کمیونٹی میں تلاش کریں
Showing results for tags 'غیر مقلدین'.
-
غیر مقلد وہابیہ کی قسم اول رسالہ مذکورہ کا سوال درج ذیل ہے۔اس کے بعد جواب ہے۔ مسئلہ 42: کیافرماتے ہیں علمائے دین وحامیان شرع متین اس بارہ میں کہ ایک عورت سنیہ حنفیہ جس کا باپ بھی سنی حنفی ہے اس کا نکاح ایک غیرمقلد وہابی سے کردینا جائز ہے یا ممنوع؟ اس میں شرعاً گناہ ہوگا،یا نہیں؟ بینوا توجروا- مستفتی محمد خلیل اللہ خاں از:ریاست رامپور دولت خانہ حکیم اجمل خاں صاحب امام احمدرضا قادری نے تسمیہ وتحمید وصلوٰۃوسلام وابتدائی تمہید کے بعد رقم فرمایا: ”وہابی ہو یا رافضی جو بد مذہب عقائد کفریہ رکھتا ہے جیسے ختم نبوت حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انکار یا قرآن عظیم میں نقص ودخل بشری کا اقرار تو ایسوں سے نکاح با جماع مسلمین بالقطع والیقین باطل محض وزنائے صرف ہے۔ اگرچہ صورت،صورت سوال کا عکس ہو،یعنی سنی مردایسی عورت کونکاح میں لانا چاہے کہ مدعیان اسلام میں جو عقائد کفریہ رکھیں،ان کا حکم مثل مرتد ہے:کما حققنا فی المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ”المقالۃ المسفرۃ عن احکام البدعۃ والمکفرۃ“میں تحقیق کی ہے۔ ت) ظہیریہ وہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے:احکامھم مثل احکام المرتدین (ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔ت) اور مرتدمرد خواہ عورت کا نکاح تمام عالم میں کسی عورت ومرد مسلم یا کافر مرتدیااصلی کسی سے نہیں ہوسکتا۔ خانیہ وہندیہ وغیرہمامیں ہے:واللفظ للاخیرۃ:لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولاکافرۃ اصلیۃ وکذلک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذافی المبسوط۔ دوسری کے الفاظ یہ ہیں: مرتد کے لیے کسی عورت، مسلمان، کافرہ یا مرتدہ سے نکاح جائز نہیں،اور یونہی مرتدہ عورت کا کسی بھی شخص سے نکاح جائز نہیں،جیساکہ مبسوط میں ہے۔ (ت)(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:377-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:مذکورہ بالا عبارت میں اس غیر مقلد وہابی کوکافرکلامی کہا گیا ہے جو کفری عقیدہ رکھتا ہو،یعنی کسی ضروری دینی کا مفسرومتعین انکارکرتا ہو،اور کفر کلامی میں ملوث ہو۔ اسی طرح وہ دیوبندی بھی کافر کلامی ہو گا جو کسی ضروری دینی کا مفسر ومتعین انکار کرتا ہو، اورکفر کلامی میں ملوث ہو۔واضح رہے کہ ضروری دینی کا غیر مفسر انکار کفر فقہی ہے،جس کو متکلمین کفر لزومی کہتے ہیں۔وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم دوم: ”اور اگر ایسے عقائد خود نہیں رکھتا،مگر کبرائے وہابیہ یامجتہدین روافض خذلہم اللہ تعالیٰ کہ وہ عقائد رکھتے ہیں، انھیں امام وپیشوا یامسلمان ہی مانتا ہے تو بھی یقینا اجماعا خود کافر ہے کہ جس طرح ضروریات دین کا انکار کفر ہے یونہی ان کے منکر کو کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔ وجیز امام کردری ودرمختار وشفائے امام قاضی عیاض وغیرہا میں ہے:واللفظ للشفاء مختصرًا:اجمع العلماء ان من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔ شفاء کے الفاظ اختصارًا یہ ہیں:علما کا اجماع ہے کہ جو اس کے کفر وعذاب میں شک کرے وہ کافرہے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العارص:378-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں اس غیر مقلد وہابی کو کافرکلامی کہا گیاہے جو خود کفری عقیدہ نہ رکھتا ہو، لیکن کفری عقیدہ رکھنے والوں کو مومن مانتا ہو،جیسے اکابر ین وہابیہ ختم نبوت کے انکار کے سبب کافر ہوئے۔ اسی طرح وہ دیوبندی بھی کافرکلامی ہوگا جوکفریہ عقیدہ رکھنے والوں کومومن مانتا ہے۔ کفری عقیدہ سے کفر کلامی کا عقیدہ مراد ہے۔ کفر فقہی والے عقائد کا ذکر قسم سوم میں ہے۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم سوم: ”اور اگرا س سے بھی خالی ہے۔ ایسے عقائد والوں کو اگرچہ اس کے پیشوایانِ طائفہ ہوں، صاف صاف کافر مانتا ہے(اگرچہ بد مذہبوں سے اس کی توقع بہت ہی ضعیف اور تجربہ اس کے خلاف پر شاہد قوی ہے)تو اب تیسرا درجہ کفریات لزومیہ کا آئے گا کہ ان طوائف ضالہ کے عقائد باطلہ میں بکثرت ہیں جن کا شافی ووافی بیان فقیر کے رسالہ:الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوھابیۃ(۲۱۳۱ھ)میں ہے اور بقدر کافی رسالہ: سل السیوف الھندیہ علی کفریات باباالنجدیۃ (۲۱۳۱ھ)میں مذکور۔ اور اگرچہ نہ ہو تو تقلید ائمہ کو شرک اور مقلدین کو مشرک کہنا ان حضرات کا مشہور ومعروف عقیدہ ضلالت ہے۔ یونہی معاملات انبیا واولیا واموات واحیاکے متعلق صدہا باتوں میں ادنیٰ ادنیٰ بات ممنوع یا مکروہ،بلکہ مباحات ومستحبات پر جا بجا حکم شرک لگادینا خاص اصل الاصول وہابیت ہے جن سے ان کے دفاتر بھرے پڑے ہیں۔ کیا یہ امور مخفی ومستور ہیں۔کیا ان کی کتابوں، زبانوں،رسالوں، بیانوں میں کچھ کمی کے ساتھ مذکور ہیں۔ کیا ہر سنی عالم وعامی اس سے آگاہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو موحد اور مسلمانوں کو معاذاللہ مشرک کہتے ہیں۔ آج سے نہیں شروع سے ان کا خلاصہ اعتقاد یہی ہے کہ جو وہابی نہ ہو، سب مشرک، ردالمحتار میں اسی گروہ وہابیہ کے بیان میں ہے: (اعتقدوا انھم ھم المسلمون-وان من خالف اعتقادھم مشرکون) ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہی مسلمان ہیں او ر جو عقیدہ میں ان کے خلاف ہو وہ مشرک ہے۔ (ت) فقیر نے رسالہ: النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید(۵۰۳۱ھ)میں واضح کیا کہ خاص مسئلہ تقلید میں ان کے مذہب پر گیارہ سو برس کے ائمہ دین وعلما ئے کاملین واولیائے عارفین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین معاذ اللہ سب مشرکین قرار پاتے ہیں، خصوصًا وہ جماہیر ائمہ کرام وسادات اسلام وعلمائے اعلام جو تقلید شخصی پر سخت شدید تاکید فرماتے اورا س کے خلاف کو منکر وشنیع وباطل وفظیع بتاتے رہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص378-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں غیر مقلدوہابیہ کی تیسری قسم کا بیان ہے۔یہ وہ وہابیہ ہیں جو نہ کفرکلامی کا عقیدہ رکھتے ہوں،نہ ہی کسی کفرکلامی کاعقیدہ رکھنے والے کو مومن مانتے ہوں،بلکہ کفرکلامی کے عقیدہ والے کو صاف لفظوں میں کافر کہتے ہوں،گرچہ وہ ان کے پیشو ا ہوں۔ایسے وہابیہ پر صرف لزوم کفر کا حکم ہوگا،یعنی ایسے لوگ کافر فقہی ہوں گے،کیوں کہ وہابیہ کے عقائد میں کفر کلامی کے علاوہ بھی بہت سے فقہی کفریات ہیں۔ اس نے کفر کلامی کا عقیدہ نہیں رکھا اور کفرکلامی کا اعتقادرکھنے والے کو مومن نہیں مانا، لیکن کفر فقہی کا انکار نہیں کیا،یا کفر فقہی کا انکار تو کیا،لیکن اس اعتقادوالے کو کافر فقہی نہیں مانا تو وہ بھی کافر فقہی ہوگا۔ جب کفر فقہی کا انکار کردے اور اس کے قائلین کوکافر فقہی مان لے، گرچہ اس کے پیشوا ہوں تواب اس پر کفرفقہی کا حکم بھی عائد نہیں ہوگا۔ قسم سوم کی مزید تفصیلات درج ذیل ہیں: ”پھر یہ بھی ان کے صرف ایک مسئلہ ترک تقلید کی رو سے ہے۔ باقی مسائل متعلقہ انبیاواولیا وغیرھم میں ان کے شرک کی اونچی اڑانیں دیکھئے۔فقیر نے رسالہ: اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ میں کلام الٰہی کی ساٹھ آیتوں اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تین سو حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ ان کے مذہب نامہذب پر نہ صرف امت مرحومہ، بلکہ انبیائے کرام وملائکہ عظام وخود حضور پر نور سید الانام علیہ افضل الصلوٰ ۃ والسلام حتی کہ خود رب العزۃ جل وعلا تک کوئی بھی شرک سے محفوظ نہیں:ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ پھر ایسے مذہب ناپاک کے کفریات واضحہ ہونے میں کون مسلمان تامل کر سکتا ہے، پھر یہ عقائد باطلہ و مقالات زائغہ جب ان حضرات کے اصول مذہب ہیں تو کسی وہابی صاحب کا ان سے خالی ہونا کیوں کر معقول۔یہ ایسا ہو گا جس طرح کچھ روافض کو کہا جائے، تبرا وتفضیل سے پاک ہیں۔ اور بالفرض تسلیم بھی کر لیں کہ کوئی وہابی صاحب کسی جگہ کسی مصلحت سے ان تمام عقائد مردودہ و اقوال مطرودہ سے تحاشی بھی کریں، یا بفرض غلط فی الواقع ان سے خالی ہوں تو یہ کیوں کر متصور کہ ان کے اگلے پچھلے چھوٹے بڑے مصنف مؤلف واعظ مکلب نجدی، دہلوی، بنگالی،بھوپالی وغیرھم جن کے کلام میں ان اباطیل کی تصریحات ہیں، یہ صاحب ان سب کے کفر یا اقل درجہ لزوم کفر کا اقرار کریں۔ کیا دنیا میں کوئی وہابی ایسا نکلے گا کہ اپنے اگلے پچھلوں پیشواؤں ہم مذہبوں سب کے کفر و لزوم کفر کا مقر ہو،او ر جتنے احکا م باطلہ سے کتاب التوحید و تقویۃ الایمان و صراط مستقیم و تنویر العینین و تصانیف بھوپالی و سورج گڑھی و بٹالوی وغیرھم میں مسلمانوں پر حکم شرک لگا یا جو معاذ اللہ خدا و رسول وانبیا و ملائکہ سب تک پہنچا۔ان سب کو کفر کہہ دے،حاش للہ ہر گز نہیں، بلکہ قطعاً انھیں اچھا جانتے،امام وپیشوا وصلحائے علما مانتے،اور ان کے کلمات و اقوال کو با معنی و مقبول سمجھتے،اور ان پر رضا رکھتے ہیں اور خودکفریا ت بکنا،یا کفریا ت پر راضی ہونا، برا نہ جاننا، ان کے لیے معنی صحیح ماننا سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے ان امور کے بیان میں جو بالاتفاق کفر ہیں, نقل فرمایا: (من تلفظ بلفظ کفر یکفر وکذا کل من ضحک او استحسنہ او رضی بہ یکفر) جس نے کلمہ کفر یہ بولا اس کو کافر قرار دیا جائے گا،یونہی جس نے اس کلمہ کفر پر ہنسی کی یا اس کی تحسین کی اور اس پر راضی ہوا ا س کو بھی کافر قرار دیا جائے گا۔(ت) بحرالرائق میں ہے:من حسن کلام اھل الاھواء وقال معنوی اوکلام لہ معنی صحیح ان کان ذلک کفرا من القائل کفر المحسن۔ جس نے بے دینی کی بات کو سراہا، یا بامقصد قرار دیا،یااس کے معنی کو صحیح قرار دیا تو اگر یہ کلمہ کفر ہو تو اس کاقائل کافر ہوگا اورا س کی تحسین کرنے والا بھی۔(ت) تو دنیا کے پردے پر کوئی وہابی ایسانہ ہوگا جس پرفقہائے کرام کے ارشادات سے کفرلازم نہ ہو، او ر نکاح کا جواز عدم جواز نہیں،مگر ایک مسئلہ فقہی،تو یہاں حکم فقہا یہی ہوگا کہ ان سے مناکحت اصلا جائز نہیں۔