Jump to content

شانِ اولیاء


NAJAMMIRANI

تجویز کردہ جواب

یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اپنی سطوت و شوکت کے کم و بیش بارہ سو سالہ عروج کے بعد جب سے اُمتِ مسلمہ زوال و اِنحطاط کا شکار ہوئی ہے، زِندہ قوموں کی طرح دینی و دنیوی ترقی و فلاح کی طرف عازمِ سفر رہنا بھول چکی ہے۔ ہم نے خود کو سطحی اور لایعنی اِختلافات میں اُلجھا کر اقوامِ عالم کو اِس بات کا کھلا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے اَسلاف کی علمی و فکری اور سائنسی تحقیقات کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں اور خود منظرِ ہستی سے دُور کنارے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی اِس شکست کا اِدراک بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ذِلت و رسوائی، زوال و مسکنت اور اِدبار و اِنحطاط کے دبیز سائے ہمارا مقدّر بن کر رہ گئے ہیں۔

 

عالمِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی اور اُمتِ مسلمہ کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سائنسی علوم کی طرف ہماری عدم توجہی اور اِغماض کی روِش ہے، جس کے نتیجے میں اُمتِ مسلمہ اَقوامِ عالم کے مقابلے میں کسی بھی میدانِ مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگر ہم دِقتِ نظر سے تاریخِ اِنسانی کا بے لاگ مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے اَسلاف نے ایک ہزار سال کے طویل عرصہ تک پوری دنیا کو فکر و فلسفہ اور علم و ہنر کے بے مثال کارناموں کے ساتھ بے شمار سائنسی علوم کی بنیادوں سے بھی فیض یاب کیا۔ جدید سائنس جسے بجا طور پر عصری علم قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ترقی کے موجودہ بامِ عروج تک پہنچانے میں ہمارے روشن ضمیر آباء و اجداد کی علمی خدمات کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ اُنہوں نے علم و ہنر کی جو شمع روشن کی اُس سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اَقوامِ مغرب نے اِکتسابِ نور کیا۔

 

اَسلاف کی حکمت اور ہماری بے تدبیریہمارے اَسلاف نے اپنے دور کے عصری علوم کے ذریعے اُن حملوں کے خلاف جو عالمِ کفر کی طرف سے اِسلامی عقائد و نظریات پر کئے جاتے رہے، موثر دفاع کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کیا جو دُشمن کا ہتھیار تھا۔ ذہنی قضیوں پر مشتمل یونانی فلسفے کا جواب عقلی و منطقی انداز سے دیا اور ان حملوں کو اپنی عقلی و فکری توجیہات اور علمی تصریحات سے ناکارہ بنا کر رکھ دیا اور اسلام کی صداقت و حقانیت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ مگر افسوس صد افسوس تقریباً پچھلی دو صدیوں سے وہ پانسہ پلٹ چکا ہے اور عصری علوم کی وہ بساط جو اپنے دورِ عروج میں مسلمان اہلِ علم و دانش نے بچھائی تھی، اُس پر غیرمسلم قومیں قابض ہیں۔ آج کا مسلمان ہر میدان میں راہِ پسپائی اِختیار کرنے کے بعد اُن کا دستِ نگر اور تابعِ مہمل بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلی ایک صدی سے بالعموم اور گزشتہ نصف صدی سے بالخصوص مغرب کی طرف سے سائنسی اندازِ فکر میں اِسلامی عقائد و تعلیمات پر جو تابڑ توڑ جارحانہ حملے ہوتے چلے آرہے ہیں، ہمارے اَسلاف کو اُن کا سامنا نہ تھا۔

 

باطل اور عالمِ کفر کے یہ حملے پہلودار اور کئی جہتوں کے حامل ہیں اور معاملہ اُس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ہمارے نام نہاد مذہبی سکالر مغربی فکر کے خوشہ چیں ہوجاتے ہیں اور اہلِ مغرب جو سِرے سے رُوحانیت کے قائل ہی نہیں، اُن کی اِلہاد پرور اور مادّہ پرستانہ سوچ اور ذِہنیت کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہ سطح بین دانشور مغربی اہلِ علم کی ہمنوائی میں اُن کے نظریات و خیالات کی جگالی کرتے ہیں اور اُس رُوحانیت کی نفی کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی بنیاد ہے، اپنا شِعار بنالیتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کا گہرائی میں جاکر ناقدانہ تجزیہ (Critical Analysis) کریں تو اِس کا یہ بنیادی سبب سامنے آتا ہے کہ اِس وقت علم و دانش کا مرکز عالمِ اسلام کی بجائے مغرب اور یورپ کی درسگاہیں بنی ہوئی ہیں اور اُن کے وضع کردہ سانچوں میں ڈھلنے والا علمی سرمایہ مغربی ملحدانہ فکر و فلسفہ کی گہری چھاپ رکھتا ہے۔ زمانۂ حال کے مسلم علماء و محققین کی بڑی اکثریت مغربی فکر سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ نتیجتاً اِسلام پر سائنسی بنیادوں پر کئے جانے والے تازہ مغربی حملوں کا اُن کے پاس کوئی موثر اور خاطر خواہ جواب نہیں ہوتا اور وہ اُن حملوں کے جوب میں اکثر معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں یا پھر دقیانوسی یونانی فکر و فلسفہ کے بل بوتے پر جواب دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہماری فکری کم مائیگی اور اِفلاس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علمی سطح پر یونان کو ختم ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر ہمارے دینی مدارس میں یونانی فلسفہ ابھی تک شاملِ نصاب ہے۔ عملی و فکری اِرتقاء میں حائل اِس جمود کے نتیجے میں ہماری تخلیقی قوت و توانائی (Creative Energy) کے سُوتے خشک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں باطل کی فکری و علمی یلغار کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے! بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

 

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا

کہاں سے آئے صدا لَا الٰہ الَّا اﷲ

 

مضبوط مقدمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمزور وُکلاءمقامِ تاسف ہے کہ عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام مضبوط دلائل ہونے کے باوجود اچھے وکلاء نہ ہونے کی بناء پر اپنا مقدمہ ہارتا نظر آرہا ہے جبکہ عالمِ طاغوت اور اسلام دشمن قوتیں اپنا کمزور مقدمہ مضبوط اور طاقتور وکلاء کی محنت کی وجہ سے جیتتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتِ حال کا مداوا صرف اِسی صورت ممکن ہے کہ اسلامی علوم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی ترویج اور فروغ پر بھی ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ عصری علوم کے سیکھنے اور سکھانے پر توجہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ قدیم یونانی فلسفہ کی نسبت قرآن و سنت سے زیادہ قریب تر ہیں اور موجودہ دَور کے اکثر سائنسی حقائق و اِنکشافات قرآن و حدیث کے ماخذ و مصادر سے حاصل کردہ معلومات کی تصدیق و توثیق (Verification & Validation) کرچکے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جوں جوں جدید سائنس کی تحقیقات کا دامن پھیلتا چلا جائے گا، اِسلامی تعلیمات کی حجیت اور قطعیت سارے عالم پر آشکار ہوتی چلی جائے گی اور اِس ضمن میں مزید ترقی اور اِرتقاء کے اِمکانات کھلتے چلے جائیں گے۔

 

عالمِ اِسلام کے موجودہ حالات کن اسباب و عوامل کا نتیجہ ہیں؟ کیا سبب ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر، اِستدلال اور نظریئے کے درست ہونے کے باوجود زمانے کی عدالت میں اپنے مقدمے کی وکالت ٹھیک طور سے نہیں کر پا رہے اور جدید دنیا ہمارے مبنی برحق مؤقف اور اِستدلال کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہے؟ اِس صورتحال کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ ہم مِن حیث المجموع دورِ حاضر کے تقاضوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اُس زبان سے با خبر نہیں جس کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی عدالت میں اغیار کو اپنے مؤقف پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اس اسلحہ و تکنیک سے یکسر محروم ہیں جس سے لیس ہوکر اِسلام دُشمن قوتیں ہم پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔ دُشمن اِنٹرنیٹ پر قرآنِ مجید میں تحریف کرتا ہے تو ہم اُس کا جواب اُسی سطح پر دینے کی بجائے فقط اپنے رسائل و جرائد میں اِس عملِ قبیح پر ملامت کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ دشمن ہم پر توپوں اور ٹینکوں سے مسلح ہوکر حملہ کر رہا ہے اور ہم اُس کے مقابلے میں تیر کمان لئے کھڑے ہیں۔ وہ ہماری صفوں کو منتشر کرنے کے لئے بمباری کرتا ہے اور ہم پتھر لئے اُس کے مقابلے میں نکل آتے ہیں۔

 

کفر و اِلحاد کی سازشوں کا توڑدورِ جدید میں سائنس برق رفتار ترقی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مغربی دُنیا کو بجا طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی محیرالعقول ترقی پر ناز ہے اور وہ اُس علمی برتری اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر دیگر بہت سی مفلس و کمزور قوموں کی طرح عالمِ اسلام کو بھی اپنا زیرنگیں بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ جدید تہذیب۔ ۔ ۔ جو فی الحقیقت سائنسی تہذیب کا دُوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ جغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ کرتی چلی جارہی ہے۔ لاکھوں میل کی مسافت میں بکھری اِنسانی آبادی گلوبل ویلج (Global Village) بن کر رہ گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی بدولت صحرا و بیاباں لہلہاتے کھلیانوں اور گلستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور زیر زمین مدفون خزانے اِنسان کے قدموں میں ڈھیر ہو رہے ہیں۔ سائنس نے دورِ حاضر کے اِنسان کے ہاتھوں میں وہ قوت دے دی ہے جس کے بل بوتے پر وہ پوری دنیا کے وسائل کو اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مغربی اَقوا م سائنس اور ٹیکنالوجی پر قابض ہونے کی وجہ سے دنیا کی پس ماندہ قوموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا محتاج اور دستِ نگر رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُن کا خصوصی ہدف دنیا بھر کے مسلمان ہیں، جنہیں وہ سائنسی ترقی کے ثمرات اور ٹیکنالوجی سے محروم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے کام لے رہے ہیں۔ دُوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دورِ جدید کے عصری و سائنسی علوم کی ترویج اور تعلیم کی بجائے ہزاروں سال پرانے یونانی فلسفہ جیسے متروک علوم کو ابھی تک اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اُن کی تدریس ہماری اِسلامی درسگاہوں میں ابھی تک شاملِ نصاب چلی آرہی ہے۔

 

جدید سائنس اپنی طویل تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچی ہے، اُن میں سے بیشتر قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقائق کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اِن حالاتمیں تمام مسلم ممالک کے علماء، محققین اور سائنس دانوں کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عالمِ اسلام کو علمی و فکری اِفلاس اور پس ماندگی سے نجات دِلانے کے لئے ایک ایسا لائحۂ عمل اِختیار کریں جس سے موجودہ دِگرگوںصورتحال کا مداوا ممکن ہو۔

 

