Abu.Huzaifa مراسلہ: 2 دسمبر 2011 Report Share مراسلہ: 2 دسمبر 2011 واقعۂ کربلا اور درس عبرت و عمل مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ واقعہ فاجعہ کربلاے معلیٰ اور شہادتِ امام حسین گل گوں قبا علیٰ جدہٖ و علیہ الثنا نے عالمی پیمانے پر اور رہتی دنیا تک کے لیے جو سبق دیا ہے، اسے یاد رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ آج جب کہ اسلام کو طرح طرح سے بد نام کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں، حسین باوفا علیہ الرحمۃ والرضا کا کردار اس سازش کا بھی پردہ چاک کر رہا ہے کہ اسلام ظلم و زیادتی کا سب سے بڑا دشمن ہے، ظلم اپنے کریں یا غیر اسلام کا سچا فدائی ہر حال میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ آج حیرت ہے کہ یزید پلید کو برحق کہنے والے ، اس کو امیر المومنین کا جھوٹا لقب دینے والے ، امریکہ اور اس کے دیگر حمایتیوں کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں۔ امریکہ ظلم کر رہا ہے تو اس کو برحق بتا رہے ہیں، اپنے ہی مسلم بھائیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے ظالموں کو دعوت دے کر قتل عام کو روا رکھ رہے ہیں، عراق میں جو ہوا، افغانستان میں جو ہوا اور ہو رہا ہے، آج پوری دنیا کی نگاہوں میں ہے۔ افسوس کہ یہی یزیدی کردار کے حامل اور یہودی نواز خوں خوار نجدی حرمین محترمین پر قابض ہیں اور ساری دنیا میں وہ لٹریچر تقسیم کر رہے ہیںجن سے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو رہا ہے اور اسلام کے کھلے دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف کھیل کھیلنے اور سازشیں رچنے کا موقع مل رہا ہے۔مسلمان کٹ مر جائیں، مسلمان بکھر جائیں، ان کو اس کی کچھ پروا نہیں۔ انھیں اگر کچھ فکر ہے تو مسلمانوں کو وہابی بنانے کی، یہی تو یہودی چال ہے کہ مسلمانوں کو بد عقیدہ بنا دو ، پھر جب ان کے اندر صحیح ایمانی روح باقی نہیں رہے گی تو انھیں شکست دینا آسان ہوگا۔ لڑاؤ اور حکومت کرو کی سازش اور پالیسی سعودی حکومت کے ذریعہ پوری دنیا میں کارفرما ہے۔ آخر کتنی آبادیاں ہیں جہاں کل ایک بھی وہابی نہیں تھا، وہاں سعودی ایجنٹوں نے پیسے دے دے کر مسجد و مدرسہ بنوا دیا اور اپنا ایک مولوی رکھ دیا جس کی وجہ سے پوری آبادی افتراق و شقاق کا شکار ہو گئی، کل جہاں مسلمان متحد تھا، آج وہاں لڑائیاں ہو رہی ہیں، آئے دن ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیان اور تقریریں ہو رہی ہیں ، مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں ، اپنے مال برباد کر رہے ہیں اور کھلے غیر مسلموں کو ہنسنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے۔ جہاں مسلمان متحد ہیں ، ان کی مساجد و مدارس بھی پہلے سے قائم ہیں، وہاں ایسی حرکتیں کرنا اور لڑانا یہودی سازش نہیں تو کیا ہے؟بیت المقدس میں فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ یہودی ظالم کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں اور پورا عالمِ اسلام چیخ رہا ہے۔ لیکن امریکہ کی آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اسے فکر ہے تو عراق اور افغانستان کو کھانے کی، اور ساتھ ہی اس کا پٹھو سعودی عرب بھی چپ سادھے ہوئے ہے، جب کہ یہی سعودی ہیں کہ ان کو کویت بچانے کی بڑی فکر تھی،لیکن آج بیت المقدس کے لیے ان کے پاس کوئی فارمولہ نہیں، اس کے لیے” یا امریکہ المدد“ کی ندا نہیں لگائی جا رہی ہے۔ آج پٹرول اور ڈالر کے بل بوتے پر اخبارات نکالے جا رہے ہیں اور جو نکل رہے ہیں انھیں خریداجا رہا ہے ، تاکہ یک طرفہ کارروائی کی جائے، صحیح العقیدہ مسلمانوں کو نظر انداز کیا جائے، بد عقیدگی کا خوب پرچار کیا جائے۔ ان حالات میں اس حسینی کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے جس نے کربلا کی سر زمین پر حق و باطل کا فیصلہ کر دیا تھا۔ وہاں بھی سامنے کلمہ گو اور پیچھے سے یہودی تھے، یہاں بھی سامنے خدمتِ حرمین کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کلمہ گو ہیں اور یہودی پیچھے۔ یہودی ہوں یا عیسائی، یا لا مذہب مغربی یہ سب مسلمانوں کے دشمن ہیں، لیکن حیرت ہے کہ یہ سب سعودی نجدیوں کے دوست، خیر خواہ اور حمایتی ہیں، انھیں سے مالی مدد لے کر اسلحے اور فوج کی مدد کا احسان رکھتے ہیں اور دھیرے دھیرے اپنی طاقت کو آگے بڑھا کر مکمل قبضے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ مگر امریکہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے اور ان کو اپنی قدرتی دولت سے پالنے والے نجدی محض اپنی حکومت کی فکر میں ہیں کہ وہ باقی رہے اور بس۔ یہودی حکومت اسرائیل بھی انھیں کی شہ پر پروان چڑھ رہی ہے، جبھی تو اس کے خلاف نہ امریکہ کچھ کر رہا ہے، نہ برطانیہ اور نہ ہی سعودی نجدی۔ حیرت اورافسوس ہے کہ کل جو مسلمان صدام حسین زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں تھے، آج وہ سقوطِ بغداد اور شکستِ صدام کے بعد خاموش ہیں۔اس سے ہمیں اپنی ایمانی حرارت کا اندازہ لگانا چاہیے کہ وہ کس قدر سرد پڑ گئی ہے، آج کی ہماری خاموشی ہی امریکہ کو پوری دنیا پر چودھراہٹ کا حوصلہ دے رہی ہے۔ ایک طرف تو امریکہ نے عراق پر دو بار حملہ کر کے اس کو تہس نہس کیا اور پھر اس پر قبضہ کر کے بیٹھ گیا۔ دوسرے، عراق کے بعد افغانستان کی جانب قدم بڑھایا اور اس کا بھی تیا پانچا کر ڈالا اور آج وہاں بھی امریکہ ہی قابض ہے۔دہشت گردی ختم کرنے کا نعرہ لگا کر امریکہ پوری دنیا کو خوف زدہ کیے ہوئے ہے اور اپنی چودھراہٹ کا سکہ قائم کرنا چاہتا ہےجب کہ وہ خود دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے ، بس مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جب کہ یہ دھماکہ کرنے والے کون ہیں، کیوں ایسا کرتے ہیں، اس کا آج تک صحیح پتہ نہیں چلایا جا سکا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خود دشمن کی سازش ہو کہ اپنا کچھ نقصان سہ کر مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ امریکہ کے پاس صحیح جانچ، صداقت اور شہادت نام کی کوئی چیز نہیں، قیاسات پر ساری عمارت کھڑی کی جاتی ہے اور خیالات کو حقیقت کا جامہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس وقت بعض دانش ور یہ کہہ رہے ہیں کہ صدام حسین سے بڑا مجرم تو بش ہے جس نے بغیر تحقیق و ثبوت عراق پر حملہ کر کے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔لہٰذا بش پر اس سے بڑا مقدمہ ہونا چاہیے اور لاکھوں انسانوں کے قاتل کی جو سزا ہے وہ بش کو دی جانی چاہیے۔ لیکن اس طرح کے صحیح و درست مطالبات کو میڈیا والے کسی کونے گوشے میں دےڈالتے ہیں۔ جب کہ صدام حسین کا مجرم ہونا تو قابلِ تحقیق ہے، لیکن بش کا مجرم ہونا تو طشت از بام ہو چکا ہے۔ پوری دنیا اس کی گواہ ہے، اور آج ہر طرف انصاف پسند انسان اس پر لعنت بھیج رہے ہیں، اس لیے اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر بش کے خلاف احتجاج کیا جائے، اس پر عالمی عدالت میں مقدمے کی مانگ کی جائے، اور اس کو سزاے قتل دینے کا مطالبہ کیا جائے اور ہر طرف امریکہ اور جارج بش کے خلاف احتجاجات ہوں اور تمام مسلم ممالک پر وہاں کے عوام زور ڈالیں کہ امریکہ کا اس وقت تک مکمل بائیکاٹ کیا جائے، جب تک کہ امریکہ، عراق و افغانستان کواپنے ظالمانہ چنگل سے آزاد نہ کرے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: »افضل الجھادِ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ.«ظالم بادشاہ کے پاس حق بات کا کہنا افضل جہاد ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے ظالم حکومت امریکہ کی ہے اور سب سے بڑا ظالم بش ہے جو ظالم ابن ظالم بھی ہے۔ آج ضرورت ہے حسینی کردار کی ، اعلاے کلمۂ حق کے جذبۂ صادق کی۔ افسوس کہ زلزلے، طوفان، سیلاب وغیرہ آفاتِ سماوی ہمیں بیدار کرنے کے لیے بار بار ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں، لیکن ہم ہیں کہ بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اگر اس بار بار کی وارننگ کے بعد بھی ہم بیدار نہ ہوئے تو اب قیامت کا طوفان اور زلزلۃ الساعۃ ہی ہماری آنکھیں کھولے گا۔ لیکن اس وقت طوفان سر سے گزر چکا ہوگا۔ ایک طرف تو آج ہمیں اعلاے حق کی ضرورت ہے، دوسری طرف ہمیں اپنے اعمال و کردار میں سدھار لانا بھی ضروری ہے۔ مسلمان جن خرافات و بدعات کا شکار ہیں، ان سے جلد سے جلد توبہ و اجتناب بھی کرنا ناگزیر ہے۔ ماہِ محرم الحرام کو لے لیجیے، اس پاک مہینے میں کتنی ناپاک حرکتیں ہم کرتے ہیں، ان کا شمار کرنا بھی امرِ دشوار ہے۔ امام عالی مقام حسین پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اعوان و انصار اور دیگر اہلِ بیتِ اطہار نے گلشنِ اسلام کو لہلہانے اور دینِ مصطفیٰ کو چمکانے کے لیے جان مال کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا اور ہم ہیں کہ ان کے غم میں نالہ و شیون کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ خرافات و بدعات میں مشغول ہو کر اسلام کو بھی بد نام کر رہے ہیں اور اہل اسلام کو بھی۔ لہٰذا ماہِ محرم الحرام شریف کیا ہے؟ یومِ عاشورا کی کیا اہمیت ہے اور حضرت امام عالی مقام نے ہمیں کیا درسِ عمل دیا ہے، ان گوشوں کو اجاگر کرنے اور پیغامِ حق کو عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، امید کہ قارئینِ کرام اور درد مندانِ اسلام و عقیدت مندانِ امام عالی مقام ان معروضات پر غور کریں گے اور خود بھی عمل کریں گے اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی عمل کی دعوت دیں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیقِ عمل عطا فرمائے ، آمین۔ ماہِ محرم ... محرم کا مہینہ بڑا مبارک اور محترم مہینہ ہے۔ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ اپنے اندر بڑی عظیم یادگاریں رکھتا ہے ۔ اس کی دسویں تاریخ، جس کو یومِ عاشورا کہتے ہیں، بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ محرم ہی کی دسویں تاریخ جمعہ کے دن حضرت نوح علیہ السلام اپنی کشتی سے زمین پر تشریف لائے اور اسی دن دسویں تاریخ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی جب کہ فرعون غرق ہو گیا، اسی دسویں محرم اور جمعہ کے دن قیامت آنے والی ہے ۔ اکسٹھ ہجری دسویں محرم جمعہ کے دن ہی شہزادۂ رسول جگر گوشۂ بتول اور گلشن اسلام کے مہکتے پھول حضرت سیدنا امام عالی مقام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کربلا کی تپتی ہوئی سر زمین پر شہادت کا جام پیا ۔ اسی لیے جب ہر سال یہ تاریخ آتی ہے ، محبانِ اہلِ بیت اس واقعہ فاجعہ کو یاد کرکے غم و اندوہ میں ڈوب جاتے ہیں ۔طبعی طور سے اگر واقعاتِ کربلا سن کر یا یاد کر کے غم تازہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ قصداًسوگ منانا، ماتم و نوحہ کی فضا قائم کرنا اور سینہ کوبی کرنا کسی طرح شرعاً جائز نہیں۔ ہو سکے تو نویں دسویں دن روزہ رکھ کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں ، صدقہ و خیرات کریں ، شہداے کربلا و دیگر صحابہ اہل بیت کو ایصالِ ثواب کریں ۔ اہل بیت کے فضائل کی مجالس قائم کریں اور سچے واقعاتِ کربلا بیان کریں اور سنیں۔ اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ کے خلیفہ و تلمیذ صدر الشریعہ بدر الطریقہ فقیہ اعظم حضرت مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی قادری رضوی قدس سرہ مصنف بہار شریعت ارشاد فرماتے ہیں: ’’ماہ محرم میں دس دنوں تک خصوصاً دسویں کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر شہدا ے کربلا کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں کوئی شربت پر فاتحہ دلاتا ہے، کوئی شیرینی پر فاتحہ ، کوئی مٹھائی پر ، کوئی روٹی گوشت پر ۔ جس پر چاہو فاتحہ دلاؤ جائز ہے ، ان کو جس طرح ایصال ثواب کرو مندوب(پسندیدہ) ہے۔ بہت سے (لوگ)پانی اور شربت کی سبیل لگاتے ہیں ، جاڑوں میںچاے پلاتے ہیں ، کوئی کھچڑا پکواتا ہے، جو کار خیر کرو اور ثواب پہنچاؤ، ہو سکتا ہے۔ ان سب کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ بعض جاہلوں میں مشہور ہے کہ محرم میں سواے شہداے کربلا کے دوسروں کی فاتحہ نہ دلائی جائے ، ان کا یہ خیال غلط ہے ، جس طرح دوسرے دنوں میں سب کی فاتحہ ہو سکتی ہے ، ان دنوں میں بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ:۱۶، ص:۲۴۴، ۲۴۵، فاروقیہ بک ڈپو، دہلی) مجلس ذ کر شہادت ... حضرت صدر الشریعہ اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان ، ماہ محرم شریف کی مجالس کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’عشرۂ محرم میں مجلس منعقد کرنا اور واقعات کربلا بیان کرنا جائز ہے، جب کہ روایات، صحیح بیان کی جائیں۔ ان واقعات میں صبر و تحمل، رضا و تسلیم کا مکمل درس ہے اور پابندی احکامِ شریعت و اتباعِ سنت کا زبردست عملی ثبوت ہے کہ دینِ حق کی حفاظت میں تمام اعزہ و اقربا و رفقا اور خود اپنے کو راہِ خدا میں قربان کیا اور جزع و فزع کا نام بھی نہ آنے دیا ۔ مگر اس مجلس میں صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بھی ذکر خیر ہوجانا چاہیے تاکہ اہلِ سنت اور شیعوں کی مجالس میں فرق و امتیاز رہے۔‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ :۱۶، ص:۲۴۷) تعزیہ داری... دسویں محرم میں بر صغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش میں یاد گار امام کے نام پر تعزیہ داری کی جو رسم جاری ہے وہ انتہائی غلط شکل اختیار کر گئی ہے ۔ مقامات مقدسہ اور روضۂ امام عالی مقام کا محض صحیح نقشہ بنوا کر بطور یاد گار رکھا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔ جیسے کہ کعبۂ معظمہ اور روضۂ رسول کے نقشے ہم بناتے اور گھروں میں تبرکاً رکھتے ہیں۔ مگر افسوس! عقیدت کے غلو نے تعزیہ کو مایۂ بدعات بنا کر رکھ دیا ۔ حتی کہ اب تو روضۂ امام کا صحیح نقشہ بھی باقی نہ رہا ۔ طرح طرح کی نئی تراش خراش نے تعزیہ کو ایک نئے نقشے میں تبدیل کر دیا ہے ، لہذا اب حد سے تجاوز کی بنیاد پر اس کو کسی طرح جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں جو بے راہ رویاں در آئی ہیں ان کو حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلے میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے اور ان کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضۂ پاک کی شبیہ کہتے ہیں۔ کہیں تخت بنائے جاتے ہیں، کہیں ضریح(قبر) بنتی ہے اور علم اور شدے نکالے جاتے ہیں۔ ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں۔ تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے ۔ آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑے ہوتے ہیں ، کبھی درخت کی شاخیں کاٹی جاتی ہیں، کہیں چبوترے کھدوا دیے جاتے ہیں۔ تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں ، سونے چاندی کے علم چڑھائے جاتے ہیں ، ہار پھول ناریل چڑھاتے ہیں ، وہاں جوتے پہن کر جانے کو گناہ جانتے ہیں ، بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت نہیں کرتے ۔ چھتری لگانے کو بہت برا جانتے ہیں ۔ تعزیوں کے اندر دو مصنوعی قبریں بناتے ہیں ، ایک پر سبز غلاف اور دوسرے پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں، سبز غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر اورسرخ غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر یا شبیہ قبر بتاتے ہیں اور وہاں شربت، مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں۔یہ تصور کر کے کہ حضرت امام عالی مقام کے روضہ اور مواجہہ اقدس میں فاتحہ دلا رہے ہیں، پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں۔ گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کر آئے ، پھر تیجہ، دسواں، چالیسواں سب کچھ کیا جاتا ہے اور ہر ایک خرافات پر مشتمل ہوتا ہے۔ حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہندی نکالتے ہیں گویا ان کی شادی ہو رہی ہے اور مہندی رچائی جائے گی۔ اور اس تعزیہ داری کے سلسلے میں کوئی پیک بنتا ہے جس کے کمر سے گھنگھرو بندھے ہوتے ہیں گویا حضرت امام عالی مقام کا قاصد اور ہر کارہ ہے جو یہاں سے خط لے کر ابن زیاد یا یزید کے پاس جائے گا ، وہ ہرکاروں کی طرح بھاگا بھاگا پھرتا ہے۔ کسی بچہ کو فقیر بنایا جاتا ہے، اس کے گلے میں جھولی ڈالتے اور گھر گھر اس سے بھیک منگواتے ہیں۔ کہیں سقہ(بھشتی) بنایا جاتا ہے ۔ چھوٹی سی مشک اس کے کندھے سے لٹکتی ہے ، گویا یہ دریاے فرات سے پانی بھر کر لائے گا ۔ کسی علم پر مشک لٹکتی ہے اوراس میں تیر لگا ہوتا ہے ۔ یہ حضرت عباس علم بردار ہیں کہ فرات سے پانی لا رہے ہیں اور یزیدیوں نے مشک کو تیر سے چھید دیا ہے۔ اس قسم کی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں ، یہ سب لغو و خرافات ہیں۔ ان سے ہرگز سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش نہیں ہوں گے۔ یہ تم خود غور کرو کہ انھوں نے احیاے دین و سنت کے لیے یہ زبردست قربانیاں دیں اور تم نے معاذ اللہ اس کو بدعات کا ذریعہ بنا لیا ۔ بعض جگہ اس تعزیہ داری کے سلسلے میں براق بنایا جاتا ہے ، جو عجیب قسم کا مجسمہ ہوتا ہے کہ کچھ حصہ انسانی شکل کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ جانور کا سا، شاید یہ حضرت امام عالی مقام کی سواری کے لیے ایک جانور ہوگا۔ کہیں دلدل بنتا ہے کہیں بڑی بڑی قبریں بنتی ہیں ۔ بعض جگہ آدمی ریچھ ، بندر، لنگور بنتے ہیں اور کودتے پھرتے ہیں ، جن کو اسلام تو اسلام انسانی تہذیب بھی جائز نہیں رکھتی، ایسی بری حرکت کو اسلام ہرگز جائز نہیں رکھتا۔ افسوس! کہ محبت اہلِ بیت کرام کا دعویٰ اور ایسی بے جا حرکتیں۔ یہ واقعہ تمہارے لیے نصیحت تھا اور تم نے اس کو کھیل تماشا بنا لیا ۔ اسی سلسلے میں نوحہ و ماتم بھی ہوتا ہے اور سینہ کوبی ہوتی ہے ۔ اتنے زور زور سے سینہ کوٹتے ہیں کہ ورم ہو جاتا ہے ، سینہ سرخ ہو جاتا ہے بلکہ بعض جگہ زنجیروں اور چھریوں سے ماتم کرتے ہیں کہ سینے سے خون بہنے لگتا ہے۔ تعزیوں کے پاس مرثیہ پڑھا جاتا ہے اور تعزیہ جب گشت کو نکلتا ہے اس وقت بھی اس کے آگے مرثیہ پڑھا جاتا ہے ۔ مرثیہ میں غلط واقعات نظم کیے جاتے ہیں ۔ اہل بیت کرام کی بے حرمتی اور بے صبری اور جزع فزع کا ذکر کیا جاتا ہے اور چوں کہ اکثر مرثیہ رافضیوں کے ہی ہیں ، بعض میں تبرا بھی ہوتا ہے ، مگر اسے رو میں سنی بھی بے تکلف پڑھ جاتے ہیں اور انھیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ یہ سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں۔ اظہارِ غم کے لیے سر کے بال بکھیرتے ہیں ، کپڑے پھاڑتے اور سر پرخاک ڈالتے اور بھوسا اڑاتے ہیں۔ یہ بھی ناجائز اور جاہلیت کے کام ہیں ۔ ان سے بچنا بہت ضروری ہے ۔ احادیث میں ان سب کی ممانعت آئی ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے امور سے پرہیز کریں اور ایسے کام کریں جن سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوں کہ یہی نجات کا راستہ ہے۔ تعزیوں اور علم کے ساتھ بعض لوگ لنگر لٹاتے ہیں۔ یعنی روٹیاں یا بسکٹ اور کوئی چیز اونچی جگہ سے پھینکتےہیں ۔ یہ ناجائز ہے کہ رزق کی سخت بے حرمتی ہوتی ہے ۔ یہ چیزیں کبھی نالیوں میں بھی گرتی ہیں اور اکثر لوٹنے والوں کے پاؤں کے نیچے بھی آتی ہیں اور بہت کچھ کچل کر ضائع ہوتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں انسانیت کے طریق پر فقرا کو تقسیم کی جائیں تو بے حرمتی بھی نہ ہو اور جن کو دیا جائے انھیں فائدہ بھی پہنچے مگر وہ لوگ اس طرح لٹانے ہی کواپنی نیک نامی تصور کرتے ہیں۔(بہارِ شریعت،حصہ:۱۶، ص:۲۴۷- ۲۴۹) دیکھا آپ نے بارگاہِ رضا کے اس پروردہ اور فیض یافتہ نے کیسا بے باک قلم چلایا اور دو ٹوک فیصلہ سنایا ہے ۔ نہ اپنوں کی پروا کی ہے نہ غیروں کا خوف کھایا ہے ۔ سچے عالمِ دین کا یہی شیوہ ہوتا ہے ۔ اب ذرا مجدد ملت مصلح امت سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ العزیز کے ارشادات و فتاویٰ بھی تعزیہ و متعلقات تعزیہ کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ وہ درد مند ملت ، قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کیااقدام فرماتے ہیں اور بدعات و خرافات پر کیسی کاری ضرب لگاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: »تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضہ پر نور حضور شہزادۂ گل گوں قبا حسین شہید ظلم و جفا صلوٰت اللہ تعالیٰ و سلامہ علی جدہ الکریم و علیہ کی صحیح نقل بنا کر بہ نیت تبرک ، مکان میں رکھنا ، اس میں شرعاً کوئی حرج نہ تھا کہ تصویر، مکانات وغیرہ ہر غیر جان دار کی بنانا رکھنا سب جائز ۔ اور ایسی چیزیں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہو کر عظمت پیدا کریں ان کی امثال(شکلیں) بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعاً جائز جیسے صدہا سال سے طبقۃً بعد طبقۃٍ (یکے بعد دیگرے) ائمۂ دین و علماے معتمدین نعلین شریف حضور سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرماتے ہیں ، جسے اشتباہ(شبہہ) ہو امام علامہ تلمسانی کی فتح المتعال وغیرہ مطالعہ کرے۔ مگر جہال بے خرد( بے عقل جاہلوں) نے اس اصل جائز کو بالکل نیست و نابود کر کے صدہا خرافات تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الامان الامان کی صدائیں آئیں۔ اول تو نقش تعزیہ میں روضۂ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی ۔ ہر جگہ نئی تراش ، نئی گڑھت، جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت ، پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق کسی میں اور بے ہودہ طم طراق (دھوم دھام)پھر کوچہ بہ کوچہ، دشت بہ دشت ،اشاعت غم کے لیے ان کا گشت اور ان کے گرد سینہ زنی اور ماتم سازی کی شور افگنی۔ کوئی ان تصویروں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے ، کوئی مشغولِ طواف، کوئی سجدے میں گرا ہے، کوئی ان مایۂ بدعات(سامان بدعات) کو معاذ اللہ جلوہ گاہ حضرت امام علی جدہ و علیہ الصلاۃ والسلام سمجھ کر اس ابرک پنّی سے مرادیں مانگتا ، منتیں مانتا ہے، حاجت روا جانتا ہے ۔ پھر باقی، تماشے، باجے، تاشے، مردوں عورتوں کا راتوں کو میل (اختلاط) اور طرح طرح کے بے ہودہ کھیل ان سب پر طرہ ہیں ۔ غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعتِ پاک تک نہایت بابرکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا۔ ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا۔ پھر وبالِ ابتداع(بدعت نکالنے کے وبال) کا وہ جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بطور خیرات نہ رکھا ۔ ریا و تفاخرعلانیہ ہوتا ہے ، پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کو دیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے ، روٹیاں زمین پر گر رہی ہیں ، رزق الٰہی کی بے ادبی ہوتی ہے ، پیسے دیتے ہیں، گر کر غائب ہوتے ہیں، مال کی اضاعت(بربادی) ہو رہی ہے مگر نام تو ہوگیا کہ فلاں صاحب لنگر لٹا رہے ہیں۔ اب بہار عشرہ کے پھول کھلے ، تاشے باجے بجتے چلے ، طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم ، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم ، شہوانی میلوں کی پوری رسوم، جشن یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصوریںبعینہا حضرات شہدا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں۔ (پھر) کچھ نوچ اتار، باقی توڑ تاڑ دفن کر دیے ۔ یہ ہر سال اضاعت مال(مال ضائع کرنے) کے جرم و وبال جداگانہ رہے۔ اللہ تعالیٰ صدقہ، حضرات شہداے کربلا علیہم الرضوان و الثنا کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بری باتوں سے توبہ عطا فرمائے۔ آمین۔ اب کہ تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ(ناپسندیدہ طریقہ) کا نام ہے ، قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔ہاں اگر اہلِ اسلام صرف جائز طور پر حضرات شہداے کرام علیہم الرضوان التام کی ارواحِ طیبہ کو ایصالِ ثواب کی سعادت پر اقتصار (اکتفا)کرتے تو کس قدر خوب و محبوب تھا۔ اور اگر نظرشوق و محبت میں نقل روضۂ انور کی بھی حاجت تھی تو اسی قدر جائز پر قناعت کرتے کہ صحیح نقل کو بغرض تبرک و زیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعتِ غم و تصنعِ الم و نوحہ زنی و ماتم کنی و دیگر امور شنیعہ و بدعات قبیحہ سے بچتے ۔ اس قدر میں بھی کوئی حرج نہ تھا ۔ مگر اب ایسی نقل میں بھی اہلِ بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہل اعتقاد(عقیدت مندوں) کے لیے ابتلاے بدعات (بدعات میںمبتلا ہونے)کا اندیشہ ہے اور حدیث میں آیا:’’اَتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّہَمِ۔‘‘(تہمت کی جگہوں سے بچو)اور وارد ہوا:»مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللھِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یَقِفْ مَوَاقِفَ التُّہَمْ«(جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ تہمت کی جگہوں پر کھڑا بھی نہ ہو۔)لہذا روضۂ اقدس حضور سید الشہدا کی ایسی تصویر بھی نہ بنائے بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بہ صد تبرک بے آمیزش منہیات (ممنوع کاموں کی آمیزش کے بغیر) اپنے پاس رکھے ، جس طرح حرمین محترمین سے کعبۂ معظمہ اور روضۂ عالیہ کے نقشے آتے ہیں، یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پر نور کے نقشے لکھے ہیں۔«(فتاویٰ رضویہ،ج:۹، ص:۳۵، ۳۶-رضا اکیڈمی، ممبئی) ماہ محرم خاص کر دسویں محرم میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام احمد رضا قدس سرہ اپنے فتاویٰ میں ارشاد فرماتے ہیں: مسلمانوں کو ان ایام میں صدقات و خیرات، مبرات و حسنات کی کثرت چاہیے۔ خصوصاً روزے خصوصاً روز عاشورا کا کہ سال بھر کے روزوں کا ثواب اور ایک سالِ گزشتہ کے گناہوں کی معافی ہے ۔کما ثبت فی الحدیث الصحیح۔(جیسا کہ حدیث صحیح سے ثابت ہے) اور بہتر یہ ہے کہ نویں دسویں دونوں کا روزہ رکھے۔ یہ محرم الحرام کے مبارک ماہ میں بدعات و خرافات کے خلاف امام احمد رضا قادری محدث بریلوی کا قلمی جہاد ہے۔ اسے وہ لوگ بھی پڑھیں اور حقیقت کا اعتراف کریں جو امام احمد رضا قدس سرہ کے بارے میں غلط فہمیوں کے شکار ہیں اور اس مجدد بر حق کے خلاف غلط پروپیگنڈے بھی کرتے پھر تے ہیں۔ کیسی سچی، سیدھی باتیں اس امام بر حق نے کہی ہیں ، ان کو بار بار پڑھنا چاہیے اور اس کے مطابق عمل بھی کرنا چاہیے۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