Jump to content

Meqas E Hanfiyat-Hazir O Nazir Per Aiteraz


T.T

تجویز کردہ جواب

قرآن مجید میں اللہ

(azw) ارشاد فرماتا ہے کہ :

 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙالاحزاب45﴾

اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا

 

شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے '' اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ الْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ '' یعنی شہود اور شہادت کے معنٰی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ اور گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے ۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عالَم کی طرف مبعوث ہیں ، آپ کی رسالت عامّہ ہے جیسا کہ سورۂ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری خَلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت ، ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔

۸۹

اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب تمہیں ان سب پر شاہد بناکر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو

 

حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا۔ المصباح المنیر میں ہے۔ حاضر حضرۃ مجلس القاضی وحضر الغالب حضور اقدم من غیبتہ۔ منتی الارب میں ہے حاضر حاضر شومذہ۔

 

ناظر کے چند معنے ہیں۔ دیکھنے والا، آنکھ کا تل، نظر، ناک کی رگ، آنکھ کا پانی۔

 

المصباح المنیر میں ہے۔ والناظر السواد الا صغر من العین الذی یبصربہ الانسان شخصہ۔

 

قاموس الغات میں ہے۔ والناظر السواد فی العین اوالبصر بنفسہ و عرق فی الانف وفیہ ماء البصر۔

 

مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں۔ الناظر فی المقلتہ السواد لا صغر الذی فیہ الماء العین۔

 

 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئْنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿النساء 41﴾

تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں

 

 

اَلَمْ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیۡلِ (الفیل 1)

اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا

یہ واقعہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کا ہے لیکن اللہ پاک فرما رہا ہے "اے محبوب تم نے نہ دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ اس سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں

 

 

 

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیۡنَ مِنْ اَنۡفُسِہِمْ (الاحزاب 6)

یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے

مومنوں اس آیت مبارک میں مومنین کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے قرب اور نزدیکی کا بیان ہے کہ جس سے زیادہ قرب و نزدیکی نہیں ہو سکتی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے اتنے قریب اور نزدیک ہیں تو پھر کسی مومن کو ایسی قریب و نزدیک سرکار کے حاضر و ناظر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟

 

 

ویکون الرسول علیکم شھیدا (پارہ ۲ البقرہ ۳۴۱)

: اور یہ رسول (ﷺ ) تمہارے گواہ (اور تم پر حاضر وناظر ہیں)۔۔

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللھ عنھ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ھل ترون قبلتی ھہنا واللہ ما یخفی علی رکوع کم ولا خشوع کم وانی لا راکم وراء ظھری(رواہ البخاری ۔ص۲۰۱)

یعنی تم یہ سمجھتے ہو کہ میرا رخ ٓ قبلے کی طرف ہے ۔اللہ کی قسم نہ تمہارا رکوع مجھ پر مخفی ہے اور نہ تمہارا خشوع۔(جو دل کی کیفیت ہے اور سینہ کا راز) مجھ سے پوشیدہ ہے اور بے شک میں تمہیں ُٓ اپنے ُٰپیٹھ پیچھے دیکھتا ہوں۔

 

 

حضرت عقبہ رضی اللھ عنھ بن عامر سے روایت ہے کہ حبیب پاکﷺ فرماتے ہیں ان موعدکم الحوض وانی لا نظرالیہ وانا فی مقامی ھذا) ۔ترجمہ:تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے اور جنت ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے تو جس ذات اقدس کی نظر ساتوں آسمانوں کے پار جاتی ہے تو زمین کا کونسا گوشہ ان سے مخفی ہے۔؟

 

 

 

حضرت اسامہ بن زید رضی اللھ عنھ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضورﷺ مدینہ پاک کی پہاڑیوں میں سے کسی پہاڑی پر چڑھے پھر فرمایا:”جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ “عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللھ (صلی اللھ علیھ وسلم) ۔فرمایا،”میں تمہارے گھروں میں بارش کی طرح فتنے گرتے دیکھتا ہوں۔“(رواہ البخاری ومسلم)۔

 

 

تفسیر روح البیان سے

ومعنی شھادۃ الرسول علیھم الملاعۃ علی رتبۃ کل متدین بدینۃ وحقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمالھم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیر ذلک بنورالحق۔