خواہ مرد وہابی ہو،یاعورت وہابیہ اور مرد سنی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے،اسے کافرنہیں کہتے،مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے۔ دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے،مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی،یہاں مانع نکاح ہوگی کہ جب جمہور فقہائے کرام کے حکم سے ان پر کفر لازم توا ن سے مناکحت زنا ہے تو یہاں احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے دور رہیں اور مسلمانوں کو باز رکھیں۔ للہ انصاف کسی سنی صحیح العقیدہ فقہائے کرام کا قلب سلیم گوارا کرے گا کہ اس کی کوئی عزیزہ کریمہ ایسی بلا میں مبتلا ہوجسے فقہائے کرام عمر بھر کا زنا بتائیں۔تکفیر سے سکوت زبان کے لیے احتیاط تھی اور اس نکاح سے احتراز فرج کے واسطے احتیاط ہے۔ یہ کون سی شرع کہ ز بان کے باب میں احتیاط کیجئے اور فرج کے بارے میں بے احتیاطی۔ انصاف کیجئے تو بنظر واقع حکم اسی قدر سے منقح ہولیا کہ نفس الامر میں کوئی وہابی ان خرافات سے خالی نہ نکلے گا اور احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیر واقعیہ کا۔بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر۔بلکہ انھوں نے تصریح کی ہے کہ فقہی احکام کا مدار غالب امور بنتے ہیں،نادر امور پیش نظرنہیں ہوتے۔(ت) (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص382-381-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالا عبارت میں خط کشیدہ عبارتوں پر توجہ دیں۔منقولہ عبارت میں ان غیر مقلدوہابیہ کا ذکر ہے جوکسی ضروری دینی کے منکر نہ ہوں،نہ ہی ضروری دینی کے کسی منکرکو مومن مانتے ہوں۔کفر کلامی کے علاوہ وہابی مذہب میں بہت سے کفریات فقہیہ ہیں۔ (۱)ا ب یہ شخص اگر ان فقہی کفریات کومانتا ہے تو کافر فقہی۔(۲)اگر لوگوں کے سامنے ان فقہی کفریات کا انکار کرتا ہے، (۳) یا ان فقہی کفریات کو حقیقت میں نہیں مانتا ہے تو بھی اپنے رہنماؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی تو نہیں مانتا ہو گا،بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ ان اقوال کو قابل تاویل مانتا ہے،اوران عبارتوں کے صحیح معانی مانتا ہے اور وہاں پر لازم آنے والے کفر کا نہ اقرار کرتا ہے،نہ ہی اپنے پیشواؤں کوکافر فقہی مانتا ہے تو یہ بھی کافر فقہی ہوا۔ فقہی احکا م کا مدار اکثری احوال پر ہوتا ہے۔اسی کا ذکر آخرمیں اس طرح ہے۔ ”احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیرواقعیہ کا:بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر“۔ کفریات فقہیہ سے خالی ہونے کی دوصورتیں ہیں: (۱)ایک یہ کہ ان کفری فقہیات کوجانتا ہو، لیکن مانتا نہ ہو۔ (۲)دوسری صورت یہ ہے کہ ان فقہی کفریات کو جانتا ہی نہ ہو۔ ان دونوں صورتوں پر بھی کفرفقہی کاحکم عائد ہوگا، کیوں کہ گرچہ وہ شخص ان کفریات کونہیں جانتا یانہیں مانتا ہے،لیکن اس کے مذہبی پیشواؤں کی کتابوں میں وہ کفریات فقہیہ موجود ہیں،اورہروہابی ان کتابوں کواور ان کے مشمولات کو صحیح مانتا ہے۔جب وہ ان کتابوں کے مشمولات کو نہ ماننے کی صراحت کردے اور ایسے قائلین کو کافر فقہی مان لے،تب وہ کافر فقہی نہیں ہوگا۔