Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'وہابی کی جرح'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. السلام علیکم گزارش ہے کہ ایک گروپ میں وہابی غیر مقلد سے مالک الدار کی حدیث بحث چھڑ گی ہے اس نے تحریر طور پر یہ جرح لیکھے ہے آپ لوگ اس سلسلے میں مدد کرے تاکے انکو جواب ارسال کیا جائے [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※=== *علماء سوء کی سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک اور کاوش* جیسا کہ واضحہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک ہے، اگر قرآن وسنت کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نہ کسی نبی ورسول علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ سے دُعا مانگتے ہوئے کبھی کسی کا وسیلہ ڈالا (قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ میں موجود انبیاء کرام علیہم السلام کی تمام دعائیں اس پر شاہد ہیں) اور نہ کہ صحابہ کرام نے کبھی کسی فوت شدہ (خواہ وہ ان کے اور ہمارے محبوب ترین نبیﷺ ہی کیوں نہ ہوں) کا وسیلہ ڈالا، بلکہ وہ تو حکم الٰہی کے مطابق صرف اللہ کی صفات یا اپنے نیک اعمال کا وسیلہ ڈالتے تھے۔ ہاں البتہ ان سے یہ ضرور ثابت ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ضرورت کے وقت آکر ان سے دُعا کراتے اور خود بھی دُعا کرتے تو اللہ تعالیٰ یہ دُعا فوری قبول فرما لیا کرتے تھے، (جیسے ایک بدوی صحابی کا معروف واقعہ ہے کہ انہوں نے جمعہ کے وقت آکر نبی کریمﷺ سے بارش کی دُعا کی درخواست کی تھی اور نبی کریمﷺ نے دُعا فرمائی تھی اور فوری بارش ہوگئی تھی، اور مکمل ہفتہ ہوتی رہی تھی اور پھر اگلے ہفتے اسی صحابی نے بارش رُکنے کی دُعا کی درخواست کی تھی ... *صحیح البخاری 933)* اور اس کا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم بھی دیا ہے۔ فرمان باری ہے: ﴿ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ﴾ ... سورة النساء: 64 *کہ ’’اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔‘‘* صحیحین میں ہی سیدنا انس سے مروی ہے کہ سیدنا عمر کے دورِ خلافت میں جب قحط پڑ جاتا اور بارش نہ ہوتی تو عمر بن خطاب بجائے نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر جاکر یا دور ہی سے ان کا وسیلہ ڈالنے کے عمِ رسول سیدنا عباس بن عبد المطلب کو بلا کر ان سے بارش کی دُعا کی درخواست کرتے اور خود بھی دُعا کرتے «اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا » قال: فيسقون ... *صحيح البخاري: 1010* کہ ’’اے اللہ! ہم آپ سے (نبی کریمﷺ کی زندگی میں) ان کے وسیلے سے بارش کی دُعا مانگا کرتے تو آپ بارش برسا دیا کرتے تھے، تو اب ہم آپ سے آپ کے نبی کے چچا کے وسیلے سے دُعا کرتے ہیں کہ آپ ہم پر بارش برسا دیں، سیدنا انس فرماتے ہیں کہ پھر بارش ہو جایا کرتی تھی۔‘‘ اور یہ تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوتا، جو گویا تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ لیکن افسوس در افسوس! حبِ رسول کے بلند بانگ دعوے کرنے والے کچھ حضرات قرآن کریم اور نبی کریمﷺ کے صریح احکامات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ضعیف احادیث کو توڑ موڑ کر اپنے نام نہاد وسیلے کے جواز کیلئے پیش کرنے کی سعی نا مشکور سر انجام دیتے ہیں جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فرمان الٰہی ﴿ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُم وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة الأنعام: 121 *کہ ’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو۔‘‘* کے عین مصداق ہے۔ ان کی یہ دلیل اور اس کا جواب آگے پوسٹ کیا جاتا ہے: *جاری ہے* [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *حصّہ سوم* حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مصنف ابن ابی شیبہ: 31993 میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار ... وكان خازنَ عمر على الطعام ... قال: أصاب الناس قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه جبکہ امام بیہقی نے دلائل النبوۃ 7؍47 میں أبو معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن مالك الدار کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اس سند میں کئی خرابیاں ہیں: *نمبر1* اعمش معروف مدلّس ہیں، اور ان کا ابو صالح سے عنعنہ ہے، اور کہیں بھی سماع کی تصریح نہیں، گویا یہ روایت منقطع ہے، جیسا کہ اصولِ حدیث میں معروف ہے۔ *نمبر 2* حافظ ابن حجر نے اس روایت کے متعلّق کہا ہے (روى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار) گویا انہوں نے اس روایت کی سند کو ابو صالح السمان تک صحیح قرار دیا ہے، کامل سند کو صحیح قرار نہیں دیا، کیونکہ انہوں نے اپنی عادت کے مطابق مطلقا یہ نہیں کہا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور ایسا علماء اس وقت کرتے ہیں جب ان کے سامنے بعض راویوں کے حالات واضح نہ ہوں، خصوصاً حافظ ابن حجر جو تراجم الرواۃ کے امام ہیں (جنہوں نے تراجم الرجال پر کئی عظیم الشان کتب تحریر کی ہیں)، وہ مالک الدار سے واقف نہیں، انہوں نے مالک الدار کے حالات اپنی کسی کتاب میں بیان نہیں کیے اور اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’تاریخ‘ میں اور امام ابن ابی حاتم نے ’جرح وتعدیل‘ میں کسی امام جرح وتعدیل سے مالک الدار کی توثیق نقل نہیں کی حالانکہ یہ دونوں ائمہ کرام اکثر راویوں کے حالات سے واقف ہیں۔ حافظ منذری ... جو متاخرین میں سے ہیں ... اپنی کتاب ’ترغیب وترہیب‘ 2 ؍ 29 میں مالک الدار کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں انہیں نہیں جانتا۔ (خلاصہ یہ ہے کہ مالک الدار مجہول راوی ہے۔) *نمبر 3* اگر بالفرض ’مالک الدار‘ کو ثقہ ثبت فرض کر لیا جائے تب بھی مالک الدار اسے ایک (مجہول) شخص سے روایت کرتے ہیں جو نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا، اور علم اصول حدیث کے مطابق اس طرح بھی یہ حدیث منقطع بنتی ہے، کیونکہ اس میں قبر پر آنے والا شخص مجہول ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ قبر پر آنے والا شخص بلال بن حارث صحابی تھے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس کی تصریح صرف سیف بن عمر سے مروی ہے جو بذاتِ خود غیر ثقہ راوی ہے، گویا اس روایت پر موجود دیگر کئی جرحوں میں سے ایک جرح سیف بن عمر کے حوالے سے بھی ہے۔ اور اگر علمائے جرح وتعدیل کے اقوال سیف بن عمر کے متعلّق جان لیے جائیں تو یہ ایک جرح ہی اس روایت کو ردّ کرنے کیلئے کافی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں: قال الحافظ الذهبي في ميزان الاعتدال٣؍٣٥٣ في ترجمة سيف بن عمر: إن يحيى بن معين ، قال فيه: فِلسٌ خيرٌ منه ، وقال أبو داود: ليس بشيء ، وقال أبو حاتم: متروك ، وقال ابن حبان: اتهم بالزندقة ، وقال ابن عدي: عامة حديثه منكر ، وقال مكحول البيروتي: كان سيف يضع الحديث ، وقد اتهم بالزندقة. وقال ابن الجوزي في كتابه ، الضعفاء والمتروكين ٢؍٣٥ رقم: ١٥٩٤: سيف بن عمر الضبي، قال يحيى بن معين: ضعيف الحديث ، فِلسٌ خير منه ، وقال أبو حاتم الرازي: متروك الحديث ، وقال النسائي والدارقطني: ضعيف ، وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الأثبات ، وقال إنه يضع الحديث. اھ. ومن أراد مراجعة سند سيف بن عمر ، فليراجع ، تاريخ الطبري ٢؍٥٠٨ والبداية والنهاية٧ ؍ ١٠٤ امام ابن حجر کی تصحیح پر امام البانی رحمہ اللہ اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا تعاقب امام البانی رحمہ اللہ نے ’توسل‘ ص132 میں کہا ہے: لا حجة فيها ، لأن مدارها على رجل لم يسمَّ فهو مجهول أيضا ، وتسميته بلالا في رواية سيف لا يساوي شيئا ، لأن سيفا هذا هو ابن عمر التميمي ، متفق على ضعفه عند المحدثين بل قال ابن حبان فيه : يروي الموضوعات عن الأثبات وقالوا : إنه كان يضع الحديث ، فمن كان هذا شأنه لا تُقبل روايته ولا كرامة لاسيما عند المخالفة .ا.هـ. کہ ’’اس روایت سے حجت نہیں لی جا سکتی، کیونکہ اس کا دار ومدار ایک ایسے آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور وہ مجہول بھی ہے، اور ’سیف‘ کی روایت میں اس کا نام بلال ہونے کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ یہ سیف بن عمر تمیمی ہے جس کے باتفاق المحدثین ضعیف راوی ہے، بلکہ ابن حبان نے تو اس متعلّق کہا ہے کہ ’’یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، اور محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔‘‘ ایسے شخص کی تو عام روایت ہی قبول نہیں، کجا یہ ہے کہ صحیح حدیثوں کے بالمقابل اس کی روایت قبول کی جائے۔