Mughal... مراسلہ: 14 اگست 2010 Report Share مراسلہ: 14 اگست 2010 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Abu.Huzaifa مراسلہ: 14 اگست 2010 Report Share مراسلہ: 14 اگست 2010 آزادی میں جو علمائے اہلسنت کی خدمات ہیں ۔ ان کو جاننے کے لئے ذیل لنک پر مضامین کا مطالعہ کیجئے۔ http://aljamiatulashrafia.org/aug8.negar.asp http://www.islamieducation.com/ur/%DA%A9%D8%AA%D8%A8/tehreek-azadi-e-hind-aur-ulema-wa-mashaikh-ka-kirdar.html http://www.islamieducation.com/ur/%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86/azadi-e-pakistan-aur-ulema-e-ahlesunnat.html http://www.islamimehfil.info//topic/10775-tehreek-e-azadi-or-ullama-ahlesunnat-brelvi/page__view__findpost__p__63082__hl__pakistan__fromsearch__1 http://www.islamimehfil.info//topic/10731-tahreek-e-pakistan-main-ulama-e-kiram-ka-kirdar/page__view__findpost__p__62815__hl__pakistan__fromsearch__1 علمائے دیوبند کی پاکستان سے دشمنی کے کے بارے میں جاننے کے لئے اس لنک پر کل کریں http://www.islamimehfil.info/index.php?showtopic=70 http://www.islamimehfil.info//topic/10598-deobandi-kangrasi-molvi-muslim-league-ko-woot-deine-wala-soor-hai-10000-jinnah-nehro-ki-jooti-ki-nook-per-kurban/page__view__findpost__p__62310__hl__pakistan__fromsearch__1 اب اس مضمون کو پڑھئے یہ ماہنامہ اشرفیہ کا اداریہ ہے جس میں علمائے دیوبند کی غداریاں بیان ہوئیں ہیں ۔۔ جنوري 2007ئ ميں همارے اداريے كا عنوان تھا ٫٫2007 انقلاب 1857 كے نام٬٬ اس موضوع پر حضرت مولانا يٰسين اختر مصباحي صاحب نے اتنا لكھا كه پوري جماعت كا كفاره ادا كر ديا۔ اس ليے بجا طور پر اب كها جا سكتا هے كه ٫٫انقلاب ٧٥٨١ئ مولانا يٰسين اختر مصباحي كے نام٬٬ ۔ انقلاب ٧٥٨١ئ كے حوالے سے ملك كے مختلف گوشوں ميں سمينار اور كانفرنسيں هوئيں ، رسائل و جرائد كے نمبر نكلے۔ امتدادِ زمانه كي تهوں ميں دبے هوئے بهت سے حقائق بے نقاب هوئے۔ كچھ ايسے اهم كردار بھي منظرِ عام پر آئے جنھيں متعصب تاريخ نگاروں نے انتهائي بے دردي سے نظر انداز كر ديا تھا ۔ اس هجومِ شوق اورهمه همي ميں تاريخ سازوں كو بھي خوب موقع ملا ۔ آزاديِ هند كي سرخ روئي حاصل كرنے كے ليے انھوں نے جو واقعات گڑھے تھے ، انھيں موقع به موقع دهرايا گيا بلكه جھوٹ اتني كثرت سے بولا گيا كه وه سچ معلوم هونے لگا۔ پروپيگنڈه كي طاقت كو هر دور ميں محسوس كيا گيا هے اور آج تو جديد ذرائع ابلاغ نے اس كے ليے بهت سے امكانات پيدا كر ديے هيں۔ انھيں ميں سے ايك انقلاب 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا كردار بھي هے۔ آج كي نشست ميں هم اس رخ پر ٹھوس دلائل كے ساتھ روشني ڈاليں گے ۔ 2007ئ ميں نيا دور لكھنو اور راشٹريه سهارا دهلي وغيره اخبار و جرائد كے جو نمبر نكلے ان ميں بھي خاصے مضامين اس موضوع پر سامنے آئے اور عام طور پر يه تاثر دينے كي كوشش كي گئي كه 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا بڑا كليدي كردار رها هے۔ مدرسه ديوبند 1283ھ 1866ئ ميں قائم هوا، يعني انقلاب 1857ئ سے قريب ٩ سال بعد۔ اب يه كيسے هو سكتا هے كه مدرسه ديوبند نے اپنے وجود سے پهلے هي جنگِ آزادي ميں كوئي حصه ليا هو، مگر افسوس چوري اور سينه زوري كي انتها هو گئي۔ نيا دور اپريل، مئي 2007ئ كے انقلاب 1857ئ نمبر ميں فيصل احمد ندوي نے ٫٫مولانا قاسم نانوتوي اور پهلي جنگ آزادي٬٬ كے موضوع پر ايك مضمون لكھا هے، جس ميں اور بهت سي من گڑھت كهانيوں كے ساتھ يه بھي لكھا هے: ٫٫مشهور مورخ ڈاكٹر اشتياق قريشي كے بقول يه دار العلوم 1857ئ كي بغاوت ميں نماياں طور پر لڑنے والوں كي ايك خاص تعداد كے ليے جاے پناه تھا۔٬٬﴿نيادور، انقلاب 1857ئ نمبر ، لكھنو ،ص:93﴾ يه عبارت كوئي تاريخي چيستاںنهيں كه اس كي كوئي تاويل كي جائے بلكه دو دو چار كي طرح واضح هے۔جو اداره هنگامه 1857ئ كے قريب ٩ سال بعد وجود ميں آيا هو اس كا كوئي كردار اپنے وجود سے پهلے كيسے پيدا هو سكتا هے ۔ يه تو ممكن هے كه علماے ديوبند نے قيامِ مدرسه سے پهلے عالمِ خواب ميں جنگ لڑي هو۔ يوں بھي علماے ديوبند كا آدھا مذهب خوابوں كي بنياد پر قائم هے مگر يه حقيقي اور واقعي جنگ هرگز نهيں تھي۔اور يه بھي ايك تاريخي حقيقت هے كه جب علماے ديوبند بولا جاتا هے تو اس سے مدرسه ديوبند كي خاص فكر سے وابسته علما هي مراد هوتے هيں۔ اسي مضمون ميں قلم كار نے دوسرا اقتباس مولانا محمود حسين ديوبندي كے حوالے سے نقل كيا هے۔ موصوف لكھتے هيں: ٫٫شيخ الهند مولانا محمود حسين ديوبندي نے ايك مرتبه جوش ميں آكر فرمايا،٫٫حضرت الاستاذ ﴿حضرت نانوتوي﴾ نے اس مدرسے كو كيا درس و تدريس ، تعليم و تعلم كے ليے قائم كيا تھا؟ مدرسه ميرے سامنے قائم هوا، جهاں تك ميں جانتا هوں 1857ئ كے هنگامه كي ناكامي كے بعد يه اداره قائم كيا گيا كه كوئي ايسا مركز قائم كيا جائے جس كے زيرِ اثر لوگوں كو تيار كيا جائے تاكه 57ئ كي ناكامي كي تلافي كي جائے۔٬٬﴿به حواله سوانح قاسمي،ج:٢،ص:226﴾ مولانا محمود حسين ديوبندي كے اس پر جوش بيان سے تين چيزيں سامنے آئيں۔ ﴿١﴾ مدرسه ديوبند كو تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا۔ ﴿٢﴾ مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے قائم كيا۔ ﴿٣﴾ مدرسه 1857ئ كے بعد قائم هوا تاكه 57ئ كي ناكامي كي تلافي هو سكے۔ يه صحيح هے كه مدرسه ديوبند تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا ، مگر افسوس علماے ديوبند هي اس كي تعليم و تعلم كا ڈھنڈورا پيٹتے هيں۔ اس كا فيصله وه خود كريں كه علماے ديوبند كي كارگزارياں قيامِ مدرسه كے مقصد كو كهاں تك پورا كر رهي هيں۔ دوسري بات يه كه مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے قائم كيا ، يه بالكل غلط هے ۔ اس كے باني حاجي عابد حسين قادري چشتي رحمۃ الله عليه تھے ۔ مگر موصوف چوں كه مسلكِ اسلاف پر كاربند سني صحيح العقيده تھے اور ان كا مقصد تعليم و تعلم تھا اس ليے علماے ديوبند نے ان سے اختلاف كيا اور ان كا نام قلم زد كر كے مولانا قاسم نانوتوي كو باني كي حيثيت سے متعارف كرايا۔ اس پس منظر ميں مولانا نذير احمد ديوبندي لكھتے هيں: ٫٫چوں كه لوگوں كے دلوں ميں خلوص نهيں رها ، اس ليے اختلافات رونما هوتے رهے ، نتيجه يه هوا كه ايك وقت وه آيا كه آپ ﴿حاجي صاحب﴾ مدرسے كے كاروبار سے علاحده هو گئے اور فرمايا كه للهيت نه رهي بلكه نفسانيت آگئي، فقير كو ان سب باتوں سے كيا غرض۔﴿تذكرۃ العابدين،ص:76﴾ حاجي صاحب كے خانواده كے ايك شخص سيد افتخار حسين لكھتے هيں: ٫٫وه نفسانيت اس كے سوا كيا هو سكتي هے كه وه اس مدرسے كے ذريعه اسلام كي حقانيت و صداقت كي نشر و اشاعت كا جو اهم فريضه انجام دينا چاهتے تھے ، اس اداره كے دوسرے اراكين اس سے متفق نهيں تھے۔ ان حضرات كا نقطه نظر بالكل جداگانه تھا ، وه اس مدرسے كو انگريزي حكومت كي رضا و منشا كے مطابق چلانا چاهتے تھے كيوں كه مدرسے كے صدر مدرس مولوي يعقوب حكومت وقت كے زبردست بهي خواه تھے۔ مدرسه كي صدر مدرسي قبول كرنے سے قبل وه كئي شهروں ميں انگريز گورنمنٹ ميں ڈپٹي انسپكٹر آف اسكول كے فرائض انجام دے كر اپنے حسنِ كاركردگي سے انگريزوں كي نظر ميں محبوب بن چكے تھے ۔ اپنے اس كامياب تجربه كي روشني ميں اس مدرسه كو اسي روش پر لے جانا چاهتے تھے جو انگريز حكومت كے عين منشا كے مطابق تھا، اس ليے ان كے خيالات كا حاجي محمد عابد كے خيالات سے متصادم هونا ناگزير تھا۔٬٬﴿دار العلوم ديوبند كا باني كون؟ از:سيد افتخار حسين ديوبندي﴾ اس موضوع پر بهت كچھ لكھا جا چكا هے كه مدرسه ديوبند كے باني مولانا قاسم نانوتوي هرگز نهيں تھے بلكه اس كے باني صوفي عابد حسين قادري چشتي تھے ۔ مولانا قاسم نانوتوي نے اپنے هم نواو ں كے ذريعه انھيں بے دخل كر ديا كيوں كه وه اداره كو اسلام كي نشر و اشاعت اور تعليم و تعلم كے ليے چلانا چاهتے تھے جو مولانا قاسم نانوتوي كو هرگز گوارا نهيں تھا ۔ مولانا قاسم نانوتوي اور ديگر علماے ديوبند كي تربيت جس ماحول ميں هوئي تھي اس ميں انگريز نوازي اپني انتها كو پهنچي هوئي تھي۔ ٫٫الرحيق المختوم٬٬ كے مصنف مولانا صفي الرحمن مبارك پوري لكھتے هيں: ٫٫ديوبندي تحريك كے امير اول مولانا مملوك علي تھانوي كے متعلق سوانح نگاروں كا اتفاق هے كه وه انگريزوں كے پكے وفادار تھے، موصوف دهلي كالج ميں جهاں سے انگريز نواز هندوستاني تيار كيے جاتے تھے، مدرس رهے، بلكه حسنِ كاركردگي سے متاثر هو كر كالج كے وزير سر ٹامس كي سفارش سے ٨ نومبر 1871ئ كو آپ صدر مدرس قرار پائے۔ كالج كے تمام انگريز پرنسپل مولانا پر بهت اعتماد كرتے تھے ، چناں چه هر سالانه رپورٹ ميں آپ كي تعريف و توصيف كي گئي ، گورنر جنرل نے مولانا كو انعام سے بھي نوازا اور خلعت سه پارچه مرحمت كيا ۔ دهلي كالج كے نصابوں كا كام آپ كے زيرِ نگراني هوتا۔٬٬﴿سوانح مولانا احسن نانوتوي، از:پروفيسر ايوب قادري﴾ مولانا مملوك علي نے نانوته اور ارد گرد كے عثماني شيوخ كي تعليم كے ليے دهلي كالج كي راه هموار كي اور كثير لوگوں كو انگريزوں سے وفاداري كي تربيت دي، اكابرِ ديوبند اسي استاذ كے شاگرد تھے، جس نے انگريز نوازي اپنے شاگردوں كو گھٹي ميں پلا دي تھي۔ ان شاگردوں سے يه تصور بھي نهيں كيا جا سكتا كه انگريزوں كے خلاف جنگ لڑيں گے۔مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے اسي ڈگر پر پروان چڑھايا اور تعليم و تدريس پرتوجه دينے كے بجاے انگريز نواز دستے تيار كيے اور انگريزي حكومت بھي ان كي كاركردگي سے پورے طور پر مطمئن رهي۔مدرسه ديوبند كے پهلے صدر مدرس مولانا مملوك علي كے صاحب زادے اور ان كے تربيت يافته مولانا محمد يعقوب منتخب هوئے۔ سوانح قاسمي كے مصنف كے بقول: ٫٫موصوف 1857ئ كي جنگ كو ٫٫غدر٬٬ اور اس ميں حصه لينے والوں كو ٫٫مفسدين ٬٬سے تعبير كرتے تھے۔٬٬ ﴿سوانح قاسمي،ص:61﴾ مدرسه ديوبند كے قيام كے چند برس بعد 31 جنوري 1857ئ كو لفٹنٹ گورنر نے اپنے خاص معتمد مسٹر پامر كو دار العلوم ديوبند كے معائينه كے ليے بھيجا تو اس نے ان الفاظ ميں آكر رپورٹ دي۔ ٫٫مدرسه خلاف نهيں بلكه موافق سركار و ممد و معاون سركار هے۔ يهاں كے تعليم يافته لوگ ايسے آزاد اور نيك چلن هيں كه ايك دوسرے سے كچھ واسطه نهيں۔٬٬﴿محمد احسن نانوتوي،ص:117﴾ هنگامه 1857ئ كے بعد پورے ملك ميں افراتفري كا عالم تھا ، قتل و غارت گري عام تھي، علماے اهلِ سنت كو شبهات تك كي بنياد پر پھانسياں دي جا رهي تھيں ، جيل كي سلاخوں كے پيچھے ڈالا جا رها تھا۔ مجاهدين در به در بھاگے بھاگے پھر رهے تھے ۔ اسي ماحول ميں انگريز مدرسه ديوبند سے مطمئن تھے، بلكه معائينه نگار لكھتا هے كه مدرسه ديوبند ممد و معاون سركار هے۔ مدرسه ديوبندكے ذمه داروںليے انگريز حكومت كا يه سب سے بڑا اعزاز تھا۔ كيا اب بھي اس ميں شبهه باقي هے كه مدرسه ديوبند اپني انگريز حكومت كا سچا وفادار اور خير خواه تھا۔ لفٹنٹ گورنر اپنے معائينه ميں مزيد لكھتا هے: جو كام بڑے بڑے كالجوں ميں هزاروں روپے كے صرف سے هوتا هے وه يهاں كوڑيوں ميںهو رها هے ۔ جو كام پرنسپل هزاروں روپے ماهانه تنخواه لے كر كرتا هے وه يهاں ايك مولوي چاليس روپے ماهانه پر كر رها هے۔٬٬﴿سوانح احسن نانوتوي،ص:217﴾ اس رپورٹ كے بعد مدرسه ديوبند كے ذمه داروں ميں خوشي كي لهر دوڑ گئي اور ان كے بقول اس رپورٹ سے مدرسه كي شهرت و مقبوليت ميں چار چاند لگ گئے،روداد مدرسه ميں ذمه داران نے بڑے فخر و انبساط كے ساتھ حسب ذيل تحرير سپردِ قلم كي: ٫٫تمام اندروني و بيروني صدمات اور حوادث كے بعد جو نهايت هي اعليٰ درجه كي كاميابي و شهرت مدرسه كو حاصل هوئي وه سر جان ڈگس لاٹوش لفٹنٹ گورنر ممالك متحده آگره و اودھ كا به غرضِ خاص معائينه مدرسه ديوبند آنا تھا۔٬٬ ﴿روداد مدرسه ديوبند1322ھ،ص:٧﴾ معلوم هوا كه انگريز گورنر كي رپورٹ پر علماے ديوبند نادم نهيں تھے بلكه يه ان كے مشن كا عين نشانه تھاجو پورا هوا، سوانحِ قاسمي كے حاشيه ميں ديوبند كے راز هاے سربسته كا انكشاف كرتے هوئے قلم كار لكھتا هے: ٫٫مدرسه ديوبند كے كاركنوں اور مدرسوں كي اكثريت ايسے لوگوں كي تھي جو گورنمنٹ كے قديم ملازم اور حال پينشنر تھے، جن كے بارے ميں گورنمنٹ كو شك و شبهه كرنے كي گنجائش هي نه تھي۔٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:247﴾ اس حاشيه نے بين السطور تك كو بے نقاب كر دياكيا اب بھي كوئي بنياد باقي هے، جس پر انقلاب 1857ئ كا محل تعمير كيا جائے۔ آئيے اس باب ميں پيرِ مے خانه مولانا اشرف علي تھانوي كي انگريز نوازي بھي ملاحظه كيجيے۔ مولانا اشرف علي تھانوي اپنے فتويٰ محرره ٠١ صفر 1349ھ 1931ئ ميں لكھتے هيں: ٫٫چوں كه قديم سے مذهب اور قانون جمله مسيحي لوگوں كا يه هے كه كسي كي ملت و مذهب سے پرخاش اور مخالفت نهيں كرتے اور نه كسي كي مذهبي آزادي ميں دست اندازي كرتے هيں اور اپني رعايا كو هر طرح سے امن و امان ميں ركھتے هيں ۔ لهذا مسلمانوں كو يهاں هندوستان ميں جو مملوكه و مقبوضه اهلِ مسيح هے ، رهنا اور ان كا رعيت بننا درست هے۔٬٬ ﴿اوراقِ گم گشته، از رئيس احمد جعفري ندوي،ص:324﴾ يه هے شيخِ مے خانه كا فتويٰ كه عهدِ قديم سے تمام انگريزوں كا قانون و مذهب يه هے كه كسي بھي مذهب و ملت سے پرخاش نهيں ركھتے ۔ يه فتويٰ موصوف نے اس وقت ديا هے جب ٧٥٨١ئ ميں هزاروں هزار علما كوپھانسي كے پھندے پر لٹكاديا گيا تھااور لاكھوں مسلمانوں كو بے گناه ته تيغ كر دياگيا تھا۔ كيا اسي كا نام امن و امان هے؟مسيحي صديوں سے اسلام اور مسلمانوں كے دشمن رهے هيں،ليكن آں حضرت بالكل بے خبر هيں ۔ اگر اسي كا نام فتويٰ نويسي اور اسلامي حق گوئي هے تو منافقت اور انگريز نوازي كيا هے ؟ در اصل مدرسه ديوبند عهدِ قديم سے انگريز نواز رها هے اور اس كي ساري سرگرمياں اسي سمت ميں رهي هيں ۔ اس ليے مولانا اشرف علي تھانوي نے جو كچھ لكھا هے اپنے حال كے مطابق صحيح لكھا هے۔ بلا شبهه علماے ديوبند برٹش حكومت ميں پورے طور پر محفوظ و مامون رهے۔ ديوان جي نامي ايك صاحب كے متعلق مولوي مناظر احسن گيلاني نے اپني كتاب ٫٫سوانح قاسمي٬٬ ميں لكھا هے: ٫٫صاحبِ نسبت بزرگ تھے ، اپنے زنانه مكان كے حجرے ميں ذكر كرتے ۔ مولانا حبيب الرحمن صاحب مهتمم دار العلوم ديوبند فرمايا كرتے تھے كه اس زمانے ميں كشفي حالت ديوان جي كي اتني بڑھي هوئي تھي كه باهر سڑك پر آنے جانے والے نظر آتے رهتے تھے ، در و ديوار كا حجاب ان كے درميان ذكر كرتے وقت باقي نهيں رهتا تھا ان هي ديوان جي كے مكاشفه كا تعلق دار العلوم ديوبند سے بھي نقل كيا جاتا هے ، لكھتے هيں كه مثالي عالم ميں ان پر منكشف هوا كه دار العلوم كے چاروں طرف ايك سرخ ڈورا تنا هوا هے ،اپنے كشفي مشاهده كي تعبير خود يه كرتے تھے كه نصرانيت اور تجدد آزادي كے آثارايسا معلوم هوتا هے كه دار العلوم ميں نماياں هوں گے ٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:73﴾ موصوف نے اپني كشفي قوت سے جس جانب اشاره كيا هے ، ايك عالم نے زمين پر اپنے سر كي آنكھوں سے ديكھ ليا ، اب اس كے بعد بھي اگر دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كو انقلاب 1857ئ كے مجاهدين ميں شمار كيا جاتا هے تو ان كي ديده دليري اور دن كے اجالے ميں سورج كو جھٹلانے جيسي حركت هے۔ 3092 مارچ 2008ئ كو دار العلوم ديوبند ميں اس حوالے سے سمينار منعقد كرنے كا اعلان كيا گيا هے ۔ ترجمان دار العلوم دهلي،اكتوبر، نومبر، دسمبر كا مشتركه شماره اس وقت ميرے پيشِ نظر هے۔ مدير نے اداريے ميں جو رخ اختيار كيا هے اس سے اندازه هوتا هے كه موصوف كو 1857ئ كے حوالے سے حقائق سامنے آنے كا بڑا قلق هے۔ شايد انھيںحقائق پر پرده ڈالنے كے ليے دار العلوم ديوبند ميں سمينار كا منصوبه بھي سامنے آيا هے، اور اسي قلق كے نتيجے ميں ابناے قديم كے كارگزار صدر مولانا عميد الزماں قاسمي كيرانوي نے ايك مضمون بھي اسي شمارے ميں تحرير كيا هے۔ موضوع هے٫٫حضرت شاه ولي الله كي انقلابي سياسي تحريك ميں حضرت حاجي امداد الله مهاجر مكي كا حصه٬٬ قلم كار نے انتهائي چابك دستي سے تحريك ديوبند كا رشته حضرت شاه ولي الله سے جوڑا هے مگر تحرير كے بين السطور سے اندازه هوتا هے كه قلم كار كو بھي اپني بے اطميناني كا اعتراف هے ، قلم كار نے موضوع پر تو هلكي سي گفتگو كي هے اور سارا زور 1857ئ ميں علماے ديوبند كي قربانيوں پر صرف كيا هے ۔ اس مضمون پر گفتگو كرنے سے قبل ميں يه بتا دينا ضروري سمجھتا هوں كه تحريك ديوبنديت كے باني مولانا قاسم نانوتوي اور مولانا رشيد احمد گنگوهي تھے نه كه شاه ولي الله محدث دهلوي۔ ديوبندي مكتبِ فكر كے مشهور عالم مولانا انظر شاه كشميري لكھتے هيں: ٫٫اكابر ديوبند جن كي ابتدا ميرے خيال ميں سيدنا الامام مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ الله عليه اور فقيه اكبر مولانا رشيد احمد گنگوهي سے هے ۔ ديوبنديت كي ابتدا حضرت شاه ولي الله رحمۃ الله عليه سے كرنے كے بجاے مذكوره بالا دو عظيم انسانوں سے كرتا هوں ۔٬٬ ﴿ماه نامه البلاغ،كراچي،مارچ1969ئ،ص:48﴾ اور يهي نهيں كه تحريكِ ديوبند يت كے باني اكابر ديوبند تھے بلكه دينِ ديوبنديت كے موجد و باني بھي اكابر ديوبند تھے۔ شيخ زكريا سهارن پوري نے ايك مجلس ميں اس كا اعتراف كرتے هوئے لكھا هے: ٫٫همارے اكابر حضرت گنگوهي و حضرت تھانوي نے جو دين قائم كيا تھا ، اس كو مضبوطي سے تھام لو، اب رشيد و قاسم پيدا هونے سے رهے، بس ان كي اتباع ميں لگ جاو ۔٬٬﴿صحبتے با اوليا، مرتبه تقي الدين ندوي مظاهري،ص:126﴾ مولانا عميد الزماں كيرانوي موضوع كے حوالے سے اپنے مضمون ميں لكھتے هيں: ٫٫اگرچه حاجي صاحب كا نام ان مجاهدين ميں آتا هے جو 1857ئ كي جنگِ آزادي كے بعد نماياں هوئے، تاهم حقيقت يه هے كه تحريكِ آزادي يا تحريكِ جهاد كو كسي مرحلے تك پهنچانے اور اس كے ليے مناسب فضا هم وار كرنے ميں حاجي صاحب كا اهم حصه تھا۔ اپني طبيعت ميں وه حضرت سيد احمد شهيد بريلوي كے هم رنگ اور هم مشرب تھے، آپ كے دادا پير حضرت حاجي عبد الرحيم صاحب شهيد ولايتي سيد صاحب كي تحريك ِ جهاد ميں شريك تھے۔٬٬ ﴿مجله ترجمان دار العلوم دهلي، اكتوبر، نومبر دسمبر 2007ئ ،ص:18﴾ آنكھوں ميں دھول جھونكنے كي مثال آپ نے سني هوگي۔ اگر اس كي تازه مثال ديكھني هو تو مندرجه بالا عبارت پڑھ ليجيے۔ كتني ڈھٹائي كے ساتھ حاجي امداد الله مهاجر مكي كے عقيده و مسلك كا رشته بر صغير ميں وهابيت كے باني مولوي اسماعيل دهلوي سے جوڑا جارها هے۔ حالانكه حاجي امداد الله مهاجر مكي كے نظريات و معمولات اسماعيل دهلوي سے قطعاً مختلف بلكه متصادم تھے۔ مولوي اسماعيل دهلوي نے جن چيزوں كو حرام و شرك لكھا هے، حاجي صاحب نه صرف يه كه ان پر كاربند تھے بلكه ان كے مبلغ و ترجمان تھے۔ بلكه امكانِ كذبِ باريِ تعاليٰ كے امتناع ،ميلاد و فاتحه، علمِ غيبِ مصطفي كے اثبات اور رسول الله كو اپنے جيسا بشر كهنے كي مخالفت ميں ان كے عقائد وهي تھے جن كي ترجماني امام احمد رضا قدس سره اور ديگرجمهور علماے اهلِ سنت كي تھي۔ اب هم ذيل ميں دونوںكے عقائد و نظريات كا فكري تصادم كا ايك منظرپيش كرتے هيں۔ مولوي اسماعيل دهلوي كا عقيده رساله يك روزي ميں هے: ٫٫جھوٹ نه بولنے كو الله تعاليٰ كے كمالات سے مانتے هيں اور اسي كے ساتھ الله تعاليٰ كي مدح كرتے هيں۔ اس كے برخلاف كوئي شخص گونگے اور پتھر كي تعريف جھوٹ نه بولنے كي صفت كے ساتھ نهيں كرے گا ، لهذا ظاهر هے كه وصفِ كمال يهي هے كه كوئي شخص جھوٹ بولنے كي قدرت ركھنے كے باوجود به رعايت مصلحت و تقاضاے حكمت اور جھوٹ كي آلائش سے بچتے هوئے جھوٹ نهيں بولتا اسي شخص كي تعريف كي جائے گي وه عيبِ كذب سے پاك اور كمالِ صدق سے متصف هے، به خلاف اس كے جس كي زبان گنگ هو۔٬٬﴿رساله يك روزي،ص:145، مطبوعه ديوبند﴾ اب اسي عقيدے ميں حاجي امداد الله مهاجر مكي كا دو ٹوك نظريه ملاحظه فرمائيے۔ حاجي صاحب اپنے مكتوب بنام مولوي نذير احمد خاں ميں رقم طراز هيں: ٫٫جواب اول ميں امكان و وقوع كا فرق بتايا گيا هے ، فقير كو اس سے اتنا معلوم هوا كه كذب كا نقائص ميں هونا متفق عليه هے ، پھر ذات مقدس باريِ تعاليٰ كي طرف نقص كا استناد كس طرح جائز هو سكتا هے، گو بر سبيل امكان هي سهي۔٬٬ ﴿انوار ساطعه در بيان مولود و فاتحه،ص:423﴾ فكري تصادم كي ايك دوسري مثال ملاحظه كيجيے۔ مولوي اسماعيل دهلوي تقويۃ الايمان ميں لكھتے هيں: ٫٫هر مخلوق بڑا هو يا چھوٹا﴿نبي هو يا ولي﴾وه الله كي شان كے آگے چمار سے بھي زياده ذليل هے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:19﴾ ٫٫انبيا و اوليا و امام زاده، پير ،شهيد يعني جتنے الله كے مقرب بندے هيں وه انسان هي هيں اور بندے عاجز اور همارے بھائي، مگر الله نے ان كو بڑائي دي وه بڑے بھائي هوئے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:43﴾ ان عقائد ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كي شان ميں جو كھلي توهين هے، وه كسي مومن پر مخفي نهيں۔ حاجي امداد الله كا يه عقيده هرگز نهيںبلكه وه اس كے مخالف تھے ، وه اپنے مذكوره مكتوب ميں فيصله كن گفتگو كرتے هوئے رقم طراز هيں: ٫٫انما انا بشر مثلكم الخ كا منكر كوئي اهلِ اسلام نهيں ، سب كا يهي اعتقاد هے آں حضرت صلي الله عليه وسلم بشر هيں، حضرت آدم عليٰ نبينا علي الصلوٰۃوالسلام كي اولاد ميں هيں۔ انكار اس بات كا هے كه كوئي بشر سمجھ كر بڑا بھائي كهنے لگے يا مثل اس كے اور كلمه گستاخي زبان سے نكالے ، يه البته موجب خذلان هے ۔ فقير كے اعتقاد ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم اشرف المخلوقات هيں اور باعثِ ايجادِ كائنات ع: بعد از خدا بزرگ توئي قصه مختصر٬٬ ﴿انوار ساطعه ،ص:423﴾ مولوي اسماعيل دهلوي كا ايك اور عقيده ملاحظه كيجيے: ٫٫مراديں پوري كرني، حاجتيں بر لاني، بلائيں ٹالني، مشكل ميں دستگيري كرني، برے وقت ميں پهنچنا ، يه الله هي كي شان هے ۔ كسي انبيا، اوليا، پير و مرشد كي، بھوت و پري كي يه شان نهيں، جو كسي كو ايسا ثابت كرے اور اس سے مراديں مانگے اور اس توقع پر نذر و نياز كرے اور اس كي منتيں مانے اور مصيبت كے وقت اس كو پكارے سو وه مشرك هو جاتا هے ۔ پھر خواه يوں سمجھے كه ان كاموں كي طاقت ان كو خود به خود هے ، خواه يوں سمجھے كه الله نے ان كو ايسي قدرت بخشي هے ، هر طرح شرك ثابت هوتا هے۔٬٬﴿تقويۃ الايمان،ص:10﴾ مولوي اسماعيل دهلوي نے جن چيزوں كو شرك كے خانے ميں ركھا هے خود حاجي امداد الله مهاجر مكي بھي انھيں عقائد كے حامل هونے كي وجه سے مشرك هو جاتے هيں ، اب اس كے باوجود مضمون نگار كا يه لكھنا كه حاجي امداد الله مولوي اسماعيل دهلوي كے هم طبيعت، هم رنگ اور هم مشرب تھے ، كتني بڑي جرا ت اور فريب كاري هے ۔ ديكھيے حاجي امداد الله اپني خوش عقيدگي كا اعلان كرتے هوئے اور كيا لكھتے هيں: ٫٫اوليا اور مشائخ كي قبروں كي كي زيارت سے مشرف هوا كرے اور فرصت كے وقت ان كي قبروں پر آكر روحانيت سے ان كي طرف متوجه هو اور ان كي حقيقت كو مرشد كي صورت ميں خيال كر كے فيض حاصل كرے اور كبھي كبھي عام مسلمانوں كي قبروں پر جا كر اپني موت كو ياد كرے اور ان پرايصالِ ثواب كرے اور مرشد كے حكم اور ادب كو خدا اور رسول صلي الله عليه وسلم كے حكم اور ادب كي جگه سمجھے ، كيوں كه مرشدين خدا اور رسول كے نائب هيں۔