NAJAMMIRANI مراسلہ: 31 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 31 جولائی 2010 فصل : 1 بيان إسمه ونسبه (صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نام و نسب)1. عن عروة، قال : أبو بکر الصّدّيق، إسمه عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة. شهد بدرا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأمّ أبي بکر رضي الله عنه، أمّ الخير سلمٰي بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالک وأمّ أمّ الخير، دلاف وهي أميمة بنت عبيد بن النّا قد الخزاعي. وجدّة أبي بکر، أمّ أبي قحافة أمينة بنت عبد العزّٰي بن حرثان بن عوف بن عبيد بن عويج بن عديّ بن کعب. ’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید اﷲ بن الناقد الخزاعی ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دادی (ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کی والدہ) کا نام امینہ بنت عبد العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک ہے۔‘‘ 1. طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 51، رقم : 1 2۔ ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 40) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ 3۔ طبری نے ’تاریخ الامم والملوک (2 : 350) ‘میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت کیا ہے۔ 2. عن الزّهريّ قال أبوبکر الصّدّيق إسمه عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب بن فهر. ’’زہری سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر ہے۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4403 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12870 3. وأمّا نسبه فهو عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرة بن کعب بن لؤيّ بن غالب يجتمع مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم في مرة بن کعب و عدد اٰبائهما الٰي مرة سوآء. ’’حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نسب عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب ہے جو کہ مرہ بن کعب پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے اور مرہ تک دونوں کے آباء کی تعداد برابر ہے۔‘‘ 1. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 9 2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 472 3. مبارک پوري، تحفة الأحوذي، 10 : 96 4. عن عائشة أمّ المؤمنين رضي اﷲ عنها قالت : اسم أبي بکر الّذي سمّاه أهله به عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو لٰکن غلب عليه اسم عتيق رضي اﷲ عنه. ’’ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام گھر والوں نے عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا لیکن آپ کی شہرت عتیق کے نام سے تھی۔‘‘ شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 70، رقم : 4 5. عن اللّيث بن سعد قال إنّما سمّي أبوبکر رضي الله عنه عتيقا لجمال وجهه وإسمه عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت لیث بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام عتیق آپ رضی اللہ عنہ کی خوبروئی کی وجہ سے رکھا گیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا اصل نام عبداﷲ بن عثمان ہے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 52، رقم : 4 2. ھيثمي نے ’ مجمع الزوائد (9 : 41) میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ 3. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 69 4. عسقلاني، الإصابه، 4 : 170 6. عن أبي حفص عمرو بن علي أنّه کان يقول کان أبو بکر معروق الوجه وکان إسمه عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت ابو حفص عمرو بن علی سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک ہلکا تھا اور آپ کا اسم مبارک عبداﷲ بن عثمان تھا۔‘‘ هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 7. عن عامر بن عبد اﷲ بن الزّبير عن أبيه قال کان إسم أبي بکر عبداﷲ بن عثمان. ’’حضرت عامر اپنے والدحضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام عبداﷲ بن عثمان تھا۔‘‘ 1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 279، رقم : 6864 2. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2171 8. عن موسٰي بن عقبة قال : لا نعلم أربعة أدرکوا النّبي صلي الله عليه وآله وسلم و أبناؤهم إلّا هؤلآء الأربعة : أبوقحافة، و أبوبکر، و عبدالرّحمٰن بن أبي بکر، و أبو عتيق بن عبدالرّحمٰن و إسم أبي عتيق محمّدث. ’’حضرت موسیٰ بن عقبہ سے روایت ہے کہ ہم ایسے چار افراد کو نہیں جانتے کہ جنہوں نے خود اور ان کے بیٹوں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو (یعنی انہیں شرف صحابیت نصیب ہوا ہو) سوائے ابوقحافہ، ابوبکر، عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور ابو عتیق محمد بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھم کے۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 11 2. حاکم، المستدرک، 3 : 540، رقم : 6008 3. حاکم، المستدرک، 3 : 544، رقم : 6024 4. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 130، رقم : 392 5. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 77، رقم : 22 6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 51 7. سيوطي، تاريخ الخلفاء : 107 8. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 275، رقم : 344 فصل : 2 أوّل من أسلم من الرجال (بالغ مردوں ميں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ) 9. عن عائشة عن عمر بن الخطّاب قال کان أبو بکر أحبّنا إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و کان خيرنا و سيّدنا ذکر البيان بأنّ أبا بکر الصّدّيق رضي الله عنه أوّل من أسلم من الرّجال. ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے۔‘‘ 1. ابن حبان، الصحيح، 15 : 279. 278، رقم : 6862 2. هيثمي، موار دالظمآن، 1 : 532، رقم : 2199 3. بزار، المسند، 1 : 373، رقم : 251 10. عن ابن عمر قال أوّل من أسلم أبوبکر. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 190، رقم : 8365 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43 3. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 254 11. عن عمرو بن مرة عن إبراهيم قال أبو بکر أوّل من أسلم مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. ’’عمرو بن مرہ نے ابراہیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پرسب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 224، رقم : 262، 263 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 225، رقم : 265 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36583 4. طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 540 12. عن يوسف بن يعقوب الماجشون قال سمعت أبي و ربيعة يقولان أوّل من أسلم من الرّجال أبو بکر. ’’يوسف بن یعقوب ماجشون سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد اور ربیعہ سے سنا کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ ابن حبان، الثقات، 8 : 130، رقم : 12577 13. عن أبي أرويٰ الدّوسيّ قالوا أوّل من أسلم أبو بکر الصّدّيق. ’’ابوارویٰ دوسی سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 171 2. محاملی، أمالی المحاملی، 1 : 356، رقم : 396 14. عن الزّهريّ قال هو أوّل من أسلم من الرّجال الأحرار. ’’امام زہری سے روایت ہے کہ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) ہیں۔ بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12872 15. عن محمّد بن کعب أنّ أوّل من أسلم من هذه الأمّة برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم خديجة و أوّل رجلين أسلما أبوبکر الصّدّيق و علي و انّ أبابکر أوّل من أظهر إسلامه. ’’محمد بن کعب سے روایت ہے کہ اس اُمت میں سے سب سے پہلے (عورتوں میں) ایمان لانے والی سیدہ خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا ہیں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ لیکن اپنے اسلام کا اعلان سب سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔‘‘ احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 226، رقم : 268 وضاحت : آپ رضی اللہ عنہ پختہ عمر افراد میں سے تھے اور معاشرے میں سماجی اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث معروف بھی تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے اظہارِ اسلام کا ہر ایک پر آشکار ہونا ایک فطری امر تھا، سو اس کی شہرت ہوگئی۔ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نو عمر معصوم بچے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی گھر میں حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اﷲ عنھا کی طرح پہلے ہی دن سے اسلام قبول کر لیا۔ اغلباً ممکن ہے کہ زمانی اوليّت کے اعتبار سے حضرت خدیجۃ الکبريٰ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی سب پر مقدم ہوں مگر اعلانی اوليّت میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مقدم ہوں۔ اس کی تائید درج ذیل اقوال (16 ۔ 18) سے ہوتی ہے : 16. عن محمّد بن کعب قال أوّل من أسلم أبوبکر و عليّ رضي اﷲ عنهما فأبوبکر رضي الله عنه أوّلهما أظهر إسلامه و کان عليّ رضي الله عنه يکتم إيمانه فرقا من أبيه فاطّلع عليه أبو طالب وهو مع النّبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال أسلمت قال نعم قال آزر إبن عمّک يا بنيّ و انصره قال و کان عليّ رضي الله عنه أوّلهما إسلاما. ’’محمد بن کعب سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما اسلام لائے، ان دونوں میں سے اپنے اسلام کا اعلان پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ (کم سنی کے باعث) اپنے باپ کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، حضرت ابو طالب کو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کی خبر ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، حضرت ابو طالب نے پوچھا کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟جواب دیا ہاں! انہوں نے کہا : اے میرے بیٹے ! اپنے چچا زاد کی خوب مدد کرو۔ راوی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔‘‘ فاکهی، اخبار مکة، 3 : 219 17. قال أبوحاتم فکان أوّل من آمن برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم زوجته خديجة بنت خويلد ثمّ آمن عليّ بن أبي طالب وصدّقه بما جاء به وهو بن عشر سنين ثمّ أسلم أبوبکر الصّدّيق فکان عليّ بن أبي طالب يخفي إسلامه من أبي طالب وأبوبکر لمّا أسلم أظهر إسلامه فلذٰلک اشتبه علي النّاس أوّل من أسلم منهما. ’’ابو حاتم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اﷲ عنھا ہیں اس کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور اس وقت وہ دس سال کے بچے تھے، پھر حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ابو طالب سے اپنا اسلام چھپاتے تھے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کا اعلان بھی کر دیا پس اسی لیے لوگوں پر مشتبہ ہوگیا کہ ان دونوں میں سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا؟۔‘‘ ابن حبان، الثقات، 1 : 52 18. قال الشّوکانيّ وقد صحّ أنّ من مبعث النّبي صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي وفاته نحو ثلاث وّ عشرين سنة وأنّ عليّا رضي الله عنه عاش بعده نحو ثلاثين سنة فيکون قد عمر بعد إسلامه فوق الخمسين وقد مات ولم يبلغ السّتّين فعلم أنّه أسلم صغيرا. ’’شوکانی نے کہا، یہ بات صحیح ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کل تئیس سال کا عرصہ بنتا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تیس سال تک حیات رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی عمر اسلام قبول کرنے کے بعد پچاس سال سے زائد بنتی ہے اور جب آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی پس معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کیا۔‘‘ شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 17 19. عن أبي أمامة الباهليّ قال : أخبرني عمروبن عبسة رضي الله عنه قال : أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو نازل بعکاظ قلت : يا رسول اﷲ من اتّبعک علٰي هذا الأمر؟ قال : ’’إتّبعني عليه رجلان حرّ وّ عبد أبو بکروّبلال‘‘ قال : فأسلمت عند ذٰلک. ’’حضرت ابوامامۃ باہلی سے روایت ہے کہ مجھے عمرو بن عبسہ نے خبر دی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عکاظ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِس دین پر آپ کی (اولین) اتباع کس نے کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِس پر میری اتباع دو مردوں نے کی ہے ایک آزاد اور ایک غلام، وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا۔ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 69، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4419 2. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 540 20. عن عمرو بن عبسة قال : أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في أوّل ما بعث وهو بمکّة وهو حينئذ مستخف. . . قلت نعم ما أرسلک به فمن تبعک علٰي هذا؟ قال : ’’عبد و حرّ يعني أبابکر و بلا لا.‘‘ ’’حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آپ کی بعثتِ مبارکہ کے ابتدائی ایام میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے اور اُس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خفیہ طور پر تبلیغِ دین فرماتے تھے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سن کر عرض کیا، یہ دین کتنا ہی اچھا ہے جو اﷲ نے آپ کو دے کر بھیجا ہے (پھر عرض کیا) اِس دین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کس نے کی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ایک غلام اور ایک آزاد شخص نے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 68، 69، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4418 2. حاکم، المستدرک، 1 : 269، رقم : 583 3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 111 4. ابن خزيمه، الصحيح، 1 : 129، رقم : 260 5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 315، رقم : 1410 6. بيهقي، السنن الصغريٰ، 1 : 534، رقم : 959 21. عن همّام قال : سمعت عمّارا يقول : رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ما معه إلّا خمسة أعبد وّ امرأتان، و أبوبکر. ’’حضرت ھمام بن حارث رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دور میں دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ پانچ غلاموں، دو عورتوں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3460 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1400، کتاب. . . رقم : 3644 3. حاکم، المستدرک، 3 : 444، رقم : 5682 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 208، رقم : 232 5. بزار، المسند، 4 : 244، رقم : 1411 6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12883 7. خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 131 8. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 428 9. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 220 10. عسقلاني، الاصابه، 4 : 575، رقم : 5708 11. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 420 خمسة اعبد هم بلال و زيد بن حارثة و عامر بن فهيرة و ابو فکيهة و ياسر والد عمار والمرأتان خديجة و سمية والدة عمار. ’’پانچ غلام حضرت بلال، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عامر بن فہیرۃ، حضرت ابو فکیہۃ اور حضرت عمار کے والد حضرت یاسر رضی اللہ عنھم ہیں اور دو عورتیں حضرت خدیجۃ اور حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیۃ رضی اﷲ عنھما ہیں۔‘‘ سهارنپوري، حاشيه صحيح البخاري، 1 : 516، رقم : 10 22. عن الشّعبيّ قال سألت إبن عبّا س أو سئل : من أوّل من أسلم؟ فقال : أما سمعت قول حسّان رضی الله عنه : إذا تذکّرت شجوا من أخي ثقة فاذکر أخاک أبابکر بما فعلا خير البريّة أتقاها وأعدلها بعد النّبيّ وأوفاها بما حملا ألثّاني ألتّالي المحمود مشهده و أوّل النّاس منهم صدّق الرّسلا ’’امام شعبی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا یا آپ سے سوال کیا گیا کہ اسلام قبول کرنے کے اعتبار سے پہلا شخص کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا، تم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ارشاد نہیں سنا! ’’جب تم کسی قابل اعتماد بھائی کا تپاک سے ذکر کرو تو ضرور ابو بکر کے کارناموں کی وجہ سے انہیں یاد کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ تمام مخلوق سے بہتر، اللہ سے زیادہ ڈرنے والے، عدل کرنے والے اور اپنے فرائض کو کماحقہ سر انجام دینے والے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ (دو ہجرت کرنے والوں میں سے) دوسرے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرو ہیں، محفل میں ان کی موجودگی پسندکی جاتی ہے، وہ لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب رسولوں کی تصدیق کی۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، ، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4414 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 14، رقم : 33885 3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 336، رقم : 36584 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 133، رقم : 103 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 142، رقم : 119 6. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 89، رقم : 12562 7. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 84، رقم : 44 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 369، رقم : 12875 9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 43 10. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 238 11. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 964، رقم : 1633 12. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 416 23. عن عبداﷲ بن الحصين التّميميّ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال مادعوت أحدا إلٰي الإسلام إلاّ کانت عنده کبوة و تردّد و نظر إلا أبابکر ما عکم عنه حين ذکرته ولا تردّد فيه. ’’عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فوراً میری دعوت قبول کر لی۔‘‘ 1. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 27 2. ابن هشام، السيرة النبوية، 2 : 91 3. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 444 4. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442 5. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 44 6. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 415 24. ما کلّمت أحدا في الإسلام إلّا ابٰي عليّ و راجعني في الکلام إلّا ابن اٰبي قحافة فانّي لم أکلّمه في شيء إلاّ قبله و استقام عليه. ’’میں نے اسلام کے بارے میں جس سے بھی گفتگو کی اس نے انکار کیا اور مجھ سے تکرار کی سوائے ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر کے، کیونکہ میں نے اس سے جو بات بھی کہی اس نے قبول کر لی اور اس پر مضبوطی سے قائم رہا۔‘‘ حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 442 فصل : 3 من سرّه أن ينظرعتيقا من النار فلينظرإلي أبي بکر رضي الله عنه (جسے آگ سے محفوظ شخص دیکھنا ہو وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے) 25. عن عائشة : أنّ أبا بکر دخل علٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ’’انت عتيق اﷲ من النّار،‘‘ فيومئذ سمّي عتيقا. ’’اُمُّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم اﷲ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔‘‘ پس اُس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام ’’عتیق‘‘ رکھ دیا گیا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3679 2. ابن حبان نے ’الصحيح (5 : 279، رقم : 6864) ‘ميں عبد اﷲ بن زبير رضي اﷲ عنھما سے روايت کيا ھے۔ 3. حاکم، المستدرک، 2 : 450، رقم : 3557 4. حاکم، المستدرک، 3 : 424، رقم : 5611 5. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 53، رقم : 9 6۔ بزار نے ’المسند (6 : 170، رقم : 2213)‘ ميں حضرت عبداﷲ بن زبير رضي اﷲ عنھما سے روايت کيا ھے۔ 7۔ مقدسي نے ’الاحاديث المختارہ (9 : 307، رقم : 265)‘ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ھے۔ 8۔ ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 40)‘ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر سے روایت کیا ھے۔ 9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 10. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 235 11. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 350 12. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 403 13. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 15 : 276، رقم : 537 26. عن عائشة امّ المؤمنين رضي اﷲ عنها قالت : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’من سرّه أن يّنظر إلٰي عتيق من النّار فلينظر إلٰي أبي بکر‘‘ وأنّ إسمه الّذي سمّاه أهله لعبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو حيث ولد فغلب عليه اسم عتيق. ’’امّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جسے آگ سے آزاد (محفوظ) شخص دیکھنا پسند ہو وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔‘‘ اور آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ولادت کے وقت آپ کے گھر والوں نے عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو رکھا تھا، پھر اِس پر عتیق کا لقب غالب آگیا۔ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 64، کتاب معرفة الصحابه، رقم، 4404 2. ابو يعلي، المسند، 8 : 302، رقم : 4899 3. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 54، رقم : 10 4. طبراني، المعجم الأوسط، 9 : 149، رقم : 9384 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 6. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 540، رقم : 5685 7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 8. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 963، 964 9. عسقلاني، الإصابه، 4 : 170 10. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 402 فصل : 4 أنزل سبحانه وتعالیٰ له إسم صديق من السمآء (آپ رضی اللہ عنہ کا لقب صدّیق آسمان سے نازل فرمایاگیا) 27. عن أبي يحيٰی سمع عليّا يحلف : لأنزل اﷲ إسم أبي بکر رضي الله عنه من السّمآء صدّيقا. ’’حضرت ابو یحیٰی سے روایت ہے انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب ’’صدیق‘‘ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا. 1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4405 28. عن أبي يحيٰي حکيم ابن سعد قال سمعت عليّا رضي الله عنه يحلف : للّٰه أنزل اسم أبي بکر من السّماء ’’الصّدّيق‘‘. ’’حضرت ابو یحییٰ حکیم بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کواللہ کی قسم اُٹھا کر کہتے ہوئے سُنا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب’’الصدیق‘‘ آسمان سے اُتارا گیا۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1، 55 رقم : 14 2. ھيثمي نے’ مجمع الزوائد ( 9، 41)‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں 3. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 99، رقم : 277 4. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 70، رقم : 6 5. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 9 6. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا، 1 : 90 7. ابن جوزي، صفة الصفوه 1 : 236 8. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 96 9. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 407 29. عن النّزال بن سبرة قال. . . فقلنا حدّثنا عن أبي بکر فقال : ’’ذاک إمرء سمّاه اﷲ صدّيقا علٰي لسان جبريل و محمّد صلي اﷲ عليهما.‘‘ ’’حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ ہم نے (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’الصِدِّیق‘‘ رکھا۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، رقم : 4406 2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 479 3. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 406 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 161 30. عن قتادة : أنّ أنس بن مالک رضي الله عنه حدّثهم : أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم صعد أحدا، وأبوبکر وعمر وعثمان، فرجف بهم، فقال : ’’اثبت أحد، فانّما عليک نبيّ و صدّيق، وشهيدان‘‘. ’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں حديث بیان کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبل احد پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن کے باعث (جوش مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1344، کتاب المناقب، رقم : 3472 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1348، رقم : 3483 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 624، رقم : 3697 4. ابوداؤد، السنن، 4 : 212، رقم : 4651 5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 43، رقم : 8135 6. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 112، رقم : 12127 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 280، رقم : 6865 8. ابن حبان، الصحيح، 15 : 336، رقم : 6908 9. ابويعليٰ، المسند، 5 : 338، رقم : 2964 10. ابويعليٰ، المسند، 5 : 454، رقم : 3171 11. ابويعليٰ، المسند، 5 : 466، رقم : 3196 12. ابونعيم، حلية الاولياء، 5 : 25 13. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 217، رقم : 246 14. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 12 15. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 276 فصل : 5 قال أبو بکر رضي الله عنه : أصدقه صلي الله عليه وآله وسلم فيما أبعد من ذٰلک (میں تو معراج سے بھی عجیب تر خبروں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرتا ہوں) 31. عن عائشة رضي اﷲ عنها قالت : لمّا اسري بالنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلي المسجد الأ قصٰي أصبح يتحدّث النّاس بذالک فارتدّ ناس ممّن کان اٰمنوا به وصدّقوه وسعوا بذالک إلٰي أبي بکر رضي الله عنه فقالوا : هل لک إلٰي صاحبک يزعم أنّه أسري به اللّيلة إلٰي بيت المقدس؟ قال : أو قال ذٰلک؟ قالوا : نعم، قال : ’’لئن کان قال ذٰلک لقد صدق.‘‘ قالوا : أو تصدّق أنّه ذهب اللّيلة إلٰي بيت المقدس وجاء قبل أن يّصبح؟ قال : نعم، ’’إنّي لأصدّقه فيما هو أبعد من ذٰلک أصدّقه بخبر السّمآء في غدوة أو روحة‘‘ فلذٰلک سمّي أبو بکر’’الصّدّيق‘‘. ’’امّ المؤمنین عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے آپ رضی اﷲ عنہانے فرمایا : جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد اقصیٰ کی طرف سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح لوگوں کو اس کے بارے بیان فرمایا توکچھ ایسے لوگ بھی اس کے منکر ہو گئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے صاحب کی تصدیق کرتے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا، ہاں ! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، کیا آپ اُنکی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس تک گئے بھی ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ہاں! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اُس خبر کے بارے میں بھی کرتا ہوں جو اس سے بہت زیادہ بعید از قیاس ہے، میں تو صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ پس اس تصدیق کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ’’الصدیق‘‘ کے نام سے موسوم ہوئے۔‘‘ 1۔ حاکم نے ’المستدرک ( 3، 65 رقم : 4407)‘ ميں کہا ہے کہ يہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ 2. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 328 3. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 1 : 283 4. طبري، جامع البيان، 15 : 6 5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 12 6. مقدسي، فضائل بيت المقدس، 1 : 83، رقم : 53 32. عن أبي هريرة قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لجبريل ليلة أسري به إنّ قومي لا يصدّقونني فقال له جبريل يصدّقک أبوبکر وهو الصّدّيق. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل امین سے ارشاد فرمایا : اے جبرئیل! میری قوم (واقعہ معراج میں) میری تصدیق نہیں کرے گی۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی تصدیق کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 166، رقم : 7173 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 41 3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 140، رقم : 116 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 367، رقم : 540 5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 215 6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 170 7. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 405 33. عن أمّ هاني قالت دخل عليّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بغلس و أنا علٰي فراشي فقال شعرت إنّي نمت اللّيلة في المسجد الحرام. . . و أبوبکر رضي الله عنه عنده يقول صدقت صدقت قالت نبعة، فسمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يومئذ : يا أبا بکر! إنّ اﷲل قد سمّاک الصّدّيق. حضرت اُم ہانی رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح سویرے میرے گھر تشریف لائے جب کہ ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور میں اپنے بستر پر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات میں مسجد حرام میں سو رہا تھا (پھر آگے پورا واقعہ معراج بیان فرمایا) اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہنے لگے آپ نے سچ فرمایا! آپ نے سچ فرمایا! حضرت نبعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دن ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’اے ابوبکر! بے شک اﷲ رب العزت نے تیرا نام ’’صدیق‘‘ رکھا ہے۔‘‘ 1. ابو يعلي، المعجم، 10 : 45، رقم : 9 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 307، رقم : 8271 3. عسقلاني، الاصابه، 8 : 137، رقم : 11800 4. مقدسي، فضائل بيت المقدس : 82، رقم : 52 فصل : 6 قال الصحابة رضي الله عنهم إنه أفضل الناس من الأمّة (قول صحابہ رضی اللہ عنھم : آپ رضی اللہ عنہ امت میں سب سے افضل ہیں)34. قال سالم بن عبداﷲ أنّ ابن عمر قال : کنّا نقول و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حيّ، ’’أفضل أمّة النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعده أبوبکر، ثمّ عمر، ثمّ عثمان رضي اﷲ عنهم أجمعين. ’’حضرت سالم بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (ظاہری) حیات طیبہ میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر (ان کے بعد) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابو داؤد، السنن، 4 : 211، کتاب السنة، رقم : 4628 2. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 540، رقم : 1140 3. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 138 35. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : ’’کنّا نخيّر بين النّاس في زمن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فنخيّر أبابکر، ثمّ عمر ابن الخطّاب، ثمّ عثمان بن عفّان رضي اﷲ عنهم‘‘. حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں جب ہم صحابہ کرام کے درمیان کسی کو ترجیح دیتے تو سب پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیا کرتے، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب المناقب، رقم : 3455! 3494 2. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 306 3. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 138 4. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 297 36. عن محمّد ابن الحنفيّة قال : قلت لأ بي : أيّ النّاس خير بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : أبوبکر، قلت : ثمّ من؟ قال : ثمّ عمر و خشيت أن يّقول عثمان، قلت : ثمّ أنت؟ قال : ما أنا إلّا رجل مّن المسلمين. ’’حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ۔ تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1342، کتاب المناقب، رقم : 3468 2. ابو داؤد السنن 4 : 206کتاب السنة، رقم : 4629 3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 247، رقم : 810 4. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 480، رقم : 993 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 321، رقم : 445 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 371، رقم : 553 7. ابن الجوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 8. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 569، رقم : 1332 9. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 578، رقم : 1363 10. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 321 11. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 477 12. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 367 نوٹ : یہ بیان آپ رضی اللہ عنہ کے کمال درجہ عجز و انکسار اور دوسروں کے لیے محبت و احترام کا آئینہ دار ہے۔ یہی کردار حقیقی عظمت کی دلیل ہے۔ 37. عن عبداﷲ بن سلمة قال : سمعت عليّا يقول : ’’خير النّاس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبوبکر وخير النّاس بعد أبي بکر، عمر‘‘. ’’عبد اﷲ بن سلمۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا : کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے رسُول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعدسب سے افضل عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 39، مقدمه، رقم : 106 2. احمد بن حنبل نے ’ (فضائل الصحابہ، 1 : 365، رقم : 536)‘ ميں ابو حجيفہ سے روايت کيا ہے۔ 3. ابونعيم، حلية الاولياء، 7 : 199، 200 4. ابو نعيم نے ’ (حليۃ الاولياء، 8 : 359)‘ ميں ابو حجيفہ سے روايت کيا ہے۔ 5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 213، رقم : 3686 6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 376، رقم؛ 4476 7. عبداللہ بن محمد نے، (طبقات المحدثين باصبہان، 2 : 287، رقم : 176)‘ ميں وہب السوائي سے روايت کيا ہے۔ 8. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 325 9. عسقلاني، الاستيعاب، 3 : 1149 38. عن نّافع عن ابن عمر قال : ’’کنّا نقول في زمن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم لا نعدل بأبي بکر أحدا ثمّ عمر ثمّ عثمان ثمّ نترک أصحاب النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم لا نفاضل بينهم.‘‘ حضرت نافع، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو شمار نہیں کرتے تھے۔ پھر اُن کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اُن کے بعد ہم باقی اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1352، رقم : 3494 2. ابو داؤد، السنن، 4 : 206، کتاب السنة، رقم : 4627 3. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 567، رقم : 1192 4. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 16، رقم : 3455 5 مبارکپوري، تحفةاالأحوذي، 10 : 138 6. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 299 7. سيوطي، تدريب الراوي، 2 : 223 39. عن بن عمر قال : کنّا نعدّ ورسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حيّ وأصحابه متوافرون ’’أبوبکر وعمر و عثمان‘‘ ثمّ نسکت. ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کافی تعداد میں تھے ہم اس طرح شمار کیا کرتے تھے۔ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ‘‘ اور پھر خاموش ہو جاتے تھے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 2 : 14، رقم : 4626 2. ابن أبي شيبه، المصنف، 6 : 349، رقم : 31936 3. ابويعلي، المسند، 10 : 161، رقم : 5784 4. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 345، رقم : 13301 5. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 568، رقم : 1195 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 90، رقم : 58 7. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 574، رقم، 1350 8. خلال، السنه، 2 : 371، رقم : 507، 384، رقم : 541، 396، رقم : 572 9. لالکائي، اعتقاد اهل السنه، 1 : 159 40. عن جابر بن عبداﷲ رضي الله عنه قال : قال عمر بن الخطّاب ذات يوم لأبي بکر الصديق رضي الله عنه ’’ يا خير النّاس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 618، رقم : 3684 2. حاکم، المستدرک، 3 : 96، رقم : 4508 3. تهذيب الکمال، 18 : 29، رقم : 3402 41. عن أسد بن زرارة قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خطب النّاس فالتفت التفافتة فلم ير أبا بکر فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبوبکر. أبوبکر! إنّ روح القدس جبريل عليه السّلام أخبرني اٰنفا إنّ خير أمّتک بعدک أبوبکر الصّدّيق. ’’حضرت اسد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا (پایا)۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر ابوبکر پکارا کہ روح القدس جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے ’’کہ آپ کی امت میں سب سے بہتر آپ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 292، رقم : 6448 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 44 42. عن أبي الدّرداء قال : راٰني النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا أمشي أمام أبي بکر فقال : لم تمشي أمام من هو خير مّنک؟ إنّ أبابکر خير من طلعت عليه الشّمس أو غربت. ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میںحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آگے آگے چل رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا : تم اُس ہستی کے آگے کیوں چل رہے ہو جو تم سے بہت بہتر ہے؟. بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر اُس شخص سے بہتر ہیں جس پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔‘‘ 1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 154، رقم : 137 2. ابن أبي عاصم، السنه، 2 : 576، رقم : 1224 3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 44 4. خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 133 5. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 351 6. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 105 43. عن أبي جحيفة قال قال عليّ رضي الله عنه خير هذه الامّة بعدنبيّها أبوبکر و عمر. ’’ابو جحيفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سے بہتر ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنھما ہیں۔ 1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 351، رقم : 31950 2. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 298، رقم : 992 3. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 85، رقم : 6926 4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 110، رقم : 880 5. ابن الجعد، المسند، 1 : 311، رقم : 2109 6. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 570، رقم : 1201 7. بزار نے ’ (المسند، 2 : 130، رقم : 488)، ميں عمرو بن حريث سے روايت کيا ہے۔ وضاحت : یہاں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور دوسرے مقام پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان پڑھ کر ان میں باہمی تضاد یا تناقض تصور نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں کی فضیلتوں کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور جملہ اہلِ بیت اطہار کی فضیلت ان کے ذاتی مناقب، روحانی کمالات، نسبتِ قرابت اور شانِ ولایت میں ہے۔ جتنی قرآنی آیات اور احادیث اہلِ بیت اطہار کی شان میں وارد ہوئی ہیں کسی اور کی شان میں شخصی طور پر نہیں ہوئیں. جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت، فرائضِ خلافت، اقامتِ دین، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ (٭) کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔ اسی وجہ سے ولایت کبریٰ اور غوثیت عظمیٰ کے حامل افراد بھی آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں جدا جدا نوعیت کی فضیلتیں ہیں۔ (٭) 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713 2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347 3. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272 4. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، 12121 اس میں کوئی شک نہیں کہ فضائلِ ولایت، روحانی کمالات اور نسبتِ قرابت میں اہلِ بیت اطہار کے برابر کوئی نہیں ہوسکتا. کیونکہ ان میں کئی ایسے خصائص ہیں جو صرف ان ہی کو حاصل ہیں کسی اور کو نہیں، ان میں موازنہ اور مقابلہ بھی جائز نہیں۔ کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شانہ بشانہ چلا رہے ہیں اور کسی کو چلتے ہوئے شانوں پر بٹھا رہے ہیں۔ کسی کو مجلس میں اپنے قریب ترین بٹھا رہے ہیں اور کسی کو گود میں کھیلا رہے ہیں۔ کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دست بوسی اور قدم بوسی کی سعادت سے فیض یاب ہو رہے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ان کو بوسۂ محبت سے نواز رہے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کر رہے ہیں اور کچھ وہ بھی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ہمکلام ہوتے ہوئے اپنے ماں باپ ان پر قربان کر رہے ہیں جیسا کہ فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا اور حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فداک أبي و اُمي. ’’فاطمہ! میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 170، رقم : 4740 2. ابن حبان، الصحيح، 2 : 470، 471، رقم : 696 بأبي هما و أمي. ’’میرے ماں باپ حسنین پر قربان ہوں۔‘‘ ثابت ہوا کہ یہ دو ایسی جدا جدا فضیلتیں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار اور ادب شعار اُمتی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور اہلِ بیت عظام علیھم الصلوۃ والسلام میں کبھی بھی مقابلہ اور موازنہ کا تصور نہیں کرسکتے۔ 1. ابن حبان، الصحيح، 5 : 426، رقم : 2970 2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 378، رقم : 3214 3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2644 4. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 552، رقم : 2233 فصل : 7لو کان للنبي صلي الله عليه وآله وسلم خليلا لکان ابو بکر رضي الله عنه (اگر کوئی خلیل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوتے) 44. عن ابن عبّاس رضي اﷲ عنهما عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ’’لوکنت متّخذا من أمّتي خليلا، لا تّخذت أبابکر، ولٰکن أخي وصاحبي‘‘. ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3456 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1855، رقم : 2383 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 437، رقم : 4161 4. بزار، المسند، 5 : 4، رقم : 2072 45. عن عبداﷲ بن أبي مليکة قال : کتب اهل الکوفة إلي ابن الزّبير في الجدّ فقال أمّا الّذي قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لو کنت متّخذا من هذه الأمّة خليلا لاتّخذ ته‘‘أنزله أبا يعني أبابکر. حضرت عبد اﷲ بن ابو ملیکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا : اہل کوفہ نے حضرت عبد اﷲ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ دادا کی میراث کا حکم بتائیے۔ انہوں نے استدلالا جواب دیا کہ جس ہستی کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ اگر میں اس امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو اسے (یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو) اپنا خلیل بناتا‘‘ اُس ہستی (ابو بکر رضی اللہ عنہ) نے دادا کو باپ کے درجے میں رکھا ہے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3458 2۔ بخاری نے ’الصحيح (6 : 2478، رقم : 6357) ‘ میں حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کیا ہے۔ 3۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 359، رقم : 3385) ‘ میں حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کیا ہے۔ 4. احمد بن حنبل، المسند 4 : 4 5۔ ابن ابی شيبہ نے ’المصنف (6 : 348، رقم : 31924) ‘ میں حضرت عبداﷲ ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ 6. ابو يعلي، المسند، 12 : 178، رقم : 6805 7. زرقاني، شرح الزرقاني علي المؤطا، 3 : 143 46. عن أبي الاحوص قال : سمعت عبداﷲ بن مسعود يحدّث عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ؛ أنّه قال : ’’لوکنت متّخذا خليلا لاتّخذت أبابکرخليلا ولٰکنّه أخي وصاحبي وقد اتّخذ اﷲ، عزّوجلّ، صاحبکم خليلا‘‘. ’’حضرت ابو احوص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : میں نے عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بیان کرتے ہوئے سنا : ’’اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے صحابی ہیں اور تمہارے صاحب (یعنی مجھ) کو اﷲ نے خلیل بنایا ہے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1855، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2383 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 272، رقم : 6856 3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 462، رقم : 4413 4. ابو يعلي، المسند، 9 : 161، رقم : 5249 5. طبراني فصل : 10 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه نائبا (صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ. . . نائبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) 56. عن الزّهريّ قال أخبرني أنس بن مالک الأنصاريّ أنّ أبابکر کان يصلّي لهم في وجع النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم الّذي توفّي فيه حتّٰي إذا کان يوم الإثنين وهم صفوف في الصّلٰوة فکشف النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة ينظر إلينا وهو قائم کأنّ وجهه ورقة مصحف ثمّ تبسّم يضحک فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فنک رضي الله عنه أبوبکر علٰي عقبيه ليصل الصّفّ وظنّ أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خارج الي الصّلٰوة فأشار إلينا النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم أن أتمّوا صلا تکم وأرخٰي السّتر فتوفّي من يومه صلي الله عليه وآله وسلم. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران انہیں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو) نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نمازکی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اپنے) حجرہء مبارک سے پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے ہنسنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے ہم نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بَل پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی دن وصال ہو گیا۔ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاٰذان، رقم : 648 2. بخاري، الصحيح، 1 : 403، رقم : 1147 3. بخاري، الصحيح، 4 : 1616، رقم : 4183 4. مسلم، الصحيح، 1 : 315، رقم : 419 5. احمد، المسند، 3 : 196، رقم : 13051 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، 6620 7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، 1650 8. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 433 9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4825 57. عن عائشة امّ المؤمنين أنّها قالت : إنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال في مرضه ’’مروا أبابکر يصلّي بالنّاس‘‘ قالت عائشة : قلت إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمر فليصلّ للنّاس فقالت عائشة فقلت لحفصة قولي له إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمرفليصلّ فقالت عائشة قلت لحفصة قولي له ’’إنّ أبابکر إذا قام في مقامک لم يسمع النّاس من البکاء فمر عمر فليصلّ للنّاس‘‘ ففعلت حفصة فقال رسول اللّٰه صلي الله عليه وآله وسلم : ’’مه، انّکنّ لأ نتنّ صواحب يوسف مروا أبابکر فليصلّ للنّاس‘‘ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا۔ ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے کہا کہ (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو وہ کثرتِ گریہ (رونے) کی وجہ سے لوگوں کو (کچھ بھی) سنا نہیں سکیں گے۔ (اس لئے) آپ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے (اُمُّ المؤمنین حضرت) حفصہ رضی اﷲ عنہا سے کہا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ کے مقام (مصلیٰ) پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو کچھ سنا نہ پائیں گے۔ پس آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا نے ایسے ہی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’رُک جاؤ! بیشک تم صواحب یوسف کی طرح ہو. ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 647 2. بخاري، الصحيح، 1 : 252، رقم : 684 3. بخاري، الصحيح، 6 : 2663، رقم : 6873 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 613، رقم : 3672 5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 566، رقم : 6601 6. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 96، رقم : 24691 7. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 202، رقم : 25704 8. مالک، المؤطا، 1 : 170، رقم : 412 9. ابو يعلي، المسند، 7 : 452، رقم : 4478 10. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 368، رقم : 11252 11. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 250، رقم : 3171 12. الربيع، المسند، 1 : 92، رقم : 211 13. بغوي، شرح السنه، 3 : 423، رقم : 853 58. عن عائشة رضي اﷲ عنها، قالت، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لا ينبغي لقوم فيهم أبوبکر أن يّؤمّهم غيره.‘‘ ام المومنین سيّدہ عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کسی قوم کے لئے مناسب نہیں جن میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود ہوں کہ ان کی امامت اِن (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 614، ابواب المناقب، رقم : 3673 2. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 10 : 109 3. ابراهيم بن محمد الحسيني، البيان والتعريف، 2 : 296، رقم : 1785 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 82 59. عن محمّد بن جبيربن مطعم عن أبيه؛ أنّ إمرأة سألت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم شيئا، فأمرها أن ترجع إليه، فقالت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! أرأيت إن جئت فلم أجدک؟ قال أبي : ’’کأنّها تعني الموت‘‘. قال ’’فان لّم تجديني فأتي أبابکر.‘‘ محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کسی چیز کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوبارہ آنے کا حکم فرمایا، اس نے عرض کی، ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر میں آؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پاؤں تو؟‘‘ (محمد بن جبیر فرماتے ہیں کہ) میرے والد (جبیر بن مطعم) نے فرمایا گویا وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مراد لے رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1856، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2386 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1338، کتاب المناقب، رقم : 3459 3. بخاري، الصحيح، 6 : 2639، رقم : 6794 4. بخاري، الصحيح، 6 : 2679، رقم : 6927 5. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 615، کتاب المناقب، رقم : 3676 6. ابن حبان، الصحيح، 15 : 34، رقم : 6656 7. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 132، رقم : 557 8. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 547، رقم : 1151 9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 177 60. عن جابر ابن عبداﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنّا عندالنّبيّ إذ جائه وفد عبدالقيس فتکلّم بعضهم بکلام لغا في الکلام فالتفت النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي أبي بکر و قال : ’’يا أبابکر سمعت ما قالوا؟‘‘ قال : نعم يا رسول اﷲ وفهمته قال : ’’فأجبهم‘‘ قال : فأجابهم أبوبکر رضي الله عنه بجواب وأجاد الجواب فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر أعطاک اﷲ الرّضوان الأکبر‘‘ فقال له بعض القوم ’’وما الرّضوان الأکبر يا رسول اﷲ؟‘‘ قال : ’’يتجلّي اﷲ لعباده في الآخرة عامة وّ يتجلّي لأبي بکر خاصّة‘‘ ’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ عبدالقیس کا وفد آیا، اس میں سے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نامناسب گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر! آپ نے سنا جو کچھ انہوں نے کہا ہے؟‘‘ آپ نے عرض کی : جی ہاں! یا رسول اﷲ! میں نے سن کر سمجھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’پھر انہیں اس کا جواب دو‘‘۔ راوی کہتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نہایت عمدہ جواب دیا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت نے تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائی ہے۔‘‘ لوگوں میں سے کسی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی۔ ’’یا رسول اﷲ! رضوانِ اکبر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اﷲ رب العزت آخرت میں اپنے بندوں کی عمومی تجلی فرمائے گا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی تجلی فرمائے گا۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4463 2. ابونعيم، حلية الاولياء، 5 : 12 3. عبداﷲ بن محمد، طبقات المحدثين بأصبهان، 3 : 11، رقم : 240 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 76 61. عن أبي هريرة ان ابابکر الصديق بعثه في الحجة التي امّره عليها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قبل حجة الوداع يوم النحر في رهط يؤذّن في الناس ألا لا يحج بعد العام مشرک ولا يطوف بالبيت عريان. ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے حجۃ الوداع سے پہلے حج میں جس کا امیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو بنا کر بھیجا تھا نحرکے دن ایک جماعت میں بھیجا تاکہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ خبردار! آج کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 2 : 586، کتاب التفسير، رقم : 1543 2. بخاري، الصحيح، 2 : 1586، رقم : 4105 3. بخاري، الصحيح، 4 : 1586، رقم : 4105 4. بخاري، الصحيح، 4 : 1710، رقم : 4380 5. نسائي، السنن، 5 : 234، رقم : 2957 6. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 407، رقم : 3948 7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 87، رقم : 9091 8. ابو يعلي، المسند، 1 : 77، رقم : 76 فصل : 11 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه وزيراً (صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ. . . وزیرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)62. عن أبي سعيد الخدريّ، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما من نبيّ إلّا له وزيران من أهل السّماء و وزيران من أهل الارض، فأمّا وزيراي من أهل السّماء فجيريل وميکائيل، و أمّا وزيراي من أهل الارض فأبوبکر و عمر.‘‘ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما ہیں‘‘۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3680 2. حاکم، المستدرک، 2 : 290، رقم : 3047 3. ابن الجعد، المسند، 1 : 298، رقم : 2026 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 164، رقم : 152 5. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 478 6. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 335 63. عن سعيد ابن المسيّب قال : ’’کان أبوبکرالصّدّيق من النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم مکان الوزير فکان يشاوره في جميع أموره وکان ثانيه في الإسلام وکان ثانيه في الغار وکان ثانيه في العريش يوم بدر وکان ثانيه في القبر ولم يکن رّسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقدّم عليه أحدا‘‘ ’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اُمور میں اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی (دوسرے) تھے، غارِ (ثور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، غزوہء بدر میں عریش (وہ چھپر جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنایا گیا تھا) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) پر کسی کو بھی مقدّم نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ حاکم، المستدرک، 3 : 66، رقم : 4408 64. عن ابن عبّاس رضي الله عنه في قوله عزّوجلّ : (وشاورهم في الأمر) (1) قال : ’’أبو بکر وّ عمر.‘‘ ’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اﷲ رب العزت کے اِس ارشاد (اور تمام معاملات میں اُن سے مشورہ فرمائیں۔ سورۃ آل عمران، آیت : 159) کے بارے جن سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ فرمانے کا حکم دیا، کون مراد ہیں؟‘‘ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. القرآن، اٰلِ عمران : 159 2. حاکم، المستدرک، 3 : 74، رقم : 4436 65. عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إن اﷲ تعالٰي أيدني بأربعة وزراء نقباء قلنا يا رسول اﷲ من هؤلاء الأربع قال اثنين من أهل السماء واثنين من أهل الأرض فقلت من الإثنين من أهل السماء قال جبريل و ميکائيل قلنا من الإثنين من أهل الأرض قال ابوبکر و عمر. ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے چار وزراء نقباء کے ذریعے میری مدد فرمائی ہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ چار کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو اہل سماء میں سے ہیں اور دو اہل زمین میں سے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اہل سماء میں سے دو کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبریل اور میکائیل. ہم نے عرض کیا : اہل زمین میں سے دو کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 179، رقم : 11422 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 51 3. ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 160 4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 3 : 298 فصل : 12 إن النبي صلي الله عليه وآله وسلم اتخذه رضي الله عنه سمعا و بصرا (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . سمع و بصرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)66. عن عبدالعزيز بن المطّلب، عن أبيه، عن جدّه عبداﷲ بن حنطب، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم راٰي أبابکر و عمر فقال : ’’هذانِِ السّمع والبصر‘‘ ’’حضرت عبداﷲ بن حنطب سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو ارشاد فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 613، ابواب المناقب، رقم : 3671 2. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 435، رقم : 3235 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 64، رقم : 4639 4. عبدالباقي، معجم الصحابه، 2 : 100 5. احمد بن ابراهيم، تحفة التحصيل، 1 : 172 6. العلائي، جامع التحصيل، 1 : 209 67. عن عبداﷲ بن حنطب قال : کنت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فنظر إلٰي أبي بکر وّ عمر رضي اﷲ عنهما فقال : ’’هذان السّمع والبصر.‘‘ حضرت عبد اﷲ بن حنطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں، میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا : ’’یہ دونوں (میرے لئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 73، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4432 2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 432، رقم : 686 68. عن حذيفة بن اليمان رضي اﷲ عنهما قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’لقد هممت أن أبعث إلي الاٰفاق رجالا يّعلّمون النّاس السّنن والفرائض کما بعث عيسٰي ابن مريم الحواريّين‘‘ قيل له : فأين أنت من أبي بکر وّ عمر؟ قال : ’’انّه لا غني بي عنهما إنّهما من الدّين کالسّمع والبصر.‘‘ ’’حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سُنا : ’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمام آفاق (علاقوں) میں کچھ لوگ بھیجوں جو لوگوں کو سنن و فرائض سکھائیں، جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے حواریوں کو بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (حضرت) ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیشک اِن دونوں کے سوا میرے لئے کوئی چارہ نہیں، یقیناً یہ دونوں دین میں سمع و بصر (کان اور آنکھ) کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ حاکم، المستدرک، 1 : 78، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4448 69. حدّثني سعيد بن المسيّب وأبو سلمة بن عبدالرّحمٰن؛ أنّهما سمعا أباهريرة يقول : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’بينما رجل يسوق بقرة له، قد حمل عليهاالتفتت إليه البقرة فقالت : إنّي لم أخلق لهذا ولٰکنّي إنّما خلقت للحرث‘‘ فقال النّاس : سبحان اﷲ! تعجّبا وفزعا أبقرة تکلّم؟ فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’فإنّي أومن به و أبوبکر و عمر‘‘ قال أبوهريرة : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’بينا راع في غنمه، حمل عليه الذّئب فأخذ منها شاة فطلبه الرّاعي حتّي استنقذها منه. فالتفت إليه الذّئب فقال له : من لها يوم السّبع، يوم ليس لها راع غيري؟‘‘ فقال النّاس : سبحان اﷲ! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’فإنّي أومن بذٰلک أنا وأبوبکر و عمر‘‘ ’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان دونوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دوران کہ ایک شخص اپنے بیل پر بوجھ لادے ہوئے ہانک کر لے جا رہا تھا۔ بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا میں اِس (کام) کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ میں تو کھیتی باڑی کے لئے تخلیق کیا گیا ہوں۔ لوگوں نے تعجب اور گھبراہٹ کے عالم میں کہا، سبحان اﷲ ! بیل گفتگو کرتا ہے؟ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک میں تو اس کو سچ مانتا ہوں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ بھی اسے سچ تسلیم کرتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دوران کہ ایک چرواہا اپنی بکریوں (کے ریوڑ) میں تھا، ایک بھیڑیئے نے اُن پر حملہ کر دیا اور اس ریوڑ میں سے ایک بکری کو پکڑ لیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑیا چرواہے کی طرف متوجہ ہوا اور اُسے کہنے لگا : اُس دن بکری کو کون بچائے گا جس دن میرے سوا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ (وہ قیامت کا دن ہے یا عید کا دن جس دن جاہلیت والے کھیل کود میں مصروف رہتے اور بھیڑیئے بکریاں لے جاتے یا قیامت کے قریب فتنہ کا دن جب لوگ مصیبت کے مارے اپنے مال کی فکر سے غافل ہو جائیں گے) لوگوں نے کہا، سبحان اﷲ! پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیشک اس واقعہ کو میں، ابوبکر اور عمر سچ تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1858، رقم : 2388 2. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، رقم : 3463 3. ترمذي، السنن، 5 : 615رقم : 3677 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 37، رقم : 8112 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 179، رقم : 184 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 404، رقم : 6485 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 329، رقم : 6903 8. طيالسي، المسند، 1 : 309، رقم : 2354 9. ديلمي، الفردوس بمأثورالخطاب، 2 : 16، رقم : 2113 10. ازدي، الجامع، 11 : 230 11. يوسف بن موسيٰ، معتصر المختصر، 1 : 269 12. ابن منذه، الايمان، 1 : 409، رقم : 255 13. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 328، 476 14. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 18 : 230 15. ذهبي، معجم المحدثين، 1 : 199 فصل : 13 أحب خلق اﷲ إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . حبیب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)70. عن يحيٰي بن عبدالرّحمٰن بن حاطب قال : قالت عائشة رضي اﷲ عنها لمّا ماتت خديجة رضي اﷲ عنها : جاء ت خولة بنت حکيم إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : ألا تزوّج؟ قال من؟ قالت إن شئت بکرا وّإن شئت ثيّبا قال : ومن البکر ومن الثّيّب؟ قالت : أمّا البکر فابنة أحبّ خلق اﷲ إليک عائشة بنت أبي بکر رضي الله عنه وأمّا الثّيّب فسودة بنت زمعة. ’’حضرت یحییٰ بن عبد الرحمٰن بن حاطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : امّ المؤمنین عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : جب (اُمُّ المؤمنین) سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنھا کا انتقال ہو گیا تو حضرت خولہ بنت حکیم رضی اﷲ عنھا حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور کہا : کیا آپ شادی نہیں فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کس سے؟ انہوں نے عرض کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو باکرہ (کنواری) سے، چاہیں تو ثیبہ (شوہر دیدہ) سے نکاح فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، باکرہ کون ہے اور ثیبہ کون؟ انہوں نے عرض کی۔ ’’باکرہ تو تمام مخلوق خدا میں آپ کے سب سے زیادہ محبوب کی بیٹی عائشہ بنت ابی بکر رضی اﷲ عنھما ہے اور ثیبہ (حضرت) سودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 77، کتاب معرفةالصحابة، رقم : 4445 2. حاکم، المستدرک، 2 : 181، رقم : 2704 3. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 210، رقم : 25810 4. طبراني، المعجم الکبير، 23 : 23، رقم : 57 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 129، رقم : 13526 6. شيباني، الآحاد و المثاني، 5 : 389، رقم : 3006 7. اسحاق بن راهويه، المسند، 2 : 588، رقم : 1164 8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 225 9. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 149 10. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 211 11. عسقلاني، الإصابه، 8 : 17، رقم : 11457 71. عن الزّهريّ قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لحسّان بن ثابت رضي الله عنه هل قلت في أبي بکر شيئا؟ قال نعم، فقال قل وأنا أسمع فقال : ثاني اثنين في الغار المنيف وقد طاف العدوّ به إذ صعّد الجبلا وکان حبّ رسول اﷲ قد علموا من البريّة لم يعدل به رجلا. ’’امام زہری سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے کچھ کہا ہے‘‘۔ انہوں نے عرض کی، ہاں (یا رسول اﷲ!)۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ کلام مجھے سناؤ میں سنوں گا۔‘ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے ’’وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے کہ وہ (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں‘‘۔ (یہ سن کر) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا۔‘‘ 1. الحاکم، المستدرک، 3 : 67، کتاب معرفة الصحابة، رقم : 4413 2. حاکم، المستدرک، 3 : 82، رقم : 4461 3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 174 4. بن الجوزي، صفة الصفوة، 1 : 241 5. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 417 72. عن أبي عثمان قال : حدّثني عمرو بن العاص رضي الله عنه : أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم بعثه علٰي جيش ذات السّلاسل، فأتيته فقلت : ’’أيّ النّاس أحبّ إليک؟‘‘ قال : ’’عائشة‘‘. فقلت : ’’من الرّجال؟‘‘ فقال : ’’أبوها‘‘ قلت : ثمّ من؟ قال : ’’عمر بن الخطّاب‘‘ فعدّ رجالا. حضرت ابو عثمان رضي اللہ عنہ سے مروی ہے : کہ مجھے حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غزوہ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا : جب واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوا۔ ’’لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس کے ساتھ ہے؟‘‘ تو ارشاد فرمایا۔ ’’عائشہ رضی اﷲ عنھا کے ساتھ۔‘‘ میں نے پھر عرض کی ’’مردوں میں سے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اُن کے والد ( ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔‘‘ میں نے عرض کی، پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے ساتھ‘‘۔ اور پھر اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے۔ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتاب المناقب، رقم : 3462 2. بخاري، الصحيح، 4 : 1584، رقم : 4100 3. مسلم، الصحيح، 4 : 1856 کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2384 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 706، کتاب المناقب، رقم : 3885، 3886 5. احمدبن حنبل، المسند، 4؛ 203، رقم : 17143 6. ابو يعلي، المسند، 13 : 329، رقم : 7345 7. طبراني، المعجم الکبير، 23، 44، رقم : 114 8. شيباني، السنه لإبن ابي عاصم، 2 : 578، رقم : 123 9. بخاري، التاريخ الکبير، 6 : 24، رقم : 1567 10. عبدين حميد، المسند، 1 : 121، رقم : 295 11. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 2 : 147 73. عن عبداﷲ بن شقيق، قال : قلت لعائشة : أيّ أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان أحبّ إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قالت : أبوبکر، قلت : ثمّ من؟ قالت : عمر، قلت : ثمّ من؟ قالت : ثمّ أبوعبيدة بن الجرّاح، قلت : ثمّ من؟ قال : فسکتت. ’’حضرت عبد اﷲ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمُّ المؤمنین عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا سے پوچھا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھے؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون زیادہ محبوب تھے؟ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون زیادہ محبوب تھے؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ۔ میں نے پوچھا پھر کون؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا خاموش ہو گئیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 39، ابواب المناقب، رقم : 3657 ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه، رقم : 102 2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 218، رقم : 25871 3. ابو يعلي، المسند، 8 : 296، رقم : 4887 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 57، رقم : 8201 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 198 6. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 30، رقم : 97 7. يوسف بن موسي، معتصر المختصر، 2 : 354 8. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 231 9. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 56 10. عسقلاني، الإصابه، 3 : 588 11. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 12. ذهبي، سيرأعلام النبلاء، 1 : 10 74. عن عائشة، عن عمر بن الخطّاب، قال : أبوبکر سيّدنا وخيرنا وأحبّنا إلٰي رسُول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. ’’اُمُّ المؤمنین سيّدہ عائشہ صدِّیقہ رضی اﷲ عنھا امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 606، ابواب المناقب، رقم : 3656 2. الحاکم، المستدرک، 3 : 69، رقم : 4421 3. مقدسي، الأحاديث المختاره، 1 : 256، رقم : 146 4. نو وي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 5. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 29 75. عن أنس رضي الله عنه قال : قيل يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أيّ النّاس أحبّ إليک؟‘‘ قال : ’’عائشة رضي اﷲ عنها‘‘ قيل من الرّجال؟ قال : ’’أبوها.‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، ’’یا رسول اﷲ! آپ کو تمام لوگوں سے زیادہ کون محبوب ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’عائشہ رضی اﷲ عنھا۔‘‘ عرض کیاگیا۔ ’’مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب ہے)؟‘‘ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ صدّیقہ رضی اﷲ عنھا کا باپ ابوبکر رضی اللہ عنہ۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه رقم : 101 نوٹ : و اعلم أن المحبة تختلف بالأسباب والأشخاص فقد يکون للجزئية وقد يکون بسبب الإحسان وقد يکون بسبب الحسن والجمال وأسباب أخر لا يمکن تفصيلها و محبته صلي الله عليه وآله وسلم لفاطمة بسبب الجزئية والزهد والعبادة و محبته لعائشة بسبب الزوجية والتفقه في الدين و محبة أبي بکر و عمر و أبي عبيدة بسبب القدم في الإسلام وإعلاء الدين و وفور العلم. ’’محبت اسباب اور اشخاص کے حوالے سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی جزئیت (اولاد ہونے) کے سبب ہوتی ہے، کبھی کسی احسان کے باعث اورکبھی حسن وجمال کی وجہ سے ہوتی ہے اور دوسرے اسباب کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اﷲ علیھا کے لیے جزئیت (بیٹی ہونے) اور انکے زہد و عبادت کے سبب ہے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت انکی زوجیت اور دین میں تفقہ کی وجہ سے ہے اور حضرت ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنھم کی محبت انکی سبقت سلام، دین کو سر بلند کرنے اور ان کے کمالِ علم کی وجہ سے ہے۔‘‘ 1. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 11 2. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 1 : 98 فصل : 14 أعلم الناس مزاج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . شناسائے مزاجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 76. عن أبي سعيد الخدريّ رضي الله عنه قال : خطب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم النّاس وقال : ’’إنّ اﷲ خيّر عبدا بين الدّنيا وبين ما عند ه، فاختار ذٰلک العبد ما عند اﷲ‘‘. قال : فبکٰي أبوبکر. فعجبنا لبکائه : أن يّخبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن عبد خيّر، فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هو المخيّر، وکان أبوبکر أعلمنا‘‘. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : ’’بیشک اﷲ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور جو اﷲ کے پاس ہے کے درمیان اختیار دیا ہے۔ پس اُس بندے نے اُس چیز کو اختیار کیا جو اﷲ کے پاس ہے‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ ہم نے اُن کے رونے پر تعجب کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توایک بندے کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اُس کو اختیار دیا گیا ہے۔ پس وہ (بندہ) جس کو اختیار دیا گیا تھا خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے (جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد سمجھ گئے)۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح 3 : 1337، کتاب المناقب رقم : 3454 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، رقم : 454 3. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، کتاب فضا ئل الصحابة، رقم : 2382 4. ترمذي، السنن، 5 : 608، رقم : 3660 5. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 607، رقم : 3659 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 559، رقم : 6594 7. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 2861 8. احمدبن حنبل، المسند3 : 18، رقم : 11150 9. ابن سعد، الطبقات الکبرٰي، 2 : 227 10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 13 : 63، رقم : 7045 77. عن ابن أبي المعلّٰي، عن أبيه، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خطب يوما فقال : ’’إنّ رجلا خيّره ربّه بين أن يّعيش في الدّنيا ماشاء أن يّعيش ويأکل في الدّنيا ماشاء أن يأکل وبين لقاء ربّه، فاختار لقاء ربّه‘‘. قال : فبکٰي أبوبکر، فقال أصحاب النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ألا تعجبون من هذا الشّيخ إذ ذکر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رجلا صالحا خيّره ربّه بين الدّنيا وبين لقاء ربّه فاختار لقاء ربّه. قال : فکان أبوبکر أعلمهم بما قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فقال أبوبکر : ’’بل نفديک باٰ بائنا وأموالنا‘‘. حضرت ابن ابی معلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے ایک شخص کو اختیار دیا کہ جب تک چاہے دنیا میں رہ کر جو چاہے کھائے یا اپنے رب کے پاس آجائے، تو اُس بندے نے اپنے رب سے جا ملنے کو پسند کیا‘‘۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے (ایک دوسرے سے) کہا تمہیں اس شیخ پر تعجب نہیں ہوتا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نیک آدمی کا ذکر فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اُسے دنیا میں رہنے یا اپنے رب سے ملاقات کرنے کا اختیار دیا تو اُس بندے نے اپنے رب کی ملاقات کوترجیح دی۔ راوی فرماتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ پاک کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا۔ ’’ (یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) ہمارے ماں باپ اور مال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 607، ابواب المناقب، رقم : 3659 2. احمد بن حنبل، المسند، 4؛ 211 3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 328 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 209، رقم : 234 5. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 51 78. عن أبي سعيد الخدريّ، أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جلس علي المنبر فقال : ’’إنّ عبدا خيّره اﷲ بين أن يّؤتيه من زهرة الدّنيا ماشاء وبين ما عنده، فاختار ما عنده‘‘. فقال أبوبکر : فديناک يا رسول اﷲ باٰبائنا وأمّهاتنا. قال : فعجبنا! فقال النّاس : أنظروا إلٰي هذا الشّيخ يخبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن عبد خيّره اﷲ بين أن يّؤتيه من زهرة الدّنيا ماشاء وبين ما عنداﷲ وهو يقول : فديناک باٰ بائنا وأمّهتنا! قال : فکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم هو المخيّر، وکان أبوبکر هو أ علمنا به. ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو ارشاد فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ یا تو دنیا کی آرائش سے جو چاہے لے لے یا جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے وہ حاصل کرے، تو اس بندے نے اُسے پسند کیا جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے۔‘‘ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں۔ راوی فرماتے ہیں ہمیں تعجب ہوا، تو لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس شیخ کی طرف دیکھو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کسی بندے کے متعلق فرما رہے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے اُسے دنیا کی آرائش یا جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہے، اُن میں سے ایک کے حصول کا اختیار دیا اور یہ فرما رہے ہیں ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کو ہم سب سے زیادہ جانتے تھے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، رقم : 3691 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2382 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 41، ابواب المناقب، رقم : 3660 4. ابن حبان، 15 : 277، رقم : 6861 79. عن المسور بن مخرمة و مروان بن حکم قالا. . . قال : عمر بن الخطّاب : فأ تيت نبيّ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقلت : ’’ألست نبيّ اﷲ حقّا؟‘‘ قال : ’’بلٰي‘‘. قلت : ألسنا علي الحقّ وعدوّنا علي الباطل؟ قال : ’’بلٰي‘‘ قلت : ’’فلم نعطي الدّ نيّة في ديننا إذا ؟‘‘ قال : ’’إنّي رسول اﷲ، ولست أعصيه، وهو ناصري‘‘. قلت : ’’أوليس کنت تحدّثنا أنّا سنأ تي البيت فنطوف به؟‘‘ قال : ’’بلٰي، فأ خبرتک انّا نأ تيه العام ؟‘‘. قال : قلت : لا قال : ’’فإنّک آتيه ومطّوّف به‘‘. قال : فأ تيت أبابکر فقلت : ’’يا أبابکر، أليس هذا نبيّ اﷲ حقّا؟‘‘ قال : بلٰي قلت : ’’ألسنا علي الحقّ وعدوّنا علي الباطل؟‘‘ قال : بلٰي قلت : ’’فلم نعطي الدّنيّة في ديننا اذا؟‘‘ قال : ’’أيّها الرّجل، إنّه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وليس يعصي ربّه، وهو ناصره، فاستمسک بغرزه، فواﷲ إنّه علي الحقّ‘‘. قلت : ’’أليس کان يحدّثنا أنّا سناتي البيت و نطوف به؟‘‘ قال : بلٰي أفأخبرک أنّک تاتيه العام؟ قلت : لا، قال : ’’فإ نّک آتيه ومطّوّف به.‘‘ ’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے مروی صلح حدیبیہ کے بارے طویل حدیث میں ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی : ’’کیا آپ سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں سچا نبی ہوں۔‘‘ میں نے عرض کی، ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیوں نہیں!‘‘ میں نے عرض کی : ’’پھر ہمیں اپنے دینی معاملات میں دبنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’میں اﷲ کا رسول ہوں اس کے حکم سے سرِمو انحراف نہیں کرتا ہوں اور وہ میرا مددگار ہے۔‘‘ میں نے عرض کی ’’کیا آپ ہمیں ارشاد نہیں فرمایا کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اﷲ شریف حاضری دیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! مگر کیا میں نے تمہیں اس سال بیت اﷲ شریف حاضری دینے کی خبر دی تھی؟‘‘ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے عرض کی، نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم ضرور خانہ کعبہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : ’’اے ابوبکر! کیا یہ اﷲ رب العزت کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’یقیناً ہیں‘‘۔ میں نے عرض کی، ’’کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ایسا ہی ہے‘‘۔ میں نے عرض کی ’’پھر ہمیں اپنے دینی معاملات میں (کفار سے) دبنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ’’ارے اﷲ کے بندے، وہ اﷲ رب العزت کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اپنے رب کریم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ اﷲ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناصر و مددگار ہے۔ پس تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت پرمضبوطی سے قائم رہو کیونکہ اﷲ رب العزت کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر ہیں‘‘۔ میں نے عرض کی ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ارشاد فرمایا نہیں کرتے تھے کہ ہم بیت اﷲ شریف حاضری دیں گے اور اس کا طوا ف کریں گے‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں اس سال بیت اﷲ حاضری دینے کی خبر ارشاد فرمائی تھی؟ میں نے عرض کی’’نہیں‘‘۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ’’یقین رکھو، تم بیت اﷲ شریف حاضری دو گے اور اس کا طواف بھی کرو گے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 2 : 978، کتاب الشروط، رقم : 2583 2. بخاري، الصحيح، 4 : 1832، رقم : 4563 نوٹ : صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمت و فراست کے اعتبار سے جو فیصلہ فرمایا اس کو صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھ لیا اور آپ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو جو جوابات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائے بعینہ وہی جوابات حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمائے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حکمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین ہیں۔ فصل : 15 اشد توقيرا و تعزيرا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . فنائے ادبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)80. عن سهل بن سعد السّاعديّ : أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذهب إلي بني عمر و بن عوف ليصلح بينهم، فحانت الصّلاة، فجاء المؤذّن إلي أبي بکر، فقال : أتصلّي للنّاس فأقيم؟ قا ل : نعم، فصلّٰي أبوبکر فجآء رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والنّاس في الصّلاة، فتخلّ رضي الله عنه حتّي وقف في الصّفّ، فصفّق النّاس، وکان أبوبکر لا يلتفت في صلا ته فلمّا أکثر النّاس التّصفيق إلتفت فرأي رسو ل اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأشار إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أن امکث مکانک‘‘ فرفع أبوبکر رضي الله عنه يديه، فحمد اﷲ علٰي ما أمره به رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من ذٰلک، ثمّ استأخر أبوبکر رضي الله عنه حتّي استوٰي في الصّفّ، و تقدّم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فصلّي، فلمّا انصرف قال : ’’ يا أبابکر، ما منعک أن تثبت إذ أمرتک‘‘. فقال أبوبکر : ما کان لإبن أبي قحافة أن يصلّي بين يدي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ ’’حضرت سھل بن سعد ساعدی روایت فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی عمر و بن عوف کے ہاں تشریف لے گئے تاکہ اُن (کے کسی تنازعہ) کی صُلح کرا دیں۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اگر آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں! پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے۔ تو اسی دوران رسول اکرم واپس تشریف لے آئے اور لوگ ابھی نماز میں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفوں میں داخل ہوتے ہوئے پہلی صف میں جا کھڑے ہو ئے۔ لوگوں نے تالی کی آواز سے آپ رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنا چاہا۔ مگر چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حالتِ نماز میں اِدھر اُدھر متوجہ نہ ہوتے تھے اس لئے اِدھر متوجہ نہ ہوئے۔ پھر جب لوگوں نے بہت زور سے تالیاں بجائیں تو آپ رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں (ابو بکر صدیق کو) اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور اﷲ رب العزت کی حمد بیان کی اور اﷲ کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھاتے رہنے کا جو حکم فرمایا اس پر اﷲ کا شکر ادا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے اور صف میں مل گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ادھر متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’اے ابو بکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو کس چیز نے تمہیں اپنی جگہ پر قائم رہنے سے منع کیا۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے کھڑا ہو کر نماز پڑھائے‘‘۔ 1. بخاري، الصحيح، 1، 242، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 652 2. مسلم، الصحيح، 1 : 316، کتاب الصلاة، رقم : 421 3. نسائي، السنن، 2 : 82، ، کتاب الامامة، رقم : 793 4. نسائي، السنن، 3 : ، 3، کتاب السهو، رقم : 1183 5. ابو داؤد، السنن، 1 : 247، کتاب الصلٰوة، رقم : 940 6. ابن حبان، الصحيح، 6 : 35، رقم : 2260 7. مالک، المؤطا، 1 : 163، رقم : 390 8. احمدبن حنبل، المسند5 : 332، رقم : 22867 9. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 58، رقم : 1623 81. عن طارق عن أبي بکر رضي الله عنه قال : لمّا نُزّلت علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إنّ الّذين يغضّون أصواتهم عند رسول اﷲ أولٰئک الّذين امتحن اﷲ قلوبهم للتّقوٰي (الحجرٰت : 3) ) قال أبوبکر رضي الله عنه : ’’فاٰ ليت علٰي نفسي أن لّا أکلّم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلاّ کأخي السّرار.‘‘ ’’حضرت طارق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب سورۃ الحجرات کی آیت ’’بیشک وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ رب العزت نے تقویٰ کے لئے مختص کر لیا ہے‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’میں نے قسم کھائی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کلام صرف سرگوشی کی صورت میں کروں گا، جس طرح رازدان سرگوشی کرتے ہیں۔‘‘ 1. حاکم، المستدرک، 3 : 78، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4449 2. عسقلاني، المطالب العاليه، 4 : 33، رقم : 3887 3. مروزي، تعظيم قدر الصلاة، 2 : 228، رقم : 729 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 138 82. عن أنس بن مالک قال ثم قبض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو بن ثلاث و ستين و أبوبکر و هو بن ثلاث و ستين. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ سال (63) سال تھی اور حضرت ابوبکر صدیق کا وصال ہوا تو ان کی عمر بھی (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں) تریسٹھ سال تھی۔ مسلم، الصحيح، 4 : 1825، رقم : 2348 فصل : 17 اعتزازه رضي الله عنه بکونه ثاني اثنين (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . ثانی اثنین) 97. عن أنس، عن أبي بکر رضي الله عنه قال : قلت للنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا في الغار : لو أنّ أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا، فقال : ’’ما ظنّک يا أبا بکر باثنين اﷲ ثالثهما‘‘. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا جب کہ میں (آپ کے ساتھ) غار میں تھا اگر اِن ( تلاش کرنے والے کفار) میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے دیکھے تو یقیناً ہمیں دیکھ لے گا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو (افراد) کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اﷲ رب العز ت ہو۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، رقم : 3453 2. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381 3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 278، رقم : 3096 4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 181، رقم : 6279 5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 287، رقم : 6869 6. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 4، رقم : 11 7. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 66 8. ابن ابي شيبه المصنف، 6 : 348، رقم : 31929 9. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 345، رقم : 36613 10. بزار، المسند، 1 : 96، رقم : 36 11. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 576، رقم : 1225 12. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 173 13. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 137 14. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 968 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 475 16. محب طبري، الرياض النفره، 1 : 449 17. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 63، رقم : 23 18. فاکهي، اخبار مکه، 4 : 81، رقم : 2413 98. عن أنس بن مالک : أنّ أبا بکر الصّدّيق حدّثه قال : نظرت إلٰي أقدام المشرکين علي رؤوسنا ونحن في الغار فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ! لو أنّ احدهم نظر إلي قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال ’’يا أبا بکر! ما ظنّک باثنين اﷲ ثالثهما‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں نے اپنے سروں کے برابر مشرکین کے پاؤں دیکھے جبکہ ہم غار (ثور) میں تھے پس میں نے عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان (مشرکین) میں سے کوئی شخص اپنے پاؤں کی طرف دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ا بوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا (خود) اﷲ رب العزت ہو۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح، 4 : 1854، رقم : 2381 2. ابو يعلي، المسند، 1 : 68، رقم : 67 3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 30، رقم : 2 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 352، رقم : 510 5. يوسف بن موسيٰ، معتصر المختصر، 2 : 342 6. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 475، رقم : 510 فصل : 18 إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يغضب لغضب الصديق رضي الله عنه (ابوبکر رضی اللہ عنہ ناراض تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض) 99. عن أبي الدّرداء رضي الله عنه قال : کنت جالسا عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إذ أقبل أبوبکر اٰخذا بطرف ثوبه، حتّٰي أبدي عن رکبته، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أمّا صاحبکم فقد غامر‘‘. فسلّم وقال : إنّي کان بيني وبين ابن الخطّاب شيء، فأسرعت إليه ثمّ ندمت، فسألته أن يغفرلي فابٰي عليّ، فأقبلت إليک، فقال : ’’يغفر اﷲ لک يا أبابکر‘‘. ثلاثا، ثمّ إنّ عمر ندم فأتٰي منزل أبي بکر، فسأل : أثمّ أبوبکر؟ فقالوا : لا، فأتي إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فسلّم، فجعل وجه النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم يتمعّر، حتّي أشفق أبوبکر، فجثا علي رکبتيه فقال : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، واﷲ أنا کنت أظلم، مرّتين، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ اﷲ بعثني إليکم فقلتم کذبت، و قال أبوبکر صدق. وواساني بنفسه و ماله، فهل أنتم تارکولي صاحبي‘‘. مرّتين، فما أوذي بعدها. ’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنی چادر کا کنارہ پکڑے حاضرِ خدمت ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کاگھٹنا ننگا ہو گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہارے یہ صاحب لڑ جھگڑ کر آرہے ہیں۔‘‘ انہوں نے سلام عرض کیا اور بتایا کہ میرے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تکرار ہوئی تو جلدی میں میرے منہ سے ایک بات نکل گئی جس پر مجھے بعد میں ندامت ہوئی اور میں نے اُن سے معافی مانگی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ تمہیں معاف فرمائے‘‘ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انکے بارے میں پوچھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ گھر والوں نے کہا۔ نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ صبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا، اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پُر نور کا رنگ بدل گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں ہی زیادتی کرنے والا تھا۔‘‘ یہ دو مرتبہ عرض کیا پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک جب اﷲ رب العزت نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم سب لوگوں نے میری تکذیب کی (جھٹلایا) لیکن ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ اور پھر اپنی جان اور اپنے مال سے میری خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا‘‘۔ پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا ’’کیا تم میرے ایسے ساتھی سے میرے لئے درگزر کرو گے؟‘‘ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی اذیت نہیں دی گئی۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1339، کتا ب المناقب، رقم : 3461 2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 232 3. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 208، رقم : 1199 4. ابو نعيم، حلية الاولياء، 9 : 304 5. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 110 6. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 243 7. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 476 8. محب طبري، رياض النضره، 2 : 19 9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 240، رقم : 297 100. عن ربيعة الأسلميّ قال : کنت أخدم رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأعطا ني أرضا وأعطٰي أبابکرأرضا فجاء ت الدّنيا فاختلفنا في عذق نخلة، فقال أبوبکر : هي في حدّي، وقلت أنا : هي في حدّي، فکان بيني و بين أبي بکر کلام فقال أبوبکرکلمة کرهتها، وندم، فقال : يا ربيعة ردّ عليّ مثلها حتّٰي يکون قصاصا!، فقلت لا أفعل! فقال أبوبکر : لتفعل وإلّا استعديت عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. فقلت : ما أنا بفاعل! فانطلق أبوبکر إلي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، وانطلقت أتلوه، فجاء ناس مّن أسلم فقالوا : رحم اﷲ أبا بکر في أيّ شيء يستعدي عليک رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو الّذي قال لک ما قال. فقلت : أتدرون من هٰذا؟ هٰذا أبوبکر الصّدّيق، وهو ثاني اثنين، وهو ذو شيبة المسلمين فإيّاکم يلتفت فيراکم تنصروني عليه فيغضب ويأتي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فيغضب لغضبه، فيغضب اﷲ لغضبهما فتهلک ربيعة. قالوا : فما تأمرنا؟ قلت : إرجعوا. فانطلق أبوبکر إلٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وتبعته وحدي، وجعلت أتلوه حتّٰي أتٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فحدّثه الحديث کما کان، فرفع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إليّ رأسه فقال : ’’يا ربيعة ما لک ولصّدّيق؟