Muslampak مراسلہ: 2 جون 2012 Report Share مراسلہ: 2 جون 2012 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ تمام مکاتب فکر کے علماء و مناظر حضرات کی خدمت میں نہایت ادب و احترام سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج امت مسلمہ میں ایک بہت بڑا اختلاف و انتشار موجود ہے جس کی ایک بڑی وجہ مسلہ بدعت بھی ہے ۔ہمارے فروعی مسایل میں اختلاف کا اصل سبب مسلہ بدعت ہی ہیں۔لیکن بدعت کی تعریف کیا ہے ؟کون کون سے کام بدعت ہیں؟اس بارے میں تمام مکاتب فکر کی راے و مواقف مختلف ہے۔ مختصرا یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں اس موضوع میں مکمل و تفصیلی گفتگو کا آغاز کیا جاے اور شریعت اسلامیہ کے دلایل کو بیان کیا جاے تاکہ بدعت کی ایک فاینل تعریف سامنے آ سکے۔ میں علماء اہل سنت بریلوی مکاتب فکر ،علماء اہل سنت دیوبندی مکاتب فکر اور علماء اہلحدیث تمام حضرات کو گفتگو کی دعوت دیتا ہوں کہ اس فارم پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کریں۔ اور نہیایت ادب و احترام ،اور مواذبانہ لب و لہجے میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کا جواب تحریر کریں ۔ لیکن براے کرم یہاں کسی بھی مکاتب فکر کی شخصیت پر طعن و تنقید کا نشانہ نہ بناءے گا اور نہ ہی ذاتیات پر گفتگو کیجے گا۔اگر الزامی جواب بھی دینا ہو تو نہایت مناسب الفاظ میں جواب تحریر کریں ۔ امید ہے کہ میری گزارش پر عمل کرتے ہوے اس موضوع کا آغاز کیا جاے گا۔اللہ ہمیں حق بیان کرنے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماے ۔امین 02.06.2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mustafaye مراسلہ: 7 جون 2012 Report Share مراسلہ: 7 جون 2012 Assalam o Alikum. Bhai jaan is mozo par pehlay hi kafi threads mojood hain. Ap forum par search kar laiin or agar koi ashkal ho to usi thread main sawal kar lain. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Muslampak مراسلہ: 12 جون 2012 Author Report Share مراسلہ: 12 جون 2012 میرا مقصد کسی کو بدعتی قرار دینا ہرگز نہیں بلکہ حقایق جاننا ہے ۔یاد رہے کہ یہاں میں جو بھی تحریر پوسٹ کروں اس کے کسی جملے یا فتوے کا میں ہرگز ذمہ دار نہیں بلکہ صاحب تحریر خود ہے۔مجھے بدعت کے بارے میں یہ تحریر حق فارم سے ملی ہے یہاں اس لیے پیسٹ کر رہا ہوں تاکہ اہل علم حضرات اس پر تحقیْی گفتگو کر کے ہمارے سامنے اصل حقایق بیان کریں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی پہلی دلیل "جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا اور جس نے دین میں برا طریقہ نکالا تو اسکو نہ صرف اسکا گناہ بلکہ جو بعد میں اس (برے) عمل کو کرے گا اسکا بھی گناہ اسے ملے گا"(مسلم شریف ، ابن ماجہ، مشکوة شریف باب العلم ص 33) اس حدیث پاک سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا طریقہ ایجاد کرنے پر ثواب ہے اور یہی بدعت حسنہ ہے بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے : اول اس لئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیئے مشکوة جلد 1 ص 30)اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (ملاحظہ ہو ہامش مشکوة ج 1 ص 30)اور حضرت غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیے مشکوة ج 1 ص 31)کی روایتوں میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تمسک بسنتی“یعنی جس نے میری سنت سے تمسک کیا اور مضبوطی سے اس کو پکڑا .اور فرمایا کہ ”من فتمسک بسنتہ خیر“الخ یعنی میری سنت سے تمسک کرنا بہتر ہے . ان روایات سے معلوم ہوا کہ امتی کا کام سنت پر چلنا ہے اس سے تمسک کرنا ہے .سنت جاری کرنا امتی کا کام نہیں رہا حضرات خلفاءراشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کا معاملہ وہ اس بحث سے خارج ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا .سو تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفاءراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو ،کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “(ترمذی ج 2 ص 92 )(ابن ماجہ ص 5)(ابو داود ج 2 ص279) (مسند دارمی ص26)(مسند احمد ج 4 ص 27)(مستدرک ج 1 ص 95) ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو قول اور فعل جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت نہ ہوں تو اس کا کرنا بدعت ہے کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اس کام کو کرتے .اس لئے انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر کام میں گوئے سبقت لے گئے ہیں “ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156) اور خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین کرام اور تبع تابعین کرام کی اکثریت کا کسی کام کو بلا نکیر کرنا یا چھوڑنا بھی حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی پیروی ضروری ہے .اس کے ثبوت میں بھی متعدد حدیثین موجود ہیں ہم اختصار کے ساتھ دواحادیث پیش کررہے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی 32 ھ)سے روایت ہے : حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادتیں قسم سے اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرے گی“ (بخاری ج 1 ص 362) (مسلم ج 2 ص 309) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے نقش قدم پر چلنا)پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر جھوٹ عام ہوجائے گا کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے “ (مسند ابو داود طیالسی ص 7 ) (مستدرک ج 1 ص114)قال الحاکم والذھبی علیٰ شرطھما،مثلہ فی المشکوة ج 2 ص 554 )وفی المرقات راوہ نسائی و اسناد صحیح و موارد الظمآن ص 56) ان صحیح روایات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے ،ان میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیر القرون میں تھی .