Jump to content

Hadaiq-e-Bakhshish(حدائق بخشش)


Raza

تجویز کردہ جواب

<span style='font-family:urdu naskh asiatype'><span style='font-size:19pt;line-height:100%'><span style='color:blue'><span style="line-height: 180%">

حدائق بخشش

امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ

 

ذریعہ قادریہ

الحمد للہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علیک سید العالمین والہ وابنہ و حزبہ اجمعین

وصل اول درنعت اکرم حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا

نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا

فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا

آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا

اغنیا پلتے ہیں د ر سے وہ ہے باڑا تیرا

اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا

فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں

خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

آسماں خوان زمین خوان زمانہ مہمان

صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنویں کا پیاسا

خود بجھا جائے کلیجا مرا چھینٹا تیرا

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا ں اسکے خلاف

تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب

سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا

دل عبث خوف سے پتا سے اڑا جاتا ہے

پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا

ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی

مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی

اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا

خوار و بیمار خطا وار گنہ گار ہوں میں

رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا

میری تقدیر بری ہو تو بھلی کردے کہ ہے

محو و اثبات کے دفتر پہ کروڑا تیرا

تو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دھلیں

کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا

کس کا منہ تکئے کہاں جائیے کس سے کہئے

تیرے ہے قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا

تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا

موت سنتا ہوں ستم تلخ ہے زہرا بہ ٴ ناب

کون لادے مجھے تلوؤں کا غسالہ تیرا

دور کیا جانیئے بدکار پہ کیسی گزرے

تیرے ہی در پہ مرے بے کس و تنہا ہے تیرا

تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری

جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا

حرم طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نگاہ

جوت پڑتی ہے تیری نور ہے چھنتا تیرا

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

 

وصل دوم

در منقبت آقائے اکرم حضور غوث اعظم رضی الله عنہ

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا

اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا

شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا

تو حسینی حسنی کیوں نہ محی الدین ہو

اے خضر مجمع بحرین ہے چشمہ تیرا

قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے

پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا

مصطفی کے تن بے سایہ کا سایہ دیکھا

جس نے دیکھا مری جاں جلوہٴ زیبا تیرا

ابن زہرا کو مبارک ہو عروس قدرت

قادری پائیں تصدق مرے دولہا تیرا

کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی القاسم ہے

کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا

نبی مینھ ‘ علوی فصل ‘ بتولی گلشن

حسنی پھول حسینی ہے مہکنا تیرا

نبوی ظل علوی برج بتولی منزل

حسنی چاند حسینی ہے اجالا تیرا

نبوی خور علوی کوہ بتولی معدن

حسنی لعل حسینی ہے تجلا تیرا

بحر و بر شہر و قری سہل و حزن دشت و چمن

کون سے چک پہ پہنچتا نہیں دعویٰ تیرا

حسن نیت ہو خطا پھر کبھی کرتا ہی نہیں

آزمایا ہے یگانہ ہے دوگانہ تیرا

عرض احوال کی پیاسوں میں کہاں تاب مگر

آنکھیں اے ابر کرم تکتی ہیں رستا تیرا

موت نزدیک گناہوں کی تہیں میل کے خول

آ برس جا کہ نہا دھولے یہ پیاسا تیرا

آب آمد وہ کہے اور میں تیمم برخاست

مشت خاک اپنی ہو اور نور کا اہلا تیرا

جان تو جاتے ہی جائیگی قیامت یہ ہے

کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارا تیرا

تجھ سے در در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت

میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے

حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا

میری قسمت کی قسم کھائیں سگان بغداد

ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا

تیری عزت کے نثار اے مرے غیرت والے

آہ صد آہ کہ یوں خوار ہو بردا تیرا

بد سہی‘ چور سہی‘ مجرم و ناکارہ سہی

اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا

مجھ کو رسوا بھی اگر کوئی کہے گا تو یوہیں

کہ وہی نا وہ رضا بندہ رسوا تیرا

ہیں رضا یوں نہ بلک تو نہیں جید تو نہ ہو

سید جید ہر دہر ہے مولا تیرا

فخر آقا میں رضا اور بھی اک نظم رفیع

چل لکھا لائیں ثنا خوانوں میں چہرا تیرا

 

