Zulfi.Boy مراسلہ: 31 اگست 2012 Report Share مراسلہ: 31 اگست 2012 (ترمیم شدہ) اب جب کہ مختلف روایتوں میں یا محمد اور یا محمداہ دونوں کا استعمال ہوا ہے لہزا اپ قطعیت سے نہیں کہہ سکتے کہ کون سا لفظ اصل میں استعمال ہوا ۔ جب اس کے بارے میں قطعیت ہی نہیں تو استدلال میں قوت ہی نہ رہی۔ is liye dono ko manna pare ga, kyu ke dono aye hai, no problem aur wese bhi ulmaye kiram, muhaddiseen ki kitabo me bhi یا محمداہ likha hai to is se saaf zahir hota hai ke یا محمداہ hi kaha hai..... ویسے روایت کی رو سے تو لفظ یا محمد ہی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابن عمر سے یہ کہا گیا کہ اپ اس کو یاد کریں جس سے اپ سب سے زیادہ محبت ہے۔ تو یہاں یاد کرنے کا کہا گیا تھا مدد مانگنے کا نہیں۔ اگر باالفرض لفظ یا محمداہ ہی استعمال ہوا ہے تو بھی اس صورت میں اس روایت اس میں صاف لکھا کہ جس سے اپ کو محبت ہے اس کو یاد کریں۔ یاد کرنے اور مدد کے لئے پکارنے میں بہت فرق ہے۔ یا محمداہ کا گرامیٹیکلی اگر کوئی معنی مدد ہو بھی تو اس روایت میں وہ معنی استمعال نہیں ہوا کیونکہ ابن عمر کو جب کہا گیا کہ اسے یاد کرین جس سے اپ سب زیادہ محبت کرتے ہیں تو انھوں نے یہ الفاظ یوز کئے۔ ان سے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ مدد مانگیں بلکہ یاد کرنے کا کہا گیا تھا اور انھوں نے اس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کیا۔ ye to har insaan janta hai ke, jab pareshani, ya museebat me koi ho to muhabbat me hi madad ke liye pukarta hai, nafrat se nahi... aur ye bhi pareshan the, is liye madad ke liye pukara, jese ke mene mulla ali qari ka hawala dia hai Edited 31 اگست 2012 by Zulfi.Boy اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 31 اگست 2012 Report Share مراسلہ: 31 اگست 2012 (ترمیم شدہ) میں نے یہ بخاری میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مگر تلاش نہیں کر سکا ہو سکتا ہے نمبر میں کوئی فرق اگیا ہو نمر دوبارہ چیک کر کے بتائیں۔ یقینا یہ سند بخاری ہو گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام ابن حجر نے ابو اسحاق کو طبقہ ثالثہ کا مدلس بتایا ہے اور اس طبقہ کے راوی کی جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ اور بخاری کی تمام روایات محلول علی اسماع ہیں۔یعنی جتنے مدلس ہیں بخاری میں ان کی سماعت کی تصریح ہے۔ Mustafvi sahab, mene aapko Mulla ali qari ka hawala dia ke unhone یا محمداہ ko isteghasa likha hai, to ab kyu apni chala rahe ho... كانه رضى الله تعالى عنه قصد به اظهار المحبة فى ضمن الاستغاثة [Mullah Ali Qari: Sharh ash-Shifa (2/41)] mene pehle hi kaha tha ke apki baat ki koi ahmiat nahi hai... ap sirf apne aqeede ke liye hadees me masle karrahe ho, aur sahaba ka aqeeda to sarkar sallal laho alae he wassalam se madad mangne ka tha, hadees se sabit hai.. aur is hadees me madad hi mangi hai, isko Imam nauvi ne bhi Al azkar (p 271) me likha hai... Ya muhammadah ko... Muhaddiseen ka aqeeda bhi yehi hai jo sahaba ka hai, aur hamara bhi.... aur apne is ko zaif bhi sabit karne ki koshish ki, halanke ye to bukhari ke ravi hai, bukhari ko to sahi se zaif karne ki koshish na kare.... aur apko ye chain of narrator nahi mil rahi mil rahi.... صحیح بخاری کتاب الاذان باب: امام کے پیچھے مقتدی کب سجدہ کریں؟ حدیث نمبر : 690 حدثنا أبو نعيم ، سفيان ،أبي إسحق: Edited 31 اگست 2012 by Zulfi.Boy اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 1 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 1 ستمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 1 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 1 ستمبر 2012 @ zulfi.boy ur post # 50 naaam nahi bataya lekin phir bhi pata hai hazrat jibrail nahi hai, wah بھائی میرے ایک سادہ سی بات اپ کی سمجھ میں نہیں ا رہی۔ روایت میں صاف صاف لکھا ہے کہ ان فرشتوں کی ڈیوٹی درختوں کے پتوں کو گننے کی ہے اگر حضرت جبرائیل کی بھی یہی ڈیوٹی ہے تو ٹھیک ہے ان کو پکار لیں لیکن مسئلہ ہے یہ کہ کسی فرشتے کا نام نہیں بتایا گیا صرف یا عباد کہنے کا حکم ہے۔ اور باقی بحث ہی فضول ہے کیونکہ اس روایت میں فوت شدگان کا کوئی ذکر نہیں۔ اور اپ کی پوسٹ نمبر 51 کے تقریبا سارے جوابات میری پوسٹ نمبر 48 ا چکے ہیں۔ aur apko ye chain of narrator nahi mil rahi mil rahi....[/color] صحیح بخاری کتاب الاذان باب: امام کے پیچھے مقتدی کب سجدہ کریں؟ حدیث نمبر : 690 حدثنا أبو نعيم ، سفيان ،أبي إسحق: ] اس کی سند بخاری میں یوں ہے حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، قال حدثني أبو إسحاق، قال حدثني عبد الله بن يزيد، قال حدثني البراء ـ وهو غير كذوب ـ اور اس میں ابو اسحاق کی سماعت کی تصریح ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام ابن حجر نے ابو اسحاق کو طبقہ ثالثہ کا مدلس بتایا ہے اور اس طبقہ کے راوی کی جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ اور بخاری کی تمام روایات محلول علی اسماع ہیں۔یعنی جتنے مدلس ہیں بخاری میں ان کی سماعت کی تصریح ہے اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 1 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 1 ستمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 1 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 1 ستمبر 2012 حضرت ابن عمرؓ نے یامحمد بوقت تکلیف پکارا ۱ ۔اس کی سند پر جناب کا یہ اعتراض کہ ابواسحاق مدلس ہے اور یہاں عن سے سے روایت کر رہا ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ جب ابواسحاق سے یہ روایت امام شعبہ نے بھی روایت کی ہے تو ابواسحاق کا سماع ثابت ماننا پڑے گا چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تصریح کی ہے: أَمَّا دَعْوَى التَّدْلِيس فَمَرْدُودَة بِأَنَّ شُعْبَة لَا يَرْوِي عَنْ شُيُوخه الْمُدَلِّسِينَ إِلَّا مَا هُوَ مَسْمُوع لَهُمْ۔ تمہارا تدلیس کا دعویٰ مردود ہے کیونکہ شعبہ اپنے مدلس شیوخ سے وہی بات روایت کرتا ہے جو اُن کی مسموع (سنی ہوئی) ہوتی ہے۔ مزید یہ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں لکھا ہے کہ :۔ ۔ثنا شعبة انه قال كفيتكم تدليس ثلاثة الاعمش وأبي إسحاق وقتادة۔ یعنی شعبہ نے کہا کہ میں نے تمہیں اعمش، ابواسحاق،قتادہ تینوں کی تدلیس سے بچا لیا ہے۔ پس ابواسحاق نے جس جس سے بھی یہ روایت سنی ،اس میں تدلیس نہیں کی ہے۔ ۔۲۔ اب آئیں متن کی طرف تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہر سچے مؤمن کے لئے (احب الناس) ہستی حضورﷺ ہی ہیں۔ اذکر جس نے کہا سو کہا مگر صحابی نے اس سے (یامحمد) پکارنا سمجھا یا نہیں؟ یامحمد جب تکلیف دورکرنے کے لئے پکارا جائے تو استغاثہ کے لئے یامحمداہ پکارنے کا ہم معنی ہی تو ہؤا۔ ۔۳۔ عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رحیم(سورۃ التوبۃ،آخر) کی رو سے ہمارا تکلیف میں پڑنا سرکارﷺ پر گراں گزرتا ہے، آپ ہمارے خیرخواہ ہیں اور ہرمؤمن پر رحم فرمانے والے ہیں۔ اس کے بعد تکلیف میں یا محمد پکارنا کیسے جائز نہ ہوگا؟۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 1 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 1 ستمبر 2012 اب آئیں متن کی طرف تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہر سچے مؤمن کے لئے (احب الناس) ہستی حضورﷺ ہی ہیں۔ اذکر جس نے کہا سو کہا مگر صحابی نے اس سے (یامحمد) پکارنا سمجھا یا نہیں؟ یامحمد جب تکلیف دورکرنے کے لئے پکارا جائے تو استغاثہ کے لئے یامحمداہ پکارنے کا ہم معنی ہی تو ہؤا۔ مذکورہ واقعے میں جسمانی تکلیف کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اختیار فرما لیا ۔ انہوں نے ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘ (بہ اختلاف روایات) اس عقیدے کے تحت نہیں پکارا کہ آپ ﷺ ان کی فریاد سن لیں گے اور پھر مدد فرما دیں گے ۔ بلکہ کسی نے پیروں کے سن ہو جانے کا یہ علاج بتلایا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا نام لو ، تو یہ تکلیف دور ہو جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اورنشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، جس سے منجمد خون رواں ہو کر رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سن والی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اور واقعات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں لوگوں نے اپنے کسی محبوب یا محبوبہ کا نام لیا تو ان کے پیروں کا سن پنا ختم ہو گیا (8) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیر سن ہونے کی صورت میں اپنے کسی محبوب کا نام لینا اور اسے محبت سے یاد کرنا ، یہ اس مرض کا نفسیاتی علاج ہے ، اس کا کوئی تعلق فوت شدگان سے استغاثہ واستمداد سے نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے ۔ (8) ملاحظہ ہو الفتوحات الربانیہ علی الاذکار النواویہ ج۴ص۲۰۰ محمد بن علان الصدیقی ۔فضل اﷲ الصمد فی توضیح الادب المفرد ، فضل اﷲ الجیلانی ج۲ ص۴۴۱ المکتبۃ الاسلامیہ ، حمص اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sag e Madinah مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 ustafvi g kindly iss ka jwab b inayat farma dain.Yeh banda to aap ka ham maslak.. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sag e Madinah مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 جناب مصطفوی صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پاوں کے سن ہونے کا تعلق خون منجمد ہونے سے بالکل نہیں ہے۔بلکہ یہ تو عارضی طور پر نرو کنڈکشن میں ٹھہراو کی وجہ سے ہوتا ہے۔اسکو ٹھیک کرنے کا علاج یہ نہیں کہ جسم کو حرارت پہنچاو۔اس لئے اپنی اصلاح فرما لیں۔اور اصل بات کا جواب دیں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 @ sage madina ur post # 58 ustafvi g kindly iss ka jwab b inayat farma dain.Yeh banda to aap ka ham maslak.. جی یہ میرے ہم مسلک نہیں ہیں۔ اپ کی پیش کردہ پہلی روایت باب توسل سے ہے جو کہ زیر بحث نہیں۔ اور دوسری روایت پر پہلے ہی کافی سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 @ Toheedi bhai ur post # 59 چشتی صاحب کی پہلی بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ فی الوقت میری اس حوالے سے تحقیق نہیں ہے۔ اور تیسری بات کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ وہ بھی میرے خیال میں ارریلیونٹ ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 @ zulfi.boy ur post # 50 بھائی میرے ایک سادہ سی بات اپ کی سمجھ میں نہیں ا رہی۔ روایت میں صاف صاف لکھا ہے کہ ان فرشتوں کی ڈیوٹی درختوں کے پتوں کو گننے کی ہے اگر حضرت جبرائیل کی بھی یہی ڈیوٹی ہے تو ٹھیک ہے ان کو پکار لیں لیکن مسئلہ ہے یہ کہ کسی فرشتے کا نام نہیں بتایا گیا صرف یا عباد کہنے کا حکم ہے۔ bilkul simple baat haii... 1) ya ibad me faut shuda hai... kese apko bata dia hai ke hazrat moosa alihe salam 4 maqam pe dikhe hai, to ye faut shuda bhi ya ibad me agaye... daleel ke saath baat ki hai mene zaroori nahi ke sirf hazrat moosa hi ho... samjhe... ye sirf misaal hai, ke hazrat moosa jo dunya se parda kar chuke hai, wo bi ya ibad me shamil hai, q ke dekha gaya hai inko.... isi tarha aur bhi faut shuda se ya ibad ke zarye madad mangte hai... اور اپ کی پوسٹ نمبر 51 کے تقریبا سارے جوابات میری پوسٹ نمبر 48 ا چکے ہیں۔ ek jawab bhi nahi dia hai abhi tak, na koi daleel di hai, sirf firing.... اس کی سند بخاری میں یوں ہے حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، قال حدثني أبو إسحاق، قال حدثني عبد الله بن يزيد، قال حدثني البراء ـ وهو غير كذوب ـ اور اس میں ابو اسحاق کی سماعت کی تصریح ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام ابن حجر نے ابو اسحاق کو طبقہ ثالثہ کا مدلس بتایا ہے اور اس طبقہ کے راوی کی جب تک سماعت کی تصریح نہ ہو روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ اور بخاری کی تمام روایات محلول علی اسماع ہیں۔یعنی جتنے مدلس ہیں بخاری میں ان کی سماعت کی تصریح ہے hadees ke rawi ka page islami bhai ne post kardia haih ke ye bukhari ke ravi hai baki baat apkii fazool hai اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Zulfi.Boy مراسلہ: 2 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 2 ستمبر 2012 (ترمیم شدہ) مذکورہ واقعے میں جسمانی تکلیف کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اختیار فرما لیا ۔ انہوں نے ’’محمد‘‘ یا ’’یا محمد‘‘ (بہ اختلاف روایات) اس عقیدے کے تحت نہیں پکارا کہ آپ ﷺ ان کی فریاد سن لیں گے اور پھر مدد فرما دیں گے ۔ بلکہ کسی نے پیروں کے سن ہو جانے کا یہ علاج بتلایا کہ اپنے سب سے زیادہ محبوب شخصیت کا نام لو ، تو یہ تکلیف دور ہو جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اورنشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، جس سے منجمد خون رواں ہو کر رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سن والی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اور واقعات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں لوگوں نے اپنے کسی محبوب یا محبوبہ کا نام لیا تو ان کے پیروں کا سن پنا ختم ہو گیا (8) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیر سن ہونے کی صورت میں اپنے کسی محبوب کا نام لینا اور اسے محبت سے یاد کرنا ، یہ اس مرض کا نفسیاتی علاج ہے ، اس کا کوئی تعلق فوت شدگان سے استغاثہ واستمداد سے نہیں ہے ab to hansi arahi hai.. matlab ke ek site per kisi jahil ne hadees ki tashreeh kardi to wo apka aqeeda ho gaya aur yaha mulla ali qari ne isteghasa likha hai, wo tasleem nahi kia takleef ka ilaaj kya bataya ke naam lo, aur sahabi ne pukara YA MUHAMMADAH, to bhai YA muhabbat me to nahi lagta, ye to pukara gaya hai, aur jab kisi ko pukarte hai to madad hi mangte hai, hairat hai apke aqeede per yani ke ab aap jab bhi takleef me ho to muhabbat se ya muhammdah pukare ge, lekin Alim ne isteghasa kaha hai to alim ki baat manni chahiye jhahil ki nahi yehi soch ke pukara hai ke wo faryaad sune ge aur madad kare ge (jesa ke mulla ali qari ne likha hai isteghasa) sirf firing, koi daleel nahi... Edited 2 ستمبر 2012 by Zulfi.Boy اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Sag e Madinah مراسلہ: 3 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 3 ستمبر 2012 مصطفوی صاحب ذرا تہسرا پیج دیکھیں جس میں لکھا ہوا ہے، اعینونی یا عباداللہ۔۔اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔۔کیا اس حدیث میں آپ کی بات کا جواب نہیں یا آپ جان بوجھ کر حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہے ہیں؟؟ آپ کی تحقیق اتنی ہے تو کیوں بلا وجہ کسی حدیث شریف کے بارے میں اپنے ریمارکس دے رہے ہیں ؟؟پہلے اپنی تحقیق مکمل کریں پھر شوق سے گفتگو کریں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 3 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 3 ستمبر 2012 @ zulfi.boy ur posts # 64,65 Mustafvi, on 01 September 2012 - 12:54 PM, said: @ zulfi.boy ur post # 50 بھائی میرے ایک سادہ سی بات اپ کی سمجھ میں نہیں ا رہی۔ روایت میں صاف صاف لکھا ہے کہ ان فرشتوں کی ڈیوٹی درختوں کے پتوں کو گننے کی ہے اگر حضرت جبرائیل کی بھی یہی ڈیوٹی ہے تو ٹھیک ہے ان کو پکار لیں لیکن مسئلہ ہے یہ کہ کسی فرشتے کا نام نہیں بتایا گیا صرف یا عباد کہنے کا حکم ہے۔ bilkul simple baat haii... 1) ya ibad me faut shuda hai... kese یہ جو اپ نے میری تحریر کوٹ کی ہے اور پھر جواب دیا ہے اس کا اپس میں کیا ربط ہے؟ میری یہ تحریر اپ کی اس بات کے جواب میں تھی۔ Mustafvi, on 28 August 2012 - 09:50 PM, said: فرشتوں کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ کراما کاتبین کے علاوہ کچھ فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی پتے گننے پر ہے۔ پھر ان میں سے کسی کا نام نہیں بتایا گیا کہ فلان نام کے فرشتے کو ندا دو۔ لہذا حضرت جبرائیل اس میں نہیں اتے۔ naaam nahi bataya lekin phir bhi pata hai hazrat jibrail nahi hai, wah اور دوسری بات یہ کہ ان روایتوں میں کہیں بھی فوت شدہ کو مدد کے لئے پکارنے کا ذکر نہیں ہے۔ جن کا ذکر ہے وہ میں اپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں احادیث کے حوالے سے۔ اگر ان روایتوں میں فوت شدہ کا کوئی ذکر ہے تو بتائیں ۔ ab to hansi arahi hai..matlab ke ek site per kisi jahil ne hadees ki tashreeh kardi to wo apka aqeeda ho gaya aur yaha mulla ali qari ne isteghasa likha hai, wo tasleem nahi kia اگر اپ کو ہنسی ا رہی ہے تو خوب ہنسیں شاید اس طرح اپ کے دل ودماغ پر چھایا غبار ہٹ جائے ۔ ملا علی قاری رح نے یا محمداہ سے استدلال کیا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ یا محمداہ کے الفاظ ہی ابھی ثبوت طلب ہیں۔ حضرت ابن عمر نے دونوں میں سے ایک ہی لفظ بولا ہو گا یا ۔ یا محمد اور یا۔ یا محمداہ اور اس روایت کے اکثر طرق میں یا محمد ہی ایا ہے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 3 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 3 ستمبر 2012 مصطفوی صاحب ذرا تہسرا پیج دیکھیں جس میں لکھا ہوا ہے، اعینونی یا عباداللہ۔۔اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔۔کیا اس حدیث میں آپ کی بات کا جواب نہیں یا آپ جان بوجھ کر حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کر رہے ہیں؟؟ آپ کی تحقیق اتنی ہے تو کیوں بلا وجہ کسی حدیث شریف کے بارے میں اپنے ریمارکس دے رہے ہیں ؟؟پہلے اپنی تحقیق مکمل کریں پھر شوق سے گفتگو کریں۔ بھائی میرے میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس روایت پر پہلے ہی سے کافی گفتگو ہو چکی ہے۔ اپ پورا تھریڈ پڑھیں اس میں اپ کو مختلف مقامات پر اس پر بحث مل جائے گی۔ زلفی بوائے کے ساتھ اس پر بات چل رہی ہے۔ اور اپ کی دوسری بات کے حوالے سے عرض ہے کہ ضروری نہیں ہر بات ہر وقت اپ کے علم میں ہو۔ کبھی کوئی ایسا نکتہ سامنے اجاتا ہے جس پر اپ کی معلومات نہیں ہوتیں۔ بہرحال اس مسئلے پر جو ابھی تک انفرمیشن ملی ہے وہ میں اگلی پوسٹ میں لکھ رہا ہوں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 3 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 3 ستمبر 2012 (ترمیم شدہ) @ chisti qadri ur post # 56 ۔اس کی سند پر جناب کا یہ اعتراض کہ ابواسحاق مدلس ہے اور یہاں عن سے سے روایت کر رہا ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ جب ابواسحاق سے یہ روایت امام شعبہ نے بھی روایت کی ہے تو ابواسحاق کا سماع ثابت ماننا پڑے گا چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تصریح کی ہے: أَمَّا دَعْوَى التَّدْلِيس فَمَرْدُودَة بِأَنَّ شُعْبَة لَا يَرْوِي عَنْ شُيُوخه الْمُدَلِّسِينَ إِلَّا مَا هُوَ مَسْمُوع لَهُمْ۔ تمہارا تدلیس کا دعویٰ مردود ہے کیونکہ شعبہ اپنے مدلس شیوخ سے وہی بات روایت کرتا ہے جو اُن کی مسموع (سنی ہوئی) ہوتی ہے۔ مزید یہ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں لکھا ہے کہ :۔ ۔ثنا شعبة انه قال كفيتكم تدليس ثلاثة الاعمش وأبي إسحاق وقتادة۔ یعنی شعبہ نے کہا کہ میں نے تمہیں اعمش، ابواسحاق،قتادہ تینوں کی تدلیس سے بچا لیا ہے۔ پس ابواسحاق نے جس جس سے بھی یہ روایت سنی ،اس میں تدلیس نہیں کی ہے۔ معترض کا کہنا ہے کہ امام شعبہ نے بھی ابواسحاق سے اسی روایت کو نقل کیا اور امام شعبہ جب ابواسحاق سے نقل کریں تو ان کا عنعنہ مضر نہیں ہے۔ عرض ہے کہ یہ بات اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام شعبہ جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کریں اس طریق میں ابواسحاق کاعنعنہ مضر نہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام شعبہ والا طریق بالکل ویساہی ہے جیسا الادب المفرد میں امام بخاری کا طریق ہے؟؟ قطعا نہیں ۔ [coloملاحظہ و: کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ : امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا: حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَعَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔[/color] غورکریں اس طریق میں امام شعبہ ابواسحاق سے ضرور روایت کررہے ہیں لیکن یہاں ابواسحاق کے استاذ کا نام ہی مذکور نہیں ، اس لئے یہاں یہ قطعا معلوم نہیں کہ اس موقع پر ابواسحاق کے کون سے استاذ تھے۔ مثلا الادب المفر د والے طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ‘‘ ہیں ، اور ان سے ابواسحاق نے سنا ہے یا نہیں ، یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے ، اور شعبہ والے طریق سے یہ قطعا معلوم نہیں ہوتا کہ ابواسحاق نے عبدالرحمن سے سنا ہے کیونکہ اس طریق میں پتہ نہیں ابواسحاق نے اپنے کس استاذ سے روایت کو بیان کیا ہے ، بالخصوص جب کہ یہ بھی ثابت ہے ابو اسحاق نے اسی روایت بیان کرتے ہوئے متعدد شیوخ کا نام لیا ہے۔ شعبہ والے طریق سے صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس طریق میں ابواسحاق نے اپنے جس استاذسے روایت نقل کی ہے اس سے سن رکھا ہے ۔ مثلا اگرکسی طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’زید‘‘ ہیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ابواسحاق نے اپنے استاذ ’’زید‘‘ سے یہ روایت سن رکھی ہے لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوگا کہ ابواسحاق اسی روایت کو بکر ، عمر ، وغیرہ سے بھی بیان کریں تو ان سے بھی موصوف نے یہ رویات سنی ہو ،کیونکہ ان دیگر اساتذہ سے نقل کی گئی روایات کو ابواسحاق سے شعبہ نے روایت نہیں کیا ۔ یعنی امام شعبہ نے ’’زید‘‘ والے جس طریق سے روایت کیا ہے محض اسی طریق میں ابو اسحاق کا عنعنہ مضر نہیں ہوگا پھر اس بنیا پر ابو اسحاق کا یہ استاذ ’’زید‘‘ جس جس طریق میں آئے گا گرچہ اس میں شعبہ نہ ہوں وہاں بھی ابواسحاق کا ’’زید‘‘ سے عنعنہ مضر نہ ہوگا۔ لیکن اگرکسی طریق میں ابواسحاق کا استاذ ’’زید‘‘ کے بجاے دوسرا آگیا تو وہاں ابواسحاق کاعنعنہ قابل قبول نہ ہوگا ، کیونکہ اس طریق والی روایت کو ابو اسحاق سے شعبہ نے نقل نہیں کیا ۔ اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ زیربحث روایت کے جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے شعبہ ہیں اس طریق میں ابواسحاق کے استاذ کے نام کی صراحت ہی نہیں ، لہٰذا گرچہ اس طریق میں ابواسحاق کا ععنعنہ مضر نہیں لیکن یہ طریق مردود ہے کیونکہ اس میں مبھم راوی ہے ۔ اورچونکہ یہاں ابو اسحاق کا استاذ مبہم ہے اس لئے اس بات کا بھی ثبوت نہیں ملا کہ دیگرطریق میں ابواسحاق نے اپنے کسی استاذ سے یہ روایت سنی ہو ۔ لہٰذا امام شعبہ کی روایت بہر صوررت بے سود ہے۔ Edited 3 ستمبر 2012 by Mustafvi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 3 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 3 ستمبر 2012 1 جناب نے سند پر اب نیا حملہ کیا کہ شعبہ نے مدلس کا سماع (عمن سمع)سے بیان کیا ہے۔جناب والا امام ابراہیم نخعی سے ترمذی شریف میں ہے کہ :سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ قَالَ قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَسْنِدْ لِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ إِذَا حَدَّثْتُكَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَهُوَ الَّذِي سَمَّيْتُ وَإِذَا قُلْتُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَهُوَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ۔سلیمان اعمش نے امام ابراہیم سے کہا کہ سند حضرت عبداللہ بن مسعود تک پہنچاؤ۔تو آپ نے فرمایا کہ جب عبداللہ سے ایک آدمی مجھے روایت دے تو میں اس کانام لیتاہوں اور جب میں کہوں: عبداللہ نے کہا۔تو عبداللہ سے بے شمار افراد روایت بیان کرتے ہیں۔۔۔(عمن سمع) میں یہی کیفیت ہے جیسا کہ ابواسحاق کی باقی روایات کو سامنے رکھنے سے پتہ چلتا ہے۔اور امام شعبہ کی بات حق ہے مگر دیوبندی کی سوئی وہیں اڑی رہی گی۔۔۔اور پھر میں بتاؤں گا کہ تدلیس وعنعنہ وارسال احناف کے یہاں عیب شمار ہوتے ہیں یا نہیں۔اعلاء السنن دیکھ لیجئے گا تو معاملہ پہلے ہی حل ہوجائے گا۔ 2 متن میں آپ نے پہلے (یامحمد)اور(یامحمداہ)پر جرح کی تھی۔اب آپ نے حدیث ابن عباس کے الفاظ کو حدیث ابن عمرکے ساتھ گڈمڈ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے (یامحمد)اور(محمد)کے اختلاف کو ذکر کرکے مشکوک کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ ہم صرف یہاں حدیث ابن عمرپر بحث کررہے ہیں اور اُس میں (یامحمد) یا(یامحمداہ) ہے۔ 3 جناب نے طبی نفسیاتی علاج میں ایک نان پریکٹیکل تھیوری پیش کی کہ محبوب کانام ذکر کرنے سے سُن شدہ پاؤں ٹھیک ہوجاتاہے۔۔۔بتائیں توسہی یہ علاج کتنے نفسیاتی ہسپتالوں میں ہورہاہے۔کہیں بھی نہیں۔یہ صرف ایک مفروضہ ہے جوقابل عمل نہیں۔۔جناب محبوب کا نام لینے سے زیادہ سے زیادہ دل کو اطمینان پہنچ سکتا ہے۔۔آپ کا یہ جواب نفسیاتی نہیں بلکہ افسانوی ہے۔۔ پھر اگر صحابی رسول نے تمہارے اسی مفروضہ پرہی عمل کرنا تھا تو (یامحمد)کہہ کرپکارنے کی کیا ضرورت تھی؟اُسے تو صرف (محمد)کہنا ہی کافی تھا۔ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ صحابی نے محبوب کاصرف نام یاد نہیں کیا بلکہ (یا)کی ندا کے ساتھ سرکارﷺکی ذات کو پکارا۔اور رفع تکلیف کے لئے پکارا۔ رسول اللہﷺکے پکارنے کو آپس میں ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح یا جمادات کوپکارنے کی طرح سمجھنادرست نہیں ہے۔ہماری یاجمادات کی سماعت کی رسول اللہ ﷺکی سماعت سے کیانسبت؟ 4 جناب نے آیت(عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم) کو غیرمتعلقہ کیسے کہہ دیا ہے۔ جب آپﷺہرمؤمن پررحم کرنے والے ہیں تو کسی مؤمن کے لئے آپﷺ سے رحم طلب کرنا اس آیت کے تحت حق ہے۔ہاں اگرآپ اپنے آپ کو مؤمن نہیں سمجھتے تو پھر واقعی آپ کے لئے یہ آیت اِس موضوع پر غیرمتعلقہ ہوگی۔ 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafvi مراسلہ: 4 ستمبر 2012 Author Report Share مراسلہ: 4 ستمبر 2012 @ chisti qadri نکتہ 1۔ ہم یہاں ابراہیم نخعی کی بات نہیں کر رہے۔ اس لئے ان کی بات ان تک ہی رہنے دیں۔ بےشک امام شعبہ کی بات سچ ہے مگر ان کی بات اس حوالے سے سچ ہے کہ اگر وہ ابو اسحاق سے کوئی ایسی روایت کریں جس میں وہ اپنے کسی شیخ سے عن سے بھی روایت کریں تو اس پر تدلیس کا اعتراض نہیں ہو گا بلکہ وہ روایت محمول علی السماع ہو گی۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے اس روایت میں ابو اسحاق کے شیخ کا ہی نہیں پتہ ۔ اور باقی روایتوں میں وہ اپنے شیوخ سے عن سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں امام شعبہ نہیں ہیں۔ اور اس روایت میں ابو اسحاق کا کوئی متابع بھی نہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابو اسحاق اپنے کم از کم تین شیوخ سے یہ روایت کرتے ہیں مگر سوائے ابو اسحاق کے ان شیوخ کا کوئی ایک بھی شاگرد ان سے یہ روایت بیان نہیں کرتا۔ پتہ نہیں ان شیوخ نےاس روایت کو صرف ابو اسحاق سے ہی کیوں بیان کیا۔ نکتہ 2 مصر سے الادب المفرد کا ایک نسخہ شائع ہوا تھا جس میں صرف محمد کا ذکر ہے۔ نکتہ 3 جناب نے طبی نفسیاتی علاج میں ایک نان پریکٹیکل تھیوری پیش کی کہ محبوب کانام ذکر کرنے سے سُن شدہ پاؤں ٹھیک ہوجاتاہے۔۔۔بتائیں توسہی یہ علاج کتنے نفسیاتی ہسپتالوں میں ہورہاہے۔کہیں بھی نہیں۔یہ صرف ایک مفروضہ ہے جوقابل عمل نہیں۔۔جناب محبوب کا نام لینے سے زیادہ سے زیادہ دل کو اطمینان پہنچ سکتا ہے۔۔آپ کا یہ جواب نفسیاتی نہیں بلکہ افسانوی ہے۔۔ میں نے دو کتابوں کے حوالے دئے تھے جن میں دیگر لوگوں سے بھی یہ عمل منقول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ کس کس ہسپتال میں اس نفسیاتی علاج پر ہو رہا ہے۔ اپ بتا دیں کہ ابن عمر ر ض کے علاوہ کتنے صحابہ نے یا تابعین نے یہ عمل کیا ہے؟ پھر اگر صحابی رسولنے تمہارے اسی مفروضہ پرہی عمل کرنا تھا تو (یامحمد)کہہ کرپکارنے کی کیا ضرورت تھی؟اُسے تو صرف (محمد)کہنا ہی کافی تھا۔ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ صحابی نے محبوب کاصرف نام یاد نہیں کیا بلکہ (یا)کی ندا کے ساتھ سرکارﷺکی ذات کو پکارا۔اور رفع تکلیف کے لئے پکارا۔ مجھے یا اپ کو کیا پتہ کے ابن عمر نے کس نیت سے یا محمد پکارا؟ دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے۔ جب آپﷺہرمؤمن پررحم کرنے والے ہیں تو کسی مؤمن کے لئے آپﷺ سے رحم طلب کرنا اس آیت کے تحت حق ہے۔ہاں اگرآپ اپنے آپ کو مؤمن نہیں سمجھتے تو پھر واقعی آپ کے لئے یہ آیت اِس موضوع پر غیرمتعلقہ ہوگی۔ میرے علم میں نہیں کے کسی صحابی نے یا کسی بھی جلیل القدر مفسر نے ان ایات کی وہ تشریح بیان کی ہو جو اپ بیان فرما رہیے ہیں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 5 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 ستمبر 2012 نکتہ 1۔ ہم یہاں ابراہیم نخعی کی بات نہیں کر رہے۔ اس لئے ان کی بات ان تک ہی رہنے دیں۔ جناب میں نے نظیرپیش کی تھی۔آپ یہ پہلو کیوں نظرانداز کررہے ہیں؟۔ بےشک امام شعبہ کی بات سچ ہے مگر ان کی بات اس حوالے سے سچ ہے کہ اگر وہ ابو اسحاق سے کوئی ایسی روایت کریں جس میں وہ اپنے کسی شیخ سے عن سے بھی روایت کریں تو اس پر تدلیس کا اعتراض نہیں ہو گا بلکہ وہ روایت محمول علی السماع ہو گی۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے اس روایت میں ابو اسحاق کے شیخ کا ہی نہیں پتہ ۔ جناب امام شعبہ ابواسحاق سے عمن سمع کے ساتھ روایت دیتے ہوئے جو شبہ پیش کیا ہے اسی کی تو امام شعبہ نے ذمہ داری لی ہے۔تین شیخ آپ خودمان رہے ہیں تو یہی توابراہیم نخعی کی نظیر پیش کرنے کی وجہ تھی اوراسی لئے تو غالبا ً امام شعبہ ذمہ داری لیتے ہیں۔ اور باقی روایتوں میں وہ اپنے شیوخ سے عن سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں امام شعبہ نہیں ہیں۔ اور اس روایت میں ابو اسحاق کا کوئی متابع بھی نہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ابو اسحاق اپنے کم از کم تین شیوخ سے یہ روایت کرتے ہیں مگر سوائے ابو اسحاق کے ان شیوخ کا کوئی ایک بھی شاگرد ان سے یہ روایت بیان نہیں کرتا۔ جناب ابواسحاق ثقہ راوی ہے تویہاں متابعت کی کیا ضرورت ؟۔ پتہ نہیں ان شیوخ نےاس روایت کو صرف ابو اسحاق سے ہی کیوں بیان کیا۔ یہ شبہ وسوسہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نکتہ 2 مصر سے الادب المفرد کا ایک نسخہ شائع ہوا تھا جس میں صرف محمد کا ذکر ہے۔ کسی سے حرف رہ جانا معیار نہیں۔یہ روایت علماء کی کثیرتعداد نقل کرتے ہیں۔سبھی (یامحمد)کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔تواُن کے مقابل کسی ناقص مطبوع کی کیا حیثیت؟۔ نکتہ 3 جناب نے طبی نفسیاتی علاج میں ایک نان پریکٹیکل تھیوری پیش کی کہ محبوب کانام ذکر کرنے سے سُن شدہ پاؤں ٹھیک ہوجاتاہے۔۔۔بتائیں توسہی یہ علاج کتنے نفسیاتی ہسپتالوں میں ہورہاہے۔کہیں بھی نہیں۔یہ صرف ایک مفروضہ ہے جوقابل عمل نہیں۔۔جناب محبوب کا نام لینے سے زیادہ سے زیادہ دل کو اطمینان پہنچ سکتا ہے۔۔آپ کا یہ جواب نفسیاتی نہیں بلکہ افسانوی ہے۔ میں نے دو کتابوں کے حوالے دئے تھے جن میں دیگر لوگوں سے بھی یہ عمل منقول ہے۔ مجھے نہیں علم کہ کس کس ہسپتال میں اس نفسیاتی علاج پر ہو رہا ہے۔ اپ بتا دیں کہ ابن عمر ر ض کے علاوہ کتنے صحابہ نے یا تابعین نے یہ عمل کیا ہے؟ صحابہ وتابعین نے تکلیف وجنگ میں سرکارﷺکو پکارا ہے۔اس پرشواہد موجودہیں۔ پھر اگر صحابی رسول نے تمہارے اسی مفروضہ پرہی عمل کرنا تھا تو (یامحمد)کہہ کرپکارنے کی کیا ضرورت تھی؟اُسے تو صرف (محمد)کہنا ہی کافی تھا۔ کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ صحابی نے محبوب کاصرف نام یاد نہیں کیا بلکہ (یا)کی ندا کے ساتھ سرکارﷺکی ذات کو پکارا۔اور رفع تکلیف کے لئے پکارا۔ مجھے یا اپ کو کیا پتہ کے ابن عمر نے کس نیت سے یا محمد پکارا؟ جناب نے نفسیاتی نیت کہاں سے اخذکرلی؟رفع تکلیف کے لئے سرکارﷺ کو ندائیہ پکار ناصحابی کی سنت ہے یانہیں؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ نداء کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ’’منادیٰ‘‘ ضرور سامنے ہو یا وہ نداء کو سنے بلکہ بعض دفعہ اپنے جذبات کے اظہار اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی ’’منادیٰ‘‘ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے خطاب کر لیا جاتا ہے۔ جی ہاں ندا ء کے لئے ضروری نہیں ،تاہم ندا کے لئے اصل یہی ہے کہ منادیٰ ندا کرنے والے کی سنے اور اصل کے خلاف معنی لینا مجاز ہے اور مجازکی طرف تب جاتے ہیں جب اصل معنی لینا عقلا ونقلا ممکن نہ ہو۔ جب آپﷺہرمؤمن پررحم کرنے والے ہیں تو کسی مؤمن کے لئے آپﷺ سے رحم طلب کرنا اس آیت کے تحت حق ہے۔ہاں اگرآپ اپنے آپ کو مؤمن نہیں سمجھتے تو پھر واقعی آپ کے لئےیہ آیت اِس موضوع پر غیرمتعلقہ ہوگی میرے علم میں نہیں کے کسی صحابی نے یا کسی بھی جلیل القدر مفسر نے ان ایات کی وہ تشریح بیان کی ہو جو اپ بیان فرما رہیے ہیں۔ جناب آیت کا تو ہر ہرلفظ واضح ہے ۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Qadri Sultani مراسلہ: 5 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 ستمبر 2012 جناب چشتی قادری صاحب۔ بھائی قران کی رو سے فرشتے جبرائیل سارے مومن ولی اور مددگار ہیں تو کیا اب ہر فرشتے یا ہر مومن کو پکارنا ثابت ہو جائے گا؟ کیا وہ سبھی سرکارﷺکے بعد ہر مؤمن کے ولی ہیں؟ یا عباداللہ اعینونی میں کون کون مراد ہیں؟انبیاء و اولیاء کو اپنے اوپر قیاس کرنا اور اپنی طرح اُن کو بھی بے کمال قرار دینا ھی تمہاری بدمذھبی کی بنیاد ہے]میں نے کسی کو کسی پر قیاس نہیں کیا اپ نے مطلق دوست کی بات کی تو اس حوالے سے میں نے یہ بات کہی۔ویسے قران کی رو سے تو مومن ایک دوسرے کے مددگار ہیں تواپ کے استدلال کے مطابق تو میں یہ پوچھ ہی سکتا ہوں کہمیرے چند دوست انتقال کر چکے ہیں توکیا میں اپنے مسائل میں ان کو مدد کے لئے پکار لیا کروں؟جناب یہی تو قیاس ہے ۔میں نے مطلق دوست کی وضاحت جناب کے بولنے پرکی تھی۔ مگر ہردوست کااپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔ جناب نے قیاس کیا مگر فارق نہدیکھا۔ یہاں ناصر (مددگار)کا معنی کرنے والے شارحین آپ کے نزدیک مشرک ھیں یا نہیں؟۔میں اتنی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اور نہ ہی اس بحث میں پڑنا چاہتا ہوں کہ کوئی مشرک ہے یا نہیں۔ آپ مشرک مانتے ہیں مگر زبان بند ہے۔ پتہ ہے کون کون زد میں آئے گا۔میں نے عرض کر دیا تھا کہ یہ روایت ایک خاص پس منظر بیان ہوئی ہے لہزااس پس منظر کو اس روایت کے معنی متعین کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔شاہ عبدالعزیز رح نے تحفہ اثناعشریہ میں اس روایت پر بحث کی ہےوہاں دیکھ لیں وہ بھی محبت کے معنی لیتے ہیں۔ شاہ صاحب نے ولیکم کا معنی ناصر کیا ہے۔ دوست بھی مانا اور ناصر بھی۔ شاہ صاحب نے تحفہ میں لکھا کہ کاش ساری دنیا والے یاعلی یاعلی کہتے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Hasan Khan مراسلہ: 5 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 ستمبر 2012 Mustafvi Sb کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ صحابی نے محبوب کاصرف نام یاد نہیں کیا بلکہ (یا)کی ندا کے ساتھ سرکارﷺکی ذات کو پکارا۔اور رفع تکلیف کے لئے پکارا۔ Yaad to dil main bi kiya ja skta ha lekin pukarna is baat ka saboot ha k madad talb ki ja rahi ha. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 5 ستمبر 2012 Report Share مراسلہ: 5 ستمبر 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