SunniDefender مراسلہ: 17 فروری 2012 Report Share مراسلہ: 17 فروری 2012 منکرین کا الزام ہے کہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اور ان کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور سید عالم ہر جگہ حاضر وناظر ہیں، حالانکہ یہ بہت سنگین بہتان ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اہلسنت (بریلوی) حضرات اپنی محافلوں میں ایک خالی کرسی رکھتے ہیں کہ حضور محفل میں تشریف لاکراس پر بیٹھیں گے، مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صلوٰۃ وسلام میں اہلسنت (بریلوی) حضرات اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور تشریف لائے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہلسنت (بریلوی) اقامت کے دوران ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ پر اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اس وقت تشریف لاتے ہیں۔ اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر حضور کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضور کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالم کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔ جس کی بناء پر حضور اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضور بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضور کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکار کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضور کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔ ہم محفل میلاد کے موقع پر کرسی حضور کے لئے نہیں بلکہ علماء و مشائخ کے بیٹھنے کے لئے رکھتے ہیں۔ صلوٰۃ و سلام کے وقت اس لئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ باادب بارگاہ رسالت میں سلام پیش کیا جائے اور ذکر رسول کی تعظیم اور ادب کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ہم ’’اشہدان محمد رسول اﷲ‘‘ پر نہیں بلکہ حی علی الصلوٰۃ، حی علی الفلاح پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حضور کی آمد کے لئے کھڑے نہیں ہوتے۔ بعد از وصال تصرف فرماناحدیث شریف: حضرت سلمیٰ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ فرماتی ہیں۔ میں حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور سید عالم کو خواب میں دیکھا۔ آپ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا۔ یارسول اﷲ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں (ترمذی شریف، جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث نمبر 1706، صفحہ نمبر 731، مطبوعہ فرید بک لاہور) ف: حضور کا یہ فرمانا کہ میں ابھی حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں۔ اس بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بعد از وصال ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے حیات کی ضرورت ہے لہذا حضور بعد از وصال بھی حیات ہیں۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ حضور وصال کے بعد بھی اپنے رب جل جلالہ کی عطا کی طاقت سے جب چاہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں۔ حاضر وناظر کے متعلق اکابر شارحین اور علمائے اسلام کا عقیدہشارح بخاری علامہ امام قسطلانی علیہ الرحمہ اور شارح موطا علامہ امام زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضور کی ظاہری زندگی اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ اپنی امت کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور آپ کو ان احوال ونیات وعزائم و خواطر وخیالات کی بھی معرفت و پہچان ہے اور اﷲ کے اطلاع فرمانے سے یہ سب کچھ آپ پر ایسا ظاہر ہے جس میں کوئی خفا و پردہ نہیں (شرح مواہب لدنیہ جلد 8 ص 305) شارح مشکوٰۃ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا۔ علماء امت میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں کہ آپ بحقیقت حیات دائم و باقی اور اعمال امت پر حاضر وناظر ہیں اور متوجہان آنحضرت کو فیض پہنچاتے اور ان کی تربیت فرماتے ہیں (حاشیہ اخبار الاخیار صفحہ نمبر155)۔ اﷲ تعالیٰ اور حضور کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضور کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔ تنبیہ اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں سے کوئی اسم گرامی حاضر وناظر ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کو مجازی معنی کے لحاظ سے حاضر و ناظر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ حاضر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو، جب اﷲ تعالیٰ حواس اور نگاہوں سے پاک ہے تو یقیناًاسے حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر نہیں کہا جاسکتا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’لاتدرکہ الابصار‘‘ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ اسی طرح ناظر کا بھی اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ پر اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ناظر مشتق ہے۔ نظر سے اور نظر کا حقیقی معنی یہ ہے: النظر تقلیب البصر والبصیرۃ لادراک الشئی وروئیۃ کسی چیز کو دیکھنے اور ادراک کرنے کے لئے آنکھ اور بصیرت کو پھیرنا حقیقی معنی کے لحاظ سے ناظر اسے کہتے ہیں جو آنکھ سے دیکھے۔ اﷲ تعالیٰ جب اعضاء سے پاک ہے تو حقیقی معنی کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ کو ناظر کہنا ممکن ہی نہیں، اسی وجہ سے لاینظر الیہم یوم القیمۃ کی تفسیر علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یوں کی لایعطف علیہم ولایرحم کہ اﷲ تعالیٰ کفار پر مہربانی اور رحم نہیں فرمائے گا۔ مقام توجہ جب اﷲ تعالیٰ کو حقیقی معنی کے لحاظ سے حاضر وناظر کہنا ہی ممکن نہیں تو واویلا کس بات کا کہ حضور کو حاضر وناظر ماننے سے شرک لازم آئے گا۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے اﷲ تعالیٰ کی شان بہت بلند وبالا ہے۔ ہم نبی کریم کو اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق اور رب کریم کا محتاج سمجھ کر جتنی بھی آپ کی تعریف کریں، اﷲ تعالیٰ سے برابری لازم نہیں آئے گی کیونکہ وہ معبود، خالق اور غنی ہے۔ ہاں ان کو فکر ہوسکتی ہے جن کے نزدیک خدا کا علم محدود ہے وہ معاذ اﷲ مخلوق اور محتاج ہے۔ یقیناًان کے نزدیک نبی کریم کی زیادہ شان ماننے سے اﷲ تعالیٰ کی برابری لازم آئے گی۔ لیکن بفضلہ تعالیٰ ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ہمارا اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس کے متعلق شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’برتر از خیال اوقیاس و گمان وہم‘‘ اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو خیال و قیاس و گمان و وہم سے بالاتر ہے۔ اب فرق واضح ہوا کہ اﷲ تعالیٰ مکان، جسم، ظاہر طور پر نظر آنے، حواس سے مدرک ہونے کے بغیر ہر جگہ موجود ہے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے وہ حاضر ہے اور اپنے بندوں پر رحمت و مہربانی کرنے کے لحاظ سے وہ ناظر ہے۔ نبی کریم اپنے مزار شریف میں اپنی جسمانیت کے ساتھ موجود ہیں ۔آپ کی امت اور اس کے اعمال و احوال آپ کے سامنے ہیں۔ آپ اپنے حواس سے امت کے اعمال و احوال کو ادراک کررہے ہیں۔ اگر نبی کریم کی شان ناپسند ہو تو اس کا علاج تو کچھ نہیں ورنہ روز روشن کی طرح عیاں ہوا کہ جسم، مکان، حدوث و امکان حواس میں آنے اور حواس کے ذریعے ادراک کرنے سے پاک ذات اور جسم، مکان، حدوث، امکان حواس میں آنے اور حواس سے ادراک کرنے کی محتاج ذات میں کوئی محتاج برابری کا ذرہ بھر بھی تماثل نہیں۔ محمد شہزاد قادری ترابی :: ماہانہ تحفظ جنوری 2011 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