وصل سوم

در حسن مفاخرت از سرکار قادريت رضي الله تعالي عنہ

تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شيدا تيرا

تو ہے وہ غيث کہ ہر غيث ہے پياسا تيرا

سورج اگلوں کے چمکتے تھے چمک کر ڈوبے

افق نور پہ ہے مہر ہميشہ تيرا

مرغ سب بولتے ہيں بول کے چپ رہتے ہيں

ہاں اصيل ايک نواسنج رہے گا تيرا

جو ولي قبل تھے يا بعد ہوئے يا ہونگے

سب ادب رکھتے ہيں دل ميں ميرے آقا تيرا

بقسم کہتے ہيں شاہان صريفين و حريم

کہ ہوا ہے نہ ولي ہو کوئي ہمتا تيرا

تجھ سے اور دہر کے اقطاب سے نسبت کيسي

قطب خود کون ہے خادم ترا چيلا تيرا

سارے اقطاب جہاں کرتے ہيں کعبے کا طواف

کعبہ کرتا ہے طواف در والا تيرا

اور پروانے ہيں جو ہوتے ہيں کعبے پہ نثار

شمع اک تو ہے کہ پروانہ ہے کعبہ تيرا

شجر سر و سہي کس کے اوگارے تيرے

معرفت پھول سہي کس کا کھلايا تيرا

تو ہے تو شاہ براتي ہے يہ سارا گلزار

لائي ہے فصل سمن گوندہ کے سہرا تيرا

ڈالياں جھومتي ہيں رقص خوشي جوش پہ ہے

بلبليں جھولتي ہيں گاتي ہيں سہرا تيرا

گيت کليوں کے چٹک غزليں ہزاروں کي چہک

باغ کے سازوں ميں بجتا ہے ترانا تيرا

صف ہر شجرہ ميں ہوتي ہے سلامي تيري

شاخيں جھک جھک کے بجا لاتي ہيں مجرا تيرا

کس گلستاں کو نہيں فصل بہاري سے نياز

کون سے سلسلہ ميں فيض نہ آيا تيرا

نہيں کس چاند کي منزل ميں ترا جلوہ? نور

نہيں کس آئينہ کے گھر ميں اجالا تيرا

راج کس شہر ميں کرتے نہيں تيرے خدام

باج کس نہر سے ليتا نہيں دريا تيرا

مزرع چشت و بخارا و عراق و اجمير

کون سے کشت پہ برسا نہيں جھالا تيرا

اور محبوب ہيں ہاں پر سبھي يکساں تو نہيں

يوں تو محبوب ہے ہر چاہنے والا تيرا

اس کو سو فرد سراپا بفراغت اوڑھيں

تنگ ہوکر جو اترنے کو ہونيما تيرا

گردنيں جھک گئيں سر بچھ گئے دل ٹوٹ گئے

کشف ساق آج کہاں يہ تو قدم تھا تيرا

تاج فرق عرفا کس کے قدم کو کہئے

سر جسے باج ديں وہ پاؤں ہے کس کا تيرا

سکر کے جوش ميں ہيں وہ تجھے کيا جانيں

خضر کے ہوش سے پوچھے کوئي رتبہ تيرا

آدمي اپنے ہي احوال پہ کرتا ہے قياس

نشے والوں نے بھلا سکر نکالا تيرا

وہ تو چھوٹا ہے کہا چاہيں کہ ہيں زير حضيض

اور ہر اوج سے اونچا ہے ستارا تيرا

دل اعداء کو رضا تيز نمک کي دھن ہے

اک ذرا اور چھڑکتا رہے خامہ تيرا

 

وصل چہارم

در منافحت اعداء و استعانت از آقا رضي اللہ عنہ

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تيکھا تيرا

مر کے بھي چين سے سوتا نہيں مارا تيرا

بادلوں سے کہيں رکتي ہے کڑکتي بجلي

ڈھاليں چھنٹ جاتي ہيں اٹھتا ہے تيغا تيرا

عکس کا ديکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے

چار آئينہ کے بل کا نہيں نيزا تيرا

کوہ سر مکھ ہوتو اک دار ميں دو پر کالے

ہاتھ پڑتا ہي نہيں بھول کے اوچھا تيرا

اس پہ يہ قہر کہ اب چند مخالف تيرے

چاہتے ہيں کہ گھٹاديں کہيں پايہ تيرا

عقل ہوتي تو خدا سے نہ لڑائي ليتے

يہ گھٹائيں اسے منظور بڑھانا تيرا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سايہ تجھ پر

