کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'مشاہدرضوی:شاعری'.
-
ظلمتِ قلب و نظر پل میں مٹانے کے لیے سبز گنبد کی کرن دل میں بسانے کے لیے یاخدا! اِذنِ سفر کردے مُشاہدؔ کو عطا شوق سے نعت مدینے میں سنانے کے لیے
-
مَیں نے نعت گوئی کا جب سے ذوق پایا ہے سر پہ میرے رحمت کا تب سے نوری سایا ہے فوجِ غم نے گھیرا جب مجھ کو اے جہاں والو! رب نے ذکرِ احمد سے میرا غم مِٹایا ہے
-
تشطیرات بخشش، نعتیہ شعری مجموعہ: شاعر : ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
اس ٹاپک میں نے Musaffa میں پوسٹ کیا اصلاحی کتب
<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Tashtirat E Bakhshish on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/93218869" style="text-decoration: underline;" >Tashtirat E Bakhshish</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/93218869/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_60163" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe> -
لمعات بخشش: نعتیہ دیوان، شاعر: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
اس ٹاپک میں نے Musaffa میں پوسٹ کیا اصلاحی کتب
<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Lamaat E Bakhshish on Scribd" href="http://www.scribd.com/doc/95019206" style="text-decoration: underline;" >Lamaat E Bakhshish</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/95019206/content?start_page=1&view_mode=scroll" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="undefined" scrolling="no" id="doc_68930" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe> -
-
-
جلوۂ زیبا کلام: محمد حسین مشاہدرضوی سوئی قسمت مری اِکبا ر جگادیں آقا مجھ کو بھی روضہ ٔپُرنور دکھادیں آقا اک جہاں جس کیلئے منتظرِ فردا ہے دید اُس جلوۂ زیبا کی کرادیں آقا ناو منجدھار میں آکر مری ڈوبے نہ کہیں آپ تَیراکر اسے پار لگادیں آقا جلو ہ فرماکسی دن ہویئے میرے دلمیں دل کو اک مہرِ پُر انوار بنادیںآقا پتھروں کو ہے ملا ثور وحرا کا منصب میرے دل کو بھی کوئی درجہ دلادیں آقا ہے مشاہدؔ کی تمنا کہ رضا کے صدقے خدمتِ دین کوئی مجھ سے کرادیں آقا
-
طیبہ پہ شاعری فدا کلام: محمد حسین مشاہدرضوی نُطق فدا ، قلم فدا ، ذہن فدا ، زباں فدا طیبہ پہ شاعری فدا ، سارے سخن وَراں فدا آپ گئے ہیں عرش پر ، آپ پہ شش جہاں فدا آپ کا دیکھ کے قرب ِرب، ہوتی ہیں دُوریاں فدا نور کی بھیک لیتے ہیں ، انجم و مہر و ماہ سب حُسن پہ آقا آپ کے ، کیوں نہ ہو آسماں فدا رنگ کا رنگ اُن سے ہے ، اُن سے ہی نکہتِ شمیم گل نہیں غنچہ ہی نہیں اُن پر ہے گلستاں فدا کلمۂ طیّبہ پڑھا ، بوجہل نے بھی سُن لیا آقا کے نطق پر نہ کیوں ہوں سنگِ بے زباں فدا انگشت سے ہوا رواں ، چشمۂ آب بے گماں آقا کی انگلیوں پہ ہیں ، دنیا کی ندّیاں فدا میری مراد ہے وہی ، میرا سکونِ دل وہیں جاوں گا طیبہ ہی کو میں ، طیبہ پہ ہے جناں فدا لاے مُشاہدؔ اور کیا ، آپ کی نذر کرنے کو اِس کا کلام ہو فدا اِس کی خموشیاں فدا ٭
-
