Eccedentesiast مراسلہ: 3 اگست 2010 Report Share مراسلہ: 3 اگست 2010 Ftawa Razawia Shareef مسئلہ ۱۰۳۳ :کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سنتیں گھر میں پڑھنا افضل ہے یامسجد میں؟ اور سرورعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت کس طرح تھی یا کوئی عادت نہ تھی؟ بلکہ کبھی گھر میں پڑھتے کبھی مسجدمیں؟ اور روافض کی مشابہت اور رفض کی تہمت سے بچنے کو مسجد میں پڑھنا ضرورلازم ہے یانہیں؟ اور حدیثوں میں جو گھر میں پڑھنے کی فضیلت واردہوئی وہاں صرف نوافل ہیں یاسنتیں بھی؟ الجواب ومن اﷲ سبحٰنہ، توفیق الصدق والصواب تراویح وتحیۃ المسجد کے سوا تمام نوافل سنن راتبہ ہوں یا غیرراتبہ مؤکدہ ہوں یا غیرموکدہ گھر میں پڑھنا افضل اور باعث ثواب اکمل۔ رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :علیکم بالصلٰوۃ فی بیوتکم فان خیرصلٰوۃ المرء فی بیتہ الاالمکتوبۃ۱؎ ۔ رواہ البخاری ومسلم۔تم پرلازم ہے گھروں میں نماز پڑھنا کہ بہترنماز مرد کیلئے اس کے گھرمیں ہے سوافرض کے۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا۔ (۱ صحیح مسلم باب استحباب صلوۃ النافلۃ فی بینہ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ۱ / ۲۶۶ ) اور فرماتے ہیں :صلٰوۃ المرء فی بیتہ افضل من صلاتہ فی مسجدی ھذاالا المکتوبۃ ۲؎۔ رواہ ابوداؤد۔نماز مرد کی اپنے گھر میں میری اس مسجد میں اس کی نماز سے بہترہے مگرفرائض۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا۔ (۲؎ سنن ابوداود باب صلٰوۃ الرجل التطوع فی بیتہ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ / ۱۴۹) اور خود عادت کریمہ سید المرسلین کی اسی طرح تھی۔ احادیث صحیحہ سے حضوروالا کاتمام سنن کاشانہ فلک آستانہ میں پڑھنا ثابت۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم گھرمیں چار رکعت ظہرسے پہلے پڑھتے پھرباہرتشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر میں رونق افروزہوکر دو رکعتیں پڑھتے، اور مغرب کی نماز پڑھ کر گھر میں جلوہ فرماہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے، اور عشا کی امامت کرکے گھر میں آتے اور دورکعتیں پڑھتے، جب صبح چمکتی دورکعتیں پڑھ کر باہرتشریف لے جاتے اور نمازفجر پڑھاتے۔ اخرج مسلم فی صحیحہ وابوداؤد فی السنن واللفظ لمسلم عن عبداﷲ بن شقیق قال سألت عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھا عن صلٰوۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن تطوعہ فقالت کان یصلی فی بیتی قبل الظھر اربعا، ثم یخرج فیصلی بالناس ثم یدخل فیصلی رکعتین وکان یصلی بالناس المغرب ثم یدخل فیصلی رکعتین ویصلی بالناس العشاء ویدخل بیتی فیصلی رکعتین ، ثم ذکرت صلٰوۃ اللیل والوتر الٰی ان قالت وکان اذا طلع الفجر صلی رکعتین۱؎ زاد ابوداؤد ثم یخرج فیصلی بالناس صلٰوۃ الفجر۲؎۔ مسلم نے صحیح میں اور ابوداؤد نے سنن میں روایت کیاہے مسلم کے الفاظ ہیں کہ عبداﷲ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نفلی نماز کے بارے میں پوچھا توانہوں نے فرمایا میرے حجرے میں آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ظہرسے پہلے چار رکعات ادافرماتے پھر باہرتشریف لے جاتے اور لوگوں کوجماعت کرواتے پھرحجرے میں جلوہ افروزہوتے تو دورکعت پڑھتے، جب مغرب کی نماز کی جماعت کرواتے پھرحجرہ میں تشریف لاکر دورکعات پڑھتے، لوگوں کو عشاء کی نمازپڑھاکر میرے ہاں تشریف لاتے تودورکعات اداکرتے۔ پھرانہوں نے رات کی نماز اور وتر کاذکرکرتے ہوئے کہا جب طلوع فجر ہوجاتی تو آپ دورکعات اداکرتے۔ سنن ابوداؤد میں یہ اضافہ ہے پھر آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حجرہ سے نکل کرلوگوں کوفجر کی نمازپڑھاتے۔(ت) (۱؎ صحیح مسلم باب استحباب صلٰوۃ النافلۃ فی بیتہ مطبوعہ نورمحمد اصح المطابع کراچی ۱ /۲۶۶) (۲؎ سنن ابوداؤد باب صلٰوۃ الرجل التطوع فی بیتہ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۴۹) اسی طرح سنن جمعہ کامکانِ جنت نشان میںپڑھنا، صحیحین میں مروی زمانہ سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں لوگ مغرب کے فرض پڑھ کر گھروں کو لَوٹ جاتے یہاں تک کہ مسجد میں کوئی شخص نہ رہتا گویا وہ بعد مغرب کچھ پڑھتے ہی نہیں،فی الفتح عن السائب بن یزید قال لقد رأیت الناس فی زمن عمر بن الخطاب اذاانصرفوا من المغرب انصرفوا جمیعا حتی لایبقی فی المسجد احد کانھم لایصلون بعد المغرب حتی یصیرون الٰی اھلیھم۳؎۔فتح میں سائب بن یزید سے ہے کہ میںنے دورِ فاروقی میں لوگوں کو مغرب کے بعد اکٹھے لَوٹتے ہوئے دیکھا حتی کہ کوئی مسجد میں باقی نہ رہتا، گویا وہ مغرب کے بعد کوئی نمازادانہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں میں چلے جاتے۔ (۳؎ فتح القدیر باب ادراک الفریضہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۴۱۶) سیدالعالمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کودیکھا کہ مغرب کے فرض پڑھ کر مسجد میں سنتیں پڑھنے لگے ارشاد فرمایا: یہ نماز گھرمیں پڑھاکرو۔اخرج ابوداؤد والترمذی والنسائی عن کعب بن عجرۃ وابن ماجۃ عن حدیث رافع بن خدیج والسیاق لابی داؤد قال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اتی مسجد بنی عبدالاشہل فصلی فیہ المغرب فلما قضوا صلٰوتھم راھم یسبحون بعدھا فقال ھذہ صلٰوۃ البیوت۱؎ ولفظ الترمذی والنسائی علیکم بھذہ الصلٰوۃ فی البیوت۲؎، وابن ماجۃ ارکعوا ھاتین الرکعتین فی بیوتکم۳؎۔ابوداؤد، ترمذی اور نسائی نے حضرت کعب بن عجرہ سے ، اور ابن ماجہ نے حضرت رافع بن خدیج سے روایت کیا ابوداؤد کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبدالاشہل مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے مغرب کی نماز اداکی جب لوگ فرائض پڑھ چکے تو آپ نے انہیں نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: یہ گھروں کی نماز ہے، ترمذی اور نسائی کے الفاظ ہیں کہ تم یہ نماز اپنے گھروں میں اداکرو۔ ابن ماجہ کے الفاظ ہیں: یہ دورکعات تم اپنے گھروں میں ادا کیاکرو۔(ت) (۱؎ سنن ابوداؤد باب رکعتی المغرب این تصلیان مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۸۴) (۲؎ کنزالعمال حدیث ۱۹۴۲۳ ، موسستہ الرسالہ بیروت ۱ / ۳۸۶ ) (۳؎ سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی رکعتین بعدالمغرب ، سعید کمپنی کراچی ص ۸۳ ) شیخ محقق علامہ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، العزیز شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:ہرگاہ تمام کردند مردم نماز فرض رادید آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایشاں راکہ نماز نفل می گزارند کہ مرادبوے سنت مغرب است بعد از فرض یعنی درمسجد پس گفت آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایں یعنی سنت مغرب یامطلق نماز نفل نماز خانہا است کہ درخانہا باید گزارد نہ درمسجد بدانکہ افضل آنست کہ نماز نفل غیرفرض درخانہ بگزارند ہمچنیں بودعملے آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مگربسببے یاعذرے خصوصاً سنت مغرب کہ ہرگز در مسجد نگزارد و بعضے ازعلما گفتہ اند کہ اگرسنت مغرب را درمسجد بگزارد از سنت واقع نمی شود وبعض گفتہ اند کہ عاصی می گرد وازجہت مخالفت امرکہ ظاہرش در وجوب است وجمہور برآنند کہ امربرائے استحباب است۱؎۔ الخ جب لوگوں نے فرض نماز اداکرلی تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے انہیں فرائض کے بعد نوافل یعنی سنن مغرب کو مسجد میں اداکرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: یہ سنن مغرب یامطلقاً نمازنفل گھروں کی نماز ہے انہیں گھروں مین اداکرنا چاہئے نہ کہ مسجد میں۔ واضح رہے کہ فرض کے علاوہ نوافل گھرمیں اداکرنے چاہئیں۔ سرورعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کایہی عمل تھا البتہ کسی سبب یاعذر کی صورت مستثنٰی ہے خصوصاً نماز مغرب کی سنن مسجد میں ادانہ کی جائیں، بعض علماء نے فرمایا کہ اگرکسی نے سنن مغرب مسجد میں ادا کیں تو سنت واقع نہ ہوں گی اور بعض کے نزدیک ایسا آدمی گنہگار بھی ہوگا کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر ( جس سے ظاہر وجوب ہے) کی مخالفت کی ہے اور جمہور کے نزدیک یہاں امر استحباب کے لئے ہے الخ (ت ) (۱؎ اشعۃ اللمعات باب من صلی صلٰوۃ مرتین، فصل ثالث مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۵۰۳) گا ہے اگربعض سنن مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا تو علماء فرماتے ہیں وہ کسی عذروسبب سے تھاکما مر عن الشیخ وبمثلہ قال العلامۃ ابن امیرالحاج فی شرح المنیۃ (جیسا کہ شیخ کے حوالے سے گزرا اسی کی مثل علامہ ابن امیرالحاج نے شرح منیہ میں فرمایا۔ت) معہٰذا ترک احیاناً منافی سنیت و استحباب نہیں بلکہ اس کامقرر ومؤکد ہے کہ مواظبت محققین کے نزدیک امارت وجوب کمافی البحر وغیرہ (جیسا کہ بحر وغیرہ میں ہے۔ت) علاوہ بریں اگربالفرض رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دائماً سب سنتیں مسجد ہی میں پڑھی ہوتیں، تاہم بعد اس کے کہ حضور ہم سے ارشاد فرماچکے''فرضوں کے سواتمام نمازیں تمہیں گھرمیں پڑھنی چاہئیں'' اور فرمایا ''ماورائے فرائض اور نمازیں گھرمیں پڑھنا مسجد مدیہ طیبہ میں پڑھنے سے زیادہ ثواب رکھتاہے'' بلکہ مسجد میں پڑھتے دیکھ کر وہ ارشاد فرمایا کہ ''نمازگھروں میں پڑھاکرو'' کمامرکل ذلک (جیسا کہ یہ سب کچھ پیچھے گزراہے۔ت) توہمارے لئے بہترگھر ہی میں پڑھنے میں رہے کہ قول فعل پرمرجح ہے اور ان احادیث میں نماز سے صرف نوافل مطلقہ مرادنہیں ہوسکتی کہ ماورائے فرائض میں سنن بھی داخل، اور قضیہ مسجد بنی عبدالاشہل کا خاص سنن مغرب میں تھا کما سبق (جیسا کہ پیچھے گزرا۔ت) اسی طرح فقہاء بھی عام حکم دیتے اور نوافل کی تخصیص نہیں کرتے، ہدایہ میں ہے :والافضل فی عامۃ السنن والنوافل المنزل وھوالمروی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۲؎۔تمام سنن ونوافل کوگھر میں اداکرنا افضل ہے اور یہ بات رسالت مآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے۔(ت) (۲ الہدایۃ جز اول باب ادراک الفریضۃ مطبوعہ عربیہ کراچی ۱/ ۱۳۲ ) فتح القدیرمیں ہے :عامتھم علی اطلاق الجواب کعبارۃ الکتاب وبہ افتی الفقیہ ابوجعفر قال الا ان یخشی ان یشتغل عنھا اذا رجع فان لم یخف فالافضل البیت۱؎ ۔