کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'usman rizwi'.
-
TAWASSUL PER WAHABIYON KO USI K IMAM MOHAMMAD BIN ALI SHOKANI KA JAWAB
اس ٹاپک میں نے Shadab Ashrafi میں پوسٹ کیا اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الصــلوة والسلام عليك يارسول الله ﷺ Wahabiyon k Taraf Se Hamesha Tawassul Per Aitraz Pesh Kiya Jata Hai Jahan Yeh Log Quran-e-Pak Ki Chand Ayatein Pesh Karte Hain Or Sada Dil Musalmano Ko Padh Kar Zahir Karte Hain k Suno/Padho/Dekho ALLAH ﷻ Ka Farman Hai: 1) ما نعبد هم الا ليقربونا إلى الله زلفى. ترجمہ کنزالایمان: کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں. 》سورہ زمر، آیت 3. 2) فلا تدعوا مع الله احدا". ترجمہ: تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو. 》سورہ جن، آیت 18. 3) له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشىء. ترجمہ: اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے. 》سورہ رعد، آیت 14. 4) وما ادريك ما يوم الدين ثم مآ ادريك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شىء"اوالأمر يوم ء ذلله. ترجمہ: اور تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن ہے، پھر تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن ہے جس دن کوئ جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ رکھےگی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے. 》سورہ انفطار، آیت 19. 5) ليس لك من الأمر شىء. ترجمہ: یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں. 》سوره آل عمران، آيت 128. 6) قل لا املک لنفسی نفعا" ولا ضرا". ترجمہ: تم فرماو میں اپنے جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں. 》سورہ اعراف، آیت 188 In Ayaton Ko Suna Kar Wahabi Dhoka Dete Hain Hum Isi Ayaton Per Hi Wahabiyon Ko Jawab Usi k Peshwa Or Imam Allama Shokani Se De Rahe Hain Jahan Shokani Ne Wahabiyon k Batil Aitrazaat Ka Behtareen Jawab Diya Hai: #القول الثاني- أن التوسل به -صلى الله عليه و آله وسلم- يكون في حياته و بعد موته، وفي حضرته و مغيبه. ولا يخفاك أنه قد ثبت التوسل به - صلى الله عليه و آله وسلم - في حياته، وثبت التوسل بغيره من الأحياء بعد موته بإجماع الصحابة سكوتيا لعدم إنكار أحد منهم على عمر - رضى الله عنه - في توسله بالعباس - رضى الله عنه - ترجمہ: #دوسرا قول: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات سے توسل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات، ان کے انتقال کے بعد، ان کی موجودگی، ان کی عدم موجودگی ہر طرح سے جائز ہے- کیونکہ یہ بات ہر شخص پر ظاہر باہر ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں ان کی ذات سے توسل ثابت ہے اسی طرح ان کے انتقال کے بعد بھی صحابہ کرام کے اجماع سکوتی کے ذریعہ ان کی ذات سے توسل کرنا ثابت ہے، کیونکہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کیا تھا تو کسی بھی صحابی نے ان کے اس توسل کا انکار نہیں کیا- أن ما يورده المانعون من التوسل إلى الله بالأنبياء [5] والصلحاء من نحو قوله تعالى:} ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى {([الزمر:3].)، ونحو قوله تعالى: فلا تدعوا مع الله أحدا ([الجن18:].) ونحو قوله تعالى: {له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشيء} ([الرعد14:]) ليس بوارد بل هو من الاستدلال على محل النزاع بما هو أجنبى عنه؛ فإن قوله: {ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى} ([الزمر3:]) مصرح بأنهم عبدوهم لذلك، والمتوسل بالعالم مثلا لم يعبده بل علم أن له مزية عند الله بحمله العلم فتوسل به لذلك، ترجمہ: انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام اور صلحائے کرام رحمہم اللہ سے توسل کے مخالفین بعض آیات کریمہ سے توسل کو جائز قرار دینے والوں پر اعتراضات کرتے ہیں اور وہ آیتیں یہ ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہے: ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى [کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کر دیں، سورہ الزمر3:] اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: [فلا تدعوا مع الله أحدا، سورہ الجن18:] تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو [سورہ الجن18:] ایک جگہ اور ارشاد فرماتا ہے: له دعوة الحق والذين يدعون من دونه لا يستجيبون لهم بشيء[اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے،سورہ الرعد14:]. مگر ان اعتراضات کی کوئ حیثیت ہی نہیں کیونکہ مذکورہ بالا بیان سے واضح ہو گیا کہ ان آیتوں سے ان پر اعتراضات وارد ہی نہیں ہوتے بلکہ ان آیتوں کا زیر بحث مسئلہ سے کوئ تعلق ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا قول ہے: ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى [کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کردیں، سورہ الزمر3:] اس امر پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتا ہے کہ اس آیت سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اللہ تعالی سے تقرب کے لئے اصنام کی عبادت کی تھی، اور مثلا عالم سے توسل کرنے والا اس کی عبادت نہیں کرتا البتہ چونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین اپنے علم کی وجہ سے اللہ تعالی کے نزدیک مکرم و مقبول ہوتا ہے اس لئے وہ اس عالم دین سے توسل کرتا ہے. وكذلك قوله: {فلا تدعوا مع الله أحدا} ([الجن18:]) فإنه نهي عن أن يدعى مع الله غيره، كأن يقول: بالله ويا فلان، والمتوسل بالعالم مثلا لم يدع إلا الله وإنما وقع منه التوسل إليه بعمل صالح عمله بعض عباده كما توسل الثلاثة الذين انطبقت عليهم الصخرة بصالح أعمالهم، وكذلك قوله: {والذين يدعون من دونه} ([الرعد14:]) الآية، فإن هؤلاء دعوا من لا يستجيب لهم، ولم يدعوا ربهم الذي يستجيب لهم، والمتوسل بالعالم مثلا لم يدع إلا الله ولم يدع غيره دونه، ولا دعا غيره معه. ترجمہ: اسی طرح اللہ تعالی کا قول: فلا تدعوا مع الله أحدا[تو اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، سورہ الجن18:] اللہ کے ساتھ کسی اورکو صنم کرکے پکارنے کی ممانعت پر دلالت کرتا ہے مثلا کوئ کہے: یا اللہ و یا فلان، اور مثلا عالم سے توسل کرنے والا صرف اللہ کو ہی پکارتا ہے، اس کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتا، وہ تو صرف بعض بندوں کے عمل صالح کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف توسل کرتا ہے جیسا کے ان تینوں نے جن کے سامنے چٹان گر گئ تھی اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ توسل کیا تھا، اسی طرح اللہ تعالی کا یہ قول: والذين يدعون من دونه [اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے، سورہ الرعد14:] اس آیت سے وہ افراد مراد ہیں جنہوں نے ایسے لوگوں کو بلایا جو دعا قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اور اپنے رب تعالی کو نہیں پکارا جو ہر ایک کی سنتا ہے اور دعا قبول کرتا ہے، اس لئے ان کی دعا قبول نہیں ہوئ- اور رہی بات عالم دین سے توسل کرنے کی وہ تو صرف اللہ تعالی کو ہی پکارتا ہے اس کے سوا کسی اور کو یا اس کے ساتھ کسی اور شخص کو نہیں پکارتا، اور دونوں کے درمیان فرق واضح ہے. وإذا عرفت هذا لم يخف عليك دفع ما يورده المانعون للتوسل من الأدلة الخارجة عن محل النزاع خروجا زائدا على ما ذكرناه، كاستدلالهم بقوله تعالى: {وما أدراك ما يوم الدين ثم ما أدراك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شيئا والأمر يومئذ لله} ([الانفطار 19:]) فإن هذه الآية الشريفة ليس فيها إلا أنه تعالى المتفرد بالأمر في يوم الدين، وأنه ليس لغيره من الأمر شيء، ولا يملك لغيره من الأمر شيئا، والمتوسل بنبي من الأنبياء أو عالم من العلماء هو لا يعتقد أن لمن توسل به مشاركة لله -جل جلاله- في أمر يوم الدين، ومن اعتقد هذا لعبد سواء كان نبيا أو غير نبي فهو في ضلال مبين. ترجمہ: ان بعض آیتوں کے ذریعہ جو محل نزاع سے خارج ہیں توسل کرنے والوں پر اعتراض کرتے ہیں، نیز وہ اللہ تعالی کے اس قول سے بھی اعتراض کرتے ہیں: وما أدراك ما يوم الدين ثم ما أدراك ما يوم الدين يوم لا تملك نفس لنفس شيئا والأمر يومئذ لله [اور تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن، پھر تو کیا جانے کیسا انصاف کا دن جس دن کوئ جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ رکھے گی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے، سورہ انفطار 19.] یہ آیت محل نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا یہ فرمان صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی ہی قیامت کے دن سارے امور کا مالک ہے اس کے کوئ دوسرا مالک و مختار نہیں اور نبی یا کسی عالم سے توسل کرنے والا اس بات کا ہر گز اعتقاد نہیں رکھتا وہ نبی یا عالم قیامت کے دن اللہ تعالی کے اختیار میں شریک ہے جس نے بھی اس طرح کا اعتقاد کسی نبی یا کسی اور بندے کے حق میں رکھا تو یقینا" وہ گمراہ اور بھٹکا ہوا ہے. وهكذا الاستدلال على منع التوسل بقوله: {ليس لك من الأمر شيء ([آل عمران 128:])،} قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا {([الاراف 188:]) فإن هاتين الآيتين مصرحتان بأنه ليس لرسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ من أمر الله شيء، وأنه لا يملك لنفسه نفعا ولا ضرا، فكيف يملكه لغيره وليس فيهما منع التوسل به أو بغيره من الأنبياء، أو الأولياء، أو العلماء. وقد جعل الله لرسوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ المقام المحمود مقام