Rizvann مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 Report Share مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 Takbeere ola pehli saf kay seedhay haath per khray hone ko kehtey hai اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 Report Share مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 On 10/5/2010 at 7:25 PM, Rizvann said: Takbeere ola pehli saf kay seedhay haath per khray hone ko kehtey hai Bhai Takbeer-e-Tahreema Ko Takbeer-e-Uoola Bhi kaha jata hay ... Takbeer Ka Matlab Hay Keh Allah ki brayi bayan karna Yani Allah-o-Akbar kehna .. aor Tahreema ka matlab hay Hram kr denay wali ... jab ham nmaz shuroo krnay ki niyat say ALLAH-O-AKBAR kehtay hain to ham par khana peena baat cheet krna waghera bahut saaray afaal haram hojatay hain .. isliay isay Takbeer-e-Tahreema kehtay hain .. Aor isi ka doosra naam Takbeer-e-Uoola hay... Jammat Ki Nmaz Takbeer-e-Uoola k saath ada karnay ka bahut ziada swab hay ... Takbeer-e-Uoola k sath jammat paanay ki koshish krni chahea aor iskay leay zehn bnana chaheay .. Molana Ilyas Qadri ki kitab Nmaz ka Tareeqa Say Makhoz Chand Msail: اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 Report Share مراسلہ: 5 اکتوبر 2010 Aik Ahm Masla: مسئلہ نمبر ۴۰۵ مرسلہ محمود حسین ۵محرم ۱۳۰۸ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں ایک شخص نماز کھڑے ہوکر بوجہ عذر بیماری کے نہیںپڑھ سکتا لیکن اس قدر طاقت اس کوہے کہ تکبیر تحریمہ کھڑے ہی ہو کر باندھ لے اور باقی بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ ادا کر سکتا ہے تو اس صورت میں آیا اس کو ضروری ہے کہ تکبیرتحریمہ کھڑے ہی ہوکرکہے اور پھربیٹھ جائے یا سرے سے بیٹھ کر نماز شروع کرے اور ادا کرلے، دوسری شق میں نماز اس کی ادا ہوجائے گی یا نہیں ؟ بینو ا توجروا۔ الجواب: صورت ِمستفسرہ میں بیشک اُس پر لازم کہ تحریمہ کھڑے ہوکر باندھے جب قدرت نہ رہے بیٹھ جائے ۔یہی صحیح ہے، بلکہ ائمہ رضوان اﷲ تعالٰی اجمعین سے اس کا خلاف اصلاً منقول نہیں ۔تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:ان قدرعلی بعض القیام ولومتکأا علی عصا او حائط قام لزومابقدر مایقدر ولوقدراٰیۃ او تکبیرۃ علی المذھب لان البعض معتبر بالکل۱؎۔ (۱؎ دُرمختار شرح تنویرالابصار باب صلوٰۃ المریض مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۱۰۴) اگر نمازی قیام پر قادر ہو اگر چہ وہ عصا یا دیوار کے ذریعے ہو تو اس پر حسبِ طاقت قیام کرنا لازم ہے خواہ وہ ایک آیت یا تکبیر کی مقدار ہو۔ مختار مذہب یہی ہے کیونکہ بعض کاکل کے ساتھ اعتبار کیا جاتا ہے۔(ت) تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق للعلامۃ الزیلعی میں ہے :ولو قدر علی بعض القیام دون تمامہ بان کان قدر علی التکبیر قائما اوعلی التکبیر وبعض القراء ۃ فانہ یؤمر بالقیام و یأتی بماقدر علیہ ثم یقعد اذاعجز۲؎۔اگر کچھ قیام پر قادر ہو تمام پر نہ ہو، مثلاً کھڑے ہوکر تکبیر یا تکبیر اور کچھ قرأت پر قادر ہو تو اسے قیا م کا حکم دیا جائے اور وہ حسبِ طاقت قیام کے ساتھ بجا لائے ، پھر جب عاجز آئے تو بیٹھ جائے۔(ت) (۲؎ تبیین الحقائق باب صلوٰۃ المریض مطبعۃ امیریۃ کبرٰی مصر ۱/۲۰۰) خانیہ میں ہے:ولو قدر علی ان یکبر قائماولایقدر علی اکثر من ذلک یکبر قائما ثم یقعد۳؎۔