جھوٹ ان بعد میں آنے والوں میں بکثرت رائج ہوجائے گا .بات بات پر بلا طلب کئے قسم اٹھاتے پھریں گے اور بے تحاشہ گواہی دیں گے . اور اہل بدعت کے اس غلط استدلال کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی روایت میں ”من سن فی الاسلام “کے بجائے یہ الفاظ بھی آئے ہیں ”ایما داع الیٰ ھدیٰ “کہ جس داعی نے ہدایت کی طرف دعوت دی“ (مسلم ج 2 ص 341))(ابن ماجہ ص 19 )(مجمع الزوائد ج 1 ص 168) اسی روایت کے دوسرے طریق پر ہے : ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی“(ابن ماجہ ص 19)(ترمذی ج 2 ص 92)(مشکو? ج 1 ص 30) ایک روایت میں یوں آتا ہے : ”جس نے میری سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی کہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے “(ابن ماجہ ص 19) نیز فرمایا : کہ جو شخص کسی اچھے راستے پر چلا “(ابن ماجہ ص 19) ایک روایت میں ہے : ”جس نے کوئی علم سیکھایا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والے کو اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی “(ابن ماجہ ص 21) ان روایات سے لوگوں کی طرف سے بدعت کے جواز میں پیش کی گئی اس مجمل روایت کی تفصیل اور تشریح ہوجاتی ہے کہ سنت اور طریقہ کا جاری کرنا مراد نہیں بلکہ اس کی طرف دعوت دینا ،اس کی تعلیم دینا ،کسی سنت کو زندہ کرنا ،اور اس پر خود بھی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل کی تلقلین کرنا مراد ہے . اس سے یہ مطلب سمجھنا اور مراد لینا کہ از خود کوئی طریقہ جاری کرنا یقینا غلط ہے. آخری اور اہم بات یہ کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا شریعت میں دلالةً و اشارةً ثبوت موجودد ہو ،اس کے اجراءکرنے میں ثواب ہوگا ،اوروہ وہی فعل ہوگا جس کا داعیہ اور محرک خیر القرون میں موجود نہ ہو بلکہ بعد کو پیش آیااور ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل کے تحت وہ داخل ہو۔چناچہ اسی حدیث میں ”حسنتہً“ کی قید موجود ہے اور اہل سنت کے نزدیک کسی امر شرعی میں حُسن یا قبح نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ شرعیت سے اس کا ثبوت نہ ہو ۔اور بدعات کی تو شریعت نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے ،اس سے بھلا ان کا حسن ہونا کہاں سے اور کیسے ثابت ہوگا ؟ بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی دوسری دلیل اہل بدعت ہر قسم کی بدعات کے جواز پر ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔جس کو مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔۔۔۔چناچہ وہ لکھتے ہیں : ”وقال علیہ السلام ماراہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن“(جاءالحق ص ۱۰۳) یعنی جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے “ اس روایت کو سامنے رکھ کو وہ جملہ بدعات کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان ان کو اچھا سمجھتے ہیں ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوں گی ،اور اچھے کا م پر نہ تو گرفت ہوتی ہے اور نہ گناہ ۔ اس روایت کے متعلق چند ضروری ابحاث ہیں جن کو سمجھنا نہایت ہی اہم ہے ۔ اول : اگر چہ بعض حضرات فقہائے کرام نے اس روایت کو مرفوع بیان کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔چناچہ جمال الدین الزیلعی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 167 ھ) لکھتے ہیں : ”میں نے اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہی پایا ہے “(نصب الرا یہ ج 4 ص133) اور مشہور محدث علامہ الامام صلاح الدین ابو سعیدی العلائی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 741 ھ) فرماتے ہیں : ”مین نے اس روایت کو باوجود طویل بحث و تمحیص اور زیادہ کھوج اور سوال کے حدیث کی کسی کتاب میں کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی مرفوع نہیں پایا ،بلکہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو موقوف قول ہے “(بحوالہ فتح الملہم ج 2 ص 409) اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا ،اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے ۔مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظر انداز کنے کے قابل نہیں ہے ۔جو حیثیت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقینا کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے ،اگر چہ وہ صحیح بھی ہو ۔حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس موقوف قول کو پیش کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :”اس کی سند صحیح ہے “ دوم: اصل بحث یہ ہے کہ ”المسلمون“سے کون سے مسلمان مراد ہیں ؟ اگر ”الف“اور ”لام“اس میں جنس کے لئے ہو تو لازم آئے گا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تہتر فرقے سب کے سب ناجی ہوجائیں کیوں کہ ہر ایک فرقہ ازراہ تدین اپنے معمول کو حسن ہی سمجھتا ہے اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے ”ماانا علیہ واصحابی“ اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “اور ”لام“سے استغراق مراد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس چیز کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوگی ۔تو اس سے ”اجماع اُمت“مراد ہوگی ۔۔۔اور ”اجماع“ کے حسن ہونے میں کیا شک ہے ؟ اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “ اور ”لام“ سے عہد خارجی (علماءاصول کا یہ مسلک ہے کہ اصل الف لام میں عہد خارجی ہے ۔