الشفاعة العظمى، وأرشد الخلق إلى أن يسألوه ذلك ويطلبوه منه، وقاله له: " سل تعطه، واشفع تشفع " وقيد ذلك في كتابه العزيز بأن الشفاعة لا تكون إلا بإذنه، (لقوله تعالی: (ولا تنفع الشفاعة عنده إلا لمن أذن له) [سبأ: 23]) ولا تكون إلا لمن ارضى. ولعله يأتي تحقيق هذا المقام إن شاء الله. ترجمہ: اسی طرح توسل سے روکنے کے لئے مانعین اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ليس لك من الأمر شيء [یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں، سورہ آل عمران 128:] اور اس آیت سے بھی استدلال کرتے ہیں قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا [تم فرماءو میں اپنی جان کے بھلے برے کا خود مختار نہیں، سورہ اعراف 188: ] یہ دونوں آیتیں بھی محل نزاع سے خارج ہیں کیونکہ پہلی آیت اس بات پر صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کے کسی حکم کے مالک نہیں اور دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کو نفع و ضرر پہونچانے کے مالک نہیں تو پھر دوسروں ان دونوں آیتوں میں کوئ ایسی بات نہیں جو انبیاء، اولیاء اور علماء سے توسل کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہو اس لئے ان آیتوں کو استدلال میں ذکر کرنا بے جا ہے- حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کی عطا سے بہت ساری چیزوں کے مالک ہیں اللہ جل شانہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے مقام محمود اور مقام شفاعت عظمی تیار کیا اور مخلوق کو حکم بھی دیا کہ وہ اس سے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعت طلب کرین- اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے فرمایا: سل تعط واشفع تشفع [اے میرے محبوب مانگو دیا جائےگا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائےگی] نیز قرآن کریم میں اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ شفاعت کا حق اسی کو ہے حاصل ہوگا جس کو وہ اجازت دے گا اور جس سے وہ راضی ہوگا. وهذا الاستدلال على منع التوسل بقوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لما نزل قوله تعالى:} وأنذر عشيرتك الأقربين {([الشعراء 214:].)، " يا فلان ابن فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا فلانة بنت فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا بني فلان لا أملك لكم من الله شيئا" (أخرجه البخارى رقم 4771، و مسلم رقم 206/351، و الترمزى رقم 3185، و النسائ رقم 248/6) من حدیث أبى هريرة)، فإن هذا ليس فيه إلا أنه -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ- لا يستطيع نفع من أراد الله ضره، ولا ضر من أراد الله نفعه، وأنه لا يملك لأحد من قرابته فضلا عن غيرهم شيئا من الله، وهذا معلوم لكل مسلم، وليس فيه أنه لا يتوسل به إلى الله فإن ذلك هو طلب الأمر ممن له الأمر والنهي، وإنما أراد الطالب أن يقدم بين يدي طلبته ما يكون سببا للإجابة ممن هو المتفرد بالعطاء والمنع، وهو مالك يوم الدين. ترجمہ: اسی طرح توسل سے منع کرنے والے اللہ تعالی کے فرمان: وأنذر عشيرتك الأقربين {([الشعراء 214:].) کے نزول کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا اس کے ذریعہ توسل کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہیں، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا: يا فلان ابن فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا فلانة بنت فلان لا أملك لك من الله شيئا، يا بني فلان لا أملك لكم من الله شيئا" (اے فلاں ابن فلاں اور اے فلانہ بنت فلاں میں تیرے لئے اللہ کی جانب سے کسی چیز کا مالک نہیں) حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اس قول میں صرف اس بات کی صراحت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس شخص کو نفع نہیں پہونچا سکتے جس کو اللہ تعالی نے ضرر دینے کا ارادہ کر لیا ہو یا اس کے بر عکس، اور یہ کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ تعالی کی جانب سے اپنے قریبی لوگوں کے معاملات کے مالک نہیں چہ جائے کہ دوسرے لوگوں کے مالک ہوں اور یہ تو ہر مسلم کو معلوم ہے مگر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس فرمان میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذریعہ توسل کی ممانعت نہیں کیونکہ توسل میں مسئلہ سے حل کے لئے اسی سے طلب کرنا ہے جو اس کا مالک ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ طلب کرنے والے نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے مطلوب کو حاصل کرنے کے لئے ایسی چیز پیش کی ہے جو ہر چیز کے مالک و مختار اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کا سبب ہے. 》الفتح الربانى من فتاوى امام شوكانى، صفحہ 314 سے 318.-
- toheedi bhai
- usman rizwi
-
(and 1 more)
Tagged with: