Jump to content

انبیاء اولیاء کو پکارنا


Mustafvi

تجویز کردہ جواب

@ Toheedi bahi ur post # 94 & 97

بلاشبہ انبیا، اس مقام قرب سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں مگر قران و حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انبیا،کو کئی باتوں کا علم اللہ کے بتانے سے ہوتا تھا

 

دیوبندی عقیدہ

انبیاء اللہ کی عطا کے بغیر بھی کچھ باتیں جان لیتے ہیں۔ کئی کی تخصیص تو اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔

حیرت ہے یہ لوگ اپنے اندر تو کفریہ عقائد لیے بیٹھے ہیں اور سارے مسلمانوں کو کافر ثابت کرنے کے در پے ہیں!!!!!

Link to comment
Share on other sites

دیوبندی عقیدہ

 

 

 

 

انبیاء اللہ کی عطا کے بغیر بھی کچھ باتیں جان لیتے ہیں۔ کئی کی تخصیص تو اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔

حیرت ہے یہ لوگ اپنے اندر تو کفریہ عقائد لیے بیٹھے ہیں اور سارے مسلمانوں کو کافر ثابت کرنے کے در پے ہیں!!!!!

میں نے اس پورے تھریڈ میں کسی ایک مقام پر بھی کفر و شرک کی تو کوئی بحث ہی نہیں چھیڑی اور نہ ہی کسی کو کافر ثابت کرنے کے درپے ہوا ہوں۔

باقی عبارتوں کے سیاق و سباق اور پس منظر سے ہٹ کر مفہوم اخذ کرنے کے تو اپ لوگ ویسے ہی ماہر ہیں۔

باقی میرا کوئی تعلق دیوبندیت یا وہابیت سے نہیں ہے۔

Link to comment
Share on other sites

(bis)

جناب توحیدی بھائی

میں اس کا جواب اپنی پوسٹ نمبر 100 میں دے چکا ہوں۔ اپ نے یہ قدسی اذن عطا کئے جانے کے حوالے سے ہیش کی تھی مگر اس میں کسی اذن کا ذکر نہیں ہے۔

اور میں نے شرک والی تو کوئی بات ہی نہیں کی۔

میری پچھلی پوسٹ دوبارہ ملاحظہ کریں۔

@ Toheedi bahi ur post # 94 & 97

اپ نے جو حدیث قدسی پیش کی ہے اس کے کس مقام سے ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ نے ان کو اذن عطا کر دیا ہے؟

 

کیا جب اللہ کسی کا کان اور انکھ بن جاتا ہے اور وہ اس کے ذریعے سنتا اور دیکھتا ہے تو کیا اس بندے کی سماعت اور بصارت اللہ کی سماعت اور بصارت کے برابر ہو جاتی ہے؟

یقینا اپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ تو اب ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کس حد تک اس بندے کی سماعت اور بصارت بنتا ہے اور اس بندے کی سماعت اور بصارت کی کیا حدود ہیں؟

بلاشبہ انبیا، اس مقام قرب سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں مگر قران و حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انبیا،کو کئی باتوں کا علم اللہ کے بتانے سے ہوتا تھا

تو اس کا مطلب ہے جو نتیجہ اپ اس حدیث سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ درست نہیں۔

 

اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔

 

اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔

 

باقی اپ کا سوال کہ اگر کوئی کافر پوچھے کہ اللہ اپنے گھر کو نہ بچا سکا تو تمہاری کیا مدد کرے گا تو اپ کیا جواب دیں گے؟

تو اس بات کا وہی جواب ہے جو اپ اپنی پوسٹ 88 میں دے چکے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ اپنی حکمتوں کے تحت جو چاہے کرے۔

باقی یہ کہ اپ بھی اولیا، کو اللہ پر قیاس نہ کریں۔ اللہ کے بارے میں تو کنفرم ہے کہ وہ قوت اور اقتدار کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چایے کر سکتا ہے

مگر اولیا، کے حوالے سے ہمارے پاس ایسی کوئی کنفرمیشن نہیں ہے۔

Link to comment
Share on other sites

چشتی قادری صاحب

بحوالہ اپ کی پوسٹ نمبر 83

Quote

 

 

جناب نے ایک غلط بنیاد رکھی جو آپ کی بناء الفاسد علی الفاسد

 

کا سبب بنی ھے۔

 

طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے

 

طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔

 

 

(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله

 

السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0)المرتبةالثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔

 

ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے اور اس میں پچاس افراد

 

ھیں۔ جناب اس دوسرے طبقے کے مدلسین کے شروع میں لکھا ھے کہ :۔

 

الثانية (0) من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة (0)

 

یعنی جس کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور الصحیح میں اس کی روایت

 

اس کی پیشوائی اور قلت تدلیس کے باعث لائے جیسے ثوری یا وہ ابن عیینہ

 

کی طرح ثقہ سے ھی تدلیس کرتا ھے۔

۔لیجئےجناب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا

 

جوابا عرض ہے کہ اپ نے باپ اوربیٹے کو خلط ملط کردیا ہے ، ہم جس روایت پر بحث کررہے ہیں اس کی سند میں مدلس راوی ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ، ان کا نام ’’عمرو بن عبد الله السبيعي ‘‘ ہے ، اوریہ مدلس ہیں اورحافظ ابن حجر نے فی الحقیقت انہیں تیسرے طبقہ ہی میں ذکر کیا ہے ، جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میرے الفاظ ایک بار پھر ملاحظ ہوں:

پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:

ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:

عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔

یہاں پر میں نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ، ان الفاظ کو لے کر کوئی بھی شخص ابن حجر کی کتاب طبقات المدلسین کا مراجعہ کرے تو اسے یہ الفاظ تیسرے طبقہ ہی میں ملیں گے ، یعنی ابن حجر نے اس راوی کو تیسرے طبقہ میں ہی ذکر کیا ہے جس کو بھی شک ہو وہ مراجعہ کرکے دیکھ لے۔

 

 

رہا اپکا پیش کردہ حوالہ تو عرض ہے کہ اپ نے دوسرے طبقہ سے’’عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کے بجائے ان کے بیٹے ’’یونس بن عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کا حوالہ پیش کردیا ، ملاحظ ہوں اپ کے الفاظ:

طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔

(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔

ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے۔

عرض ہے کہ اس حوالے میں عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو نہیں ، بلکہ ان کے بیٹے يونس بن عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو دوسرے طبقہ کا مدلس بتایا گیا ہے ۔

لیکن اپ نے بیٹے کو باپ سمجھ لیا۔

 

اب قارئیں خود فیصلہ کریں کہ بناء الفاسد علی الفاسدکا مصداق کون ہے ؟

اورکس کی وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا؟؟

Link to comment
Share on other sites

MERA AQIDA HA K ANBIYA AUR AULIYA AUR FARISHTAY ALLAH KI ATTA SY HAMARI MADAD KARTEIN HAIN,

 

MERAY AQIDAY KO GALT SABIT KAREIN

 

K ALLAH KI ATTA SY B ANBIYA AUR NAIK LOG HUMARI MADAD NAE KR SAKTY.

 

CHALLENGE TO DEOBANDI AND WAHABI AND MUSTAFVI .

Link to comment
Share on other sites

جی مجھ سے طبقہ مدلس بیان کرنے میں خطا ھوئی۔

 

نشاندھی کا شکریہ۔

 

لیکن اس سے ھمارے استدلال پر فرق نہیں پڑتا

 

محدثین نے اس حدیث کو صحیح احادیث میں

 

شمار کیا ھے۔

Link to comment
Share on other sites

(bis)

جناب توحیدی بھائی

بار بار ایک بات دہرانا عجیب لگتا ہے مگر پھر بھی اختصارا عرض کئے دیتا ہوں کہ ملا علی قاری رح نے یا محداہ کے الفاظ سے استدلال کیا ہے

مگر اس حدیث کے دیگر تمام طرق میں صرف یا محمد ہے اور الادب المفرد کے بعض نسخوں میں بھی یا محمد ہی ہے جیسا کہ اپ کے پیسٹ کردہ الادب المفرد کے امیج میں بھی یا محمد ہی ہے۔

تو معلوم ہوا کہ یا محمد کے الفاظ ہی محفوظ اور ثابت ہیں ۔

اور حضرت ابن عمر نے بھی ایک ہی الفاظ بولیں ہوں گے یا تو یا محمد اور یا یا محمداہ ۔

تو جب یا محمداہ کے الفاظ ہی صحیح ثابت نہیں تو ان سے استدلال کیسا۔

 

اپ نے لکھا کہ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام استغاثہ کرتے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگا کرتے تھے۔

اس روایت میں تو صرف ایک صحابی کا ذکر ہے یہ سارے صحابہ اس میں کیسے ا گئے؟

 

اور اپ نے شرک والی بات کی تو نہ مجھے شرمانے کی ضرورت ہے نہ کچھ چپھانے کی کیونکہ موضوع یہ ہے ہی نہیں کہ یہ شرک ہے یا نہیں۔ بہرحال پوسٹ کے اخر میں اس حوالے سے اپ کو میرے موقف کا اندازہ ہو جائے گا۔

 

اپ نے حدیث قدسی کے حوالے سے میرے کسی نکتے کا جواب نہیں دیا۔

نہ اپ نے یہ ثابت کیا کہ اللہ نے ان کو اذن دے دیا ہے۔

دھلوی صاحب سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

امام فخر الدین رازی رح کی تشریح ان ذاتی رائے ہے اور حدیث قدسی سے کوئی میل نہیں کھاتی۔

 

اخر میں ، میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی تفسیر تبیان القران ج 5 سورہ یونس کی ایات 22،23 کا ایک اقتباس ہیش کرتا ہوں۔

یہ درست ہے کہ اگر انبیا، علیہم السلام اور اولیا، کرام کو اللہ تعالی کی امداد کا مظہر مانا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے حاجت روائی کرتے ہیں اور اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کے کام نہیں ا سکتا لہزا یہ شرک اور کفر نہیں ہے۔

لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں

کیونکہ یہ بہرحال

ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔

لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے

تو پھر کیوں نہ صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی سے مدد طلب کی جائے جبکہ پورے قران میں اللہ تعاکی نے اسی کی دعوت دی ہے کہ اسی کو پکارو اسی سے دعا کرو اور اسی سے مدد طلب کرو

اور جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ انبیا، بھی شدائد مشکلات اور اپنی حاجات میں اسی کی طرف کرتے تھے اسی کو پکارتے تھے اور اسی سے دعا کرتے تھے

تو کیوں نہ ہم بھی اپنی مشکلات اور حاجات میں اس کارساز حقیقی کی طرف رجوع کریں اور انبیا، اور صالحین کی اتباع کریں۔

سعیدی صاحب کی عبارت ختم ہوئی

اور اسی اقتباس سے پہلے کے اقتباس میں لکھتے ہیں

اب حال یہ ہے کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی قید اور بغیر کسی استثنا، کے وفات شدہ بزرگوں سے استمداد کو شرک کہتے ہیں

اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مصائب اور شدائد میں اور اپنی حاجات میں اللہ کو چھوڑ کر وفات شدہ بزرگوں کو پکارتے ہیں اور ان کے نام کی ہی دہائی دیتے ہیں اور ان کے نزدیک افضل اور اولی یہی ہے کہ وفات شدہ بزرگوں سے مدد طلب کی جائے

اور اللہ کو پکارنے اور اس سے مدد طلب کرنے کو وہ وہابیت اور نجدیت قرار دیتے ہیں

حالانکہ بعض احادیث اور اثار اور بعض صوفیا کرام اور بعض علما، کرام کی نقول سے

اگر کچھ ثابت بھی ہوتا ہے تو وہ یہ کہ وفات شدہ بزرگوں کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے

یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ کو چھوڑ کر صرف ان کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا افضل اور اولی ہے

