺍﮨﻞ ﺯﻣﯿﻦ ) ﻛﻮ ﺣﻜﻢ ﺩﯾﺎ ﻛﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﹲ ﭘﺮ ﺻﻠﻮٰﺉ ﻭﺳﻼﻡ ﺑﮭﯿﺠﯿﮟ ﺗﺎﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﻛﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﯼ ﺍﻭﺭﺳﻔﻠﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﺘﺤﺪ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ, ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻛﺮﺍﻡ ﺄ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﻛﯿﺎ, ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ! ﺳﻼﻡ ﰷ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﺘﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮨﻢ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﮍﮬﯿﮟ ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﭖ ﹲ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺩ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻤﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺻﯿﻐﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺟﻮ ﭘﮍﮬﮯ ﺟﺎﺳﻜﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻧﯿﺰ ﻣﺨﺘﺼﺮﺍﹰ ﺻﻠﯽ ﺍﹴ ﻋﻠﯽٰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺳﻜﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ! ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺻﯿﻐﮧ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﺳﮯ ﻋﺎﻡ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭼﻮﻧﻜﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﻗﺒﺎﺣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮﺁﮞ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺱ ﻓﺎﺳﺪ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻓﺎﺳﺪﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﻛﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺬﻛﻮﺭﮦ ﺧﺎﻧﮧ ﺳﺎﺯ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻏﯿﺮ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺫﺍﻥ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ, ﺟﻮ ﺛﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ, ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ۔ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﯽ ﺑﮍﯼ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﮯ۔ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺳﻨﺖ ؟ ﺟﻤﮩﻮﺭ ﻋﻠﻤﺎ ﺍﺳﮯ ﺳﻨﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎ ﻭﺍﺟﺐ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﮨﯽ ﻛﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺁﺧﺮﯼ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ, ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻛﯽ ﻭﮨﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﺸﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﻭﺩ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔ ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﻧﻔﻊ ﰷ ﺍﻭﺭ ﻛﺴﯽ ﺿﺮﺭ ﰷ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﹴ ﻛﻮ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ۔ ﮨﺮ ﺍﻣﺖ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﻚ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﰷ ﻭﮦ ﻣﻌﯿﻦ ﻭﻗﺖ ﺁﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﻚ ﮔﮭﮍﯼ ﻧﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺳﻜﺘﮯﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺁﮔﮯ ﺳﺮﻙ ﺳﻜﺘﮯ ﮨﯿﮟ سوره یونس ٤٩ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﮨﻢ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺟﺐ ﺍﻓﻀﻞ ﺍﻟﺨﻼﺋﻖ, ﺳﯿﺪ ﺍﻟﺮﺳﻞ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﹲ ﺗﻚ ﻛﺴﯽ ﻛﻮ ﻧﻔﻊ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ, ﺗﻮ ﺁﭖ ﻛﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻛﻮﻥ ﺳﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮﺳﻜﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻛﺴﯽ ﻛﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﺑﺮﺁﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﲁ ﻛﺸﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﻮ ؟