اس کابیان قسم چہارم میں ہے۔ اسی طرح وہ دیابنہ جو کسی ضروری دینی کے منکر نہ ہوں،نہ ہی ضروری دینی کے کسی منکرکو مومن مانتے ہوں۔کفر کلامی کے علاوہ دیوبندی مذہب میں بہت سے کفریات فقہیہ ہیں۔ا ب یہ شخص اگر ان فقہی کفریات کو مانتا ہے تو کافر فقہی۔ اگر ان فقہی کفریات کا انکار کرتا ہے،یا ان فقہی کفریات سے لاعلم ہے تو بھی اپنے رہنماؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی تو نہیں مانتا ہوگا،بلکہ عام مشاہدہ ہے کہ ان اقوال کو قابل تاویل مانتا ہے، اور ان عبارتوں کے صحیح معانی مانتا ہے اور وہاں پر لازم آنے والے کفر کا نہ اقرار کرتا ہے،نہ ہی اپنے پیشواؤں کو کافر فقہی مانتا ہے تو یہ بھی کافر فقہی ہوا۔ کافر فقہی ہونے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں،ان پر غور کیا جائے۔ان میں تیسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ ان فقہی کفریات سے لاعلم ہوتو بھی وہ کافر فقہی ہوگا۔اس کا سبب بھی منقولہ عبارت میں تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیاکہ ان کفریات فقہیہ کے باوجود اپنے پیشواؤں کوکافر فقہی نہیں مانتا ہے،نہ ہی ان عبارتوں کوغلط کہتا ہے،بلکہ قابل تاویل مانتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ متکلمین کافر فقہی کو گمراہ کہتے ہیں تو تیسرا اور چوتھا طبقہ متکلمین کے یہاں گمراہ ہوگا۔فقہا کے یہاں تیسرا طبقہ کافر فقہی ہوگا۔ گمراہ محض (جوگمراہ کافر فقہی وکافر کلامی نہ ہو)اور کافر فقہی کے احکام میں کچھ فرق ہے، جیسے فاسق غیر معلن اور فاسق معلن کے احکام میں کچھ فرق ہے۔ کفر فقہی کی تبلیغ اور دیابنہ: بہت سے امور کفرفقہی ہیں اور دیابنہ علی الاعلان اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ (1)جوبھی دیوبندی ہوگا،وہ اپنے بزرگوں کی کتابوں کو صحیح مانتا ہوگا۔ان کتابوں میں کفرفقہی وکفر کلامی موجودہے۔ایسی صورت میں وہ لزومی طورپر کفر یات فقہیہ وکفریات کلا میہ کا بھی معتقد ہوگا۔ اس لزوم کے سبب کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوگا،لیکن کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا۔ امام اہل سنت نے الکوکبۃ الشہابیہ میں رقم فرمایا: ”یہ نمونہ کفریات امام الطائفہ تھا۔اتباع واذناب کہ اس کے عقائد کوصحیح وحق جانتے،اور اسے امام وپیشوا مانتے ہیں،لزوم کفر سے کیوں کر محفوظ رہ سکتے ہیں“۔(الکوکبۃ الشہابیہ:کفر 69ص229-فتاویٰ رضویہ:جلد پانزدہم) (2)دیابنہ اور وہابیہ اعلانیہ اپنی تقریر وتحریر میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ پر قادر ہے،ورنہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بندوں کی قدرت سے کم ہوجائے گی۔اللہ تعالیٰ کوجھوٹ یا کسی بھی عیب پر قاد ر ماننا کفر فقہی ہے۔(سبحان السبوح) (3)دیابنہ اور وہابیہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ نبی کو علم غیب نہیں ہوتا۔ نبی کو پیٹھ پیچھے کا علم نہیں۔ اس سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے علم غیب کا انکار ہوجاتا ہے اور یہ کفر فقہی ہے۔ اگر من کل الوجوہ علم غیب کا انکار کردیں تو تکذیب قرآن کریم اور ضروری دینی کا انکار اورکفرکلامی ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:ص 36-رضا اکیڈمی ممبئ) (4)حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے بڑے بھائی کی طرح مانتے ہیں۔