Jump to content

Hath main Hath deay baghair Bayat Karna kaisa???


Raza

تجویز کردہ جواب

(bis)

(salam)

 

<span style='font-family:urdu naskh asiatype'><span style='font-size:19pt;line-height:100%'><span style='color:blue'><span style="line-height: 180%">

بسمِ اللّٰہ الرَّحمنِ ا لرَّحِیم

الصلوة والسلام علیک یارسول اللّٰہ مدینہ ٦٨٧ وعلی الک واصحبک یا حبیب اللّٰہ

٩٢

دارالافتاء اھلسنت

ٹرسٹ رجسٹرڈ

جامع مسجد کنزالایمان ، بابری چوک ، گرومندر ، کراچی ۔ 74800 پاکستان

E-Mail :[email protected] - [email protected] Fax :4855174 -Phone: 4855174 - 4911779

ریفرنس نمبر تاریخ

کیا فرماتے ہیںعلماء کرام و مفتیان شرع بیچ اس مسئلے میں کہ زید کہتاہے کہ : ١۔ بیعت کرتے وقت کسی کامل ولی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا نص قطعی سے ثابت ہے قرآن مجید میں ہے ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم (سورة الفتح) اس سے معلوم ہواکہ مرشدکے ہاتھوںمیں ہاتھ دینا سنت ہے ۔

٢۔ صحیح بخاری میںہے کہ بیعت رضوان کے وقت حضرت عثمان مکہ میں تھے تو ان کے بعد جو بیعت فرمائی فقال رسول اللہ ۖ بیدہ الیمنیٰ ھذہ یدعثمان فضرب بھا علی یدہ ( بخاری 523/1مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )اس سے معلوم ہوا کہ ہاتھوں میں ہاتھ دینا سنت ہے ۔حدیث عمرو بن العاص (مشکوة ص14)او رحدیث صفوان بن قدامہ (مدارج نبوت ص520) سے بھی یہ ظاہر ہورہا البتہ عورتوں کا مسئلہ جدا ہے ۔

٣۔ ان دلائل کے ہوتے ہوئے اسپیکر پر بیعت کرنے والا مرشدبننے کااھل نہیں او رہاتھوں میںہاتھ دینا سنت مئوکدہ ہے اسپیکرکے ذریعے بیعت میں یہ نہیں لھذا یہ بیعت شرعا ً درست نہیں ۔

٭ کیا زید کا موقف درست ہے یا نہیں؟

٭ اگر درست نہیں تو زیدکے بارے میں کیا حکم شرع ہے ؟

سائل : حاجی محمد اسد عطاری معرفت محمد یامین عطاری(ضلع وتحصیل ٹھٹھہ جنگ شاہی ر و ڈ)

بسم اللہ الرحمٰن الرَّحیم

الجواب بعون الوھاب اللھم ھدایة الحق والصواب

بیعت کرتے وقت ہاتھوں میںہاتھ دینا ،بغیرہاتھوں میںہاتھ دیئے زبانی بیعت کرنا ،سپیکر پر بیعت کرنا،خط ،ٹیلی فون او رانٹر نیٹ کے ذریعے بیعت کرنا،یہ تما م صورتیں جائزا وردرست ہیں او رقرآن وسنت او رفقہائے کرام کے اقوال سے ثابت ہیں او رزید کا یہ کہنا '' ہاتھوں میں ہاتھ دیئے بغیر سپیکر پربیعت کرنا شرعا جائزنہیں اور سپیکر پربیعت کرنے والا مرشدبننے کا اھل نہیں'' درست نہیں ہے۔

اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشادفرماتا ہے : ان الذین یبایعونک انما یبایعون اﷲ ید اﷲ فوق ایدیھم '' وہ جو تم سے بیعت کرتے ہیں تو وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے۔'' تفسیر روح البیان میںاسی آیت کے تحت ایک حدیث مبارکہ میں ہے عن شدادبن اوس وعبادة بن الصامت رضی اللہ عنھما قال کنا عندرسول اللہ علیہ السلام فقال ھل فیکم غریب یعنی اھل کتاب قلنا یارسول اللہ فأمر بفلق الباب فقال ارفعوایدیکم فقولوالا الہ الااللہ فرفعنا ایدینا ساعة ثم وضع رسول اللہ یدہ ثم قال الحمد للہ اللھم انک بعثتنی بھذہ الکمة وامرتنی بھا وعدتنی علیھا الجنة انک لاتخلف المیعاد ثم قال أبشرو فان اللہ قد غفرلکم ۔( تفسیرروح البیان 22/9مطبوعہ دارالفکر بیروت ) حضرت شداد بن اوس اور عبادة بن الصامت رضی ا للہ عنھما فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر تھے حضو رنبی کریم روف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا تم میںکوئی بے گانہ (اھل کتاب) تونہیں ؟ ہم نے نفی میں جواب دیا۔ ارشاد ہوا: دروزہ بند کردو او راپنے ہاتھوں کو بیعت کیلئے بلند کرو اور کہو ''لاالہ الااللہ'' ایک گھڑی ہم نے اپنے ہاتھوں کو بلند رکھا پھر مدینے کے تاجدار دوجہاں کے سردار باذن پروردگار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنادست مبارک نیچے کیا او رفرمایا ''الحمدللہ عزوجل'' اے اللہ تعالی تو نے مجھے اس کلمے کے ساتھ مبعوث فرمایا اور اس کلمے کا حکم دیا ور میرے ساتھ وعدہ فرمایا کہ جویہ کلمہ کہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا او رتو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا پھر (بیعت کرنے والوں کو ) فرمایا اے فرزندان اسلام تمھیں مژدہ (خوشخبری ) ہو اللہ تعالی نے تم سب کو معاف فرما دیاہے ''۔

اس حدیث پاک میںحضو رنبی کریم روف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ میں ہاتھ لئے بغیر زبانی بیعت فرمائی ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے حضرت عمروبن شریدثقفی رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کان فی وفد ثقیف رجل مجذوم : فأرسل الیہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اناقدبایعناک فارجع۔( صحیح مسلم للنووی 5980/9مطبوعہ دارالفکر بیروت ) یعنی بنو ثقیف کے وفد میں ایک شخص جذام کے مرض والاتھا حضو سرورکائنات فخرموجوداتصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اسکی طرف پیغام بھیجاکہ بیشک ہم نے تجھے بیعت کرلیا ہے تم واپس چلے جائو ''

اسی طرح سنن النسائی جلد 158/7دارالفکر بیرو ت میں یہی حدیث ان الفاظ ''ارجع قدبایعناک ''او '' ارجع قدبایعتک '' کے ساتھ مذکو رہے ۔

اسی طرح سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین وملت پروانہ شمع رسالت الشاہ احمد رضا خان علیہ الرحمة سے سوال پوچھ گیا کہ ایک شخص گویا کلکتہ میں ہے او راس کے دل میں ہے کہ میں مرید ہوجائوں تو اچھا مگر وہ جس سے مرید ہونا چاہتاہے وہ دوسرے ملک میں ہے پھر وہ کس طرح سے مرید ہوسکتاہے ؟ آپ علیہ الرحمة نے جوا باارشاد فرمایا : ''بیعت بذریعہ خط وکتابت بھی ممکن ہے یہ اسے درخواست لکھے وہ قبول کرے او راپنے قبول کی اس درخواست دہندہ (درخواست دینے والے )کو اطلاع دے او راسکے نام کا شجرہ بھی بھیج دے مرید ہوگیا کہ اصل ارادت فعل قلب ہے والقلم احداللسانین '' ( فتاوی رضویہ شریف 155/12مطبوعہ رضااکیڈیمی بمبئی )