شمعِ عشقِ رسول ﷺ کلام: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی خیالِ غیر کا نہ ہو گزر کبھی دل میں مرے خدا ہو تری یاد ہی بسی دل میں ترے ہی نُور سے تابندگیِ عالم ہے مٹا کے ظلمتیں تو بخش روشنی دل میں مٹا مٹا دے مری ساری عادتیں بیکار تو ڈال ڈال دے عرفانِ بندگی دل میں عیاں عیاں میں تو مضمر نہاں نہاں میں عیاں عیاں نکھار مرا دیدے راستی دل میں تو بخش دے ترا عرفان قادرِ مُطلق بفیضِ رومی غزالی دے سادگی دل میں جَلا جَلا دے مرے دل میں شمعِ عشقِ رسول نہ آئے یا خدا دنیا کی دل لگی دل میں شہِ مدینہ کی اُلفت میں یوں فنا کردے مرا خیال بھی یارب نہ ہو کبھی دل میں جہاں جہاں سے میں دیکھوں ہو سامنے طیبہ کچھ اس طرح سے ہو یادِ نبی جمی دل میں بفیضِ عشقیؔ و عینیؔ رضاؔ و نوریؔ سدا رواں دواں رہے آقا کی عاشقی دل میں ترے حبیٖب کے پیاروں کا پیار دے مولا بسے ہوں بوبکر ، عثماں ، عمر ، علی دل میں نصیٖب کردے مُشاہدؔ کو اطمینان وسکون نہ آنے پاے خداوندا بے کلی دل میں
-
اعلیٰ حضرت کے ایک شعر کے مصرعِ اولیٰ پر نعت "قبر میں لہرائیں گے تاحشر چشمے نور کے" از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی، مالیگاؤںانڈیا صبح طیبہ میں ہوئی بٹتے ہیں صدقے نور کے صدقے لینے نور کے آے ہیں تارے نور کے ہیں مرے آقا بنے سارے کے سارے نور کے ذکر اُن کا جب بھی ہوگا ہوں گے چرچے نور کے دل میں نظروں میں بسیں طیبہ کی گلیاں نور کی روح میں بس جائیں طیبہ کے نظارے نور کے داغِ فرقت نور والے شہر کا اب دیں مٹا گنگناوں آکے طیبہ میں ترانے نور کے طلعتِ آقا لحد میں میری جلوہ گر تو ہو ’’قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے ‘‘ نوری سُرمہ خاکِ طیبہ کا لگاوں آنکھ میں اپنی نظروں میں بسالوں میں ستارے نور کے آپ کے زیرِ قدم ہیں سارے نیچر کے اُصول پاے اطہر کے بنے پتھر میں نقشے نور کے چشمۂ تسنیم و کوثر اور بہارِ خُلد بھی زُلفِ احمد کیلئے ہیں استعارے نور کے نورِ احمد ہے عیاں سارے جہاں میں بے گماں جتنے جلوے بھی ہیں دنیا میں ہیں ان کے نور کے نور والوں کا گھرانا اپنا مارہرہ شریف جِھلملاتے جیسے پر تَو مصطفیٰ کے نور کے خاندانِ پاکِ برَکاتِیہَّ کے فیضان سے پھل رہے ہیں چار جانب ’’ نوری شجرے ‘‘ نور کے اعلیٰ حضرت کے ’’ قصیدئہ نوریہ ‘‘ کے فیض سے اے مُشاہدؔ لکّھے میں نے کچھ ترانے نور کے
-
حمد باری تعالیٰ از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
-
حمدِ باریِ تعالیٰ از: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُوہی صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تُوہی دلوں سے رنج و الم کو نکالتا ہے تُوہی نفَس نفَس میں مَسرّت بھی ڈالتا ہے تُوہی وہ جنّ و انس و مَلک ہوں کہ ہوں چرند و پرند تمام نوعِ خلائق کو پالتا ہے تُوہی بغیر لغزشِ پا تو ڈبو بھی سکتا ہے پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تُوہی تُو ہی تو مُردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے گُلوں کے جسم میں خوشبوئیں ڈالتا ہے تُوہی ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تُوہی نجات دیتا ہے بندوں کو ہر مصیبت سے شکم سے مچھلی کے زندہ نکالتا ہے تُوہی جو لوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تُوہی