Atique مراسلہ: 27 اپریل 2011 Report Share مراسلہ: 27 اپریل 2011 Assalam O Alaikum, Aik gro jo k khud ko "Arifeen" ka naam deta hai aur Shariat e Mutahira par qarband hoye baghair hi khud ko " Arif" tak keh dalta hai... Aqeeda "WAHDA TUL WAJOOD" ko manney wala hai...Aur bohat si kharafat unn mein shamil hein... Aap sey guzarish hai k agar aap k pas unn k mutaliq koi information hai aur unn k TADDARUK k liye kuch mawad hai to braye meharbani yahan post kar dein... Bohat bohat meharbani ho gi. Shukriya... اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Engr. MA Saeedi مراسلہ: 27 اپریل 2011 Report Share مراسلہ: 27 اپریل 2011 (ترمیم شدہ) Assalam O Alaikum, Aik gro jo k khud ko "Arifeen" ka naam deta hai aur Shariat e Mutahira par qarband hoye baghair hi khud ko " Arif" tak keh dalta hai... Aqeeda "WAHDA TUL WAJOOD" ko manney wala hai...Aur bohat si kharafat unn mein shamil hein... Aap sey guzarish hai k agar aap k pas unn k mutaliq koi information hai aur unn k TADDARUK k liye kuch mawad hai to braye meharbani yahan post kar dein... Bohat bohat meharbani ho gi. Shukriya... محترم عتیق صاحب ، السلام علیکم۔ اس سوال کا درست جواب معلوم کرنے کیلیے ہمیں پہلے دین کے بنیادی تصور کو سمجھنا ہو گا۔ دین کے تین درجات ہیں: اسلام ، ایمان اور احسان۔ دین کے یہ تینوں درجات مشہور حدیث جبرائیل میں بیان کیے گئے ہیں۔ دین کے تین درجات حدیث جبرائیل کی روشنی میں امام بخاری اورامام مسلم کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلامبارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امتکی تعلیم کے لیے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایمان کےبارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا : أنتؤمن باﷲ و ملائکته و کتبه و رسله واليوم الآخر و تؤمن بالقدر خيره و شره. ’’ (ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں،اس کے (نازل کردہ) صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر وشر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘ انہوں نے پھرپوچھا اسلام کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أن تشهد أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمدا رسول اﷲ، و تقيم الصلاة، و تؤتی الزکاة، و تصوم رمضان، و تحج البيت إن استطعت إليه سبيلا. ’’ (اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہاللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماللہ کے رسول ہیں، (اور یہ کہ) تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے، اور تو ماہرمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔‘‘ اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا کیا احسان کیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ. ’’احسان یہ ہےکہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیتنصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھےدیکھ رہا ہے۔‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہےجس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ حالت یقین حاصل ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔ ایمان، اسلام اور احسان کاباہمی تعلق ایمان، اسلام اور احسان تینوںباہم مربوط اور لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان وہ بنیاد ہے جس پر مسلمان کا عقیدہ استوارہوتا ہے اور اسلام سے مسلمان کا ظاہر اور اس کا عمل درست ہوتا ہے جبکہ احسان سے مسلمانکا باطن اور حال سنورتا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث کو بیان کرتے ہوئے اسلام کا ذکر پہلے کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توحیدو رسالت کی گواہی کے ذریعے دین کے دائرے میں داخل ہونا اسلام ہے اور اسلام کو دل میںبسالینے کا نام ایمان ہے۔ احسان کے ذریعے ایمان اور اسلامدونوں کے اثرات قلب و باطن پر وارد ہوتے ہیں۔ جب مسلمان کا ظاہر و باطن یکساں ہو جاتاہے اور ظاہر و باطن میں کامل یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے تو اس سے دل نور پیداہوتا ہے اور نور سے اس کا باطن چمکنے لگتا ہے یعنی جب ایمان اور اسلام قلب کی حالتاور باطن کا نور بن جاتے ہیں تو دل کی دنیا روحانی کيفیات میں بدل جاتی ہے۔ درحقیقت ایمان، اسلام اور احسانیہ سب ایک ہی سرچشمے اور ایک ہی مرکز سے تعلق رکھتے ہیں یہ تینوں ایک دوسرے کی بقاء،ترقی اور نشوونما کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی نظر انداز ہوجائے تو دوسرے کا وجود بگاڑ کا شکار ہو کر کمال سے محروم ہو جاتا ہے گویا ان میں سےہر ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے۔ چنانچہ ایمان کے بغیر اسلام ناتمام ہے اور اسلام کےبغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے جبکہ احسان کے بغیر ایمان اور اسلام دونوں ناقص رہ جاتےہیں۔ دوسرے لفظوں میں کوئی شخص اسلام کی محض ظاہری تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایک مسلمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ مومن بنکر ہی درجہ کمال کو پاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف ایمان کے تقاضے پامالنہ ہونے پائیں، دوسری طرف اسلام کے بنیادی اصولوں پر بھی عمل میں سستی اور کوتاہی واقع نہ ہونے پائے۔ ضروری ہے کہ باطن اور حال کو سنوارنے کے لئے ایمان اور اسلام کی دونوںقوتوں کے ساتھ روحانی کمال کی منزلِ احسان کو حاصل کیا جائے۔ شریعت کیا ہے؟ شریعت سے مراد وہ احکام ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بطور ضابطہ حیات جاری فرمائے ہیں۔ ان احکامکی پابندی ہر عاقل ، بالغ مسلمان پر ضروری ہے۔ طریقت و تصوف سے کیا مراد ہے؟ طریقت درحقیقت شریعت ہی کاباطن ہے۔ شریعت جن اعمال و احکام کی تکمیل کا نام ہے ان اعمال و احکام کو حسن نیت اورحسن اخلاص کے کمال سے آراستہ کر کے نتائجِ شریعت کو درجہ احسان پر فائز کرنے کی کوشش علم الطریقت اور تصوف کی بنیاد ہے۔ شیخ احمد سرھندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : ’’شریعت و حقیقت ایک دوسرے کا بالکل عین ہیں اورحقیقت میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہیں ہیں فرق صرف اجمال و تفصیل، کشف و استدلال،غیبت و شہادت اور عدم و تکلف کا ہے۔‘‘ شيخ احمد سرهندی، مکتوبات امامربانی، 2 : 255 اس کو ایک مثال کے ذریعے یوںسمجھ لیجئے : اگر کوئی شخص ظاہری شرائط وارکان کے مطابق نماز ادا کرتا ہے تو فرضیت کے اعتبار سے اس کی نماز ادا تو ہو جائےگی لیکن اس کے باطنی تقاضے پورے نہیں ہوں گے اس لیے کہ نماز میں جس طرح اس کا چہرہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ اس کے قلب و روح کا قبلہ بھی رب کعبہ کی طرف ہوا اور جسم کے ساتھ ساتھ اس کا قلب اور روح بھی خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو یہ قلبی اور باطنی کيفیات ہیں جس سے بندے کو روحانی مشاہدہ نصیب ہو جاتا ہے اور ایمان اور اسلام دونوں کو جلا ملتی ہے۔ تصوف کا منشاء انہی روحانی کيفیات کو اجاگر کرنا ہے۔ اس روحانی ترقی اور فروغ کے لئے جو طریقے اہل اﷲ نے وضع کیے ہیں انہیں طریقت کہتے ہیں۔ ان طریقوںکو اصطلاحاً علم التزکیہ و علم التصوف بھی کہتے ہیں وہ بزرگ ہستیاں جنہوں نے قلب وباطن کی تطہیر اور اصلاح و تصفیہ کی خیرات اخلاقی و روحانی تربیت سے امت مسلمہ میں تقسیم کی وہ صوفیاء کرام اور اولیاء اﷲ کہلاتے ہیں۔ کیا شریعت کے بغیر محض طریقت پر عمل کرنا کافی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں! شریعت کے بغیرطریقت کی راہ پر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ دین میں ملحدو زندیق ہیں اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کوئی جھوٹا مبلغ، صوفی یا جعلی پیر جو لوگوںکو دعوت کے اس اصول پر بلاتا ہے وہ خود بھی جہنمی ہے اور دوسروں کو بھی جہنم میں لےجا رہا ہے۔ ایسے آدمی کی صحبت سے بچنا چاہیے کیونکہ شریعت اور اسلام میں کسی شخص کےلئے کوئی استثنیٰ اور چھوٹ نہیں علمِ باطن وہی قابلِ قبول ہے جو شرعی علم ظاہر کا پابندہو۔ ظاہر و باطن لازم و ملزوم ہیں مثلاً جب کوئی چوری کرتا ہے تو وہ گناہ ایک سیاہ نقطے کی طرح اس کے قلب پر لگ جاتا ہے اور اس کا جو نقش انسان کے دل اور روح پر ثبت ہوتا ہے اور جو کيفیات اس کے اندر مرتب ہوتی ہیں اسے باطن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سےپتا چلا کہ باطن ظاہر سے نکلا ہے۔ اسی طرح جب ہم نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں۔ الغرض جو بھی نیک عمل کرتے ہیں اس کا اثر قلب و روح پر ہوتا ہے اور اس کا عمل ایک نور بن جاتا ہے۔ جس سے اس کا دل منور ہو جاتا ہے۔ یہی اس عمل کا باطن ہے، اس سے ظاہر اور باطن کے تعلق کا پتا چلتاہے اگرظاہر ہی نہ ہو تو باطن کہاں سے آئے گا۔ اس نکتے کو پھلوں کی مثال سےبھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کیلے کے اوپر چھلکا ہوتا ہے وہ اس پھل کا ظاہر ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں تو ظاہر کو مانتا ہی نہیں اور چھلکے کے بغیر کیلے خریدوں گا تواس کا پھل جلد ضائع اور خراب ہوجائے گا کیونکہ اب اس پھل پر ظاہر کی حفاظت کا خول نہیںرہا۔ لہٰذا جس باطن پر ظاہر کی حفاظت نہ رہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جو شریعت کے ظاہری احکام و امور کی اتباع سے ہٹ گیا تو یوں سمجھئے کہ اس کا باطن بگاڑ کا شکارہو گیا۔ جب تک کوئی راہِ تصوف و طریقت میں ظاہر یعنی شریعت کا ظاہری اتباع پوری پابندی سے ملحوظ نہ رکھے اس وقت تک اس کا باطن پاک و صاف اور نورانی ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا ازروئے قرآن و حدیث شریعت کے بغیر محض طریقت پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟ علم دین کا ظاہر ہو یا باطنیہ سارے چشمے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے اتباع سے پھوٹتےہیں۔ جس علم کا ماخذ، منبع اور چشمہ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں پھوٹتاوہ باطل و مردود ہے۔ صرف وہی دین قابل قبول ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک سے صادر ہو۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکام کی عملی تفسیر ہے اور قرآن و سنت پر مبنی اوامر و نواہی کا نظام ہی تو شریعت کہلاتاہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر واضح طور پر بیان فرما دیا : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا. ’’جوکچھ رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لیا کرو اور جسسے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘ الحشر، 59 : 7 اس لیے ایسی طریقت جس میں شریعتکا اتباع نہ ہو یا جو شریعت سے ہٹ کر ہو وہ باطل، مردود اور ناقابل قبول ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے فرمایا : فقيه اَشدّ علی الشيطان من ألف عابدٍ. ’’شریعت کا علم رکھنے والا شخص، شیطان کے مقابلے میں ایک ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے۔‘‘ ترمذی، الجامع : 722، رقم :2681، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقه علی العبادة. اور امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جسنے فقہ یعنی علم ظاہر حاصل کیا مگر تصوف کو چھوڑ دیا وہ فاسق ہوا جس نے علم باطن کولے لیا او رفقہ و شریعت کے ظاہری علم کو چھوڑ دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کوجمع کیا پس اس نے حق کو پا لیا۔‘‘ ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح،1 : 313 اس سے ثابت ہوا کہ بغیر شریعت کے طریقت مردود اور ناقابل قبول ہے۔ کیا صرف عارفین نام رکھنےسے کوئی عارفین میں شامل ہو جاتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ احکام شریعت کی پابندی کیے بغیر صرف عارفین نام رکھ لینے سے کوئی بھی عارفین میں شامل نہیں ہو سکتا ۔ اس کیلیے عبادات و ریاضات کی بھٹی سے گذرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی گروہ پر کسی قسم کاحکم لگانے سے پہلے تحقیق اور اتمام حجت ضروری ہے کسی بھی گروہ پر کسی بھی قسم کا حکم لگانے کیلیے جلد بازی ممنوع ہے۔ جب تک مسئلے کے جمیع پہلوؤں کا پوری تحقیق سے احاطہ نہ کر لیا جائے ، اور جس گروہ کے بارے میں حکم لگایا جا رہا ہے ،اس پر اتمام حجت نہ کرلیا جائے ، اس پر طعن کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہوتا ،لھٰذا آپ اپنے علاقے میں موجود کسی محقق اور معتدل اہل سنت عالم کے پاس جا کرتفصیل بیان کیجیے۔ وہ آپ کی صحیح رہنمائی کریں گے۔ انشاءاللہ۔ عقیدہ وحدةالوجود کیا ہے؟ اب آئیے اس نقطے کی جانب کہ یہ لوگ وحدةالوجود کے ماننے والےہیں۔ میرے بھائی ، کسی کے ماننے یا نہ مانےپر حق اور باطل کا فیصلہ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھنا چاہیَے کہ قرآن ، حدیث ،اور اقوال ائمہ و فقہاء کس طرف کو رہنمائی کرتے ہیں۔ اگرچہ وحدةالوجود کا عقیدہ بالکل حق اورسچ ہے مگر عوام الناس کیلیے یہ انتہائی پیچیدہ بھی ہے۔ اس وجہ سے علماء کرام اس پربحث سے عوام کو منع کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہم سب کی عقل و خرد کیپرواز سے بہت بلند اور ماوراء ہے۔ ہاں جب بندہ عبادات و ریاضات کے ذریعے مرتبہ احسان کے نزدیک ہوتا چلا جاتا ہے ، تو جیسے جیسے درجات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، قلب و باطن روشن ہوتے جاتے ہیں۔ اور اسرار و رموز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اب کوئی ان اسرار ورموز میں کتنا انکشاف حاصل کر پاتا ہے ، یہ ہر ایک کے اپنے روحانی احوال اور قلبی واردات پر منحصر ہے۔ اکابر اولیاءاللہ نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنےانداز میں ان اسرار و رموز سے پردے بھی اٹھائے ہیں مگر سچ بات یہی ہے کہ جب تک کوئی اس راہ میں خود ان مشاہدات کو حاصل نہ کرے ، اس وقت تک یہ سب ایک تھیوری ہیرہتی ہے ، یقین کی کیفیات میں نہیں بدل سکتی۔ بہر حال صرف آپ کے اطمینان قلب کیلیے غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمةاللہ علیہ کی اس مسئلے پر لکھی گئی تحریر پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ اس سے اس مسئلے کو سمجھنے میں کافی مدد ملےگی۔ انشاءاللہ Edited 27 اپریل 2011 by Engr. MA Saeedi اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Engr. MA Saeedi مراسلہ: 27 اپریل 2011 Report Share مراسلہ: 27 اپریل 2011 عقیدہ وحدت الوجود از علامہ احمد سعید کاظمی رح صفحہ نمبر 1 وحدت الوجود۱.bmp صفحہ نمبر 2 وحدت الوجود2.bmp صفحہ نمبر 3 وحدت الوجود3.bmp صفحہ نمبر 4 وحدت الوجود4.bmp صفحہ نمبر 5 وحدت الوجود5.bmp 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ghulam.e.Ahmed مراسلہ: 18 مئی 2011 Report Share مراسلہ: 18 مئی 2011 (ترمیم شدہ) Engr. MA Saeedi Sahib, aap ne jo book k scan pages post kiye hain un ko zara aik nazar dekth lein, aik page double hai, aur yeh keh files ko bmp se JPG mein convert ker lein to file size bohot reduce ho jaeyga jis se upload kernay mein bohot aasani hogi or waqt bhi bachaiga. Edited 18 مئی 2011 by ghulam.e.ahmed اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 18 مئی 2011 Report Share مراسلہ: 18 مئی 2011 Ghulam-e-Ahmad Bhai bhai article aap yahan parh saktay hain. http://www.islamieducation.com/ur/%D8%AA%D8%B5%D9%88%D9%81/wahdatul-wajood-kiya-hai.html اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Ghulam.e.Ahmed مراسلہ: 26 مئی 2011 Report Share مراسلہ: 26 مئی 2011 Ghulam-e-Ahmad Bhai bhai article aap yahan parh saktay hain. http://www.islamiedu...d-kiya-hai.html ma'azrat khuwan hoon Usman Razawi Bhai mein doosray masa'il mein ulajh gaya or yeh topic zehen se nikal gaya. aap ka bohot shukriya, yeh kitaab mere pas thi (in PDF), mein ne padha tha or doston ko email k zarye diya bhi tha. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Aajiz مراسلہ: 4 جون 2011 Report Share مراسلہ: 4 جون 2011 @ Anwar200 Salam, Dekho bhai loog ager inko intni tention hai tou in se bolo jo inkay sb se bare haan aunse pochooo k Sheikh Sahib kaun hain. Ager Aunka Rabita hai App S.A.W se tou wo aunse pooch saktay haan. But I know Rabita Itna asaan thori hota hai. Appbus daway kartay rehta kitabi batein krtay rehna. Aur Ishq Na krna mere bhai. Ishq kiya hota hai janu ager kabi kiya ho. Aur sb se zarori baat yeah mg delete krwa dena. Sorry bhai loog auper topic close tha so muje yahan anaa para. Aur haan yeah jo deen k naam per behas kartay rehtay ho achi baat nai. ager kuch krna hai deen ko pheelao. apis mein he apnay fauji (banday) martay rehtay ho. Sharam anni chye bhai anwar sahib apko. Chalo khair yeah lambi batein haan ager kisi ko bhi koi masla hai khud he alam na ban betho kisi baray se mashwara kr liya karo. Jazak Allah. اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
عثمان علی رضوی مراسلہ: 24 اگست Report Share مراسلہ: 24 اگست قبلہ کوئی پوسٹ شو ہی نہیں ہورہی اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