بول بولا ہے ترا ذکر ہے اونچا تيرا

مٹ گئے مٹتے ہيں مٹ جائينگے اعدا تيرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھي چرچا تيرا

تو گھٹائے سے کسي کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے

جب بڑھائے تجھے اللہ تعالي تيرا

سم قاتل ہے خدا کي قسم ان کا انکار

منکر فضل حضور آہ يہ لکھا تيرا

ميرے سياف کے خنجر سے تجھے باک نہيں

چير کر ديکھے کوئي آہ کليجا تيرا

!!!

ابن زہرا سے تيرے دل ميں ہيں يہ زہر بھرے

بل بے او منکر بے باک يہ زہرا تيرا

باز اشہب کي غلامي سے يہ آنکھيں پھرتي

ديکھ اڑ جائے گا ايمان کا طوطا تيرا

شاخ پر بيٹھ کے جڑ کاٹنے کي فکر ميں ہے

کہيں نيچا نہ دکھائے تجھے شجرا تيرا

حق سے بد ہو کے زمانہ کا بھلا بنتا ہے

ارے ميں خوب سمجھتا ہوں معما تيرا

سگ در قہر سے ديکھے تو بکھرتا ہے ابھي

بند بند بدن اے روبہ دنيا تيرا

غرض آقا سے کروں عرض کہ تيري ہے پناہ

بندہ مجبور ہے خاطر يہ ہے قبضہ تيرا

حکم نافذ ہے ترا خامہ ترا سيف تري

دم ميں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تيرا

جس کو للکار دے آتا ہوتو الٹا پھر جائے

جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تيرا تيرا

کنجياں دل کي خدا نے تجھے ديں ايسي کر

کہ يہ سينہ ہو محبت کا خزينہ تيرا

دل پہ کندہ ہو ترا نام کہ وہ دزدِ رجيم

الٹے ہي پاؤں پھرے ديکھ کے طغرا تيرا

نزع ميں گور ميں ميزان پہ سر پل پہ کہيں

نہ چھٹے ہاتھ سے دامان معلي تيرا

دھوپ محشر کي وہ جانسوز قيامت ہے مگر

مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلا تيرا

بہجت اس سر کي ہو جو بہجتہ الاسرار ميں ہے

کہ فلک وار مريدوں پہ ہے سايا تيرا

اے رضا چيست غم از جملہ جہاں دشمن تست

کردہ ام مامن خود قبلہ حاجا تے را

 

نعت شريف

ہم خاک ہيں اور خاک ہي ماویٰ ہے ہمارا

خاکي تو وہ آدم جد اعلٰی ہے ہمارا

اللہ ہميں خاک کرے اپني طلب ميں

يہ خاک تو سرکار سے تمغا ہے ہمارا

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سيد عالم

اس خاک پہ قرباں دل شيدا ہے ہمارا

خم ہوگئي پشت فلک اس طعن زمين سے

سن ہم پہ مدينہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

اس نے لقب خاک شہنشاہ سے پايا

جو حيدر کرار کہ مولي ہے ہمارا

اے مدعيو خاک کو تم خاک نہ سمجھے

اس خاک ميں مدفوں شہ بطحا ہے ہمارا

معمور اسي خاک سے قبلہ ہے ہمارا

ہم خاک اڑائيں گئے جو وہ خاک نہ پائي

آباد رضا جس پہ مدينہ ہے ہمارا

 

نعت شريف

غم ہوگئے بے شمار آقا

بندہ تيرے نثار آقا

بگڑا جاتا ہے کھيل ميرا

آقا آقا سنوار آقا

منجدھار پہ آکے ناؤ ڈوبي

دے ہاتھ کہ ہوں ميں پار آقا

ٹوٹي جاتي ہے پيٹھ ميري

للہ يہ بوجھ اتار آقا

ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ

بھاري ہے ترا وقار آقا

مجبور ہيں ہم تو فکر کيا ہے

تم کو تو ہے اختيار آقا

ميں دور ہوں تم تو ہو ميرے پاس

سن لو ميري پکار آقا

مجھ سا کوئي غم زدہ نہ ہوگا

تم سا نہيں غم گسار آقا

گرداب ميں پڑگئي ہے کشتي

ڈوبا ‘ ڈوبا اتار آقا

تم وہ کہ کرم کو ناز تم سے

ميں وہ کہ بدي کو عار آقا

پھر منہ نہ پڑے کبھي خزاں کا

دے دے ايسي بہار آقا

جس کي مرضي خدا نہ ٹالے

مرا ہے وہ نامدار آقا

ہے ملک خدا پہ جس کا قبضہ

مرا ہے وہ کامگار آقا

سويا کئے نابکار بندے

رويا کئے زار زار آقا

کيا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائيں

دنيا کے يہ تاجدار آقا

ان کے ادنيٰ گدا پہ مٹ جائيں

ايسے ايسے ہزار آقا

بے ابر کرم کے ميرے دھبے

لا تغسلہا البحار آقا

اتني رحمت رضا پہ کرلو

لا يقربہ البوار آقا

 

نعت شريف

محمد مظہر کامل ہے حق کي شان عزت کا

نظر آتا ہے اس کثرت ميں کچھ انداز وحدت کا

يہي ہے اصل عالم مادہ? ايجاد خلقت کا

يہاں وحدت ميں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا

گدا بھي منتظر ہے خلد ميں نيکوں کي دعوت کا

خدا دن خير سے لائے سخي کے گھر ضيافت کا

گنہ مغفور دل روشن خنک آنکھيں جگر ٹھنڈا

تعالي اللہ ماہ طيب عالم تيري طلعت کا

نہ رکھي گل کے جوش حسن نے گلشن ميں جا باقي

چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئي باغ رسالت کا

بڑھا يہ سلسلہ رحمت کا دور زلف والا ميں

تسلسل کالے کوسوں رہ گيا عصياں کي ظلمت کا

صف ماتم اٹھے خالي ہو زنداں ٹوٹيں زنجيريں

گنہگارو چلو مولي نے در کھولا ہے جنت کا

سکھايا ہے يہ کس گستاخ نے آئينہ کا يارب

نظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حيرت کا

ادھر امت کي حسرت پر ادھر خالق کي رحمت پر

نرالا طور ہوگا گردش چشم شفاعت کا

بڑھيں اس درجہ موجيں کثرت افضال والا کي

کنارہ مل گيا اس نہر سے دريائے وحدت کا

خم زلف نبي ساجد ہے محراب دو ابرو ميں

کہ يارب توہي والي ہے سيہ کاران امت کا

مدد اے جوشش گريہ بہادے کوہ اور صحرا

نظر آجائے جلوہ بے حجاب اس پاک تربت کا

ہوئے کمخوابي ہجراں ميں ساتوں پردے کمخوابي

تصور خوب باندھا آنکھوں نے استار تربت کا

يقيں ہے وقت جلوہ لغزشيں پائے نگہ پائے

ملے جوش صفائے جسم سے پابوس حضرت کا

يہاں چھڑ کا نمک واں مرہم کافور ہاتھ آيا

دل زخمي نمک پروردہ ہے کس کي ملاحت کا

الہٰي منتظر ہوں وہ خرام ناز فرمائيں

بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخواب بصارت کا

نہو آقا کو سجدہ آدم و يوسف کو سجدہ ہو

مگر سد ذرائع داب ہے اپني شريعت کا

زبان خار کس کس درد سے ان کو سناتي ہے

تڑپنا دشت طيبہ ميں جگر افگار فرقت کا

سرہانے ان کے بسمل کے يہ بيتابي کا ماتم ہے

شہ کوثر ترحم تشنہ جاتا ہے زيارت کا

جنہيں مرقد ميں تا حشر امتي کہہ کہ پکارو گے

ہميں بھي ياد کرلو ان ميں صدقہ اپني رحمت کا

وہ چمکيں بجلياں يارب تجلي ہائے جاناں سے

کہ چشم طور کا سرمہ ہو دل مشتاق رويت کا

رضائے خستہ جوش بحر عصياں سے نہ گھبرانا

کبھي تو ہاتھ آجائے گا دامن ان کي رحمت کا

</span></span></span></span>

Edited by Sag-e-Attar
Color Setting
Link to comment
Share on other sites

<span style='font-family:urdu naskh asiatype'><span style='font-size:19pt;line-height:100%'><span style='color:blue'><span style="line-height: 180%">

نعت شريف

لطف ان کا عام ہو ہي جائے گا

شاد ہر ناکام ہوہي جائے گا

جان دے دو وعدہ ديدار پر

نقد اپنا دام ہوہي جائے گا

ياد رہ جائيں گي يہ بے باکياں

نفس تو تو رام ہوہي جائے گا

بے نشانوں کا نشا مٹتا نہيں!

