NAJAMMIRANI مراسلہ: 27 جولائی 2010 Report Share مراسلہ: 27 جولائی 2010 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العالمین ، والصلوٰہ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلٰی الیک واصحابک یا حبیب اللہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کو مدینہء منورہ کی حاضری پر مدینے کے تاجور، نبیوں کے سرور، حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے معین الدین (یعنی دین کا مددگار) کا خطاب ملا اور تبلیغ دین کی خاطر اجمیر جانے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سیدنا سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اجمیر شریف تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغ سے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ وہاں کے ہندو راجہ پرتھوی راج کو اس سے بڑی تشویش ہونے لگی۔ چنانچہ اُس نے اپنے یہاں کے سب سے خطرناک اور خوفناک جادوگر اَجے پال جوگی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلے کے لئے تیار کیا۔ اجے پال جوگی اپنے چیلوں کی جماعت لے کر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ گیا۔ مسلمانوں کا اضطراب دیکھ کر حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے گرد ایک حصار جھینچ دیا اور حُکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس دائرے سے باہر نہ نکلے۔ ادھر جادوگروں نے جادو کے زور سے پانی، آگ اور پتھر برسانے شروع کر دئیے مگر یہ سارے وار حلقے کے قریب آکر بیکار ہو جاتے۔ اب اُنہوں نے ایسا جادو کیا کہ ہزاروں سانپ پہاڑوں سے اُتر کر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مسلمانوں کی طرف لپکنے لگے مگر جوں ہی وہ حصار کے قریب آتے مر جاتے۔ جب چیلے ناکام ہو گئے تو خود اُن کا گرو خوفناک جادوگر اجے پال جوگی جادو کے ذریعے طرح طرح کے شعبدے دکھانے لگا۔ مگر حصار کے قریب جاتے ہی سب کچھ غائب ہو جاتا۔ جب اس کا کوئی بس نہ چلا تو وہ بپھر گیا اور غصے سے بیچ و تاب کھاتے ہوئے اس نے اپنا مرگ چھالا (یعنی ہرنی کا بالوں والا چمڑا) ہوا میں اُچھالا اور اچک کر اُس پر بیٹھا اور ہوا میں اڑتا ہوا بہت بلند ہو گیا۔ مسلمان گھبرا گئے کہ نہ جانے اب اُوپر سے کیا آفت برپا کرے گا۔ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اس کی حرجت پر مسکرا رہے تھے۔ آپ نے اپنی نعلین مبارکین کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی وہ بھی تیزی کے ساتھ اڑتی ہوئیں جادوگر کے تعاقب میں روانہ ہوئیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر پہنچ گئیں اور اس کے سر پر تڑاتڑ پڑنے لگیں۔ ہر ضرب میں وہ نیچے اتر رہا تھا۔ یہاں تک کہ قدموں پر گر پڑا اور سچے دل سے ہندو مذہب سے توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا اسلامی نام عبداللہ رکھا اور وہ خواجہ صاحب کی نظر فیض اثر سے ولایت کے اعلٰی مقام پر فائز ہوکر عبداللہ بیابانی نام سے مشہور ہو گئے۔ (آفتاب اجمیر) اونٹ بیٹھے رہ گئے سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ جب اجمیر شریف تشریف لائے تو اولاً ایک پیپل کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ یہ جگہ وہاں کے ہندو راجہ پرتھوی راج کے اونٹوں کے لئے مخصوص تھی۔ راجہ کے کارندوں نے آ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ پر رُعب جھاڑا اور بے ادبی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، ?اچھا ہم لوگ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی یہاں بیٹھیں۔? چنانچہ اونٹوں کو وہاں بٹھا دیا گیا۔ صُبح ساربان آئے اور اونٹوں کو اٹھانا چاہا لیکن باوجود ہر طرح کی کوشش کے اونٹ نہ اٹھے۔ ڈرتے جھجکتے حضرت سیدنا خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت سراپا عظمت میں حاضر ہو کر اپنی گستاخی کی مُعافی مانگی۔ ہند کے بے تاج بادشاہ سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :۔ ?جاؤ خدا عزوجل کے حکم سے تمہارے اونٹ اٹھ بیٹھے۔? جب وہ واپس ہوئے تو واقعی سب اونٹ کھڑے ہو چکے تھے۔ (خواجہء خواجگان) خواجہء ہند وہ دربار ہے اعلٰی تیرا کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا چھاگل میں تالاب حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے چند مریدین ایک بار اجمیر شریف کے مشہور تالاب انا ساگر پر غسل کرنے گئے۔ برہمنوں نے دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ مسلمان ہمارے تالاب کو ناپاک کر رہے ہیں چنانچہ وہ حضرات لوٹ گئے اور جاکر سارا ماجرا خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چھاگل (پانی رکھنے کا مٹی کا برتن) دے کر خادم کو حکم دیا کہ اس کو تالاب سے بھر کر لے آؤ۔ خادم نے جاکر جُوں ہی چھاگل کو تالاب میں ڈالا سارے کا سارا تالاب اس چھاگل میں آ گیا۔ لوگ پانی نہ ملنے پر بے قرار ہو گئے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فریاد کرنے لگے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو رحم آگیا اور خادم کو حکم دیا کہ جاؤ اور چھاگل کا پانی واپس تالاب میں انڈیل دو۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی اور اناساگر پھر پانی سے لبریز ہو گیا۔ (خواجہء خواجگان) ہے تری ذات عجب بحر حقیقت پیارے کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا عذاب قبر سے رہائی حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک مُرید کے جنازے میں تشریف لے گئے۔ نماز جنازہ پڑھا کر اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا۔ حضرت سیدنا بختئار کاکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، تدفین کے بعد تقریباً سارے لوگ چلے گئے مگر حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اس کی قبر کے پاس تشریف فرما رہے۔ اچانک آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک دم غمگین ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ کی زبان پر الحمدللہ رب العالمین ط جاری ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ مطمئن ہوگئے۔ میرے استفسار پر فرمایا، میرے اس مُرید پر عذاب کے فرشتے آ پہنچے جس پر میں پریشان ہو گیا۔ اتنے میں میرے مرشد گرامی حضرت سیدنا خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور فرشتوں سے اس کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا، اے فرشتو ! یہ بندہ میرے مُرید معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مُرید ہے اس کو چھوڑ دو۔ فرشتے کہنے لگے، ?یہ بہت ہی گنہگار شخص تھا۔? ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ غیب سے آواز آئی، ?اے فرشتو ! ہم نے عثمان ہارونی کے صدقے معین الدین چشتی کے مُرید کو بخش دیا ہے۔? (معین الارواح) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حکایت سے درس ملا کہ کسی پیر کامل کا مُرید بن جانا چاہئیے کہ اُس کی برکت سے عذاب قبر دُور ہونے کی امید ہے۔ مجذوب کا جوٹھا حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے لڑکپن شریف کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اُس دور کے مشہور مجذوب حضرت سیدنا ابراہیم قندوزی رحمۃ اللہ علیہ باغ میں داخل ہوگئے۔ جُوں ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اس اللہ (عزوجل) والے پر پڑی، فوراً سارا کام چھوڑ کر دوڑے اور سلام کرکے دست بوسی کی اور نہایت ہی ادب سے ایک درخت کے سائے میں بٹھایا پھر ان کی خدمت میں انگوروں کا ایک خوشہ انتہائی عاجزی کے ساتھ پیش کیا۔ اللہ عزوجل کے ولی کو ننھے منے باغبان کا انداز بھا گیا۔ خوش ہو کر اپنی جھولی میں سے ایک کھلی کا ٹکڑا نکالا اور اپنے مُنہ سے جوٹھا کرکے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مُنہ میں ڈال دیا۔ گھلی کا ٹکڑا جُوں ہی حلق کے نیچے اترا، خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل کی کیفیت ہی بدل گئی اور دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ملکیت میں ایک وراثت میں ملے ہوئے باغ اور پن چکی کو اونے پونے داموں بیچ کر مذید جو کچھ تھا سب اللہ عزوجل کی راہ میں لٹا دیا۔ اور والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہا سے اجازت لے کر صرف پندرہ برس کی عُمر میں حصول علم دین کی خاطر راہ خدا عزوجل میں گھر سے نکل پڑے۔ اللہ عزوجل نے آپ رحمۃ اللہ علیہ پر بے حساب کرم نوازیاں فرمائیں اور آپ رحمۃ اللہ علیہ اولیائے کرام رحمہم اللہ کے پیشوا اور ہندوستان کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ خفتگان شب غفلت کو جگا دیتا ہے سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا غیب کی خبر ایک روز حضرت سیدنا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا شیخ اوحد الدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ ایک لڑکا (سلطان شمس الدین التمش) تیر و کمان لئے وہاں سے گزرا۔ اسے دیکھتے ہی حضور غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، یہ بچہ دہلی کا بادشاہ ہو کر رہے گا اور بالآخر یہی ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ دہلی کا بادشاہ بن گیا۔ (سیرالاقطاب) ترے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی کہا جو دن کو کہ شب ہے تو رات ہو کے وہی میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ہو سکتا ہے کہ شیطان کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ غیب کا علم تو صرف اللہ عزوجل ہی کو ہے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیسے غیب کی خبر دیدی ؟ تو عرض یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل عالم الغیب والشادۃ ہے۔ اس کا علم غیب ذاتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے ہے جبکہ انبیاء علیہ السلام اور اولیاء رحمہم اللہ کا علم غیب عطائی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے بھی نہیں۔ انہیں جب سے اللہ عزوجل نے بتایا تب سے ہے اور جتنا بتایا اُتنا ہی ہے۔ اس کے بتائے بغیر معمولی سا بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو یہ وسوسہ آئے کہ جب اللہ عزوجل نے بتا دیا تو غیب غیب ہی نہ رہا۔ اس کا جواب آگے آرہا ہے کہ قرآن نے نبی کے علم غیب کو غیب ہی کہا ہے۔ اب رہا یہ کہ کس کو کتنا علم غیب ملا یہ دینے والا جانے اور لینے والا جانے۔ علم غیب مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :۔ وما ھو علی الغیب بضنین (التکویر آیت 24) ترجمہ :۔ اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) غیب بتانے میں بخیل نہیں۔ (کنزالایمان) اس آیت مبارک کے تحت خازن میں ہے، ?مراد یہ ہے کہ مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس علم غیب آتا ہے تو تم پر اس میں بُخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو سکھاتے ہیں۔? اس آیت و تفسیر سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو علم غیب سکھاتے ہیں اور ظاہر ہے سکھائے گا وُہی جو خود بھی جانتا ہو۔ علم غیب عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :۔ وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ط ان فی ذالک لایۃ لکم ان کنتم مؤمنین (آل عمران 49) ترجمہ :۔ اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ (کنزالایمان) پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! مندرجہ بالا آیت میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ تم جو کچھ کھاتے ہو وہ مجھے معلوم ہو جاتا ہے اور جو کچھ گھر میں بچا کر رکھتے ہو اس کا بھی پتا چل جاتا ہے۔ اب یہ علم غیب نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ شان ہے تو آقائے عیسٰی میٹھے میٹھے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا شان ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخر کیا چُپھا رہ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اللہ عزوجل جو کہ غیب الغیب ہے اس کو بھی چشمنا سر سے ملاحظہ فرما لیا اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا جب نہ خدا (عزوجل) ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود (حدائق بخشش) بہرحال اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو علم غیب سے نوازا ہے اور یقیناً علم غیب انبیاء علیہم السلام کا انکار قرآن کریم کی متعدد آیات مبارکہ کا انکار ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی تو بڑی شان ہے فیضان انبیاء علیہم السلام سے اولیائے کرام رحمہم اللہ بھی غیب کی خبریں بتا سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے الاخبار الاخیار میں حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :۔ اگر شریعت نے میرے منہ میں لگام نہ ڈالی ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا کہ تم نے گھر میں کیا کھایا ہے اور کیا رکھا ہے، میں تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کیونکہ تم میری نظر میں شیشے کی طرح ہو۔ حضرت مولیٰنا رومی رحمۃ اللہ علیہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں لوح محفوظ است پیش اولیاء ازچہ محفوظ است محفوظ ازخطا یعنی لوح محفوظ اولیاء اللہ رحمہم اللہ کے پیش نظر ہوتا ہے جو کہ ہر خطا سے بھی محفوظ ہوتا ہے۔ مُردہ زندہ کردیا اجمیر شریف کے حاکم نے ایک بار کسی شخص کو بے گناہ سُولی پر چڑھا دیا اور اُس کی ماں کو کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے کی لاش آکر لے جائے۔ مگر وہاں جانے کے بجائے اُس کی ماں روتی ہوئی سرکار غریب نواز حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہوئی اور فریاد کی، ?آہ ! میرا سہارا چھین گیا، میرا گھر اُجڑ گیا یا غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ! میرا ایک ہی بیٹا تھا اُسے حاکم ظالم نے بے قصور سولی پر چڑھا دیا ہے۔? یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ جلال میں آکر اٹھے اور فرمایا، مجھے اپنے بیٹے کی لاش پر لے چلو، چنانچہ اُس کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی لاش پر آئے اور اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، ?اے مقتول ! اگر حاکم وقت نے تجھے بے قصور سولی دی ہے تو اللہ عزوجل کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو۔? فوراً لاش میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ شخص زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ (ماہ اجمیر) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! کہیں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ مارنا اور جلانا تو صرف اللہ عزوجل ہی کا کام ہے کوئی بندہ یہ کیسے کر سکتا ہے ؟ تو عرض یہ کہ بے شک اللہ عزوجل ہی فاعل حقیقی ہے مگر وہ اپنی قدرت کاملہ سے جس کو چاہتا ہے جس طرح کے چاہتا ہے اختیارات عطا فرماتا ہے۔ دیکھئے بے جان کو جان بخشنا اللہ عزوجل کا کام ہے مگر اللہ عزوجل کے دئیے ہوئے اختیارات سے حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ایسا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے :۔ انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ (آل عمران آیت 49) ترجمہ :۔ کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ پرند ہو جاتی ہے اللہ عزوجل کے حکم سے۔ (کنزالایمان) اندھے کو آنکھیں مل گئیں کہتے ہیں ایک بار اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگا رہا تھا، ?یا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ! آنکھیں دے۔? آپ نے اس قفیر سے دریافت کیا، بابا ! کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے ؟ بولا، برسوں گزر گئے مگر مُراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا، میں ابھی مزار پاک پر حاضری دے کر تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہو گئیں فبہا ورنہ قتل کروا دوں گا۔? یہ کہہ کر فقیر پر پہرہ لگا کر بادشاہ حاضری کے لئے اندر چلے گئے۔ اُدھر فقیر پر گریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کر رہا تھا۔ ?یا خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ! پہلے صرف آنکھوں کا معاملہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے اگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔? جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹے تو اُس کی آنکھیں روشن ہو چکی تھیں۔ بادشاہ نے مسکرا کر فرمایا کہ تم اب تک بے دلی اور بے توجہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مراد پوری ہو گئی۔ اب چشم شفا سوئے گنہگار ہو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ عصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا مفید درس میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ مانگنا تو اللہ عزوجل سے چاہئیے اور وہی دیتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی آنکھیں مانگے اور وہ عطا بھی فرما دیں۔ جواباً عرض ہے کہ حقیقۃً اللہ عزوجل ہی دینے والا ہے۔ مخلوق میں سے جو کوئی جو کچھ دیتا ہے وہ اللہ عزوجل ہی سے لے کر دیتا ہے۔ اللہ عزوجل کی عطا کے بغیر کوئی ایک ذرہ بھی نہیں دے سکتا۔ اللہ عزوجل کی عطا سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر کسی نے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے آنکھیں مانگ لیں اور انہوں نے عطائے خداوندی عزوجل سے عطا فرما دیں تو آخر یہ ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی ؟ یہ مسئلہ تو آج کل کے فن طب نے ہی حل کر ڈالا ہے ! ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ مُردہ کی آنکھیں لگا کر اندھوں کو بینا کر دیتے ہیں۔ بس اسی طرح خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک اندھے کو اللہ عزوجل کی عطا کردہ روحانی قوت سے نابینائی کے مرض سے شفا دے کر بینا کر دیا۔ بہرحال اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ عزوجل نے کسی نبی یا ولی کو مرض سے شفاء دینے یا کچھ عطا کرنے کا اختیار دیا ہی نہیں ہے تو ایسا شخص حکم قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد قرآنی ہے :۔ وابرئ الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ج (آل عمران آیت 49) ترجمہ :۔ اور میں شفاء دیتا ہوں مادر زاد اندھوں اور سفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ عزوجل کے حکم سے۔ (کنزالایمان) دیکھا آپ نے ؟ حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ میں اللہ عزوجل کی بخشی ہوئی قدرت سے مادر زاد اندھوں کو بینائی اور کوڑھیوں کو شفاء دیتا ہوں۔ حتٰی کہ مردوں کو بھی زندہ کر دیا کرتا ہوں۔ اللہ عزوجل کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو طرح طرح کے اختیارات عطا کئے جاتے ہیں اور فیضان انبیاء علیہم السلام سے اولیاء رحمہم اللہ علیہ کو بھی عطا کئے جاتے ہیں لٰہذا وہ بھی شفاء دے سکتے ہیں اور بہت کچھ عطا فرما سکتے ہیں۔ محی دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہیں اے حسن کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا (رحمۃ اللہ علیہ) اجمیر بلایا مجھے اجمیر بلایا اجمیر بلایا مجھے اجمیر بلایا اجمیر بلا کر مجھے مہمان بنایا ہو شکر ادا کیسے کہ مجھ پاپی کو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ اجمیر بلا کر مجھے دربار دکھایا سلطان مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بھکاری بن کر میں شہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں آیا دنیا کی حکومت دو نہ دولت دو نہ ثروت ہر چیز ملی جام محبت جو پلایا سینے سے لگا لو، مجھے سینے سے لگالو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ ہے زمانے نے بڑا مجھ کو ستایا ڈوبا ابھی ڈوبا مجھے للہ عزوجل سنبھالو سیلاب گناہوں کا بڑے زور سے آیا اب چش، شفاء، بہر خدا عزوجل سوئے مریضاں عصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنا دیجئے عاشق یہ عرض لئے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کراچی سے میں آیا یاخواجہ رحمۃ اللہ علیہ کرم کیجئے ہوں ظلمتیں کافور باطل نے بڑے زور سے سر اپنا اٹھایا عطار کرم ہی سے تیرے جم کے کھڑا ہے دشمن نے گرانے کو بڑا زور لگایا اقتباس Link to comment Share on other sites More sharing options...
تجویز کردہ جواب
بحث میں حصہ لیں
آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