Eccedentesiast مراسلہ: 24 دسمبر 2011 Report Share مراسلہ: 24 دسمبر 2011 149-adillah_at_tayinah.pdf Read Online Download Al-Adillatu’t Ţāýinah fī Adhāni’l Malāyinah الأدلة الطاعنة في أذان الملاعنة ملعونوں کی اذان کے بارے میں نیزے چھبونے والے دلائل روافض کی اذان اہل سنت و جماعت کو سننا کیسا ہے Description of the book: The solid proofs like piercing spear about the adhan of Cursed رسالہ الادلۃ الطاعنہ فی اذان الملا عنہ ( ملعونوں کی اذان کے بارے میں نیزے چبھونے والے دلائل) بسم اﷲ الرحمن الرحیم مسئلہ ۱۸۳: از انجمن محب اسلام مرسلہ مولوی صاحب صدر انجمن ۲۱ ذیقعدہ ۱۳۰۶ھ کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت وجماعت اس مسئلہ میں کہ بالفعل اہل تشیع نے اپنی اذان وغیرہ میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت کلمہ خلیفہ رسول اللہ بلا فصل کہنا اختیار کیا ہے۔ پس اہلسنت کو اس کلمہ کا سننا بمنزلہ سننے تبرا کے ہے یا نہیں، اور اس کے انسداد میں کوشش کرنا باعث اجر ہوگی یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ ت) الجواب: الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین محمد وخلفائہ الاربعۃ الراشدین والہ وصحبہ و اہل سنتہ اجمعین۔ تمام حمدیں اللہ تعالٰی رب العالمین کے لئے ہیں اور صلوٰۃ وسلام رسولوں کے آقا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان خلفاء اربعہ راشدین اورآپ کی آل وصحابہ اور تمام اہلسنت پر۔ (ت) الحق یہ کلمہ مغضوبہ مبغوضہ مذکورہ سوال خالص تبرا ہے اور اس کا سننا سنی کے لئے بمنزلہ تبرا سننے سنی کےلیے بمنزلہ تبراسننے کے نہیں بلکہ حقیقۃً تبرا سننا ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی رب العالمین، تبرا کے معنی اظہار براءت وبیزاری جس پر یہ کلمہ خبیثہ نہ کنایۃً بلکہ صراحۃً دال ہے کہ اس میں بالتصریح خلافت راشدہ حضرات خلفاء ثلثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نفی ہے اور اس نفی کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ وہ بعد حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مسند نشین نہ ہوئے کہ ان کا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد تخت خلافت پر جلوس فرمانا فرمان واحکام جاری کرنا نظم ونسق ممالک اسلامیہ وتمام امور ملک ومال ورزم وبزم کی باگیں اپنے دست حق پر ست میں لینا وہ تاریخی واقعہ مشہور متواتر اظہر من الشمس ہے جس سے دنیا میں موافق مخالف یہاں تک کہ نصارٰی ویہود ومجوس وہنود کسی کو انکار نہیں بلکہ ان محبان خدا ونوابان مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روافض کو زیادہ عداوت کا مبنٰی یہی ہے ان کے زعم باطل میں استحقاق خلافت حضرات مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی میں منحصر تھا جب بحکم الٰہی خلافت راشدہ اول ان تین سرداران مومنین کو پہنچی روافض نے انھیں معاذاللہ مولٰی علی کا حق چھیننے والاٹھہرایا اور تقیہ شقیہ کی بدولت حضرت اسداللہ الغالب کو عیاذاباللہ سخت نامردود (ف) وبزدل وتارک حق ومطیع باطل بتایا ع دوستی بے خرداں دشمنی ست ( بے عقل لوگوں کی دوستی اصل میں دشمنی ہے۔ ت) کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون الاکذبا ۱؎۔کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نرا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ (ت) (۱؎ القرآن الکریم ۱۸/ ۵) ف: روافض کے طور پر حضرت مولٰی علی معاذاللہ بزدل تارک حق مطیع باطل ٹھہرے۔ تو لاجرم لفظ بلا فصل میں جو نفی ہے اس سے نفی لیاقت واستحقاق مراد ، تو اس مجمل لفظ میں غضب وظلم وانکار حق واصرار باطل ومخالف دین واختیار دنیا وغیرہ وغیرہ ہزاروں مطاعن ملعونہ جو قوم روافض اپنے اعتقاد میں رکھتی اور زبان سے بکتی ہے سب دفعۃً موجود ہیں اور لائے نفی سے اپنی براءت وبیزاری کا کھلا اظہار، پھر تبرا اور کس چیز کا نام ہے میں اس واضح بات کے ایضاح کرنے یعنی آفتاب روشن کو چراغ دکھانے میں زیادہ تطویل محض بیکار سمجھ کر صرف اس الزامی نظر پر قناعت کرتاہوں، اگر کوئی شخص کہے (قوم شیعہ میں بعد عبدالرزاق بن ہمام کے جس نے ۲۱اھ میں انتقال کیا بلا فصل بہاؤ الدین املی ہونے سے محفوظ اور بظاہر نام اسلام سے محفوظ رہے۔ تو کیا اس نے ان دونوں کے بیچ میں جتنے شیعے گزرے مثل طوسی وحلی وکلینی وابن بابویہ وغیرہم سب کو کافر ملعون نہ کہا، نہیں نہیں یقینا اس کے کلام کا صاف صاف یہی مطلب ہے جس کے سبب ہم اہل حق بھی اس لفظ پر انکار کریں گے اور اسے ناپسند رکھیں گے کہ ہمارے نزدیک بھی ان سب پر علی الاطلاق حکم کفر ولعنت جائز نہیں۔ انصاف کیجئے کیا اگر یہ بات علانیہ برسر بازار پکاری جائے تو شیعہ کو کچھ نا گوار نہ ہوگا یا وہ اسے صریح توہین وتذلیل نہ سمجھیں گے حالانکہ اس بیچ میں جتنے شیعے گزرے کسی کو مدح وعقیدت شیعہ کے اصول مذہب میں داخل نہیں، نہ معاذاللہ قرآن وحدیث یا اقوال ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالٰی علیہم ان لوگوں کی نیکی وخوبی پر دال، پھر حضرات خلفائے ثلثہ (ف۱) رضوان اللہ تعالٰی علیہم جن کی ثنا ومدحت وادب وعقیدت ہم اہل سنت کے اصول مذہب میں داخل اور ہمارے نزدیک ہزاروں آیات واحادیث حضرت رسالت واقوال ائمہ اہلبیت صلوات اللہ علیہ وعلیہم سے ان کی لاکھوں خوبیاں تعریفیں مالا مال ان کی نسبت ایسا کلمہ مغضوبہ اذان میں پکارا جانا کیونکر ہماری توہین مذہبی نہ ہو گا یا ہمارے دلوں کونہ دکھائے گا غرض یہ تو وہ روشن وبدیہی بات ہے جس کے ایضاح کو جو کچھ کہئے اس سے واضح تر نہ ہوگا مجھے بتوفیق اللہ عزوجل یہاں یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ کلمات جو روافض حال نے سنیوں کی ایذا رسانی کو اذان میں بڑھائے ہیں ان کے مذہب کے بھی خلاف ہیں۔ ف۱: حضرت خلفائے ثلثہ کی ثنا ومدحت ادب وعقیدت اہل سنت کے اصول مذہب میں ہے۔ (۱) ان کی حدیث وفقہ کی رو سے بھی اذان ایک محدود عبارت معدود کلمات کا نام ہے جن میں یہ ناپاک لفظ داخل نہیں۔ (۲) ان کے نزدیک بھی اس اذان منقول میں اور عبارت بڑھانا ناجائز وگناہ اور اپنے دل سے ایک نئی شریعت نکالنا ہے۔ (۳) ان کے پیشوا خود لکھ گئے کہ ان زیادتیوں کی موجب ایک ملعون (ف۲ ) قوم ہے جنھیں امامیہ بھی کافر جانتے ہیں۔ ف۲: روافض کے پیشواؤں نے کہا کہ اذان میں خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلافصل وغیرہ زیادت کی موجد ایک ملعون قوم ہے۔ میں ان تینوں امور کی سندیں مذہب امامیہ کی معتبر کتابوں سے دوں گا اور ان کی عبارتیں مع صاف ترجمہ کے نقل کروں گا وباللہ التوفیق ولہ الحمد علی ارأۃ سواء الطریق (اللہ تعالٰی سے ہی توفیق ہے اسی کے لئے حمد ہے سیدھا راستہ دکھانے پر۔ ت) سند امر اول: شرائع الاسلام شیخ علی مطبوعہ کلکتہ مطبع گلدستہ نشاط ۱۲۵۵ھ کے صفحہ ۳۴ پر ہے: الاذان علی الاشھر ثمانیۃ عشر فصلا التکبیر اربع والشہادۃ بالتوحید ثم بالرسالۃ ثم یقول حی علی الصلوٰۃ ثم حی علی الفلاح ثم حی علی خیر العمل والتکبیر بعدہ ثم التھلیل کل فصل مرتان ۱؎۔ اذان مشہور تر قول پر اٹھارہ کلمے ہیں: تکبیر چار بار اور گواہی توحید کی پھر رسالت کی پھر حی علی الصلوٰۃ پھر حی علی الفلاح پھر حی علی خیر العمل اور اس کے بعد اللہ اکبر پھر لا الہ الا اللہ ہر کلمہ دو بار۔ (۱؎ شرائع الاسلام المقدمۃ السابقۃ فی الاذان والاقامۃ مطبعۃ الآداب فی النجف الاشرف ۱/ ۷۵) خضید حی جو شہید ثانی کہا جاتا ہے اس کی شرح مدارک میں لکھتا ہے:ھذا مذھب الاصحاب لا اعلم فیہ مخالفا والمستند فیہ ما رواہ ابن بابویہ والشیخ عن ابی بکر الحضر می وکلیب الاسدی عن ابی عبداﷲ علیہ السلام انہ حکی لھما الاذان فقال اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبر اشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان محمدا رسول اﷲ اشھد ان محمدا رسول اللہ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح حی علی خیر العمل حی علی خیر العمل اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ لا الہ الا اﷲ ، والا قامۃ کذٰلک وعن اسمعیل الجعفی قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول الاذان والاقامۃ خمسۃ وثلثون حرفا فعد ذٰلک بیدہ واحدا واحدا الاذان ثمانیۃ عشر حرفا والاقامۃ سبعۃ عشر حرفا واشار المصنف بقولہ علی الاشھر الی مارواہ الشیخ بسندہ الی الحسین بن سعید عن النصربن سوید عن عبداﷲ بن سنان قال سألت ابا عبداﷲ علیہ السلام عن الاذان فقال تقول اﷲ اکبر اﷲ اکبر اشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان محمد ا رسول اﷲ، اشھد ان محمد ا رسول اﷲ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح حی علی خیر العمل حی علی خیر العمل، اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ وروی زرارۃ والفضیل عن ابی عبداﷲ علیہ السلام، نحو ذٰلک وحکی الشیخ عن بعض الاصحاب تربیع التکبیر فی اخر الاذان وھو شاذ مردود بما تلونا من الاخبار ۱؎ اھ ملخصا۔ اذان کے وہی اٹھارہ کلمے ہونا مذہب تمام امامیہ کا ہے جس میں میرے نزدیک کسی نے خلاف نہ کیا اور اس کی سند وہ حدیث ہے جو ابن بابو یہ وشیخ نے ابوبکر حضرمی وکلیب اسدی سے روایت کی کہ حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام نے ان کے سامنے اذان یوں بیان فرمائی اللہ اکبر ۴، اشھد ان لا الہ الا اﷲ ۲، اشھد ان محمد ا رسول اﷲ ۲، حی الصلوٰۃ ۲، حی علی الفلاح۲، حی علی خیر العمل ۲، اللہ اکبر ۲، لا الہ الا اﷲ ۲، اور فرمایا اسی طرح تکبیر کہے، اور اسمعیل جعفی سے روایت ہے میں نے حضرت امام ابو جعفر علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ اذان وتکبیر کا مجموعہ پینتیس کلمے ہے۔ پھر حضرت نے اپنے دست مبارک سے ایک ایک کرکے گنے، اذان اٹھارہ کلمے اور تکبیر سترہ اور وہ جو مصنف (یعنی حلبی نے شرائع الاسلام میں) کہا کہ مشہور تر قول پر اذان کے اٹھارہ کلمے ہیں وہ اس سے اس حدیث کی طرف اشارہ کرتا ہے جو شیخ نے بسند خود حسین بن سعید اس نے نصر بن سوید اس نے عبداللہ بن سنان سے روایت کی کہ میں نے ابو عبداللہ علیہ السلام سے اذان کو پوچھا، فرمایا یوں کہہ اللہ اکبر ۲۔ اشھد ان لا الہ الا اﷲ ۲، اشھد ان محمد ارسول اللہ۲، حی علی الصلوٰۃ۲، حی علی الفلاح۲، حی علی خیر العمل ۲، اللہ اکبر ۲، لا الہ الا اللہ ۲ (یعنی اس حدیث میں شروع اذان صرف دو تکبیر سے ہے تو اذان کے سولہ ہی کلمے رہیں گے) اور زرارہ وفضیل نے امام ممدوح سے یونہی روایت کی اور شیخ نے بعض امامیہ سے اخر اذان میں چار تکبیریں نقل کیں اور وہ شاذ مردود ہے بسبب ان حدیثوں کے جو ہم نے ذکر کیں اھ ملخصا۔ (۱؎ مدارک الاحکام شرح شرائع الاسلام) شہید شیعہ ابوعبداللہ بن مکی لمعہ دمشقیہ میں لکھتا ہے:یکبر اربعا فی اول الاذان ثم التشھدان ثم حیعلات الثلث ثم التکبیر ثم التھلیل مثنی فھذہ ثمانیہ عشر فصلا فھذہ جملۃ الفصول المنقول شرعا ولا یجوز اعتقاد شرعیۃ غیر ھذہ لفصل فی الاذان والا قامۃ کالتشھد بالولایۃ لعلی ۱؎ اھ ملخصا۔ اول اذان میں چار بار اللہ اکبر کہے پھر دونوں شھادتیں پھر تینوں حی علی پھر اللہ اکبر پھر لا الہ الا اللہ ہر کلمہ دوبارہ یہ اٹھارہ کلمے ہیں اور کل یہی ہیں جو شرع میں منقول ہوئے۔ان کے سوا اذان اور اقامت(ف۱) میں اور کسی کو مشروع جاننا جائز نہیں جیسے اشھد ان علیا ولی اﷲ اھ ملخصا۔ (۱؎ اللمعۃ الدمشقیہ) ف۱: بعض ائمہ روافض کی تصریح کہ اذان میں اشھدان علیا ولی اﷲ یا اس کے مثل کہناجائز ہے اور اذان میں اس کی مشروعیت کا اعتقاد باطل ہے۔ سند امر دوم: اسی مدارک میں ہے:الاذان سنۃ متلقاۃ من الشارع کسائر العبادات فیکون الزیادۃ فیہ تشریعا محرما کما یحرم زیادۃ ''ان محمد والہ خیر البریۃ'' فان ذٰلک وان کان من احکام الایمان الا انہ لیس من فصول الاذان ۲؎۔ اذان ایک سنت ہے جسے شارع (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نے تعلیم فرمایا مثل اور عبادتوں کے تو اس میں کوئی لفظ بڑھانا اپنی طرف سے نئی شریعت (ف۲ ) ایجاد کرنا ہے اور یہ حرام ہے جیسے "ان محمد والہ خیر البریہ" کا بڑھانا حرام ہوا کہ یہ اگر چہ احکام ایمان سے ہے مگر اذان کے کلمات سے نہیں ۔ (۲؎ مدارک الاحکام شرح شرائع الاسلام) ف۲: بعض پیشوا یان کی تصریح کہ ۱۸ کلمات منقولہ اذان سے کوئی کلمہ بڑھانا نئی شریعت گھڑنا ہے اور یہ حرام ہے۔ اسی میں ہے:الاذان عبادۃ متلقاۃ من صاحب الشرع فیقتصر فی کیفیتھا علی المنقول والروایات المنقولۃ عن اھل البیت علیھم السلام خالیۃ عن ھذا اللفظ فیکون الاتیان بہ تشریعا محرما ۳؎۔ اذان ایک عبادت ہے کہ صاحب شرع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سیکھی گئی تو اس کی کیفیت میں اسی قدر اقتصار کیا جائے جس قدر شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منقول ہے اور حضرات اہل بیت کرام علیہم السلام سے جو روایتیں منقول ہوئیں وہ اس لفظ سے خالی ہیں تو اس کا بڑھانا نئی شریعت تراشنا ہوگا کہ حرام ہے۔ ( ۳؎ مدارک الاحکام شرح شرائع الاسلام) سند امر سوم: شیخ صدوق شیعہ ابن بابویہ قمی کہ ان کے یہاں کے اکابر مجتہدین وارکان مذہب سے ہے۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ کے باب الاذان والاقامۃ للمؤذنین میں لکھتا ہے:روی ابوبکرن الحضر می وکلیب ن الاسدی عن ابی عبداﷲ علیہ السلام انہ حکی لھما الاذان فقال اﷲ اکبراﷲ اکبر اﷲ اکبر اﷲ اکبراشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان لا الہ الا اﷲ اشھد ان محمداً رسول اﷲ اشھد ان محمداً رسول اﷲ حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح حی علی الفلاح حی علی خیر العمل حی علی خیر العمل، اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ وقال مصنف ھذا الکتاب ھذا ھو الاذان الصحیح لایزاد فیہ ولا ینقص منہ و المفوضۃ لعنھم اﷲ قد وضعوااخبارا و زادوافی الاذان محمد وال محمد خیر البریۃ مرتین، وفی بعض روایاتھم بعد اشھد ان محمدا رسول اﷲ اشھد ان علیا ولی اﷲ مرتین، ومنھم من روی بدل ذٰلک واشھد ان علیا امیر المومنین حقا مرتین ولا شک فی ان علیا ولی اﷲ و انہ امیر المومنین حقا وان محمد والہ صلوات اﷲ علیہم خیر البریۃ ولکن لیس ذٰلک فی اصل الا ذان وانما ذکرت ذٰلک لیعرف بھذہ الزیادۃ المتھمون بالتفویض المدلسون انفسھم فی جملتنا ۱؎۔ ابوبکر حضرمی وکلیب اسدی حضرت ابوعبداللہ علیہ السلام سے روای کہ اس جناب نے ان کے سامنے اذان یوں کہہ کر سنائی اﷲ اکبر ۴ اشھد ان لا الہ الا اﷲ ۲ ، اشھد ان محمدا رسول اللہ ۲، حی علی الصلوٰۃ ۲، حی علی الفلاح ۲، حی علی خیر العمل۲، اﷲ اکبر۲، لا الہ الا اللہ ۲، مصنف اس کتاب کا کہتا ہے یہی اذان صحیح ہے نہ اس میں کچھ بڑھایا جائے نہ اس سے کچھ گھٹا یا جائے، اور فرقہ مفوضہ نے کہ اللہ ان پر لعنت کرے کچھ جھوٹی حدیثیں اپنے دل سے گھڑیں اور اذان میں محمد وال محمد خیر البریہ ۲ دو بار بڑھایا اور انھیں کی بعض روایات میں اشھد ان محمد رسول اﷲ کے بعد اشھد ان علیا ولی اللہ دوبارآیا اور ان کے بعض نے اس کے بدلے اشھد ان علیا امیر المومنین حقا دوبار روایت کیا اور اس میں شک نہیں کہ علی ولی اللہ ہیں اور بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور ان کی آل علیھم السلام تمام جہاں سے بہتر ہیں مگر یہ کلمے اصل اذان میں نہیں، اور میں نے اس لئے ذکر کردیا کہ اس زیادتی کے باعث وہ لوگ پہچان لئے جائیں جو مذہب تفویض سے متہم ہیں اور براہ فریب اپنے آپ کو ہمارے گروہ(یعنی فرقہ امامیہ) میں داخل کرتے ہیں۔ (۱؎ من لایحضر الفقیہ باب الاذان والاقامۃ الخ دارالکتب الاسلامیہ تہران ایران ۱/ ۸۹۔ ۱۸۸) دیکھو امامیہ کا شیخ صدوق کیسی صاف صاف شہادت دے رہا ہے کہ اذان کے شروع میں وہی اٹھارہ کلمے ہیں اور ان پر یہ زیادتیاں مفوضہ کی تراشی ہوئی ہیں اور صاف کہتا لعنھم اللہ تعالٰی ان پر اللہ لعنت کرے۔ تنبیہ لطیف: جس طرح بحمداللہ تعالٰی ہم نے یہ امور پیشوایان شیعہ کی تصریحات سے لکھے یونہی مناسب کہ اس کلمہ خبیثہ کا تبرا ہونا بھی انہی کے معتمدین سے ثابت کردیا جائے صدر کلام میں جس واضح تقریر سے ہم نے اس کا تبر ا ہونا ظاہر کیا اس سب سے قطع نظر کیجئے تو ایک امام شیعہ کی شہادت لیجئے کہ اس کی تقریر سے اس ناپاک کلمے کا سبّ صریح ودشنام قبیح ہونا ثابت، ان کا علامہ کتاب المختلف میں لکھتاہے۔ المفاخرۃ لاتنفک عن السباب اذا المفاخرۃ انما تتم بذکر فضائل لہ وسلبھا عن خصمہ اوسلب رذائل عنہ واثباتھا لخصمہ وھذا معنی السباب ۱؎۔ دو شخصوں کا آپس میں تفاخر کرنا (کہ ہر ایک اپنے آپ کو دوسرے پر کسی فضل وکمال میں ترجیح دے) باہم دشنام دہی سے خالی نہیں ہوتا کہ مفاخرت یونہی تمام ہوتی ہے کہ یہ شخص کچھ خوبیاں اپنے لئے ثابت کرے اور اپنے مقابل کو ان سے خالی کہے یا بعض برائیوں سے اپنی تبرئی اور اپنے مقابل کے لئے انھیں ثابت کرے۔ اور یہی معنی دشنام دہی کے ہیں۔ (۱؎ کتاب المختلف) نقلہ بعض محشی الروضۃ البھیۃ شرح اللمعۃ الدمشقیۃ علی ھامشھا من کتاب الحج فی تفسیر السباب صفحہ ۱۶۱۔ اس کو روضہ بہیہ شرح لمعہ دمشقیہ کے بعض محشی نے اس کے حاشیہ پر کتاب الحج میں سباب کی تفسیر میں صفحہ ۱۶۱ پر نقل کیا ہے۔ (ت) اب کہئے کہ خلافت حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فضیلت ہے یا نہیں۔ ضرور کہے گا کہ اعلی فضائل سے ہے اب کہے ''خلیفہ رسول اﷲ '' کہہ کر آپ نے اسے مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے لئے ثابت اور ''بلا فصل'' کہہ کر حضرات خلفائے ثلثہ رضوان اللہ علیہم سے سلب کیا یا نہیں، اقرار کے سوا کیا چارہ ہے۔ اور جب یوں ہے اورآپ کا علامہ گواہی دیتا ہے کہ شرع میں دشنام اسی کا نام ، تو کیا محل انکاررہا کہ یہ مبغوض کلمہ معاذاللہ علی الاعلان ہمارے پیشوایان دین کو صاف صاف دشنام دیتاہے پھر تبرا نہ بتانا عجیب سینہ زوری ہے۔ ہاں اب داد انصاف طلب ہے اگر بالفرض یہ کلمہ ملعونہ ان کی اذان مذہبی میں داخل ہوتا اور ان کے یہاں روایات میں آتا تو کہہ سکتے کہ صرف اہلسنت کا دل دکھانا مقصو د نہیں بلکہ اپنی رسم مذہبی پر نظر ہے اب کہ یقینا ثابت کہ کلمہ مذکورہ خود ان کے مذہب میں بھی نہیں۔ نہ صاحب شرع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس کی روایت نہ حضرات ائمہ اطہار سے اس کی اجازت نہ ان کے پیشواؤں کے نزدیک اذان کی یہ ترتیب وکیفیت بلکہ خود انھیں کی معتبر کتابوں میں تصریح کہ اذان میں صرف اتنا بڑھانا بھی حرام ہے کہ اشھد ان علیا ولی اللہ اور یہ زیادتیاں اس فرقہ ملعونہ کی نکالی ہوئی ہیں جو باتفاق اہلسنت وشیعہ کافر ہیں، تو ایسی حالت میں اس کے بڑھانے کو ہر گز کسی رسم مذہبی کی ادا پر محمول نہیں کرسکتے بلکہ یقیناً سوا اس کے کہ اہلسنت کو آزار دینا اور ان کا دل دکھانا اور ان کی توہین مذہبی کرنا مدنظر ہے اور کوئی غرض مقصود نہیں، سبحان اللہ! طرفہ بیباکی ہے اگر یہ ناپاک لفظ ان کی اذان مذہبی میں ہوتا بھی تاہم کوئی فریق اپنی اس رسم مذہبی کا اعلان ہی نہیں کرسکتا جس میں دوسرے فریق کی توہن مذہبی یا اس کے پیشوایان دین کی اہانت ہو نہ کہ یہ ناپاک رسم کہ خود شیعہ کے بھی خلاف مذہب ملعون کافروں سے سیکھ کر یہ اعلان کریں اور ہمارے پیشوایان دین کی جناب میں ایسے الفاظ کہہ کر جو بتصریح انھیں کے عمائد کے صریح دشنام ہیں ہمارا دل دُکھائیں کیا اب ہند میں روافض کی سلطنت ہے یا گورنمنٹ ہند شیعہ ہوگئی یا اس نے ہماری توہین مذہبی کی پروانگی دے دی یا شیعی صاحبوں نے کوئی خفیہ طاقت پیدا کرلی جس کے باعث ارتکاب جرم میں دہشت نہ رہی،فالی اﷲ المشتکی وعلیہ البلاغ وھو المستعان ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولٰنا محمد والہ وصحبہ اجمعین۔ والحمدﷲ رب العالمین۔ رسالہ ادلۃ الطاعنۃ فی اذن الملاعنۃ ختم ہوا اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