Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'شیعہ'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. *سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت تین باتوں کا اقرار جرم کیا تھا؟* *اس کی حقیقت کیا ہے؟* *✍️شیعہ کی جہالت کا جواب✍️* *الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہؐ۔* *وعلی الک واصحبک یاسیدی یا خاتم المرسلین۔* *صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم* *⚔️🗡️ضرب حیدری🗡️⚔️* عبد الرحمن ابن عوف ، ابوبکر کی بیماری کے ایام میں اسکے پاس اسکی عیادت کرنے گیا اور اسے سلام کیا، باتوں باتوں میں ابوبکر نے اس سے ایسے کہا: مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا، اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا. *الجواب بعون الوہاب* ✍️پہلی بات اس روایت کی تین اسنادہیں اور تینوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سند بھی درجہ صحیح و حسن تک نہیں جاتی۔ *طریق نمبر 1* أنا حميد أنا عثمان بن صالح، حدثني الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي، حدثني علوان، عن صالح بن كيسان، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أباه عبد الرحمن بن عوف، دخل علي أبي بكر الصديق رحمة الله عليه في مرضه الذي قبض فيه ... فقال [أبو بكر] : « أجل إني لا آسي من الدنيا إلا علي ثَلاثٍ فَعَلْتُهُنَّ وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُنَّ، وثلاث تركتهن وددت أني فعلتهن، وثلاث وددت أني سألت عنهن رسول الله (ص)، أما اللاتي وددت أني تركتهن، فوددت أني لم أَكُنْ كَشَفْتُ بيتَ فاطِمَةَ عن شيء، وإن كانوا قد أَغْلَقُوا علي الحرب. *الخرساني،زنجويه الأموال، ج 1، ص 387۔* *الدينوري، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 21، تحقيق: خليل المنصور، باتحقيق شيري، ج1، ص36، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.* *تاريخ الطبري، ج 2، ص 353.* *العقد الفريد، ج 4، ص 254.* *مروج الذهب، ج 1، ص 290* ترجمہ اوپر والا ہی ہے یہ اس کی عربی عبارت ہے۔ ✍️اس سند میں علوان بن داود البجلی منکر الحدیث ہے۔۔ *1* قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح *منكر الحديث.* *2* وقال العقيلي: *له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.* *3* وقال أبو سعيد بن يونس: *منكر الحديث.* *طریق نمبر 2* أخبرنا أبو البركات عبد الله بن محمد بن الفضل الفراوي وأم المؤيد نازيين المعروفة بجمعة بنت أبي حرب محمد بن الفضل بن أبي حرب قالا أنا أبو القاسم الفضل بن أبي حرب الجرجاني أنبأ أبو بكر أحمد بن الحسن نا أبو العباس أحمد بن يعقوب نا الحسن بن مكرم بن حسان البزار أبو علي ببغداد حدثني أبو الهيثم خالد بن القاسم قال حدثنا ليث بن سعد عن صالح بن كيسان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه. *ابن عساكر الشافعي.* *تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 30، ص417 ـ 419۔* ✍️اس نقل کرنے کے بعد امام مدائنی نے کہا سند مختصر ہے مطلب سند میں انقطاع ہے۔ *كذا رواه خالد بن القاسم المدائني عن الليث وأسقط منه علوان بن داود وقد وقع لي عاليا من حديث الليث وفيه ذكر علوان.* ✍️امام عقیلیؒ نے علوان والے طریق کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اور لیث والا بھی اور آخر میں فرمایا کہ *ابو بکر والی حدیث اضطراب کا شکار ہے۔