‘‘ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فتح الباری پر تعلیق 2؍575 میں حافظ ابن حجر کے اس کلام پر تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: هذا الأثر على فرض صحته كما قال الشارح ليس بحجة على جواز الاستسقاء بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته لأن السائل مجهول ولأن عمل الصحابة رضي الله عنهم على خلافه وهم أعلم الناس بالشرع ولم يأت أحد منهم إلى قبره يسأله السقيا ولا غيرها بل عدل عمر عنه لما وقع الجدب إلى الاستسقاء بالعباس ولم يُنكر ذلك عليه أحد من الصحابة فعُلم أن ذلك هو الحق وأن ما فعله هذا الرجل منكر ووسيلة إلى الشرك بل قد جعله بعض أهل العلم من أنواع الشرك . وأما تسمية السائل في رواية سيف المذكور بلال بن الحارث ففي صحة ذلك نظر ، ولم يذكر الشارح سند سيف ، وعلى تقدير صحته عنه لا حجة فيه ، لأن عمل كبار الصحابة يخالفه وهم أعلم بالرسول وشريعته من غيرهم والله أعلم .ا.هـ. کہ اس روایت کو ابن حجر کے کہنے کے مطابق اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس میں نبی کریمﷺ سے وفات کے بعد بارش کی دُعا کا تقاضا کرنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ نبی کریمﷺ کی قبر پر آکر سوال کرنے والا شخص مجہول ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اس کے بالکل مخالف ہے، اور وہ سب سے زیادہ شریعت کو جاننے والے تھے، اور ان میں کبھی کوئی نہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر استسقاء کیلئے آیا نہ کسی اور کی قبر پر، بلکہ قحط کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اس کے اُلٹ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے دُعا کرائی تھی اور اس کی مخالفت کسی صحابی نے نہیں کی، پس ثابت ہوا کہ یہی حق ہے، اور اس مجہول شخص کا عمل منکر اور وسیلۂ شرک ہے، بلکہ بعض علماء تو اسے شرک کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک سیف مذکور کی روایت اس شخص کا نام بلال بن حارث (صحابی) ذکر کیا گیا ہے تو یہ صحیح نہیں، نہ ہی ابن حجر رحمہ اللہ نے ’سیف‘ کی سند ذکر کی ہے، اور اگر بالفرض اسے بھی صحیح تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس روایت سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی کیونکہ کبار صحابہ (سیدنا عمر، ومعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم وغیرہما) کا عمل اس کے مخالف ہے اوروہ نبی کریمﷺ اور ان کی شریعت کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے تھے۔ واللہ اعلم! *جاری ہے* [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *حصّہ دوم* مشہور صوفی عالم علی جفری یہاں امام ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فتح الباری کی جلد دوم، کتاب الاستسقاء میں ذکر کیا ہے ... اور اسی طرح اس حدیث کو ائمہ بیہقی، حاکم اور ابن خزیمۃ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے ... کہ أن بلال بن الحارث المزني ، وهو من أصحاب المصطفى، جاء إلى قبر رسول الله ، في سنة مقحطة في عهد عمر ، ووقف على القبر الشريف ، وقال يا رسول الله! استسق لأمتك ، فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: إيت عمر فأقرئه السلام ، وأخبره أنكم مسقون، وقل له: عليك الكيس ، عليك الكيس ، فأتى عمرَ فأخبره ، فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلوا إلا ما عجزت عنه کہ ’’بلال بن حارث مزنی جو صحابہ کرام میں سے ہیں زمانہ خلافتِ عمر میں قحط کے موقع پر نبی کریمﷺ کی قبر مبارک پر آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کیونکہ لوگ تو قحط کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں، تو انہیں رات خواب میں نبی کریمﷺ آئے اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ، انہیں میرا سلام کہو اور انہیں خبر دو کہ عنقریب بارش ہوگی اور انہیں کہو کہ ذمہ داری کا ثبوت دو، تو انہوں نے سیدنا عمر کے پاس آکر سارا ماجرہ سنایا تو وہ رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ! میں تو کوئی کوتاہی نہیں کرتا الا یہ کہ میں عاجز آجاؤں۔