سائنسی علوم کی روشنی میں ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورتاوائل دورِ اِسلام میں جب سائنسی علوم ابھی رحمِ مادر میں تھے اور یونانی فلسفہ ہی چہار دانگِ عالم میں عقل کا معیارِ اَتمّ تصور کیا جاتا تھا، تب ہمارے اَسلاف ائمہ کرام نے اِسلامی تعلیمات و نظریات کے فروغ کے لئے اِسلام پر ہونے والے فلسفیانہ حملوں کا جواب یونانی فلسفہ ہی کی زبان میں دیا تھا اور یہی ایک مؤثر صورت تھی جو علمِ کلام کے نام سے معروف ہوئی۔ موجودہ نسل سائنسی دَور میں پروان چڑھی ہے۔ آج کا کم پڑھا لکھا سادہ اِنسان جسے سائنسی علوم سے اِس قدر شغف نہیں، وہ بھی سائنسی طریق کار سے کم از کم ضرور آگاہ ہے، اور جانتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کرنے سے کس طرح نتائج 4=2+2 کی طرح منطقی انداز سے درُست برآمد ہوتے ہیں۔ دَورِ حاضر کے اِنسان سے مخاطب ہونے اور اُسے اِسلامی تعلیمات و عقائد سے رُوشناس کرانے کے لئے ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دَور ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کے درمیان موجود ’’حدِاوسط‘‘ کو گرا کر ’’نتیجے‘‘ تک پہنچنے کا دَور نہیں بلکہ اِس دَور میں تجربہ، مشاہدہ، مفروضہ اور پھر بارہا تجربات سے حاصل ہونے والے تنظیم شدہ نتائج کے ذریعے ’’نظریئے‘‘ تک پہنچنے کا اُسلوب ’’حقیقت‘‘ تک رسائی کے عقلی اُسلوب کے طور پر مانا جاتا ہے۔

 

قرونِ اولیٰ میں یونانی فلسفے کی اِسلامی عقائد پر یلغار کے جواب میں اُس دَور کے ائمہ کرام نے علمِ کلام کو فروغ دیا اور اُس کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اِسلام ہی دینِ برحق ہے۔ آج اگر ہم اِسلام کی حقیقی خدمت اور تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اُنہی اَئمہ کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ دَور کی عقل کی کسوٹی۔ ۔ ۔ سائنسی طریق کار۔ ۔ ۔ کے مطابق اِسلام کی ترویج و اِشاعت کا فریضہ سراِنجام دینا ہو گا اور مستشرقین کے نازیبااور اِسلام کش وطیروں کا سدباب کرنے کے لئے’’ جدید علمِ کلام‘‘ اپنانا ہو گا، جس میں سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے معاشروں تک اِسلام کا پیغام بحسن و خوبی پہنچانے کا اِنتظام ہو۔

 

اِسلام کا مؤثر اور خاطر خواہ دِفاع صرف اِسی صور ت میں ممکن ہے کہ ہم دین کے علم کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے نسلِ نو کے طلباء کو جدید سائنسی علوم اور نظریات و تحقیقات سے شناسا کریں تاکہ اُن تعلیمات کی روشنی میں وہ عصری علوم سے مسلح ہوکر اُن حملوں کا مقابلہ کرسکیں جو مغرب کی طرف سے اِسلام پر کئے جا رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کا فروغ تو کجا محض ان کا دِفاع بھی اِس کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارا یہ اِقدام بعینہ اپنے اَسلاف کی سنت پر عمل ہو گا۔ جس طرح اُنہوں نے اپنے زمانے میں یونانی فلسفہ کو شاملِ نصاب کر کے اور یونانی علوم پر دسترس حاصل کر کے یونانیوں کے غیرفطری فکر و فلسفہ کا ردّ کیا، اُسی طرح ہمیں بھی جدید سائنس پر یدِطولیٰ حاصل کر کے مغربی ملحدانہ و کافرانہ نظریات و تصورات کا ردّ کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر اِسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب کسی طور پر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ فی زمانہ صورتحال یہ ہے کہ علم تو اپنی معراج کی طرف سرگرداں ہے اور ہم یکسر لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنی اُسی روِش پر قائم ہیں۔ اِس سے پہلے کہ اِسلام دُشمن قوتیں ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ہمیں اپنی حکمت و دانش سے مؤثر اِقدام کے ذریعے اُن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دینا ہوگا۔

 

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی بپا

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

 

نام نہاد مبلغین کا رُوحانی اِسلام سے فرارکتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اِس خلفشار اور بے یقینی کے دَور میں جب اِسلام کو ہر طرف سے تختۂ مشق بنایا جارہا ہے، اُمتِ مسلمہ ہی کے کچھ ایسے اَفراد نام نہاد واعظین و مبلغین کے لبادہ میں مصروفِ عمل ہیں، جنہوں نے رُوحانی اِسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے اِسلام کے مادّی تصوّر کو اُبھارنا اپنا مطمعِ نظر بنالیا ہے۔ رُوحانیت کی نفی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنکار، معجزات کا ردّ اور کشف کی تکذیب پر اپنی زبان و قلم کا زور صرف کرنا اُن کا شِعار ہے۔ اولیاء و صوفیاء کی محبت اور اُن کی تعلیمات سے اِنکاری ہوکر وہ اِسلام کا ایسا مَن گھڑت تصوّر پیش کرتے ہیں جو اُن کی مادّی توجیہہ سے تو ہم آہنگ ہے لیکن اِسلام کی حقیقی تعلیمات کے ساتھ اُس کا دُور کا بھی علاقہ نہیں۔ یوںاِس نقطہ پر آ کراُن کی اور دُشمنانِ اِسلام مستشرقین کی بولیاں کسی حد تک ایک دوسرے سے مل بھی جاتی ہیں۔ اِس لئے کہ اِسلام دُشمن نظریات کے حامل مغربی دانشور اور مستشرقین بھی اُمتِ مسلمہ کو اُسی سرچشمے سے دُور کرنا چاہتے ہیں جو رُوحانیت سے پھوٹتا ہے اور یہ نام نہاد مبلغینِ اِسلام بھی رُوحانیتِ اِسلام کے فیضان سے مُنکر ہوکر اُن کے ہم نوا بن گئے ہیں۔

 

اَغیار تو ببانگِ دُہل یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح زندہ اور رُوحانی فیضان کے حامل ہو سکتے ہیں؟ یہ کج نہاد اور برخود غلط علماء بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارا نبی زندہ نہیں۔ وہ صرف قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور صاحبِقرآن کی عظمت و رُوحانیت سے اِنکاری ہیں۔

 

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے والے علماء کا عوام کی بڑی اکثریت سے رابطہ اور تعلقِ خاطر بالکل کٹ چکا ہے۔ وہ میدان جہاں تبلیغ کی اصل ضرورت ہے، وہ اُن کے حلقۂ اَثر سے باہر ہے۔ اِس وقت اِسلام کے نظریات و تصوّرات کی جنگ جس سطح پر شرق تا غرب، عرب و عجم کی سرزمین پر شدّ و مدّ کے ساتھ لڑی جارہی ہے، وہ ہمارے عام علماء کی رسائی سے باہر ہے۔ اگر ہمارے علماء میں سے کوئی کفر و اِلحاد کے معرکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں پہنچتا بھی ہے تو وہ عصری علوم سے محرومی کی بنا پر دَعوت و تبلیغ کے لئے اُن دلائل کا سہارا لیتا ہے جو قرآن و سنت اور دَورِ حاضر کی علمی تہذیب کی سطح سے کہیں نیچے ہیں۔ اُن کے پاس محض کتابی و کراماتی دلائل ہیں یا تذکرے، مناظرے، فتوے اور اَشعار سے مزین باتیں اور تنقیدیں، جن سے وہ آج کے سائنسی ذِہن کی تسلی و تشفی نہیں کرسکتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآنی آیات اور اَحادیثِ مبارکہ سے جو مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اُن سے نہیں ہو پاتا اور خلطِ مبحث سے یہ نہیں کھل پاتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! وہ قرآنی آیات اور اَحادیث کی غلط تفسیر و توجیہہ کر کے اِس بات کو شِرک اور بدعت ثابت کرتے ہیں جو شِرک اور بدعت نہیں۔ اِسی طرح فتووں کا کاروبار گرم کر کے اُنہوں نے تکفیر سازی کے کارخانے کھولے ہوئے ہیں، جن سے وہ جسے چاہیں آنِ واحد میں کافر ثابت کردیتے ہیں۔ یوں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ قرآن و سنت کا نام لے کر قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور کوئی اُن کے قلم اور زبان کو روکنے والا نہیں۔ (اِس موضوع پر اِسلامی عقیدے کی جزئیات سے آگہی کے لئے راقم کی کتب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ اور ’’تصورِ بدعت اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔

 

نسلِ نو کو رُوحانی اِسلام کی ترغیباِشاعت و تبلیغِ دِین کے ذریعے نئی نسل کو اِسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقامِ اَفسوس ہے کہ ہمارے کج فکر نام نہاد مبلغینِ اِسلام قرآن و حدیث ہی کے ناقص اِستنباط و اِستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اِسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے اُن کی دِین سے دُوری کا باعث بن رہے ہیں۔

 

موجودہ دورِ فتن کے پیشِ نظر عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ عام طور پر علمائے کرام اِسلام کی صحیح وکالت میں ناکامی کی صورت میں زمانے کو بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے نامناسب طرزِعمل اور زمانے کا ساتھ نہ دے سکنے والے فکر پر نظرِ ثانی کی بجائے زمانے کو گالی دے کر اپنے فرائضِ منصبی سے سبکدوش ہو جانا ایک آسان کام ہے۔ اِسی وجہ سے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :

 

لَا تَسَبُّوْا الدَّهْرَ فَاِنَّ اﷲَ هُوَ الدَّهْر.

 

(مسند احمد بن حنبل، 5 : 299، 311)

 

زمانے کو گالی نہ دو، زمانہ خود خدا ہے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک اپنے اندر بیش بہا لطائف و معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ زمانے کو برا کہنے سے کوئی بات نہیں بنے گی بلکہ اِس کے برعکس معاملہ اور بگڑ جائے گا۔ اِس لئے کہ زمانے کا کام عدل کرنا ہے، اُسے سُستِ نہاد و سُست کوش مسلمانوں کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو اُ س کے حق میں فیصلہ دے گا جو اپنا مؤقف بہتر طریقے سے اُس کے سامنے پیش کرے گا۔

 

علماء و مبلغین کی ایک بڑی اکثریت عام طور پر قرآن و حدیث کو جس انداز سے پیش کر رہی ہے، وہ نئی نسل کو اِسلام کی طرف راغب کرنے کی بجائے اُس کے اندر مذہب بیزاری اور گمراہی کے رُجحانات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہی قرآن جو سراپا ہدایت ہے، اُس کی مَن مانی اور غلط تشریحات سے گمراہی بھی اَخذ کی جا سکتی ہے اور ایسا فی الواقع ہو رہا ہے۔ قرآن حکیم اپنے بارے میں خود فرماتا ہے :

 

يُضِلُّ بِه کَثِيْراً وَّ يَهْدِیْ بِه کَثِيْراً.