تلویح ص 147 اور ص 160وغیرہ )مراد ہو تو اس سے مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ مراد ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ گروہ اور طبقہ جس چیز کو اچھا سمجھے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہوگی ۔۔۔اور مسلمانوں کا وہ گروہ اولین درجہ پر بفحوائے حدیث ”ماانا علیہ واصحابی“صرف حضرات صحابہ کرام رجوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی ہوسکتا ہے۔۔۔ اور یہی بات صحیح ہے کہ جس چیز کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پسند کریں وہ اچھی ہوگی ۔ اگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت اور ان سے مروی دیگر روایات کو سرسری نظر سے دیکھ لیا جائے تو ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی متعین ہوجاتا ہے ۔ چناچہ امام ابو داود طیالسی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ) نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے : ” اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر کی تو حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے علم کے بموجب رسالت کے لئے چنا اور انتخاب فرمایا ۔پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو انتخاب فرمایا اور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا وزیر بنایا ۔سو جس چیز کو وہ مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو وہ برا سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہوگی “(طیالسی ص 33) (کم و بیش یہی الفاظ مسند احمد میں بھی مروی ہیں ۔الزیلعی ج 4 ص 133 والدرایہ ص 306) اور امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمتہ اللہ علیہ ( المتوفی 405 ھ)صحیح سند کے ساتھ ( جس کی تصحیح پر امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ دونوں متفق ہیں) اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں : ”جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہی ہوگی اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ وہ عند اللہ بھی بری ہی ہوگی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور ان کی خلافت کو اچھا سمجھا ،لہٰذا ان کی خلافت عند اللہ بھی اچھی ہی ہوگی “(المستدرک حاکم ج 3 ص 78) ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کے لفظ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی کی طرف اشارہ ہے ،بلکہ تصریح فرماتے ہیںکہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پاک گروہ ہی مراد ہے ۔ یہی نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی مراد لیتے ہیں بلکہ اُمت کو تاکید فرماتے ہیں کہ وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی خلاف ورزی نہ کریں ۔کیوں کہ ان کی اتباع ہی میں فلاح ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سنت پر چلنا چاہتا ہے وہ وہ ان بزرگوں کے قدم پر چلے جو فوت ہوچکے ہیں کیوں کہ زندہ کبھی فتنہ سے مامون نہیں ہوسکتا ۔وہ لوگ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس اُمت کے نہایت افضل لوگ ہیں اور نہایت بھلے قلوب والے اورر نہایت گہرے علم والے اور نہایت کم تکلف اور کم بناوٹ والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کے قائم کرنے کے لئے انتخاب کیا تھا ۔ان کی فضیلتوں کو پہچانواور ان کے نقش وقدم پر چلو اور جس قدر ہوسکے اپن کے اخلاق اور سیرت کو مشعل راہ بناﺅ کیوں کہ وہ لوگ ہدایت مستقیمہ پر تھے “(رواہ رزین مشکوة ج 1 ص32) اس روایت سے نہایت صراحت اور وضاحت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کا مصداق صرف ”اولٰئک اصحٰب محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم “ہی تھے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے” مااناعلیہ واصحابی “سے تعبیر فرمایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتباع کی تاکید فرمائی اور اس کے خلاف ابتداع کی مذمت کی ہے : ”ہمارے نقش قدم کی پیروی کرو اور اپنی طرف سے بدعتیں مت ایجاد کرو کیوں کہ (دین مکمل ہوچکا ہے اور) تم کفایت کئے گئے ہو“(الااعتصام ج 1 ص 54) اور دوسری طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان لوگوں کی تردید کی اور ان کو مسجد سے نکال دیا جنہوں نے مل کر بلند آواز سے ذکرکرنے کو پسند کیا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کا گذر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا ،جس میں ایک شخص کہتا تھا ۔سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو تو حلقہ نشین لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ ”لاالہ الااللہ“پڑھو تو وہ سو بار تہلیل پڑھتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ” سبحان اللہ “ کہو،تو وہ سنگریزوں پر سو دفعہ تسبیح پڑھتے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان سنگریزوں اور کنکریوں پر کیا پڑھتے تھے؟ وہ کہنے لگے ہم تکبیر ،تہلیل و تسبیح پڑھتے رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا : ”فقال فعدو ا من سیئا تکم فانا ضا من ان لا یضیع من حسنا تکم شئی ویحکم یا امتہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم مااسرع ھلکتم ھٰولاءصحابة بینکم متوافرون وھٰذا ثیا بہ لم تبل واٰ نیتہ لم تکسر (الیٰ ان قال) او مفتحی باب ضلالة“(مسند دارمی ص 38 قلت بسند صحیح ) یعنی تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو ،میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا ۔تعجب ہے تم پر اے اُمت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم ،کیا ہی جلدی تم ہلاکت میں پڑ گئے ہو ۔ابھی تک حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تم میں بکثرت موجود ہیں ،اور ابھی تک جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (آگے فرمایا ) اندریں حالات تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو ۔ غورفرمائیں کہ اُن لوگوں کا یہ فعل جو بظاہر اچھا تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔۔لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس فعل کو ”ماراہ المسلمون حسناً“ کے تحت حسن اور اچھا نہ سمجھا کیوں کہ ان لوگوں کا یہ طریقہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقہ کے خلاف تھا ۔ محترم قارئین کرام حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی اہل بدعت کے غلط استدلال کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین ماخوذ : راہ سنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ بدعت کا لغوی معنی مشہور امام لغت ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرازی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 616 ھ )لکھتے ہیں کہ : بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے ،رفعت ارتفاع کا اور خلفت اختلاف کا اسم ہے ۔لیکن پھر بدعت کا لفظ ایسی چیز پر غالب آگیا جو دین میں زیادہ یا کم کردی جائے"(مغرب ج 1 ص 30) علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 503 ھ) لکھتے ہیں کہ " مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو ۔اور شریعت کی سابق مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو"(مفرادت القرآن ص 37) بدعت کا شرعی معنی حافظ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855 ھ) لکھتے ہیں کہ " بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی (عمدۃ القاری ج 5 ص 356) حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے لہذا مذموم ہی ہوگی "(فتح الباری ج 4 ص 219) حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ،اور بہرحال وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دال ہے تو شرعا بدعت نہیں ہے اگر چہ لغۃ بدعت ہوگی"(جامع العلوم و الحکم ص 193) اور بعینہ ان الفاظ سے بدعت کی تعریف علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 889 ھ ) نے شرح اربعین نووی میں کی ہے (الجنہ ص 159 نیز حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدیع السمٰوت " کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔اور لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔(اول)بدعت شرعی جس کے متعلق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ"کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ۔۔۔(دوم)کبھی بدعت لغوی ہوئی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مل کے تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا "نعمت البدعۃ ھٰذا"یہ کیا ہی اچھی نو ایجاد ہے"۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ اور اسی طرح ہر وہ قول جس کو پہلے کسی نے نہ کیا ہو ،اہل عرب ایسے کام کو بدعت کہتے ہیں "(تفیسر ابن کثیر ج 1 ص 161) اس سے قبل کے ہم بعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی وضاحت کریں مناسب ہے کہ ایک اہم نکتہ کی وضاحت آپ حضرات کے سامنے پیش کردی جائے۔ اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی نہیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں : "اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 128) نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41) اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20) شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ) ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود محرک اور سبب کے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا ایسا ہی سنت ہے جیسا کہ آپ کو کسی کام کو کرنا شنت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص آپ کی اس سنت پر عمل نہیں کرتا ،وہ محدثین کرام کی تصریح کے مطابق بدعتی ہوگا۔۔اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام کام جو اہل بدعت کرتے ہیں اس کے داعی اور محرکات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی موجود تھے مگر آپ نے ان کو ترک فرمایا اور آپ کا ان کو ترک فرمانا سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " تمہارے (اس طرح ) ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینہ مبارک سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے "(مسند احمد ج 2 ص 61) حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا(اور یہ دونوں ہاتھ اٹھا رہے ہیں) )(مسلم ج 1 ص 287) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا میں سجع سے بچو کیوں کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام دعا میں سجع نہیں کیا کرتےتھے (صحیح بخاری ج 2 ص 938) آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔ علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102) اور نہرالفائق میں اس کی تصریح موجود ہے کہ مکروہ تحریمی ہے ۔۔۔حضرات فقہائے احناف نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے "لعدم وردود الاثربہ" اس لئے مکروہ ہے کہ اس کے لئے کوئی اثر اور دلیل موجود نہیں ہے اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"(البدائع والصنائع ج 1 ص 295) ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حضرات فقہائے کرام نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے عدم فعل کو ایک مستقل قاعدہ اور ضابطہ سمجھ کر متعدد مقامات میں اس سے استدلال کیا ہے صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"(ہدایہ ج 1 ص 153) آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں ??? علامہ ابراہیم حلبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے "حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"(کبیری ص 433) اور مشہور حنفی امام احمد بن محمد رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں "یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"(الواقعات) بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔لغوی بدعت اور شرعی بدعت لغوی بدعت ہر اُس نو ایجاد کا نام ہے جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ۔۔