مٹتے مٹتے نام ہوہي جائے گا

ياد گيسو ذکر حق ہے آہ کر

دل ميں پيدا لام ہوہي جائے گا

ايک دن آواز بدليں گے يہ ساز

چہچہا کہرام ہوہي جائے گا

سائلو دامن سخي کا تھام لو

کچھ نہ کچھ انعام ہوہي جائے گا

ياد ابرو کر کے تڑپو بلبلو

ٹکڑے ٹکڑے دام ہوہي جائے گا

مفلسو ان کي گلي ميں جا پڑو

باغ خلد اکرام ہوہي جائے گا

گريوں ہي رحمت کي تاويليں رہيں

مدح ہرالزام ہوہي جائے گا

بادہ خواري کا سماں بندھنے تو دو

شيخ درد آشام ہوہي جائے گا

غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے يوں

جيسے اپنا کام ہوہي جائے گا

مٹ کہ گريوں ہي رہا قرض حيات

جان کا نيلام ہوہي جائے گا

عاقلو ان کي نظر سيدھي رہے

بوروں کا بھي کام ہوہي جائے گا

اب تو لائي شفاعت عفو پر

بڑھتے بڑھتے عام ہوہي جائے گا

اے رضا ہر کام کا اک وقت ہے

دل کو بھي آرام ہوہي جائے گا

 

نعت شريف

لم يات نظيرک في نظر مثل تو نہ شد پيدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

البحر علا والموج طغي من بے کس و طوفاں ہوش ربا

منجدھار ميں ہوں بگڑي ہے ہوا موري نيا پار لگا جانا

يا شمس نظرت الي ليلي چوبطيبہ رسي عرضے بکني

توري جوت کي جھل جھل جگ ميں رچي موري شب نے نہ دن ہونا جانا

لک بدر في الوجہ الاجمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پرو کنڈل رحمت کي برن برسا جانا

انا في عطش وسخاک اتم اے گيسوئے پاک اے ابر کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھي گرا جانا

يا قافلتي زيدي اجلک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جيرا لرجے درک درک طيبہ سے ابھي نہ سنا جانا

واھا لسويعات ذہبت آن عہد حضور بار گہت

جب ياد آوت موہے کہ نہ پرت دردادہ? مدينے کا جانا

القلب شج والھم شجون دل زار چناں جاں زير چنوں

پت اپني بپت ميں کاسے کہوں مرا کون ہے تيرے سوا جانا

الروح فداک فزد حرقا يک شعلہ دگر برزن عشقا

موراتن من دھن سب پھونک ديا يہ جان بھي پيارے جلا جانا

بس خامہ? خام نوائے رضا نہ يہ طرز مري نہ يہ رنگ مرا

ارشاد احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا

 