عام فقہا نے عبارتِ کتاب (ہدایہ) کی طرح مطلقاً جواب دیاہے اور فقیہ ابوجعفر نے اسی پر یہ کہتے ہوئے فتوٰی دیا ہے مگر اس صورت میں کہ جب کسی مشغولیت کی بناپرگھرلوٹ کرنوافل کے فوت ہوجانے کاخطرہ ہو(تومسجد میں ہی پڑھ لے) ہاں اگر خوف نہ ہو توگھرمیں اداکرنا افضل ہے(ت) (۱؎ فتح القدیر باب ادراک الفریضۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۴۱۶) شرح صغیرمیں ہے:ثم السنۃ فی سنۃ الفجر وکذا فی سائر السنن ان یاتی بھا اما فی بیتہ وھو الافضل، اوعند باب المسجد واما السنن التی بعد الفریضۃ فان ان تطوع بھا فی المسجد فحسن وتطوعہ بھا فی البیت افضل، وھذا غیرمختص بما بعدالفریضۃ بل جمیع النوافل ماعد التراویح وتحیۃ المسجد الافضل فیھا المنزل لماروی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ کان یصلی جمیع السنن والوتر فی البیت۲؎۱ھ ملخصا۔پھرسنت، سنن فجر میں اسی طرح بقیہ سنن میں کہ ان کوگھر میں اداکرے اور یہ ہی افضل ہے یادروازئہ مسجد کے پاس اداکرے۔ رہیں وہ سنتیں جو فرائض کے بعد ہیں اگرمسجد میں اداکرے توبھی ٹھیک اور اگرگھرمیں اداکرے تو زیادہ بہترہے، اور یہ صرف ان سنن کامعاملہ نہیں جوفرائض کے بعد ہیں بلکہ تراویح وتحیۃ المسجد کے علاوہ باقی تمام نوافل کوگھر میں اداکرنا افضل ہے کیونکہ رسالت مآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سنن ووتر کوگھر میں ہی ادافرماتے تھے اھ تلخیصاً(ت) (۲؎ صغیری شرح منیۃ المصلی فصل فی النوافل مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت ص۵،۲۰۴) اور جب ثابت ہوچکا کہ سنن ونوافل کاگھرمیں پڑھنا افضل، اور یہی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت طیبہ، اور حضور نے یونہی ہمیں حکم فرمایا توبخیال مشابہت روافض اُسے ترک کرناکچھ وجہ نہ رکھتاہے۔ اہل بدعت کاخلاف ان کی بدعت یاشعارخاص میں کیاجائے نہ یہ کہ اپنے مذہب کے امورِ خیر سے جوبات وہ اختیارکریں ہم اسے چھوڑتے جائیں آخر رافضی کلمہ بھی توپڑھتے ہیں، بالجملہ اصل حکم استحبابی یہی ہے کہ سنن قبلیہ مثل رکعتین فجر ورباعی ظہروعصر وعشا مطلقاً گھرمیں پڑھ کر مسجد کوجائیں کہ ثواب زیادہ پائیں، اور سنن بعدیہ مثل رکعتین ظہرومغرب وعشاء میں جسے اپنے نفس پراطمینان کامل حاصل ہو کہ گھرجاکر کسی ایسے کام میں جو اسے ادائے سنن سے باز رکھے مشغول نہ ہوگا وہ مسجد سے فرض پڑھ کر پلٹ آئے اور سنتیں گھر ہی میں پڑھے توبہتر، اور اس سے ایک زیادتِ ثواب یہ حاصل ہوگی کہ جتنے قدم بارادئہ بادائے سنن گھر تک آئے گا وہ سب حسنات میں لکھے جائیں گے۔ قال تبارک وتعالٰی ونکتب ماقدموا و اٰثارھم وکل شیئ احصینٰہ فی امام مبین۱؎ ۔اﷲ تبارک وتعالٰی کافرمان ہے: ہم لکھ رہے ہیں جوانہوں نے آگے بھیجا اور جونشانیاں پیچھے چھوڑگئے اور ہرشئی کوہم نے کتاب مبین میں شمار کررکھاہے۔(ت) (۱؎ القرآن ۳۶ /۱۲) اور جسے یہ وثوق نہ ہو وہ مسجد میں پڑھ لے کہ لحاظ افضلیت میں اصل نماز فوت نہ ہو، اور یہ معنی عارضی افضلیت صلٰوۃ فی البیت کے منافی نہیں، نظیر اس کی نماز وتر ہے کہ بہتر اخیر شب تک اس کی تاخیر ہے مگرجواپنے جاگنے پراعتماد نہ رکھتاہو وہ پہلے ہی پڑھ لےکما فی کتب الفقہ (جیسا کہ کتب فقہ میں ہے۔ت) مگراب عام عمل اہل اسلام سنن کے مساجد ہی میں پڑھنے پرہے اور اس میں مصالح ہیں کہ ان میں وہ اطمینان کم ہوتاہے جومساجد میں ہے اور عادت قوم کی مخالفت موجب طعن و انگشت نمائی وانتشار ظنون وفتح باب غیبت ہوتی ہے اور حکم صرف استحبابی تھا تو ان مصالح کی رعایت اس پرمرجح ہے، ائمہ دین فرماتے ہیں:الخروج عن العادۃ شھرۃ ومکروہ(معمول کے خلاف کرنا شہرت اور مکروہ ہے۔ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