یہ یہ بھی کفر فقہی ہے۔اپنے جیسا بشر کہتے ہیں۔یہ کفار کا طریقہ ہے۔یہ رتبہ گھٹانا ہے۔ (5)جومومن کو مشرک کہے،وہ کافر فقہی ہے۔وہابیہ اور دیابنہ معمولات اہل سنت وجماعت کو شرک کہتے ہیں تو اس اعتبارسے مومن کومشرک کہنا لازم آیا۔یہ بھی کفر فقہی ہے۔ یارسول اللہ کہنا شرک،میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منانا شرک،روضہ نبوی کی زیارت شرک،روضہ نبوی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا شرک،انبیاواولیاسے مددطلب کرنا شرک، مصیبت کے وقت ان کو پکارنا شرک،چادر چڑھانا شرک،فاتحہ ونیاز شرک،قبروں کی زیارت شرک۔وہابیہ اور دیابنہ کے یہاں شرک کی لمبی فہرست ہے۔ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رسالہ:الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد میں وہابیہ اور دیابنہ کے دوتیس کفریات کو شمار کرایا ہے،جن میں چند کے علاوہ سب کفر فقہی ہیں۔اسی کی شرح کشف ضلال دیوبند میں بڑے بھائی کہنے کو کفر فقہی بتایا گیا ہے۔(ص17:اعلی حضرت نیٹ ورک) الکوکبۃ الشہابیہ میں کفرنمبر:70میں مومن کومشرک کہنے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ منقولہ عبارت میں درج ذیل عبارت سے یہی مرادہے کہ وہابیہ معمولات اہل سنت کو شرک ماننے کے سبب کافر فقہی ہیں،کیوں کہ اس سے مومنین کا کافرہونا لازم آتا ہے۔ ”باقی مسائل متعلقہ انبیاواولیا وغیرھم میں ان کے شرک کی اونچی اڑانیں دیکھئے“۔ غیر مقلد وہابیہ کی قسم چہارم: ”اور اگراس سے تجاوز کرکے کوئی وہابی ایسا فرض کیجئے جوخود بھی ان تمام کفریات سے خالی ہو،اور ان کے قائلین جملہ وہابیہ سابقین ولاحقین سب کو گمراہ وبدمذہب مانتا، بلکہ بالفرض قائلان کفریات مانتا اور لازم الکفر ہی جانتا ہو،اس کی وہابیت صرف اس قدر ہو کہ باوصف عامیت تقلید ضروری نہ جانے اور بے صلاحیت اجتہاد پیروی مجتہدین چھوڑ کر خود قرآن وحدیث سے اخذ احکام روا مانے تو اس قدرمیں شک نہیں کہ یہ فرضی شخص بھی آیہ کریمہ قطعیہ ((فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون))(اگر یہ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علما) سے پوچھو۔ت)،اور اجماع قطعی تمام ائمہ سلف کا مخالف ہے۔ یہ اگر بطور فقہا لزوم کفر سے بچ بھی گیا تو خارق اجماع ومتبع غیر سبیل المومنین وگمراہ وبددین ہونے میں کلام نہیں ہوسکتا،جس طرح متکلمین کے نزدیک دو قسم پیشین کافر بالیقین کے سوا باقی جمیع اقسام کے وہابیہ“۔ (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:رسالہ ازالۃ العار:ص383-382-جامعہ نظامیہ لاہور) توضیح:منقولہ بالاعبارت میں غیر مقلد وہابیہ کی چوتھی قسم کا بیان ہے،یعنی جو غیر مقلدوہابی ایسا کوئی عقیدہ نہ رکھتا ہوجوکفر کلامی یا کفر فقہی ہو۔ اسی طرح صراحت کے ساتھ یعنی نام بہ نام کافر کلامی کوکافر کلامی اور کافر فقہی کو کافر فقہی مانتا ہوتو اس کے اندرصرف تقلید کو ضروری نہ سمجھنے اور بلاقوت اجتہاد خودسے اجتہاد کرنے کا عیب پایا گیا۔تقلید پراجماع ہے، اوریہ شخص اجماع مومنین کے انکار کے سبب گمراہ وبددین ہے۔کافر کلامی یا کافر فقہی نہیں۔ اسی طرح جو دیوبندی ایسا کوئی عقیدہ نہ رکھتا ہوجوکفر کلامی یا کفر فقہی ہو۔