 

(البقره، 2 : 26)

 

یہ (قرآن) بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔

 

عالمِ اِسلام کی موجودہ نوجوان نسل بالعموم اور پاکستانی نسل بالخصوص جدید سائنسی تعلیم سے آراستہ ہوکرقرآن و سنت پر مبنی اُن عقائد و نظریات اور اَعمال کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگی ہے اور اُنہیں اَوہام و رسوم سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں، جو بزرگوں سے اُن تک روایتی انداز میں پہنچے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ جدید نسل جب رُوحانی سلسلوں کا نام سنتی ہے تو وہ اپنے بزرگوں کے سامنے جراتِ لب کشائی کرتے ہوئے اِستفسار کرنے لگتی ہے کہ یہ قادری، سہروردی اور چشتی سلسلے کیا ہیں؟ اِن کی اِفادیت اور ضرورت کیا ہے؟ مشائخ اور پیرانِ کرام کو ہم اپنا رہبر و رہنما کیوں مانیں؟ جو کچھ مانگنا ہو براہِ راست خدا سے کیوں نہ مانگا جائے؟ یہ توسل اور واسطہ کیونکر ضروری ہے؟ (اِس سلسلے میں راقم کی کتب ’’مسئلہ اِستغاثہ اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا)۔ اِس قبیل کے ہزاروں سوالات جو پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ذِہنوں میں پرورش پاتے ہیں، کبھی کبھار نوکِ زبان پر بھی آجاتے ہیں۔ اَب بجائے دلیل سے بات کرنے اور سمجھانے کے ہم نئی نسل کی لب کشائی کو دریدہ دہنی اور گستاخی پر محمول کرنے لگتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں کہ تم گستاخ ہو اور اپنے باپ دادا کے طریقے سے اِنحراف کی راہ اِختیار کرکے بھٹک گئے ہو۔ ہماری اِس ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی آمیز گفتگو سے عارضی طور پراُن کا اپنی زبانیں بند کرلینا تو کسی حد تک ممکن ہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ اِسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر باغی اور سرکش ہوجائیں گے۔ دِین سے اِس درجہ دُوری اور باغیانہ روِش کا واحد سبب پرانی نسل کا اپنی نئی نسل کے سامنے دِینی تعلیمات اور اُن کے اَثرات کو جدید انداز اور عصری علم کی زبان میں بہتر طوت پر پیش نہ کر سکنا ہے۔

 

ایک نصیحت آموز واقعہراقم کو ایک تنظیمی و تحریکی دَورے میں لندن میں قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا موضوع کی مناسبت سے مختصر تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا۔

 

ہمارے ایک بزرگ ہیں، جن سے ہماری برسوں سے دوستی ہے۔ وہ اور اُن کے والد گرامی صاحبِ نسبتِ مجاز بزرگ ہیں۔ ایک دن وہ میری قیام گاہ پر مجھ سے ملنے آئے اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ بلکہ روہانسے سے ہوگئے۔ پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟ کہنے لگے۔ ۔ ۔ خیریت کیسی!

 

اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

 

پھر فرمایا کہ میں نے اپنے بچے کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک مسجد میں بھیجا تھا، جہاں قرآن مجید کا درس ہوتا تھا۔ بچہ کچھ دِن جاتا رہا پھر مسجد سے ایسا لوٹا کہ دوبارہ کبھی اُس مسجد کا رُخ نہ کیا۔ پوچھنے پر کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’میں وہاں درسِ قرآن سنتا رہا۔ ۔ ۔ لیکن جو کچھ بھی سنا، وہ تو علم و عقل سے پرے کی باتیں تھیں۔ ۔ ۔ میرا ذِہن ایسے دیو مالائی قصوں اور بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ کیا کروں وہ بچہ جسے دین سیکھنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اپنے عقیدے، مسلک اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان غرضیکہ ہر چیز کا مُنکر ہوگیا ہے۔

 

میں نے کہاکہ ’’آپ شام کا کھانا میرے ہمراہ کھائیں اور اُس بچے کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ میرا مقصد محض اُس بچے کو سمجھانا اور اُس پر دِین کی رُوح واضح کرنا ہے‘‘۔ مگر اُس نے یہ کہہ کر آنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’قادری صاحب تو بدعتی اور مُشرک ہیں‘‘۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں خود اُس کے پاس گیا، اُس کا ماتھا چوما، پیار کیا اور کہا : ’’بیٹے! ہم آپ کے گھر مہمان آئے ہیں، آپ ہمارے پاس بیٹھیں تو سہی‘‘۔ اُس کے والد کو بھی بلالیا اور کہا کہ بچے کے ذِہن میں جو بھی اِشکال اور جواب طلب سوالات ہیں، وہ ایک ایک کر کے بیان کر دیں۔ وہ بیان کرتے گئے اور میں اُن سوالوں کا جواب دیتا گیا۔ گھنٹہ بھر کی نشست میں وہ ذِہنی طور پر پچاس فیصد مطمئن ہوگیا۔ جب ہم اُٹھ کے جانے لگے تو اس نے پوچھا : ’’آپ کتنے دن یہاں ٹھہریں گے‘‘؟۔ ۔ ۔ ’’دو تین دن‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگا : ’’ ایک گھنٹہ اور دے دیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا : ’’صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی لے آئیں۔ ۔ ۔ سب کے لئے ایک کھلی نشست ہوگی‘‘۔ ۔ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب دُوسری عام نشست اپنے اِختتام کو پہنچی تو وہ بچہ رُخصت ہوتے وقت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا : ’’ اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے مجھے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا‘‘۔ اب وہ بچہ بحمداللہ راسخ العقیدہ ہے اور اِسلامی تعلیمات پر کاربند ہے۔

 

یورپ میں رہنے والے ایسے تارکینِ وطن جن کی اَولادیں بالعموم اُسی جدید تعلیم یافتہ ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہیں، اکثر و بیشتر اِسی طرح کے حالات سے دوچار ہیں۔ فقط ہماری کج فہمی اور جدید علوم سے اِغماض کی روِش سے اُن کے قلوب و اَذہان صحیح اِسلامی عقیدے اور تعلیمات سے مُنحرف ہو رہے ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اگروقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اِسلام کو صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم جدید نسل کے اِیمان کو غارت ہونے سے بچا نہ لیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنی اَولادوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دِین کی تعلیم بھی صحیح سائنسی طریق سے دیں تاکہ وہ عقائدِ اِسلامیہ پر مضبوطی اور پختگی کے ساتھ جمے رہیں۔

 

وقت کا اہم تقاضانوجوانوں میں اِسلام کی عظیم رُوحانی تعلیمات کو واضح کرنے کے لئے یہ بات اِنتہائی اہم ہے کہ سلاسلِ طریقت اور خانقاہی نظام کے اربابِ فکر و نظر اپنی اولاد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں اور اُن کی تربیت صحیح نہج پر کریں تاکہ اِسلام کا رُوحانی وِرثہ زمانے کی دست بُرد سے تباہ ہونے سے بچ جائے۔ اِس دورِ فتن میں بہت کم خانقاہیں اور رُوحانی خانوادے مادّیت کی یلغار سے محفوظ رہ گئے ہیں اور خال خال ہی ایسے رہ گئے ہیں جنہیں دیکھ کر اَسلاف کی یاد دِل و دماغ میں تازہ ہوجائے۔ اکثر یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ خانقاہوں کی رُوحانی بنیاد منہدم ہوگئی ہے اور اَسلاف کے قائم کردہ اُن رُوحانی مراکز پر محض ظواہر پرستی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اَیسے ہی حالات کے پیشِ نظر حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا :

 

خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اَسرار بھی ہے؟

مدرسوں میں کہیں رعنائیئِ اَفکار بھی ہے؟

 

اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میںقرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :

 

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO

 

(الکهف، 18 : 28)

 

(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo

 

اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :

 

ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا

اُو نشیند صحبتے با اولیاء

 

ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔

 

غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔

 

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :

 

وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا.

 

(الکهف، 18 : 28)

 

اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔

 

اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :

 

فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo

 

(انعام، 6 : 68)

 

پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo

 

اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :

 

صحبتِ صالح تُرا صالح کند

صحبتِ طالع تُرا طالع کند

 

اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟

 

یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔

 

ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہےاللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔

 

یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :

 

وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo

 

(شوریٰ، 42 : 51)

 

اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔

 

اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔

 

آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔

 

اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔

 

بخدا خدا کا یہی ہے درربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :

 

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ.

 

(النساء، 4 : 80)

 

جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔

 

اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔

 

قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا :

 

قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.

 

(آل عمران، 3 : 31)

 

(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔

 

گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔

 

اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا :

 

وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط

 

(البقرة، 2 : 186)

 

اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔

 

یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے :

 

بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ

جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں

 

خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریتاللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی :

 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo

 

(النساء، 4 : 61)

 

اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔

 

ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔

 

یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ :

 

خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید

ہرگز نخواہد بمنزل رسید

 

اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔

 

مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیبتاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔

 

عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :

 

تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا

میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا

 

درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہیہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے :

 

اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ.

 

(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16)

(الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333)

(مسند احمد بن حنبل، 2 : 234)

(المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755)

(شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131)

 

میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔

 

اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :

 

محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست

کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو

 

سائنس اور سلسلۂ رُوحانیت میں باہمی ربط و تعلقجیسا کہ ہم شروع میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ مذہب (اِسلام) اور سائنس کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہیں ہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب سائنسی اِنکشافات و تحقیقات کلی طور پر اِسلام کی بنیادی صداقتوں کی آئینہ دار ہوں گی۔ لیکن اِس نہج پر مسلمان اہلِ علم اور ماہرینِ سائنس کو ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ دورِ جدید میں اِسلام کی حقانیت و صداقت کو علومِ جدیدہ اور سائنس کے اِستدلال سے ثابت کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے، جس سے زیادہ دیر تک صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ آج دِینی تعلیمات سے بے بہرہ اور خام ذِہن یہ سوال کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مدینہ منورہ ہم سے ہزاروں کلومیٹر کی مسافت پر ہے، وہاں سے فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے؟ اور یہ کہ اولیاء کو یہ فیض بارگاہِ رِسالت سے ملتا ہے اور وہ اُسے ہم تک پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں؟ اِس کی توجیہہ کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ سلاسلِ طریقت اور یہ نسل در نسل فیضانِ ولایت کی ترسیل اور منتقلی کس طرح ممکن ہے؟ یہ اور اِس طرح کے بے شمار دیگر سوالات ذِہنِ اِنسانی میں کروٹ لیتے رہتے ہیں۔

 