عام اس سے وہ عبادت ہو یا عادت ۔۔۔۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ،مندوب ،حرام ،مکروہ ،مباح ۔۔۔۔ اور شرعی بدعت وہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئی اور اُس پر قولا” فعلا”،صراحۃ” اور اشارۃ” کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو ۔۔یہی وہ بدعت ہے جس کو بدعت ضلالۃ اور بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔۔ملاحظہ فرمائیں: بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔ایک لغوی بدعت ،اور دوسری شرعی بدعت ۔۔لغوی بدعت ہر نو ایجاد کا نام ہے جو عبادت یا عادت ،اور اسی بدعت کی پانچ قسمیں کی جاتیں ہیں ۔اور دوسری وہ بدعت ہے جو طاعت کی مد میں کسی مشروع امر پر زیادت (یا کمی) کی جائے مگر ہو قرون ثلاثہ کے ختم ہونے کے بعد اور یہ زیادتی شارع کے اذن سے نہ ہو ،اس پر شارع کا قول موجود ہو اور نہ فعل نہ صراحت اور نہ اشارہ اور بدعت ضلالہ سے یہی مراد ہے"(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161) حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : "والتحقیق انھا ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرح فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ(فتح الباری ج 4 ص 219) یعنی تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت ،شریعت کی کسی پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی اور اگر وہ شریعت کی کسی غیر پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ،ورنہ مباح ہوگی اور بدعت پانچ اقسام کی طرف منسقم ہے اس کے قریب قریب عبارت علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے (ملاحظہ ہو عمدۃالقاری ج 5 ص 356) اب اس بات پر غور کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ "مستحسن فی الشرع" کیا ہے اور "مستقبح فی الشرع" کیا ہے? امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ )فرماتے ہیں کہ "بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعت جو کتاب سنت یا اجماع یا کسی صحابی کے اثر کے مخالف ہو ایسی بدعت گمراہی ہے اور دوسری وہ بدعت ہے جو ان میں سے کسی ایک کے مخالف نہ ہو تو ایسی بدعت کبھی اچھی ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھی نو ایجاد اور بدعت ہے"(موافقہ صریح المعقول الصحیح المنقول لابن تیمیہ علیٰ منہاج السنۃ ج 2 ص 128) اس کی پوری تحقیق آپ حضرات ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ مخالفت جیسے قول میں ہوتی ہے اسی طرح فعل میں بھی مخالفت ہوتی ہے۔۔۔جو کام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود داعی و اسباب کے ترک کیا اور خیرالقرون نے بھی اُسے ترک کیا تو وہ یقینا بدعت اور ضلالت ہوگا۔۔۔کیوں کہ وہ کتاب و سنت اور اجماع خیر القرون اور قیاس صحیح کے مخالف ہے۔۔۔ اور جو ان میں سے کسی دلیل میں داخل ہو تو وہ کبھی اچھا ہوگا جس پر ثواب ملے گا اور کبھی مباح ہوگا جس پر نہ ثواب ہوگا یا عقاب۔ اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے بدعت حسنہ اور سیئہ کی تعریف یوں ہوگی ۔۔۔بدعت حسنہ وہ دینی کام جس کا مانع آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد زائل ہوگیا ہو ۔۔۔یا اس کا داعیہ یا محرک اور سبب بعد کو پیش آیا ہو اور کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے اس پر روشنی پڑتی ہو اور ان میں سے کسی دلیل سے اس کا ثبوت ملتا ہو تو وہ بدعت حسنہ اور باالفاظ دیگر لغوی بدعت ہوگی جو مذموم نہیں ہے علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتیں بھی پیش کی جاچکیں ہیں جو اس پر صراحت سے دلالت کرتیں ہیں ۔۔۔۔اور جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ اور بدعت شرعیہ کہلائے گا جو ہر حالت میں مذموم اور ضلالت و گمراہی ہوگا۔۔۔باقی غیر مجتہد کا اجتہاد خصوصا اس زمانہ میں ہرگز کسی بدعت کا حسنہ نہیں قرار دے سکتا ۔۔۔چناچہ حضرات فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ "نصاب الفقہ میں ہے کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کو حضرات مجتہدین نے بدعت حسنہ قرار دیا ہو ۔۔۔اور اگر کوئی شخص اس زمانہ میں کسی چیز کو بدعت حسنہ قرار دے گا تو وہ حق کے خلاف ہے کیوں کہ مصفی میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر بدعت گمراہی ہے"(انتہی)(فتاوی جامع الروایات)(والجنہ ص 60) اسی عبارت سے صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت حسنہ صرف وہی ہوگی جس میں حضرات مجتہدین کا اجتہاد کا فرما ہوگا ،اور اجتہاد اور قیاس صرف اُن احکام و مسائل میں ہی ہوسکتا ہے جو غیر منصوص ہوں اور ان کے دواعی اور اسباب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون میں موجود نہ ہوں بلکہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں ۔۔۔اس نئی تہذیب کے زمانے میں جو شخص بدعت کو حسنہ قرار دیتا ہے اس کا قول سراسر باطل اور مردود ہے۔ (بحوالہ :راہ سنت) اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Muslampak مراسلہ: 26 جون 2012 Author Report Share مراسلہ: 26 جون 2012 بھاہی Mustafaye جزاک اللہ ۔لیکن ان سوالوں اور اعتراضات کے جوابات یا اس موضوع پر بحث کون سے فارم پر موجود ہے مجھے تو نہیں ملی ۔