کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'wakai'.
-
ماہ رجب کی فضیلت، واقعہ معراج، جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ہماری ذمہ داریاں
اس ٹاپک میں نے خاکسار میں پوسٹ کیا اسلامی تہوار
ماہ رجب المرجب؟ قمری تقویم (ہجری کیلنڈر) اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے "الاصم رجب" کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔ اس مہینہ کو "اصب" بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دور جہالت میں مظلوم، ظالم کے لئے رجب میں بددعا کرتا تھا۔ (عجائب المخلوقات) ماہ رجب کی فضیلت رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تُظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسِکُمْ (پارہ ١٠، سورہ توبہ، آیت ٣٦ ترجمہ :۔"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو"۔ (کنز الایمان سرکار غوث الثقلین رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ "رجب کا ایک نام مطھر ہے۔ " (غنیتہ الطالبین ص ٣٥٣ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (ما ثبت من السنۃ ص ١٧٠ ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا :۔ رجب کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہے جیسے قرآن کی فضیلت تمام ذکروں (صحیفوں) کتابوں پر ہے اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسی محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کی فضیلت باقی تمام انبیائے کرام پر ہے اور تمام مہینوں پر رمضان کی فضیلت ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام (مخلوق) بندوں پر ہے (ما ثبت من السنہ ، ص ١٧٣) رجب کی خصوصی فضیلت اور واقعہ معراج شریف حدیث شریف کے مطابق "رجب المرجب" اللہ کا مہینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے محبوب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں ستائیس (٢٧) رجب کی شب بلوا کر "معراج شریف" سے مشرف فرمایا۔ ستائیسویں شب میں آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان (واقع بیت اللہ شریف کی دیواروں موسوم مستجار اور مستجاب کے کارنر رکن یمانی کے سامنے) میں تشریف فرما تھے اور یہیں حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ستر یا اسی ہزار ملائکہ کی رفاقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام سونپے کہ میرے محبوب کو براق پر سوار کرانے کے لئے اے جبرئیل تمہارے ذمہ رکاب تھامنا اور اے میکائیل تمہارے ذمہ لگام تھامنا ہے۔ سند المفسرین امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، " حضرت جبرئیل علیہ السلام کا براق کی رکاب تھامنے کا عمل، فرشتوں کے سجدہ کرنے سے بھی افضل ہے۔" (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر ٣٠١ مطبوعہ مصر مکتبہ حقانیہ پشاور کی بددیانتی:۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی متذکرہ تفسیر کبیر کا حوالہ مصری نسخہ سے پیش کیا گیا ہے، جب کہ مکتبہ حقانیہ پشاور (جسے علمائے دیوبند کی سرپرستی حاصل ہے) نے تفسیر کبیر شائع کی ہے۔ اس کی جلد دوم صفحہ ٤٤٥ میں عبارت میں تحریف کر کے یوں چھاپا ہے۔ "ان جبرئیل علیہ السلام اخذ برکاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حتی ارکبہ علی البراق لیلۃ المعراج و ھذا یدل علی ان محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل منہ" پہلی عبارت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی خدمت کو "سجود ملائکہ سے افضل" قرار دیا ہے، جب کہ تحریف و بددیانتی کے بعد، "حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جبرئیل سے افضل" قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ تو حقیقت ہے اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام "سید المرسلین" ہے لہذا "سید الملائکہ" بھی ہیں حضرت جبرئیل سے افضل ہیں۔ اس میں کوئی کلام ہے ہی نہیں۔ جشن معراج النبی اور ہماری ذمہ داریاں اسلامی بھائیوں اور بہنوں! جس طرح ہم ماہ ربیع الاول شریف میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کرتے ہیں ایسے ہی رجب شریف میں جشن معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد کریں مساجد و مدارس ہی نہیں بلکہ اپنے گھروں میں بھی چراغاں کریں ، اجتماعات منعقد کریں، علمائے اہلسنّت کے مواعظ حسنہ (تقاریر) سننے کا اہتمام کریں، اپنے گھر میں اہل خانہ خصوصاً بچوں کو لے کر ادب کے ساتھ بیٹھ کر محفل منعقد کریں ، بچوں کو بتائیں کہ آج کی شب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مکاں کی اس منزل تک پہنچے جہاں مخلوق میں سے کسی کی رسائی نہیں اور بلا حجاب اللہ تعالیٰ کا دیدار عطا ہوا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نشانیوں کو ملاحظہ فرمایا، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے اسمائ صفات کی تجلیات کے ظہور کے مقامات و طبقات سے گذر کر ان ہی صفات سے متصف ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہوئے، جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، بعد از قیامت اور بعد از جزا سزا جو کچھ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا اور یہ کمال اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ کے لیے عطا فرمایا، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزوجل نے ماضی و مستقبل (جو کچھ ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ) کا علم عطا فرمایا جسے شرعی اصطلاح میں علم ما کان و ما یکون کہتے ہیں ۔ امت کے لیے شفاعت کا حق حاصل کیا، شب معراج میں انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام اجمعین سے نہ صرف ملاقا ت کی بلکہ ان سب پر آپ کی فضیلت واضح کرنے کے لیے امامت عظمیٰ و کبریٰ کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو عطا ہوا۔ نماز کی فرضیت کا حکم اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی حسن الوہیت و ربوبیت کی جلوہ گاہوں میں عطا کیا، اول پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر بتدریج کم ہوتے ہوتے پانچ باقی رہیں۔ نماز کی فرضیت و اہمیت سے بچوں کو آگاہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ معراج شریف کے سفر مقدس کے تین مرحلے ہیں۔ اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسریٰ، یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔ دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معراج۔ *حصہ اول*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مسجد اقصیٰ سے کہکشاؤں کا سفر آسمان اول تک ۔ *حصہ دوم*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان اول سے آسمان ہفتم اور سدرۃ المنتہیٰ تک۔ سوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراج، یعنی سدرۃ المنتہیٰ (حضرت جبریل امین علیہ السلام کا مقام آخر) سے لے کر عرش و کرسی اور لامکاں ، اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حسن الوہیت ، جمال ربوبیت اور جلال تقدس و تجرد کی جلوہ گاہ تک۔ خود بھی تلاوت قرآن کریں اور بچوں کو بھی ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کنز الایمان کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا عادی بنائیں۔ معراج شریف سے متعلق مضامین والی آیات مقدسہ، سورئہ الاسرائ (بنی اسرائیل) اور سورہ النجم کی تلاوت ضرور کریں۔ واقعہ معراج شریف سے متعلق بچوں کو بتائیں کہ یہ عقلوں کو دنگ کرنے والا سفر ایک لمحے میں ہوا۔ چلے جب عرش کی جانب محمد تو ساکت ہوگئی تھی زندگی تک نہ تھی دریا کی موجوں میں روانی تھا ساکت ہر سمندر ہر ندی تک زمیں نے چھوڑ دی تھی اپنی گردش خلا میں انتظار روشنی تک رہا کس طرح بستر گرم ان کا محقق محو حیرت ہیں ابھی تک عناصر زندگی کے منجمد تھے شب اسریٰ میں ان کی واپسی تک نہیں سائنس میں ایسی مثالیں ازل کے روز سے پندرہ صدی تک (خالد عرفان