آج کے ترقی یافتہ اِنسان کے پاس ’’حقیقت‘‘ کے اِدراک کے لئے سائنسی طریقِ کار ایک ایسا معتبر و مستند ذریعہ ہے جو عقلی اِستدلال اور مشاہدۂ حقائق کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرتا اور نتائج اَخذ کرتا ہے، جنہیں مسلسل تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ سائنس کا مطالعہ معروضی حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ سائنس اور مذہب کی حدود اور دائرۂ کار بالکل جدا جدا ہیں۔ سائنس صرف عالمِ اَسباب کا اِحاطہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اُسے عالمِ اَسباب کے علاوہ کسی اور شئے سے سروکار نہیں، جبکہ مذہب ما بعد الطبیعاتی حقائق اور اُخروی زندگی جیسے اُمور کو زیر بحث لاتا ہے۔ چونکہ اِن دونوں کا دائرۂ کار قطعی مختلف ہے لہٰذا سائنس اور مذہب میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی باہمی ٹکراؤ اور تضاد ممکن نہیں۔ دوسری طرف جدید سائنس کے بارے میں ایک بات نہایت وُثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سائنس کے میدان میں ہونے والی ہر پیش رفت اِس حقیقت کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہے کہ اِس کائنات کی بنیاد مادّی نہیں بلکہ رُوحانی ہے۔ جدید سائنس ایٹمی توانائی کی دریافت کے بعد ایک بہت بڑے سربستہ راز سے پردہ اُٹھا چکی ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے ہر ننھے ذرّے کے اندر توانائی کا ایک بیش بہا خزانہ چھپا ہوا ہے، جس سے کائنات میں محیر العقول کارنامے سراِنجام دیئے جاسکتے ہیں۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کی مساوات E = mc2 کی گتھیاں سلجھانے کے بعد اب سائنس پر فطرت کا یہ راز بے نقاب ہوچکا ہے کہ مادّے کو پوری طرح توانائی میں بدلنا ممکن ہے۔ یوں یہ بات تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں اور یہ کہنا کہ دونوں میں نباہ نہیں ہوسکتا خود دقیانوسی سوچ اور خام خیالی ہے۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ جہاں سائنس کلی طور پر مادّی زندگی کے مظاہر سے متعلق ہے اور اُسے رُوحانی زِندگی سے کوئی سروکار نہیں، وہاں مذہب اوّل تا آخر رُوحانی زِندگی سے بحث کرتا ہے اور اس کا اِطلاق مادّی زندگی پر کر کے اِنسان کی دُنیوی و اُخروی زِندگی کو بہتر بنانے کی کامل صلاحیت رکھتا ہے۔

 

سائنس۔ ۔ ۔ دورِ حاضر کا سب سے بڑا معیارِ علمآج کا دور مادّی ترقی کے عروج کا دور ہے۔ سائنس اِس مادّی دُنیا کا سب سے بڑا علمی معیار ہے۔ اِس دور میں ہر بات کو سائنسی پیمانے پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ فقط اُسی چیز کو حق مانا جاتا ہے جو سائنسی پیمانوں پر کماحقہ پورا اُتر رہی ہو اور جو چیز سائنسی کسوٹی پر پورا نہ اُترے اُسے محض تصوّر و تخیل اور توہمات پرستی تصوّر کرتے ہوئے ردّ کر دیا جاتا ہے، جبکہ جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت اِسلامی تعلیمات کی روز اَفزوں تائید و توثیق میسر آ رہی ہے۔ (اِس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لئے راقم کی کتاب Quran on creation & expantion of the universe کا مطالعہ ناگزیر ہے)۔

 

بدقسمتی سے اُمتِ مسلمہ بالعموم مادّہ پرستی کے چُنگل میں پھنس کر رُوحانی زِندگی سے دُور ہٹتی چلی جا رہی ہے۔ اِسلام کو بھی مادّہ پرستی کا لِبادہ پہنایا جارہا ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بالعموم مادّیت زدگی، فکری اِفلاس، اِبہام اور تشکیک کا شکار ہے۔ اُس کی نظر میں وہی چیز درُست اور مبنی برحق ہے جسے سائنس تسلیم کرے۔ کم علمی اور بنیادی اِسلامی تعلیمات سے نا واقفیت کی بناء پر وہ مذہبی عقائد کو بھی ڈھکوسلا سمجھتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ تصوّر پایا جاتا ہے کہ اولیاء اﷲ کی پیروی کرنا یا اُن کے عظیم رُوحانی سِلسلوں اور عرسوں کی بات کرنا، پرانے وقتوں کی رِوایات اور جہالت کی باتیں ہیں۔ دورِ جدید میں اِن باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جبکہ درحقیقت یہ بات کہنے والے خود دورِ جدید کے علم سے کلیتاً نابلد ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس خود رفتہ رفتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات کو سچا ثابت کرتی چلی جارہی ہے۔ اب ہم کچھ سائنسی مثالوں کے ذریعے قرآن مجید کے اِس بنیادی فلسفہ اور تعلیم کو آسان کر کے سمجھانے کی کوشش کریں گے تاکہ دورِ جدید کا نوجوان یہ نہ سمجھے کہ یہ مذہبی لوگ صرف حکایتیں ہی سناتے رہتے ہیں جو پرانے لوگوں کی پرانی باتیں ہیں۔

 

ہم یہاں تفصیل میں جائے بغیر اپنی بحث کے دائرۂ کار کو ضروری معلومات بہم پہنچانے تک محدود رکھیں گے۔

 

زمین کی مِقناطیسیتقرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے تناظر میں سب سے پہلے ہم مقناطیس (Magnet) کے حوالے سے بات کریں گے۔ مادّی ترقی کے اِس دور میں مقناطیس پر بہت کام ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اِس پر سیمینار منعقد کئے جارہے ہیں۔ اِس ضمن میں Super Electro Magnetism کے حوالے سے سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ مقناطیسیت وہ قوت ہے جس سے کوئی مقناطیس اپنے دائرۂ اثر کے اندر واقع چیزوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر مقناطیس میں ایک خاص مقناطیسی قوت (Magnetic Force) ہوتی ہے، جس کا اثر ایک خاص فاصلے (Range) تک ہوتا ہے۔ جتنا طاقتور کوئی مقناطیس ہوگا اتنا زیادہ فاصلے تک اُس کا دائرۂ اثر ہوگا۔ اِسے اُس مقناطیس کا حلقۂ اثر (Magnetic Field) کہتے ہیں۔ ہماری زمین فی نفسہ ایک بڑا مقناطیس ہے، جس کی مقناطیسی قوت کا دائرۂ کار 80,000 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مشتری (Jupiter) جو نظامِ شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت زمین سے بھی اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جو جِرمِ فلکی (ستارہ یا سیارہ) جتنی زیادہ کمیّت پر مشتمل ہوگا، اُس کا دائرۂ کشش بھی اُسی قدر وسیع ہوگا۔

 

رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظامرُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔

 

ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت مُنکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت اُس کے قطبین (Poles) سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب Compass کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔

 

رُوحانی قطب نمائے اعظم۔ ۔ ۔ مکینِ گنبدِ خضرا ءمادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب اُن کی نسبتِ وُجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔

 

مِقناطیس کیسے بنتے ہیں؟۔ ۔ ۔ شیخ اور مرید میں فرقمِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے :

 

1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہے۔ اِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔

 

یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے :

 

الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘.

