کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'نجدی کتے'.
-
نجدی اعتراض: بدنی عبادات میں بدعت غیر سیئہ کا وجود نہیں
اس ٹاپک میں نے kashmeerkhan میں پوسٹ کیا اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات
plz mairay sayyid allama saeedi sahb es ka zbrdast answer dain jab time milay... plz بدنی عبادات میں بدعت غیر سیئہ کا وجود نہیں اٹھارویں مجلس بدعتوں کی اقسام اور انکے احکام میں: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بعد حمد کی تحقیق تمام باتوں میں اچھی کتاب اللہ کی ہے اور اچھی ہدایت، ہدایت محمد کی اور کاموں میں بدتر نوپیدا نئی نکالی ہوئی یعنی بدعتیں، اور ہر محدّث بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہ حدیث مصابیح کی حدیثوں میں ہے۔ جابر کی روایت سے اور ایک اور حدیث میں عرباض بن ساریہ کی روایت سے ہے کہ فرمایا پیغمبر صلی اللہ علیہ نے جو شخص جیتا رہا میرے بعد سو قریب ہے کہ دیکھے گا بہت اختلاف سو لازم پکڑو اپنے اوپر میری سنت اور سنت خلفاء راشدین مہدیین کی بعد اسکے اسکی سند کرو اور دانتوں سے مظبوط پکڑو اور بچاؤ اپنے تئیں نئی باتوں سے کیونکہ ہر محدّث بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ اور مراد بدعت سے جو ان دونوں حدیثوں میں مذکور ہے بدعت سیئہ ہے جسکی اصل اور سند کتاب اور سنت سے نہیں نکلتی نہ ظاہر نہ خفی نہ لفظوں سے یا مضمون سے سمجھی جائے، بدعت حسنہ مراد نہیں ہے جسکی اصل اور سند ظاہر یا خفی نکلتی ہو کیونکہ ایسی بدعت گمراہی نہیں ہوتی بلکہ ایسی بدعت کبھی مباح ہوتی ہے جیسے استعمال چھنّی آٹے کا اور پیٹ بھر کر روٹی گیہوں کی ہمیشہ کھانی اور کبھی مستحب ہوتی ہے جیسی منارہ کا تعمیر کرنا اور کتابیں تصنیف کرنی اور کبھی واجب ہوتی ہے جیسی آراستہ کرنا دلائل کا واسطے دفع کرنا شبہات ملحدوں اور گمراہ فرقوں کے، اسلئے کہ بدعت کے دو معنی ہیں ایک تو معنی لغوی عام ہیں یعنی محدث مطلق برابر ہے کہ عادات میں ہو یا عبادات میں ہو اور دوسرے معنی شرعی خاص ہیں، یعنی دین میں کچھ بڑھانا یا دین میں سے کچھ گھٹانا بعد عہد صحابہ کے، بدون اجازت شرعی کے ، کہ نہ تو قولی ہو اور نہ فعلی اور نہ صریح اور نہ اشارہ پس بدعت دونوں حدیثوں میں اگر چہ عام ہے اور شامل تمام محدثات کو ۔ پر عموم اور شمول باعتبار لغوی معنوں کے مقصود نہیں ہے بلکہ عموم باذتبار شرعی خاص کی مراد ہے۔ بھر یہ عادات کو بالکل شامل نہیں بلکہ اسمیں بعضے اعتقادات اور بعضے صورتیں عبادات کی داخل ہیں، کیونکہ نبی علیہ السلام واسطے تعلیم امر دنیا کے نہیں آئے۔ وہ صرف واسطے تعلیم امر دین کے آئے ہیں۔ اس حدیث سے سمجھا جاتا ہے کہ تم خود جانتے ہو اپنی دنیا کا کاروبار، جب میں تم کو دین کی بات بتایا کروں تو لے لیا کرو ۔ یہ بدعتیں اعتقاد کی کفر ہیں اور بعض کفر نیں ہیں مگر تمام کبائر سے سخت تر ہیں، یہاں تک کہ قتل اور زنا سے بھی اور اس سے زیادہ درجہ کفر ہی کا ہے اور بدعت عبادت میں اگر چہ اس سے کمتر ہے پر اس کا عمل کرنا نافرماتی اور گمراہی ہے خاص کر جب کہ سنت موکدہ کی مقابل ہو اور بدعت عادات کی اسکے کرنے میں کچھ نافرمانی اور گمراہی نہیں بلکہ ترک اولی ہے، سو اس کا ترک اولی ہے جب یہ ٹھہر چکا تو منارہ سے مدد ہونی ہے واسطے خزینے وقت نماز کی اور کتابوں کا تصنیف کرنا مددگار ہے واسطے تعلیم اور تبلیغ امر معروف کے اور آراستہ کرنا دلائل کا واسطے دفع شبہات ملحدوں اور گمراہ فرقوں کے، باز رکھنا ہے منکر سے اور دفع کرنا ہے شبہات کا دین سے، سو ہر ایک ان میں سے رخصت ہے بلکہ تعمیل کا حکم ہے اسلئے کہ بدعت حسنہ وہ ہے کہ متقدمین کو اسکی حاجت نہ ہوئی، پھر متاخرین کو اس کی حاجت ہوئی اور سب کو خلاف ونزاع پسند آئی اور بعد تلاش کے بدعت حسنہ عبادات خالص بدنیہ میں نہیں پائی جاتے، جیسے روزہ اور نماز اور تلاوت قرآن اور وظیفے کہ تمام عبادتوں سے ہوں بلکہ ان میں بدعت سیئہ ہی ہوتی ہے اسلئے کہ نہ ہونا کسی کار کا قرن اوّل میں یا تو بسبب نہ ہونی ھاجت کے یا بسبب موجود ہونے مانع کے یا بسبب بے خبری کے یا مارے کاہلی کے یا بسبب مکروہ اور ناجائز ہونے کے ہے۔ دونوں پہلے سبب تو عبادات خالص بدنیہ میں نہیں ہو سکتے اسلئے کہ حاجت قربت الہٰی کی عبادت سے منقطع نہیں ہوتی اور بعد ظاہر ہونے اسلام اور غلبہ اسلام کی اس سے کوئی مانع نہیں تھا اور ایسی ہی بے خبری اور کاہلی نہیں ہو سکتی اس واسطے کہ کہاں جائز ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور انکے تمام اصحاب پر ایسا خیال کیا جائے۔ پھر سواء بدعت مکروہ اور ناجائز ہونے کے کوئی سبب ۔ اور یہی ہے غرض عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جب ان کو خبر ہوئی ایک جماعت کی جو بعد مغرب کے بیٹھا کرتی تھی ، اور ان میں ایک شخص کہتا جاتا اللہ اکبر کہو اتنی بار اور سبحان اللہ کہو اتنی بار اور الحمد للہ کہو اتنی بار۔ پس وہ لوگ کہتے جاتے ، سو عبد اللہ بن مسعود ان کے پاس آئے، وہ سن کر جو کہتے تھے کھڑے ہو کر کہا: میں عبد اللہ بن مسعود ہوں ، پس قسم اللہ کی جو نہیں معبود سواء اس کے، بیشک تم بدعت کرتے ہو ، نہایت سیاہ یا تم فائق ہو گئے ہو محمد علیہ السلام کے اصحاب پر علم میں ، مراد ان کی یہ ہے کہ تم جو کرتے ہو، یا تو یہ بدعت تاریک ہے یا تم نے ایسی بات پیدا کی ہے جو صحابی کے ہاتھ نہ آئی ان کی بے خبری سے یا سستی سے طریق عبادت کے علم میں تم ان سے گالب ہو نکلے ۔ اور دوسری بات نہیں ہو سکتی تو پہلی ہی بات یعنی بدعت سیاہ ہی مقرر رہی یہ ہی جاری ہو سکتی ہے ہر ایک کے حق میں در باب عبادت خالص بدنیہ کی ایسے طور پر جو صحابہ کے وقت میں نہیں تھا۔ اس واسطے کہ اگر عبادات کا وصف افعال محدث کو بدعت حسنہ بتا دیا کرے، تو عبادات میں بدعت مکروہہ کہیں نہ ہوا کرتے ، اور حال یہ ہے کہ عبادات میں بدعت مکروہہ ہوتے ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: صفحہ131 - 133 خزينۃ الاسرار ترجمہ اردو مع مجالس الابرار و مسالك الاخيار و محائق البدع و مقامع الاشرار ۔ أحمد بن عبدالقادر الرومي الحنفي ۔مترجم سبحان بخش ۔ مطبع مصطفائی 1283 ھ