کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'فن حدیث اور اعلیحضرت'.
-
*فن حدیث میں احمد رضا کا مقام اور اعلی ٰ حضرت پردیوبندیوں کے ایک اعتراض کا علمی و تحقیقی جائزہ * *بقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی * ایک مجہولیہ دیوبندی نے اعلیٰ حضرت پر ایک روایت پر حکم تصحیح پر جہالت بھری ایک تحریر لکھی جس پر دیوبندیوں کے ساجد نقلدبندی بھی ایک ٹانگ پر اچھل رہا تھا کہ اس مضمون میں اسکی تحریر سے اقتباس مطابقت رکھتے ہیں تو یہ اسکا بھی رد ہے مجہولیا دیوبندی لکھتا ہے : احمد رضاخان فاضل بریلوی کو رضاخانیت میں امیر المؤمنین فی الحدیث سمجھا جاتا ہے *(المیزان احمد رضا نمبر ص 247)* اور نعیم الدین رضاخانی تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ۔ علم حدیث میں بھی وہ (اعلی حضرت) فرد تھے اپنا ہمتانہ رکھتے تھے علم رجال میں ان کو وہ دستگاہ حاصل تھی کہ ایک ایک راوی کے حالات نوک زباں پر تھے *(اعلی حضرت کا فقہی مقام ص 11)* اپنے وقت کے اس امام بخاری کو فن حدیث میں کیا مہارت تھی آئیے ملاحضہ کرتے ہیں۔ *صحیح حدیث کے نام پر جعلی حدیث* احمد رضا خان سے سوال ہوا: عرض:یہ حدیث ہے *لولاک لما اظھرۃ الربیوبیۃ* احمد رضاخان نے جواب دیا: میں نے حدیث میں نہیں دیکھا ہاں صوفیاء کی کتاب میں آیا ہے *لولاک لما اظھرۃربوبیتی* بایں ہمہ معنی صحیح اور صحیح حدیث کے موافق ہیں صحیح حدیث میں ہے *خلقت الخلق لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا*۔اے میرے حبیب میں نے خلق کو اسلئے پیدا کیاکہ جو عزت ومنزلت تمہاری میرے یہاں ہے میں ان کو پہنچوادوں اور اے میرے حبیب اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو نہ پیدا کرتا *(ملفوظات ص 382 حصہ چہارم رضوی کتاب گھر دہلی)* یہ احمد رضا خان کا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صریح جھوٹ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث چہ جائیکہ صحیح ان الفاظ *خلقت الخلق لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدنیا* موجود نہیں۔دعوت اسلامی والوں نے احمد رضا خان کی اصلاح کرتے ہوئے ان الفاظ کو یوں بدل دیا۔ *لقد خلقت الدنیا و اھلھا لاعرفھم کرامتک و منزلتک عندی لولاک ما خلقت الدنیا* اور ترجمے میں بھی اس نئی روایت کے مطابق تحریف کرڈالی ملاحضہ ہو *(ملفوظات حصہ چہارم صفحہ 521)* اور حوالہ مواہب اللدنیہ ج 1 ص 44 کا دیا اول ماخذ کے طور پر مواہب اللدنیہ کا نام سامنے آنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صحیح ہرگز نہیں بہر حال ہم نے احمد رضا کی لاج رکھنے کیلئے اصل ماخذ کی طرف مراجعت کی تو وہاں اس کی کوئی سند نہیں ملی۔ جس حدیث کو احمد رضا خان بڑی دلیری سے صحیح کہہ رہا ہے آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ چنانچہ علامہ سیوطی اس نے اس کو موضوع کہا ہے *(اللآلی المصنوعۃ ص 249* علامہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو موضوع کہا( *الموضوعات لاابن الجوزی ج1 289)* اس مجہولیے دیوبندی کے اعتراضات کو بلترتیب جواب پیش کرتے ہیں : سب سے پہلے جو روایت امام اعلیٰ حضرت نے نقل کی ہے مواھب لدنیہ سے جیسا کہ امام زرقانی نے یہ روایت اما م ابن عساکر کے حوالے سے درج کی ہے اور اس روایت کو امام سیوطی نے موضوع قرار دیا جسکی تفصیل آگے آئے گی لیکن اس سے پہلے امام ملا علی قاری کا بھی حکم پیش کردیں ا س بندی کو 385 - حديث لولاك لما خلقت الأفلاك // قال الصغاني إنه موضوع كذا في الخلاصة لكن معناه صحيح فقد روى الديلمي عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا أتاني جبريل فقال يا محمد لولاك ما خلقت الجنة ولولاك ما خلقت النار * ** وفي رواية ابن عساكر لولاك ما خلقت الدنيا ** * امام ملا علی قاری روایت نقل کرتے ہیں : اے محبوب اگر تم نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت(رب ہونا)ظاہر نہ کرتا اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام ملاع علی قاری امام الصغانی الحنفی کا اس حدیث پر حکم نقل کرتے ہیں موضوع ہونے کا پھر امام ملا علی قاری اپنا حکم پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لیکن اس روایت کا معنی صحیح ہے جیسا کہ دلیمی نے ابن عباس سے مرفوع بیان کیا ہےجسکا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا اے محمد اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا تو نہ جنت پیدا کرتا اور نہ ہی جہنم اور روایت کیا ہے · **اور ابن عساکر نے جسکا مفہوم یہ ہے : (اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا )تو میں دنیا تخلیق نہ کرتا ** * ولولاك يا محمد ما خلقت الدنيا تو اس جاہل مجہولیے صاحب کو چاہیے کہ یہاں امام ملا علی قاری پر بھی ٹھٹہ بازی کرے کہ وہ بھی اس روایت کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہوئے دلیمی اور اسی ابن عساکر والی روایت کو دلیل کے طور پر بیان کیا ہے جب روایت کے معنی صحیح قرار دیے ہیں ملا علی قاری نے تو ظاہری بات ہے جن روایات کا حوالہ دیا ہے ملا علی قاری نے وہ بھی انکے نزدیک صحیح درجے کی ہونگی چونکہ مسندالفردوس اب بغیر اسناد ہے ملا علی قاری کی اس پر نظر ہوگی اب جب جو ٹھٹھہ بازی یہ اعلی حضرت پر کر رہا ہے وہی ملا علی قاری پر بھی لازم کرے گا وگرنہ شرمندی محسوس کر لینی چاہیے اگر آتی ہو ۔۔۔۔۔ اب آتے ہیں امام سیوطی کی طرف کہ انہوں نے اسکو موضوع قرار دیا جو روایت ابن عساکر کے حوالے سے ہے جسکو امام زرقانی ، امام ملا علی قاری اور اعلی حضرت نے قابل استدلال قرار دیا اور صحیح بھی کہا جس میں وہ منفرد نہیں ہے اور امام ابن عساکر نے اس روایت کو باسند نقل کی ہے جسکی سند یوں ہے : أخبرنا أبو يعقوب يوسف بن أيوب بن يوسف بن الحسين بن وهرة (1) الهمذاني (2) بمرو نا السيد أبو المعالي محمد بن محمد بن زيد الحسيني (3) إملاء بأصبهان وأخبرنا أبو محمد بن طاووس أنا أبو القاسم بن أبي العلاء قالا أنا أبو القاسم عبد الرحمن بن عبيد الله بن عبد الله السمسار أنا حمزة بن محمد الدهقان نا محمد بن عيسى بن حبان المدائني نا محمد بن الصباح أنا علي بن الحسين الكوفي عن إبراهيم بن اليسع عن أبي العباس الضرير عن الخليل بن مرة عن يحيى (4) عن زاذان (5) عن سلمان قال حضرت النبي (صلى الله عليه وسلم) بلخ۔۔۔۔۔ جو کہ طویل روایت ہے لیکن اسکے آخری الفاظ یہی ہیں : ولولاك يا محمد ما خلقت الدنيا اور امام سیوطی نے اس روایت کو موضوعات میں درج کرتے ہوئے اس روایت پر حکم موضوع لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : مَوْضُوع: أَبُو السكين وَإِبْرَاهِيم وَيحيى الْبَصْرِيّ ضعفاء متروكون وَقَالَ الفلاس يَحْيَى كَذَّاب يُحدث بالموضوعات امام سیوطی لکھتے ہیں : موضوع ہے ابو الکین اور ابراہیم اور یحییٰ البصری ضیعف اور متروک ہیں اور افلاس نے یحییٰ کو کذاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ موضوعات بیان کرتا تھا (اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة السیوطی ، ص : ۱۴۹) جب کہ اس روایت پر صریح موضوع کا حکم لگانے میں امام سیوطی سے تسامح ہوا یا اسکو فحش خطاء بھی کہہ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امام ملا علی قاری نے بھی امام سیوطی کی اس جرح کو قبول نہ کیا تھا بلکہ اس روایت کو بطور دلیل پیش کیا تھا صحیح معنی میں تو امام ملا علی قاری نے امام سیوطی کی اس جرح کو رد کیوں کیا ہوگا اسکے دلائل ہم پیش کرتے ہیں اللہ کے فضل سے ۔۔۔ پہلا راوی جس پر امام سیوطی نے اعتراض کیا اسکا نام ہے : ۱۔ محمد بن عيسى بن حيان المدائني يعرف بأبي السكين امام ذھبی نے میزان میں امام حاکم و دارقطنی سے اسکو ضعیف و متروک نقل کیا ہے بغیر سند سے جسکی وجہ سے امام سیوطی نےانکو متروک درجے کا بنا دیا لیکن انکے بارے مختصر سا جائزہ ! ۔امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے ۔امام خطیب بغدادی انکے بارے نقل کرتے ہیں : سمعت البرقاني، يقول: محمد بن عيسى بن حيان المدائني ثقة، وسألت البرقاني عنه مرة أخرى، فقال: لا بأس به سمعت هبة الله بن الحسن الطبري سئل عن ابن حيان، فقال: ضعيف. وسألت هبة الله الطبري عنه مرة أخرى، فقال: صالح ليس يدفع عن السماع، لكن كان الغالب عليه إقراء القرآن اپنے شیخ البرقانی سے نقل کرتے ہیں : کہ میں البرقانی سے سنا محمد بن عیسیٰ بن حیان ثقہ ہے اور پھر سنا کہ اس مین کوئی حرج نہیں ھبتہ اللہ الطبری سے سنا کہ ابن حیان ضعیف ہے اور پھر سنا کہ صالح ہے لیکن اس پر قرآن کی قرت غالب تھی اور امام دارقطنی سے امام خطیب نے فقط ضعف کی جرح ہی نقل کی ہے أَخْبَرَنِي أَبُو طَالِبٍ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَقِيهُ قال: قال أبو الحسن الدّارقطنيّ: الحسن ابن قتيبة ومحمد بن عيسى ضعيفان. دارقطنی کہتے ہیں الحسین بن قتیبہ اور محمد بن