Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'و'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردا ہوں گے۔ روایت کی تحقیق جامع ترمذی :3664 وسند حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،‏‏‏‏ لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ. ترجمہ: حضرت سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر ؓ کے سلسلہ میں فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ 📖: 533- حدثنا الحسن بن عرفة، حدثنا وكيع بن الجراح، حدثنا يونس بن أبى إسحاق، عن الشعبى، عن علي، قال: كنت جالسا عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فأقبل أبو بكر، وعمر، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، يا علي، لا تخبرهما" .كتاب مسند أبي يعلى-ت السناري 1/5وسند حسن امام العقائد اھلسنت ابن شاھین فرماتے ہیں کہ تفرد أبو بكر وعمر بهذه الفضيلة. یعنی : اس فضیلت میں ابوبکر و عمر اکیلے ہیں كتاب شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين 20ص 490 - حدثنا إسحاق بن زياد الأيلي، قال: نا عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم، قال: حدثني أبي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال علي: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأقبل أبو بكر، وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين، إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» . وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن جابر، عن علي إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد (كتاب مسند البزار = البحر الزخار 2/132.) ✍️: عبد الله بن عبد الرحمن بن إبراهيم ; لین الحدیث۔ ✍️: عبد الرحمن بن إبراهيم البصري القاص ، لین الحدیث۔ 10 : - حدثنا عبيد بن عبد الواحد بن شريك البزار، ثنا ابن أبي مريم، أنبأ سفيان بن عيينة، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن الحارث، عن علي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نظر إلى أبي بكر وعمر فقال: «هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين، لا تخبرهما يا علي» الفوائد الشهير بالغيلانيات لأبي بكر الشافعی 1/60۔ وسند حسن۔ ✍️: الأثيوبي شرح ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ درج ذیل حدیث صحیح مجموع طرق کی وجہ سے۔ والحاصل أن الحديث بمجموع هذه الطرق صحيح بلا ريب؛ لأن بعضها حسن لذاته، وبعضها يستشهد به. والله تعالى أعلم ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) تخریج ✍️: حمود بن عبد الله التويجري فرماتے ہیں کہ باسناد حسن "رواه ابن ماجه بإسناد حسن وابن حبان في صحيحه." 1: (كتاب فتح المعبود في الرد على ابن محمود 133ص۔) 2: (كتاب مختصر زوائد مسند البزار على الكتب الستة ومسند أحمد لابن حجر 2/288. الرقم: 1878.) 2: ( مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجه3/57.) 3: (كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر 30/181.) 4: (كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل 1/4242.) 5: (كتاب الشريعة للآجري 4/1848.) 6: (كتاب مسانيد فراس المكتب 87ص،) 7: (كتاب فوائد أبي علي الصواف 35ص،) 8: (كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر 258ص۔) 9: (كتاب تنزيه الأصحاب عن تنقص أبي تراب 30/71.)حمود بن عبد الله التويجري) 10: ( كتاب أمالي ابن بشران - الجزء الأول948ص الرقم928.) واللہ و رسول اعلم محمد عمران علی حیدری
  2. آذان سے پہلے اور بعد میں کیا پڑھیں اور کیا کیا پڑھ سکتے ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں. از قلم و طالب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ عزوجل یارسول اللہؐﷺ 🌹دورد ذات اقدس اور آل و اصحاب پر بے شمار لاکھوں ارباں کروڑاں کھرباں بار❤️ صلی اللہ علیہ وآلہ اصحابہ وبارک وسلم القرآن المجید فرقان الحمید برہان العظیم میں اللہ وحدہ لاشریک کا انعام، بے مثل قرآن میں بےمثال فرمان :۔❤️❤️ 📖اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا.📖 سورۃ الاحزاب: آیت نمبر56. ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر ، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو، ✍️✍️✍️یہ تفسیر نہیں بس اس آیت میں موجود نقاط ہیں بس اگر اس کی تفسیر دیکھنی ہے تو نیچے کتب تفاسیر کے حوالہ جات دیے ہوۓ ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں غور طلب باتیں جو کہ بتانا مقصود ہیں : ۔ ✍️اللہ کی شان ان باتوں پر غور کیا جاۓ تو سمجھ آ جاۓ گی کہ قرآن کی شان کیا ہے اور پتہ چلے کہ وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کا مفہوم کیا ہے، ✍️ قرآن سمجھنا آسان ہے اگر نظر و دل میں شان و عظمت مصطفیؐ ہو تو ورنہ اس قرآن کو پڑھ کر خوارج نے سیدنا ابوتراب، مولا کائنات، شیر خدا، جنت کے شہزادوں کے بابا، جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی حق پر تھے مگر معاویہ بھی ہمارے سردار، فاتح خیبر مولا مشکل کشاہ علی حیدر کرم وجہ الکریم پر بھی کفر کا کا فتوئ لگا دیا تھا۔😭 ✍️اگر اس قرآن کو پڑھ کر صحابی رسول پر کفر و شرک کے فتوۓ لگے ہیں تو آج ہم سنیوں پر جو لگ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت معاویہؓ کی مثال اس لیے دی کہ ایک صحابی کے مقابلہ میں ایک صحابی حق پر ہے تو خوارج نے حق پر قائم رہنے والے صحابی، خلیفہ چہارم پر فتوئ لگا دیا تھا اللہ کی شان!، آج یہی کام ایک قوم کرتی نظر آتی ہے اشارہ کافی ہے۔ خیر اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ 👇👇👇 اس آیت مبارکہ میں وقت متعین نہیں ہے اور وہ کوئی وقت بھی ہو سکتا ہے، اور اگر بات کی جاۓ فضائل درود و سلام کی تو تحریر بہت لمبی ہوجاۓ گی۔ لہذا جب پڑھیں جس وقت پڑھیں پڑھ سکتے ہیں درود و سلام، *نماز سے پہلے یا نماز کے بعد میں ہو، آذان سے پہلے ہو بعد ہو اس کے علاوہ گھر ہو مسجد میں ہو، بیٹھ کے پڑھو یا کھڑے ہو کے پڑھو، تھوڑا پڑھو زیادہ پڑھو پڑھ سکتے ہیں۔* علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر درود و سلام دکھاوۓ کے لیے بھی کوئی پڑھے تو بھی ثواب ملے باقی دینی کاموں کا ثواب نہیں ملتا اگر دکھاوے کے لیے کیا جاۓ چاھے وہ نماز ہی کیوں نہ ہو۔ سبحان الله اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے لیے ✍️✍️اگر ان تمام تفاسیر کا خلاصہ اگر پڑھنا ہے تو تفسیر خزائن العرفان ہی پڑھ لیں۔ اور اس کے بعد تفسیر صراط الجنان بہتر ہے۔ اگر تفصیل پڑھنی ہے تو تبیان القرآن پڑھ لیں۔✍️✍️✍️ یہ تین تفاسیر تقریبا تمام کتب تفاسیر کا بہترین نچوڑ ہیں *📖1تفسیر تبیان القرآن۔* *📚 2تفسیر خزائن العرفان۔* *📗3تفسیر صراط الجنان۔* 📓4تفسیر درمنثور۔🌹 📘5تفسیر جلالین۔🌹 📙6تفسیر مدارک التنزیل۔🌹 📓7تفسیر قرطبی۔🌹 📙8تفسیر بغوی۔🌹 📘9تفسیر ابن کثیر۔🌹 📗10تفسیر روح البیان۔🌹 📕11تفسیر خزینتہ القرآن۔🌹 📓12تفسیر سراج المنیر۔🌹 📙13تفسیر نور العرفان۔🌹 📗14تفسیر ضیاء القرآن۔🌹 📕15تفسیر الحسنات۔🌹 وغیرہ کتب تفاسیر (طالب دعا: محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد اور نبی علیہ السلام پر درودو سلام نہ ہو تو وہ کام نعمت سے خالی ہے* یہ روایت ضعیف ہے جو ہمارے ہاں فضائل و مناقب میں قابل قبول ہے۔ اس روایت کا متن بالکل ٹھیک ہے جیسا آپ ابھی پڑھیں گے : ۔ 📕امام ابو یعلیٰ الخلیلی (م 446ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا :- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ خَزَرِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ الْمُوَفَّقِ الزَّاهِدُ بِهَمَذَانَ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الطَّيَّانِ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْقَاسِمِ الزَّاهِدُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الشَّامِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ أَمْرٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِحَمْدِ اللَّهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ أَبْتَرُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ» ترجمہ :- سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جس میں اللہ کی حمد و ثنا اور مجھ پر درود و سلام نہ ہوں منقطع اور ہر نعمت سے خالی ہے [ الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي رقم الحدیث :- 119 ] ‼️ اس روایت کو الحافظ عبد القادر بن عبد الله الرهُاوى نے اپنی " الأربعون على البلدان " میں امام دیلمی نے " مسند الفردوس " میں امام تاج الدین ابن سبکی نے " طبقات الشافعية " میں باسند نقل کیا اس روایت کے حوالے سے اہل علم فرماتے ہیں :- ➊ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا [ القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع ص244 ] ➋ عرب کے محقق ناصر الدین البانی نے بھی ضعیف کہا [ ضعيف الجامع الصغير وزيادته ص613 ] ➌ عرب کے محقق شعیب ارناؤوط نے بھی ضعیف کہا [ جلاء الأفهام - ت الأرنؤوط ص441 ] ‼️ ہمارے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا دوسرا طریق بھی ہے جس کا ذکر امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :- وروى أبو موسى المدني، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله تبارك وتعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل كلام لا يذكر الله فيبدأ به وبالصلاة علي، فهو أقطع ممحوق من كل بركة [ إمتاع الأسماع 11/153 ] (ازقلم :سید عاقب حسین رضوی۔) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے بعد دو چیزیں پڑھنے کا ثبوت اور ساتھ ہی خوشخبری* 📖حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَيْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ. *ھذا حدیث صحیح* *ابوداؤد باب الآذان١(٥١٩)* *صحیح مسلم باب الصلاة ٧ (٣٨٤)، سنن الترمذی باب باب المناقب ١ (٣٦١٤)، سنن النسائی باب الأذان ٣٧ (٦٧٩)، مسند احمد (٢/١٦٨)* ترجمہ: عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی. (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا 😭😭😭 آذان کے بعد درود و سلام پڑھا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️آذان کا جواب بھی دیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ✍️وسیلہ والی دعا بھی کیا کرو حدیث سے ثابت ہے۔ ❤️🌹شفاعت واجب ہے ان سب کاموں پر سبحان الله‎۔❤️ (محمد عمران علی حیدری) ✍️✍️✍️✍️ *آذان کے سے پہلے دعا پڑھنے کا ثبوت* 📖حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ ثُمَّ يُؤَذِّنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُهُ كَانَ تَرَكَهَا لَيْلَةً وَاحِدَةً تَعْنِي هَذِهِ الْكَلِمَاتِ. ھذا حدیث حسن *ابو داؤد ١(٥٢٣)* ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال ؓ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چناچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں ، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اگر کوئی آذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو تواسے اس پر ملامت نہ کیا جاۓ اگر کوئی پڑھتا ہے تو اسے بھی ملامت نہ جاۓ۔✍️ ✍️آذان سے پہلے کچھ بھی نہیں ثابت کی رٹ لگانا غلط ہے کیوں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ پڑھنا ثابت ہے۔ ✍️آذان سے پہلے دعا ثابت ہے یہی پڑھی جاۓ بہتر ہے۔ ✍️اگر کوئی اس دعا کے ساتھ ذات اقدس پر درود و سلام پڑھنا چاھے تو روکا نہ جاۓ۔ ✍️اگر کوئی کہے کہ اس وقت دین کے غلبہ کی دعا تھی اب الحَمْد للهْ دین غالب ہے تو اب اس دعا کی جگہ درود و سلام پڑھ لیا جاۓ تو کافی حد تک اسکی بات ٹھیک ہے۔ ✍️ لیکن میں کہتا ہوں کہ اس دعا کو بھی پڑھا جاۓ اور ساتھ ساتھ ذات اقدس پر درود سلام بھی پڑھا جاۓ۔ ✍️نہ یہ دعا آذان کا حصہ تھی نہ ہے اور نہ درود و سلام آذان کا حصہ ہے، ✍️تو حرج نہیں ہونی چاھیے۔ ضد چھوڑیں بس نبی علیہ السلام سے محبت کریں انہی کے نام کردیں اپنا جینا مرنا پھر آپکو کبھی نہیں لگے گا کہ درود یہاں نہ پڑھو یہ والا درود نہ پڑھو اس صیغہ والا نہ پڑھو۔ پھر ایک ہی بات کرو گے درود پڑھو سلام پڑھو۔ درود و سلام پڑھو۔ ✍️اگر ایسا کیا جاۓ تو اختلاف و لڑائی جھگڑا ختم کیا جا جاسکتا ہے۔ صلی اللہ و علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یاحبیب اللہﷺ۔ (از قلم طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 02.12.2021 دو دسمبر 1443ھ
  3. وما یومن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون کا صحیح فہم کتب تفاسیر سے۔ ایک آیت کی پانچ معتبر کتب تفاسیر سے وضاحت کہ علماء کرام نے اسے کیسے سمجھا اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔ از قلم طالب دعا: محمد عمران علی حیدری ( درخواست) ساری پوسٹ پڑھیں اور بزرگوں کو فالو کریں👏👏 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ فیض رضا جاری رہے گا ⛲ سچ کڑوا ہوتا ہے⛲ اس آیت کچھ لوگ پیش کر کے مسلمانوں کو مشرک بولتے ہیں۔ اس شرک سے کیا مراد ہے اورکون لوگ مراد ہیں؟ وَمَا يُؤۡمِنُ اَكۡثَرُهُمۡ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمۡ مُّشۡرِكُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت نمبر 106) لفظی ترجمہ: وَمَا يُؤْمِنُ : اور ایمان نہیں لاتے | اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر | بِاللّٰهِ : اللہ پر | اِلَّا : مگر | وَهُمْ : اور وہ | مُّشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع) ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔ اعلئ حضرت امام اھلنست٫ عظیم البرکت٫ عظیم المرتبت٫ ولی نعمت٫ مجدد دین و ملت٫ حامی سنت٫ ماحی بدعت٫ معجزہ سید النبیاء٫ عالم شریعت٫ پیرطریقت٫ حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ القای الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمتہ الرحمن کا ترجمہ بھی ساتھ دیکھیں۔ ترجمہ کنزالایمان:: اور ان میں اکثر وہ ہیں جو اللہ پر یقین نہیں کرتے مگر شرک کرتے ہوئے مختلف تراجم کا موازنہ کر کے دیکھیے گا! 1 تفسیر خزائن العرفان جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی جو اللہ تعالی کی خالقیت و رزاقیت کا اقرار کرنے کے ساتھ بت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک کرتے تھے ۔ (محمد عمران علی حیدری) 2 تفسیر تبیان القرآن اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔ (یوسف : ١٠٦)- ایمان لانے کے باوجود شرک کرنے والوں کے مصادیق :- حسن، مجاہد، عامر اور شعبی نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہ مانتے تھے کہ اللہ تعالی ان کا اور تمام کائنات کا خالق ہے، اس کے باوجود وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ عکرمہ نے کہا : انہی لوگوں کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں :- ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (الزخرف : ٨٧) اگر آپ سن سے یہ سوال کریں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔- ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (العنکبوت : ٦١) اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے توہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر وہ کہاں بھٹک رہے ہیں۔- حسن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں، وہ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں، عیسائی حضرت عیسی کو اللہ کا بیٹا تو کہتے ہیں اور یہود عزیر کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اور یہ شرک ہے۔- ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو زبان سے ایمان لاتے تھے اور ان کے دل میں کفر تھا۔ - حسن سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اور جب اللہ ان کو اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں :- قل من ینجیکم من ظلمت البر والبحر تدعونہ تضرعا و خفیہ لئن انجانا من ھذہ لنکونن من الشاکرین۔ قل اللہ ینجیکم منھا ومن کل کرب ثم انتم تشرکون۔ (الانعام : ٦٣، ٦٤) آپ پوچھیے کہ تمہیں سمندروں اور خشکی کی تاریکیوں سے کون نجات دیتا ہے ؟ جس کو تم عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو، اگر وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے، آپ کہیے کہ تمہیں اس مصیبت سے اور ہر سختی سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر (بھی) تم شرک کرتے ہو۔- اور بعض لوگ وہ ہیں جو اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود نعمتوں کا اسناد اسباب کی طرف کرتے ہیں، مسبب الاسباب کی طرف نہیں کرتے مثلا کسی کو بیماری سے شفا ہوجائے تو کہتا ہے فلاں دوا سے یا فلاں ڈاکٹر کے علاج سے وہ شفا یاب ہوگیا ہے یہ نہیں کہتا کہ اسے اللہ نے شفا دی ہے۔ - اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ مصائب اور شدائد میں بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے، وہ مشائخ اور اولیاء اللہ کے مزاروں پر جاکر ان کو پکارتے ہیں اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں اور ان کی نذر اور ان کی منتیں مانتے ہیں۔ ہرچند کہ اولیاء اللہ سے مدد طلب کرنا اس عقیدہ سے جائز ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے اور اس کے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور یہ شرک نہیں ہے لیکن افضل اور اولی یہی ہے کہ صرف اللہ سے مدد طلب کی جائے اور بزرگوں کے وسیلہ سے اپنی حاجت برآری کے لیے دعا کی جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عباس کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :- اذا سئلت فاسئل اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ۔ جب تم سے سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو اور جب تم مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥١٦، مسند احمد ج ١ ص ٢٩٣، ٣٠٣، ٣٠٧۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٩٨٨، ١٢٩٨٩، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی رقم الحدیث : ٤٢٥، شعب الایمان رقم الحدیث : ١٨٤، العقیلی ج ٣ ص ٥٣، الآجری، رقم الحدیث : ١٩٨، المستدرک ج ٣، ص ٥٤١، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣١٤، الآداب للبیقہی رقم الحدیث : ١٠٧٣)- اور نذر عبادت مقصودہ ہے، اللہ تعالی کے سوا کسی مخلوق کی نذر اور منت مانناجائز نہیں ہے۔ (بتوں کے نام کفار نذر منت مانتے تھے اور ان کے نام چھوڑ دیتے تھے) (محمد عمران علی حیدری) 3 تفسیر نور العرفان ف ٢۔ شان نزول یہ آیت کفار مکہ کے متعلق نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کو خالق رزاق مان کر بتوں کو پوجتے تھے اور اپنے تلبیہ میں کہتے تھے کہ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے ایک شری کے کے یعنی لا الہ بھی کہتے تھے کہ اور شرک بھی کرتے تھے اور اللہ کو ایک مان کر اس کے بیٹے بیٹیاں مانتے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) 4 تفسیر ضیاءالقرآن ١٤٧ یعنی ان کفار و مشرکین کی بھی عجیب حالت ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا تو کہتے ہیں اللہ نے۔ تمہارا خالق کون ہے کہتے ہیں اللہ۔ بارش کون برساتا ہے اور غلہ کون اگاتا ہے تو کہتے ہیں اللہ۔ لیکن اس کے باوجود بتوں کو بھی الہ مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ بتوں کے متعلق مشرکین کا جو عقیدہ تھا وہ متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے وہ کہتے ویقولون أانا لتارکوا الھتنا لشاعر مجنون۔ ٣٧: ٣٦ وہ کہتے ہیں کیا ایک شاعر اور دیوانے کے کہنے سے ہم اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں۔ نیز حج کے موقعہ پر جو تلبیہ وہ کہا کرتے تھے اس سے بھی ان کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ کہا کرتے لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک الاشریکا ھولک تملکہ وما ملک ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ تیرا شریک ہے جس کو تو نے اپنا شریک بنایا ہے تو اس کا مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔ یا اس آیت میں مشرکین کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ جب وہ مصائب میں گھر جاتے تھے، تو اللہ تعالی کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے اور جب مصیبتیں ٹل جاتی تھیں تو پھر اس کا انکار کرتے تھے یا اس سے مراد ریاکار ہیں جو عبادت تو اللہ تعالی کی کرتے ہیں لیکن دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ فلاں مجھے اچھا سمجھے۔ یہ بھی ایمان اور شرک کو یکجا کرنے کی ایک صورت ہے اور اہل حق نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر اسباب ظاہری کی طرف مائل ہوا اور مسبب حقیقی کی طرف سے نگاہ ہٹ گئی تو یہ بھی شرک ہوا۔ مولانا ثناء اللہ پانی پتی بل النظر الی الاسباب مع الغفلۃ عن المسبب ینافی التوحید فالموحدون ہم الصوفیہ (مظہری) یعنی سچے موحد تو صوفیائے کرام ہیں کہ ان کی نظر کسی حالت میں بھی اسباب میں نہیں الجھتی بلکہ ہر قوت مسبب الاسباب پر جمی رہتی ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 5 تفسیر مدارک التنزیل جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے خالق اور رازق ہونے کا اقرار کرنے کے باوجود بت پرستی کرکے غیروں کو عبادت میں اللّٰہ تعالیٰ کا شریک کرتے تھے۔ (محمد عمران علی حیدری) جزاك اللهُ post no:8 14....05....2021 شوال المکرم 1442ھ
  4. زمین آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہؐ ✍️اللہ نے مرتبہ دیا ہے ۔ تم کیوں جلتے ہو؟ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : رَوَاهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.31 /31) 3-4: أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 /366، الرقم: 109، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /65، الرقم: 25، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 /388، والثعالبي في الکشف والبيان، 7 / 468. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو نورانی منبر لائے جائیں گے، ایک عرش کی دائیں جانب اور دوسرا عرش کی بائیں جانب نصب کیا جائے گا، اِن منبروں پر دو شخص نمودار ہوں گے، پس وہ جو عرش کی دائیں جانب ہو گا ندا دے گا: اے گروہانِ مخلوقات! جس نے مجھے پہچان لیا اُس نے جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا (تو وہ جان لے) کہ میں جنت کا داروغہ رضوان ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کی کنجیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تھما دوں، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُنہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) کو تھما دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو جنت میں داخل کر سکیں۔ پس تم آگاہ ہو جاؤ۔ پھر وہ شخص جو عرش کی بائیں جانب ہو گا ندا دے گا: جس نے مجھے جان لیا سو جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا تو وہ جان لے کہ میں مالک، جہنم کا داروغہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جہنم کی کنجیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ کنجیاں ابو بکر و عمر کو دے دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ بغض رکھنے والوں کو جہنم میں دھکیل سکیں۔ سو تم سب اِس پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘ اِسے محب الدین الطبری نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو کتاب موجبات الجنہ لابن الفاجر میں ابن الفاجر نے بھی نقل کیا ہے۔ 