NAJAMMIRANI مراسلہ: 27 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 27 جولائی 2010 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم باب اول تقوی کا معنی اور مفہوم تقوی کيا ہے؟ تقوی انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبياء کی تعليم کا نچوڑ رہی۔اس کا لغوی معنی تو کسی شے سے دور رہنے،اس سے بچنے يااسےچھوڑنےہی کےہوتے ہيں۔ليکن شريعت اسلام ميں تقوی نہايت وسيع معنی رکھتا ہے۔ مختصرطور پر تقویٰ کی تعريف کے سلسلہ ميں يوں کہا جا سکتا ہے کہ يہ دل کی اس حالت کا نام ہے جس کی موجودگی ميں انسان ہر اس فعل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ پاک کو ناپسند ھو۔ "انمال الاعمال با النيات"کے تحت جس طرح نيت ہر عمل کی جان ہوتی ہے اسی طرح تقوی ميں بھی اسے بڑا دخل ہے۔اگر ارتکاب گناہ اور خدا کی نافرمانی سے صرف اس ليے بچا جاۓ کہ خدا ناراض ہو گا يا رحمت الہی سے محرومی ہو گی تو تقویٰٰ کی حقيقت حاصل ہوتی ہے ورنہ اگرخيال رسوائی يابدنامی کاڈر ہو يا کوئی عمل دکھلاؤے کے ليے کيا جائے تو تقویٰ نہيں ہوگا۔ قرآن وحديث ميں لفظ" تقویٰ "مختلف صورتوں ميں بےشمارمقامات پرا ستعمال کيا گيا ہے۔ ہے۔مختلف استعمالات کے پيشٍ نظراس کی تعريف يوں کی جا سکتی ہے۔ " تقویٰ رذائل سے بچنے اور فضائل سے آراستہ ہونے کا نام ہے"۔ نصرآبادی فرمايا کرتےتھے کہ تقویٰ يہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا ہر چيز سے بچے------- طلق ابن خبيب کا قول ہے کہ "اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق ا طاعت خداوندی يعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے"۔ (رسالہ تشريہ) حضرت جمشيد نقشبندی رحمتہ اللہ عليہ کا قول ہے کہ:۔ " زندگی اطاعتِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم ميں گذارناتقویٰ ہے۔" "حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کی تعريف پوچھی تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کيا:"کيا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہيں؟" آپ نے جواب ديا:" ہاں": پھر پوچھا کہ"آپ نے کياطريقہ استعمال کيا؟" حضرت عمر رضی اللہ عنہ فر مانے لگے":ميں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سميٹ کر چلا۔"حضرت کعب رضی اللہ عنہ بولے :" يہی "تقویٰ " ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ دنيا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے۔مومن کا کام يہ ہے کہ اس ميں سے گزرتے ہوئےدامن سميٹ کرچلے۔اس کی کاميابی اسی ميں ہے کہ ہر کام ميں ديکھے کہ اس ميں خدا کی خوشنودی مضمر ہے يا نہيں۔ ابو عبد اللہ رودباری فرمايا کرتے تھے کہ " تقوی يہ ہے کہ ان تمام چيزوں سے اجتناب کيا جائے جواللہ سے دور رکھنے والی ہوں ۔" حضرت واسطی رحمتہ اللہ عليہ فرماتے تھے کہ "اپنے تقویٰ سے بچنے کا نام تقویٰ ہے"۔ متقی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ريا سے بچے اس لئے کہ يہ اعمال کو اس طرح کھاتی ہےجس طرح ديمک لکڑی کو کھاجاتی ہے۔کہتے ہيں کہ حضرت ذوالنون مصری عليہ الرحمتہ کے علاقہ ميں ايک بار قحط پڑ گيا۔لوگ آپ کے پاس دعا کروانے کے لئے آئے ۔آپ فرمانے لگے":بارش اس لئے نہيں ہوتی کہ گناہ گار زيادہ ہو گئے ہيں اورسب سے بڑا گناہ گار ميں ہوں ۔اگر مجھے شہر سے نکال ديا جائے تو بارانٍ رحمت برسنے لگ جائے گی۔ اللہ ان لوگوں پر رحمتيں برسائے عظيم ہوتے ہوئے بھی ان کے ہاں دعویٰ نہيں تھااوراسی کانام تقویٰٰ ہے ۔ فر وتنی است دليل رسيد گانٍ کمال کہ چوں سوار بمنزل رسد پيادہ شود يعنی اہل کمال کی نشانی عاجزی اور انکساری ہوتی ہے ۔آپ نے ديکھانہيں کہ سوار جب منزل مقصود پر پہنچتاہے تو پيادہ ہو جاتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج پہلا درجہ التوقی عن العذاب المخلد باالتبری عن الشرک۔ (انور التنزيل جلد اول ص ١٦) عذاب آخرت سے ڈر کر اپنے آپ کو شرک سے بچانا تقویٰ ہے۔ اللہ تعالٰی کو اس کی ذات،صفات اور افعال ميں يکتا جاننا تقویٰ کا پہلا زينہ ہے۔مومن کے عرفانی مدارج کا کمال يہ ہوتا ہے کہ اس کی رگ وجان میں توحيد رچی بسی ہوتی ہے۔وہ اللہ ہی کومعبود سمجھتا ہے۔اوراسی ذات کو مقصود تصور کرتا ہے۔ گو يہ سب کو تسليم ہے کہ معبود وہی ہے مگر کم ہيں جو سمجھتے ہيں کہ مقصود وہی ہے متقی شرک کو ظلم عظيم سمجھتا ہے۔اس کی دعوت و تبليغ کا محوراثبات توحيد اور ترديد شرک ہوتا ہے ۔ليکن ياد رہے کہ توہين انبياء اورگستاخ اولياء توحيد نہيں بلکہ جرم عظيم ہے۔ جس طرح خدا کی ذات و صفات میں کسی کو شريک ٹھہرانا کفر ہے ،اسی طرح انبياء ومرسلين کو اپنی طرح سمجھنا يا اپنے آپ کو ان کے مثل جاننا صريح کفر ہے۔اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔آمين يا رب العالمين۔ عقا ئد کا ٹھيک ہونا تقویٰ کی جان ہے ۔سورہ بقرہ ميں متقی کی تعريف ميں اس کے اعمال کے ساتھ ساتھ راسخ عقائد ہی کا ذکر کيا گيا ہے۔ اَلَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ہلا وَالَّذِيْنَ يُوْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ج وَبِااْلاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ہ (القرآن ۔ ٢تا٦) " وہ لوگ جو غيب پر ايمان رکھتے ہيں۔نماز قائم کرتے ہيں،اور ہمارے ديئے ہوئے سے خرچ کرتے ہيں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہونے والی وحی پر ايمان لاتے ہيں اور آخرت پر يقين رکھتے ہيں۔" دوسرا درجہ التجنب عن کل ما يؤ ثم من ادرك حتٰی الصغا ئر۔ (انوارالتنزيل جلد اول ص١٦) " ہر وہ فعل جس ميں گناہ کا انديشہ ہو يہاں تک کہ صغيرہ گناہوں سے بچنا بھی تقویٰ کہلاتا ہے "۔ تقویٰ کے اس مرتبہ کی طرف قرآن حکيم نے اس طرح اشا رہ فرمايا ہے:۔ وَلَوْ اَنّ َ اَھْلَ الْقُرآي اٰمَنُوْاوَ اتَّقُوْا۔ (الاعراف۔٩٦) " کاش بستيوں والے ايمان لاتے اور تقویٰ اختيار کرتے"۔ متقی کے لئے ان حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جو کائنات کے خالق نے متعين کی ہيں۔يہ سب کچھ اسی صورت ميں ممکن ہوتا ہے جب خوف الٰہی دل ميں پوری طرح جاگزيں ہو اور انسان ہر وقت يہ سوچے کہ يہ دنيا اندھيرنگری نہيں،بلکہ امتحان گاہ ہے اورايک نہ ايک دن اسے اپنے اعمال کے بارے ميں جواب دہ ہونا ہے۔ تيسرا درجہ علامہ ناصر الدين ابو سعيد عبداللہ بن بيضاوی لکھتے ہيں:۔ والثالثۃ ان يتنزہ عما يشغل سرہ عن الحق ويتبتل اليہ بشراشرہ وھو التقوی الحقيقی المطلوب۔ (انوار التنزيل ص١٦ جلد اول) " ہروقت اللہ تعالٰی سے تعلق قائم رکھنا اور اس سے غافل کر دينے والی اشياء سے لا تعلق ہونا تقویٰ ہے اور تقویٰ کی حالت حقيقی اور مطلوب ومقصود ہے"۔ يہاں تعلق سے مراد ہر وقت خدا کو ياد کرنا ہے۔ہر فعل ميںاس کی رضا ديکھنا ہے۔بعض صوفياء کا "پاس انفاس"کا معمول بھی تقویٰ کے اس مفہوم ميں آسکتا ہے۔دوسرے لفظوں ميں تقویٰ کی اس حالت کو"ماسوی اللہ بس"سے بھی تعبير کيا جا سکتا ہے۔يعنی اللہ کے سوا ہرچيز سے بے نياز ہو جا نا۔ قرآن مجيد ميں پروردگارٍ عالم ارشاد فرماتے ہيں:۔ يٰآاَيّھُاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقَا تِہٰ ط ۔ (آل عمران : ١٠٢) "اے ايمان والو تقویٰ اختيار کرو جيسا کہ تقویٰ کا حق ہے"۔ انسان کو ہر وقت اس کو شش ميں لگے رہنا چاہيے کہ کوئی چيز راہ ٍدين سے غفلت کا سبب نہ بنے۔شيطانی طاقتيں اس پر غا لب نہ آئيں۔نفس امارہ اسے اپنے دامن ميں نہ لے لے،اور يہ سب کچھ عمل پہيم اور جہادِ مسلسل سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔ فکر اورجذ بہ صا د ق اس سلسلہ ميں ممّد اور معاون ثابت ہوتے ہيں۔ تقویٰ کی اہميت متيقا نہ زندگی انسان کو نمونے کا انسان بنا ديتی ہے ۔مسلمان صرف اجتماعی زندگی ہی ايک ضابطے کا پابند نہيں بلکہ وہ انفرادی زند گی ميں بھی ايک دستور اور قا نون کے مطابق تعمير اور تطہير حيات کی منازل طے کرتا ہے ۔اس کا اٹھنا بيٹھنا ،چلنا پھرنا اور قول وفعل رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ہوتے ہيں۔ تقویٰ کی اہميت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا يا جا سکتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم سے ايک با ر پو چھا گيا :'' آل نبی کون لوگ ہيں"؟ توآپ نے ارشادفرمايا:"متقی"۔ علاوہ ازيں اسلام کا سارا نظام عبادت يہی مقصد رکھتا ہے کہ لوگ "متقی"يعنی صاحب کردار بن جائيں۔ رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم اکثر اوقات "تقویٰ " کے لئے دعا فرماتے ۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرما يا کرتے:۔ اَللّٰھُمَّ اٍنّیٍْ اَسْاََ لُكَ الْھُدیٰ وَالتَّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالٰغٍنیٰ ۔ "اے اللہ ! ميں تجھ سے ہدايت ،تقویٰ اور عفت وغِنا کا سوال کرتا ہوں"۔ تقوي کی حد انبياء کرام معصوم ہستياں ہوتے ہيں۔اللہ تعالٰی ان کی تخليق ہی ايسی کرتا ہے کہ وہ بشري کمزوريوں سے پاک ہوتے ہيں۔" تقویٰ "اگر پوري آب وتاب کے ساتھ کہيں دکھائی دے سکتا ہے تو وہ انبياء ہی ہيں۔اس کے علاوہ کسی شخص کی زندگی ميں"تقویٰ" اس کا مليّت کے ساتھ جو ان کے ہاں ہوتا ہےنہيں پايا جاتا۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ کريم نے اس کي کوئی حد مقرر نہيں کی۔بلکہ ارشاد فرمايا:۔ فَاتَّقُواللہ مَا اسّتَطَعْتُمْ۔ ( التغابن : ١٦) پس ڈرو اللہ سے اپني بساط کے مطابق۔ يعني تقويٰ کا حق ادا کرنے ميں تم کوئی کسر نہ اٹھا رکھو بلکہ ہر شخص اپني طاقت کے مطابق يہ کوشش کرے کہ اس کی زندگی احکام الٰہی کے مطابق بسر ہو۔ تقويٰ کے اثرات اسلامي کردار يعني تقویٰ کے اختيار کرنے سے ايک مسلمان کی زندگی پر بےشمار اثرات مرتب ہوتے ہيں۔دينی اور دنياوي زندگی ميں اس کی بدولت انسانی ضمير کو سکون و چين ميسر ہوتا ہے۔ قران کی روشنی ميں تقويٰ کے اثرات پر ہم ايک طائرانہ نظر ڈالتے ہيں۔ تقويٰ اور انسانی عظمت کا راز عظمت اور بزرگی کی تلاش انسانی فطرت ہے۔ہر شخص معاشرہ ميں اعلٰی سے اعلٰی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسلام کي نظر ميں عظمت و شرافت اور بلندي مراتب کا معيار دولت کی کثرت نہيں۔مال و زر کا ہونا نہيں اور نا ہی حسن و جمال کو اس ميں کوئی دخل ہے بلکہ اپني زندگي کو اللہ کي رضا کي خاطر گزارنا فضيلت کي اصل کسوٹي ہے۔ قرآن مجيد اس بات کي ترديد يوں کرتا ہے: اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکْمْ۔( الحجرات۔١٣ ) اللہ کے نزديک معزز ترين شخص وہ ہے جو تم ميں زيادہ پرہيزگار ہے۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک قول سے بھی يہی پتہ چلتا ہے کہ حقيقی شرف تقویٰ ہی ميں ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے قبا کے خطبہ ميں ايک بار ارشاد فرمايا:"تقویٰ عزت دلاتا ہے اور اللہ کو خوش کرتا ہے"۔ معلوم ہوا کہ حسب و نسب کی روحانی اور مقصودی زندگی ميں کوئی اہميت نہيں بلکہ يہ وہ بت ہيں جن کی پوجا سے ہماری قوم مسلم قوميت کھوتی جا رہی ہے۔نسلی اور معاشی امتيازات نے ہمارے اسلامی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر ديا ہے۔علاقائی تعصبات دل و دماغ پر پوري طرح تسلط جما رہے ہيں اور يہ سب کچھ تقویٰ کے منافی ہے۔ تقویٰ اور فلاح حقيقی انسان جب تک نظامِ وحی سے رہنمائی حاصل نہيں کرتا نقصان اور خسارے ميں رہتا ہے۔ہدايت کے ليے وجدان اور عقل اس کے ليے نا کافی ثابت ہوتے ہيں۔اگر وہ اپنے خالق اور ہادي کی طرف رجوع نہ کرے تو وہ اکثر فيصلے غلط کرتا ہے۔اس کی دماغی اور ذہنی قوتيں زندگی کی پر پيچ راہوں ميں اس کی ساتھی نہيں بنتيں۔وہ يہاں پہنچ کربے بس ہو جاتا ہے۔اس کی نگا ہيں کس ہادی کو تلاش کرتی ہيں ۔اگر اس بے چارگی کے عالم ميںوہ فطرت کی آواز سن کر اپنے خالق و مالک کے "نظام ہدايت"جو مختلف ادوار ميں انبياء کی وساطت سے انسانيت کی رہنمائی کرتا رہا کو پہچان لے تو فطرت اسے فلاح کا پيغام ديتی ہے۔ وہ لوگ جن کے سينے ايمان سے خالی ہيں اور ان کے اعمال قرآن و سنت کے بر عکس ہيں بے شک وہ انسان تو ہيں ليکن "نظام وحی"سے عدم تمسّک کی بناء پر نقصان و خُسران ان کا مقدر ہے۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لّفْيِ خُسْر ٍ۔ ( العصر۔٢ ) "بے شک انسان خسارے ميں ہے"۔ نقصان کے مقابلہ ميں قرآن "فلاح" کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔اور "فلاح" کی شرائط ميں تقویٰ کو ايک خاص اہميت حاصل ہے۔ سورۃ "البقرہ" ميں متقی کی چھ صفات بيان کرنے بعد رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں: اُولٰئِکَ عَلٰي ھُدًي مِّنْ رَّبِھِمْ وَاُوْلٰئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ ہ ( البقرہ۔٥ ) "يہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدايت پر ہيں اور يہی لوگ کا مياب و کامران بھی ہيں۔" تقویٰ اور سکون زندگی کون نہيں جانتا کہ ہماری زندگی ميں جتنی بھی مشکلات ہيں ۔"قرآن"سے بغاوت ہی کا نتيجہ ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو تربيت کے ليے قرآنی سانچوں ميں ڈھالتے ہيں اس کا مطلوبہ کردار جس کو وہ "تقویٰ" کا نام ديتا ہے اپنے اندر پيدا کر ليتے تو يقيناً ہماری زندگی ميں اس قدر بے چينياں نہ ہوتيں بلکہ سکون و آرام سے دن گزارتے۔ وَمَنْ يّتَّقيِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہُ مِنْ اَمْرِہ يُسْرًا۔ اور جو اللہ سے ڈرے وہ اس کے کام ميں آسانی فرما دے گا۔ تقویٰ اور قرب الٰہی قرآن مجيد ميں ارشاد رب العزت ہے: اِنْ اَوْلِياءَ ہ اِلّاَ الْمُتَقُوْنَ وَ لکِٰنَّ اَکْثَرَ ھُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ ہ ( الانفال:٣٤ ) "بلا شبہ متقی ہی اللہ کے دوست ہوتے ہيں ليکن اکثر لوگ جانتے نہيں۔ اگر صحيح معانوں ميں پرہيزگاري ہمارا شعار بن جائے۔خدا کا خوف ہمارے دلوں ميں راسخ ہو جائے تو"نَخْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ منْ حَبْلِ الْوَرِيْد" ( ہم شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہيں ) کی نويد جا نفرا آج بھی قرآن مجيد سنا رہا ہے۔متقی ہی کے بارے ميں رب ذوالجلال ارشاد فرماتے ہيں: اِنَّ اللہَ يُحِبُ الْمُتَّقِينَ ہ ( التوبہ:٧ ) بے شک اللہ پاک متقی لوگوں ہی سے محبت کرتا ہے۔ انوار الٰہيہ کے مشتاق کے لئے اس سے بڑا انعام کيا ہو سکتا ہےکہ محبوب و مطلوب اپنی توجہ والتفات کے جيتنے کا نسخہ خود تجويز فرما رہا ہے۔کيا يہی وہ مقام نہيں جس کی خاطر بدر و حنين کے معرکے وجود ميں آئے۔کربلا ميں اہل بيت اطہار کا خون گرا۔باپ نے بيٹے کی گردن پر چھُري رکھی۔ اے بندگانِ خدا :اگر تم بھی چاہتے ہو کہ محبت الٰہی کی سوغات تمھارے حصے ميں بھی آئے تو اپنے آپ ميں متقی لوگوں کی صفات پيدا کيجيے۔ تقویٰ اور امتياز تقویٰ کے اجتماعی اثرات ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ وہ معاشرہ جو" من حيث الجماعت " (پوري جماعت کی حيثيت سے )اپنے آپ کو کتاب و سنت کے مطابق بنا ليتا ہے۔اقوام عالم ميں اس کي شان نرالي اور امتيازي بن جاتي ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: يٰٰآ َيُّھَا الّذِينَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناَ۔( الانفال: ٢٩ ) "اے اہل ايمان :اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امتياز قائم کے دے گا"۔ "امتياز"کي مختلف نو عيتيں ہو سکتي ہيں۔يعنی اس سے ايک معنی تو يہ بھي ليا جا سکتا ہے کہ تم ميں اچھي اور بري چيز ميں امتياز کرنے کي قوت پيدا فرما دے گا يعني بصيرت عطا کر دے گا ، اور يہ بھي ہو سکتا ہے کہ اقوام ميں تمھيں امتيازی شان عطا کر دے۔ تقویٰ اورکشادگیِ رزق روٹی،کپڑے اور مکان کامسئلہ ہر دور ميں بڑی اہميت کا حامل ہوتا ہے۔قرآن نے معاشی آسودگی بھی اپنی حدوں ميں قائم رہنے ہی ميں قرار دی۔ارشادِ رب العزت ہے:۔ "وَمَنْ يَّتَّيِق اللہَ يَجْعَلْ لہَّ مَخْرَ جاً ۔وَّ يَرْ رُقُہ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ "۔( اطلاق : ٢۔٣ ) "متقی کے ليے اللہ تنگی سے نکلنے کے لئے سامان مہيا کرتا ہے، اور اسے وہاں سے روزی ديتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہيں ہوتا ہے" اسلامی نظام کا مکمل مطا لعہ کرنے سے اچھی طرح اس نتيجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ اسلام کيسے "معاشی خوشحالی " ديتا ہے ۔ اس کے بر وعکس "اعراض عن القرآن" سے اقوام و ملل کی معاش و معيشت تنگ کر کے رکھ دي جاتی ہے۔قرآن نے معاشی تنگی کي وجہ ہي اس نظام سے بغاوت کو قرار ديا ہے۔ وَ مَنْ اَعْرَاضَ عَنْ ذِ کُرِیُ فَاِنَّ لَہُ مَعِيْشَہً ضَنْکاً وَّ نَحْشُرُہ يَوْمَ الْقِيَامَةَِ اَعْمٰی۔( ٰطہٰ : ١٢٤) "جس نے ہماری ياد سے غفلت برتی بے شک معيشت تنگ ہو جائے گی اور ہم اسے قيامت کے دن اندھا اٹھائيں گے۔ باب دوم تشکيل تقویٰ کی بنياديں مضبوط ايمان ايمان کی مضبوطی اور استحکام تعميرٍ سيرت ميں ہر روز نئی آن اور نئی شان پيدا کرتے ہيں۔اگريہ تسليم کرليا جائے کہ قربٍ الٰہی اور اتقاء لازم وملزوم ہيں تو پھر يہ سمجھنے ميں دشواری نہيں ہوگی کہ قربٍ خداوندی کا پہلا زينہ ہی استحکام ايمان ہے۔ايمان جتنا مضبوط ہوگا کردار اتنا ہی اعلٰی ہو گا۔ايمان کی کمزوری سيرت و کردار کو کمزور کرتی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ قرآن نے جب بھی مردٍ مومن کو کسی عمل اور جہاد کے لئے تيار ہو نے کی دعوت دی۔"ايمان"کا ذکر ضرور کيا۔وہ تجارت عظيم جس کو"عذابُ اليم"(دردناک عذاب) سے چھٹکا ر ے کا با عث قرا ر د يا گيا۔اس ميں بھی سب سے پہلے ايمان باللہ اور ايمان باالرسول (صلی اللہ عليہ وسلم)کا ہی ذکر کيا گيا۔ تُوْ مٍنُوْنَ باٍللہٍ وَرَسُوْ لٍہٰ وَ تُجَا ھِدُوْنَ فِیْ سَبٍيْلٍ اللہٍ بٍاَمْوَالٍکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ۔( الصف : ١١) " اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم پر ايمان لاؤ اور خدا کے راستے ميں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرو"۔ کردار کی تعمير " تقویٰ " کا ترجمہ اگر عام فہم الفاظ ميں کيا جائے تو يہ کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ "اسلامی کردار" کا دوسر انام ہے۔ياد رہے کہ تعميرٍ کردار کے لئے قرآن کثرت عبادت کا ايک نسخہ بھی تجويز کرتا ہے ۔ مثلاً بے حيائی سے رُ کنے کے لئے يا صبر کی صفت پيدا کرنے کے لئے نماز کا پڑھنا تجويز کيا گيا۔ انسانی طبا ئع ميں رَچ بَس جانے والی مذموم حرکتيں کثرتِ زُہد ہی سے عا د ات ِحسنہ سے بدلتی ہيں۔ پروردگار عالمين ايک جگہ ارشاد فرماتے ہيں:۔ ٰيآَ يّھُاَ النَّاسُ اعْبُدُوْارَبَّکُمُ الّذَیِْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہ (البقرہ : ٢٠ ) " اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہيں اور تم سے پہلے لوگوں کو پيدا فرما يا ،تا کہ تم متقی بن جاؤ "۔ رمضان المبارک کے روزوں کا ملسفہ بھی يہی بيان فرمايا :۔ يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَماَ کُتِبَ عَلیَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہ (البقرہ : ١٢٣ ) " اے اہل ايمان ! تم پر پہلے لوگوں کی طرح روزے فرض کر ديئے گئے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔" تلاش مرشد ايمان کی حرارت،محبت کی گرمی اور عشق کی تپش شيخٍ کامل کی وجہ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔قرآنٍ حکيم بھی تعمير سيرت ، پختگئی کردار ، تشکيل تقویٰ اور آنکھوں سے غفلت کی پٹياں دُور کرنے کے لئے "وسيلہ" ضروری قرار ديتا ہے۔ يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوااللہَ وَابْتَغُوْ آاِلَيْہٍ الْوَ سِيْلَتہ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِيْلِہٰ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ ( المائدہ : ٣٥ ) " اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسيلہ تلاش کرو اور اس کی راہ ميں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ "۔ آيت ميں وسيلہ سے مراد جہاں کتاب وسنت ہے وہاں پيرومرشد کی توجہ اس کی تلاش اور بيعيت ہے شاہ ولی اللہ اور مولوی اسماعيل دہلوی نے اس سے يہ مراد لی ہے ۔ ( قول جميل،صراطٍ مستقيم بحوالہ ضياالقرآن ) ڈاکڑعلامہ اقبال عليہ الرحمتہ شيخ کامل کی توجہ کےاثرات ايک جگہ اسطرح بيان کرتے ہيں :۔ دم عا ر ف نسيم صبح دم ہے اسی سے ريشہ معنی ميں نم ہے اگر کوئی شعيب آئے ميسر شبانی سے کليمی دو قدم ہے غوروفکر تقویٰ اسلام کی روح ہے اور اسلام دينِ فطرت ہے۔اس کی حقانيت لامحا لہ ہر اس ذہن کو تسليم کرنی پڑتی ہے جو تعصب کی پٹی اتار کر صيح خطوط پر غوروفکر کرے۔قرآن جو ايک الہامی کتاب ہے وہ صرف اپنے قاری کو تلاوت ہی کی دعوت نہيں ديتی بلکہ فکر اور تدبر کرنے کی تعليم بھی ديتی ہے۔اس کی وجہ يہ ہے کہ غوروفکر سے انسانی ضمير زندہ ہوتا ہے اور حقائق کو تسليم کرنا سيکھتا ہے جب قلب و جگر اور دل و دماغ کسی بات کو تسليم کر ليتے ہيں تواس کے تقاضے پورے کرنے پھر مشکل نہيں رہتے۔ تقویٰ چونکہ اسلام کا تقاضا ہے،اس لئے اس کی تشکيل بھی غوروفکر کی مرہون منت ہے۔ قرآن کی دعوت ِفکر کو تين حصوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے :۔ ١ ۔ کتاب ٢ ۔ انفس ٣ ۔ آفاق قرآن سے استدلال ١ ۔ وَلقَدْ صَرَّ نْناَ فِیْ ھٰذَاالْقُرْاٰنِ لِيَذَّ کَّرُوْ ط ( بنی اسرائيل : ٤١) "بلا شبہ ہم نے قرآن ميں طرح طرح سے سمجھا يا تاکہ نصيحت حاصل کريں " ٢ ۔ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ٔ مَآ ٕ لَّکُمْ مِنْہُ شَرَابُ وَّ مِنْہُ شَجَرُ فِيْہِ تُسِْيمُوْنَ ہ يُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّ يْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَا ْلاَ عْنَا بَ وَمِنْ کُِلّ الثَّمَرٰتِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ َلاٰيَتہ ً لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَ ہ ( النحل : ١١،١٠ ) " وہ ذات جس نے تمہارے لئے آسمان سے پينے کے لئے پانی اتارا تم اس سے (اُگنے والے)درختوں سے چراتے بھی ہو(وہ ذات)جو تمہارے لئے اس سے کھيتی اگاتا ہے۔زيتون،کھجور،انگور اور ہر قسم کے پھل۔ بلا شک اس ميں فکر کرنے والی قوم کے لئے نشانی ہے ۔" ٣ ۔ قُلْ مَنْ يَّرْ زُقُکُمْ مِنَ السَّمَآ ٕ وَالاَْ رْمِن اَمَّنْ يَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالاَْ بْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَِيّتَ مِنَ الْحَّیِ وَمِنْ يُّدَ بّرُِ الاَْ مْرَط فَسَيَقُوْ لُوْنَ اللہ ج فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ ہ (يونس : ٣١ ) "ان سے پوچھو تمہيں زمين اور آسمان سے رزق کون ديتا ہے۔سماعت اور بصارت کی قوتوں کا مالک کون ہے۔بے جان سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو کون نکالتا ہے۔اس نظامِ کائنات کی تدبيرکون کر رہا ہے۔وہ ضرور کہيں گے کہ اللہ پس کہو تم کيوں تقویٰ اختيار نہيں کرتے ۔" ٤ ۔ سورت غاشيہ ميں ايک مقام پر غورو فکر کی دعوت اس انداز ميں دی گئی اَفَلاَ يَنْظُرُوْنَ اِلیَ الاِْ بِلِ کَيْفَ خُلِقَتْہ وَاِلیَ السَّمَٕ کَيْفَ رُفِعَتْ ہ وَاِلیَ الْجِبَال ِ کَيْفَ نُصِبَتْ ہ وَاِلیَ الاَْ رْضِ کَيْفَ سُطِحَتْ ہ ( انعا شيہ : ١٧ تا ٢٠ ) " کيا وہ اونٹوں کو نہيں ديکھتے کيونکر پيداہوئے اور آسمان کو کہ کيسے بلند کيا گيا۔پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑے گئے ہيں اور زمين کو کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔" علم شريعت کا ہونا تقویٰ کا تعلق چونکہ شريعت سے ہے۔اس لئے ہر متقی اور پرہيزگار شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ شريعت کا مکمل علم رکھتا ہو يا اگر زيادہ نہيں تو کم ازکم جائز وناجائز اور حلال و حرام کا علم رکھنا تو ازحد ضروری ہے۔ تقویٰ کا بلند ترين مقام عرفان ربّ ہے جسے فقر سے بھی تعبير کيا جاتا ہے حضرت باہوُ عليہ الرحمتہ اس کے بارے ميں فر ماتے ہيں۔ علموں باہج جوکرے فقيری کافر مرے ديوانہ ہوُ خداوندکريم امتِ مصطفٰے صلی اللہ عليہ وسلم کو ہزارہا ان کے فر يب کاروں سے بچائے جو طريقت کو شريعت سے الگ کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہيں حالانکہ حقيقت يہ ہے ۔ اگر بہ اونر سيدی تمام بولہيبت اتباع رسول صلی اللہ عليہ وسلم کے علاوہ جو بھی طريقہ ہے خواہ وہ کتنا ہی دلکش کيوں نہ ہو نفس کی کرشمہ سازی کے سوا کچھ نہيں ۔ خوفِ خدا " تقویٰ "پيدا کرنے کے لئے خوفِ خدا کا ہونا بھی اشدضروری ہے ليکن خوف کو اتنا نہ بڑھايا جائے کہ اميد ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ايک حديث کے مطابق ايمان،خوف اور اميد کے درميان ہے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ايک مشہور قول ہے کہ :۔ "اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے يہ اعلان کيا جائے کہ جنت ميں صرف ايک ہی شخص داخل کيا جائے گا توميں کہوں گا کہ وہ شخص ميں ہی ہوں ۔ليکن اگر يہ اعلان ہو جائے کہ دوزخ ميں صرف ايک ہی آدمی داخل ہو گا تومجھے انديشہ ہو گا کہ وہ آدمی کہيں ميں ہی نہ ہوں۔" خوفِ خدا کےلئے آخرت،موت اور قبر کافکر ضروری ہے۔ايک شخص کو ميں نے ديکھا کہ مرغ ذبح کرتے ہوئے رو رہا تھا اور ساتھ ہی يہ کہہ رہا تھا کہ بے زبان اور غير مکلف چيز مرتے ہوئے اگر اتنی تکليف ميں مبتلا ہے تو گناہ گار انسانوں کا کيا حال ہو گا۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں ايک روايت ہے کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ کا چہرہ متغير ہو جاتا اور آپ خوفِ خدا سے کبھی گھر سے باہرآتےاورکبھی اندر جاتے۔جب بارش ختم ہوجاتی توآپ مسرورہوجاتے۔ فطرتِ ا نسانی ميں يہ بات د اخل ہے جب ا سے کسی بات کا خوف ہو تو عمل کی قو ت اس ميں تيز سے تيز تر ہو جاتی ہے۔البتہ خوف کی توعتيتں بدلتی رہتی ہيں۔ اسلام بھی اپنے ماننے والوں کو ايک غائب ہستی کی باز پُرس سے ڈرنے کی تلقين کرتا ہے۔اس خوف کا اثر يہ ہے کہ کسی پوليس يا محتسب کی غير موجودگی ميں بھی انسان ايسا کام کرنے سے رک جاتا ہے جس سے اسکےرب کی نافرمانی ہوتی ہواورخلق خدا کوضرر کاانديشہ ہو۔ خوفِ آخرت ايک حديث ميں سرکار ِدوعالم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں:۔ "اللہ تعالی کو ان آنسووں سے پيار ہے جو خوفِ الٰہی سے جاری ہوتے ہيں"۔(مشکوۃ شريف باب الجہاد) ايک بزرگ نے ايک روتے ہوئے لڑکے سے رونے کا سبب دريافت کيا تو اس نے جواب دياکہ اللہ تعاليٰ سے ڈر کر رورہا ہوں ۔انہوں نے پوچھا ،خوف کا سبب کيا ہے؟تو اس نے کہا کہ کتاب حکيم ميں ارشادِ رب العزت ہے :۔ فَاتَّقُواالنَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة ہ ( البقرہ : ٢٤ ) " ڈرواُس آگ سے جس کا ايندھن (گناہگار) لوگ اور پتھر ہيں " :۔ ميں سوچتا ہوں کہ ميری ماں آگ جلاتی ہے تو چولہے ميں بڑی لکڑيوں کو آگ لگانے کے لئے نيچے چھوٹی چھوٹی لکڑ ياں رکھتی ہے تاکہ آسانی سے آگ روشن ہو جائے۔اگر خداوند کريم نے بھی جہنم ميں بڑے بڑے نا فرما نوں کو آگ ميں ڈالا تو مجھ جيسے چھوٹے چھوٹے گناہگاروں کو بھی کہيں آگ ميں نہ ڈال ديا جائے۔ مولانا رُومی کا ايک شعر ہے ۔ ہر کجا آبِ رواں غنچہ بود ہر کجا اشکِ رواں رحمت بود جہاں پانی چلتا ہے وہاں باغات ہوتے ہيں اور جہاں آنسوجاری ہوں وہاں خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ حضرت صديق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمايا کرتے تھے کہ خوفِ الٰہی سے رويا کرو اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل ہی بنا ليا کرو ۔ خوفِ خدا کے بارے ميں قرآن حکيم ميں ربِ ذوالکمال ايک جگہ ادشاد فرماتے ہيں :۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٰ وَنَھیَ النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ہ فَاِنَّ الْجَنّتہَ ھِیَ المَاوٰی ہط ( الَّنز عٰت : ٤٠،٤١ ) " اور جس نے اپنے رب کے سامنے حاضری کا خوف رکھا ا ور اپنے آپ کو خواہشات سے باز رکھا۔بے شک اس کا ٹھکانہ جنت ہے "۔ دُعا اسلامی اور روحانی زندگی ميں طلب اور جستجو کا ايک خاص مقام ہے۔ہدايت اور گمراہی ہر دو مِنْ جَانِبِ اللہِ ہی ہوتے ہيں۔مرد مومن کو چاہيے کہ وہ ہر وقت خدا کی چوکھٹ پر پڑا ر ہے ۔اس سے سوال کرتا رہے ۔اسی داتا کی عطا سے زنگ آلود دل پاک ہوتے ہيں۔مخلوق کو خالق کا قربِ مقصود حاصل ہو تا ہے۔ يہ بات مسلمہ ہے کہ عبادت سے " تقویٰ " کی تشکيل ہوتی ہے اور دعا کے بارے ميں روف رحيم آقا صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں :۔ اَ لدُّعَا ھُوَ الْعِبَادَة ۔ ( رواہ ابوداؤد) دُعا ہی عبادت ہے ۔ ايک حديث کا مضمون يہ بھی ہے کہ "دُعا عبادت کا مغز ہے "۔ آقا کے ان دو اقوال سے پتہ چلا کہ دعا ميں اگر عجزونياز مندی شامل ہو،اور دعا گو رياونمود سے اجتناب کر لے رب ذوالجلال کو پکارے تو اس کی تاثير عبادت عامہ سے زيادہ ہوتی ہے ۔ خلاصہ کلام يہ ہو کہ تشکيل تقویٰ کے لئے صدقِ طلب کا ہونا ضروری ہے۔رشد وہدايت کے نور کے حصول کے لئےخود بھی دعا کرنی چاہيےاوراللہ کے نيک بندوں سے بھي دعا کرانی چا ہيے ااس لئے کہ يہ حقيقت ہے کہ نگاہِ ولی ميں يہ تاثير ديکھی بدلتی ہزاروں کی تقدير ديکھی استقامت استقامت سے مرادِ لزوِم طاعت ہے۔بعض علما نے کہا کہ خداوند تعالٰی کی رضا کے مطابق اپنے سارے امور کا نظام درست رکھنا استقامت کہلاتا ہے۔ايمان کے بعد استقامت کی اہميت کا اندازہ مخبر صادق صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی اس حديث سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ ايک بار آپ سے پوچھا گيا کہ کوئی ايسا عمل بتائيں کہ کسی اور سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔آقا ومولا نے ارشاد فرمايا :۔ قُلْ آ مَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ۔ کہہ کہ ميں ايمان لايا اللہ پر ۔ پھر استقامت اختيار کر صوفياء کا مسلک ہے کہ استقامت اور استقلال کرامت سے بھی زيادہ اہم شے ہے۔