یعنی مسلمانوں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے یہ معنی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہر دین دار کے دین کے مرتبوں پر اور اپنے دین میں سے جس حقیقت پر وہ ہے اس پر اور وہ حجاب جس کے سبب دین کے کمال سے محجوب ہو گیا ہے سب پر مطلع اور خبردار ہیں تو وہ امت کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقتوں، ان کے اعمال، ان کی نیکیوں، برائیوں اور ان کے اخلاص و نفاق سب کو نور حق کے ذریعہ جانتے پہچانتے ہیں۔

)

Link to comment
Share on other sites

  • 1 year later...

post-2742-0-67767500-1311357257.jpg

 

مجھے تو اس بات کی کوئی سمجھ نہیں کہ ا سکی اس حدیث سے اچھروی صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زوجین کے جفت ہوتے وقت حاضر و ناظر ہونے کا استدلال کیسے کر لیا؟ حالانکہ حدیث کے اندر ایسے کوئی الفاظ نہیں جس سے اچھروی صاحب کا یہ استدلال ثابت ہو سکے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہ سے پوچھا کہ کیا انھوں نے رات کو بیوی سے مقاربت کی یے؟تو انھوں نے جواب دیا جی ہاں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی۔اب کن الفاظ سے اچھروی صاحب اپنا عقیدہ اخذ کر رہے ہیں۔؟

اچھروی صاحب اس حدیث کے حوالے سے ایک ایسی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں جس کا حدیث کے الفاظ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ بڑی جرات ہے ان کی

Link to comment
Share on other sites

RD1.jpg

 

RD 2.jpg

 

 

وہابیوں ذرا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی کوہی فتویٰ لگاؤ

آخر ان کا یہ دیکھنا تمہارے نزدیک کیا حیثیت رکھتا ہے؟؟؟

اور صاحب تفسیر مظہری کے بارے میں بھی کچھ لب کشاہی کی جسارت کرو۔

بلکہ صرف انہی کے بارے میں نہیں غالباروح المعانی ،تفسیر خازن و بغوی میں بھی یہی تفسیر موجود ہے ۔ان سب کے بارے میں بھی فتویٰ جاری کرو۔

Link to comment
Share on other sites

ایڈمن سے گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو کلوز کر دیں کیوں نہ رضاخانی نے اقرار کر لیا ہے کہ یہ گندی بات عمر اچھروی نے لکھی ہے اور ان کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضور ﷺ ل................ اور میاں بیوی کی ہمبستری کا مشاہدہ کرتے یہں۔

جب رضاخانی خود مان رہے ہیں تو اس تھڑیڈ کو مذید اگے اون نہیں رکھنا چاہئے

Edited by Mughal...
زبان سنبھال کر
Link to comment
Share on other sites

ديوبندي تلوار يے بتاؤ كے جب مردوں كو اعمال ديكهائي ديے جاتيے هيں ان کے اقارب كے تو حضور صلى الله عليه وسلم سے كيسا پرده؟

 

*أخرج أحمد بن حنبل في مسنده - (ج 25 / ص 268) عَنْ أَنَسِ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنْ الْأَمْوَاتِ فَإِنْ كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِهِ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالُوا: اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُمْ حَتَّى تَهْدِيَهُمْ كَمَا هَدَيْتَنَا.

حسن لغيره

*وأخرجه الطيالسي في مسنده - (ج 5 / ص 250) عن جابر بن عبد الله ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « إِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى عََشَائِرِكُمْ وَأَقْرِبَائِكُمْ فِي قُبُورِهِمْ ، فِإْن كَانَ خَيْرًا اسْتَبْشَرُوا بِه ، وَإِنْ كَانَ غَيْر ذَلِكَ قَالُوا : اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُمْ أَنْ يَعْمَلُوا بِطَاعَتِكَ ».

حسن لغيره

*أخرج البخاري في الكنى - (ج 1 / ص 8) وابن أبي حاتم في الجرح والتعديل - (ج 9 / ص 336) الحاكم في المستدرك - (ج 18 / ص 219) والبيهقي في شعب الإيمان - (ج 21 / ص 197) وأبو الشيخ في أمثال الحديث - (ج 1 / ص 456) والدولابي في الكنى - (ج 2 / ص 395) وابن أبي الدنيا في المنامات - (ج 1 / ص 3) عن النعمان بن بشير ، رضي الله عنهما يقول وهو على المنبر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ألا إنَّه لم يبق من الدنيا إلا مثل الذباب تمور في جوها ، فَاللهَ اللهَ فِي إِخْوَانِكِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورُ فِإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ.