317 - ثنا الإمام عمي قال، ثنا أبو علي الوزير إملاءً قال، ثنا يوسف بن محمد الزاهد. -وأنبا أبو طاهر الصوفي بقراءاتي عليه قال، ثنا يوسف بن محمد في كتابه، قال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن أحمد قال، ثنا القاسم بن محمد السراج، ثنا محمد بن أحمد الضبي الدينوري بمكة في المسجد الحرام قال، ثنا أحمد بن يحيى قال، ثنا الصابر الجارود قال، ثنا هشيم عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إذا كان يوم القيامة ينصب ميزانٌ من ذهبٍ أمام العرش فيأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو أحدهما فيقول من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا رضوان خازن الجنة، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله -عز وجل- أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر رضي الله عنه يدخل الجنة محبيه ومحبي عائشة بغير حسابٍ، ويأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو المنبر الثاني، ويقول: من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا مالكٌ خازن النار، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه يدخل النار مبغضيه ومبغضي عائشة بغير حسابٍ)). قال أبو بكر: سمع هذا الحديث الكرخي، وقال: لو كان هذا الحديث مكتوباً على الجدار لكان الواجب أن يكتب بماء الذهب. كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر. ابن الفاخِر بابٌ في ذكر أن محبي أبي بكر وعائشة -رضي الله عنها- يدخلون الجنة بغير حساب. ✍️ اس کی سند پر کلام ہے اس حدیث کا متن بالکل قرآن و صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے وَلَـلۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لَّكَ مِنَ الۡاُوۡلٰىؕ. 4 سورۃ الضحى : ترجمہ اور بیشک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر 📖تفسیر میں مفسرین نے کیا فرمایا دو کتب سےمفہوم کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں آپ کے مَراتب ترقیوں میں رہیں گے۔ مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ:4 تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ4 2 : وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيۡكَ رَبُّكَ فَتَرۡضٰىؕ. ( الضحی 5) :ترجمہ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے. اسکا متن آپ خود دیکھ لیں گے۔ آپ ایک بار اوپر والی روایت کو غور سے پڑھیں پھر ان احادیث کو پڑھتے جائیں ۔إن شاءالله۔۔آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ 📘 1 : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا۔ صحیح بخاری جلد1 حدیث. 1344.2977.3596 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے یہی بات اوپر والی روایت میں کی گئی بات ہے۔ ✍️یہ حدیث بخاری میں چار جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب میں درج ہے الفاظ مختلف مفہوم ایک ہی ہے کہ ذات محبوب کبریا عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اب اسکا تعین کرنا کون کون سے خزانے ہیں ہمارے بس کی بات نہیں۔ ✍️اور نہ ہم اس مسلہ میں قید و بند لگا سکتے ہیں حدیث پر کہ ہاں یہ ہوگا یہ نہیں۔ ایسا کرنا وہابیہ کا کام ہے ہمارا نہی۔ ✍️ہم نے بس مان لیا کہ ہاں دے دی گئی ہیں اب دینے والا اور لینے والا جانے۔ ✍️میرے خیال میں اور حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کنجیاں کا لفظ کہنا یہ مقصد تھا کہ رسائی،(پہنچ) اختیار ،بادشاہت اللہ نے دےدی ہے۔ 📘 2: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ, ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ, وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ, أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ, وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. صحیح بخاری جلد2 حدیث 4085 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض ( حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ ✍️اب اس حدیث پر غور کریں تو نبی علیہ السلام فرما رہے ہین کہ اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں حوض کوثر کہاں ہے اور لفظ حضورؑ نے فرمایا اپنے یعنی میرا۔ مالکیت ظاہر ہورہی ہے۔ ✍️ سلطنت آسمان پر بھی ہے جس کی سلطنت ہو اختیار ہو و چابیاں بھی اسی کے پاس ہوتی ہیں ✍️جیسا کہ ایک بادشاہ کا وزیر ہوتا ہے بادشاہ اس کو بہت سارے اختیار دیتا ہے وزیر اسے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وزیر کو سب دے دیا جاتا ہے ہر چیز پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ جیسا حدیث میں ہے واللہ یعطی انا القاسم اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں. ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 3 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ. صحیح بخاری جلد1 حدیث 120. ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 4 :حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ دَاوُدُ،‏‏‏‏ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ۔ سنن الترمذی جلد2 حدیث 3666 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا“۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️جسے چاہیں جو جو عطا کریں سب دیا آپ کی سلطنت میں 📘 5 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا۔ سنن ابن ماجہ جلد١حدیث 118 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ 📘 6: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا. قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مشکوۃ شریف ترجمہ: حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رو پڑیں ، پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑی ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو میں نے ان کے رونے اور ان کی ہنسی کے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میں فوت ہو جاؤں گا تو میں رو پڑی ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا کہ مریم بنت عمران کے علاوہ اہل جنت کی خواتین کی میں سردار ہوں ۔‘‘ اس پر میں ہنس دی ۔ رواہ الترمذی. (محمد عمران علی حیدری) 📘 7 :ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﺛنا ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺩﺣﻴﻢ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻓﺪﻳﻚ، ﻋﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﺰﻣﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻇﻨﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺣﺪﺛﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻋﺸﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻭﻋﻠﻲ، ﻭاﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻭﻃﻠﺤﺔ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﺳﻌﺪ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪﺓ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻭﻫﺆﻻء ﺗﺴﻌﺔ» ، ﺛﻢ ﺳﻜﺖ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻧﻨﺸﺪﻙ اﻟﻠﻪ ﺃﻻ ﺃﺧﺒﺮﺗﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺷﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻧﺸﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ اﻷﻋﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ» ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ اﻟﺘﻠﺨﻴص (المستدرك علي الصحيحين: رقم الحديث 5858جلد3 498صفحہ,ط:دارالكتب العلمية۔) اگر وہابی یہ آیت پیش کریں لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ. 63الزمر آیت : ترجمہ اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں. میں پوچھنا چاھتا ہوں اوپر بیان کی گئی احادیث کو مانوں گے یا انکار کردو گے؟؟ ہاں یہ بات سنی ہی سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے ورنہ ایسے نے تو سیدنا علیؓ پر بھی شرک کا فتوئ لگا دیا تھا۔ العیاذ بااللہ۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تفاسیر کو پڑھیے ۔ خزائن العرفان۔ تبیان القرآن ۔ صرط الجنان۔ روح البیان۔ وغیرہ۔ ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)
  5. ⛲ \ دم و تعویزٍ \ ⛲ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ فیض رضا جاری رہے گا دم و تعویز قرآن و حدیث سے ثابت ہے. المختصر:۔ شرکیہ تعویذ ممنوع ہیں جن میں شرکیہ کلیمات ہوتے ہیں اگر جس تعویذ میں شرکیہ جملہ کلمہ لفظ وغیرہ نہ ہو وہ جائز ہے۔ اور وہ ثابت شدہ ہے اور اسی طرح دم کا حکم بھی ایسے ہی ہے۔ جیسا کہ آپ آگے اسی پوسٹ میں پڑھیں گے۔ ۔إن شاءالله سورۃ نمبر الإسراء آیت82 أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا‏۔ ترجمہ کنزالایمان :اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے۔ تفسیر مختصر:. قرآن شفا ہے کہ اس سے ظاہری و باطنی اَمراض، گمراہی اور جہالت وغیرہ دور ہوتے ہیں اور ظاہری و باطنی صحت حاصل ہوتی ہے۔ باطل عقائد، رذیل اخلاق اس کے ذریعے دفع ہوتے ہیں اور عقائد ِحقہ ، معارفِ الٰہیہ ، صفاتِ حمیدہ اور اَخلاقِ فاضلہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ کتابِ مجید ایسے علوم و دلائل پر مشتمل ہے جو وہم پر مَبنی چیزوں کواور شیطانی ظلمتوں کو اپنے انوار سے نیست و نابُود کر دیتے ہیں اور اس کا ایک ایک حرف برکات کا گنجینہ و خزانہ ہے جس سے جسمانی امراض اور آسیب دور ہوتے ہیں۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲۔) (روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۸۲۔) خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ:(۸٢) (محمد عمران علی حیدری) 1 نمبر بخاری شریف۔باب الرّقی بفاتحۃ الکتاب ۔حدیث5736 ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ در حالت سفر عرب کے ایک قبیلہ پر گزرے۔ قبیلہ والوں نے ان کی ضیافت نہیں کی کچھ دیر بعد اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، اب قبیلہ والوں نے ان صحابہ سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی دوا یا کوئی جھاڑنے والا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ تم لوگوں نے ہمیں مہمان نہیں بنایا اور اب ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اس کی مزدوری نہ مقرر کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے چند بکریاں دینی منظور کر لیں پھر ( ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ) سورۃ فاتحہ پڑھنے لگے اور اس پر دم کرنے میں منہ کا تھوک بھی اس جگہ پر ڈالنے لگے۔ اس سے وہ شخص اچھا ہو گیا۔ چنانچہ قبیلہ والے بکریاں لے کر آئے لیکن صحابہ نے کہا کہ جب تک ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لیں یہ بکریاں نہیں لے سکتے پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ مسکرائے اور فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ سورۃ فاتحہ سے دم بھی کیا جا سکتا ہے، ان بکریوں کو لے لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ (محمد عمران علی حیدری) 2 حدیث نمبر بخاری شریف۔ باب فی المرأۃ ترقی الرجل حدیث 5751 حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے پھر جب آپ کے لیے یہ دشوار ہو گیا تو میں آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔ ( معمر نے بیان کیا کہ ) پھر میں نے ابن شہاب سے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کیا کرتے تھے؟ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے پھر ان کو چہرے پر پھیر لیتے۔ (محمد عمران علی حیدری) 3 حدیث نمبر حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏عَنْعَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لِلإِنْسَانِ إِذَا اشْتَكَى يَقُولُ بِرِيقِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ بِهِ فِي التُّرَابِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا۔ سنن ابی داؤد جلد4.حدیث 3895۔ ھذا حدیث صحیح سنن ابن ماجہ جلد٤ حدیث3521 الحکم حدیث صحیح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اپنی بیماری کی شکایت کرتا تو آپ اپنا لعاب مبارک لیتے پھر اسے مٹی میں لگا کر فرماتے: «تربة أرضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا» یہ ہماری زمین کی خاک ہے ہم میں سے بعض(بزرگوں) کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے (محمد عمران علی حیدری) : اب تعویذات کے حوالہ سے 1 حدیث نمبر الجامع سنن الترمذی جلد3.حدیث 352. ھذا حدیث صحیح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ:. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈر جائے تو ( یہ دعا ) پڑھے: أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وعقابه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل و جامع کلموں کے ذریعہ اللہ کے غضب، اللہ کے عذاب اور اللہ کے بندوں کے شر و فساد اور شیاطین کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ ہمارے پاس آئیں۔ یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھا دیتے تھے، اور جو بچے نابالغ ہوتے تھے ان کے لیے یہ دعا کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے. امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔۔ (محمدعمران علی حیدری) اس حدیث ثابت ہوا تعویذ کا ثبوت بھی۔بس یہ ایک مختصر سا جواب لکھا ہے ورنہ اس پر ہمارے علماء کی بڑی بڑی تحریرات موجود ہیں۔اور کتب موجود ہیں۔ وہابیوں تمہارا بابا کیا کہتا ہےاس کی ہی مان لو قرآن وحدیث تو تم لوگ مانتے نہیں ہو! وہابی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔ (فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298۔نذیر حسین دہلوی) لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے. لگتا ہے اب ابا کی جوتے کی نوک پر ہونگے یا پھر تین طلاق🤭🤭🤭🤭۔ ( طالب دعا :محمد عمران علی حیدری) 31جولائی 2021. 20ذولحجہ 1442ھ
×
×
  • Create New...