 

(الکهف، 18 : 28)

 

جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔

 

اﷲ تعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔ اس پروسس سے جو مقناطیس (Magnet) تیار ہوتے ہیں اُن میں سے کسی کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔

 

2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔

 

رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔

 

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ. . .

 

(الکهف، 18 : 28)

 

تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔ ۔ ۔

 

اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ کے مِصداق ہوتے ہیں۔ مُرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔

 

اِیصالِ حرارت اور اِیصالِ رُوحانیتسٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔

 

جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔

 

جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیلموجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا :

 

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰيo

 

(الاعلیٰ، 87 : 14)

 

بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیاo

 

تزکیہ کیا ہے؟برقیات کی اِصطلاح میں :

یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔

 

صوفیاء کی اِصطلاح میں :

یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔

 

برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔

 

اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں :

 

وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo

 

(آل عمران، 3 : 134)

 

اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo

 

جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔

 

جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔

 

سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پر آشکار کردی جاتی ہیں۔

 

رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالاتیہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :

 

يَا سَارِیَ الْجَبَل.

 

(مشکوٰة المصابيح : 546)

 

اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔

 

یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون۔ ۔ ۔ کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔

 

فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔

 

مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔ سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 

نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا

کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ

 

ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔

 

تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تکمزید برآں مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی سادہ سی مثال پلاسٹک کی گڑیا ہے، جس کو بیٹری سے چارج کیا جائے تو وہ متحرّک ہوجاتی ہے اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہے۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر۔ ۔ ۔ جو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے :

 

فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباًo

 

(الکهف، 18 : 61)

 

سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔

 

یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فرمایا :

 

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

 

بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسلاولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ تربیلا ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! تربیلا ڈیم سے کنکشن کسے مل سکتا ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی تربیلا ڈیم سے پاور ہاؤس تک، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabliser) اور فیوز (Fuse) بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔

 

اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔

 

اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی سنگت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔

 

سلاسلِ طریقت کا یہ نظام مِن جانبِ اللہ قائم ہے۔ یہ ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔

 

چاند کی تسخیر اور اپالو مِشنرُوحانی تعلق کی ضرورت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے National Aeronautic Space Agency - NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کا پروب Apolo-10 چاند کی تسخیر کے لئے محوِ سفر تھا تو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز Kennedy Space Center - KSC میں موجود سائنسدان اُسے براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ایسے میں دورانِ سفر حادثاتی طور پراُس کا رابطہ اپنے زمینی کنٹرول رُوم سے منقطع ہوگیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکا بلکہ آج تک اُس کا سُراغ بھی نہ مِل سکا۔ اِس عظیم حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد جولائی 1969ء میں اپالو مِشن کا اگلا پروب Apolo-11 چاند کی طرف بھیجا گیا۔ دورانِ سفر چونکہ اُس کا رابطہ اپنے زمینی مرکز سے بحال رہا اِس لئے وہ چاند تک پہنچنے اور دو دِن بعد بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ سو جس طرح وہ اپالو مہم جس کا رابطہ زمین پر واقع اپنے خلائی تحقیقاتی مرکز سے کھو گیا تھا، وہ ناکام اور تباہ و برباد ہوگئی، اوردُوسری طرف وہ مہم جس کا رابطہ بحال رہا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۔ ۔ بالکل اِسی طرح یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہیئے کہ اِس مادّی دنیا کی طرح ربّ ذوالجلال نے رُشد و ہدایت کے ایک طے شدہ نظام کے ذریعے کامیابی اور نجات کی منزل تک پہنچنے کے لئے رُوحانی مرکزِ نجات حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے۔ سو ہم میں سے جس کا رابطہ اس مرکزِ مصطفوی سے قائم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو اپنا رابطہ بحال نہ رکھ سکا وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا اور اپالو 10 جیسی تباہی اور ہلاکت اُس کا مقدّر ہو گی۔

 

قلبی سکرین اور روحانی ٹی وی چینلآج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔

 

اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :

 

لو حجب عنی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم طرفة عين ما عددتُ نفسی من المُسلمين.

 

(رُوح المعانی، 22 : 36)

 

اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔

 

اللہ کے بندوں کے قلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا و مولا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔

 

اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہیقرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے :

 

رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo

 

(الکهف، 18 : 10)

 

اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo

 

اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :

 

وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط

 

(الکهف، 18 : 17)

 

اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔

 

اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔

 

اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا :

 

مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا.

 

(الکهف، 18 : 17)

 

اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔

 

خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔

 

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

 

روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔

 

اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگیاصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔

 

پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔

 

یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔

 

اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہااصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے :

 

وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ.

 

(الکهف، 18 : 18)

 

اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔

 

کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔

 

ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہآقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال :

 

دَر شبستانِ حرا خلوت گزید

قوم و آئین و حکومت آفرید

 

غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔

 

فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

 

مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق.

 

(صحيح البخاری، 2 : 1036)

(مسند احمد بن حنبل، 3 : 55)

 

جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔

 

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے :

 

أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ.

 

(الانعام، 6 : 122)

 

بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔

 

مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال :

 

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...