اسی طرح صراحت کے ساتھ یعنی نام بہ نام کافر کلامی کوکافر کلامی اور کافر فقہی کو کافر فقہی مانتا ہوتو اس کے اندرصرف شعار اہل سنت یعنی فاتحہ ونیاز،میلاد وعرس اور سلام وقیام وغیرہ امورمستحبہ کو بدعت اور ناجائز کہنے کا عیب پایا گیا۔ یہ شخص شعاراہل سنت کے انکاراورشعاردیوبندیت کواختیارکرنے کے سبب گمراہ وبدمذہب ہے۔کافر کلامی یا کافر فقہی نہیں۔ اگر ان معمولات کوناجائز کی بجائے شرک،یاسنیوں کومشرک سمجھے تو یہ بھی کافر فقہی ہو گا۔مومن کومشرک سمجھنے کے سبب کفر فقہی کا حکم عائد ہو گا۔ جو لوگ محض نمازوروزہ کی تبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں،گر چہ وہ دیابنہ کے کفر وضلالت سے نا آشنا ہو ں،لیکن وہ سلام وقیام،میلادوعرس،نیازوفاتحہ وغیرہ مستحب وجائز امور کو بدعت اور غلط کہنے لگتے ہیں، ان امورکو غلط اوربدعت کہنا وہابیوں کا شعار ہے۔(فتاویٰ رضویہ جلد ششم(ص:170 154-185-) شعار کفر اختیارکرنے والا کافر مانا جاتا ہے،اور کسی مرتدفرقہ یا گمراہ فرقہ کے شعار کو اپنا نے والا گمراہ مانا جاتاہے۔ الحاصل وہ دیوبندی جوکسی ضروری دینی کا منکر نہیں اور اس کو اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں کا علم نہیں،اور اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ علمائے عرب وعجم نے اشخاص اربعہ کو کافر قرار دیا ہے،ایسے لوگ کافر کلامی نہیں۔احتمال کے سبب کفر کلامی کا حکم معدوم ہوجاتا ہے۔ اسی احتمال کا ذکر کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے قسم سوم کے بیان رقم فرمایا تھا: ”ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس باب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں اور ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں، نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے،اسے کافرنہیں کہتے،مگر یہ صرف برائے احتیاط ہے۔دربارہ تکفیر حتی الامکان احتیاط اس میں ہے کہ سکوت کیجئے،مگر وہی احتیاط جو وہاں مانع تکفیر ہوئی تھی،یہاں مانع نکاح ہوگی“۔ کفر فقہی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کفرفقہی کا معتقد نہ ہو،یا اس مذہب کے فقہی کفریات سے ناآشنا ہو تو بھی اس پر کفر فقہی کا حکم عائد ہوگا،کیوں کہ عام طورپرکوئی بدمذہب اپنے مذہب کے پیشواؤں کو ان فقہی کفریات کے سبب کافر فقہی قرار نہیں دیتا،بلکہ ان کفریات کی تاویل کرتا ہے،اور ان عبارتو ں کو بامعنی قرار دیتا ہے۔ قسم ثالث پر کفرفقہی کا حکم عائد کرتے ہوئے امام اہل سنت نے رقم فرمایاتھا: ”احکام فقہیہ میں واقعات ہی کالحاظ ہوتا ہے،نہ احتمالات غیرواقعیہ کا:بل صرحوا ان احکام الفقۃ تجری علی الغالب من دون نظر الی النادر“۔ ہاں،اگر وہ صراحت کے ساتھ ان فقہی کفریات کے قائلین کو کافرفقہی مانتا ہے اوران کفریات فقہیہ کونہیں مانتا ہے تو محض شعاربدمذہبیت اختیار کرنے کے سبب گمراہ وبدمذہب ہوگا۔ کافرفقہی یاکافر کلامی نہیں ہوگا۔ بفضلہ تعالیٰ چاروں طبقات کا واضح حکم بیان ہوگیا،تاہم کوئی سوال ہو تو پیش کریں۔ اسی طرح چارطبقات دیگرمرتدفرقے میں ہوسکتے ہیں۔چوں کہ وہابیہ اور دیوبندیہ کی طرح فی الوقت شیعہ فرقہ پایا جاتا ہے،ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے چار طبقات کا بیان ہوگا۔ عہد حاضر کے روافض کافر کلامی،ماقبل کے تبرائی شیعہ کافرفقہی اورفرقہ تفضیلیہ گمراہ ہیں