حسن لغيره

*أخرج الطبراني في مسند الشاميين - (ج 4 / ص 129) و في المعجم الكبير - (ج 4 / ص 176) وابن المبارك في الزهد - (ج 1 / ص 462) وابن أبي الدنيا في ذكر الموت (5/481) وابن حبان في الجروحين - (ج 1 / ص 339) وابن عدي في الكامل - (ج 3 / ص 302) وابن الجوزي في العلل المتناهية - (ج 2 / ص 308) عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ ، أَن ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ إِذَا قُبِضَتْ تَلَقَّاهَا مِنْ أَهْلِ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا تَلْقَوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا ، فَيَقُولُونَ : انْظُرُوا صَاحِبَكُمْ يَسْتَرِيحُ ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي كَرْبٍ شَدِيدٍ ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ : مَاذَا فَعَلَ فُلانٌ ؟ وَمَا فَعَلَتْ فُلانَةُ ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ ؟ فَإِذَا سَأَلُوهُ عَنِ الرَّجُلِ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ ، فَيَقُولُ : أَيْهَاتَ قَدْ مَاتَ ذَاكَ قَبْلِي ، فَيَقُولُونَ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، ذُهِبَتْ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ فَبِئْسَتِ الأُمُّ وَبِئْسَتِ الْمُرَبِّيَةُ ، قَالَ : وَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَى أَقَارِبِكُمْ وَعَشَائِرِكُمْ مِنْ أَهْلِ الآخِرَةِ ، فَإِنْ كَانَ خَيْرًا فَرِحُوا وَاسْتَبْشَرُوا ، وَقَالُوا : اللَّهُمَّ هَذَا فَضْلُكَ وَرَحْمَتُكَ فَأَتْمِمْ نِعْمَتَكَ عَلَيْهِ ، وَأَمِتْهُ عَلَيْهَا وَيُعْرَضُ عَلَيْهِمْ عَمَلُ الْمُسِيءِ ، فَيَقُولُونَ : اللَّهُمَّ أَلْهِمْهُ عَمَلا صَالِحًا تَرْضَى بِهِ عَنْهُ وتُقَرِّبُهُ إِلَيْكَ.

وفي رواية:إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ إِذَا مَاتَ يَتَلَقَّى أَهْلُ الرَّحْمَةِ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ كَمَا يَتَلَقَّوْنَ الْبَشِيرَ فِي الدُّنْيَا ، فَيَقُولُونَ : انْظُرُوا صَاحِبَكُمْ يَسْتَرِيحُ ، فَإِنَّهُ كَانَ فِي كَرْبٍ شَدِيدٍ ، ثُمَّ يَسْأَلُونَهُ : مَا فَعَلَ فُلانٌ ؟ مَا فَعَلَتْ فُلانَةُ ؟ هَلْ تَزَوَّجَتْ ؟ فَإِذَا سَأَلُوهُ عَنْ أَحَدٍ قَدْ مَاتَ قَبْلَهُ ، قَالَ : هَيْهَاتَ قَدْ مَاتَ ذَاكَ قَبْلِي ، فَيَقُولُونَ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، ذَهَبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ فَبِئْسَتِ الأُمُّ وَبِئْسَتِ الْمُرَبِّيَةُ.

الصحيح أنّه موقوف.

*أخرج الطبري في تهذيب الآثار (ج 2 / ص 224) قال: حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عبد الرحمن بن عثمان ، حدثنا عوف الأعرابي ، عن خلاس بن عمرو ، عن أبي هريرة ، قال : « إنّ أعمالكم تعرض على أقربائكم من موتاكم ، فإن رأوا خيرا فرحوا به ، وإن رأوا شرا كرهوه ، وإنهم يستخبرون الميت إذا أتاهم ، من مات بعدهم ، حتى إن الرجل يسأل عن امرأته أتزوجت أم لا ؟ وحتى إن الرجل يسأل عن الرجل ، فإذا قيل : قد مات قال : هيهات ، ذهب ذاك ، فإن لم يحسوه عندهم ، قالوا : إنا لله وإنا إليه راجعون ، ذهب به إلى أمه الهاوية ، فبئس المربية »

اسناده حسن وهو صحيح لغيره

*أخرج ابن أبي الدنيا في المنامات - (ج 1 / ص 4) والدارقطني في الأفراد كما في أطراف الغرائب - (ج 2 / ص 189) و الديلمي في مسند الفردوس - (ج 1 / ص 498) من طريق فليح بن إسماعيل ، ثنا محمد بن جعفر بن أبي كثير ، عن زيد بن أسلم ، عن أبي صالح ، والمقبري ، عن أبي هريرة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « لَا تَفْضَحُوا مَوْتَاكُمْ بِسَيِّئَاتِ أَعْمَالِكُمْ فَإِنَّهَا تُعْرَضُ عَلَى أَوْلِيَائِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ ».

اسناده حسن وهو صحيح لغيره

*أخرج ابن المبارك في الزهد - (ج 4 / ص 355) وأبو داود في الزهد - (ج 1 / ص 227) وابن أبي الدنيا في المنامات - (ج 1 / ص 6) عن أبي الدرداء : ألا إن أعمالكم تعرض على عشائركم ، فَمُسَاؤُون ومسررون ، فأعوذ بالله أن أعمل عملا يخزى به عبد الله بن رواحة . وهو أخوه من أمّه.

اسناده صحيح

*أخرج أحمد بن حنبل في مسنده - (ج 22 / ص 119) وابن أبي الدنيا في المنامات - (ج 1 / ص 10) و الطبراني في المعجم الأوسط - (ج 16 / ص 227) والرافعي في أخبار قزوين - (ج 1 / ص 431) و أبو نعيم في تاريخ أصبهان - (ج 1 / ص 108) من طريقين عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْمَيِّتَ يَعْرِفُ مَنْ يَحْمِلُهُ وَمَنْ يُغَسِّلُهُ وَمَنْ يُدَلِّيهِ فِي قَبْرِهِ.

حسن لغيره

*أخرج البخاري في صحيحه - (ج 5 / ص 113) ومسلم في صحيحه - (ج 14 / ص 31) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ.

*أخرج ابن أبي الدنيا في المنامات - (ج 1 / ص 23) عن مجاهد قال : إنَّ الرَّجل ليُبَشَّرُ بصلاح ولده في قبره من بعده لتقرَّ عينُه.

*أخرج ابن المبارك في الزهد - (ج 1 / ص 465) عن عثمان بن عبد الله بن أوس ، أن سعيد بن جبير ، قال له : « استأذن لي على بنت أخي » - وهي زوجة عثمان ، وهي بنت عمرو بن أوس - فاستأذنت له عليها ، فدخل ، فسلم عليها ، ثم قال لها : « كيف فعل زوجك بك ؟ » قالت : إنه لمحسن فيما استطاع ، ثم التفت إلى عثمان ، وقال : « يا عثمان ، أحسن إليها ، فإنك لا تصنع بها شيئا إلا جاء عمرو بن أوس » ، قال : وهل يأتي الأموات أخبار الأحياء ؟ قال : « نعم ، ما من أحد له حميم إلا يأتيه أخبار أقاربه ، فإن كان خيرا سُرَّ به ، وفرح به ، وهُنِّئ به ، وإن كان شرّا ابتأس بذلك ، وحزن حتى إنهم يسألون عن الرجل قد مات ، فيقال : ألم يأتكم ؟ فيقولون : لقد خولف به إلى أمه الهاوية ».

*أخرج أبو نعيم في حلية الأولياء - (ج 4 / ص 254) و ابن عساكر في تاريخ دمشق - (ج 6 / ص 446) و ابن أبي الدنيا كما في تفسير بن كثير - (ج 6 / ص 326) عن أحمد بن أبي الحواريّ قال: دخل عبّاد الخواص على إبراهيم بن صالح وهو أمير فلسطين فقال: يا شيخ عظني. فقال: بم أعظك أصلحك الله! بلغني أن أعمال الأحياء تعرض على أقاربهم من الموتى، فانظر ماذا يعرض على رسول الله صلى الله عليه وسلم من عملك، قال: فبكى حتى سالت الدموع من لحيته.

*أخرج أبو داود في الزهد - (ج 1 / ص 436) عن بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : لأنا مِن أمواتي أشدّ حياءً مني من أحيائي ، يقول : إنّ عملي يُعرض على الأموات .