نعت شريف

نہ آسمان کو يوں سر کشيدہ ہونا تھا

حضور خاک مدينہ خميدہ ہونا تھا

حضور ان کے خلاف ادب تھي بيتابي

کنار خار مدينہ دميدہ ہونا تھا

نظارہ خاک مدينہ کا اور تيري آنکھ

نہ اس قدر بھي قمر شوخ ديدہ ہونا تھا

کنار خاک مدينہ ميں راحتيں ملتيں

دل حزيں تجھے اشک چکيدہ ہونا تھا

پناہ دامن دشت حرم ميں چين آتا

نہ صبر دل کو غزال رميدہ ہونا تھا

يہ کيسے کھلتا کہ ان کے سوا شفيع نہيں

عبث نہ اوروں کے آگے تپيدہ ہونا تھا

ہلال کيسے نہ بنتا کہ ماہ کامل کو

سلام ابروئے شہ ميں خميدہ ہونا تھا

لاملئن جہنم تھا وعدہ ازلي

نہ منکروں کا عبث بد عقيدہ ہونا تھا

نسيم کيوں نہ شميم ان کي طيبہ سے لاتي

کہ صبح گل کو گريباں دريدہ ہونا تھا

ٹپکتا رنگ جنوں عشق شہ ميں ہر گل سے

رگ بہار کو نشتر رسيدہ ہونا تھا

بجا تھا عرش پہ خاک مزار پاک کو ناز

کہ تجھ ساعرش نشيں آفريدہ ہونا تھا

گزرتے جان سے اک شور يا حبيب کے ساتھ

فغاں کو نالہ? حلق بريدہ ہونا تھا

مرے کريم گنہ زہر ہے مگر آخر

کوئي تو شہد شفاعت چشيدہ ہونا تھا

جو سنگ در پہ جبيں سائيوں سے تھا مٹنا

تو ميري جان شرار جہيدہ ہونا تھا

تري قبا کے نہ کيوں نيچے نيچے دامن ہوں

کہ خاکساروں سے ياں کب کشيدہ ہونا تھا

رضا جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہ حبيب

تو پيارے قيد خودي سے رہيدہ ہونا تھا

 

نعت شريف

ْشور مہ نو سن کر تجھ تک ميں دواں آيا

ساقي ميں ترے صدقے ميں مے دے رمضاں آيا

اس گل کے سوا ہر گل باگوش گراں آيا

ديکھے ہي گي اے بلبل جب وقت فغاں آيا

جب بام تجلي پر وہ نير جاں آيا

سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آيا

جنت کو حرم سمجھا آتے تو يہاں آيا

اب تک کے ہر ايک کا منہ کہتا ہوں کہاں آيا

طيبہ کے سوا سب باغ پامال فنا ہونگے

ديکھو گے چمن والو جب عہد خزاں آيا

سر اور وہ سنگ در آنکھ اور وہ بزم نور

ظالم کو وطن کا دھيان آيا تو کہاں آيا

کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہي نرالا ہے

سکتہ ميں پڑي ہے عقل چکر ميں گماں آيا

جلتي تھي زميں کيسي تھي دھوپ کڑي کيسي

لو وہ قد بے سايہ اب سايہ کناں آيا

طيبہ سے ہم آتے ہيں کہئے تو جناں والو!

کيا ديکھ کے جيتا ہے جوواں سے يہاں آيا

لے طوق الم سے اب آزاد ہو اے قمري

چٹھي لئے بخشش کي وہ سرو رواں آيا

نامہ سے رضا کے اب مٹ جاؤ برے کامو

ديکھو مرے پلہ پر وہ اچھے مياں آيا

بدکار رضاخوش ہو بد کام بھلے ہونگے

وہ اچھے مياں پيارا اچھوں کا مياں آيا

 

نعت شريف

معروضہ 1296 بعدواپسي زيارت مطہرہ بار اول

خراب حال کيا دل کو پر ملال کيا

تمہارے کوچہ سے رخصت کيا نہال کيا

نہ روئے گل ابھي ديکھا نہ بوئے گل سونگھي

قضا نے لاکے قفس ميں شکستہ بال کيا

وہ دل کہ خوں شدہ ارماں تھے جس ميں مل ڈالا

فغاں کہ گور شہيداں کو پائمال کيا

يہ رائے کيا تھي وہاں سے پلٹنے کي اے نفس

ستمگر الٹي چھڑي سے ہميں حلال کيا

يہ کب کي مجھ سے عداوت تھي تجھ کو اے ظالم

چھڑا کے سنگ در پاک سرو بال کيا

چمن سے پھينک ديا آشيانہ بلبل

اجاڑا خانہ بے کس بڑا کمال کيا

ترا ستم زدہ آنکھوں نے کيا بگاڑا تھا

يہ کيا سمائي کہ دور ان سے وہ جمال کيا

حضور ان کے خيال وطن مٹانا تھا

ہم آپ مٹ گئے اچھا فراغ بال کيا

نہ گھر کا رکھا نہ اس در کا ہائے ناکامي

ہماري بے بسي پر بھي نہ کچھ خيال کيا

جو دل نے مر کے جلايا تھا منتوں کا چراغ

ستم کہ عرض رہ صرصر زوال کيا

مدينہ چھوڑ کے ويرانہ ہند کا چھايا

يہ کيسا ہائے حواسوں نے اختلال کيا

تو جس کے واسطے چھوڑ آيا طيبہ سا محبوب

بتا تو اس ستم آرا نے کيا نہال کيا

ابھي ابھي تو چمن ميں تھے چہچہے ناگاہ

يہ درد کيسا اٹھا جس نے جي نڈھال کيا

الٰہی سن لے رضا جيتے جي کہ مولٰی نے

سگان کوچہ ميں چہرا مرا بحال کيا

 

نعت شريف

بندہ ملنے کو قريب حضرت قادر گيا

لمعہ باطن ميں گمنے جلوہ ظاہر گيا

تيري مرضي پاگيا سورج پھرا الٹے قدم

تيري انگلي اٹھ گئي مہ کاکليجا چر گيا

بڑھ چلي تيري ضياء اندھير عالم سے گھٹا

کھل گيا گيسو ترا رحمت کا بادل گھر گيا

بندھ گئي تيري ہوا ساوہ ميں خاک اڑنے لگي

بڑھ چلي تيري ضيا آتش پہ پاني پھر گيا

تيري رحمت سے صفي اللہ کا بيڑا پار تھا

تيرے صدقہ سے نجي اللہ کا بجرا تر گيا

تيري آمد تھي کہ بيت اللہ مجرے کو جھکا

تيري ہيبت تھي کہ ہر بت تھر تھرا کر گر گيا

مومن ان کا کيا ہوا اللہ اس کا ہوگيا

کافر ان سے کيا پھرا اللہ ہي سے پھر گيا

وہ کہ اس در کا ہوا خلق خدا اس کي ہوئي

وہ کہ اس در سے پھر اللہ اس سے پھر گيا

مجھ کو ديوانہ بتاتے ہو ميں وہ ہشيار ہوں

پاؤں جب طوف حرم ميں تھک گئے سر پھر گيا

رحمت للعالمين آفت ميں ہوں کيسي کروں

ميرے مولٰی ميں تو اس دل سے بلا ميں گھر گيا

ميں ترے ہاتھوں کے صدقے کيسي کنکرياں تھي وہ

جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منہ پھر گيا

کيوں جناب بوہريرہ تھا وہ کيسا جام شير

جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گيا

واسطہ پيارے کا ايسا ہو کہ جو سني مرے

يوں نہ فرمائيں ترے شاہد کہ وہ فاجر گيا

عرش پہ دھوميں مچيں وہ مومن صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے وہ طيب و طاہر گيا

الله الله يہ علو خاص عبديت رضا

بندہ ملنے کو قريب حضرت قادر گيا

ٹھوکريں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو

قافلہ تو اے رضا اول گيا آخر گيا

 

نعت شريف

نعمتيں بانٹتا جس سمت وہ ذيشان گيا

ساتھ ہي منشئ رحمت کا قلمدان گيا

لے خبر جلد کہ غيروں کي طرف دھيان گيا

ميرے مولٰی ميرے آقا ترے قربان گيا

آہ وہ آنکھ کہ ناکام تمنا ہي رہي

ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گيا

دل ہے وہ دل جو تيري ياد سے معمور رہا

سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گيا

انہيں جانا انہيں مانا نہ رکھا غير سے کام

للہ الحمد ميں دنيا سے مسلمان گيا

اور تم پر مرے آقا کي عنايت نہ سہي

نجديو کلمہ پڑھانے کا بھي احسان گيا

آج لے ان کي پناہ آج مدد مانگ ان سے

پھر نہ مانيں گے قيامت ميں اگر مان گيا

اف رہ منکر يہ بڑھا جوش تعصب آخر

بھيڑ ميں ہاتھ سے کم بخت کے ايمان گيا

جان و دل ہوش و خرد سب تو مدينے پہنچے

تم نہيں چلتے رضا سارا تو سامان گيا

نعت شريف

تاب مرات سحر گرد بيابان عرب

غازہءروئے قمر دود چراغان عرب

الله الله بہار چمنستان عرب

پاک ہيں لوث خزاں سے گل و ريحان عرب

جوشش ابر سے خون گل فردوس گرے

چھيڑ دے رگ کو اگر خار بيابان عرب

تشنہ نہر جناں ہر عربي و عجمي

لب ہر نہر جناں تشنہ نيسان عرب

طوق غم آپ ہوائے پر قمري سے گرے

اگر آزاد کرے سرو خرامان عرب

مہر ميزاں ميں چھپا ہوتو حمل ميں چمکے

ڈالے اک بوند شب دے ميں جو باران عرب

عرش سے مژدہء بلقيس شفاعت لايا

طائر سدرہ نشيں مرغ سليمان عرب

حسن يوسف پہ کٹيں مصر ميں انگشت زناں

سر کٹاتے ہيں تيرے نام پہ مردان عرب

کوچہ کوچہ ميں مہکتي ہے يہاں بوئے قميص

يوسفستان ہے ہر ايک گوشہء کنعان عرب

بزم قدسي ميں ہے ياد لب جاں بخش حضور

عالم نور ميں ہے چشمہ حيوان عرب

پائے جبريل نے سرکار سے کيا کيا القاب

خسرو خيل ملک خادم سلطان عرب

بلبل و نيلپر و کبک بنو پروانو!

مہ و خورشيد پہ ہنستے ہيں چراغان عرب

حور سے کيا کہيں موسٰی سے مگر عرض کريں

کہ ہو خود حسن ازل طالب جانان عرب

کرم نعت کے نزديک تو کچھ دور نہيں

کہ رضائے عجمي ہو سگ حسان عرب

 

نعت شريف

پھر اٹھا ولولہ ياد مغيلان عرب

پھر کھنچا دامن دل سوئے بيابان عرب

باغ فردوس کو جاتے ہيں ہزاران عرب

ہائے صحرائے عرب ہائے بيابان عرب

ميٹھي باتيں تري دين عجم ايمان عرب

نمکيں حسن ترا جان عجم شان عرب

اب تو ہے گريہ خوں گوہر دامان عرب

جس ميں دو لعل تھے زہرا کے وہ تھي کان عرب

دل وہي دل ہے جو آنکھوں سے ہو حيران عرب

آنکھيں وہ آنکھيں ہيں جو دل سے ہو قربان عرب

ہائے کس وقت لگي پھانس الم کي دل ميں

کہ بہت دور رہے وہ خار مغيلان عرب

فصل گل لاکھ نہ ہو وصل کي رکھ آس ہزار

پھولتے پھلتے ہيں بے فصل گلستان عرب

صدقے ہونے کو چلے آتے ہيں لاکھوں گلزار

کچھ عجب رنگ سے پھولا ہے گلستان عرب

عندليبي پہ جھگڑتے ہيں کٹے مرتے ہيں

گل و بلبل کو لڑاتا ہے گلستان عرب

صدقے رحمت کے کہاں پھول کہاں خار کا کام

خود ہے دامن کش بلبل گل خندان عرب

شادي حشر ميں صدقے ميں چھٹيں گے قيدي

عرش پر دھوم سے ہے دعوت مہمان عرب

چرچے ہوتے ہي يہ کمھلائے ہوئے پھولوں ميں

کيوں يہ دن ديکھتے پاتے جو بيابان عرب

تيرے بے دام کے بندے ہيں رئيسان عجم !

تيرے بے دام کے بندي ہيں ہزاران عرب

ہشت خلد آئيں وہاں کسب لطافت کو رضا

چار دن برسے جہاں ابر بہاران عرب

 

نعت شريف

جو بنوں پر ہے بہار چمن آرائي دوست

خلد کا نام نہ لے بلبل شيدائي دوست

تھک کے بيٹھے تو در دل پہ تمنائي دوست

کون سے گھر کا اجالا نہيں زيبائي دوست

عرصہ حشر کجا موقف محمود کجا

ساز ہنگاموں سے رکھتي نہيں يکتائي دوست

مہر کس منہ سے جلودارئ جاناں کرتا

سايہ کے نام سے بيزار ہے يکتائي دوست

مرنے والوں کو يہاں ملتي ہے عمر جاويد

زندہ چھوڑے گي کسي کو نہ مسيحائي دوست

ان کو يکتا کيا اور خلق بنائي يعني

انجمن کرکے تماشا کريں تنہائي دوست

کعبہ و عرش ميں کہرام ہے ناکامي کا

آہ کس بزم ميں ہے جلوہ يکتائي دوست

حسن بے پردہ کے پردے نے مٹا رکھا ہے

ڈھونڈنے جائيں کہاں جلوہ ہرجائي دوست

شوق روکے نہ رکے پاؤں اٹھائے نہ اٹھے

کيسي مشکل ميں ہيں الله تمنائي دوست

شرم سے جھکتي ہے محراب کہ ساجد ہيں حضور

سجدہ کرواتي ہے کعبہ سے جبيں سائي دوست

تاج والوں کا يہاں خاک پہ ماتھا ديکھا

سارے داراؤں کي دار ہوئي دارائي دوست

طور پر کوئي

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...