اہل ايمان کے اسی وصف کو قرآن مجيد نے ايک مقام پر يوں بيان فرمايا : ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ قَا لُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفُ عَلَيْھِمْ وَلاَ ھُمْ يَحْزَ نُوْنَ ہ ( لا حقاف : ١٣) "بے شک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھراس پر ثابت قدم رہے۔نہ ان پر خوف نہ ان کو غم۔ ( الاحقاف : ١٣ ) استقامت کا آسان تر مفہوم ثابت قدمی کا ہے۔تقویٰ کا تعلق چونکہ اجتناب معاصی اور حليت اوامر سے ہے۔اس لئے حصولِ علم کے بعد تقویٰ کے ثمرات ديکھنے کے لئے صبر اورثبات کا ہونا اشد ضروری ہے۔ باب سوم تقویٰ کے تقاضے شرک کے اجتناب تقویٰ کا اولين تقاضا يہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰي کے ساتھ کسي کو شريک ٹھہرانے سے اجتناب کيا جائے۔کيونکہ انبياء کا پہلا درس ہي توحيد کا اثبات اور شرک کی نفی ہے۔ شرک کے بارے ميں قرآني رويے کو اس طرح بيان کيا جا سکتا ہے:۔ شرک ناقابل معافی جرم ہے۔( النسئا : ٤٨ ) شرک کرنے سے پہلے کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہيں۔( الانعام : ٨٩ ) شرک سے آدمی بزدل ہوتا ہے اور مشرک کا انجام جہنم ہے۔( آل عمران : ١٥١ ) شرک جہالت ہے۔( الاعرا ف : ١٣٨ ) شرک ظلم عظيم ہے۔( لقمٰن : ١٣ ) مشرک خواہشاتِ نفس کے غلام ہوتے ہيں۔( النجم : ٢٣ ) بد ترين مخلوق مشرک ہے۔( البيّنہ : ٦ ) نظاِم عبادات کا قيام اصلاح قائد کے بعد عملي زندگی کے ميدان ميں جس چيز کي اولين ضرورت ہے ۔وہ نظام عبادت کا قيام ہے۔تقويٰ کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے ضروري ہے کہ تخليق انسانيت کي علّت معلوم کي جائے اور وہ يہ ہے کہ: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِْنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَ ۔ ( الزّاريت : ٥٦ ) " ہم نے جنّوں اور انسانوں کو نہيں پيدا کيا مگر عبادت کے لئے " ۔ عبادت کا مفہوم نہايت وسيع ہے ۔اس ميں ہر وہ چيز آ جاتي ہے جس کے کرنے اور باز آ جانے سے رضائے ربّ کا پروانہ ملتا ہو ليکن نماز، روزہ ،زکوٰۃ، اور حج اسلامي نظام عبادت کي بنياديں ہيں۔ان ميں سے بھي نماز کو بہت اہميت حاصل ہے۔روزِ محشر اولين پرسش اسي کے بارے ميں ہو گي۔ روز محشر کہ جان گداز بود ا و لين پر سشِ نما ز بود ذکر الٰہی ميں مشغوليت اللہ کاذ کر دلوں کو صاف کرتا ہے۔بد اعماليوں اور بد عقيدگيوں سے نجات دلاتا ہے۔بے حيائي اور فحاشي سے منع کرتا ہے۔انساني کردار کو نکھارتا ہے۔مزاج ميں اعتدال پيدا کرتا ہے۔سيرت ميں حسن لاتا ہے۔طبيعت کو استغنا بخشتا ہےاور سب سے بڑھ کر يہ کہ کثرتِ ذ کر سے انسان قربِ الٰہي کي منزلوں کا راہی بن جاتا ہے۔ ذکر اللہ کے بارے ميں قرآن کا ارشاد سنيئے :۔ وَ لَذِکر اللہ ِاَ کْبَرْ۔"۔ ( العنکبوت:٤٥ ) "اللہ کا ذکر بہت بڑي شَے ہے"۔ ذکر کيا ہے؟ہر وقت اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کي غلامي ميں لگائے رکھنا۔تصور ميں اُس حاکِم مطلق کو ياد کرنا،احکامِ الٰہي پر کاربند رہنا۔قرآني تعليمات کا پرچار کرنا يہ سبھي ذکر اللہ کي اقسام ہيں۔ حاکميتِ خداوندي پر اگر مکمل يقين نہ ہو اور ہر فعل ميں رضائے الٰہي کا جوہرشامل نہ ہو تو مقصود عبادت اور مدّعائے زيست پورا نہيں ہوتا ۔ فکرِ آخرت ہميشہ انجام پر نگاہ رکھنے والے لوگ ہي ہر ميدان ميں کاميابيوں سے ہمکنار ہوتے ہيں۔انسان کا انجام فنا نہيں بلکہ فنا کے بعد ايسي بقا ہے جس ميں دنيا ميں کئے جانے والے ہر عمل کے بارے ميں باز پرس ہو گی ۔ نگہ در فرصت کے عالم دمے است دم پيش عالم بہ از عالمے است آخرت کي فکر کر کے اپنے اعمال و افعال کا محاسبہ کرنا بھي تقويٰ کا تقاضا قرار ديا گيا ہے۔ارشاد رب العزت ہے : ۔ يٰآ َيًُھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللہ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسُ مّاَ قَدَّ مَتْ لِغَدٍ ج وَ اتَّقُوااللہَ ط اِنَّ اللہ خَبِيْرُم بِمَ تَعْمَلُوْنَ ہ ( الحشر:١٨ ) "اے ايمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص ديکھے کہ اس نے کل کے لئے آگے کيا بھيجا ہے۔اللہ سے ڈرو ۔ وہ يقيناً تمہارے اعمال سے باخبر ہے " ۔ اِس آيہ کريمہ ميں آخرت کي زندگی کو " کل"سے تعبير کيا گيا ہے۔گويا دنيا کي پوري زندگي "آج" ہے۔خوش بخت ہيں وہ لوگ جو کل کي فکر ميں اپني چند روزہ زندگي کو اعمالِ صالح سے مزّين کر رہے ہيں ۔ اصلاح معاشرہ کون نہيں جانتا کہ انفرادی زندگی کے اثرات اجتماعی زندگی پر مرتّب ہوتے ہيں ۔تقویٰ جس کا تعلق اگرچہ مجموعی طور پر فرد ہی سے ہے ليکن اجتماعی اصلاح بھی اُسی صورت ميں ممکن ہو سکتی ہے جب کہ اسلامی معاشرے سے متعلق ہر شخص متقی ہو۔ تقویٰ اگر ايک طرف انفرادی کردارکی تعميرکر تا ہے تو دوسری طرف اجتماعی کردار کی تشکيل يعنی اصلاح معاشرہ کی راہيں بھی ہموار کرتا ہے۔دنيا ميں جتنی اخوّت اور مروّت مسلمانوں کے درميان پائی جاتی ہے کسی اور نظام کے پيروکاروں ميں نہيں پائی جاتی۔يہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے " اصلاح بين المسلمين " ( مسلمانوں کی اصلاح ) کو تقویٰ کا تقاضا قرار ديا ہے ۔ اِنَّمَاالْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَ ة فَاَ صْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَ يْکُمْ وَاتَّقُوااللہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ہ ( الحجرات : ١٠) "مومن آپس ميں بھائی بھائی ہيں۔پس اپنے بھائيوں ميں اصلاح کر واور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کيا جائے "۔ تقویٰ کے اس تقاضے يعنی مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی درستگی کی اہميت حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے کہ :۔ "حضرت نعمان ابن بشير فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر ماياکہ تو مومنوں کو باہمی رحم دلی،محّبت اورارتباط ميں ايک بدن کی مثال ديکھے گا کہ جسم کا اگر ايک عضو کسی تکليف ميں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔" ااس قسم کا ايک مضمون حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت فرماتے ہيں کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔وہ نہ تو اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو چھوڑتاہے اور نہ ہی اس کی تحقير کر تا ہے۔" تقویٰ يہی ہے" سينے کی طرف تين مرتبہ اشارہ فرمايا۔