اسناده ضعيف

Edited by Abdur Rehman
all members must follow forum guidelines and maintain decency.
Link to comment
Share on other sites

ديوبندي تلوار يے بتاؤ كے جب مردوں كو اعمال ديكهائي ديے جاتيے هيں ان کے اقارب كے تو حضور صلى الله عليه وسلم سے كيسا پرده؟

یہ اعمال دیکھائے جانے کی بات پتہ نہیں اپ نے کہاں سے اخذ کر لی؟ احادیث میں صرف اعمال پیش کئے جانے کی بات ہے۔

اپ کا کیا خیال ہے کہ کسی فوت شدہ شخص کو اس کے شادی شدہ بیٹے یا بیٹی کا عمل زوجیت بھی دیکھایا جاتا ہے؟ کچھ تو خیال کریں۔

اچھروی صاحب نے یہ عقیدہ بیان کیا ہے کہ میاں بیوی کے جفت ہونے کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہوتے ہیں یعنی موجود بھی ہوتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔

اور پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ الگ بات ہے کہ کراما کاتبین کی طرح نظر محفوظ فرما لیں،یعنی حتمی بات پھر بھی بیان نہیں کہ حقیقتا بھی نظر محفوظ فرما لیتے ہیں۔

بہرحال اگر نظر محفوظ فرما لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حاضر تو ہوتے ہیں مگر ناظر نہیں تو اس طرح اچھروی صاحب کی اپنی بات کی ہی نفی ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ وقت جفت حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔

پھر میں پہلے بھی دریافت کر چکا ہوں کہ اچھروی کی پیش کردہ حدیث میں وہ کون سا مقام ہے جہاں سے اچھروی صاحب نے یہ عجیب عقیدہ اخذکیا ہے؟

Link to comment
Share on other sites

پورا تھریڈ پیچھے سے پڑھیں پھر آگئے کچھ لکھیں

 

ہم نہیں چاہتے کہ وہ بحث دوبارہ لکھیں

 

دیو بندی جی حاضر ناظر پر یہ کتاب پڑھیں انشاء اللہ عزوجل کافی افاقہ ہوگا

tasken.jpg

 

 

Link to comment
Share on other sites

جناب دو ہي صورتيں ہيں يا تو ان احاديث كا آ پ انكار كر ليں يا پہر اقرار كرلين

جناب میں عرض اعمال کی حدیثوں کو تسلیم کرتا ہوں مگر جو نتیجہ اپ اس اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ محل نظر ہے۔

اپ نے میرے کسی پوائنٹ کا جواب نہیں دیا، ذرا دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔

یہ اعمال دیکھائے جانے کی بات پتہ نہیں اپ نے کہاں سے اخذ کر لی؟ احادیث میں صرف اعمال پیش کئے جانے کی بات ہے۔

اپ کا کیا خیال ہے کہ کسی فوت شدہ شخص کو اس کے شادی شدہ بیٹے یا بیٹی کا عمل زوجیت بھی دیکھایا جاتا ہے؟ کچھ تو خیال کریں۔

اچھروی صاحب نے یہ عقیدہ بیان کیا ہے کہ میاں بیوی کے جفت ہونے کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہوتے ہیں یعنی موجود بھی ہوتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔

اور پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ الگ بات ہے کہ کراما کاتبین کی طرح نظر محفوظ فرما لیں،یعنی حتمی بات پھر بھی بیان نہیں کہ حقیقتا بھی نظر محفوظ فرما لیتے ہیں۔

بہرحال اگر نظر محفوظ فرما لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حاضر تو ہوتے ہیں مگر ناظر نہیں تو اس طرح اچھروی صاحب کی اپنی بات کی ہی نفی ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ وقت جفت حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔

پھر میں پہلے بھی دریافت کر چکا ہوں کہ اچھروی کی پیش کردہ حدیث میں وہ کون سا مقام ہے جہاں سے اچھروی صاحب نے یہ عجیب عقیدہ اخذکیا ہے؟

پورا تھریڈ پیچھے سے پڑھیں پھر آگئے کچھ لکھیں

جی تھریڈ پڑھ لیا ہے مگر جو پوائنٹ میں اٹھا رہا ہوں اس کا جواب ندارد

Link to comment
Share on other sites

اعرستم اللیلۃ ؟۔

 

کیا تم نے اپنی بیوی سے جماع کیا ؟۔

 

اس حدیث پاک میں آپ کو کوئی معجزہ نظر نہیں آتا ؟

 

یہ ظاھری نگاہ سے دیکھنا نہیں بلکہ نوراللہ سے دیکھنا ھے۔

 

اور نوراللہ سے دیکھنے پر اعتراض اللہ تعالیٰ پر اعتراض ھے۔

 

ظاھری نظر ھٹانے کی بات تو مقیاس میں بھی ھے۔

 

تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ھو :۔

untitled touba.jpg

روایات پر شک مترجم کا ھے ۔ مصنف کا نہیں ھے۔

Link to comment
Share on other sites

پھر میں پہلے بھی دریافت کر چکا ہوں کہ اچھروی کی پیش کردہ حدیث میں وہ کون سا مقام ہے جہاں سے اچھروی صاحب نے یہ عجیب عقیدہ اخذکیا ہے؟

 

جی تھریڈ پڑھ لیا ہے مگر جو پوائنٹ میں اٹھا رہا ہوں اس کا جواب ندارد

 

 

Kisi ke ghar me Inteqaal ki khabar sun kar taziyat ke kailme kahy jaty hain ya mubashirat hony ka sawal kiya jata hai?

Link to comment
Share on other sites

اعرستم اللیلۃ ؟۔

 

کیا تم نے اپنی بیوی سے جماع کیا ؟۔

 

اس حدیث پاک میں آپ کو کوئی معجزہ نظر نہیں آتا ؟

 

 

Kisi ke ghar me Inteqaal ki khabar sun kar taziyat ke kailme kahy jaty hain ya mubashirat hony ka sawal kiya jata hai?

اگر اپ اس حدیث میں بیان کئے گئے واقعہ پر غور کریں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بچہ بیمار تھا وہ سفر پر نکلے واپس ائے تو بچہ فوت ہو چکا تھا لیکن ان کی اہلیہ نے صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فورا ہی ان کو صورت حال سے اگاہ نہیں کیا بلکہ جب وہ کھانے اور مقاربت سے فارغ ہوئے تو ان کو اگاہ کیا۔

اگلی صبح انھوں نے اس سارے واقعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگاہ کیا تو اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا انھوں نے رات کو مقاربت کی ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا جی ہاں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برکت کی دعا دی جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو ایک اوربیٹا عطا فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ سوال جواب کے بعد ان کو دعا دی کیونکہ یہ واقعہ صبر و شکر کی ایک عمدہ مثال تھا۔

اب مجھے بتائیں کہ اس واقعہ سے یہ استدلال کیسےکیا جا سکتا ہے کہ جہاں بھی میاں بیوی مقاربت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر و ناظر ہوتے ہیں؟

رہا سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پوچھنے کا تو عموما جب خاوند کہیں سے واپس اتا ہے تو بیوی سے مقاربت کرتا ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال اس لئے بھی پوچھا کہ اگر ابو طلحہ نے مقاربت کی ہے تو ان برکت کی دعا دی جائے تاکہ اللہ اس فوت شدہ بچے کا نعم البدل ان کو عطا کرے۔

Link to comment
Share on other sites

ایڈمن سے گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو بند کردیں کیونکہ اس تھڑیڈ میں .. مسلسل حضور

(saw) کی توہین کر رہے ہیں

کیا حضور کو حاظر ناظر ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی مردود، گستاخانہ تاویل ملی تمھارے ... مولوی کو۔? اور اُس پر ان چیلوں کو دیکھو کیسا جوش مار رہیں ہیں کہ عمر اچھروی کو بچانے کے لئے حضور

(saw) کو............. کا بھی ناظر مان رہے ہیں اور حاظر بھی

ارے جاہلوں حدیث جس سے اہمقوں نے حضور (saw) کی شان میں یہ توہین کی ہے اُس میں کہاں..................... ہو رہی ہے جس سے تم نے حضور (saw)کی اتنا نیچہ دیکھانے کو کوشش شروع کردی ہے

Edited by Abdur Rehman
all members must follow forum guidelines and maintain decency.
Link to comment
Share on other sites

 

 

جناب تلوار صاحب آپ ہماری تو کسی بات کا جواب نہیں دیتے اور بغلیں بجانا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ اور نہ عقیدہ حاضر ناظر کو سمجھتے ہیں ۔۔۔ویسے بھی دیوبندیوں کبھی بھی سمجھ نہیں سکتے کیوں کے ان کے دماغ پر شیخ نجدی جو سوار ہے نیچے امیج میں ہمارہ عقیدہ لکھا ہے حاظر ناظر کے متعلق اس پڑھو اور اوپر تھریڈ میں جو سوال کیئے گئے ہیں ان کے جواب بھی دو

 

 

105.jpg

 

 

۔اور اس پوسٹ کا بھی جواب دو دیوبندی تلوار صاحب۔۔۔

لنک

Link to comment
Share on other sites

اگر اپ اس حدیث میں بیان کئے گئے واقعہ پر غور کریں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بچہ بیمار تھا وہ سفر پر نکلے واپس ائے تو بچہ فوت ہو چکا تھا لیکن ان کی اہلیہ نے صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فورا ہی ان کو صورت حال سے اگاہ نہیں کیا بلکہ جب وہ کھانے اور مقاربت سے فارغ ہوئے تو ان کو اگاہ کیا۔

اگلی صبح انھوں نے اس سارے واقعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگاہ کیا تو اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا انھوں نے رات کو مقاربت کی ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا جی ہاں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برکت کی دعا دی جس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو ایک اوربیٹا عطا فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ سوال جواب کے بعد ان کو دعا دی کیونکہ یہ واقعہ صبر و شکر کی ایک عمدہ مثال تھا۔

اب مجھے بتائیں کہ اس واقعہ سے یہ استدلال کیسےکیا جا سکتا ہے کہ جہاں بھی میاں بیوی مقاربت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر و ناظر ہوتے ہیں؟

رہا سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال پوچھنے کا تو عموما جب خاوند کہیں سے واپس اتا ہے تو بیوی سے مقاربت کرتا ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال اس لئے بھی پوچھا کہ اگر ابو طلحہ نے مقاربت کی ہے تو ان برکت کی دعا دی جائے تاکہ اللہ اس فوت شدہ بچے کا نعم البدل ان کو عطا کرے۔

جب انھوں نے اپنے بچے کی وفات کی خبر دی تو نبی کریم ﷺ نے آگے اس ان سے مقاریت کا کیوں پوچھا ؟

اس کا مطلب تو یہی ہے نہ کہ آپ ﷺ اس کے تمام اعمال سے باخبر تھے

اور آپ ﷺ کس طرح باخبر ان کے اعمال سے تھے یہ اوپر ہم کئی مرتبہ بتا چکے ہیں

 

یہ ظاھری نگاہ سے دیکھنا نہیں بلکہ نوراللہ سے دیکھنا ھے۔

 

اور نوراللہ سے دیکھنے پر اعتراض اللہ تعالیٰ پر اعتراض ھے۔

 

ظاھری نظر ھٹانے کی بات تو مقیاس میں بھی ھے

Link to comment
Share on other sites

جب انھوں نے اپنے بچے کی وفات کی خبر دی تو نبی کریم ﷺ نے آگے اس ان سے مقاریت کا کیوں پوچھا ؟

اس کا مطلب تو یہی ہے نہ کہ آپ ﷺ اس کے تمام اعمال سے باخبر تھے

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ابو طلحہ سے کہتے کہ رات تم نے مقاربت کی ہے تو پھر بھی کوئی اپ کی بات میں وزن ہوتا۔

یہاں تو دریافت فرمایا اور اس کی وجہ میں نے بہان کر دی تھی۔

میں نے یہی حدیث ایک کٹر صاحب علم بریلوی دوست کے ساتھ ڈسکس کی تھی اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس حدیث سے جو استدلال اچھروی صاحب نے کیا ہے وہ غلط ہے۔

اس روایت سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ جہاں کہیں جب کوئی میاں بیوی قربت کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔

Link to comment
Share on other sites

جناب تلوار صاحب آپ کو کہا گیا ہے زبان سنبھال کر بات کریں مگر کیا کریں سر سے شیخ نجدی اتر ہی نہیں رہا ۔۔۔ پچھلے صفحات میں کافی بحث ہوئی مگر آپ پڑھ نہیں رہے اور بغلیں بجا رہے ہیں اس لئے آپ کی پوسٹ اَن اپروڈ کر دی گئی ہے پہلے ہمارئے سوالوں کے جواب دیں پھر بات ہوگی

 

ہمارہ عقیدہ ہے نبی کریم ﷺ اپنی نورانیت اور روحانیت کے لحاظ سے حاظر ناظر ہیں ہاں مگر وہ کہیں بھی تصرف فرما کر جاسکتے ہیں ایک جگہ پر بھی اور کئی جگہ پر بھی

 

اللہ ہم سب کو وہابی دیوبندیوں سے بچائے آمین

Edited by Abdur Rehman
All members must follow forum guidelines and maintain decency
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...