اگر کھڑ ے ہوکر صرف تکبیر کہنے پر قادر ہے اس سے زیادہ پر قادر نہیں تو کھڑے ہوکر تکبیر کہے پھر بیٹھ جائے۔(ت) غنیہ شرح المنیہ للعلامہ ابراہیم حلبی میں ہے:لو قدر علی بعض القیام لا کلہ لزمہ ذلک القدر حتی لوکان لایقدر الاعلی قدر التحریمۃ لزمہ ان یتحرم قائماثم یقعد۱؎۔اگر کچھ قیام پرقادر ہے تمام پر نہیں تو اس پر اس کی مقدار قیام لاز م ہے حتٰی کہ اگر کوئی صرف تکبیر تحریمہ کے مقدار پر قادر ہو تو کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔(ت) (۱؎ غنیۃ المستلمی شرح منیہ المصلی الثۤنی القیام ، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ، ص۲۶۲) خلاصہ وغیرہ میں ہے:قال سراج الائمۃ الحلوائی ھوالمذھب الصحیح۲؎۔سراج الائمہ حلوائی نے فرمایا کہ یہی صحیح مذہب ہے۔(ت) (۲؎خلاصۃ الفتاوٰی الحادی والعشرون فی صلوٰۃ المریض مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/۱۹۴) بحرالرائق پھر حاشیہ طحطاویہ علی الدر میں ہے:لا یروی عن اصحابنا خلافہ۳؎۔ہمارے اصحاب سے اس کےخلاف مروی نہیں۔(ت) (۳؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار باب صلوٰۃ المریض مطبوعہ المعرفۃ بیروت ۱/۳۱۸) پھر اگر اس کا خلاف کیا یعنی باوجودقدرت تحریمہ بھی بیٹھ کر باندھی نماز نہ ہوئی۔ لقول الغنیۃ لزمہ وقول الدر لزوما مع قول العلامۃ الشرنبلالی عبرت باللزوم لکونہ اقوی لان ھذایفوت الجواز بفوتہ الخ لقول المحقق العلائی وغیرہ ان البعض معتبر بالکل۔کیونکہ غنیہ میں اس پر لازم ہے۔ در میں ہے :لازم ہے اور علّامہ شرنبلالی کی تصریح '' باللزوم'' کے ساتھ ہے، وُہ کہتے ہیں میں نے ''باللزوم''سے تعبیر اس لئے کیا ہے کہ یہ اقوٰی ہے کیونکہ اس کے فوت ہونے سے جواز ہی فوت ہاجاتا ہے الخ اورمحقق علائی نے کہا کہ بعض کا کل کے ساتھ اعتبار کیا جاتا ہے۔(ت) فقیر غفراﷲ لہ کو اﷲ تعالٰی تحقیقِ حق القا کرے علما تصریح فرماتے ہیں کہ تحریمہ کے لیے قیام شرط ہے اگر بیٹھ کر بلکہ اتنا جُھکا ہے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچیں تحریمہ باندھے ہرگز صحیح نہ ہوگی اور تحریمہ شرطِ نماز ہے کہ بے اس کے نماز باطل ، توجبکہ تحریمہ کے لئے قیام کرسکتا اور نہ کیا شرطِ تحریمہ فوت ہوئی تو تحریمہ صحیح نہ ہوئی تو نماز ادا نہ ہوئی اذافات الشرط فات المشروط (جب شرط فوت ہوگئی تو مشروط از خود فوت ہوجائے گا۔ت) دُرمختار میں شرح الوہانیہ للعلامۃ حسن بن عمار سے ہے:شروط لتحریم حظیت بجمعھا :: مھذبۃ حسنامدی الدھرتزھر :: دخول لوقت واعتقاد دخولہ :: وسترطھروالقیام المحرر۱؎::تکبیر تحریمہ کے لئے کچھ شرطیں ہیں میں ان کو اکھٹا کر دینے سے بہرہ ور ہوا، حالانکہ وہ شرطیں خوب آراستہ و زمانہ بھر چمکتی ہیں(وہ یہ ہیں) وقتِ فرض کا داخل ہونااور بدن مکان اور کپڑے کے طہارت اور قیام محرر۔(ت) (۱؎ دُرمختار باب صفۃ الصّلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۷۱) ردالمختار میں ہے:المحرر بان لا تنال یداہ رکبیۃ کما مر فلو ادرک الامام راکعافکبرمنحنیالم تصح تحریمتہ۲؎اھقیام محرریہ ہے کہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچ سکیں جیسا کہ گزر چکا ، اگر نمازی نے امام کو رکوع میں پایا اور جھُک کر تکبیر تحریمہ کہہ کر شامل ہوا تو اس کی تحریمہ صحیح نہیں ہے اھ(ت) (۲؎ ردالمحتار باب صفۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مطفی البابی مصر ۱/۳۳۴) شرح التنویر للعلائی میں ہے:من فرائضھاالتی لا تصح بدونھا التحریمۃ قائما ۳؎۔