ان احادیث اوراقوال سے واضح طو رپر معلوم ہوگیاکہ بغیر ہاتھ میں ہاتھ دیئے زبانی اورپیغام بھیج کر بیعت کرنابھی سنت ہے او زیدنے خود بخاری شریف کی روایت ذکر کی ہے اس سے بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غائب تھے اورحدیبیہ کے مقام پر موجود نہ تھے زیدنے جھالت اورعناد کی بناء پر اس حدیث سے غائبانہ بیعت کو شرعا ناجائز ثابت کیا ہے حالانکہ امام اہلسنت مجدد دین وملت پروانہ شمع رسالت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمة الرحمن جن کی دینی خدمات اورعلم وتجدیدی کارناموںکا اعتراف علمائے حرمین شریفین او رتما م عالم اسلام کے مفتیان کرام ،فضلاء ومشائخ عظام نے کیا ،جن کے فتاوی وتحریرات کی تصدیق وتائید کی، جن کے تصانیف پر تقاریظ لکھیں، جن کی علمی وجاہت اوردینی عظمت کے آگے عقیدت کی جبینیں خم کیں اورجنہیں چودہویں صدی کامجدد تسلیم کرتے ہوئے اما م الائمہ مجدد امت مسلمة ضیاء الدین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،امام اہلسنت ا وراعلی حضر ت جیسے رفیع وجلیل خطابات والقابات سے یاد کیا جن کی عبقریت اورتبحرعلمی کو بیگانوںنے بھی تسلیم کیا آپ علیہ الرحمة بخاری شریف کی اسی حدیث سے غائبانہ بیعت کو سنت ثابت کررہے ہیں آپ علیہ الرحمة سے جب یہ پوچھا گیا کہ زید کہتاہے کہ بیعت غائبانہ کوئی شئی نہیں تو آپ نے جواب میںبخاری شریف کی یہی حدیث مبارکہ پیش کی ۔فرمایا:واما تغییبہ عن بیعة الرضوان فلو کان احد اعز ببطن مکة من عثمان لبعثہ فبعث رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم عثمان وکانت بیعت الرضوان بعد ما ذھب عثمان الیٰ مکة فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بیدہ الیمنی ھذہ ید عثمان فضرب بھا علیٰ یدہ وقال ھذہ لعثمان۔ ( ''صحیح بخاری مع عمدة القاری 431/11دارالفکر بیروت '''' فتاوی رضویہ 153/12'') جب یہ بیعت رضوان ہوئی امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ غائب تھے ۔ بیعت حدیبیہ میں ہوئی او رآپ مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو فرمایا یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے پھر اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر ان کی طر ف سے بیعت فرمائی او رفرمایا یہ عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت ہے ۔

حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا بیعت لیتے وقت ہاتھ میں ہاتھ لینا عادت کے طو رپر تھا نہ کہ عبادت کے طور پر اور عادت سے مراد کسی شہرمیں لوگوں میں ایک رواج قائم ہوجانا ہے :فی شرح التحریر العادة ھی الامر المتکر رمن غیر علاقة عقلیة (رسائل ابن عابدین 44/1) شرح تحریر میں ہے عادت سے مراد ایسا کام ہے جو بغیرکسی عقلی وجہ کے باربار ہو ۔

عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب بھی وہ آپس میں عھد وپیمان کرتے تو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے تھے جیساکہ روح البیان میں ہے: ''ذکرالید لاخذھم بید رسول اللہ حین لابیعة علی ماھو عادة العرب عندالمعاھدة والمعاقدة''( تفسیر روح البیان 19/9) یعنی بیعت کرتے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ہاتھوں کا حضو رنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میںدینے کا ذکراس وجہ سے ہے کہ عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ عھد وپیمان کے وقت ایسا ہی کیا کرتے او رزید نے مشکوة شریف کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے ا سکی شرح میں حضرت علامہ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے بھی عربوں کے اس رواج کا ذکرکیا ہے آپ علیہ الرحمة فرماتے ہیں :'' ابسط یمینک ای افتحھا ومدھا لأ صنع یمینی علیھاکما ھوالعادة فی البیعة یعنی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا ئیں تاکہ میںاپنا دایاں ہاتھ اس پر رکھوں جیسا کہ عربوں میں بیعت کرتے وقت عادت ہے ۔( مرقاة شرح مشکوة 189/1مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )

ان حقائق سے اظہر من الشمس ( یعنی سورج سے زیادہ روشن )ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا عادة ً تھا او روہ امو رجو حضورنبی کریم روف الرحیم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی جیسے کھانا ،پینا ،سونا ،اٹھنا ،بیٹھنا انھیں سنن الزاوائد میں شمار کیاگیا ہے او رسنن زوائد کے بارے میں مولانا محمد عبدالحلیم قمرالاقمار شرح نورالانوار میں لکھتے ہیں : '' الافعال الطبعیة التی لایخلو ذونفس عنھا کالنوم الیقظة والا کل والشرب وغیرھا فلا یجب علینا اقتدانہ فی ھذہ الا فعال الطبعیة بل ھذہ الا فعال مباحة لا متہ بلا خلاف '' ( قمرالاقمار شرح نورالانوار ص217مکتبہ امدایہ ) وہ طبعی افعال جن سے ذی روح خالی نہیں ہوتاجیسے سونا او رجاگنا اورکھانا او رپینا وغیر ہ ۔ہم پر ان افعال میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء واجب نہیں اور یہ افعال آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی امت کیلئے بغیر اختلاف کے مباح ہیں یعنی اس پر تما م امت کا اجماع ہے ۔

زید کا اس فعل (یعنی ہاتھ میں ہاتھ دینے ) کوسنت مئوکدہ شمار کرتے ہوئے غلط حکم لگانا کمی علمی ہے اگرزید فقہ، اصول فقہ کی درسی کتابیںتوجہ سے پڑھ لیتا تو سنت مئوکدہ (سنن ھدی ) اورسنن زوائد کافرق خوب سمجھ لیتا۔خاتم المحققین حضرت علامہ مولانا محمد امین المعروف ابن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :'' والسنة نوعان سنة الھدی وترکھا یوجب اسا ء ة وکراھیة کالجماعة والا ذان والاقامة ونحوھا وسنة والزوائد وترکھا لایوجب ذالک کسیر النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ'' سنت کی دواقسام ہیں سنت ھدی جس کا ترک اساء ت اور کراہیت کو واجب کرتاہے (یعنی جس کا ترک کرنا بہت براہے اورمکروہ تحریمی ہے او رترک کی عادت بنا لینے والا مستحق عذاب ہے ) جیسے جماعت ،اذان او راقامت اور اسکی مثل دوسری چیزیں اور سنن زوائد کہ جس کا ترک ان چیزوں کو واجب نہیں کرتا (یعنی جس کا کرنا ثواب اورنہ کرنا اگرچہ عادة ہو موجب عتاب نہیں ) جیسے لباس اورقیام وقعود( یعنی اٹھنا ،بیٹھنا) وغیرہ میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ ۔( فتاوی شامی 218/1مطبوعہ دارالکتب العلمیہ )

زید نے مزید غلطی یہ کی کہ پیرکامل کا ہاتھ میں ہاتھ لینے کو بیعت کیلئے شرط قراردیے دیا اورکہا کہ جو سپیکر پر بیعت کرتاہے وہ مرشد بننے کا اہل ہی نہیں حالانکہ آج تک چودہ سوسالوں میںکسی محدث ،فقہیہ ،عالم دین نے اس کی قید نہیں لگائی امام اہلسنت مجدد دین وملت پروانہ شمع رسالت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمة الرحمن سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کون سا شخص مرشد بننے کے قابل ہے تو آپ علیہ الرحمة نے فرمایا :

'' بیعت گرفتن ودرمسند ارشاد نششن رااز چار شرط نا گزیراست :یکے آنکہ سنی صحیح العقیدہ باشد زیرا کہ بد مذہباں سگان دوزخ اند وبدترین خلق چونکہ درحدیث آمدہ است ۔دوم عالم بعلم ضروری بودن کہ ''بے علم نتوا ںخدر اشناخت ۔''سوم اجتناب کبائر کہ فاسق واجب التوہین ست ومرشد واجب التعظیم ہردوچہ گونہ بہم آید۔ چہارم اجازت صحیحہ متصلہ کما اجمع علیہ اھل الباطن ۔ہرکہ از نیہا ہیچ شرط رافاقدست او رانشاید پیرگرفتن۔''( فتاوی رضویہ شریف 492/21مطبوعہ رضا فائونڈیشن ) بیعت لینے او رمسند ارشاد پر بیٹھنے کیلئے چارشرطیں ضروری ہیں۔ایک یہ کہ سنی صحیح العقیدہ ہو اس لئے کہ بد مذہب دوزخ کے کتے ہیں اور بدترین مخلوق جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیاہے۔ دوسری شرط ضروری علم کا ہونا اسلئے کہ بے علم خدا کوپہچان نہیںسکتا ۔تیسری شرط یہ کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا اس لئے کہ فاسق کی توہین واجب ہے اور مرشد واجب التعظیم ہے ۔دونوں چیزیں کیسے اکٹھی ہونگی ۔چوتھی اجاز ت متصل ہوجیساکہ اس پر اہل باطن کا اجماع ہے جس شخص میں ان شرائط میں کوئی ایک شرط نہ ہو تو اس کو پیر نہیں پکڑنا چاہیے ''۔

اس عبارت میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ ایسا پیر جو بیعت کرتے وقت ہاتھ میں ہاتھ نہ لے وہ مرشد بننے کے قابل ہی نہیں بلکہ اعلی حضرت امام اھلسنت رحمة للہ علیہ '' ایسے سنی صحیح العقیدہ جس نے ابھی تک پیر کامل کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا ہو '' کے بارے میں فرماتے ہیں :''سنی صحیح العقیدہ کہ ائمہ ھُدٰی کو مانتا ،تقلید ائمہ ضروری جانتا اولیائے کرام کا سچا معتقدتما م عقائد میں راہ حق پر مستقیم ہو وہ ہرگز بے پیر نہیں وہ چاروں مرشد ان پاک یعنی کلام ِخداورسول وائمہ وعلمائے ظاہر وباطن اس کے پیر ہیں بلکہ اگر اسی حالت پر ہے تو مثل اورلاکھوں مسلمانان اھلسنت کے اس کاہاتھ شریعت مطھرہ کے ہاتھ میں ہے اگرچہ بظاہر کسی خاص بندہ خدا کے دست مبارکہ پر شرف بیعت سے مشرف نہ ہوا ہو'' (فتاوی رضویہ شریف 482/21)

اما م اھلسنت مجد دین وملت علیہ الرحمة کے اس فرمان سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ جس سنی صحیح العقیدہ کا کوئی پیر نہ ہو اس کا ہاتھ شریعت مطھرہ کے ہاتھ میں ہے حالانکہ نہ تو کلام خدا عزوجل ورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری طورپر ہاتھ میں ہاتھ لیا اور نہ ائمہ وعلمائے ظاہروباطن نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

پس ان تمام حقائق کے باوجود زید کا یہ کہنا کہ زبانی سپیکر پر بیعت کرنے والا مرشد بننے کا اہل نہیں او رصرف ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی بیعت کرناسنت ہے درست نہیں بلکہ بغیرعلم کے فتوی دینا ہے او رجو بغیرعلم کے فتوی دیتاہے خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کوبھی گمراہ کرنے والا ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے :' ' فافتوا بغیر علم فضلوا وضلو '' ( مشکوة شریف ص 33مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ) لھذا غلط فتوی کی وجہ سے زید پر توبہ ہے اور ان لوگوں پربھی جنہوں نے اس فتوی کو پڑھ کر اس کی تائید کی ۔اللہ تعالی مسلمانوں کو سمجھ عطا فرمائے ۔(آمین )

واللہ ورسولہ اعلم عزّوجلّ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم

الجواب صحیح کتبہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری محمد عقیل رضاالعطاری المدنی

١٨ صفر المظفر ١٤٢٧ہ١٩ مارچ٢٠٠٦ئ

 

</span></span></span></span>

Link to comment
Share on other sites

  • 4 months later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...