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﺍﹴ ﻛﮯ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﺳﮯ ﻣﺪﺩ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ, ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻛﺮﻧﺎ, ﹾﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﹴ ﻣﺪﺩﹿ ﺍﻭﺭ ﹾأغثني يا رسول الله ﹿ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻐﺎﺛﮧ ﻭﺍﺳﺘﻌﺎﻧﺖ ﻛﺮﻧﺎ, ﻛﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻛﯿﻮﻧﻜﮧ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻛﯽ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﻛﯽ ﺩﯾﮕﺮ ﻭﺍﺿﺢ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﻛﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ﺑﻠﻜﮧ ﯾﮧ ﺷﺮﻙ ﻛﯽ ﺫﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا ۔ مصطفوی آپ نے ایک وقت میں ایک سے زائد موضوعات شروع کر دیئے ہیں۔بہرحال باری باری بہ توفیق الہی جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ١: اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے۔ ﺳﻼﻡ ﰷ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻟﺘﺤﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ! ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ) ﮨﻢ ﺩﺭﻭﺩ ﻛﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﮍﮬﯿﮟ ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﭖ ﹲ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺩ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻤﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻧﻤﺎﺯﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود اور سلام کا طریقہ یہ سکھایا کہ درود نماز والا پڑہنا چایئے اور سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ۔اور اس کا مطلب اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ لصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ پر درود و سلام ہو۔ اگر آپ اس صیغے سے سلام نہ بھی پڑھنا چاہیں تو پھر بھی آپ کو سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ کے صیغے سے ہی پڑھنا ہو گا۔ جب الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ اور السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کا مفہوم ایک ہی ہے تو ان دونوں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢: ﺗﺎﮨﻢ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ! ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﻛﺮﯾﻢ ﹲ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﮯ تو جناب السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں بھی خطاب ہی ہے۔ ٣: ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮﺁﮞ ﺍﺱ ﰷ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﺱ ﻓﺎﺳﺪ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﻛﮧ ﺁﭖ ﹲ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس عقیدے سے ہی پڑھتا ہو۔ ہو سکتا ہے کوئی اس عقیدے سے پڑھتا ہو کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا سلام پہنچا دیتے ہیں۔ اور اس حوالے سے ایک حدیث بھی ہے جس کا مفہوم ہے اللہ نے کچھ فرشتے زمین پر مقرر کر رکھے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ ٤: ﺁﭖ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻛﺴﯽ ﻧﻔﻊ ﰷ ﺍﻭﺭ ﻛﺴﯽ ﺿﺮﺭ ﰷ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﹴ ﻛﻮﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ مالک نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور باعث نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک نفع و نقصان کا انکار ہے ۔ " جتنا اللہ کو منظور ہو" کے الفاظ بھی قابل غور ہیں اس پر بھی غور کیجئے گا اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 7 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 7 نومبر 2012 (ترمیم شدہ) پوسٹ ریپیٹ ہو گئی تھی ڈیلیٹ کر دی ہے۔ سرخ رنگ کی تحریر اہل حدیث کی ہے Edited 7 نومبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 7 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 7 نومبر 2012 اہل حدیث اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل؟؟؟ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ اس میں سننے کا ذکر کہاں موجود ہے؟ نبی کریمﷺ کا خود سننا ثابت کریں! اگر ایک وقت میں لاکھوں لوگ نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو کیا نبی کریمﷺ بذاتِ خود سنتے ہیں؟؟؟ اس کی دلیل؟؟؟ میرے بھائی! یہ تو اللہ ربّ العٰلمین کی صفت ہے اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی مالک نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور باعث نفع و نقصان ہونا اور بات ہے اور یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مالک نفع و نقصان کا انکار ہے ۔ " جتنا اللہ کو منظور ہو" کے الفاظ بھی قابل غور ہیں اس پر بھی غور کیجئے گا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ رشوت ناجائز ہے، البتہ تحفہ جائز ہے (اور ہم نے رشوت کا نام تحفہ رکھ لیا ہے۔) مالک نفع ونقصان اور باعث نفع ونقصان میں کیا فرق ہے؟؟؟ مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل؟؟؟ دلیل تو ساتھ ہی دے دی تھی۔ بہرحال اصل موضوع پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔اعتراض صرف خود سننے یا نہ سننے کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یا متوجہ کر دیتا ہے جہاں تک کے میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ریاض الصالحین میں اس حدیث کا حوالہ ہے۔ اس میں سننے کا ذکر کہاں موجود ہے؟ نبی کریمﷺ کا خود سننا ثابت کریں! اگر آپ سنتے نہیں جو جواب کس سلام کا دیتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرما رہے ہیں کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کے میں اس سلام کا جواب دیتا ہوں اور آپ اس میں ھڑیکیں نکال رہے ہیں۔ اگر ایک وقت میں لاکھوں لوگ مختلف زبانوں میں نبی کریمﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو کیا نبی کریمﷺ بذاتِ خود سنتے ہیں؟؟؟ اس کی دلیل؟؟؟ میرے بھائی! یہ تو اللہ ربّ العٰلمین کی صفت ہے۔بھائی ہمیں جتنی بات بتائی گئی ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اب آپ اتنے لوگوں کا سلام کیسے سنتے ہیں ہمیں اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہم اس تفصیل میں جا سکتے ہیں مالک نفع ونقصان اور باعث نفع ونقصان میں کیا فرق ہے بلا تشبیہ و مثال عرض ہے کہ جیسے سانپ کسی کو کاٹے تو اس کا زہر نقصان پہنچاتا ہے لیکن سانپ یا زہر اللہ کے حکم سے نقصان پہنچاتے ہیں وہ بذات خود نقصان نہیں پہنچا سکتے اس ہم کہہ سکتے ہیں سانپ یا زہر مالک نقصان نہیں بلکہ باعث نقصان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سماعت فرمانے کی ایک دلیل http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878747.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878763.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878798.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878812.jpg اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 7 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 7 نومبر 2012 (ترمیم شدہ) اہل حدیث آپ کا دعویٰ یہ ہے: اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اور اگر بالفرض کوئی اس عقیدے سے بھی پڑھتا ہے کہ اس کا سلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل آپ نے ابھی تک نہیں دی اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی دلیل تو ساتھ ہی دے دی تھی۔ بہرحال اصل موضوع پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔اعتراض صرف خود سننے یا نہ سننے کا ہے۔ نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی اگر آپ سنتے نہیں جو جواب کس سلام کا دیتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرما رہے ہیں کہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کے میں اس سلام کا جواب دیتا ہوں اور آپ اس میں ھڑیکیں نکال رہے ہیں۔ آپ کا دعویٰ نبی کریمﷺ کے خود سننے کا ہے، اس کی دلیل پیش کریں! اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سماعت فرمانے کی ایک دلیل http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878747.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878763.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878798.jpg http://www.islamimehfil.com/uploads/...1340878812.jpg آپ کا دعویٰ نبی کریمﷺ کے خود سننے کا ہے، اس کی دلیل پیش کریں! اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی بلا تشبیہ و مثال عرض ہے کہ جیسے سانپ کسی کو کاٹے تو اس کا زہر نقصان پہنچاتا ہے لیکن سانپ یا زہر اللہ کے حکم سے نقصان پہنچاتے ہیں وہ بذات خود نقصان نہیں پہنچا سکتے اس ہم کہہ سکتے ہیں سانپ یا زہر مالک نقصان نہیں بلکہ باعث نقصان ہیں۔ آپ لوگوں کے نزدیک حجت وہی ہے جو آپ کے پیروں فقیروں نے کہہ دیا۔ اب اگر کتاب وسنت میں اس کے خلاف کوئی بات آئے تو اس کی تاویل کرنا آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں! قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ غیب نہیں جانتے، آپ لوگوں نے ذاتی علم غیب اور عطائی علم غیب کی تاویل ایجاد کر لی۔ قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ نفع نقصان کے مالک نہیں، آپ لوگوں نے باعث نفع ونقصان کی اصطلاح اختراع کرلی۔ بھائی! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ لوگ قرآن وسنت کو سیدھا سیدھا تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟ فرمان باری ہے: ﴿ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الجن اب اس کے بعد آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟؟! ایک اور اہل حدیث شز صاحبہ نے بھی جواب دیا تھا جو درج ذیل ہے مصطفوی صاحب اپ نے کہا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود اور سلام کا طریقہ یہ سکھایا کہ درود نماز والا پڑہنا چایئے اور سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ۔