اور یہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ

اللہ کا مدد فرمانا قطعی اور یقینی ہے اور اس کو پکارنا اس کی عبادت اور کار ثواب ہے اور وفات شدہ بزرگوں کا مدد کرنا قطعی اور یقینی نہیں۔

Link to comment
Share on other sites

(bis)

اس حدیث کی سند پر بھی سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے اور یہ بات واضح ہو گئی ہے ہے کہ سند کے اعتبار سے بھی یہ حدیث اس معیار کی نہیں کہ اس پر کوئی عقیدہ استوار کیا جا سکے۔

زیادہ استدلال یا محمداہ پر تھا اور یہ الفاظ ثابت نہیں اب صحابی نے یا محمد کہا تو کس نیت سے کوئی نہیں جانتا

اپ کی مرضی ہے اپ امام رازی رح کی تشریح کو ضرور تسلیم کریں مگر کبھی کھلے ذہن سے اس حدیث قدسی اور ان کی تشریح کا موازنہ ضرور کریئے گا

باقی سعیدی صاحب کی بہت سی باتیں قابل غور ہیں ان بھی ضرور توجہ فرمایئے گا ان کی ایک بات یہاں کوٹ کرتا ہوں

لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں

 

کیونکہ یہ بہرحال ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔

 

لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے

 

تو ظن اور گمان کو چھوڑ کر قطعی اور یقینی بات کو اپنایئں۔

 

میرا خیال ہے کہ دونوں اطراف سے اپنا اپنا موقف بیان ہو چکا ہے لہزا اس پر مزید گفتگو کی حاجت نہیں

ہاں کوئی نئی دلیل سامنے ائی تو اس پر بات ہو سکتی ہے۔

Link to comment
Share on other sites

مصطفوی صاحب

 

آپ نے میری ایک پوسٹ کو شاید ایک فضول بات سمجھ کر رد کر دیا اور جواب دینا گواراہ نہ سمجھا ۔ جناب الفاظ اور انداز سخت ہونگے لیکن آ پ اگر سمجھنے کی کو شش کرتے تو اسی میں آ پ کے تمام سوالوں کا جواب موجود تھا۔

ٓٓٓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے کہا تھا کی اس بات کی کیا قطیعت ہے کہ آ پ اپنے کہلانے والے باپ ہی کے نطفہ سے پیدا ہوے ہیں ؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر کو ئی یقینی اور قطعی دلیل آ پ کے پا س مو جود ہے تو بتا ئے ورنہ مان لیں کہ یہاں آ پ کو حسن ظن اور گمان سے ہی کام لینا پڑے گا۔ اور اس طرح آپ کی اپنی ہی زات آپ کے عقیدے کے خلاف ہوئی

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

جناب سعیدی صاحب۔ اپ کی پوسٹ نمبر 113

اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہو بھی جائے تو اس سے لازم نہیں اتا کہ اس سے وہی عقیدہ بھی ثابت ہو جائے جو اپ ثابت کرنا چایا رہےہیں

اور اس پر پہلے کی کافی گفتگو ہو چکی ہے۔

حدیث قدسی کے حوالے سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ

 

 

کیا جب اللہ کسی کا کان اور انکھ بن جاتا ہے اور وہ اس کے ذریعے سنتا اور دیکھتا ہے تو کیا اس بندے کی سماعت اور بصارت اللہ کی سماعت اور بصارت کے برابر ہو جاتی ہے؟

یقینا اپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ تو اب ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کس حد تک اس بندے کی سماعت اور بصارت بنتا ہے اور اس بندے کی سماعت اور بصارت کی کیا حدود ہیں؟

بلاشبہ انبیا، اس مقام قرب سے سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں مگر قران و حدیث سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انبیا،کو کئی باتوں کا علم اللہ کے بتانے سے ہوتا تھا

تو اس کا مطلب ہے جو نتیجہ اپ اس حدیث سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ درست نہیں۔

 

اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔

 

اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔

اپ نے اصف برخیا والی مثال دی ۔

تو کیا اب اصف برخیا کی وفات کے بعد بھی ان کو پکارا جا سکتا ہے مدد کے لئے؟

اپ نے یا محمد اور یا محمداہ بھی تطبیق کی بات کی ہے تو عرض ہے کہ تطبیق کی ضرورت کیا ہے؟

روایت کے دیگر تمام طرق سے ثابت ہے کہ اصل الفاظ یا محمد تھے۔

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

جناب توحیدی بھائی۔

مجھے یہ علم تو نہیں ہے کہ امام رازی رح کی یہ رائے اسلامی ہے یا نہیں مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے ان کی تشریح حدیث سے میل نہیں کھاتی۔

Link to comment
Share on other sites

جناب توحیدی بھائی۔

مجھے یہ علم تو نہیں ہے کہ امام رازی رح کی یہ رائے اسلامی ہے یا نہیں مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے ان کی تشریح حدیث سے میل نہیں کھاتی۔

جب علم نہیں تو بحث کیوں کر رہے ہو ، حق بات جو سعیدی صاحب & توحیدی بھائی بتا چکے ہیں وہ قبول کرو.

تمہاری پوسٹس سے لگتا ہے کے اولیا کے حیات دنیاوی میں تم ان کے طاقت کے قائل ہو.

 

اب ذرا ایمان سے سوچو جن کو عالم عمل میں الله نے طاقت عطا کی ان سے عالم جزا میں طاقت کیوں چھین لے گا.

اگر تمھارے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس میں یہ بیان ہو کے وفات کے بعد اولیا سے طاقت چھین لی جاتی ہے تو پیش کرو ورنہ اس ٹوپک پر مزید پوسٹ

space waste کر کے فورم

.نہ کرو

 

 

 

شکریہ .

Link to comment
Share on other sites

(bis)

جناب مجھے نہیں پتہ کہ اللہ کے جلال کا نور حدیث قدسی کے کن الفاظ کا ترجمہ یا مفہوم ہے؟

اگر تو امام رازی رح کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ کائنات میں بلند ہونے والی یا پیدا ہونے والی ہر ہر اواز کو سن لیتا ہے اور ہر ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے تو یقینا ان کا یہ نظریہ غیر اسلامی ہے۔

اور اگر ان کا مطلب یہ ہےکہ کسی خاص جہت میں محدود طور پر بطور معجزہ یا کرامت یہ طاقت عطا کی جاتی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

ALLAH

post-1772-0-19031800-1347778081.gif

post-1772-0-24995100-1347778102.gif

ٓاصل موضوع یہ تھا کہ وفات شدہ بزرگوں سے مدد مانگنے کے دلائل ۔

اس حوالے سے حضرت ابن عمر کی یہ روایت ہیش کی گئی تھی۔ بات میں نے بزرگوں کی تھی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے پیش کی جا رہی ہے۔

لیکن حضرت ابن عمر کی یہ روایت بھی مدد مانگنے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کیونکہ ان سے کہا گیا کہ جس سے سب سے زیادہ محبت ہے اس کو یاد کریں تو انھوں نے بطور محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔

 

پوائنٹ نمبر 3

مجھے نہیں علم اللہ کن معنوں میں انکھ کان اور پاوں بنتا ہے۔ یہ سب متشابہات میں سے ہیں ۔

لیکن اللہ جن معنوں سے بھی یہ سب بنتا ہو اس کا نتیجہ خود اسی حدیث میں بیان ہوا ہے۔

 

اس حدیث میں مقام قرب کی انتہا بیان کی گئی ہے اور اس سے جو چیز اس بندے کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف یہی ہے کہ وہ بندہ جب اللہ سے کچھ مانگتا ہے تو اللہ اسے وہ عطا کر دیتا ہے اور اگر وہ اللہ کی پناہ مانگ کر کسی بری شے سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے۔

 

اس حدیث سے قطعا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ بندہ حاجت روائی کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے اذن مل جاتا ہے کہ لوگ اس پکاریں اور وہ ان کی مشکلیں اسان کرتا رہے۔

 

اپ نے اصف برخیا کی بات تو عرض ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے زندگی میں ان سے مدد لی جو کہ زیر بحث ہی نہیں