اگر آپ کو یا کسی بھی بھاہی کو معلوم ہو تو وہ لنک یہاں پوسٹ کر دے۔ شکریہ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Toheedi Bhai مراسلہ: 27 جون 2012 Report Share مراسلہ: 27 جون 2012 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ya Mohammadah مراسلہ: 30 جون 2012 Report Share مراسلہ: 30 جون 2012 salam toheedi bhai....ek wahabi ne biddat e hasna ke radd mein ya hadees paish ki hai... ki ibn umar rehamullah ne farmaya ki " har biddat (hasna hi kyu na ho) gumrahi hai chahy log isy achcha samjhyein... Ibn Battah in Al-Ibânah Al-Kubraa Vol.1 p219, no. 213. ." .mujhy iska jawab chahiye Islam k Andar Bidad ki koi Gunjaish nahi, Jo Log yeh kehte hai k Bidad e Hasna ki Gunjaish hai woh log pakki gumrahi par hain, kyun k Sahabi... Abdullah Ibn ‘Umar(r.a) said: "Every bid’ah is misguidance, Even if people think it is Good Bidah" (Bid'ah e Hasna). Ibn Battah in Al-Ibânah Al-Kubraa Vol.1 p219, no. 213. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Saeedi مراسلہ: 30 جون 2012 Report Share مراسلہ: 30 جون 2012 حضرت عبداللہ بن عمر تو نماز چاشت کو بھی بدعت کہتے تھے اور آپ تلبیہ حج کے الفاظ میں از خود اضافہ کرتے تھے۔ تو آپ بدعت حسنہ کا انکار کیونکر کر سکتے ھیں۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Jawedsiddiqui مراسلہ: 1 جولائی 2012 Report Share مراسلہ: 1 جولائی 2012 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ اسلامی محفل ویب پر آپ دوستوں کے تعاون سے ممبر بن گیا ہوں سب سے پہلے اسلامی محفل ویب کی ٹیم سے وابسطہ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اللہ اپنے حبیب ﷺ کی محبت ہمارے دلوں میں جلا بخشی اور ہم سب کو غلام مصطفیٰ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 جولائی 2012 Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2012 تصور بدعت از روئے قرآن و سنت و تصریحات ائمہ اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔ کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔ جامع ترمزی جلد 1 ص 206 مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔ اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اوریریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہفرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعث چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنت اور ائمہ کرام کے اقوال سے جائز پیش کریں گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو بہت سے باہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سے ہی اس تصور کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بدعت کا لغوی مفہوم بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔ جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔ بدیع السموات والارض۔ الانعام 101 یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے ۔ اس آیت سے واضح ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔ قل ماکنت بدعا من الرسل۔ الاحقاف 46 یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔ مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔ بیان المولود والقیام 20۔ بدعت کا اصطلاحی مفہوم اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔ ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔ کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟ ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟ اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔ غلط فہمی کے نتائج بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔ بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔ اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پہش آئی کہ ما لیس منہ کیونکہ اگر وہ اس میں سے ہی تھی﴿یعنی پہلے سے ہی دین میں شامل تھی یا دین کاحصہ تھی ﴾تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث زکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟ مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھوم صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔ یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔ اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو ردکا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 جولائی 2012 Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2012 مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ ضروری نہیں ہےکہ ہر بدعت قرآن و حدیث سےمتصادم ہی ہو بلکہ بےشمار بدعات ایسی ہیں جو کہ نہ تو کتاب و سنت کےمنافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کےخلاف اسی لیے انھیں بدعت مباحہ کہا جاتا ہےجو بدعت شریعت کےخلاف ہو اسےبدعت سئیہ کہتےہیں اگر اس بنیادی امتیاز کو نظر انداز کرکےہر نئی چیز کو بغیر اس کی ماہیت ، افادیت ،مقصدیت اور مشروعیت کےتجزیئےکےبدعت قرار دےدیا جائےتو عہد خلافت راشدہ سےلیکر آج تک کےلاکھوں شرعی اجتہادی اور اجتماعی فیصلے ، احکام مذہبی رسوم اورمعاملات معاذاللہ ضلالت و گمراہی قرار پائیں گےاور ہمیشہ کے لیےدینی معاملات میں اجتہاد ، استحسان، مصالح و استصلاح کا دروازہ بند ہوجائےگاجس سےلا محالہ بدلتےہوئےحالات میں اسلام کا قابل عمل رہنا بھی نا ممکن ہوجائےگا۔ پس اگر کوئی عمل نہ کتاب میں مذکور ہو نہ اس امت کےرسول نےایسا کرنےکا حکم دیا ہو بعد ازاں امت کے صلحاءکسی نئےعمل یعنی بدعت مباحہ کو وضع کرکےرضائےالٰہی ک حصول کےلیےاپنا لیں تو انما الاعمال بالنیات کےتحت وہ عمل بھی عنداللہ مقبول اور باعث اجرو ثواب ہوگا اور اس کو بدعت حسنہ یا مستحسن عمل کہیں گےہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔ ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید 27 ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔ اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکا نہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہے دیکھیے آیت کے الفاظ میں ابتدعوھا بدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیے ماکتبنٰھا کےالفاظ کیسے واشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نے امت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہے لیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی ؟کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول نے کسی ایسےعمل سے روکا بھی نہ ہو اسے اگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہے بلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضواناللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کے لیے ہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔ تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائے (اور ایسے ہی کام کو بعض علماء لغتا بدعت کہہ دیتے ہیں) اور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aabid inayat مراسلہ: 4 جولائی 2012 Report Share مراسلہ: 4 جولائی 2012 شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شریعت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہے اب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔ یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔ اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائ ےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١ اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف استثناء ہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ ما یتلٰی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں اس لیےدین انکے نام لے لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا زکر کرئےتو اس کا ایسا کرنا آداب و حکمت کےبھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔ اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسے دلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔ اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور یا صحابہ کےترک سے کوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہے تو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کے ترک سے aPس فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔ اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارے میں خاموشی اختیا ر کی ہے وہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔ قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119 یعنی :اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیں ان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔ اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔ واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔ یعنی اور اسکےسوا تمہارے لیے سب حلال ہے ۔ یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔ ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔ تصور بدعت کی مزید وضاحت از روئے حدیث ۔ پہلی حدیث۔۔۔۔ جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرےاسےاپنےعمل اور ان کےعملوں کا بھی ثواب ہے جو اس پر عمل کریں بغیر اس کے ان کا اجر کم ہو اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرےاس پر اپنی بد عملی کا گناہ ہےاور انکی بد عملیوں کا بھی کہ جو اس پر کاربند ہوئے بغیر اسکےان کےگناہوں میں سےکچھ کم ہو۔ مسلم شریف۔ اس حدیث پر غور کرنےسےصاف معلوم ہوتا ہےکہ اس کا حکم قیامت تک کہ مسلمین کے لیے ہے ۔ اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اصول اور قاعدہ بیان فرمادیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی نیک عمل کو دین میں رائج کرئےگا اسے خود اس کا ثواب ملے گا اور دوسرے لوگ جو کہ اس کے اس عمل میں اس کےساتھ شریک ہوں گے ان کا ثواب بھی بغیر انکے ثواب میں سےکچھ کمی کےاسے ہی ملےگا جو کہ اس نیک عمل کا ایجاد کرنے والا ہوگا اور اسےان سب کا ثواب اس لیے ملےگا کہ اس نےاس نیک عمل کو ایجاد کیا تھا لہذا بحیثیت موجد اسےتمام عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا۔ اور بالکل اسی طرح سےجو کوئی بری رسم یا طریقہ اسلام میں نکالےگا اسے اس کا گناہ اور دیگر جو اس پر عمل کریں انکو بھی اس کا گناہ اور ان سب کےگنا ہ کا مجموعہ اس بدعت کےایجاد کرنے والےکو ہوگا کیونکہ اس نے اس برےطریقہ کو ایجاد کیا ۔۔۔ یہ حدیث بدعت کےحسنہ اور سئیہہونے پر کتنی واشگاف دلیل ہے اب اس کا انکار کوئی خود سر ہی کرسکتا ہے۔ دوسری حدیث۔۔۔ من ابتدع بدعۃضلالۃ ۔۔۔۔۔۔۔مشکوٰۃ باب الاعتصام۔ یعنی جو شخص گمراہی کی بدعت نکالےجس سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں اس پر ان سب کے برابر گنا ہ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے اور یہ ان کےگناہوں سےکچھ کم نہ کرےگا۔ مشکواۃ باب الاعتصام۔ اس مسئلہ میں اسماعیل دہلوی رقمطراز ہیں ۔ ۔۔ جو بدعت مردود ہے وہ بدعت مقید ضلالت سےہے ۔ رسالہ چہاردہ مسائل بحوالہ اسماعیل دہلوی۔ اب اگر اس حدیث کےشروع کےالفاظ پر اگر غور کیا جائےتو آپ لوگ بنظر انصاف دیکھیےکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ بدعت کی تقسیم پر دال ہیں اور آقا کریم نےیہاں واضح طور پر بدعت ضلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بدعت کا تصور آثار صحابہ کی روشنی میں جیسا ک گذشتہ بحث میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ بدعت اپنے لغوی مفہوم کےاعتبار سےہر نئےکام کو اور نئی چیز کو کہا جائےگا اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارےاس تصور کی کوئی نظیر عہد صحابہ سےبھی ملتی ہےیا نہیں اس کےلیےہم انتہائی اختصار کےساتھ صرف سید نا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق کےعمل مبارک کو بطور استدلال پیش کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال مبارک بعد جب سیدنا صدیق اکبر نےمنصب خلافت سنبھالا تو اس وقت جھوٹی نبوت کےدعویدار مسیلمہ کذاب کےساتھ جنگ میں سات سو حفاظ کرام صحابہ شہید ہوگئےجب حضرت عمر فاروق نے یہ دیکھا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں قرآن کا وجود خطر ےمیں نہ پڑھ جائےچناچہ آپ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی اے خلیفہ رسول حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جارہے ہیں کہیں کل کو حفاظت قرآن امت کے لیےمسئلہ نہ بن جائے اس لیےمیری ایک تجویز ہےکہ قرآن کو ابھی سےایک کتابی صورت میں جمع کردیا جائےاس طرح حفاظت کا بہتر انتظام ہوسکےگا ۔جس پر صدیق اکبر نےفرمایا کہ۔۔۔ کیف ما افعل شیا ءمالم یفعلہ رسول اللہ؟ یعنی میں وہ کام کیسےکروں جو رسول اللہ نےنہیں کیا۔ (نوٹ :حصرت صدیق اکبر کہ اس اعتذار کو بنیاد بنا کر آج کل کہ مخالفین اہل سنت (یعنی اہل بدعت )، اس اعتذار کو اہل سنت پر اپنے مؤقف کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا ، کیا معاذاللہ تمہیں ان سے زیادہ دین کی سمجھ ہے کیا دین ابھی مکمل نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ) جس پر عمر فاروق نےجو جواب دیا وہ ہماری بیان کردہ تقسیم کی نا صرف واضح تائید ہے بلکہ بڑا ایمان افروز ہے آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا اے خلیفۃ الرسول یہ درست ہے کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کیا مگر۔۔۔۔ ھو اللہ خیر یعنی یہ کام بڑا خیر والا ہے۔۔۔ بخاری ساری بحث کو لکھنا مقصود نہیں مقصود صرف وہ تصور سمجھانا تھا جو کہ ہم نے پیش کیا کہ ہر نیا کام جس کو رسول اللہ نے نہ کیا ہوتا تھا صحابہ بھی اس کو بدعت ہی تصور کرتے تھےمگر اگر وہ کام فی نفسہ اچھا ہوتا تو پر اس کا م کو روا رکھتے تھے۔۔ اسی طرح باجماعت تراویح والہ معاملہ ہے جسےحضرت عمر نےرائج کیا جب بعض صحابہ کو اچھنبا ہوا تو آپ نے فرمایا نعمۃ البدعۃ ھذہ ا س روایت میں حضرت عمر کے ان الفاظ نے واشگاف طور پر بدعت کی تقسیم کا قاعدہ بیان کردیا اب اگر کوئی محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاسے نہ مانےتو منوا دینا ہمارےبس میں نہیں۔۔۔ اب آخر میں لگے ہاتھوں اس اعتراض کا بھی قلع قمع کرتا چلوں جو کہ الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کی صحیح تفھیم نہ ہونے کی بنا پر بعض احباب کرتے ہیں ۔ ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس آیت کی رو سئے دین تکمیل پا چکا تو پھر بعد میں نت نئی اختراعات کی کیا ضرورت اور اگر ضرورت ہی ٹھری تو پھر اللہ پاک کے اس ارشاد الیوم اکملت لکم دینکم کا کیا مصداق کیا آُ اس سے دین کی تکمیل مراد نہیں لیتے وغیرہ وغیرہ ؟؟؟ تو جوابا عرض ہے کہ بلاشبہ ہم بھی اس آیت سے دین کی تکمیل ہی مراد لیتے ہیں مگر اس مفھوم میں نہیں کہ جس مفھوم میں اکثر احباب لیتے ہیں بلکہ ہمارے نزدیک اس آیت سے مراد دین کا اصولی اور تفصیلیطور پر مکمل ہوجانا ہے ۔ لہذا اس آیت کی تفسیر میں صاحب نور العرفانلکھتے ہیں یاد رہے کہ ذات کی تکمیل کا نام اکمال اور صفات کی تکمیل کا نام اتمام ہے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے اس آیت میں اکملت کے ساتھ دیناور اتممت کے ساتھ نعمتی کا ذکر فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ مقصود یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد قیامت تک کے لیے اسلام کا کوئی بھی حکم منسوخنہیں ہوسکتا ہے اور اس کے بنیادی جو اصول ہیں ان میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ہاں البتہ اجتھادی اور فروعی مسائل قیامت تک نکلتے رہیں گے اور ان کا حل بھی اسی اسلام کے اکمال شدہ اصولوں کی روشنی میں قیامت تک کے لیے نکلتا رہے گا لہذا ثابت یہ ہوا کہ اس آیت سے یہ مراد ہے کہ دین اسلام بطور اصولا اور تفصیلا مکمل ہوچکا رہ گئے وہ مسائل کہ جن کا اس میں تفصیلا ذکر نہیں تو ان کو اس کے قائم کردہ اصولوں پر پیش کرو اور انکی روشنی میں انکا حل نکال کر امت کو قیامت تک کے آنے والے مسائل کا حل دیتے رہو ۔ صاحب تفھیم القرآناسی آیت کی روشنی میں رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے یعنی اب تمہارا دین اب ایک مستقل نظام بن چکا ہےاور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ اور قائم ہے کافر جو اب تک اس کے قیام میں مانع اور مزاحم رہے ہیں اب اس طرف سے مایوس ہوچکے ہیں کہ اسے مٹاسکیں اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لاسکیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اسکے بعد پھر لکھتے ہیں کہ دین کو مکمل کردینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر وعمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میںزندگیکےجملہ مسائل کا جواب اصولا یا تفصیلا بیان موجود ہو اور ہدایت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے اس سے کسی بھی صورت میں باہر جانے کی ضرورت نہ پیش آئے ۔ امید کرتا ہوں میں اپنی بات کی وضاحت میں کامیاب ہوگیا ہوں گا۔ وما علینا الاالبلاغ۔۔ والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