‘‘ نمبر ایک یہ روایت مستدرک حاکم اور صحیح ابن خزیمہ بلکہ امام حاکم اور ابن خزیمہ کی کسی کتاب میں موجود نہیں، اور نہ ہی کسی نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے اسے نقل کیا ہے۔ نمبر دو فتح الباری میں یہ الفاظ نہیں جو اس صوفی علی جفری نے نقل کیے ہیں، بلکہ وہاں موجود اصل الفاظ یہ ہیں: قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان عن مالك الدار ، وكان خازنَ عمر ، قال: أصاب الناسَ قحط في زمن عمر ، فجاء رجل إلى قبر النبيﷺ، فقال: يا رسول الله استسق لامتك فإنهم قد هلكوا ، فأُتي الرجل في المنام ، فقيل له: ائت عمر .. الحديث ، وقد روى سيف ، في الفتوح ، أن الذي رأى المنام المذكور ، هو بلال بن الحارث المزني ، أحد الصحابة. کہ ’’امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے ابو صالح السمان کی صحیح روایت سے مالک الدار سے روایت کیا ہے جو (یعنی مالک الدار) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خازن تھے، کہ انہوں نے کہا کہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قحط پڑ گیا تو ایک شخص نبی کریمﷺ کی قبر پر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اپنی امت کیلئے بارش کی دُعا کیجئے کہ وہ تو ہلاک ہوگئے، تو اس آدمی سے پاس (نبی کریمﷺ) خواب میں تشریف لائے، اور کہا کہ عمر کے پاس جاؤ ... الیٰ آخر الحدیث! (ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ) سیف نے ’فتوح‘ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ بلال بن حارث المزنی ایک صحابی تھے۔‘‘ *جاری ہے * [22/04, 13:42] My U Fone: *وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت* ====※====※====※==== *چوتھا اور آخری حصّہ* *نمبر 4* اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابن حجر نے مالک الدار کے متعلّق کہا ہے کہ (له إدراك) کہ ’’انہوں نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے۔‘‘ تو واضح رہے کہ ابن حجر نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں مالک الدار کو تیسری قسم میں شمار کیا ہے، اور یہ قسم مخضرمین (جنہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں کا زمانہ پایا، لیکن انہوں نے نبی کریمﷺ کو نہیں دیکھا، خواہ وہ آپ کے زمانے میں مسلمان ہوگئے ہوں یا بعد میں مسلمان ہوئے ہوں) کے ساتھ خاص ہے۔ اور مخضرم حضرات اصول حدیث کے مطابق بالاتفاق صحابہ میں شمار نہیں کیے جاتے۔ *نمبر 5* اس روایت کے متن میں نکارت ہے۔ *نمبر 6* اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک بڑی علت یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک خلافتِ عمر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں تھی، حتیٰ کہ بعد میں یزید بن الولید نے اسے مسجد نبوی میں شامل کر دیا تھا، تو خلافتِ عمر میں ایک غیر محرم شخص سیدۃ عائشہ کے حجرہ میں کیسے داخل ہو سکتا تھا؟؟؟ حافظ ابن کثیر کا اس حدیث کو بیان کرنا اور صحیح کہنا واضح رہے کہ امام ابن کثیر نے بھی اس حدیث کو امام بیہقی سے دلائل النبوۃ سے ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت میں درج ذیل علل ہیں: 1. اعمش کا عنعنہ، اور اعمش مدلس ہیں، اور ابن کثیر کے نزدیک اعمش مدلسین کے دوسرے طبقہ میں شامل ہیں۔ در اصل امام ابن کثیر کے اس حدیث کو صحیح کہنے کی بنیادی وجہ ان کا طرزِ عمل: ’کبار مجہول تابعین کو ثقہ قرار دینا‘ ہے، جیسا کہ ان کا یہ طریقہ کار ان کی تفسیر میں معروف ہے۔ چونکہ مالک الدار مجہول ہیں، لہٰذا ان کا تاریخ وفات بھی معلوم نہیں۔ 2. ابو صالح السمان ... جن کا اصل نام ذکوان ہے ... کا مالک الدار سے سماع اور ادراک ثابت نہیں، کیونکہ مالک الدار کی تاریخ وفات کا علم نہیں، اور اس پر مستزاد کہ ابو صالح کا مالک سے عنعنہ ہے۔ سماع کی صراحت بھی نہیں۔ 3. یہ حدیث مشہور احادیث (سیدنا عمر ومعاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہم) کے خلاف ہے۔ *ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم*
×
×
  • Create New...