عیسیٰ ضعیف ہیں (تاریخ بغداد ، برقم : ۱۱۸۴) لیکن امام ذھبی نے سیر اعلام میں تبھی دارقطنی و حاکم سے متروک کی جرح نقل نہیں کی اور توثیق اور دارقطنی کی یہ جرح نقل کی بس 12 - محمد بن عيسى بن حيان أبو عبد الله المدائني * المحدث، المقرئ، الإمام، أبو عبد الله المدائني، بقية الشيوخ. حدث عن: سفيان بن عيينة، ومحمد بن الفضل بن عطية، وشعيب بن حرب، وعلي بن عاصم، ويزيد بن هارون، وجماعة. حدث عنه: أبو بكر بن أبي داود، وأبو بكر بن مجاهد، وإسماعيل الصفار، وخيثمة الأطرابلسي، وعثمان بن السماك، وحمزة العقبي (1) ، وأحمد بن عثمان الأدمي، وأبو سهل القطان، وآخرون. قال البرقاني: لا بأس به. وقال الدارقطني: ضعيف. قلت: توفي في سنة أربع وسبعين ومائتين، من أبناء المائة. (سیر اعلام النبلاء) خلاصلہ کلام کہ یہ راوی ثقہ و صدوق ہے کوئی جرح مفسر ثابت نہیں اس پر ۲۔دوسرا راوی : إبراهيم بن أبي حية اليسع بن الأشعث، أبو إسماعيل المكي اسکو بھی امام سیوطی نے متروکین و ضعیف راویوں میں شمار کیا انکا مختصر جائزہ ! ۔امام بخاری اور امام ابی حاتم نے اسکو منکر الحدیث قرار دیا ہے جو کہ سخت جرح ہے لیکن امام ابن معین جو کہ متشدد ناقدین میں سے ہیں وہ انکے بارے فرماتے ہیں : حدثنا عبد الرحمن أنا يعقوب بن إسحاق [الهروي - 2] فيما كتب إلي قال أنا (3) عثمان بن سعيد الدارمي قال سألت يحيى بن معين قلت إبراهيم بن أبي حية؟ فقال شيخ ثقة [كبير - 2] . امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن ابی دحیہ شیخ کبیر ثقہ ہے (الجرح والتعدیل ) اور دارقطنی ضعیف مانتے ہیں اور ابن حبان کہتے ہیں میرا قلب اس پر اعتماد کرنے پر راضی نہیں ۔ اور امام ابن عدی نے اسکی صرف ابراہیم سے روایات کو منکر بیان کی ہیں لیکن امام ذھبی اس پر اپنا حکم لگاتے ہوئے لکھتے ہیں : 275 - إبراهيم بن أبي حية: ويقال: ابن أبي يحيى اليسع. شيخ قتيبة، واهٍ. (المغنی ) امام ذھبی نے انکو واھ یعنی بالکل ہی معمولی ضعیف جسکی وجہ سے راوی کو ترک نہیں کیا جا سکتا اس درجے میں رکھا ہے ۔امام ابن عبدالبر وہ ابراہیم کی روایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہین یہ اثار متواتر متصل صحیح الاسناد سے ثابت ہیں حدثنا إبراهيم بن أبي حية عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأمره أن يقضي باليمين مع الشاهد فهذا ما في حديث جعفر بن محمد وإرساله أشهر وفي اليمين مع الشاهد آثار متواترة حسان ثابتة متصلة أصحها إسنادا (التمہید لا ابن عبدالبر ) خلاصہ کلام یہ کہ اس پر جروحات دو سخت اماموں کی ہیں تو متشد امام سے توثیق بھی صریح ہے اور تبھی امام ذھبی نے اس راوی بالکل کو بالکل کم درجے کے ضعف میں درج کیا ہے واہ کے اور اس سے احتجاج کیا جا سکتا ہے ۳۔تیسرا راوی : یحییٰ بن ابی صالح ہے اور امام سیوطی نے اس راوی کا تعین غلط کیا ہے اور اس راوی پر افلاس سے کذاب کی صریح جرح نقل کی ہے جبکہ میزان میں جس یحییٰ پر جرح ہے وہ یہ ہے : 9639 - يحيى بن ميمون [س، ق] ، أبو معلى العطار. بصري، واه. عن سعيد بن جبير. (1 [كذبه الفلاس. وقال ابن حبان] 1) : يروى عن الثقات ما ليس من أحاديثهم. قلت: بل صدوق. حدث عنه مثل شعبة، وابن علية، واحتج به النسائي. ومات سنة اثنتين وثلاثين ومائة. (المیزان ) امام فلاس نے کذاب قرار دیا ہے اور ابن حبان نے بھی جرح کی ہے لیکن امام ذھبی کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ صدوق ہے اور میری نظر میں یہ راوی وہ نہیں جو اس سند میں ہے بلکہ یہ راوی یحییٰ بن ابی صالح ہے نہ کہ یحییٰ بن میمون جیسا کہ امام بخاری فرماتے ہیں : 3010 - يحيى بن أبي صالح عن أبي هريرة (4) روى عنه الخليل بن مرة. ولي قضاء الري، قاله محمد بن حميد. (تاریخ الکبیر ) اور یہ روایت بھی ان سے بیان کرنے والا خلیل بن مرہ ہے اور امام ابن حبان انکو الثقا ت میں درج کرتے ہیں 6062 - يحيى بن أبي صالح يروي عن أبي هريرة روى عنه الخليل بن مرة (الثقات ابن حبان ) اور امام سفیان نے اس سے روایت لی ہے المصنف عبدالرزاق میں اور یہ حدیث سند حسن سے بالکل کم نے شواہد کی بنیاد پر جیسا کہ مستدرک الحاکم میں سند ضعیف سے ہے کہ آدم علیہ السلام نے نبی کریم کے نام سے توبہ کی اور اللہ نے فرمایا کہ بے شک اگر میں محمد کو پیدا نہ کرتا تو تم کو بھی پیدا نہ کرتا جس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن ضعیف ہے اور امام ذھبی نے اسکے تفرد کی وجہ سے روایت کو موضوع قرا ر دیا جیسا کہ ابن تیمیہ نے بھی اپنی پہلی تصنیف میں اسکو موضوع قرار دیا تھا لیکن اسکی جب صحیح سند پر مطلع ہوئے ابن تیمیہ تو انہوں نے اس روایت پر اپنے حکم سے رجوع کرتے ہوئے اس روایت کو قبول کیا ہے اور اسکو صحیح حدیث کی شرح کا مقام دیتے ہوئے استدلال کیا ہے اوراس روایت کی صحیح سند بھی ابن تیمیہ نے نقل کی اور مستدرک والی کو بھی قبول کیا ابن تیمیہ اپنے فتاوے میں لکھتے ہیں : الشیخ ابو الفرج ابن الجوزی فی (الوفاء بفضائل المصطفیٰ) : حدثنا أو جعفر محمد ابن عمرو، حدثنا أحمد بن سحاق بن صالح، ثنا محمد بن صالح، ثنا محمد ابن سنان العوقي، ثنا إبراهيم بن طهمان، عن بديل بن ميسرة، عن عبد الله بن شقيق، عن ميسرة قال: قلت: يا رسول الله، متى كنت نبياً ؟ قال: (( لما خلق الله الأرض واستوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات ، وخلق العرش،كتب على ساق العرش: محمد رسول الله خاتم الأنبياء، وخلق الله الجنة التي أسكنها آدم وحواء، فكتب اسمي على الأبواب، والأوراق والقباب، والخيام،وآدم بين الروح والجسد،فلما أحياه الله تعالى: نظر إلى العرش فرأى اسمي فأخبره الله أنه سيد ولدك، فلما غرهما الشيطان ، تابا واستشفعا باسمي إليه . ترجمہ: حضرت میسرہ بیان کرتے ہیں کہ مین نے عرض کیا یا رسول اللہ!آُپ کب نبی تھے؟ فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق فرمائی پھر آسمان کی طرف استواء فرمایا اور سات آسمان بنائے اور عرش پیدا فرمایا اور ساق عرش پہ لکھا محمد رسواللہ خاتم الانبیاء اور جنت بنائی جس مین آدم اور حوا علیہما السلام کو ٹھہرایا، پھر دروازوں ، پتوں قبوں اور خیموں پر میرا نام مکتوب فرمایا۔ اس وقت آدم روح و جسد کے درمیان تھے پھر ان میں روح ڈالی تو انہوں نے عرش کی طرف نظر اٹھائی چنانچہ اس پر میرا نام لکھا دیکھا اللہ تعالیٰ نے انکو خبر دی یہ تیری اولاد کا سردار ہے پھر جب شیطان نے ان (حضرت آدم علیہ السلام) کو دھوکا دیا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے اسم گرامی سے بارگاہ الہی میں وسیلہ پکڑا اس روایت کے سارے راوی متفقہ علیہ زبردستہ ثقہ ثبت ہیں کسی ایک پر بھی جرح ثابت نہیں راویان کی مکمل تحقیق کے لیے درج ذیل لنک پر میری تفصیلی پوسٹ دیکھ سکتے ہیں : https://www.facebook.com/ahadeesKaDifaa/posts/345092482809625/ اور اسی روایت لو لاک کو دیوبندیوں کے مولوی عبدالحق حقانی نے بھی اپنے فتاویٰ حقانی لکھا ہے کہ اسکا معنی صحیح ہے جسکا اسکین موجود ہے یعنی دیوبندی نے اپنے مولویوں کو بھی رگڑا لگا دیا ہے اور اسی طرح انکے بنوری ٹاون کے ایک عالم نے بھی اس پر پورا مقالہ لکھا ہے خلاصہ تحقیق: یہ روایت بالکل موضوع نہیں البتہ اسکے ایک دو راویان واہ یعنی لین یا واہ درجے کے کمزور ہیں جو متابعت و شواہد کے قبول ہوتے ہیں اور ابن عساکر کی روایت جسکو امام زرقانی نے نقل کیا جسکو امام اعلیٰ حضرت نے بیان کیا وہ روایت صحیح درجے کی نہیں تو حسن درجے سے بلکل کم نہیں جیسا کہ ہم نے ثابت کیا کیونکہ اسکی شاہد دلیمی میں میں ملا علی قاری نے اور امام حاکم نے بھی اسکی شاہد مستدرک میں اور امام ابن جوزی نے نے اپنی تصنیف میں باسند جید نقل کی ہے جسکو ابن تیمہ نے بھی قبول کیا ہے اور امام سیوطی سے خطاء ہوئی اس پر حکم موضوع لگانے کی اور یحییٰ کاتعین بھی غلط کیا اور افلاس کی جرح بھی غیر ثابت ہے اور امام ذھبی نے بھی اسکو صدوق قرار دیا ہے تو دیوبندیوں ویسے علم رجال میں یتیم ہیں تو انکو چاہیے کہ اپنی حد میں رہہ کر اعتراضات کیا کریں کیونکہ جس چیز کو مذاق بنا کر یہ ٹھٹھہ بازی کر رہے ہیں یہ اعتراض امام ملا علی ، امام زرقانی اور انکے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام حاکم پر بھی جاتا ہے نیز انکے اپنے حقانی مولوی میاں بھی نہیں بچتے ہیں بے شک اللہ اعلحضرت اپنے وقت کے سب سے بڑے صوفی ، محدث اعظم ، فقیہ اور ولی اللہ تھے اللہ انکی قبر پر ہزار رحمتیں نازل کرے اور ہم جیسے کئی فقیر انکے دفاع کے لیے حاضر رہینگے علم حدیث پر انکا دفاع کرنے کے لیے نوٹ : اس دیوبندی جہالت بھرے مضمون پر ساجد نقلبندی بھی اچھل کھود کر رہاتھا تائید میں معلوم ہوا کہ یہ بھی پلاسٹکی محکک بنا ہوا ہے اپنے چیلوں میں اسکے کمنٹ کا اسکرین شارٹ بھی موجود ہے نیچے تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی مارچ ۲۱ ۲۰۲۰
-
- اعلی حضرت
- فن حدیث اور اعلیحضرت
- (and 5 more)