NAJAMMIRANI مراسلہ: 31 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 31 جولائی 2010 بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَ صَلَّي (قبولِ اسلام میں اوّل اور نماز پڑھنے میں اوّل)1. عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102. 2. فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ رضي الله عنه رَوَاهُ أَحْمَدُ. حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102. 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 3 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355. . 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ قَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيْ هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوْبَکْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِيْنَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَّاءِ خَدِيْجَةُ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا : سب سے پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور بعض نے کہا : سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام لائے جبکہ بعض محدثین کا کہنا ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ آٹھ برس کی عمر میں اسلام لائے اور عورتوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘ الحديث رقم 4 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734. 5. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيْجَةَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 5 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21. 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بَعْدَ خَدِيْجَةَ، عَلِيٌّ، وَ قَالَ مَرَّةً : أَسْلَمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753. 7. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيْفٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّه، قَالَ : کُنْتُ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ِلأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ وَ کَانَ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَوَاﷲِ إِنِّيْ لَعِنْدَهُ بِمِنًی، إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيْبٍ مِْنهُ فَنَظَرَ إِلَی الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَهَا مَالَتْ، يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي قَالَ : ثُمَّ خَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ الَّذِيْ خَرَجَ مِنْهُ ذَلِکَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِيْنَ رَهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي. قَالَ : فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ : هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِيْ قَالَ : فَقُلْتُ : مَنِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ : هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيْجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلَدٍ قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هَذَا الْفَتَی؟ قَالَ : هذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ قَالَ : فَقُلْتُ : فَمَا هذَا الَّذِيْ يَصْنَعُ؟ قَالَ : يُصَلِّيْ وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ لَمْ يَتْبَعْهُ عَلَی أَمْرِهِ إِلاَّ امْرَأْتُهُ وَ ابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتٰی وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ کُنُوْزُ کِسْرَی وَ قَيْصَرَ قَالَ : فَکَانَ عَفِيْفٌ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ يَقُوْلُ : وَ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ لَوْ کَانَ اﷲُ رَزَقَنِيَ اْلإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَکُوْنَ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479. 8. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179. 9. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا ضَحِکَ عَلَی الْمِنْبَرِ، لَمْ أَرَهُ ضَحِکَ ضِحْکًا أَکْثَرَ مِنْهُ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ : ذَکَرْتُ قَوْلَ أَبِيْ طَالِبٍ ظَهَرَ عَلَيْنَا أَبُوْطَالِبٍ وَ أنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ نَحْنُ نُصَلِّيْ بِبَطْنِ نَخْلَةَ، فَقَالَ : مَا تَصْنَعَانِ يَا بْنَ أَخِيْ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ : مَا بِالَّذِيْ تَصْنَعَانِ بَأْسٌ أَوْ بِالَّذِيْ تَقُوْلَانِ بَأْسٌ وَ لَکِنْ وَاﷲِ! لَا تَعْلُوْنِيْ سِنِّيْ أَبَدًا! وَضَحِکَ تَعَجُّبًا لِقَوْلِ أَبِيْهِ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! لَا أَعْتَرِفُ أَنَّ عَبْدًا لَکَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عَبَدَکَ قَبْلِيْ، غَيْرَ نَبِيِّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ لَقَدْ صَلَّيْتُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ سَبْعًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت حبہ عرنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر ہنستے ہوئے دیکھا اور میں نے کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے زیادہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دانت نظر آنے لگے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اپنے والد ابو طالب کا قول یاد آگیا تھا۔ ایک دن وہ ہمارے پاس آئے جبکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا اور ہم وادیء نخلہ میں نماز ادا کر رہے تھے، پس انہوں نے کہا : اے میرے بھتیجے! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : جو کچھ آپ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کبھی بھی (تجربہ میں) میری عمر سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والد کی اس بات پر ہنس دئیے پھر فرمایا : اے اﷲ! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے پہلے اس امت کے کسی اور فرد نے تیری عبادت کی ہو سوائے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، یہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا : تحقیق میں نے عامۃ الناس کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز ادا کی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 776، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، و الطيالسي في المسند، 1 / 36، الحديث رقم : 188. 10. عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ : أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَرُوْدًا عَلَي نَبِيِّهَا صلی الله عليه وآله وسلم أَوَّلُهَا إِسْلَامًا، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَه وَ الطَّبَرَانِيٌّ وَالْهَيْثَمِيُّ. ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی اور امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 10 : أخرجه ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179 11. عَنْ مُجَاهِدٍ أَوَّلُ مَنْ صَلَّی عَلِيٌّ، وَ هُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَ هُوَ ابْنُ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ، حِيْنَ دَعَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ کَانَ ابْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ وَ يُقَالُ : دُوْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ لَمْ يَعْبُدِ الْأَوْثَانَ قَطُّ لِصِغَرِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا جب آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 11 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21 (2) بَابٌ فِي إِخْتِصَاصِ زِوَاجِهِ رضی الله عنه بِسَيِّدَةِ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ رضی اﷲ عنها (سیدۂ کائنات فاطمۃ الزھراء رضی اﷲ عنہا سے شادی کا اعزاز پانے والے)12. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اﷲ عنهما، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِيْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 12 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، رقم؛ 10305، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، والمناوي في فيض القدير، 2 / 215، و الحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174. 13. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ قَالَتْ : زَوَّجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَی فَاطِمَةَ حَتَّی يَجِيْئَهُ. وَکَانَ الْيَهُوْدُ يُؤَخِّرُوْنَ الرَّّجُلَ عَنْ أَهْلِهِ. فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی وَقَفَ بِالْبَابِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَقَالَ : أَثَمَّ أَخِيْ؟ فَقَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَارَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ أَخُوْکَ؟ قَالَ : عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ : وَکَيْفَ يَکُوْنُ أَخَاکَ وَقَدْ زَوَّجْتَهُ ابْنَتَکَ؟ قَالَ : هُوَ ذَاکَ يَا أُمَّ أَيْمًنَ، فَدَعَا بِمَاءِ إِنَاءٍ فَغَسَلَ فِيْهِ يَدَيْهِ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَضَخَ عَلَی صَدْرِهِ مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ وَبَيْنَ کَتِفَيْهِ، ثُمَّ دَعَا فَاطِمَةَ فَجَاءَتْ بِغَيْرِ خِمَارٍ تَعْثُرُ فِي ثَوْبِهَا ثُمَّ نَضَخَ عَلَيْهَا مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ، ثُمَّ قَالَ : واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ وَ قَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : وُلِيْتُ جِهَازَهَا فَکَانَ فِيْمَا جَهَزْتُهَا بِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيْفٌ، وَبَطْحَاءُ مَفْرُوشٌ فِي بَيْتِهَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَیٰ ’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ حضرت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی شادی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ فاطمہ کے پاس جائیں یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس آگئے (یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ یہودیوں کی مخالفت ہو کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ شوہر کی اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرانے میں تاخیر کرتے تھے)۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں میرا بھائی ہے؟ تو ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں. آپ کا بھائی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا بھائی علی بن ابی طالب ہے پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ آپ کے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح ان کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ام ایمن ! وہ اسی طرح ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھ مبارک دھوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پانی میں سے کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے سینہ پر اور کچھ آپ رضی اللہ عنہ کے کندھوں کے درمیان چھڑکا۔ پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پس آپ اپنے کپڑوں میں لپٹی ہوئی آئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی آپ رضی اﷲ عنہا پر بھی چھڑکا پھر فرمایا : خدا کی قسم! اے فاطمہ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کر دی ہے اور تمہارے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے جہیز کی ذمہ داری سونپی گئی پس جو چیزیں آپ رضی اﷲ عنہا کے جہیز میں تیار کی گئیں ان میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور ایک بچھونا تھا جو آپ رضی اﷲ عنہا کے گھر بچھایا گیا۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 13 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 8 / 24. 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : هَذَا جِبْرِيْلُ يُخْبِرُنِيْ أَنَّ اﷲَ عزوجل زَوَّجَکَ فَاطِمَةَ، وَ أَشْهَدَ عَلَی تَزْوِيْجِکَ أَرْبَعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، وَ أَوْحٰی إِليَ شَجَرَةِ طُوْبٰی أَنِ انْثُرِيْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَاليَاقُوْتَ، فَنَثَرَتْ عَلَيْهِمُ الدُّرَّ وَ اليَاقُوْتَ، فَابْتَدَرَتْ إِلَيْهِ الْحُوْرُ الْعِيْنُ يَلْتَقِطْنَ مِنْ أَطْبَاقِ الدُّرِّ وَ اليَاقُوْتِ، فَهُمْ يَتَهَادُوْنَهُ بَيْنَهُمْ إِليَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي الرِّيَاضِ النَّضِرَةِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں جو مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے۔ اور تمہارے نکاح پر (ملاء اعلیٰ میں) چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو، پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیتے رہیں گے۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 14 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في الرياض النضره في مناقب العشره، 3 / 146 و في ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي : 72 15. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي مَلَکٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ، وَ يَقُوْلُ لَکَ : إِنِّيْ قَدْ زَوَّجْتُ فَاطِمَةَ ابْنَتَکَ مِنْ عَلِيِّّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ فِيْ المَلَأِ الْأَعْلَي، فَزَوِّجْهَا مِنْهُ فِي الْأَرْضِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي ذَخَائِرِ الْعُقْبَي. ’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتے نے آ کر کہا ہے اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا۔‘‘ الحديث رقم 15 : أخرجه محب الدين أحمد الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 73 (3) بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اہلِ بیت میں سے ہیں)16. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَ نَا وَ أَبْنَآءَ کُمْ) آل عمران : 61، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِيْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 16 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضی الله عنه، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الحديث رقم : 2999، وفي کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : (21)، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الحديث رقم : (13169 - 13170)، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الحديث رقم : 8399، و الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الحديث رقم : 4719. 17. عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضی اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 17 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 370، الحديث رقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، و إبن راهويه في المسند، 3 / 678، الحديث رقم : 1271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الحديث رقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149. 18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِليَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، يَقُوْلُ : اَلصَّلَاةَ! يَا أَهْلَ الْبَيْتِ (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ (6) ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نمازِ فجر کے لئے نکلتے تو حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے دروازہ کے پاس سے گزرتے ہوئے فرماتے : اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے : )۔ . . اے اہلِ بیت! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب ومن سورة الأحزاب، 5 / 352، الحديث رقم : 3206، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، 285، و الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الحديث رقم : 4748، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 761، الحديث رقم : 1340، 1341، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 388، الحديث رقم : 32272، و الشيباني في الآحادو المثاني، 5 / 360، الحديث رقم : 2953، و عبد بن حميد في المسند : 367، الحديث رقم : 12223. 19. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِيْ سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا رضي الله عنهم فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’پروردہء نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ. . . اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔ . . نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الحديث رقم : 3205، و في کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي، 5 / 663، الحديث رقم : 3787، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 2 / 451، الحديث رقم : 3558، و فيه أيضاً، 3 / 158، الحديث رقم : 4705، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 54، الحديث رقم : 2668، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 587، الحديث رقم : 994. 20. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه فِيْ قَوْلِهِ تَعَالٰي : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قَالَ : نَزَلَتْ فِيْ خَمْسَةٍ : فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ عَلِيٍّ، وَ فاَطِمَةَ، وَالْحَسَنِ، وَ الْحُسَيْنِ رضی الله عنهم. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمانِ خداوندی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ تن کے حق میں نازل ہوئی؛ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کے حق میں، اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 380، الحديث رقم : 3456، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 231، الحديث رقم : 375، و إبن حيان في طبقات المحدثين باصبهان، 3 / 384، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 278. 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما. قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِيْ القُرْبیٰ) قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’ اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ، اور ان کے دونوں بیٹے(حسن اور حسین)۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الحديث رقم : 2641، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168. 22. عَنْ أَبِيْ بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَةٍ عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَ عَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! فَمَا عَلَامَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَی مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوسَطِ. ’’حضرت ابو برزۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک اگلے جہان میں نہیں پڑتے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اسے کس طرح کے اعمال میں بوسیدہ کیا؟ اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس حال میں اسے ختم کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے یہ کہاں سے کمایا اورکہاں کہاں خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کی (یعنی اہل بیت کی) محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شانے پر مارا (کہ یہ محبت کی علامت ہے) اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 22 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 348، الحديث رقم : 2191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 346. (4) بَابٌ فِيْ قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ (فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے)23. عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. ’’حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ . . سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 23 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب رضی الله عنه، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096. وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108. وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ. أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072 وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ. أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348. وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904. وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ. أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106. 24. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ فِي رِوَايَةٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، إِلاَّ أنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ ماَجَةَ وَالنَّسَائِيّ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 24 : أخرجه ابن ماجة فی السنن، المقدمه، باب فی فضائل أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الحديث رقم : 121، و النسائي في الخصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، : 32، 33، الحديث رقم : 91. 25. عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَأَمَرَ الصَّلاَةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضي الله عنه ، فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ الحديث رقم 25 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 88، الحديث رقم : 116. 26. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَغَيَرُ، فَقَالَ : يَا بُرَيْدَةُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ : بَلَی، يَارَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مُوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْریٰ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ. ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے اپنی مسند میں، امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اور امام حاکم اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 26 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الحديث رقم : 22995، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 130، الحديث رقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4578، وابن ابي شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181. 27. عَنْ مَيْمُوْنٍ أَبِيْ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ رضی الله عنه وَ أَناَ أَسْمَعُ : نَزَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِوَادٍ يُقَالَ لَهُ وَادِی خُمٍ، فَأمَرَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلاَّهَا بِهَجِيْرٍ، قَالَ : فَخَطَبَنَا وَ ظُلِّلَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِثَوْبٍ عَلَی شَجَرَةِ سَمْرَةَ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَوْ لَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أَنِّيْ أَوْلٰٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنَ نَفْسِهِ؟ قَالُوَا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ وَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنُنِ الْکُبْرَی وَالطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت میمون ابو عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ . . جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ . . میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی’’ مسند ‘‘میں اور بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ‘‘میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 27 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 372، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 5 / 131، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5068، بسنده. 28. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. (خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے، اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 28 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 152، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 448، الحديث رقم : 6878، و الهيثم عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ : مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِي أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسْهِمْ؟ قَالُوْا : بَلٰی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. فَقَامَ إِثْنَا عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوْا بِذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. ’’ابو طفیل حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 40 : أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 2 / 576، الحديث رقم : 1987، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 157، 158، و محب الدين طبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485. 41. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ الْغَفَّارِيِّ. . . فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ نَبَّأْنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّهُ لَنْ يُعَمَّرَ نَبِيٌ إِلَّا نِصْفَ عُمْرِ الَّذِيْ يَلِيْهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَ إِنِّي لَأَظُنُّ أَنِّي يُوْشِکُ أَنْ أُدْعَی فَأُجِيْبُ، وَ إِنِّي مَسْؤُوْلٌ، وَ إِنَّکُمْ مَسْؤُوْلُوْنَ، فَمَاذَا أَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَغْتَ وَ جَهَدْتَ وَ نَصَحْتَ، فَجَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، فَقَالَ : أَلَيْسَ تَشْهَدُوْنَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، وَ أَنَّ جَنَّتَهُ حَقٌ وَ نَارَهُ حَقٌ، وَ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ، وَ أَنَّ الْبَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ حَقٌ، وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيْهَا وَ أَنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ؟ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ بِذَالِکَ، قَالَ : اللَّهُمَّ! إشْهَدْ، ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! إِنَّ اﷲَ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَی الْمُؤْمِنِيْنَ وَ أَنَا أَوْلَی بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ يَعْنِي عَلِيًّا رضی الله عنه . . . أَللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي فَرَطُکُمْ وَ إِنَّکُمْ وَارِدُوْنَ عَلَی الْحَوْضِ، حَوْضٌ أُعْرَضُ مَا بَيْنَ بُصْرَی وَ صَنْعَاءَ، فِيْهِ عَدَدَ النَّجُوْمِ قَدْحَانٌ مِنْ فِضَّةٍ، وَ إِنِّي سَائِلُکُمْ حِيْنَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ عَنِ الثَّقَلَيْنِ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخَلِّفُوْنِي فِيْهِمَا، الثَّقَلُ الْأَکْبَرُ کِتَابُ اﷲِل سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيَدِ اﷲِ وَ طَرَفُهُ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لَا تَضِلُّوا وَ لَا تُبْدَلُوْا، وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، فَإِنَّهُ قَدْ نَبَّأَنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّمَا لَنْ يَنْقَضِيَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 41 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 3 / 180، 181، الحديث رقم : 3052، و في 3 / 67، الحديث رقم : 2683، و في 5 / 166، 167، الحديث رقم : 4971، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 164، 165، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 1 / 188، 189، الحديث رقم : 957، 958، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 166، 167، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 463. 42. عَنْ جَرِيْرٍ قَالَ : شَهِدْنَا الْمَوْسِمَ فِي حَجَّةٍ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هِيَ حَجَّةُ الْوَدَاعِ، فَبَلَغْنَا مَکَانًا يُقَالُ لَهُ غَدِيْرُ خُمٍّ، فَنَادَی : الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَسْطَنَا، فَقَالَ : أَيُهَا النَّاسُ! بِمَ تَشْهَدُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : ثُمَّ مَهْ؟ قَالُوْا : وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَمَنْ وَلِيُکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَانَا، قَالَ : مَنْ وَلِيُکُمْ؟ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَی عَضْدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه، فَأَقَامَهُ فَنَزَعَ عَضْدَهُ فَأَخَذَ بِذِرَاعَيْهِ، فَقَالَ : مَنْ يَکُنِ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَيَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، اللَّهُمَّ! مَنْ أَحَبَّهُ مِنَ النَّاسِ فَکُنْ لَهُ حَبِيْبًا، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَکُنْ لَهُ مُبْغِضًا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 42 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 2 / 357، الحديث رقم : 2505، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 13 / 138، 139، الحديث رقم : 36437، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 179. 43. عَنْ عَمَرٍو ذِيْ مُرٍّ وَ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَا : خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ أعِنْ مَنْ أعَانَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 43 : أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 192، الحديث رقم : 5059، و النسائی في ’خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه، : 100، 101، الحديث رقم : 96، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 106، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 170، وحسام الدين الهندی في کنزالعمال، 11 / 609، الحديث رقم : 32946. 44. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعْدٍ أنَّ عَلِيًّا جَمَعَ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ وَ أنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَامَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَالِکَ. رَوَاهُ الهيثمي. ’’حضرت عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 44 : أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، و قال رواه الطبراني و أسناده حسن، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 171، و فيه 5 / 461، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 154، 155، الحديث رقم : 36480. 45. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ، إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 45 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969. 46. عنِ ابْنِ وَاثِلَةَ أنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ، يَقُوْلُ : نَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ مَکَّةَ وَ الْمَدِيْنَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسٍ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَکَنَّسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشِيَةً، فَصَلَّی، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اﷲَ وَ أثْنَی عَلَيْهِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ، فَقَالَ : مَا شَاءَ اﷲُ أنْ يَقُوْلَ : ثُمَّ قَالَ : أيُهَا النَّاسُ! إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتَمُوْهُمَا، وَ هُمَا کِتَابُ اﷲِ وَ أهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي، ثُمَّ قَالَ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهُمْ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأسْلَمِيِّ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت ابن واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا، نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت و عترت ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : بریدہ اسلمی کی روایت کردہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 46 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، 110، الحديث رقم : 4577 47. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلَی غَدِيْر خُمٍّ، فَأَمَرَ بِرَوْحٍِ فَکَسَحَ فِي يَوْمٍ مَا أَتَی عَلَيْنَا يَوْمٌ کَانَ أَشَدُّ حَرًا مِنْهُ، فَحَمِدَ اﷲَ وَ أَثْنيَ عَلَيْهِ، وَ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! أَنَّهُ لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ إِلَّا مَا عَاشَ نِصْفَ مَا عَاشَ الَّذِيْ کَانَ قَبْلَهُ وَ إِنِّيْ أوْشِکُ أَنْ أدْعٰی فَأجِيْبَ، وَ إِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ کِتَابُ اﷲِ عزوجل. ثُمَّ قَامَ وَ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه ، فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! مَنْ أَوْليَ بِکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور ہمارے اوپر اس دن سے زیادہ گرم دن اس سے پہلے نہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 47 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 533، الحديث رقم : 6272، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 171، 172، الحديث رقم : 4986. 48. عَنْ رَفَاعَةَ بْنِ إِيَاسٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ : کُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه يَوْمَ الْجَمَلِ، فَبَعَثَ إِلَی طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ أنْ إِلْقَنِيْ، فَأتَاهُ طَلْحَةُ، فَقَالَ : نَشَدْتُکَ اﷲَ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَلِمَ تُقَاتِلُنِيْ؟ قَالَ : لَمْ أذْکُرْ، قَالَ : فَانْصَرَفَ طَلْحَةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. ’’حضرت رفاعہ بن ایاس ضبی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے‘‘ الحديث رقم 48 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 371، الحديث رقم : 5594 49. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کَنَّا بِالْجَحْفَةِ بِغَدِيْرِ خُمٍّ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ. ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم جحفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر ہمارے پاس تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے‘‘ الحديث رقم 49 : أخرجه ابن ابی شيبه فی المصنف، 12 / 59، الحديث رقم : 12121 50. عَنْ أبِي يَزِيْدَ الْأوْدِيِّ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : دَخَلَ أبُوْهُرَيْرَةَ الْمَسْجِدَ فَاجْتَمَع إِلَيْهِ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَيْهِ شَابٌ، فَقَالَ : أنْشُدُکَ بِاﷲِ، أسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ. فَقَالَ : أشْهَدُ أنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ. ’’ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔ اس حدیث کو ابويعلی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 50 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 11 / 307، الحديث رقم : 6423، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 68، الحديث رقم : 12141، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 175، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 105، 106، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 174. 51. عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاﷲِ إِنِّيْ لَأَعْرِفُ عَلِيًّا وَمَا قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَشْهَدُ لَقَالَ لِعَلِيٍّ يَوْمَ غَدِيْرِخُمٍّ وَ نَحْنُ قُعُوْدٌ مَعَهُ فَأَخَذَ بِضُبْعِهِ ثُمَّ قَامَ بِهِ ثُمَّ قَالَ أَيُهَاالنَّاسُ مَنْ مَوْلَاکُمْ قَالُوْا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَوَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ. ’’حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متعلق جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو غدیر خم والے دن فرمایا : اس وقت جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر کا کونہ پکڑا اور کھڑے ہوئے پھر فرمایا : اے لوگو! تمہارا مولا کون ہے؟ تو صحابہ نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے۔ اے اﷲ تو اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور اس کو دوست بنا جو علی کو دوست بناتا ہے۔ اس حدیث کو شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 51 : أخرجه الشاشی فی المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106. 52. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوْرِقٍ قَالَ : کُنْتُ بِالشَّامِ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيْزِ يُعْطِيْ النَّاسَ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي : مِمَّنْ أنْتَ؟ قُلْتُ : مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ قُرَيْشٍ؟ قُلْتُ : مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قَالَ : فَسَکَتُّ. فَقَالَ : مِنْ أَيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قُلْتُ : مَوْلَی عَلِيٍّ، قَالَ : مَنْ عَلِيٌّ؟ فَسَکَتُّ، قَالَ : فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَی صَدْرِيْ وَ قَالَ : وَ أنَا وَاﷲِ مَوْلَی عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ : حَدِّثْني عِدَّةً أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، ثُمَّ قَالَ : يَا مَزَاحِمُ! کَمْ تُعْطِي أمْثَالَهُ؟ قَالَ : مِائَةً أوْ مِائَتَي دِرْهَمٍ، قَالَ : أَعْطِهِ خَمْسِيْنَ دِيْنَارًا، وَقَالَ ابْنُ أبِي دَاؤُدَ : سِتِّيْنَ دِيْنَارًا لِوِلَايَتِهِ عَلِيَّ بْنَ أبِي طالب رضی الله عنه، ثُمَّ قَالَ : ألْحَقُ بِبَلِدِکَ فَسَيَأتِيْکَ مِثْلُ مَا يَأتِي نُظَرَاءَ کَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ. ’’حضرت یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم. اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیلہ کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔ اس حدیث کو ابونعيم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 52 : أخرجه أبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 364، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 48 / 233، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 / 127، ابن اثير في اسد الغابه فی معرفة الصحابه، 6 / 427، 428 53. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه، قَالَ : لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي عَلِيٍّ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ يَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : إِنَّهُ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ. ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میرے لیے اسی طرح ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے، (وہ نبی تھے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام نسائی اور شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 53 : أخرجه النسائی في خصائص امير المومنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 33، 34، 88، الحديث رقم : 10، 80، و الشاشی في المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 88، وحسام الدين هندی في ’کنز العمال، 15 / 163، الحديث رقم : 36496. 54. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، أنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ بِحَفْرَةِ الشَّجَرَةِ بِخُمٍّ، وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : أيُهَا النَّاسُ! ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ. قَالُوْا : بَلَی، وَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ مُوْلَاکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَ ابْنُ عَسَاکِرَ وَحُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی عاصم، ابن عساکر اور حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 54 : أخرجه ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 603، الحديث رقم : 1360، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 161، 162، وحسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 13 / 140، الحديث رقم : 36441. 55. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ألَا! إِنَّ اﷲَ وَلِيِّي وَ أنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّ. ’’ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 55 : أخرجه حسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 11 / 608، الحديث رقم : 32945، و ابن حجر عسقلانی في الإصابه فی تمييز الصحابه، 4 / 328 56. عَنْ عَمَرِو بْنِ ذِيْ مُرٍّ وَ سَعِيْدِ بْنِ وَهْبٍ وَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يَثِيْعَ قَالُوْا : سَمِعْنَا عَلِيًّا يَقُوْلُ نَشَدْتُ اﷲَ رَجُلاً سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، لَمَّا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوْا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : ألَسْتُ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ أحِبَّ مَنْ أحَبَّهُ، وَ أبْغِضْ مَنْ يُبْغِضُهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ. ’’عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس (علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔ اس کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 56 : أخرجه البزار في المسند، 3 / 35، الحديث رقم : 786، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 105، و الطحاوی في مشکل الآثار، 2 / 308، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 159، 160، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 158، الحديث رقم : 36487، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 169، و في5 / 462. 57. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي لَيْلٰی، قَالَ : خَطَبَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُ اﷲَ امْرَءً نَشْدَةَ الْإِسْلَامِ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ أخَذَ بِيَدِي، يَقُوْلُ : ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ، إِلَّا قَامَ فَشَهِدَ، فَقَامَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوا، وَکَتَمَ فَمَا فَنَوْا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا عَمُّوْا وَ بَرَصُوْا۔ رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الهِنْدِيُّ. ’’عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔ اس کو حسام دین ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 57 : أخرجه حسام الدين هندی في کنز العمال، 13 / 131، الحديث رقم : 36417، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158. (5) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان : میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے) 58. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا إِنَّ عَلِيًّا مِّنِّيْ وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 58 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 632، الحديث رقم : 3712، وابن حبان في الصحيح، 15 / 373، الحديث رقم : 6929، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، الحديث رقم : 4579، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 132، الحديث رقم : 8474، و ابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 373، 372، الحديث رقم : 32121، وأبويعلی في المسند، 1 / 293، الحديث رقم : 355، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 128، الحديث رقم : 265. 59. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ : وَ قَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ قَالَ : وَ عَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ. فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ : أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ، فَتَرَکَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ : أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ فَأَبَوْا قَالَ، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أُوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. فَقَالَ : أَنْتَ وَلِيِّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے بیٹوں سے کہا تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرے ساتھ دوستی کرے گا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے انکار کردیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی تو دنیا وآخرت میں میرا دوست ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے آگے ان میں سے ایک اور آدمی کی طرف بڑھے اور فرمایا : تم میں سے دنیا و آخرت میں میرے ساتھ کون دوستی کرے گا؟ تو انہوں نے بھی انکار کردیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پر پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اﷲ! میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 59 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، والحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603. 60. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ أحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو میرے بعد ہر مومن کے لئے میرا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 60 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062. 61. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنَّبَلٍ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ. ’’حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير،، اور ’’ المعجم الاوسط،، میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 61 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 361، الحديث رقم : 23107، و الحاکم في المستدرک، 2 / 141، الحديث رقم : 2589، و الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4968، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 100، 101، الحديث رقم : 2204، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 57، الحديث رقم : 12114، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 601، 603، الحديث رقم : 1351، 1366، و أحمد بن حنبل أيضا في فضائل الصحابه، 2 / 563، الحديث رقم : 947. 62. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَإِنَّ عَلِيًّا وَلِيُهُ. وَ فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَ الْحَاکِمُ وَ عَبْدُالرَّزَّاقُ وَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. ’’حضرت عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل، حاکم، عبدالرزاق اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 62 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23080، و الحاکم في المستدرک، 2 / 129، الحديث رقم : 2589، و عبدالرزاق في المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181، و الهيثمی في ’مجمع الزوائد، 9 / 108، و النسائی في الخصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب رضی الله عنه : 85، 86، الحديث رقم : 77، وحسام الدين الهندی في’کنزالعمال، 11 / 602، الحديث رقم : 32905، وأبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 / 23، وابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 76. 63. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِيْ بِوِلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَ مَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّی اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أحَبَّهُ فَقَدْ أحَبَّنِي، وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أبْغَضَهُ فَقَدْ أبْغَضَنِيْ وَ مَنْ أبْغَضَنِي فَقَدْ أبْغَضَ اﷲَ عزوجل. رَوَاهُ الهيثمي فِي مَجْمَعِ الزَّوَائِدِ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔ اس حدیث کو ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 63 : أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، 109، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 45 : 181، 182، وحسام الدين الهندی في کنز العمال، 11 / 611، الحديث رقم : 32958. 84. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ خَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. قَالَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ : فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اﷲِ لَا فَبَکَي عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُونَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسٰي؟ إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ. إِنَّهُ لَا يَنْبَغِيْ أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَ أَنْتَ خَلِيْفَتِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : کیا میں بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے ساتھ چلوں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لئے تھے؟ مگر یہ کہ تو نبی نہیں۔ تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کوچ کرنا مناسب نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ (9) بَابٌ فِيْ قُرْبِهِ وَ مَکَانَتِهِ رضي الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم (علی المرتضیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قرب اور مقام و مرتبہ)85. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِيْ، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ . ’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے‘‘ الحديث رقم 85 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3722، وفيابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3729، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 135، الحديث رقم : 4630، والمقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 235، الحديث رقم : 614، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 142، الحديث رقم : 8504. 86. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ ’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘‘ الحديث رقم 86 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الحديث رقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1321، والطبراني في العمجم الکبير، 2 / 186، الحديث رقم : 1756. 87. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ يَاعَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِيْ هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِيْ وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الحديث؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِيْ وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 87 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 639، الحديث رقم : 3727، والبزار في المسند، 4 / 36، الحديث رقم : 1197، و أبو يعلي في المسند، 2 / 311، الحديث رقم : 1042، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 65، الحديث رقم : 13181. 88. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ لَا تُمِتْنِيْ حَتَّي تُرِيَنِيْ عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو (واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں، اس حدیث کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 88 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 643، الحديث رقم : 3737، و الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 68، الحديث رقم : 168، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 48، الحديث رقم : 2432، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 609، الحديث رقم : 1039. 89. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَةُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 89 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 633، الحديث رقم : 3714، و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، 3 / 134، الحديث رقم : 4629، و الطبراني في المعجم الاوسط، 6 / 95، الحديث رقم : 5906، و البزار في المسند، 3 / 52، الحديث رقم : 806، و أبويعلي في المسند، 1 : 418، الحديث رقم : 550. 90. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا رضي الله عنه يُضَحِّيْ بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّيَ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’حضرت حنش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 90 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الحديث رقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 150، الحديث رقم : 1285. 91. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 91 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب التنحنح في الصلاة، 3 / 12، الحديث رقم : 1212، و ابن ماجة في السنن، کتاب الأدب، باب الإستئذان، 2 / 1222، الحديث رقم : 3708، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 360، الحديث رقم : 1136، و ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 242، الحديث رقم : 25676. 92. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيئْ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 92 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 318، الحديث رقم : 4314، والحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4647، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116. 93. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَي إِنَّکَ أَخِيْ وَ أَنَا أَخُوْکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا : تم اس پر راضی نہیں کہ تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 93 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم : 949، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131. 94. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ سَاعَةٌ مِنَ السَّحَرِ أَدْخُلُ فِيْهَا عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَإِنْ کَانَ قَائِمًا يُصَلِّيْ سَبَّحَ بِيْ فَکَانَ ذَاکَ إِذْنُهُ لِيْ. وَ إِنْ لَمْ يَکُنْ يُصَلِّيْ أَذِنَ لِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سحری کے وقت ایک ساعت ایسی تھی کہ جس میں مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا نصیب ہوتا۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو مجھے بتانے کے لیے تسبیح فرماتے پس یہ میرے لئے اجازت ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو مجھے اجازت عنایت فرما دیتے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 94 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 570 95. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيِّ الْحَضْرَمِِيِّ عَنْ أَبِيْهِ فِيْ رِوَايةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ لِيْ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَنْزِلَةٌ لَمْ تَکُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الخَلَائِقِ، ..... رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 95 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 85، الحديث رقم : 647، و البزار في المسند، 3 / 98، الحديث رقم : 879، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 374، الحديث رقم : 757. 96. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عِنْدَ امْرَأَةِ مِنَ الأَنْصَارِ، صَنَعَتْ لَهُ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ أَبُوبَکْرٍ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَدَخَلَ عُمَرُ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ : يَدْخُلُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم، يُدْخِلُ رَأْسَهُ تَحْتَ الْوَدِيِّ فَيَقُوْلُ : اللَّهُمَّ! إِنْ شِئْتَ جَعَلْتَهُ عَلِيًّا فَدَخَلَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَهَنَّيْنَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کھانا تیار کیا تھا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر انور چھوٹی کھجور کی شاخوں میں سے نکالے ہوئے فرما رہے تھے اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو اس آنے والے کو علی بنا دے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 96 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 331، الحديث رقم : 14590، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209، الحديث رقم : 233. 97. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ آپ فرماتی ہیں : اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے سمجھا آپ کو شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا پس ہم باہر آ گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 97 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 300، الحديث رقم : 26607، و الحاکم في المستدرک، 3 / 149، الحديث رقم : 4671، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 112. 98. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْمَدِيْنَةِ فِي الْهِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَه حَتَّي أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وِلِذَا کَانَ يُسَمَّي الأَمِيْنُ. فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَبْتُ يَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي قَدِمْتُ بَنِيْ عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَي کُلْثُوْمِ بْنِ الْهِدْمِ، وَهُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا، میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلا یہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ھدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 98 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 22. 99. عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : عَلِيٌّ رضي الله عنه : بِتْنَا لَيْلَةً بِغَيْرِ عَشَاءٍ، فَأَصبَحْتُ فَخَرَجْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي فَاطِمَةَ عليها السلام. وَهِيَ مَحْزُوْنَةٌ فَقُلْتُ : مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ : لَمْ نَتَعَشَّ البَارِحًةَ وَلَمْ نَتَغَدَّ الْيَوْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا عَشَاءٌ، فَخَرَجْتُ فَالْتَمَسْتُ فَأَصَبْتُ مَا اشْتَرَيْتُ طَعَامًا وَلَحْمًا بِدِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بِهِ فَخَبَزَتْ وَطَبَخَتْ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ إِنْضَاجِ الْقِدْرِ قَالَتْ : لَوْ أَتَيْتَ أَبِيْ فَدَعَوْتَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْجُوْعِ ضَجِيْعًا، فَقُلْتُ : بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَارَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدَنَا طَعَامٌ فَهَلُمَّ، فَتَوَکَّأَ عَلَيَّ حَتَّي دَخَلَ وَالْقِدْرُ تَفُوْرُ فَقَالَ : اغْرِفِيْ لِعَائِشَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِحَفْصَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، حَتَّي غَرَفَتْ لِجَمِيْعِ نِسَائِهِ التِِّسْعِ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِأَبِيْکِ وَ زَوْجِکِ فَغَرَفَتْ فَقَالَ : اغْرِفِي فَکُلِيْ فَغَرَفَتْ، ثُمَّ رَفَعَتِ الْقِدْرَ وَإِنَّهَا لَتَفِيْضُ، فَأَکَلْنَا مِنْهَا مَاشَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی. ’’امام جعفر بن محمد الباقر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم نے ایک رات بغیر شام کے کھانے کے گزاری پس میں صبح کے وقت گھر سے نکل گیا پھر میں فاطمہ کی طرف لوٹا تو وہ بہت زیادہ پریشان تھی میں نے کہا اے فاطمہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہم نے گذشتہ رات کھانا نہیں کھایا اور آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج پھر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے پس میں باہر نکلا اور کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا پس میں نے وہ چیز پالی جس سے میں کچھ طعام اور ایک درہم کے بدلے گوشت خرید سکوں پھر میں یہ چیزیں لے کر فاطمہ کے پاس آیا، اس نے آٹا گوندھا اور کھانا پکایا اور جب ہنڈیا پکانے سے فارغ ہو گئی تو کہنے لگی اگر آپ میرے والد ماجد کو بھی بلا لائیں؟ پس میں گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اﷲ! میں بھوکے لیٹنے سے پناہ مانگتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمارے پاس کھانا موجود ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔اس وقت ہنڈیا ابل رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ! عائشہ کے لئے کچھ سالن رکھ لو۔ پس فاطمہ نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے سالن نکال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حفصہ کے لئے بھی کچھ سالن نکال لو پس انہوں نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے بھی سالن رکھ دیا یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو ازواج کے لئے سالن رکھ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے والد اور خاوند کے لئے سالن نکالو پس انہوں نے نکالا پھر فرمایا : اپنے لئے سالن نکالو اور کھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے ہنڈیا کو اٹھا کر دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی پس ہم نے اس میں سے کھایا جتنا اللہ نے چاہا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ (سبحان اﷲ) الحديث رقم 99 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 1 / 187. (10) بَابٌ فِي کَوْنِهِ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَي اﷲِوَ رَسُوْلِهِ صلي الله عليه وآله وسلم (لوگوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب)100. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 100 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3721، و الطبراني في المعجم الاوسط، 9 / 146، الحديث رقم : 9372، وابن حيان في الطبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 454 . 101. عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 101 : أخرجه الترمذي في ابواب المناقب باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الحديث رقم : 3868، والطبراني في المعجم الاوسط، 8 / 130، الحديث رقم : 7258، والحاکم في المستدرک، 3 : 168، رقم : 4735. 102. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَئَلْتُ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 102 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، أبواب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الحديث رقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 / 171. 103. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ اُمِّيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَمِعْتُهَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ وَهِيَ تَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ : تَسْأَلُنِيْ عَنْ رَجُلٍ وَاﷲِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيٍّ وَلَا فِيْ الْأَرْضِ إِمْرأَةٌ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ إِمْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْأَسْنَادِ. ’’حضرت جمیع ابن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس حاضر ہوا، میں نے پردہ کے پیچھے سے آواز سنی ام المومنین میری والدہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ رہی ہیں بخدا میرے علم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب نہ تھا اور نہ روئے زمین پر ان کی بیوی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا) سے بڑھ کر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں محبوب تھی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 103 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الحديث رقم : 4731، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الحديث رقم : 8497. 104. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ أَخْدِمُ رَسُوْلَ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُدِّمَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَرْخٌ مَشْوِيٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِيْ بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ هَذَا الطَّيْرِ قَالَ : فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَليَ حَاجَّةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي حاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : افْتَحْ فَدَخَلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا حَبَسَکَ عَلَيَّ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ آخِرُ ثَلاَثِ کَرَّاتٍ يَرَدُّنِيْ أَنَسٌ يَزْعَمُ إِنَّکَ عَلَي حَاجَةٍ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَيَّ مَا صَنَعْتَ؟ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ سَمِعْتُ دُعَاءَ کَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَکُوْنَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : إنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اﷲ! کسی انصاری کو اس دعا کا مصداق بنا دے، اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ وہ واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پھر میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ پھر آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انس! اس کیلئے دروازہ کھول دو، وہ اندر داخل ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : تجھے کس نے میرے پاس آنے سے روکا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تین میں سے آخری بار ہے کہ انس مجھے یہ کہہ کر واپس کرتے رہے کہ آپ کسی کام میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے میرے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دعا کرتے سن لیا تھا۔ پس میری خواہش تھی کہ یہ (خوش نصیب) شخص انصار میں سے ہو۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر آدمی اپنی قوم سے پیار کرتا ہے۔ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 104 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4650، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الحديث رقم : 7466، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 253، الحديث رقم : 730، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 126. 105. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أُيُهَا النَّاسُ! لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ! إِنَّهُ لَأَخْشَنُ فِيْ ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ . ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 105 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الحديث رقم : 11835، و الحاکم في المستدرک، 3 / 144، الحديث رقم : 4654، و ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 8. 106. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ وَ جِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل آپ سے راضی ہیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 106 : أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم؛ 946، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131. (11) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ أَحَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ أَحَبَّنِيْ وَمَنْ أَبْغَضَ عَلِيًّا رضي الله عنه فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ (حبِ علی رضی اللہ عنہ حبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بغضِ علی رضی اللہ عنہ بغضِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)107. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ : مَنْ أَحَبَّنِيْ وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَ أَبَاهُمَا وَ أُمَّهُمَا کَانَ مَعِيَ فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا : جو مجھ سے محبت کرے گا اور ان دونوں سے اور ان دونوں کے والد (یعنی علی رضی اللہ عنہ) اور دونوں کی والدہ (یعنی فاطمہ رضی اﷲ عنہا) سے محبت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 107 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3733، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 576، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 77، الحديث رقم : 576، و ايضاً في 2 / 163، الحديث رقم : 960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 45، الحديث رقم : 421. 108. عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسِ نالأَسْلَمِيِّ قَالَ (وَ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ) قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّّ إِلَي الْيَمَنِ، فَجَفَانِي فِي سَفَرِي ذَلِکَ، حَتَّي وَجَدْتُ فِي نَفْسِيْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَظْهَرْتُ شَکَايَتَهُ فِي الْمَسْجِدِ حَتّي بَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدَاةٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَانِي أَبَدَّنِي عَيْنَيْهِ يَقُوْلُ : حَدَّدَ إِلَيَّ النَّظَرَ حَتّي إِذَا جَلَسْتُ قَالَ يَا عَمَرُو! وَاﷲِ! لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ أَنْ أُؤْذِيَکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ بَلَي، مَنْ آذَي عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن شاس اسلمی رضی اللہ عنہ جو کہ اصحاب حدیبیہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے خلاف کچھ محسوس کرنے لگا، پس جب میں (یمن سے) واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کا اظہار کر دیا یہاں تک کہ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئی پھر ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بڑے غور سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھ گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! خدا کی قسم تونے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اذیت دینے سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں جو علی کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 108 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 483، و الحاکم في المستدرک، 3 / 131، الحديث رقم : 4619، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 129، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 579، الحديث رقم : 981. والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 3060.307. 109. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ رضي اﷲ عنها فَقَالَتْ لِيْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : مَعَاذَ اﷲِ! أَوْ سُبْحَانَ اﷲِ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. ’’حضرت عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کہا : کیا تمہارے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا اﷲ کی پناہ یا میں نے کہا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 109 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 323، الحديث رقم : 26791، والحاکم في المستدرک، 3 / 130، الحديث رقم : 4615، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 133، الحديث رقم : 8476، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130. 110. عَنِ ابِْن أَبِيِ مَلِيْکَةَ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَسَبََّ عَلِيّاً عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَصَبَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا عَدُوَّاﷲِ آذَيْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْأَخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا) لَوْکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيّاً لَآذَيْتَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام سے ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے اس کو ایسا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : اے اﷲ کے دشمن تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی ہے۔ (پھر یہ آیت پڑھی) ’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اﷲ نے ان کے لئے ایک ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے پھر فرمایا : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوتے تو یقیناً (تو اس بات کے ذریعے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کا باعث بنتا۔ اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 110 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 121، 122، الحديث رقم : 4618. 111. عَنْ أَبِيْ عَبْدِاﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : حَجَجْتُ وَ أَنَا غُلاَمٌ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِيْنَةِ وَ إِذَا النَّاسَ عُنُقٌ وَاحِدًٌ فَاتَّبَعْتُهُمْ، فَدَخَلُوْا عَلٰي أُمِّ سَلْمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْتُهَا تَقُوْلُ : يَا شَبِيْبَ بْنَ رَبْعِيٍ، فَأَجَابَهَا رَجُلٌ جَلْفٌ جَافٌ : لَبَّيْکَ يَا أَمَّتَاهُ، قَالَتْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَادِيْکُمْ؟ قَالَ : وَ أَنّٰي ذٰلِکَ! قَالَتْ : فَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ : إِنَّا لَنَقُوْلْ شَيْئاً نُرِيْدُ عَرَضَ هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَتْ : فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت ابو عبداﷲ جدلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک غلام کے ساتھ حج کیا پس میں مدینہ کے پاس سے گزرا تو میں نے لوگوں کو اکھٹا (کہیں جاتے ہوئے)دیکھا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ سارے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے پس میں نے ان کوآواز دیتے ہوئے سنا کہ اے شبیب بن ربعی! ایک روکھے اور سخت مزاج آدمی نے جواب دیا ہاں میری ماں! تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : کیا تمہارے قبیلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا حضرت علی بن ابی طالب کو گالی دی جاتی ہے؟ تو اس نے کہا ہم جو بھی کہتے ہیں اس سے ہماری مراد دنیاوی غرض ہوتی ہے۔ پس آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی۔ اس حدیث کو حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 111 : أخرجه الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616، وقال الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح، و ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533. 42 / 266، 266، 267. 268، 533. 112. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ أَنْتَ سَيِدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِدٌ فِي الْآخِرَةِ حَبِيْبُکَ حَبِيْبِيْ وَ حَبِيْبِيْ حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّيْ وَ عَدُوِّيْ عَدُوُّ اﷲِ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے‘‘ الحديث رقم 112 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4640، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 325، الحديث رقم : 8325. 113. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ : طَوْبٰي لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لَمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْيَعْلَی. وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْاِسْنَادِ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے فرماتے ہوئے سنا (اے علی) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ہلاکت ہو اس کے لئے جو تجھ سے بغض رکھتا ہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔ اس حدیث کو حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 113 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4657 وأبو يعلي في المسند، 3 / 178.179، الحديث رقم : 1602، و الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 337، الحديث رقم : 2157. 114. عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : مُحِبُّکَ مُحِبِّيْ وَ مُبْغِضُکَ مُبْغِضِيْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ (12) بَابٌ فِي کَوْنِ حُبِّهِ عَلَامَةَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ بُغْضِهِ رضي الله عنه عَلَامَةَ الْمُنَافِقِيْنَ (حبِ علی رضی اللہ عنہ علامتِ ایمان ہے اور بغضِ علی رضی اللہ عنہ علامتِ نفاق ہے)117. عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’ حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 117 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325. 118. عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 118 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736. 119. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ اﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنَّّهُ يُحِبُّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ! ہمیں ان کے نام بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے، اور باقی تین ابو ذر، مقداد اور سلمان ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 119 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172. 120. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 120 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295. 121. عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔ الحديث رقم 121 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886. 122. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ. ’’ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 122 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132. 123. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ اﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ اﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ. ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 123 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251. (13) بَابٌ فِي تَلْقِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ بِأَبِيْ تُرَابٍ وَ سَيِّدِ الْعَرَبِ (ابو تراب اور سید العرب کے مصطفوی القاب)124. عَنْ أَبِيْ حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ : مَا کَانَ لِعَلِيٍّ إِِسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَ إِنْ کَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا۔ فَقَالَ لَهُ : أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ. لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ : جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ. فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ فَقَالَتْ : کَانَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَهُ شَيْيئٌ. فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِيْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِإِنْسَانٍ : انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ. فَجَاءَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَآؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ. فَجَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَ يَقُوْلُ : قُمْ أَبَا التُّرَابِ. قُمْ أَبَاالتُّرَابِ! مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. ’’حضرت ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب سے بڑھ کر کوئی نام محبوب نہ تھا، جب ان کو ابو تراب کے نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ راوی نے ان سے کہا ہمیں وہ واقعہ سنائیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ابو تراب کیسے رکھا گیا؟ انہوں نے کہا ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ عرض کیا میرے اور ان کے درمیان کچھ بات ہوگئی جس پر وہ خفا ہو کر باہر چلے گئے اور گھر پر قیلولہ بھی نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا : جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں؟ اس شخص نے آ کر خبر دی کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کی چادر ان کے پہلو سے نیچے گر گئی تھی اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے وہ مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے : اے ابو تراب (مٹی والے)! اٹھو، اے ابو تراب اٹھو۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 124 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المساجد، باب نوم الرجال في المسجد، 1 / 169، الحديث رقم : 430، و البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب القائلة في المسجد، 5 / 2316، الحديث رقم : 5924، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1874، الحديث رقم : 2409، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 446، الحديث رقم : 4137، و الحاکم في معرفة علوم الحديث، 1 / 211. 125. عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَاﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَاﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. ’’حضرت ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے۔ اس پر حضرت سہل رضی اللہ عنہ ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا۔ میں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عہنا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب! اٹھو، اے ابو تراب۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 125 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1358، الحديث رقم : 3500، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 368، الحديث رقم : 6925، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 167، الحديث رقم : 5879، و الروياني في المسند، 2 / 188، الحديث رقم : 1015، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 150، الحديث رقم : 183، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 296، الحديث رقم : 852، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 144. 126. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 126 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 133، الحديث رقم : 4625، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 127، الحديث رقم : 1468، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116. 127. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِيْ سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 127 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4626، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131، و أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 63. 128. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا أَنَسُ إِنْطَلِقْ فَادْعُ لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ يَعْنِيْ عَلِيًّا فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ، فَلَمَّا جَاءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْأَنْصَارِ فَأَتَوْهُ فَقَالَ لَهُمْ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَي مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ : هَذَا عَلِيٌّ فَأَحِبُّوْهُ بِحُبِّيْ وَکَرِّمُوْهُ لِکَرَامَتِيْ فَإِنَّ جِبْرَئِيْلَ أَمَرَنِيْ بِالَّذِيْ قُلْتُ لَکُمْ عَنِ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيالْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’امام حسن بن علی رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے انس! میرے پاس عرب کے سردار کو بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا، کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے ذریعے انصار کو بلا بھیجا جب وہ آ گئے تو فرمایا : اے گروہِ انصار! میں تمہیں وہ امر نہ بتاؤں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ علی ہے تم میری محبت کی بنا پر اس سے محبت کرو اور میری عزت وتکریم کی بنا پر اس کی عزت کرو، جو میں نے تم سے کہا اس کا حکم مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام نے دیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 128 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 88، الحديث رقم، 2749، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 63. 129. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ رضي الله عنه نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. ’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 129 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الحديث رقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101. 130. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا رضي الله عنه بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ. ’’حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 130 : أخرجه البزار في المسند، 4 / 248، الحديث رقم : 1417، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101. (14) بَابٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه فَاتِحاً لِخَيْبَرَ وَ صَاحِبَ لِوَاءِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم (آپ کا فاتحِ خیبراور علمبردارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا)131. عَنْ سَلَمَةَ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَال : أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلاً يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أَوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکۂ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکلے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ یہ حدیث متفق علیہ۔‘‘ الحديث رقم 131 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3499، و في کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3972، و في کتاب الجهاد و السير، باب ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1086، الحديث رقم : 2812، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1872، الحديث رقم : 2407، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 6 / 362، الحديث رقم : 12837. 132. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اﷲُ عَلٰي يَدَيْهِ. يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ. وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوْکُوْنَ لَيْلَتَهُمْ أَيُهُمْ يُعْطَاهَا. قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. کُلُّهُمْ يَرْجُوْ أَنْ يُعْطَاهَا. فَقَالَ : أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا : هُوَ يَا رَسُولَ اﷲِ! يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ. قَالَ : فَأَرْسِلُوْا إِلَيْهِ. فَأُتِيَ بِه فَبَصَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَيْنَيْهِ. وَ دَعَا لَهُ، فَبَرَأَ. حَتَّي کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ. فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ. فَقَالَ عَلِيٌّ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! أُقَاتِلُهُمْ حَتَّي يَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ : أُنْفُذْ عَلَي رِسْلِکَ. حَتَّي تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ. ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَي الْإِسْلَامِ. وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اﷲِ فِيْهِ. فَوَاﷲِ! لَأَنْ يَهْدِيَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. ’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا پھر صحابہ نے اس اضطراب کی کیفیت میں رات گزاری کہ دیکھئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو بلاؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے حق میں دعا کی تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی تکلیف ہی نہ تھی، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نرمی سے روانہ ہونا، جب تم ان کے پاس میدان جنگ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، بخدا اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘ الحديث رقم 132 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3973، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3498، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1872، الحديث رقم : 2406، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الحديث رقم : 22872، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 377، الحديث رقم : 6932، و أبو يعلي في المسند، 13 / 531، الحديث رقم : 7537. 133. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ. يَفْتَحُ اﷲُ عَلَي يَدَيْهِ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ. قَالَ فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَي لَهَا. قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ. فَأَعْطَاهُ إِيَاهَا. وَقَالَ امْشِ. وَلَا تَلْتَفِتْ. حَتَّي يَفْتَحَ اﷲُ عَلَيْکَ. قَالَ فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ. فَصَرَخَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! عَلَي مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ قَاتِلْهُمْ حَتَّي يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْکَ دِمَاءَ هُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ. إِلَّا بِحَقِّهَا. وَ حِسَابُهُمْ عَلَي اﷲِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا : کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی، اس دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس امید سے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کیلئے بلائیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور فرمایا جاؤ اور ادھر ادھر التفات نہ کرنا، حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ دور گئے پھر ٹھہر گئے اور ادھر ادھر التفات نہیں کیا، پھر انہوں نے زور سے آواز دی یا رسول اللہ! میں لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دیں اور جب وہ یہ گواہی دے دیں تو پھر انہوں نے تم سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیا الّا یہ کہ ان پر کسی کا حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 133 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1871، 1872، الحديث رقم : 2405، وابن حبان في الصحيح، 15 / 379، الحديث رقم : 6934، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 179، الحديث رقم : 8603، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 88، الحديث رقم : 78، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 110. 134. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ : ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَي عَلِيٍّ، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ، أَوْ يَحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُولُهُ. قَالَ : فأَتَيْتُ عَلِيًّا، فَجِئْتُ بِهِ أَقُوْدُهُ، وَهُوَ أَرْمَدُ، حَتَّي أَتَيْتُ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَبَصَقَ فِيْ عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ، وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاکِي السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ کَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُو فِيهِمُ بِالصَّاعِ کَيْلَ السَّنْدَرَهْ قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ کَانَ الفَتْحُ عَلَي يَدَيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلانے کے لئے بھیجا اور ان کو آشوب چشم تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ضرور بالضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آیا اس حال میں کہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ اور پھر اُنھیں جھنڈا عطا کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مرحب نکلا اور کہنے لگا۔‘‘ (تحقیق خیبر جانتا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں اور جب جنگیں ہوتی ہیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے) پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو یا ان کے درمیان ایک پیمانوں میں ایک بڑا پیمانہ) راوی بیان کرتے ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور اس کو قتل کر دیا پھر فتح آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 134 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب غزوة الأحزاب و هي الخندق، 3 / ، 1441، الحديث رقم : 1807، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 382، الحديث رقم : 6935، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 51، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 393، الحديث رقم : 36874، و الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 17، الحديث رقم : 6243. 135. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَمِنْهَا عَنْهُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ اللِّوَاءَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ. فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ، دَعَا عَلِيًّا، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِيْ عَيْنَيْه وَأَعْطَاهُ اللِّوَاءَ، وَنَهَضَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَقِيَ أَهْلَ خَيْبَرَ، وإِذَا مَرْحَبٌ يَرْتَجِزُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَ هُوَ يَقُوْلُ : قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ أَطْعَنُ أَحْيَانًا وَحِينًا أَضْرِبُ إِذَا اللُّيُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ قَالَ : فَاخْتَلَفَ هُوَ وَ عَلِيٌّ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبَهُ عَليَ هَامَتِهِ حَتَّي عَضَّ السَّيْفُ مِنْهَا بِأَضْرَاسِهِ، وَسَمِعَ أَهْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِهِ. قَالَ : وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِيٍّ حَتَّي فُتِحَ لَهُ وَلَهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل خبیر کے قلعہ میں اترے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں ضرور بالضرور اس آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پس جب اگلا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے معیت میں قتال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ آپ کا سامنا اہل خیبر کے ساتھ ہوا اور اچانک مرحب نے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یہ رجزیہ اشعار کہے : (تحقیق خیبر نے یہ جان لیا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور میں ایک تجربہ کار جنگجو ہوں۔ میں کبھی نیزے اور کبھی تلوار سے وار کرتا ہوں اور جب یہ شیر آگے بڑھتے ہیں تو بھڑک اٹھتے ہیں) راوی بیان کرتے ہیں دونوں نے تلواروں کے واروں کا آپس میں تبادلہ کیا پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی کھوپڑی پر وار کیا یہاں تک کہ تلوار اس کی کھوپڑی کو چیرتی ہوئی اس کے دانتوں تک آپہنچی اور تمام اہل لشکر نے اس ضرب کی آواز سنی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ان لوگوں میں سے کسی اور نے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقابلہ کا ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ فتح مسلمانوں کا مقدر ٹھہری۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 135 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23081، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 109، الحديث رقم : 8403، و الحاکم في المستدرک، 3 / 494، الحديث رقم : 5844، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 150، و الطبري في التاريخ الطبري، 2 / 136. 136. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ، يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ أَرْمَدُ الْعَيْنِ، قَالَ : فَتَفَلَ فِي عَيْنِي وَقَالَ : اللَّهُمَّ! أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلاَ بَرْدًا مُنْذُ يَوْمَئِذٍ. وَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ فَتَشَرَّفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِيْهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دوران مجھے بلا بھیجا اور مجھے آشوب چشم تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے آشوب چشم ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور فرمایا : اے اللہ! اس سے گرمی و سردی کو دور کر دے۔ پس اس دن کے بعد میں نے نہ تو گرمی اور نہ ہی سردی محسوس کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : میں ضرور بالضرور یہ جھنڈا اس آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 136 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 778، و في 1 / 133، الحديث رقم : 1117، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 564، الحديث رقم : 950. 137. عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ بِالرَّحَبَةِ، قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فِيْهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمَرٍو وَ أُنَاسٌ مِن رُؤَسَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَرَجَ إِلَيْکَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَ إِخْوَانِنَا وَ أَرِقَّائِنَا وَ لَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ، وَ إِنَّمَا خَرَجُوْا فِرَارًا مِن أَمْوَالِنَا وَ ضِيَاعِنَا فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا. فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثُنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَکُمْ بِالسَّيْفِ عَلَي الدِّيْنِ، قَدْ إِمْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ عَلَي الْإِيْمَانِ. قَالُوْا : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُوبَکْرٍ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ وَ قَالَ عُمَرُ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ، وَ کَانَ أَعْطَي عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا. قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کَذِبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. ’’حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رحبہ کے مقام پر فرمایا : صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی مشرکین ہماری طرف آئے جن میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کئی دیگر سردار تھے پس انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری اولاد، بھائیوں اور غلاموں میں سے بہت سے ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے ہیں جنہیں دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ یہ لوگ ہمارے اموال اور جائیدادوں سے فرار ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ یہ لوگ ہمیں واپس کر دیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے قریش! تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین اسلام کی خاطر تلوار کے ساتھ تمہاری گردنیں اڑا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے ایمان کو آزما لیا ہے۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما اور دیگر لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جوتیوں میں پیوند لگانے والا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت اپنی نعلین مبارک مرمت کے لئے دی تھیں۔ حضرت ربعی بن حراش فرماتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کر لے۔ اس حدیث کوامام ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ الحديث رقم 137 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 634، الحديث رقم : 3715، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 158، الحديث رقم : 3862، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 649، الحديث رقم : 1105. 138. عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشَيْنِ وَ أَمَّرَ عَلٰي أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ وَعَلٰي الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ، وَقَالَ : إِذَا کَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ : فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْناً فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَکَتَبَ مَعِيَ خَالِدٌ کِتَاباً إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم يَشِيْ بِهِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ عَلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَرَأَ الْکِتَابَ، فَتَغَيَرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ : مَا تَرَي فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَ مِنْ غَضَبِ رَسُولِه، وَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلٌ، فَسَکَتَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. ’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولشکر ایک ساتھ روانہ کیے۔ ایک کا امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور فرمایا : جب جنگ ہوگی تو دونوں لشکروں کے امیر علی ہوں گے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور مال غنیمت میں سے ایک باندی لے لی۔ اس پرحضرت خالد رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ ایک خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پڑھا تو چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ فرمایا : تم اس شخص سے کیا چاہتے ہو جو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں تو صرف قاصد ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘ الحديث رقم 138 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 638، الحديث رقم : 3725، و في کتاب الجهاد : باب ما جاء من يستعمل علي الحرب، 4 / 207، الحديث رقم : 1704، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 372، الحديث رقم : 32119. 139. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا قَالَ : وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيْهِ اﷲُ أَبَدًا، يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ، فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنِ اسْتَشْرَفَ. قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ؟ قَالُوْا : هُوَ فِي الرَّحٰي يَطْحَنُ قَالَ وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِيَطْحَنَ؟ قَالَ، فَجَاءَ وَ هُوَ أَرْمَدُ لَا يَکَادُ يُبْصِرُ. قَالَ؟ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلاَ ثًا فَأَعْطَاهَا إِيَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہے وہ اس آدمی میں جھگڑا کر رہے تھے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں (فلاں غزوہ کے لئے) اس آدمی کو بھیجوں گا جس کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ پس (اس جھنڈے) کے حصول کی سعادت کے لئے ہر کسی نے خواہش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیس رہا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو آشوب چشم تھا اور اتنا سخت تھا کہ آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں پھونکا پھر جھنڈے کو تین دفعہ ہلایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطاء کر دیا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 139 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و الحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 113، الحديث رقم : 8409، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 603، الحديث رقم : 1351. 140. عَنْ هُبَيْرَةَ : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأَوْسَطِ. ’’حضرت ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی ر ضی اللہ عنھما نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ رضی اللہ عنہ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 140 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الحديث رقم : 1719، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 336، الحديث رقم : 2155. 141. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ الرَّايَةَ فَهَزَّهَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ يَأْخُذُهَا بِحَقِّهَا؟ فَجَاءَ فُلاَنٌ فَقَالَ : أَنَا، قَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي کَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَأُعْطِيَنَّهَا رَجُلاً لاَ يَفِرُّ، هَاکَ يَا عَلِيُّ فَانْطَلَقَ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ وَ فَدَکَ وَجَاءَ بِعَجْوَتِهِمَا وَقَدِيْدِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ. ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا پکڑا اور اس کو لہرایا پھر فرمایا : کون اس جھنڈے کو اس کے حق کے ساتھ لے گا پس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا میں اس جھنڈے کو لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پیچھے ہو جاؤ پھر ایک اور آدمی آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی فرمایا پیچھے ہو جاؤ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے محمد کے چہرے کو عزت و تکریم بخشی میں یہ جھنڈا ضرور بالضرور اس آدمی کو دوں گا جو بھاگے گا نہیں۔ اے علی! یہ جھنڈا اٹھا لو پس وہ چلے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں خیبر اور فدک کی فتح نصیب فرمائی اور آپ ان دونوں (خیبر و فدک) کی کھجوریں اور خشک گوشت لے کر آئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابویعلی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 141 : أخرجه أحمد في المسند، 3 / 16، الحديث رقم : 11138، و أبويعلي في المسند، 2 / 499، الحديث رقم : 1346، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 151، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 583، الحديث رقم : 987. 142. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه مَولَي رَسُوْلِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه حِيْنَ بَعَثَهُ رَسُولُ اﷲِ بِرَأْيَتِهِ، فَلَمَّا دًنَا مِنَ الحِصْنِ، خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فقَاتَلَهُمْ، فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ، فَتَنَاولَ عَلِيٌّ رضي الله عنه بَابًا کَانَ عِنْدَ الحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ، فَلَمْ يَزِلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدَيْهِ حِيْنَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ، نَجْهَدُ عَلَي أَنْ نَقْلِبَ ذَلِکَ البَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْهَيْثَمِيُّ. ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے آپ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ پر ایک یہودی نے وار کرکے آپ کے ہاتھ سے ڈھال گرا دی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا ایک دروازہ اکھیڑ کر اسے اپنی ڈھال بنالیا اور اسے ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے جنگ میں شریک رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہوجانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے، ہم آٹھ کے آٹھ مل کر اس دروازے کو الٹنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ دروازہ (جسے حضرت علی نے تنہا اکھیڑا تھا) نہ الٹایا جا سکا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 142 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند،، 6 / 8، الحديث رقم : 23909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 152. 143. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه : أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه حَمَلَ البَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتَّي صَعِدَ المُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلا. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کرلیا اور یہ آزمودہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 143 : أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، 6 / 374، الحديث رقم : 32139، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 478، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 438، الحديث رقم : 1168، وَقَالَ العجلونِي : رَواهُ الحَاکِمُ وَالبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرٍ، والطبراني في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306. 144. عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ کَانَ صَاحِبَ لِوَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، يَوْمَ بَدْرٍ وَ فِي کُلِّ مَشْهَدٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سمیت ہر معرکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم بردار تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 144 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 23. (15) بَابٌ فِيأَمْرِالنَّبِيِّ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ رضي الله عنه (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باب علی رضی اللہ عنہ کے سوا باقی سب دروازوں کا بند کروا دیا جانا)145. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت عبد اﷲابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 145 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3732، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115. 146. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَبْوَابٌ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ : فَقَالَ يَوْماً : سُدُّوْا هَذِهِ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ فِيْ ذَلِکَ النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَحَمِدَ اﷲَ تعالٰي وَأَثْنَي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّيْ أَمَرْتُ بِسَدِّ هَذِهِ الْأَبْوَابِ اِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، وَ قَالَ فِيْهِ قَائِلُکُمْ وَ إِنِّي وَاﷲِ مَا سَدَدْتُ شَيْئًا وَلَا فَتَحْتُهُ وَلَکِنِّيْ أُمِرْتُ بِشَييئٍ فَاتَّبَعْتُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ النَّسَائِيُّ وَ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ. ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ کرام کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے صحن میں کھلتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا : علی کا دروازہ چھوڑ کر باقی تمام دروازوں کو بند کر دو۔ راوی نے کہا کہ اس بارے میں لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : میں نے علی کے دروازے کو چھوڑ کر باقی سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں نے اس کے متعلق باتیں کی ہیں۔ بخدا میں نے اپنی طرف سے کسی چیز کو بند کیا نہ کھولا میں نے تو بس اس امرکی پیروی کی جس کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 146 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 369، الحديث رقم : 9502، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 118، الحديث رقم : 8423، و الحاکم في المستدرک، 3 / 135، الحديث رقم : 4631، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 114. 147. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ سَدَّ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ، فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَ هُوَ طَرِيقُهُ. لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیئے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی حالتِ جنابت میں بھی مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کا راستہ ہے اور اس کے علاوہ اس کے گھر کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 147 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062. 148. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زَمَنِ النَّّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : رَسُوْلُ اﷲِ خَيْرُ النَّاسِ، ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، وَ لَقَدْْ أُوْتِيَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ تَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النًَّعَمِ : زَوَّجَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ، وَ وَلَدَتْ لَهُ، وَ سَدَّ الأَبْوَابَ إِلَّا بَابَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تین خصلتیں عطا کی گئیں ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی مجھے مل جائے تو یہ مجھے سرخ قیمتی اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور وہ تین خصلتیں یہ ہیں) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی صاحبزادی سے کیا جس سے ان کی اولاد ہوئی اور دوسری یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے مگر ان کا دروازہ مسجد میں رہا اور تیسری یہ کہ ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن جھنڈا عطا فرمایا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 148 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند 2 / 26، الحديث رقم : 4797، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 120، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 567، الحديث رقم : 955. 149. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : أَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَسَدِّ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ کُلِّهَا غَيْرَ بَابَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ الْعَبَّاسُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْرَ مَا أَدْخُلُ أَنَا وَحْدِيْ وَ أَخْرُجُ؟ قَالَ مَا أُمِرْتُ بِشَيئٍ مِنْ ذَالِکَ فًسَدَّهَا کُلَّهَا غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ وَ رُبَّمَا مَرَّ وَ هُوَ جُنُبٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیا صرف میرے آنے جانے کیلئے راستہ رکھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم نہیں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ سب دروازے بند کروا دئیے اور بسا اوقات وہ حالت جنابت میں بھی مسجد سے گزر جاتے۔ اسے طبرانی نے’’المعجم الکبیر،، میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 149 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 246، الحديث رقم : 2031، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115. (16) بَابٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي اﷲ عنه الْعِلْمِيَةِ (آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ)150. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعِليٌّ بَابُهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 150 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3723، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 634، الحديث رقم : 1081، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 64. 151. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِيْنَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 151 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 137، الحديث رقم : 4637، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 44، الحديث رقم : 106. 152. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت جابر بن عبداﷲ رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو کوئی علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 152 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4639، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 65، الحديث رقم : 11061، و الهيثمي في المجمع الزوائد، 9 / 114، و المناوي في فيض القدير، 3 / 46، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 348. 153. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : وَ اﷲِ! مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيْمَا نَزَلَتْ وَ أَيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَي مَنْ نَزَلَتْ، إِنَّ رَبِّيْ وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُوْلًا وَ لِسَانًا طَلْقًا. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ. ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔ اسے ابونعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں اور ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 153 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 68، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 154. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلَيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قِيْلَ لِعَلِيٍّ : مَا لَکَ أَکْثَرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، حَدِيْثًا؟ قَالَ : إِنِّيْ کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُهُ أَنْبَأَنِي، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِي. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے آپ کثرت سے احادیث روایت کرنے والے ہیں؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : کہ اس کی وجہ یہ ہے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کا جواب ارشاد فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بات شروع فرما دیتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 154 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 155. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : سَلُوْنِيْ عَنْ کِتَابِ اﷲِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ آيَةٍ إِلَّا وَ قَدْ عَرَفْتُ بِلَيْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ، فِيْ سَهْلٍ أَمْ فِيْ جَبَلٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھ سے کتاب اللہ کے بارے سوال کرو پس بے شک کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ دن کو نازل ہوئی یا رات کو، پہاڑ میں نازل ہوئی یا میدان میں۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 155 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. (17) بَابٌ فِيْ کَوْنِهِ رضي الله عنه أَقْضَي الصَّحَابَةِ (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے)156. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ قَاضِيا، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تُرْسِلُنِيْ وَأَنَا حَدِيْثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِيْ بِالْقَضَاءِ، فقَالَ : إِنَّ اﷲَ سَيَهْدِيْ قَلْبَکَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَکَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْکَ الْخَصْمَانِ فَلاَ تَقْضِيَنَّ حَتَّي تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ أَحْرٰي أَنْ يَتَبَيَنَ لَکَ الْقَضَاءُ. قَالَ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أَوْ مَا شَکَکْتُ فِي قَضَآءٍ بَعْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ. ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے تم نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کار تمہارے لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 156 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الأقضيه، باب کيف القضاء، 3 / 301، الحديث رقم : 3582، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الحديث رقم : 636، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8417، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 10 / 86. 157. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ! تَبْعَثُنِي وَ أَنَا شَابٌّ، أَقْضِيْ بَيْنَهُمْ. وَ لاَ أَدْرِيْ مَا الْقَضَاءُ؟ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِيْ. ثُمَّ قَالَ : اللّهُمَّ! أَهْدِ قَلْبَهُ، وَ ثَبِّتْ لِسَانَهُ. قَالَ : فَمَا شَکَکْتُ فِيْ قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں ان کی درمیان فیصلہ کروں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پہ مارا پھر فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرما اور اس کی زبان کو حق پر قائم رکھ۔ فرمایا اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی بھی شک نہیں کیا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 157 : أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب الأحکام، باب ذکر القضاة، 2 / 774، الحديث رقم : 2310، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8419، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32068، و البزار في المسند، 3 / 126، الحديث رقم : 912، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 61، الحديث رقم : 94، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 580، الحديث رقم : 984، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 337 158. عَن عَبْدِ اﷲِ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَقْضَي أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ ابْنُ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 158 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4656، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 167، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338. 159. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ رضي اﷲ عنه : عَلِيٌّ أَقْضَانَا، وَ أُبَيٌّ أَقْرَأُنَا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : علی ہم سب سے بہتر اور صائب فیصلہ فرمانے والے ہیں اور ابی بن کعب ہم سب سے بڑھ کر قاری ہیں۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 159 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 345، الحديث رقم : 5328، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 113، الحديث رقم : 21123. 160. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : عَلِيٌّ أَقْضَانَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اسے ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 160 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339. 161. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ يَتَعَوَّذُ بِاﷲِ مِنْ مُعْضِلَةٍ لَيْسَ فِيْهَا أَبُوْ حَسَنٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس ناقابل حل اور مشکل مسئلہ سے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہوتے تھے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 161 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339. (18) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ (فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے)162. عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 162 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 152، الحديث رقم : 4682، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الحديث رقم : 10006، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، (و قال الهيثمي وثقه ابن حبان و قال مستقيم الحديث)، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6865 (عن معاذ بن جبل)، وأبونعيم في حلية الأولياء، 5 / 58. 163. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ. ’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘ الحديث رقم 163 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 52، الحديث رقم : 4681، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6866، وأبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 183. 164. عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رَأَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يَحِدُّ النَّظْرَ إِلَي عَلِيٍّ فَقِيْلَ لَهُ‘ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ. ’’ حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر ‘‘میں روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 164 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الحديث رقم : 207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 109. 165. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ. ’’ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 165 : أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 244، الحديث رقم : 1351. 166. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : رَأَيْتُ أَبَابَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَتِ! أَرَاکَ تُکثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا بُنَيَةُ! سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ. ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے۔ پس میں نے آپ سے پوچھا، اے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 166 : أخرجه ابن عساکر في تاريخه، 42 / 355، و الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14. 167. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : قَالَ : رَسُوْلُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 167 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 351. 168. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ وَجْه عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 168 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. 169. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 169 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. 170. عَنْ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ. ’’حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 170 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353. (19) بَابٌ فِي تَشَرُّفِهِ بِتَغْسِيْلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم. (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کا انتخاب)171. عَنْ عَبْدِ الوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَليِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِيَّ فِيْهِ : اغْسِلْنِي يَا عَلِيُّ إِذَا مِتُّ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا غَسَلْتُ مَيِّتًا قَطُّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِنَّکَ سَتَُهَيَأُ أَوْ تُيَسَّرُ، قَالَ عَلِيٌّ : فَغَسَلْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عبدالواحد بن ابی عون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اپنے اس مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی فرمایا : اے علی جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے غسل دینا تو آپ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے کبھی کسی میت کو غسل نہیں دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک عنقریب تو اس کے لئے تیار ہو جائے گا حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 171 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 280. 172. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : غَسَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَ أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَکَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ وَيَقُوْلُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، طِبْتَ مَيْتًا وَحَيًّا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی اور فضل بن عباس اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے تو کہتے تھے یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں آپ وصال فرما کر اور زندہ رہ کر دونوں حالتوں میں پاکیزہ تھے۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 172 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277. 173. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَالْفَضْلُ وَأَسَامَةُ يَحْجِبَانِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبْقَاتِ الکبريٰ. ’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے اور حضرت فضل اور اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پردہ کیا ہوا تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 173 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277. (20) بَابٌ فِي إِعْلَامِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ بِإِسْتِشْهَادِهِ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر دینا)174. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلَي جَبْلِ حِرَاءٍ. فَتَحَرَّکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اسْکُنْ. حِرَاءُ! فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ وَ سَعْدٌ بْنُ أَبِيْ وَقَّاصٍ رضی الله عنه. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. ’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حراء (پہاڑ) پرسکون رہو پس بے شک تجھ پر نبی ہے یا صدیق ہے یا شہید ہے (اور کوئی نہیں)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنھم تھے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ الحديث رقم 174 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة و الزبير،، 4 / 1880، الحديث رقم : 2417، وابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الحديث رقم : 6983، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 187 الحديث رقم : 1630، و الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 273، الحديث رقم : 890، و أبويعلي في المسند، 2 / 259، الحديث رقم : 970. 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 31 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 31 جولائی 2010 Najam bhai sharing ka bahut bhut shukria Shaan-e-Hazrat Abu Bakr Siddique رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62716 Shaan-e-Hazrat Umar Farooq رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62717 Shaan-e-Hazrat Usman Ghani رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62720 Shaan-e-Hazrat Ali رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...age__pid__62721 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