٬٬﴿كليات امداديه،ص:93، مكتبه تھانوي، ديوبند﴾ اس طرح مولوي اسماعيل دهلوي غير الله سے استمداد و استعانت اور غائبانه ندا كرنے كو بھي حرام اور شرك لكھتے هيں ۔ غير الله كو وسيله بنانا اور مصيبتوں ميں انبيا اور اوليا كو پكارنے كوبھي حرام و شرك كهتے هيں، مگر حاجي امداد الله ان تمام عقائد و نظريات ميں اسماعيل دهلوي كے بر خلاف عقيده ركھتے هيں ۔ وه رسول الله اور اوليا الله سے استعانت بھي كرتے هيں ، انھيں حرف٫٫يا٬٬ سے ندا بھي كرتے هيں اور انھيں مصائب ميں وسيله بھي بناتے هيں ۔ اس كا تو واضح مطلب يه هے كه اسماعيل دهلوي كے نزديك حاجي امداد الله حرام كار اور مشرك ٹھهرے ۔ اب اس صورت ميں انھيں اسماعيل دهلوي كا هم طبيعت اور هم مشرب كهنا تاريخ و سچائي كے ساتھ كتنا بڑا كھلواڑ هے۔ هم اپنے مدعا پر حاجي امداد الله صاحب كے چند نعتيه اشعار نقل كرتے هيں اچھا هوں يا برا هوں، غرض جو بھي هوں سو هوں پر هوں تمهارا، تم مرے مختار يا رسول اس شعر ميں ندا كے ساتھ رسول الله صلي الله عليه وسلم كو مختار بھي تسليم كيا هے ، جب كه اسماعيل دهلوي كے نزديك رسول الله صلي الله عليه وسلم كو مختار ماننا شرك هے۔ جس دن تم عاصيوں كے شفيع هو گے پيشِ حق اس دن نه بھولنا مجھے زينهار يا رسول اس شعر ميں رسول الله كو شافعِ روزِ محشر كها گيا هے جو اسماعيل دهلوي كے عقيدے كے خلاف هے۔ دونوں جهاں ميں مجھ كو وسيله هے آپ كا كيا غم هے گرچه هوں ميں بهت خوار يا رسول اس شعر ميں رسول الله صلي الله عليه وسلم كو وسيله بنايا گيا هے جو اسماعيل دهلوي كے هم مشرب اور هم رنگ هونے سے سخت متصادم هے۔ اس طرح كے ايك دو نهيں بلكه ان كے مجموعه نعت ميں درجنوں اشعار موجود هيں مجموعه نعت كليات امداديه ميں شامل هے جو مكتبه تھانوي، ديوبند سے شائع هوا هے۔ ترجمان دار العلوم كامضمون نگار 1857ئ كے حوالے سے تاريخ سازي كرتے هوئے لكھتا هے: ٫٫قصبه شاملي 1857ئ كے زمانے ميں انگريزوں كي فوجي چھاو ني هوا كرتا تھا ۔ مئي 1857ئ ميں جب ميرٹھ كے فوجي بيركوں سے انقلاب كي چنگاري پھوٹي تو اس نے جن علاقوں كو اپني لپيٹ ميں لے ليا۔ اس ميں سهارن پور كا يه علاقه بھي شامل هے ، جهاں اٹھتے بيٹھتے جنگ و جهاد كي باتيں هوا كرتي تھيں اور فضا ميں پهلے هي سے ايك قسم كا ارتعاش موجود تھا۔ 1857ئ كي انقلابي شورش نے اهل الله كي جماعت كو ابھارا كه وه سر به كف هو كر ميدان كارزار ميں كود پڑيں كيوں كه اب انتظار فضول تھا، جيسي بھي جن حالات ميں بھي آزادي كي ايك وسيع و همه گير جنگ شروع هو چكي تھي۔٬٬﴿مجله ترجمان دار العلوم دسمبر2007ئ،ص:18﴾ مضمون نگار مزيد لكھتا هے: ٫٫اس طرح حضرت حاجي صاحب امام يا امير المومنين حضرت ضامن شهيد امير جهاد يا صدر مجلس جنگ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوي امير الافواج، حضرت مولانا منير نانوتوي ان كے فوجي سكريٹري حضرت مولانا رشيد احمد گنگوهي وزير لام بندي مقرر هوئے۔ مجاهدين كے پاس نهايت معمولي درجے كے هتھيار تھے، يعني كچھ تلواريں، كچھ نيزے اور چند توڑے دار بندوقيں۔ اس اعتبار سے يه جنگ وسائل كي بنياد پر نهيں بلكه خالص ايماني شجاعت و جرا ت كي بنياد پر لڑي جا رهي تھي۔٬٬﴿حواله سابق،ص:19﴾ مضمون نگار1857ئ كے حوالے سے علماے ديوبند كے كردار پر روشني ڈالتے هوئے مزيد لكھتاهے: ٫٫حقيقت يه هے كه جاں فروشي كے جذبے كے ساتھ جس عملي سوجھ بوجھ، تنظيم و تربيت كے ساتھ شاملي كے محاذ پر جنگ آزادي لڑي گئي ، اگر ملك كے دوسرے حصوں ميں بھي اسي سوجھ بوجھ كے ساتھ اقدامات كيے جاتے تو اتني آساني كے ساتھ انگريزوں كے ليے مجاهدين كو پسپا كرنا ممكن نهيں تھا۔٬٬﴿حواله سابق،:٩١﴾ آزاديِ هند كے بعد جب مجاهدينِ آزادي كے تذكرے فخر كے ساتھ هونے لگے، اور ان كے وارثين اعزاز و اكرام سے نوازے جانے لگے تو تاريخ نگارانِ ديوبند بھي اپنے بزرگوں كو مجاهدين ميں شمار كرنے كي تگ و دو ميں لگ گئے، اب ضرورت اس بات كي تھي كه كچھ واقعات گڑھے جائيںتاكه علماے ديوبند كوباضابطه مجاهدين كي صف ميں كھڑا كيا جا سكے ۔ اپنے اس مقصد كو پورا كرنے كے ليے انھوں نے اس تسلسل كے ساتھ انقلاب 1857ئ سے علماے ديوبند كو جوڑا كه نئي نسل واقعي انھيں 1857كے مجاهدين ميں شمار كرنے لگي اور اس موضوع پر واقعه شاملي كو انقلاب 1857ئ كا سب سے اهم واقعه بنا كر پيش كيا جانے لگا ۔ حالاں كه جنگِ آزادي ميں ان كا كردار صرف اتنا هے كه يه لوگ اپني انگريزي سركار كو خوش كرنے كے ليے مجاهدينِ آزادي سے نبرد آزما هوئے۔ يعني ان كي جنگ كا محور انگريز نهيں بلكه انگريز مخالف مجاهدين تھے ۔ علماے ديوبند مجاهدين آزادي كو٫٫ مفسدين ٬٬سے تعبير كرتے تھے ، هاں اتنا ضرور هے كه انگريزوں سے سزا دلانے كے ليے ان پر جنگِ آزادي كا الزام لگايا گيا اور انھوں نے مختلف ذرائع سے انگريز دشمني كے الزام كو ختم كرنے كي كوشش كي اور اس ميں وه كامياب بھي رهے۔ انگريز دشمني كے الزام ميں ايك بار مولانا رشيد احمد گنگوهي كو گرفتار كر ليا گيا، مگر جلد هي رها بھي كر ديا گيا ۔ حالاں كه يه وه زمانه تھا كه بڑے بڑے علما كو پھانسي اور جيل كي سزائيں دي جا رهي تھيں ۔ انقلاب ٧٥٨١ئ ميں مولانا قاسم نانوتوي ، مولانا رشيد احمد گنگوهي، حاجي امداد الله صاحب اور حافظ ضامن كا ذكر بڑے فخر و غرور كے ساتھ كيا جاتا هے ۔ حالاں كه زميني حقيقت اس سے بالكل مختلف تھي ۔ هم ذيل ميں واقعه شاملي كي حقيقت ديوبندي مكتبِ فكر كے قلم كاروں كے حوالے سے هي سپردِ قلم كرتے هيں۔ معروف ديوبندي عالم مولانا عاشق الٰهي ميرٹھي نے 1326ھ 1908ئ ميں تذكرۃ الرشيد لكھ كر شائع كي ،جس ميں واقعه شاملي كو پوري تفصيل كے ساتھ شامل كر ديا تھا ، هم اس كے چند اقتباسات ذيل ميں نقل كرتے هيں۔ موصوف لكھتے هيں: ٫٫رمضان 1273ھ يعني مئي 1857ئ كا وه طوفان جس كے تصور سے رونگٹا كھڑا هوتا هے ، هندوستان كيا بلكه دنيا بھر ميں ايسا مشهور و معروف هے كه شايد دوسرا نه هو جس ميں كارتوسوں پر چربي لپيٹے جانے كي جھوٹي افواه اڑي اور غدر برپا كر نے كے چھپے كھلے مجمعوں ميں چرچے شروع هوئے تھے جن كے سروں پر موت كھيل رهي تھي انھوں نے كمپني كے امن و عافيت كا زمانه قدر كي نظر سے نه ديكھا اور اپني رحم دل گورنمنٹ كے سامنے بغاوت كا علم قائم كيا ، فوجيں باغي هوئيں ، حاكم كي نافرمان بنيں ، قتل و قتال كا بازار كھولا اور جواں مردي كے غرے ميں اپنے پيروں پر خود كلهاڑياں ماريں۔٬٬ اس مختصر عبارت سے علماے ديوبند كا رخ تو متعين هو گيا كه وه انگريزي حكومت كو امن و عافيت كا زمانه كهتے تھے اور مجاهدين كو مفسدين اور باغي كهتے تھے ۔ موصوف مولانا رشيد احمد گنگوهي كے تعلق سے لكھتے هيں: ٫٫شروع 1276ھ 1859ئ كا وه سال تھا جس ميں حضرت امام رباني ﴿مولانا رشيد احمدگنگوهي ﴾ قدس سره پر اپني سركار سے باغي هونے كا الزام لگايا گيا اور مفسدوں ميں شريك رهنے كي تهمت باندھي گئي۔٬٬ اب اس كے بعد مولانا رشيد احمد گنگوهي كا يه چونكا دينے والا بيان بھي پڑھيے۔ هنگامه ختم هونے كے بعد قاضي محبوب علي خاں كي جھوٹي مخبري پر جب رشيد احمد گنگوهي كو گرفتار كيا گيا تو اپنے متعلق ان كے تاثرات يه تھے۔ ٫٫جب ميں حقيقت ميں اپني سركار ﴿انگريزي حكومت﴾كا فرماں بردار هوں تو جھوٹے الزام سے ميرا بال بيكا نه هوگا، اور اگر مارا بھي گيا تو سركار مالك هے ، اسے اختيار هے، جو چاهے كرے۔٬٬﴿تذكرۃ الرشيد،ج:١،ص:٠٨﴾ كيا مولانا رشيد احمد گنگوهي كا يه اعتراف اور انگريز حكومت كاكمال احترام چيخ چيخ كر يه اعلان نهيں كر رها هے كه 1857ئ كي جنگِ آزادي سے ان كا كوئي تعلق نهيں تھا ، بلكه مجاهدين كا جھوٹا الزام تھا ، جس بنياد پر مذكوره علماے ديوبند كو مجاهدين ميں شمار كيا جاتا هے وه مجاهدين آزادي كے ساتھ جنگ يا جھڑپ تھي۔ مولانا عاشق الٰهي ميرٹھي اس حقيقت كو بيان كرتے هوئے لكھتے هيں : ٫٫ان ايام ميں آپ ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ كو ان مفسدوں سے مقابله بھي كرنا پڑا جو غول كے غول پھرتے تھے ، حفاظتِ جان كے ليے تلوار البته پاس ركھتے تھے اور گوليوں كي بوچھار ميں بهادر شير كي طرح نكلے چلے جاتے تھے۔ ايك مرتبه ايسا بھي اتفاق هوا كه حضرت امام رباني ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ اپنے رفيقِ جاني مولانا قاسم العلوم اور طبيب روحاني اعليٰ حضرت حاجي صاحب و نيز حافظ ضامن صاحب كے هم راه تھے ، بندوقچيوں﴿انگريز مخالف دسته﴾ سے مقابله هو گيا ، يه نبرد آزما دلير جتھا اپني سركار كے مخالف باغيوں كے سامنے سے بھاگنے يا هٹ جانے والا نه تھا ، اس ليے پهاڑ كي طرح پرا جما كر ڈٹ گيا اور سركار﴿انگريز حكومت﴾ كي جاں نثاري كے ليے تيار هو گيا۔ الله رے شجاعت و جواں مردي كه جس هولناك منظر سے شير كا پته پاني اور بهادر سے بهادر كا زهره آب هوجائے تو وهاں چند فقير هاتھوں ميں تلوار يں ليے جم غفير بندوقچيوں كے سامنے ايسے جمے رهے گويا زمين نے پاو ں پكڑ ليے هيں۔ چناں چه آپ پر فيريں هوئيں اور حضرت حافظ ضامن صاحب زيرِ ناف گولي كھاكر شهيد هو گئے۔٬٬﴿تذكرۃ الرشيد،ج:١﴾ يه هے جنگِ آزادي ميں مذكوره علماے ديوبند كا جهاد اور انگريزي سركار سے مكمل ايثار و قرباني كي چشم كشا داستان۔ مولوي عاشق الٰهي اپنے ممدوح كے خلاف انگريز دشمني كے الزام پر آه و زاري كرتے هوئے لكھتے هيں: كيا ظلم و ستم هے كه مسيحاے جهاں كو افساد و ستم پيشه و سفاك كها جاے جو گوشه نشيں خود هي گرفتارِ محن هو كس منه سے اسے مفسد و چالاك كها جاے مولانا قاسم نانوتوي بھي مولانا رشيد احمد گنگوهي كي طرح انگريز حكومت كے وفادار اور خير خواه تھے ، بلكه آپ كے اثرات حكومت كے اعليٰ حكام تك تھے جن دنوں علما اور مجاهدين كے دستوں كو اپني جان بچانا مشكل هو رهي تھي، مولانا پورے اطمينان كے ساتھ تھے بلكه انگريزوں كے تھانوں ميں آپ كا حكم چلتا تھا اور پولس آپ كے اشاروں پر رقص كرتي تھي۔ سوانح قاسمي ميں مولوي قاسم نانوتوي كے ايك حاضر باش مولوي منصور علي خاں كي زباني يه قصه بيان كيا گيا هے ۔ وه كهتے هيں ، ايك دن ميں مولانا نانوتوي كے هم راه نانوته جا رها تھا ، اثناے راه مولانا كا حجام افتاں و خيزاں آتا هوا ملا اور اس نے خبر دي كه نانوته كے تھانيدار نے ايك عورت كے بھگانے كے الزام ميں ميرا چالان كر ديا ، خدا را مجھے بچائيے۔ مولوي منصور علي خاں كا بيان هے كه نانوته پهنچتے هي مولانا نے اپنے مخصوص كارنده منشي سليمان كو طلب كيا اور پر جلال آواز ميں فرمايا: ٫٫اس غريب كو تھانيدار نے بے قصور پكڑا هے ، تم اس سے كهه دو كه يه حجام همارا آدمي هے، اس كو چھوڑ دو ورنه تم بھي نه بچوگے، اس كے هاتھ ميں هتھكڑي ڈالوگے تو تمھارے هاتھ ميں بھي هتھكڑي پڑے گي۔٬٬﴿سوانح قاسمي،ج:١،ص:321- 322﴾ لكھا هے كه منشي محمد سليمان نے مولانا نانوتوي كا حكم هوبهو تھانيدار تك پهنچا ديا۔ تھانيدار نے جواب ديا كه اب كيا هو سكتا هے ۔ روزنامچه ميں اس كا نام لكھ ديا گيا هے۔ مولانا نانوتوي نے اس جواب پر حكم ديا تھا تھانيدار سے جا كر كهه دو ، اس كا نام روز نامچه سے كاٹ دو۔ منصور علي خاں كا بيان هے كه مولانا كا يه حكم پا كر سراسيمگي كي حالت ميں تھانيدار خود ان كي خدمت ميں حاضر هوا اور عرض كيا۔ ٫٫حضرت نام نكالنا بڑا جرم هے اگر اس كا نام نكالا تو ميري نوكري جاتي رهے گي۔ فرمايا، اس كا نام روز نامچه سے كاٹ دو تمهاري نوكري نهيں جائے گي۔٬٬﴿حواله سابق،ج:١،ص:٣٢٣﴾ لكھا هے كه ٫٫مولانا كے حكم كے مطابق تھانيدار نے حجام كو چھوڑ ديا اور تھانيدار تھانيدار هي رها۔٬٬ اس پورے واقعه كا تيور بتا رها هے كه مولوي قاسم نانوتوي كے اثرات انگريز حكام تك تھے اور بڑي موثر ساز باز تھي، ورنه جو خود انگريزوں كا دشمن و باغي هو كبھي يه حكم نهيں دے سكتا كه چھوڑ دو ورنه تم بھي نهيں بچو گے اور حكم ماننے كي صورت ميں نوكري نه جانے كا بھي يقين دلايا۔ واقعه شاملي كي پوري حقيقت صرف اتني هے كه ان علماے ديوبند نے انگريز كے باغيوں سے جنگ لڑي اور حافظ ضامن انگريزوں كي خوش نودي حاصل كرنے كي خواهش ميں جان دے بيٹھے۔ مولانا مناظر احسن گيلاني﴿م1956ئ﴾جو ديوبندي مكتبِ فكر كے شهره آفاق قلم كار هيں ۔ فيصله كن گفتگو كرتے هوئے لكھتے هيں: ٫٫مقابله اور مقاتله ميں عملي شركت كافيصله اگر سيدنا الامام الكبير﴿مولانا نانوتوي﴾ پهلے سے كيے هوئے هوتے تو اس زمانے تك آپ كا جنگي آلات كم از كم بندوق كے استعمال سے اس درجه بے گانه ره جانا كيا ممكن تھا؟ كچھ بھي هو اتني بات بهر حال يقيني هے اور ان ناقابلِ انكار چشم ديد گواهيوں كا كھلا اقتضا هے كه ماليخوليا سے زياده اس قسم كي افواهوں كي كوئي قيمت نهيں كه هنگامه كے برپا كرانے ميں دوسروں كے ساتھ سيدنا الامام الكبير﴿مولانا نانوتوي﴾ اور آپ كے ديني و علمي رفقا كے بھي هاتھ تھے بلكه واقعه وهي هے جو مصنف امام ﴿مولانا رشيد احمد گنگوهي﴾ نے لكھا هے كه ٫٫مولانا فساد سے كوسوں دور تھے۔٬٬﴿سوانح قاسمي ،ج:٢،ص؛109﴾ شيخ محمد زكريا سهارن پوري كے مريد پروفيسر بصير احمد خاں سابق صدر شعبه علوم اسلاميه همدرد يونيورسٹي نے واقعه شاملي پر اظهارِ خيال كرتے هوئے بيان كيا هے: ٫٫شاملي كي جھڑپ جس ميں مولانا محمد قاسم نانوتوي و مولانا رشيد احمد گنگوهي وغيرهما كي شركت اور حافظ ضامن كي شهادت كا ذكر هے وه مقامي نوعيت كا ايك محدود تصادم تھا ، جس كا سهارا لے كر بهت بڑے پيمانے پر جنگ ٧٥٨١ئ ميں ان حضرات كے سرگرم كردار وغيره كا دعويٰ كرنا صحيح نهيں۔٬٬﴿1857ئ پس منظر و پيش منظر،ص:100،از:مولانا يٰسين اختر مصباحي﴾ ان تمام شواهد كي روشني ميںاب آخري فيصله اپنے قارئين پر چھوڑتا هوںكه انقلاب 1857ئ ميں دار العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا كيا كردار تھا۔وه انگريزوں كے وفادار تھے يا غدار ؟ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Mughal... مراسلہ: 15 اگست 2010 Author Report Share مراسلہ: 15 اگست 2010 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