Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'urdu article'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. شعر ہوتا ترا شعار اے کاش۔۔۔۔۔! ہماری پیاری زبان اردو: اردو زبان میں وسعت قابلِ رشک ہے۔ اس کی عمر و بساط پر نظر ڈالی جائے تو چند برس سے زیادہ نہیں مگر عجب دلکشی اور جاذبیت ہے کہ اس نے اپنی ہر دل عزیزی سے بڑی بڑی قدیم زبانوں کو بھی مات دے دی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایک زبان جو ہندو مسلم ملاپ اور تجارت و لین دین کے معمولی و ادنیٰ کاروبار کے سبب بے ارادۂ سباق پیدا ہوئی ہو اور جو عہدِ سلطنتِ شاہجہان میں فقط شاہی قلعہ کی چاردیواری میں محدود رہ کر بیگماتِ سلاطین کے اظہارِ خیالات کا باعث ہو، وہ کس طرح دہلی و لکھنؤ سے نکل کر پورے پاک و ہند پر اپنا سکہ بٹھاتی ہے اور نہ صرف بول چال کے کام آتی ہے بلکہ رشتۂ محبت میں شعر و سخن کے وہ وہ جواہرِ آبدار اور گہر ہائے شاہوار پروتی ہے جو دیگر زبانوں میں الشاذ کالمعدوم کا مصداق ہیں۔ ایک طرف دیکھئے تو جب کوہِ ہندوکش کو الٹتے ہوئے اپنے خدم و حشم کے ساتھ سلطان محمود غزنوی نے متواتر حملوں سے ہندوستان میں اہلِ اسلام کی آمد کا راستہ کھولا تو ملکی و غیر ملکی اصحاب کے ضروری میل ملاپ اور یکجائی ماند و بود میں اردو زبان کی بنیاد پڑی۔ ترکی زبان میں اردو کے معنی لشکر کے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ فاتحین کا لشکر اس زبان کی پیدائش کا باعث بنا۔ یکے بعد دیگرے اسلامی سلاطین کے عہدِ سلطنت اور اہلِ اسلام کی مستقل سکونت اسے ترقی دیتی گئی۔ یہ بات بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ نثر نگاری سے قبل نظم نویسی نے اس زبان میں شرفِ تقدیم حاصل کیا۔ کچھ شک نہیں کہ سب سے پہلے شعر کہنے کی فضیلت اہلِ دکن کو حاصل ہوئی جہاں سے شاعری کا آدم ولی محمد ولیؔ دکنی اٹھا اور اپنے تغزل و نعت گوئی سے پورے ہندوستان میں اپنی شاعری کا ڈنکا بجا گیا۔ دوسری طرف پاکستان کے صوبہ سندھ کو دیکھئے جو ایک عظیم مسلم فاتح محمد بن قاسم کے ہاتھوں فتح ہوا تو عربی تجار و شعرا و ادبا و فصحا و رؤسا و افواج وہاں توطن گزیں ہوئے اور اس کے ایک عرصے بعد وہ اپنی زبان و روایات و خصوصیات کو خیرباد کہتے ہوئے یہیں کی مروجہ زبان میں کمالاتِ سخن دکھانے لگے، یہی زبان آگے چل کر اردو زبان کہلائی جو اب تک پاک و ہند میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب اردو زبان کسی کی خاص زبان نہیں رہی۔ ہر صوبۂ پاک و ہند کا دعویٰ ہے کہ اردو ہماری پیاری زبان ہے۔ خصوصیاتِ کلامِ عمرؔ فیاض: صاحبِ مجموعۂ غزلیاتِ ہٰذا عالی جناب و عزت مآب حضرت عمر فیاض صاحب کے کلام میں زمانہ قدیم کے حقائق و واقعات و خیالات و حوادث کا حد سے زیادہ جلوہ نظر آتا ہے۔ آپ کے تخیلات کو شاعری کا ایک نمونہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا کلام قدیم روایات کا ایسا عکس ہے جسے غور سے دیکھیں تو گزرا ہوا ایک پورا عالم نظر آتا ہے۔ آپ چرخِ تخیل سے مضامین کے ستارے اتار لاتے ہیں۔ جیسے دربارِ قادر الکلامی سے سلطنتِ سخن پر حکومت مل گئی ہو کہ طرح طرح کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں۔ آپ کے کلام میں کہیں تشبیہات و استعارات کا برجستہ استعمال ہے تو کہیں محاورات جلوہ دکھاتے ہیں۔ بعض جگہ انتہائی سادہ انداز سے ایسا کہہ جاتے ہیں کہ قلب میں نشتر کھٹک جاتا ہے اور لبِ گویا سے کبھی آہ نکلتی ہے اور کبھی واہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خامہ میں شستہ و شائستہ الفاظ کے خزانے بھرے ہیں۔ آپ کے ہاں الفاظ کی ترکیب کے سینکڑوں رنگ ہیں لیکن جہاں سجاتے ہیں وہ جیسے وہیں کے لیے ہوتا ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ کون سا رنگ سادگی میں دیا جائے اور کون سا شوخی میں۔ آپ کے الفاظ کی لطافت ہی ہے جو مضمون کی باریکیوں کو روشن کرتی ہے۔ آپ خیال کو یوں باندھتے ہیں گویا اپنے دل پر اس کا اثر محسوس کر رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اشعار قاری کے قلب و ذہن کو مقناطیسی قوت سے اپنے طرف کھینچتے ہیں۔ مضمون کی پیچیدگیوں کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں گویا گڑ کا شربت ہو جو کانوں کے راستے دل میں اتارا جا رہا ہو۔ آپ کے قلم سے ترکیب پا کر نکلنے والے الفاظ جیسے دُرِ ناسُفتہ ہوں جو حریر پر خود بخود لڑھکتے چلے جا رہے ہوں۔ آپ کا کلام دل کو بھلا لگتا ہے اور زبان کو مزہ آتا ہے۔ آپ کی سخن دانی میں جوشِ خونِ جگر کے باعث ایسی چستی پیدا ہوتی ہے جو قاری کے دل میں ولولہ و خروش ابھارنے کا سبب بنتی ہے۔ آپ سخن کے وہ طبیب ہیں جو ایک ایک لفظ کی نبض پہچانتے ہیں۔ ایسی زمینیں جن میں رینگنا مشکل ہوتا ہے آپ نے ان میں ہل چلا کر سخن کے شگوفے کھلا دیے ہیں۔ آپ کا کلام قاری کے دل میں درد، جگر میں سوز، آہ میں اثر اور آنکھوں میں تری پیدا کرتا ہے۔ آپ کا شکستہ دل ٹوٹے ہوئے دلوں کے پیوند لگاتا ہے۔ آپ کے دردِ دل کی چمک سرگشتگانِ وادیِ عشق و جنون کے راستے میں مشعل دکھاتی ہے جس کے روبرو برق بھی چراغِ کشتہ نظر آتی ہے۔ عشاق کی نظروں میں دلربا پیکرِ دوست کا جلوہ نظر آتا ہے۔ آپ کے خیال کی شوخی نشتر کا کام کرتی ہے اور آپ کی بیاض کا ایک ایک شعر روح کو تڑپا دینے والا ہے۔ آپ کا ہر ہر مصرع روانی میں چلتی ہوئی تلوار، ہر ہر لفظ چبھتا ہوا نشتر، ہر ہر حرف افروختہ اخگر اور ہر ہر کلمہ بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس بیاضِ عاشقاں کو حرزِ جاں بنانے اور دلِ شیدا کو زندگی بھر کیلئے شاہدانِ معانی کا تصور خانہ ٹھہرانے کو جی چاہتا ہے۔ آپ ایسے خیالات کو منظرِ عام پر لاتے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جاتا اور لوگوں کی نظروں سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ روزمرہ کے حالات و واقعات جن سے دل پر چوٹ لگتی ہے، آپ انہیں اپنے سلیقے سے شعر کا لباس پہنا دیتے ہیں۔ آپ کا شمار ان عظیم شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مقبول خیال کی جانے والی خصوصیات جیسے زہد و تقویٰ، علم و معرفت، عقل و ہوش، فہم و فراست، پند و وعظ، عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ مذموم و مردود سمجھی جانے والی خصوصیات جیسے خبط و جنون، نادانی و دیوانگی، رندی و مستی، رقص و سرود، رعنائی و شباب، شراب و کباب، مینا و ساقی، ذلت و رسوائی کو بھی اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔ آپ کے کلام میں معرفت کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ پڑھتے اور سنتے وقت قاری و سامع پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو آپ کے عشقِ صادق اور عقیدتِ واثق کی واضح دلیل ہے۔ آپ کا دیوان وہی رنگ، وہی لوح، وہی پختگی، وہی بے ساختگی، وہی شستگی، وہی شگفتگی، وہی سلاست و صفائی، وہی پاکیزگیِ محاورات اور عجیب و غریب تشبیہات و استعارات و اشارات و کنایات رکھتا ہے جو کسی بڑے لائق فائق اور ماہرِ فن کے کلام میں ہونے چاہئیں۔ معاصرین میں مقام: جناب عمر فیاض اپنے اکثر معاصرین میں پُر فائق ہیں۔ مگر یہ تقابل ان شعراء سے نہیں ہے جو شاعر بالطبع ہیں اور انہیں ادبیات سے اس قدر بے خبری ہے کہ اغلاطِ لفظیہ سے ہی ان کا کلام پاک نہیں ہے اور بخت و اتفاق کے زورِ بازو نے انہیں قبولیت کے رتبے کو پہنچا دیا ہے بلکہ اس تقابل میں وہ شعراء ہیں جنہوں نے کم از کم عروض و ادب کو مقدمات کی حد تک حاصل کیا ہے اور پھر میدانِ شعر و سخن میں قدم رکھا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ جو شیرینیِ زبان و صفائیِ بندش کلامِ عمرؔ میں ہے، معاصرینِ عمرؔ اس سے کوسوں دور ہیں۔ اعتراض: کلامِ عمرؔ پر قابلِ غور سمجھا جانے والا اعتراض یہ ہے کہ یہ عوام پسند نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی زبان فاضلانہ ہے۔ زبان دو طرح حاصل ہوتی ہے، یا خود تحصیلِ علوم و صحبت و خدمتِ علماء سے یا خاندانِ اعلامِ روزگار و اہلِ کمال میں پرورش سے۔ العلم فی الصغر کالنقش علی الحجر۔ عمرؔ صاحب کی زبان وہ ہے جسے مزاقِ عامیانہ سے ممانعت ہے لہٰذا عوام کا اس جانب جھکاؤ محال ہے۔ اگر عمرؔ صاحب اپنی زبانِ شعری میں زبانِ عوام الناس کا رنگ بھریں تو اس پر کبھی قادر نہیں ہو سکتے۔ عوام کو وہی اشعار زیادہ مرغوب ہوتے ہیں جو ان کی زبان اور دلچسپی کے عین مطابق ہوں۔ اختلافِ لسان موجبِ وحشت ہے۔ قریب القیاس ہے کہ عمرؔ صاحب کی غزلیات مثلِ برق محافلِ رقص و سرود میں پہنچ کر شمعِ انجمن بن جائیں گی لہٰذا اگر آپ کا کلام عوام میں فخرِ شہرت حاصل نہ کرے تو کچھ محلِ استعجاب نہیں ہے۔ کلامِ عمرؔ کا مطبوع ہو جانا زبانِ اردو کیلئے ایک نعمتِ مترقب ہے جس کی مثال ملنا نا ممکن ہے، اس لیے کہ اب اردو شاعری کی دیوارِ شکستہ پر صرف چند ہی نقش و نگار باقی رہ گئے ہیں جو عظیم اساتذۂ سلف کی یادگار ہیں۔ بجا فرمایا خدائے سخن استاد میر تقی میرؔ نے: ع ناموزوں ہی نکلے گا سنجیدہ کوئی جو بولے ٹک تنہاؔ لائلپوری (ایم فل فزکس نینوٹیکنالوجی)
  2. Madni.Sms

    والدین کے ساتھ حسن سلوک

    والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی نگہداشت سے متعلق حضور سید عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ، عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال رغم انفہ ثم رغم انفہ ثم رغم انفہ قیل من یا رسول اﷲ قال من ادرک والدیہ عندالکبر احدہما او کلاہماثم لم یدخل الجنۃ (مسلم شریف ثانی، ص 134، مشکوٰۃ شریف ص 418، اصح المطابع) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ایک بار فرمایا: خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، عرض کی گئی کس کی؟ یارسول اﷲ! فرمایا، ’’اس کی جس نے بوڑھے ماں باپ یا ان دونوں میں سے ایک کو پایا پھر جنتی نہ ہوا‘‘ یعنی ان کی خدمت نہ کی، نہ کسی اور طرح ان کی خوشنودی حاصل کی جس کے سبب وہ جنت کا مستحق ہوتا۔ اس وعید شدید سے ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے سبق حاصل کریں اور اپنا انجام بد معلوم کرلیں۔ حدیث:حضور محسن انسانیتﷺ فرماتے ہیں۔ والدین کی نافرمانی سے بچو۔ اس لئے کہ جنت کی خوشبو ہزار برس کی راہ تک آتی ہے اور والدین کا نافرمان اس کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔ اور اسی طرح رشتہ توڑنے والا، بوڑھا زانی، تکبر سے اپنا ازار (تہبند) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا بھی جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (تفسیر مدارک جلد 2، ص 312، حیا الکتب مصر) اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا۔ بلاشبہ کبریائی تو صرف رب العالمین ہی کولائق ہے۔ عن عبداﷲ بن عمر وقال قال رسول اﷲﷺ من الکبائر ان یشتم الرجل والدیہ قالوا یارسول وہل یشتم الرجل والدیہ؟ قال نعم یسبت ابا الرجل فیسب اباہ ویشتم امہ فیشتم امہ (بخاری، مسلم، ترمذی 2، ص 12) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا! جب کہ وہ کسی شخص کے ماں باپ کو گالی دے اور جواب میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دے تو گویا اس نے خود ہی اپنے ماں باپ کو گالی دی (مشکوٰۃ ص 419) عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲﷺ ثلث دعوات مستجابات لاشک فیہن دعوۃ المظلوم ودعوۃ المسافر ودعوۃ الوالد علی ولدہ (ترمذی جلد 2، ص 13) حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں۔ اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا تین دعائیں ایسی ہیں جن کے مقبول ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنے بیٹے پر بددعا۔ لہذا اولاد کو چاہئے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے جس کے سبب والدین کی اس کے حق میں بددعا کرنی پڑے اور والدین کو بھی حتی الامکان ان پر بددعا کرنے سے بچنا چاہئے ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑے گا، جیسا کہ مشاہدہ ہے۔ عن ابن عباس ان رسول اﷲﷺ قال من ولد بار ینظر الی والدیہ نظرۃ رحمۃ الا کتب اﷲ لہ بکل نظرۃ حجۃ مبرورۃ قالوا وان نظر کل یوم مائۃ مرۃ قال نعم! اﷲ اکبر واطیب (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰۃ ص 421) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا جو بھی اطاعت شعار فرزند اپنے والدین کوایک بار نگاہ مہرورحم سے دیکھے اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے ایک مقبول حج لکھے گا اور لوگوں نے عرض کیا، یارسول اﷲ! ہر دن سو بار دیکھے! ہاں اﷲ بہت بڑا اور طیب ہے۔ عن عبداﷲ بن عمر و رضی اﷲ عنہما قال قال رسول اﷲ ﷺ الکبائر الاشراک باﷲ وعقوق الوالدین و قتل النفس والیمین الغموس (رواہ البخاری) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہوں میں سے اﷲ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی، کسی جان کو بلاوجہ شرعی قتل کرنا اورجھوٹی قسم کھانا ہے (مشکوٰۃ ص 17، بحوالہ بخاری) عن ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما قال قال ورسول اﷲﷺ ان اشد الناس عذابا یوم القیمٰۃ من قتل نبیا او قتلہ نبی او قتل احد والدیہ والمصورون وعالم لم ینتفع بعلمہ(اخرجہ البیہقی کذا فی الدر المنشور) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور انورﷺنے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب والا وہ ہوگا جس نے کسی نبی کو قتل کردیا یا جس کو کسی نبی نے قتل کیا ہو، یا جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو قتل کیا ہو، اور تصویر کھینچنے والوں کو اور اس عالم کو بھی سب سے زیادہ عذاب ہوگا جس نے اپنے علم نے نفع نہ حاصل کیا (در منثور جلد 4، ص 174) عن ابن رزین العقیلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انہ اتی النبیﷺ فقال یارسول اﷲ ان ابی شیخ کبیر لا یستطیع الحج ولا العمرۃ ولا الظعن قال حج عن ابیک واعتم (رواہ الترمذی، وابو دائود النسائی و کذا فی المشکوٰۃ) حضرت ابو زرین عقیلی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ! یقینا میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو حج و عمرہ اور سفرکی طاقت و قوت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا۔ تم اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو (مشکوٰۃ ص 222) حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ حضور اقدسﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ مجھ سے ایک بڑا گناہ ہوگیا ہے۔ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ حضورﷺنے فرمایا، کیا تیری ماں ہے؟ عرض کیا نہیں۔ پھر فرمایا کیا تیری کوئی خالہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں، فرمایا تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر (مشکوٰۃ ص 420) اس سے معلوم ہوا کہ ماں یا خالہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی وجہ سے بہت سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص نے اپنے والد کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا جس نے اپنے والد کو تیز نظر سے دیکھا، یعنی نگاہ سے ناراضگی کا اظہار کیا (تفسیر در منثور جلد 4، ص 171) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انورﷺ نے ارشاد فرمایا: جو چاہے کہ خدا تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے اور اس کا رزق بڑھائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے رشتہ داروں سے تعلق قائم رکھے۔ (درمنثور) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول مقدس ﷺ نے فرمایا کہ تم دوسروں کی عورتوں سے پرہیز کرکے پاک دامن ہوجائو۔ ایسا کرنے سے تمہاری عورتیں پاک رہیں گی اور اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، ایسا کرنے سے تمہارے بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور جس شخص کے پاس اس کا بھائی معذرت چاہتا آئے تو اس کو معذرت قبول کرلینی چاہئے۔ وہ حق پر ہو خواہ ناحق پر، اگر کسی نے ایسا نہ کیا (یعنی معذرت قبول نہ کی) تو وہ میرے حوض کوثر پر نہ آئے۔ یعنی اس کو میرے حوض کوثر سے سیراب ہونے کا حق نہیں۔ (مستدرک حاکم جلد 4، ص 154)
×
×
  • Create New...