مزيد ارشاد فرمايا: "انسان کے لئے يہی شر کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کی تحقير کرے۔ہر مسلمان کی جان ،مال اور عزّت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔" اتّحادِ ملت کسی قوم کی سب سے بڑي خوش قسمتی اور سعادت يہ ہوتی ہے کہ اس کی صفوں ميں مکمل اتفاق و اتحاد ہو۔افتراق وانتشار سے اسے نفرت ہو۔ يہی وہ نعمتِ عظٰمی ہے جس سے قومی زندگی کو بقا حاصل ہوتي ہے اور اسي وجہ سے ملی عزت اور وقار پائندہ و تابندہ رہتے ہيں۔بخلاف اس کے تشتت وافتراق سے حياتِ مِلی خطرے ميں پڑ جاتی ہے۔اور قوميں تباہی کے گڑھے ميں گر جاتی ہيں۔يہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکيم نے ايک مقام پرجہاں تقویٰ کا ذ کر کيا ساتھ ہی اتحادِ باہمی کا ذ کر کرتے ہوئےاس کے فوائد سے آگاہ فرمايا اور بے اتفاقی کو جہنم کا گڑھا قرار ديا۔ يٰآَ يّھُاَ الَّذِ يْنَ اٰمَنُوْ ااتَّقُوااللہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلاَ تَمُوْ تُنَّ اِلّاَ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ہ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعاً وَّ لَا تَفَرَّ قُوْا وَاذْ کُرُ وْا نِعْمَتِ اللہِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَ آ ٕ فَاَ لَّفَ بَيْنَ قُلُوْ بِکُمْ فَاَ صْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَاناً ج وَکُنْتُمْ عَلٰٰی شَفَا حُضْرَة مِّنَ النَّارِ فَاَ نْقَذَ کُمْ مِنْھَا ط کَذَالِکَ يُبَيِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰ يٰتِہ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ ہ ( آل عمران : ١٠١ تا ١٠٣ ) " اے ايمان والو ! ڈرو اللہ سے جيسے کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔اور نہ مرو مگر مسلمان ہی ہو کر۔اللہ کی رسیّ کو مضبوطی سے تھام لو،اور تفرقہ نہ کرو۔اللہ کی اس نعمت کو ياد کر و جب تم ايک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں ميں ايک دوسرے کے لئے محبت پيدا کی اور تم اس کے احسان سے بھائی بھائی ہو گئے۔تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے۔پس اس نے اس سے بچايا۔اسی طرح اللہ تعالٰی تمہاری ہدايت کے لئے اپنی آيتيں بيان فرماتا ہے ۔ ہر وہ قوم جو اپنے مقصدِ حيات سے منحرف ہو کر اصولوں کو ترک کرکے جزئيات و فروعات ميں الجھنے کی کوشش کرتی ہے اس کے ہاں بگاڑ کا ہونا ناگزير ہو جاتا ہے اور جب کوئی ملّت تفرقہ کا شکار ہو جائے تو اس کی اصلاح و تعمير کا ہر امکان معدوم ہو جاتا ہے ۔ مسلمان کئي بار اس الہامی اصول کے نتائج و عواقب ديکھ چکے ہيں ۔چودہ سوسال کی تاريخ ميں کئی بار ايسے ہوا کہ لوگ باہمی عداوتوں کا شکار ہوئے ۔ رائے کے اختلاف سے بڑھتے بڑھتے پہلے مکتب خيال بنے پھر فرقے بنے اور پھر اللہ کی انتقامی کاروائی کے شکار ہوئے۔آپ کہہ سکتے ہيں کہ اس عرصہ ميں کسی کو بندر نہيں بنايا گيا۔آسمان سے کوئی چنگھاڑ يا چيخ نازل نہيں ہوئی پتھروں کی بارش نہيں کی گئی ۔ليکن اس کا مطلب يہ نہيں کہ مسلمانوں کے بارے ميں يہ قانون فطرت بدل گيا۔حقيقت يہ ہے کہ حضور صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی دائمی شفقت اور رحمت ہے جس کے زيرِ سايہ مسلمانوں پر اس قسم کا عذاب نازل نہيں ہو سکتا ورنہ کسی نہ کسی صورت ميں ان کو جھنجھوڑاگيا۔ غلبہ،استيلا،خلافت اور تمکن فی الارض کی نعمتيں ان سے چھنيی گئيں ۔غلامی کے عذاب ميں انہيں گرفتار کيا گيا اور آج بھی کتنے ہی مسلمان عملی طور پر يا نظرياتی اور تہذيبی لحاظ سے غلامی کی سسکياں بھر رہے ہيں ۔کيا اس سے بڑا عذاب بھی ہو سکتا ہے ۔دنيا ميں غلامی سے بڑھ کر بھی کوئی ذلت اور رسوائی ہو سکتی ہے ۔ تفرقہ اوراختلاف کے جُرِم عظيم پر ذرا خالقِ کائنات کی ناراضگی کا اندازہ کيجئے : وَاِنَّ ھٰذِ ہٓ اُ مَّتُکُمْ اُمَّتہً وَّ احِدَ ة ً وَّ اَناَ رَبُّکُمْ فَا تَّقُوْنَ ہ فَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَيْنَھُمْ زُبُرًا ط کُلُّ حِزْبمٍ بِمَا لَدَ يْھِمْ نَرِ حُوْنَ ہ فَذَ رْھُمْ فْیِ غَمْرَ تِھِمْ حَتّیَٰ حِيْن ِ ہ ( المومنون : ٥٢ تا ٥٤ ) " يہ تمہارا دين توايک ہی دين ہے اور ميں تمہارا ربّ ہوں ۔پس تقویٰ اختيار کيجئے وہ جنہوں نےدين ميں مختلف طريقے بنالئے۔ہرايک اپنے ہی طريقےپرخوش ہے۔پس(اے نبی )چھوڑيئے ان کو ايک مدت تک غفلت ہی ميں پڑے رہيں "۔ مسلمانانِ عالم کی فوزوفلاح ، کاميابی وکامرانی ،عزت و وقار،حيات وبقا اسی ميں ہے کہ وہ ايک رہيں ۔فروعی اختلافات کو ترک کر کے ايک دوسرے کی طرف رفاقت کا ہاتھ بڑھائيں ۔ تقویٰ جو اسلامی کردار کا نام ہے ۔اس کا تقاضا يہی ہے کہ مسلمان حسب و نسب کے امتياز مٹا کر وحدت کی لڑی ميں پروئے جائيں ۔ اور ياد رکھيئے کہ اگر مسلمانوں نے اِس عظيم جُرم سے خلاصی حاصل کرلی توان کی عظمت و اقتدار کے ترانے ارض وسماء پر گونجيں گے ۔ شعائر اللہ کی تعظيم قرآنِ حکيم ميں ارشاد رُبّ العّزت ہے :۔ وَمَنْ يّعَظِّمْ شَعَا ئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ہ ( الحج : ٣٢ ) " اور جو اللہ کے شعائر کی تعظيم کرے تو يہ دلوں کے تقویٰ سے ہے "۔ شعائر ميں ہر وہ چيز شامل ہے جسے اللہ تبارک وتعالٰی کی خود کی ذات خود مقرر کر دے يا اس کے انبياء مقرر کريں يا اس کی نسبت اللہ کے کسی صالح بندے سے ہو جائے ۔اس سے تبرکات بزرگانِ دين سے محبّت اور ان کے احترام کا سبق بھی ملتا ہے ۔اس لئے کہ مّحبتِ مطلق کسی شےَ سے نہيں ہوتی بلکہ اس لئے کہ اُس کا تعلق بالواسطہ يا بلا واسطہ اللہ کی ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثلا ً حجِراسود کو بوسہ ديا جاتا ہے ۔اس لئے نہيں کہ وہ پتھر ہے بلکہ اس لئے کہ اُس کا تعلق اور نسبت اللہ کے ساتھ ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم اُسے بوسہ ديتے رہے ۔ اِنَْ الصَّفَا وَالْمَرْوَة مِنْ شَعَآ ئِرِ اللہِ ۔ ( البقرہ : ١٥٨) " بے شک صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہيں "۔ اِن پہاڑوں کا شعائر ہونا بھی اولياء وانبياء سے نسبت ہی کی وجہ سے ہے ۔ احترامِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم ايک آدمی تقویٰ کا ہر تقا ضا پورا کرتا ہے ليکن احترامِ رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے اگر اس کا سينہ خالی ہے تو وہ عند اللہ ماجور نہيں ہو سکتا بلکہ اس کے تمام اعمال ختم کر ديئے جاتے ہيں ۔اخروی کاميابی کا اصل راز يہ ہے کہ دل کو محبتِ محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے سر شار رکھے ۔محّبت محبوب کے ہر فعل کے احياء کے لئے قربانی چاہتی ہے ۔آج کے حالات ہم سے تقا ضا کرتے ہيں کہ ہم تحريکِ مصطفوی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے رکن بن کر احکام ِ الٰہی کے نفاذ کے لئے کوشش کريں ۔اور زندگی کے ہر ميدان ميں ضابِطہِ خداوندی سے رہنمائی حاصل کريں ۔ وہ لوگ جو بظاہر کلمہ گو ہيں ليکن ان کے دل محبتِ رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اور احترامِ نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے جذبات سے عاری ہيں ۔ان سے بصد ادب و احترام گذارش ہے،کہيں ايسا نہ ہو جائے کہ علمِی ذوق پُوراکرتے کرتے ايمان سے بھی ہاتھ دھونے پر جائيں ۔ لاَ تُقَدِّ مُوْا بَيْنَ يَدَ يِ اللہِ وَرَسُوْلِہ وَ اتَّقُوااللہَ ط ( الحجرات : ١ ) " اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو ۔ احترام کے لئے عند الرسول اپنی آوازوں کو پست رکھنے والوں کے معتلق فر مايا :۔ اِنَّ الَّذِ يْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَ اتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُو ٰ ٓليِکَ الَّذِ يْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْ بِھُمْ لِلتَّقْویٰ ط لَھُمْ مَغْفِرَ ة وَّ اَ جْرُ عَظِيْمُ ہ ( الحجرات : ٣ ) "بلاشبہ وہ لوگ جو رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے پاس بات کرتے ہوئے اپنی آواز دھيما رکھتے ہيں ۔اصل ميں وہی لوگ ہيں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لئے چُن لئے ہيں ۔ايسے لوگوں کے لئے مغفرت اور اجرِ عظيم ہے "۔ معلوم يہ ہوا کہ تقویٰ کی جان اور پر ہيز گاری کی رُوح محبتِ رسول صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اور احترامِ نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہے ۔ اس سے ايک مئسلہ بھی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ اپنے شيخ اور استاد کا احترام کرنا اور اُن کے سامنے مودبانہ گفتگو کرنا بھی تقویٰ کا ايک تقا ضا ہے ۔ قيامِ عدل اسلام ايک عالمگير تحريک کا نام ہے جس کا مقصودومنشور عالم انسانيت ميں نيکی کا نظام قائم کرنا ہے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے يہ تحريک اپنے ہر رُکن سے ايک مخصوص کيريکڑ کا تقاضا کرتی ہے جسے تقویٰ کے نام سے تعبير کيا جاتا ہے ۔ تقویٰ جہاں انفرادی اور اجتماعی تعمير و تطہير کا نام ہے،وہاں اس کا ايک گہرا ربط تحريکِ اسلام کے منشور سے بھی ہے ۔مثلاً قرآن مجيد نے جہاں عادات واطواراور رسوم وطرق کی اصلاح کو تقویٰ قرار ديا ۔اسلام کے منشورومقصود تک رسائی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا بھی تقویٰ کا تقاضا قرار ديا ۔ تعمير کی ضد تخريب ہے ۔جب تک کوئی قوم قوانين فطرت کی پابند رہتی ہے اس کی رگوں ميں تعميری خون گردش کرتا رہتا ہے ۔گويا کہ بناؤ قانونِ عدل پابندی کی پابندی ميں ہے اور بگاڑ اس صراطِ مستقيم سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔ مسلمان چونکہ خيروبھلائی کا نظام دُنيا ميں رائج کرنا چاہتا ہے ۔انسانيت کو بناؤ کا سبق دينا چاہتا ہے۔تخريبی جراثيم کا خاتمہ اُس کا مدعا ہے ۔غرض کہ مسلمان کا يہی کير يکڑ تقویٰ اُسے قيامِ عدل کے لئے تيار کرتا ہے ۔ وَلاَ يَجْرِ مَنَّکُمْ شَتَاٰ نُ قَوْ مٍ عَلٰیٓ اَلاَّ تَعْدِ لُوْا ط اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوا اللہَط اِنَّ اللہَ خَبِيْرُم بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہ ( المائدة : ٨ ) "اور تمہيں کسی قوم کی دشمنی عدم عدل پر نہ اُکسائے۔عدل کيجئے اور اللہ سے ڈرئيے اور يہی تقویٰ کے زيادہ قريب ہے ۔بلاشبہ وہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے "۔ عدل کے لئے اردو زبان ميں لفظ "انصاف "استعمال ہوتا ہے اگرچہ معانی اور مطالب کے لحاظ سے "انصاف "ميں وہ زور نہيں جو "عدل " ميں ہے ۔اگر عدل کا معنٰی " توازن " کيا جائے تو زيادہ مناسب ہو گا ۔عالم رنگ وبو ميں پروردگار کے تمام تر امور عدالت ہی کے ساتھ قائم ہيں يعنی عدل ہی وہ قانون ہے جو قيام ہستی کے لئے ضروری ہے ۔اس مقام پر دائرہِ عدل وسيع سے وسيع تر ہو جاتا ہے ۔معاملات،مقدمات،نظامٍ شمسی سياروں کی حرکت موسمی تغير وتبدل اور تخليق انسانيت وتکوينِ اشيائے عالم تک ہر ايک ہی تعادل و توازن کی مختلف مثاليں ہيں ۔ ظلم ہو يا سر کشی،اسراف ہو يا تبذ ير،فساد ہو يا اعتدا نظامِ عدل سے ہٹی ہو ئی يہی وہ صورتيں ہيں جن کے عاملين کو قرآن نے کبھی تو شيطان کا بھائي کہہ کر پکارا اور کبھی اس سے ملتی جُلتی کو ئی اور اصطلاح استعمال کی۔ قرآن نے حقيقت عدل کے رموز سے آگاہی کے لئے اکثر مقامات پر غوروفکر کی دعوت بھی دی اور توازن اور تعادل کو مقصود ٹھہرايا اور صاف صاف کہہ ديا کہ جب تم بغير ستونوں کے اٹھائے ہو ئے آسمان کو ديکھتے ہو ۔جب تم اس حقيقت سے بخوبی آگاہ ہو کہ جوَ سے جوَ اور گندم سے گندم ہی پيدا ہوتی ہے تو پھر روزمرہ ميں عدل سے انحراف کيوں ؟ اِعْدِ لُوْا وقف ھْوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْويٰ ۔ " عدل کرو عدل ہی تقویٰ سے زيادہ قريب ہے "۔ اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