ان فرائض میں سے جن کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی ایک کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنا بھی ہے (ت) (۳؎ درمختار ، باب صفۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۷۰) حاشیہ علامہ ابن عابدین میں ہے قولہ قائما احد ا شروطہا العشرین الآیتہ ۴؎ اس کا قول ''قائماً'' یہ ان بیس ۲۰ شروط میں سے ایک ہے جن کا ذکر آرہا ہے۔(ت) (۴؎ ردالمحتار باب صفۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مطفی البابی مصر ۱/۳۲۶) آج کل بہت جہّال ذرا سی با طاقتی مرض یا کبر سن میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولاً ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمّت کریں تو پُورے فرض کھڑے ہوکر ادا کر سکتے ہیںاور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ دوران سر وغیرہ کوئی سخت الم شدید ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو صراحۃً نمازیں کھوتے ہیں ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہی لوگ جنھوں نے بحلیہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اُتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کرلیتے ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پُورے فرض قیام سے ادا کریں۔ کافی شرح وافی میں ہے:ان لحقہ نوع مشقۃ لم یجز ترک القیام ۱؎۔اگر ادنٰی مشقت لاحق ہو تو ترک ِ قیام جائز نہ ہوگا۔(ت) (۱؎ کافی شرح وافی) ثانیاً مانا کہ انھیں اپنے تجربہ سابقہ خواہ کسی طبیب مسلمان حاذق عادل مستورالحال غیر ظاہر الفسق کے اخبار خواہ اپنے ظاہر حال کے نظر صحیح سے جو کم ہمتی و آرام طلبی پر مبنی نہ ہو بظن غالب معلوم ہے کہ قیام سے کوئی مرض جدید یا مرض موجود شدید و مدید ہوگا مگر یہ بات طول قیام میں ہوگی تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اُتنا ادا کرتے یہاں تک کہ اگر صرف اﷲ اکبر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتنا ہی قیام میں ادا کرتے جب وہ غلبہ ظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ان کی نماز کا مفسد ہُوا۔ ثالثاً ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار یا تکیہ لگا کر کُل یا بعض قیا م پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کرسکے بجالائے ، کُل توکُل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میںاس کی نماز نہ ہوگی۔فقد مرمن الدر ولو متکأا علی عصااوحائط ۲؎۔ (در کے حوالے سے گزرا اگرچہ عصا یا دیوار کے سہارے سے کھڑا ہوسکے،ت) (۲؎ دُرمختار باب صلوٰۃ المریض مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۱۰۴) تبیین الحقائق میں ہے:لوقدرعلی القیام متکأا (قال الحلوانی) الصحیح انہ یصلی قائما متکأا ولا یجزیہ غیرذلک وکذلک لوقدران یعتمد علی عصا اوعلی خادم لہ فانہ یقوم ویتکیئ ۳؎۔اگر سہارے سے قیام کرسکتا ہو (حلوانی نے کہا ) تو صحیح یہی ہے کہ سہارے سے کھڑے ہوکر نماز ادا کرے اس کے علاوہ کفایت نہ کریگی اور اسی طرح اگر عصا یا خادم کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے تو قیام کرے اور سہارے سے نماز ادا کرے۔(ت) (۳؎ تبیین الحقائق باب صلوٰۃ المریض مطبوعہ مطبعۃ امیریہ کبرٰی مصر ۱/۲۰۰) یہ سب مسائل خوب سمجھ لئے جائیں باقی اس مسئلہ کی تفصیل تام و تحقیق ہمارے فتاوٰی میںہے جس پر اطلاع نہایر ضرورواہم کہ آجکل ناواقفی سے جاہل تو جاہل بعض مدعیانِ علم بھی ان احکام کا خلاف کرکے ناحق اپنی نمازیں کھوتے اور صراحۃً مرتکب گناہ و تارک صلوٰۃ ہوتے ہیں۔ وباﷲالعصمۃ ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم و عملہ جل مجدہ اتم واحکم۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