ان سے بعد از وفات مدد لینے کی کوئی دلیل قران و حدیث سے تو اپ کو پیش کرنی ہے۔

باقی شرک ہے یا کفر وغیرہ تو اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں

اگر اپ کا اصرار ہی ہے تو میں غلام رسول سعیدی صاحب کی بات دہرا دیتا ہوں۔

 

یہ درست ہے کہ اگر انبیا، علیہم السلام اور اولیا، کرام کو اللہ تعالی کی امداد کا مظہر مانا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ وہ اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت اور اس کے اذن سے حاجت روائی کرتے ہیں اور اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کے کام نہیں ا سکتا لہزا یہ شرک اور کفر نہیں ہے۔

لیکن ایسی صورت حال میں جس کا اللہ نے نقشہ کھینچا ہے اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارنا اور اس سے حاجت طلب کرنا مستحسن بھی نہیں

کیونکہ یہ بہرحال

ایک ظنی بات ہے کہ اللہ تعالی ہماری پکار پر ان فوت شدہ بزرگوں کو مطلع کر دے اور ہماری مدد کرنے کی ان کو اجازت دے دے اور طاقت عطا فرمائے۔

 

لیکن جو چیز قطعی اور یقینی ہے اور جس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ سے اور ہر حال میں سننے والا ہے اور ہر قسم کی بلا اور مصیبت کو دور کرنے والا ہے اسے سننے کے لئے کسی کے اذن کی ضرورت نہیں ہے اور مدد کرنے کے لئے کسی کی قوت افرینی کی حاجت نہیں ہے

 

تو پھر کیوں نہ صرف اسی کو پکارا جائے

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

مصطفوی صاحب ۔

١۔کیا قرآن پاک میں زندہ و مردہ کی قید ہے ؟ کہ زندہ اولیاء اللہ سے مدد مانگ لیا کرو اور مردہ سے مانگنا شرک ہے ۔اگر اس قسم کی تقسیم کسی آیت میں ہے تو وہ آیت پیش کیجیے

۔ ۲ کیا بعد الوصال کسی نبی یا ولی کی قریب سے مدد کا عقیدہ شرک ہے کہ نہیں؟جواب دیجیے ۔۔۔۔

۳۔۔

حدیث کے مطابق مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے اور دوسری حدیث کے مطابق جب اللہ عزوجل کسی کو اپنا ولی بنا لیتا ہے تو اس کے ہاتھ ،پاؤں ،بن جاتا ہے ۔کماقال علیہ الصلوة والسلام ۔ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھیے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کو اللہ عزوجل روحانی و نورانی طاقتیں عطا فرماتا ہے ۔جس کی وجہ سے بقول امام فخر الدین رازی قریب و بعید سے یکساں دیکھتا ہے ۔تو کیا وصال کے بعد ولایت چھین لی جاتی ہے؟کیا ان کی یہ طاقتیں زایل ہو جاتی ہیں؟ایک عام شخص کو مرنے کے بعد اس قدر قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ قبر میں دفن ہونے کے بعد چالیس قدموں تک اپنے جنازہ پڑھنے والوں کے قدموں کی آواز سنتا ہے ،قبر پرکے اندھیرے سے جب ایک عام آدمی آنے والوں کو دیکھتا پہنچانتا ہے ، قوت بصارت اس قدر ہو جاتی ہے کہ فرشتوں تک کو دیکھ لیتا ہے۔ جب عام آدمی کی یہ صلاحیت ہے تو اولیاء اللہ کی نورانی و روحانی قوت کیا معاذ اللہ ان سے چھین لی جاتی ہے؟

لہذا جب ان کی نورانی و روحانی قوتیں و طاقتیں زایل نہیں ہوتیں تو پھر زندہ مردہ کی تقسیم ہی غلط ٹھہری ۔

۴

اللہ عزوجل نے خود قران پاک میں کہا کہ بے شک تمھارا ولی اللہ ،رسول اور ایمان والے ہیں۔