اور اس کا مطلب اے نبی آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ لصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ پر درود و سلام ہو۔ اگر آپ اس صیغے سے سلام نہ بھی پڑھنا چاہیں تو پھر بھی آپ کو سلام السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ کے صیغے سے ہی پڑھنا ہو گا۔ جب الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ اور السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کا مفہوم ایک ہی ہے تو ان دونوں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ,تو جناب السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں بھی خطاب ہی ہے kia Deen mai ab hmari marzi chalegi k jis k dil mai jo aye wo is mai ijad kr le, or ibadaat ka naem ul badal nikal le, jis ksi ki bat ko bhi man kr ap logon ne deen mai is bida,at ko ijad kia hai dekh lijye Allah kia frma rha hai un k baray mai۔ (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو (اور) تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو سورة الأعراف3 مصطفوی کا جواب محترم انس صاحب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے کی دلیل کے طور پر میں نے چند لنکس منسلک کئے تھے آپ نے غالبا ان کو ملاحظہ ہی نہیں کیا میں یہاں ان کا ڈائریکٹ امیج پیسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں،نہ ہو سکا تو پلیز گائیڈ کر دیں۔ نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ آپ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی ریاض الصالحین پر شرع ملاحظہ فرمائیں درود شریف کے باب کی ۔ اس میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کیا ہے صرف حیات کی کیفیت پر اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہل حدیث علما کے اقرار موجود ہیں۔ بہرحال حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ موضوع ہے اس پر کسی اور تھریڈ میں بات کریں گے۔انشا،اللہ۔آپ صرف سننے کی بات کرتے ہیں انبیا، تو قبور میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ چلیں بالفرض آپ کی بات درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سلام نہیں سنتے لیکن یہ بات تو آپ غالبا تسلیم کرتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دیا جاتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں۔اب سلام اسے ہی پہنچایا جاتا ہے اور جواب وہی دے سکتا ہے جو زندہ ہو۔ باقی رہا اللہ کی طرح دیکھنا سننا یا علم رکھنا تو کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہو۔ آپ لوگوں کے نزدیک حجت وہی ہے جو آپ کے پیروں فقیروں نے کہہ دیا۔ اب اگر کتاب وسنت میں اس کے خلاف کوئی بات آئے تو اس کی تاویل کرنا آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں! قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ غیب نہیں جانتے، آپ لوگوں نے ذاتی علم غیب اور عطائی علم غیب کی تاویل ایجاد کر لی۔ قرآن کہتا ہے کہ نبی کریمﷺ نفع نقصان کے مالک نہیں، آپ لوگوں نے باعث نفع ونقصان کی اصطلاح اختراع کرلی۔ بھائی! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ لوگ قرآن وسنت کو سیدھا سیدھا تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟ فرمان باری ہے: ﴿ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ٢١ ﴾ ۔۔۔ سورة الجن اب اس کے بعد آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟؟!! میں نے تو کسی پیر فقیر کا کوئی ریفرینس نہیں دیا۔ باقی رہا علم غیب کا مسئلہ تو وہ بھی ایک الگ ٹاپک ہے یہاں اس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ باعث نفع و نقصان کے حوالے سے میری مثال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ کیا مخلوق کسی کے لئے نفع و نقصان کا باعث نہیں بن سکتی؟ شز صاحبہ کی پوسٹ کا جواب kia Deen mai ab hmari marzi chalegi k jis k dil mai jo aye wo is mai ijad kr le, or ibadaat ka naem ul badal nikal le, jis ksi ki bat ko bhi man kr ap logon ne deen mai is bida,at ko ijad kia hai dekh lijye Allah kia frma rha hai un k baray mai۔ میرے تو کسی پوائنٹ کا آپ نے جواب نہیں دیا۔ بہرحال میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت کے مطابق ہی سلام پڑھتی ہوں گی یعنی السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ و برکتہ اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ اور یاد رکھیے آیت درود میں سلام کی کثرت کا مفہوم ہے اور آپ چونکہ ہم سے زیادہ متبع سنت ہیں اس لئے آپ کثرت سے پڑھا کریں السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ و رحمتہ اللہ و برکتہ اے نبی آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ٓ Edited 7 نومبر 2012 by Abdur Rehman ahlehadis site links removed from pasted icons اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 8 نومبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 8 نومبر 2012 اہل حدیث اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی محترم انس صاحب! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے کی دلیل کے طور پر میں نے چند لنکس منسلک کئے تھے آپ نے غالبا ان کو ملاحظہ ہی نہیں کیا میں یہاں ان کا ڈائریکٹ امیج پیسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں،نہ ہو سکا تو پلیز گائیڈ کر دیں۔ میرے بھائی! میں نے وہ لنکس دیکھے ہیں، مجھے ان میں نبی کریمﷺ کے بذاتِ خود درود سننے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ آپ ازراه كرم وہ الفاظ کوٹ کر دیں جن سے نبی کریمﷺ کا براہ راست سننا ثابت ہوتا ہو۔ اور ساتھ ساتھ اس حدیث کی صحّت وضعف بھی۔ کیونکہ قرآن کریم کے مطابق قبر میں موجود لوگ خود سننے کی صلاحت نہیں رکھتے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو معجزاتی طور پر سنانا چاہیں تو الگ بات ہے، جیسا قلیب بدر والا واقعہ ہے۔ ﴿ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ٢٢ ﴾ ۔۔۔ سورة فاطر ﴿ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ١٤ ﴾ ۔۔۔ سورة فاطر اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی آپ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی ریاض الصالحین پر شرع ملاحظہ فرمائیں درود شریف کے باب کی ۔ اس میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کیا ہے صرف حیات کی کیفیت پر اختلاف کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہل حدیث علما کے اقرار موجود ہیں۔ بہرحال حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ موضوع ہے اس پر کسی اور تھریڈ میں بات کریں گے۔انشا،اللہ۔آپ صرف سننے کی بات کرتے ہیں انبیا، تو قبور میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ بھائی! مرنے کے بعد قبر میں انبیائے کرام کی برزخی زندگی کا تو میں بھی قائل ہوں، اور قبر میں نماز پڑھنے کا بھی۔ لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق فرمایا: ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ البتہ وہ اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں، دنیاوی اعتبار سے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ٣٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر اپنی پوسٹ میں، میں نے یہی لکھا تھا، دوبارہ ملاحظہ کر لیں: نہ بھئی! یہ اتنی سیدھی سی بات نہیں ہے۔ بذاتِ خود سننے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ 11 ہجری میں فوت ہونے کے بعد، قبر مبارک میں دفن کیے جانے کے بعد بھی دنیاوی طور پر زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہر شے کو دیکھتے، سنتے اور اس کا علم رکھتے ہیں۔ جو ایک شرکیہ عقیدہ ہے۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی چلیں بالفرض آپ کی بات درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سلام نہیں سنتے لیکن یہ بات تو آپ غالبا تسلیم کرتے ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دیا جاتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں۔اب سلام اسے ہی پہنچایا جاتا ہے اور جواب وہی دے سکتا ہے جو زندہ ہو۔ مجھے آپ کے اس موقف سے اتفاق نہیں۔ کوئی اگر دنیاوی طور پر زندہ نہ بھی ہو تو اس کو بھی کوئی بات پہنچائی جا سکتی ہے جیسے قلیب بدر میں مشرکین کو سنانے والا معجزانہ واقعہ ہے۔ اسی طرح وہ بھی اللہ کے حکم سے بات کر سکتا ہے جو زندہ نہ ہو، بلکہ جس کی زبان ہی نہ ہو۔ مثلاً قرآن وحدیث میں جنت وجہنم، آسمان وزمین اور پہاڑوں و دیگر مخلوق کے بات چیت کرنے کا ذکر بھی ہے، (جو اللہ کی قدرت کی دلیل ہے) حالانکہ ان کی ہماری طرح زندگی نہیں ہے۔ آپ وہ الفاظ کوٹ کریں جن سے آپ نبی کریمﷺ کے براہ راست سننے کو ثابت کر رہے ہیں، اس پر مزید بات تب ہوجائے گی۔ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی باقی رہا اللہ کی طرح دیکھنا سننا یا علم رکھنا تو کوئی بدبخت ہی ہو گا جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگوں کے نزدیک اللہ کے دیکھنے، سننے اور علم میں اور رسول کریمﷺ کے دیکھنے سننے اور علم میں کیا فرق ہے؟؟؟ اصل پیغام ارسال کردہ از: مصطفوی میں نے تو کسی پیر فقیر کا کوئی ریفرینس نہیں دیا۔ باقی رہا علم غیب کا مسئلہ تو وہ بھی ایک الگ ٹاپک ہے یہاں اس پر بات کرنا مناسب نہیں۔ باعث نفع و نقصان کے حوالے سے میری مثال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ کیا مخلوق کسی کے لئے نفع و نقصان کا باعث نہیں بن سکتی؟ میں نے بھی یہاں علم غیب کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتا، میں نے صرف مثال پیش کی تھی کہ کس طرح آپ لوگ اللہ کے ہر واضح اور صریح حکم میں تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال بھی یہی کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی زبانی فرمایا کہ وہ ہمارے نفع ونقصان کے ذرہ برابر بھی مالک نہیں تو آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح گھڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا اللہ پاک کے مباک کلام پر آپ کو اعتماد نہیں، کہ آپ دوٹوک طور پر اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے، نہ ماننے کے نت نئے حیلے بہانے ایجاد کر رہے ہیں۔ مصطفوی کا جواب جناب انس صاحب میرے بھائی! میں نے وہ لنکس دیکھے ہیں، مجھے ان میں نبی کریمﷺ کے بذاتِ خود درود سننے کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ آپ ازراه كرم وہ الفاظ کوٹ کر دیں جن سے نبی کریمﷺ کا براہ راست سننا ثابت ہوتا ہو۔ اور ساتھ ساتھ اس حدیث کی صحّت وضعف بھی۔ حیرت کی بات ہے آپ کو ان لنکس میں کوئی دلیل نظر نہیں آئی۔ اگر مجھے امیج پیسٹ کرنے کا طریقہ بتا دیا جاتا تو بڑی آسانی ہو جاتی بہرحال میں وہ دلیل ٹائپ کر دیتا ہوں۔ جلا،الافھام میں علامہ ابن قیم نے حدیث نقل کی ہے "طبرانی نے بسند مزکور کہا کہ حضرت ابو دردا، سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو اس لئے کہ وہ یوم مشہود ہے اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں،کوئی بندہ درود نہیں پڑھتا مگر اس کیآواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے وہ جہاں بھی ہو۔ہم نے پوچھا حضور آپ کی وفات کے بعد بھی؟فرمایا ہاں میری وفات کے بعد بھی بےشک اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا، کے جسموں کو کھائے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا ہے کہ درود پڑھنے والے کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے۔اب اس زیادہ کیا واضح دلیل ہو۔باقی اس حدیث پر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو وہ آپ پیش کریں۔ کیونکہ قرآن کریم کے مطابق قبر میں موجود لوگ خود سننے کی صلاحت نہیں رکھتے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو معجزاتی طور پر سنانا چاہیں بھئی ہم کب کہتے ہیں کہ وہ خود سن لیتے ہیں اللہ ہی ان کو سنواتا ہے وہی طاقت عطا کرتا ہے۔میں نے اپنی پہلی پوسٹ میں جو حدیث کوٹ کی تھی اس میں بھی یہی ہے کہ "جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح کو۔۔۔۔۔' بھائی! مرنے کے بعد قبر میں انبیائے کرام کی برزخی زندگی کا تو میں بھی قائل ہوں، اور قبر میں نماز پڑھنے کا بھی۔ لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق فرمایا: ﴿ بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ البتہ وہ اپنی قبروں میں دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں، دنیاوی اعتبار سے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ٣٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الزمر اپنی پوسٹ میں، میں نے یہی لکھا تھا، دوبارہ ملاحظہ کر لیں: ظاہری بات ہے بھائی فوت ہونے کے بعد سب عالم برزخ میں ہی جاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی برزخی زندگی ہی حاصل ہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برزخی زندگی دنیاوی زندگی جیسی ہے بلکہ یوں کہہ لیں اس بھی بڑھ کر ہے۔ آپ قبر میں انبیا، کی نماز کے قائل اور یقینا رزق دیئے جانے کے قائل بھی ہوں گے تو صرف آپ کو ان کے سننے پر ہی کیوں اعتراض ہے؟ آپ نے شہدا، کی زندگی کی بات کی تو اللہ ان کے متعلق یہ بھی فرماتا ہے کہ ان کو مردہ مت کہو بلکہ یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ مردہ ہیں اس لئے جب وہ میت یا مردہ ہی نہیں تو ان پر وہ آیات چسپاں نہ کریں جو مردوں کے لئے ہیں۔ یہ تو بات ہوئی شہید کی زندگی کی تو نبی تو شہید سے افضل ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کیا کہنا۔ اسی لئے میں نے سوال بھی یہی کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی زبانی فرمایا کہ وہ ہمارے نفع ونقصان کے ذرہ برابر بھی مالک نہیں تو آپ کو باعث نفع ونقصان کی اصطلاح گھڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا اللہ پاک کے مباک کلام پر آپ کو اعتماد نہیں، کہ آپ دوٹوک طور پر اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بجائے، نہ ماننے کے نت نئے حیلے بہانے ایجاد کر رہے ہیں۔ ہم کوئی تاویل نہیں کرتےہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اللہ نہ چاہے تو وہ از خود کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اس آیت یہ مفہوم لینا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قسم کا کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا اس کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔ جاری ہےٓ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