‘‘ قلت : يا رسول اﷲ کان کذا وکذا، فقال لي کلمة کرهتها. فقال لي : قل کما قلت حتّي يکون قصاصا. فأبيت، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أجل! فلا تردّنّ عليه، ولٰکن قل !’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘ فقلت : ’’غفر اﷲ لک يا أبا بکر‘‘. فولّي أبو بکر وهو يبکي. ’’حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین کا کچھ حصہ مجھے عطا فرمایا اور کچھ حصہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو۔ پس اُمور دنیا کی وجہ سے ہمارے درمیان کھجور کے ایک درخت کی شاخوں پر اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میری حد میں ہے، اور میں نے کہا یہ میری حد میں ہے۔ پس میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہوئی تو انہوں نے ایسا کلمہ کہہ دیا جسے میں نے ناپسند کیا۔ پھر وہ شرمندہ ہو گئے اور فرمایا : ’’اے ربیعہ ! اسی طرح کا کلمہ تُم مُجھے کہہ لو تاکہ وہ قصاص بن جائے۔‘‘ میں نے عرض کی : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تُم ایسا کرو ورنہ میں تمہارے خلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کروں گا۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے اﷲ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ! وہ کس چیز میں تمہارے خلاف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرتے ہیں۔ حالانکہ انہی نے تو تمہیں وہ کہا جو کہا، تو میں نے کہا : تُم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، وہ ثانی اثنین ہیں اور وہ تمام مسلمانوں میں پہل کرنے والے ہیں۔ پس تُم ا س سے بچو کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اور تمہیں دیکھ لیں کہ تُم میری مدد کر رہے ہو جس کے نتیجے میں وہ غصے ہو جائیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اُن کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے اﷲ بھی ناراض ہو جائے گا۔ نتیجتاً ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا : آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا : ’’تم واپس لوٹ جاؤ‘‘۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے گئے اور میں اکیلا اُن کے پیچھے چلتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انور میں پہنچ گئے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ساری بات بتائی، جو ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر انور میری طرف اُٹھایا اور ارشاد فرمایا : ’’اے ربیعہ! تمہارے اور صدیق کے درمیان کیا معاملہ ہوا؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’یا رسول اﷲ ! معاملہ اس اس طرح ہوا پھر انہوں نے مُجھے ایک ایسا کلمہ کہا جسے میں نے ناپسند کیا۔ اِنہوں نے مجھے فرمایا کہ تم بھی اُسی طرح کہہ لو جس طرح میں نے تُمہیں کہا ہے تاکہ وہ قصاص بن جائے تو میں نے انکار کر دی۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ہاں! ان پر قصاص کے طور پر وہ کلمہ نہ کہنا، بلکہ تُم کہو کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ تو میں نے یہی جملہ کہا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ آپ کو معاف فرمائے۔‘‘ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے وہاں سے واپس چل پڑے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 4 : 58 2. حاکم، المستدرک، 2 : 189، رقم : 2718 3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 58، رقم : 4577 4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 334، رقم : 481 5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 45 6. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 26 7. طبري الرياض النضرة، 2 : 6 فصل : 19 کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إلي الصديق رضي الله عنه و يتبسم إليه (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ کو پیار سے دیکھتے اور تبسم فرماتے)101. عن أنس؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علٰي أصحابه من المهاجرين والانصار وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلّا أبوبکر وعمر فإنّهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لایا کرتے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ) بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے۔ پس یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کرتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھا کرتے۔ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا کرتے تھے۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 612، رقم : 3668 2. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 150، رقم : 12538 3. حاکم، المستدرک، 1 : 209، رقم : 418 4. عبد بن حميد، المسند، 1 : 388، رقم : 1298 5. طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 2064 6. محب طبري، الرياض، النضره، 1 : 338 7. مزي، تهذيب الکمال، 7 : 123 102. عن أنس بن مالک قال کنا نجلس النبي کأنما علي رؤسنا الطير ما يتکلم أحد منا إلا ابو بکر و عمر. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ہماری یہ حالت ہوتی گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کلام نہ کر سکتا سوائے ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنھما کے۔‘‘ 1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 53 2. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 5، رقم : 7782 فصل : 20 تصدق الصديق بکل ماعنده لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم (صدّیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضورِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا سب کچھ لٹا دیا) 103. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا. حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم : 3675 2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678 3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم : 1660 4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510 5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270 6۔ عبد بن حميد نے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ ميںسعد بن اسلم سے روايت لي ہے۔ 7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم : 1240 8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81 9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا ہے۔ 10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 11۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563 104. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عبائة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲ جل جلاله يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘ 1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105 3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308 4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20 5. خطيب بغدادي، موضح أوهام الجمع والتفريق، 2 : 441 فصل : 21 قول الصديق رضي الله عنه : أبقيت لهم ش و رسوله (میرے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کافی ہے) 105. عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم : 3675 2. ابو داؤد، 2 : 129، السنن کتاب الزکٰوة، رقم : 1678 3. دارمي، السنن، 1 : 480، رقم : 1660 4. حاکم، المستدرک، 1 : 574، رقم : 1510 5. بزار، المسند، 1 : 394، رقم : 270 6۔ عبدبن حمیدنے ’المسند (ص : 33، رقم : 14)‘ میں سعد بن اسلم سے روایت لی ہے۔ 7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 579، رقم : 1240 8. مقدسي، الاحاديث المختاره، 1 : 173، 174، رقم : 80، 81 9۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء (1 : 32)‘ میں زید بن ارقم سے اسے روایت کیا ہے۔ 10۔ ابن الجوزی نے ’ صفۃ الصفوہ (1 : 241)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 11۔ محب طبری نے بہی ’الریاض النضرہ (1 : 355)‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت نقل کی ہے۔ 12. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 180، رقم : 7563 فصل : 22 قال النبي صلي الله عليه وآله وسلم : ما نفعني مال أحد قط ما نفعني مال أبي بکر (کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے) 106. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال أحد قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے۔‘‘ 1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328 3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 4. ابن منده، الإيمان، 2 : 795 5. خطيب بغداد، تاريخ بغداد، 8 : 21 107. عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال قطّ ما نفعني مال أبي بکر‘‘ قال فبکٰي أبوبکر وقال : هل أنا و مالي إلّا لک يا رسول اﷲ. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کبھی کسی مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے مُجھے فائدہ پہنچایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اور میرا مال صرف آپ کے لئے ہی ہے۔‘‘ 1. ابن ماجه، السنن، 1 : 36، رقم : 94 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 253، رقم : 7439 3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 6858 4. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 577، رقم : 1229 5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 31927 6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 25 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 511 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 393، رقم : 595 9. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2166 10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 16 11. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 249 12. طحاوي، شرح معاني الآثار، 4 : 158 13. قزويني، التدوين في أخبار قزوين، 3 : 349 14. مناوي، فيض القدير، 5 : 503 15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 16 16. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 10 : 363، رقم : 5525 فصل : 23 قال رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنّه ليس أحد أمنّ عليّ فِي نفسه وماله من أبِي بکرابن أبي قحافة رضي اﷲ عنهما (ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا)108. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : ’’إنّه ليس أحد أمنّ عليّ في نفسه وماله من أبي بکرابن أبي قحافة‘‘. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال (قربان کرنے ) کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455 2. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2432 3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860 4. ابويعلي، المسند، 4 : 457، رقم : 2584 5. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102 6. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1 7. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67 9. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 338، رقم : 11938 10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228 11. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13 109. عن أبي سعيد قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ أمنّ النّاس عليّ في ماله وصحبته أبو بکر‘‘. ’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا احسان ہے، مال کا بھی اور ہم نشینی کا بھی۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح 4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454 3. بخاري، الصحيح، 3 : 1337، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3454 4. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3691 5. ترمذي، السنن، 5 : 608، کتاب المناقب، رقم : 3660 6. احمدبن حنبل، المسند، 3 : 18، رقم : 11150 7. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 348، رقم : 3126 8. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861 9. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103 10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2 11. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112 12. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967 13. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 243 14. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 227 15. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 120، رقم : 58 15. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 14 16. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51 110. عن ابن المسيب قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما مال رجل من المسلمين أنفع من مال أبي بکر قال و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقضي في مال أبي بکر کما يقضي في مال نفسه. ’’ابن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں سے کسی شخص کے مال نے مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے زیادہ نفع نہیں پہنچایا۔ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔‘‘ 1. خيثمه، من حديث خيثمه، 1 : 130 2. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 228 3. مناوي، فيض القدير، 4 : 18 4. مناوي، فيض القدير، 5 : 503 5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 72 6. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 17 111. عن ابن عمر قال اسلم أبوبکر يوم اسلم و في منزله أربعون الف درهم فخرج إلي المدينة من مکة في الهجرة و ماله غير خمسة آلاف کل ذلک ينفق في الرقاب و العون علي الإسلام. ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت انکے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔‘‘ 1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68 2. مناوي، فيض القدير، 4 : 18 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 171 4. ابن عبدالبر نے ’الاستیعاب (3 : 966)، میں ہشام بن عروہ سے باختلاف لفظ روایت کیا ہے۔ 5. نووی نے ’تہذیب الاسماء (2 : 480)‘ میں ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ 6. محب طبری، الریاض النضرہ، 2 : 21 (ھشام بن عروہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ 112. عن زيد بن اسلم قال کان ابوبکر معروفا بالتجارة لقد بعث النبي صلي الله عليه وآله وسلم و عنده أربعون ألف درهم فکان يعتق منها و يقوي المسلمين حتي قدم المدينة القدرة آلاف درهم ثم کان يفعل فيها ما کان يفعل بمکة. ’’حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق مشہور تاجر تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے آپ اس رقم سے غلاموں کو آزاد کرواتے اور مسلمانوں کو تقویت پہنچاتے تھے یہانتک کہ آپ ہجرت کرکے ہزاروں دراہم کے ساتھ مدینہ طیبہ آگئے۔ یہاں بھی آپ مکہ معظمہ کی طرح دل کھول کر اسلام پر خرچ کرتے رہے۔‘‘ 1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 172 2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 68 3. عسقلاني، الاصابه، 4 : 172 4. الترتب الاداريه، 2 : 24 فصل : 24 قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر (ہمارے اوپر کسی کا کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ نہ چکا دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے)113. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما لأحد عندنا يد إلّا وقد کافيناه ما خلا أبابکر فانّ له عندنا يدا يکافئه اﷲ به يوم القيامة. ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کا بھی ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا ہم نے بدلہ چکا نہ دیا ہو، سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے۔ بیشک اُن کے ہمارے اوپر احسان ہیں جن کا بدلہ اﷲ رب العزت قیامت کے دن چُکائے گا۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661 2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 104، رقم : 6328 3. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478 4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 18 5. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 13 114. عن علي قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم رحم اﷲ أبابکر زوجني ابنته و حملني إلي دارالهجرة و أعتق بلا لا من ما له. ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے انہوں نے مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا، مجھے اٹھا کر دارالہجرت (مدینہ) لے گئے اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 633، رقم : 3714 2. ابويعلي، المسند، 1 : 418، رقم : 550 3. بزار، المسند، 3 : 52 4. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 95، رقم : 5906 5. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 577، رقم : 1232 6. قيسراني، تذکرة الحفاظ، 3 : 844 7. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 15 : 278 8. مزي، تهذيب الکمال، 10 : 402 9. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 243 فصل : 25 قرأش عليه رضي الله عنه السلام فقال : أراض أنت عني (اللہ تعالیٰ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر سلام بھیجا اور پوچھا : کیا تم مجھ سے راضی ہو؟)115. عن ابن عمر، قال : کنت عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم وعنده أبوبکر الصّدّيق، وعليه عباء ة قد خلّها في صدره بخلال فنزل عليه جبريل فقال : يا محمّد مالي أرٰي أبابکر عليه عباء ة قد خلّها في صدره؟ فقال : يا جبريل أنفق ما له عليّ قبل الفتح، قال : فإنّ اﷲد يقرأ عليک السّلا م ويقول قل لّه : ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال : رسول اﷲ : يا أبابکر! إنّ اﷲ عزوجل يقرأ عليک السّلام و يقول لک ’’أراض أنت عنّي في فقرک هٰذا أم ساخط؟‘‘ فقال أبوبکر عليه السّلا م أسخط علٰي ربّي؟ أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض، أنا عن رّبّي راض. ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عباء (لباس جو سامنے سے کُھلا ہوا ہو اور اُس کو کپڑوں کے اوپر پہنا جاتا ہے) پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے) سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عباء پہن کر اُسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اﷲ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تم اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، ’’کیا تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ ’’میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے (ہر حال میں) راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔‘‘ 1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 250 2. ابو نعيم، حلية الاولياء، 7 : 105 3. ابن کثير، تفسيرالقرآن العظيم، 4 : 308 4. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 20 5. خطيب بغدادي، موضح أدهام الجمع والتفريق، 2 : 441 فصل : 26 لم تبقي خوخة في المسجد النبوي غيرخوخة أبي بکر (مسجد نبوی کے صحن میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا)116. عن أبي سعيد ؛ أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم جلس علي المنبر فقال : . . . لا تبقينّ في المسجد خوخة إلّا خوخة أبي بکر‘‘ ’’حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’. . . مسجد میں کسی کی کھڑکی باقی نہ رہنے دی جائے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کی کھڑکی قائم رکھی جائے۔‘‘ 1. مسلم، الصحيح4 : 1854، کتاب فضائل الصحابة رقم : 2382 2. بخاري، الصحيح، 1 : 177، کتاب الصلاة، رقم : 454 3. بخاري، الصحيح، 3 : 1417، کتاب، فضائل الصحابة، رقم : 3691 4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 608، کتاب المناقب، قم : 3660 5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 277، رقم : 6861 6. ابن حبان، الصحيح، 14 : 559، رقم : 6594 7. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8103 8. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 2 9. ابن عبد البر، التمهيد، 20 : 112 10. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 967 11. حماد بن اسحاق، ترکة النبي، 1 : 51 12. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 12 117. عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : . . . سدّ وا عنّي کلّ خوخة في هٰذا المسجد غير خوخة أبي بکر‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرضِ وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’. . . اس مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔‘‘ 1. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 270، رقم : 2436 2. بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455 3. ابن حبان، 15 : 275، رقم : 6860 4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 35، رقم : 8102 5. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 1 6. احمد بن حنبل، فصائل الصحابه، 1 : 152، رقم : 134 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 97، رقم : 67 8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 228 9. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 13 118. عن عائشة، أنّ النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم أمر بسدّ الابواب إلّا باب أبي بکر ’’ام المؤمنین عائشہ صِدِّیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مسجد میں کھلنے والے) تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، سوائے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے کے۔ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 616، ابواب المناقب، رقم : 3678 2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 272، رقم : 6857 3. دارمي، السنن، 1 : 51 4. ابو يعلي، المسند، 8 : 137، رقم : 4678 5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 442، رقم : 4121 6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 532، رقم : 2170 7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 70، رقم : 33 8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 353، رقم : 512 9. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 407، رقم : 629 10. طبري، تاريخ الأمم و الملوک، 2 : 229 11. نيشاپوري، معرفة علوم الحديث، 1 : 99 فصل : 27 أحسن الناس أخلاقا (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . حسن خلق کا پیکر اتم) 119. عن عبداﷲ بن عمر رضي الله عنه قال : ثلاثة من قريش أصبح قريش وجوها وأحسنها أخلاقا وأثبتها حياء إن حدّثوک لم يکذبوک وإن حدّثتهم لم يکذّبوک أبوبکر الصّدّيق وأبو عبيدة بن الجرّاح وعثمان بن عفّان رضي اﷲ عنهم. ’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : قریش میں سے تین افراد ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے، سب سے زیادہ حسنِ اخلاق کے حامل اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تُم اُن کے ساتھ بات کرو گے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 56، رقم : 16 2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 157 3. ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 56 4. مزي، تهذيب الکمال، 14 : 56 5. عسقلاني، الاصابه، 3 : 589 6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 25 : 475 120. عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ أرحم أمّتي بأمّتي أبوبکر و أشدّ هم في أمراﷲ عمر و أصدقهم حياء عثمان‘‘. ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور اﷲ کے احکامات کے معاملے میں سب سے زیادہ شدت والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حیاء کے اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ 1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 664، رقم : 3890 2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 665، رقم : 3891 3. ابن ماجه، السنن، 1 : 55، رقم : 154 4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67، رقم : 8242 5. نسائي، السنن الکبري، 5 : 67 رقم : 8287 6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 477، رقم : 5784 7. ابن حبان، الصحيح، 16 : 238، رقم : 7252 8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 210، رقم : 11966 9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 41، رقم : 138 10. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 55، رقم : 182 11. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 548، رقم : 2218 12. مقدسي، الأحاديث المختارة، 6 : 227، رقم : 2242 13. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 474 14. احمد بن علي، الفصل الموصل المدرج، 2 : 679 121. عن جابر بن عبداﷲ الانصاري رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أرحم أمتي بأمتي أبوبکر و أرفق أمتي لأمتي عمر بن الخطاب و أصدق أمتي حياء عثمان وأقضي أمتي علي بن أبي طالب. ’’حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے اسکے ساتھ سب سے زیادہ رحمدل ابوبکر ہے اور میری امت میں سے سب سے زیادہ نرم رو عمر بن خطاب ہے اور میری امت میں حیاء کے اعتبار سے سب سے سچے عثمان ہیں اور میری امت میں سے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔‘‘ 1. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 335، رقم : 556 2. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 228 3. عجلوني، کشف الخفاء، 1 : 118 122. عن عبداﷲ بن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من جرّ ثوبه خيلاء، لم ينظر اﷲ إليه يوم القيامة‘‘ فقال أبوبکر : إنّ أحد شقّي ثوبي يسترخي، إلّا أن أتعاهد ذٰلک منه؟ فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّک لست تصنع ذٰلک خيلاء.‘‘ ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جس نے اپنے کپڑے کو تکبر کرتے ہوئے گھسیٹا، قیامت کے دن اﷲ رب العزت اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا‘‘۔ حضرت ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) نے عرض کی۔ ’’میرے کپڑے کا ایک کونہ عموماً لٹک جاتا ہے سوائے اس صورت کے کہ میں اس کی احتیاط کروں‘‘۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’تم ایسا ازراہِ تکبر نہیں کرتے۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3465 2. بخاري، الصحيح، 5 : 281، کتاب المناقب، رقم : 5447 3. ابوداؤد، السنن، 4 : 56، کتاب اللباس، رقم : 4085 4. نسائي، السنن، 8 : 208، رقم : 5335 5. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 67، رقم : 5351 6. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 104، رقم : 5816 7. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 136، رقم : 6203 8. ابن حبان، الصحيح، 12 : 261، رقم : 5444 9. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13178 10. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 301، رقم : 13174 11. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 491، رقم : 9721 12. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 243، رقم : 3131 13. بيهقي، شعب الايمان، 5 : 143، رقم : 6120 14. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 249 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476 16. محب طبري، الرياض النضره، 2 : 147 123. وفي تلقيح الأذهان لحضرة الشّيخ الأکبر. قال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ للّٰه ثلاث مائة وستّين خلقا، من لقيه بخلق منها مع التّوحيد دخل الجنّة.‘‘ قال أبو بکر رضي الله عنه : ’’هل فيّ منها يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ‘‘ قال : ’’کلّها فيک يا أبا بکر وأحبّها إلي اﷲ السّخاء.‘‘ ’’حضرت شیخ اکبر کی ’’تلقیح الاذھان‘‘ میں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے خلق کی تین سو ساٹھ (360) صورتیں ہیں، جو شخص اﷲ رب العزت سے اِس حال میں مُلاقات کرے کہ اُس میں توحیدِ اِلٰہی کے ساتھ اُن صفات میں سے ایک بھی صفت پائی جائے وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اُن میں سے کوئی میرے اندر بھی پائی جاتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر ! حُسن خُلق کی وہ تمام کی تمام صورتیں تُمھارے اندر پائی جاتی ہیں اور اُن میں سے اﷲ کے ہاں سب سے پسندیدہ ’سخاوت‘ ہے۔‘‘ فصل : 28 کونه جامع الحسنات کلها (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . جملہ حسنات کے جامع)124. عن الزّهريّ قال : أخبرني حميد بن عبدالرّحمٰن بن عوف : أنّ أبا هريرة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’من أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل اﷲ، دعي من أبواب. يعني : ألجنّة. يا عبداﷲ هٰذا خير، فمن کان من أهل الصّلاة دعي من باب الصّلاة، ومن کان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن کان من أهل الصّدقة دعي من باب الصّدقة، و من کان من أهل الصّيام دعي من باب الصّيام، وباب الرّيّان.‘‘ فقال أبوبکر : ما علٰي هٰذا الّذي يدعٰي من تلک الأبواب من ضرورة، وقال : هل يدعٰي منها کلّها أحد يا رسول اﷲ؟ قال : ’’نعم، وأرجو أن تکون منهم يا أبابکر.‘‘ ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ’’جو اﷲ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اُسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اے اﷲ کے بندے! یہ خیر ہے۔ پس جو اہل الصلوٰۃ (نمازیوں) میں سے ہو گا اُس کو بابُ الصلوٰۃ سے بُلایا جائے گا اور جو اہلِ جہاد میں سے ہو گا اُسے بابُ الجہاد سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صدقہ (خیرات والوں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصدقہ سے بلایا جائے گا اور جو اہلِ صِیام (روزہ داروں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصیام اور بابُ الريّان سے بلایا جائے گا۔‘‘ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اُسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! مجھے امید ہے کہ تم اُن لوگوں میں سے ہو‘‘ (جنہیں تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا)۔‘‘ 1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3466 2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 268، رقم : 7621 3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 449، رقم : 9799 4. ابن حبان، الصحيح، 8 : 206، رقم : 3418 5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 207، رقم : 3419 6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 353، رقم : 31965 7. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 6، رقم : 2219 8. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 36، رقم : 8108 9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 4، رقم : 7 10. ابونعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3 : 101، رقم : 2296 11. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 255، رقم : 3468 12. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 107 13. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 578، رقم : 1237 14. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 171، رقم : 163 15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476 1 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
Eccedentesiast مراسلہ: 31 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 31 جولائی 2010 Shaan-e-Hazrat Abu Bakr Siddique رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62716 Shaan-e-Hazrat Umar Farooq رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62717 Shaan-e-Hazrat Usman Ghani رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...__0entry62720 Shaan-e-Hazrat Ali رضی اللہ تعالی عنہ http://www.islamimeh...age__pid__62721 اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