آپ نے یہ کہا تھا میرا ایک ولی ﴿دوست﴾مر گیا ہے تو کیا میں اس کو مدد کے لیے پکار سکتا ہوں کیونکہ قرآن نے مومنوں کو ایک دوسرے کا ولی کہا۔ تو عرض ہے کہ ہر ایک کا ولی ہونا اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور اختیارات و تصرفات کے لحاظ سے ہے

حدیث قدسی جس میں ہے کہ پھر میں اس کو اپنا ولی بنا لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کوءی اس ولی کامل سے بغض رکھے تو میں اسے اعلان جنگ کرتا ہوں۔۔۔۔تو کیا یہ حکم آپ کے عام ولی ﴿دوست ﴾ پر بھی صادق آتا ہے؟

میں اس کے ہاتھ ،پاؤں ، آنکھ بن جاتا ہوں۔۔۔۔۔ تو کیا اس حدیث کے مصداق آپ کے ولی ﴿دوست ﴾بھی ہیں؟

لہذا اللہ ،رسول ، اولیاء اللہ اور عام مسلمانوں کا ولی ہونا ،ہر ایک کا ولی ہونا اپنے اپنے مقام و مرتبہ اور اختیارات و تصرفات کے لحاظ سے ہے ۔اللہ عزوجل ،رسول اللہ ، ،اولیاء اللہ اور عام مسلمان ۔لہذا عام مسلمان کی ولایت اور ایک پابند شریعت ولی کامل جس کے فضایل و کمالات کا ذکر خود قرآن و حدیث میں ملتا ہے ان دونوں کو یکساں بتانا کم عقلی ہے۔

۵۔

پھر زندہ مردہ ،کی تقسیم تو آپ تب کرتے جب آپ زندہ اولیاء اللہ سے استمداد کے قایل ہوتے ۔لہذا اگر آپ زندہ کے قاہل نہیں تو مردہ ﴿بقول آپ کے ﴾کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔

بحرحال آپ کوءی ایسی آہت ہی پیش کر دیجیے جس میں زندہ مردہ کی تقسیم پیش کی گی ہو۔لیکن وہ آہت من دون اللہ ،بتوں کے بارے میں نہ ہو اور اس میں کسی قسم کا دوسرا نظریہ یا پہلو بھی موجود نہ ہو بلکہ جو عقیدہ و نظریہ اہل سنت و جماعت کا ہے صرف اسی کا رد ہو۔

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

(bis)

اپ کی تقریبا تمام باتوں کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے لہزا ان کو دہرانا نامناسب ہے۔

باقی حدیث قدسی سب کے سامنے ہے اور اس کے حوالے سے بھی میں نے اظہار خیال کر دیا تھا اس پر تو کوئی جواب نہیں ایا۔

اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ اس پر کیا اعتراض ہے؟

 

اپ نے لکھا کہ مصطفوی صاحب نے غلام رسول سعیدی صاحب کی عبارت کے ذریعے مان لیا کہ یہ شرک و کفر نہیں۔

تو جناب اس پورے تھریڈ میں کسی بھی مقام پر میں نے اس کو شرک کہا ہی نہیں تو اب اس کو شرک تسلیم نہ کرنے کا کیا سوال؟

 

اخری بات کہ جواز بھول جاو اور اولی پر عمل کرو

یہی تو مسئلہ ہے کہ ابھی تک فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لئے پکارنے کا کوئی جواز قران و حدیث سے سامنے ہی نہیں ایا۔

اور باقی سعیدی صاحب نے جو مثال دی ہے کہ حوض سے وضو ناجائز جاننے والے کی موجودگی میں حوض سے وضو اولی ہوتا ہے

 

تو اس سے یہ بات سامنے ائی کہ جب اپ ان لوگوں کے سامنے ہوں جو فوت شدہ بزرگوں کو مدد کےلئے پکارنے کے قائل نہیں تو ان کے سامنے اللہ کو چھوڑ کر فوت شدہ بزرگوں کو پکار لیا کیجیئے اور باقی تمام اوقات میں صرف اللہ کریم کو پکارا کریں۔

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...