* ✍️ *وأورد العقيلي أيضًا من طريق الليث:* حدثني علوان بن صالح عن صالح بن كيسان أن معاوية قدم المدينة أول حجة حجها بعد اجتماع الناس عليه ... فذكر قصة له مع عائشة بنت عثمان , وقال: لا يعرف علوان إلا بهذا مع اضطرابه في حديث أبي بكر. طریق نمبر 2 کی سند میں ایک راوی ہے ✍️أبو الهيثم خالد بن القاسم اس پر کذاب، متروک اور وضح تک ہی جرح ہے۔✍️ اس کا پورا نام: *خالد بن قاسم* ہے اور اس نے شہرت: *خالد بن القاسم المدائني* کے نام سے پائی اور اس کی کنیت:*أبو الهيثم* ہے *1* إسحاق بن راهويهؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *2* إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فرماتے ہیں کہ: *کذاب يزيد في الأسانيد* *3* محمد بن إسماعيل البخاريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك تركه علي والناس.* *4* مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك الحديث.* *5* أبو أحمد بن عدي الجرجانيؒ فرماتے ہیں کہ: *له عن الليث مناكير.* *6* امام الذهبيؒ فرماتے ہیں کہ : *ذكر فيه ما يقتضي الوضع.* *طریق نمبر 3* حدثني حفص بن عمر، ثنا الهيثم بن عدي عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري أن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت علي أبي بكر في مرضه. *البلاذري. أنساب الأشراف، ج 3، ص 406 ، طبق برنامه الجامع الكبير.* ✍️اس طریق میں *الهيثم بن عدي* متروک الحدیث ہے۔ اور اضطراب بھی تینوں اسناد میں ہے۔ اس کا پورا نام:. *الهيثم بن عدي بن عبد الرحمن بن زيد بن أسيد بن جابر بن عدي بن خالد بن خيثم بن أبي حارثة* ہے *1:* أبو بكر البيهقيؒ فرماتے ہیں کہ *متروك الحديث، ونقل عن ابن عدي أنه: ضعيف جدا* *2:* أبو حاتم الرازيؒ فماتے ہیں کہ *متروك الحديث۔* *3:* أبو داود السجستانيؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *4:* أبو زرعة الرازي فرماتے ہیں کہ : *ليس بشيء* *5:* امام يحيى بن معين الحنفیؒ فرماتے ہیں کہ: *ليس هو بثقة، ومرة: ليس بشيء، ومرة: ليس بثقة كان يكذب* خلاصہ کلام آپ کی پیش کردہ روایت سے استدلال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کیوں کہ تینوں طریق میں ایک طریق بھی قابل استدلال نہی ہے۔ تینوں اسناد میں وضح،کذاب اور متروک راوی موجود ہیں۔ الحکم الحدیث: متروک (طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 17.09.2021. 09 صفر المظفر 1443ھ
  2. رافضیوں کی طرف سے وائرل ایک پوسٹ کا جواب لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ صحابہ کو نہیں مانتے, جب پوچھوں کہ کس صحابی کو نہیں مانتے تو جواب دیتے ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان!!!!! او بھائی کسی کو نہ ماننے کی بھی تو وجہ ہوتی لیکن جن کے دماغوں میں چوہدری ثلاثہ بیٹھے ہے ان کہ دماغ ہی بیٹھ گے ہے تم کو مولویوں نے یہ تو بتا دیا کہ شیعہ ان کو نہیں مانتے مگر تم کو مولویوں نے یہ کیوں نہیں بتایا کے کس وجہ سے نہیں مانتے' بتاؤ کہ کس وجہ سے نہیں بتایا کے شیعہ ثلاثہ(ابوبکروعمروعثمان) کو کیوں نہیں مانتے کیوں کے مولوی کو پتہ ہے کہ اگر بتا دیا تو لنگر بند ,بوری بسترا بند. اور نہ ہی ثلاثہ کے مریدوں کو زحمت ہوتی ہے کہ ہم مولوی صاحب سے پوچھ لے. ہر انسان جانتا ہے کہ کسی کو نہ ماننے کی بھی کوئی وجہ تو ضرور ہوتی ہے . آخر وہ کونسی وجوہات ہے جس کی وجہ سے شیعہ ثلاثہ سے متنفر ہے? تمہاری صحیح بخاری جلد2 باب فرض الخمس میں لکھا ہے کہ رسول ؐ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؑ کو انکا حق وراثت ابو بکر و عمر نے نہ دیا جس کی وجہ سے سیدہؑ مرتے دم تک ان سے ناراض رہی. صحیح مسلم باب حکم الفئے صفحہ644 طبع مصر میں صاف لکھا ہے ک مولا علی ؑ نے وفات سیدہؑ کی خبر بھی ابوبکر کو دینا گوارہ نہ کیا. اے مسلمانوں بتاؤ کہ اگر آج کوئی سید زادی تم سے کوئی جگہ مانگے تو تم خالی نہیں جانے دو گے افسوس کہ رسولؐ کی بیٹی اپنی ہی وراثت سے خالی لوٹا دی گئی. اے مسلمان تو خود سوچ جس سے نبی زادیؑ راضی نہیں ہم کس طرح اس کو مومن مان لے? اے سنی بھائیوں تمہاری متعبر کتاب المصنف ابن ابی شیبہ ,مسند الفاطمہؑ امام سیوطی میں لکھا ہے کہ ابوبکر کی خلافت سے جناب علیؑ و فاطمہؑ نے انکار کیا جس کی وجہ سے عمر نے جناب فاطمہ ؑ کو دھمکی دی کے اگر بیعت نہ کی گئی تو تیرے گھر کو آگ لگا دے گے. مسلمانوں تمہیں حق کا واسطہ خود سوچوں کے جو اہلبیتؑ کو دھمکیاں دے کیا وہ جانشین بانئ اسلام ہو سکتے ہے? تمہاری ہی کتاب روائح مصطفی صفحہ36,الملل و النحل صفحہ51شہرستانی میں لکھا ہیں کہ جناب رسول ؐ کی بیٹی سیدہ زاہرہؑ کے قاتل....................... اور جان لو کہ مولا علیؑ نے حکم رسولؐ کے تحت اس موقع پر تلوار نہیں آٹھائی کیوں کے رسولؐ کی یہ وصیت تھی(مدارج النبوة جلد2 محدث دہلوی). اور یہ مدینہ میں خانہ بتولؑ پر اسی طرح حملہ ہوا جس طرح خانہ عثمان ہر ہوا. تمہاری ہی کتاب صحیح بخاری جلد2 کتاب التفسیر باب جامع القرآن میں لکھا ہیں کے عثمان نےقرآن کے نسخہ جات کو آگ لگانے کا حکم دیا. تمہاری ہی کتاب صحیح مسلم میں لکھا ہیں کے رسول ؐ نے وصیت کے وقت قلم دوات عمر سے مانگی اور عمر نے نہ دی اور کہا کہ رسولؐ معاذاللہ بکواس کر رہے ہے. تمہاری ہی کتاب رجال مشکوة میں لکھا ہیں کے مروان کو رسولؐ نے جلا وطن کیا مگر عثمان نے اپنے دور خلافت میں واپس منگوا لیا. کیا یہ توہین حکم رسولؐ نہیں? تمہاری ہی کتاب کنزالاعمال جلد4 صفحہ140 اور الفاروق شبلی نعمانی صفحہ78 میں لکھا ہے کہ مذکورہ شخصیات نے خلافت کے پیچھے جنازہ رسولؐ چھوڑ دیا. اے مسلمان ہم ان کو کیا مانے. مرزا قادیانی نبوت پر حملہ کرے تو کافر اور جو خاندان نبوتؐ پر حملہ کرے وہ مسلمان کیسے? ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ اکرامؓ تھے کیا صرف پوری صحابیت ثلاثہ تک ہی محدود ہے? آپ کو حضرت بلالؓ و سلمان فارسیؓ و حذیفہ بن یمانؓ و ابوذرؓ و عبداللہ ابن عباسؓ و عبداللہ ابن مسعودؓ و محمد بن ابوبکرؓ و مقدارؓ و عمار یاسرؓ و خزیمہ بن ثابتؓ و ابوقتادہ حارث بن ربعیؓ و کعب بن عمروؓ و عمیرہ بن قرہ اللیثیؓ و ابوعمرہ انصاریؓ و مالک بن نویرہؓ و مالک بن تیہانؓ و قیس بن عبادہؓ و عبداللہ بن بدیلؓ و قیس بن مکشوحؓ و جبلہ بن ثعلبہ انصاریؓ و حارث بن عمرؓ و ربعی بن عمرؓ و زید بن ارقمؓ و مسلم بن عوسجہؓ و اسید بن ثعلبہؓ و ابو بردہ انصاریؓ و ابو حبہ بدریؓ و ابو فضالہ انصاریؓ و ابو ایوب انصاریؓ و ابو محمد انصاریؓ و ابو یعلی انصاریؓ و زبید بن عبدؓ و عمرو بن جموحؓ و جنلہ بن عمر انصاریؓ و وہب بن عبداللہؓ و ابوالورد مازنیؓ و ابو قدامہ بن الحارثؓ و عبداللہ بن ذیابؓ و یعلی بن عمیرؓ و عدی بن حاتمؓ و خاکہ بن سعدؓ و قرظہ بن کعبؓ و مغیرہ بن نوفلؓ و مخنف بن سلم غامدیؓ و عبدالرحمٰن بن عدیس بلویؓ و عمرو بن لحمقؓ و سلمان بن صردؓ و براء بن عازبؓ و عمر بن ابی سلمہؓ و ہند بن ابی ہالہؓ و ثعلبہ بن عمرو انصاریؓ و یعلی بن امیہؓ و عبداللہ بن ابی طلحہؓ و عامر بن واثلہؓ الی الآخرہ...... جیسے مخلص اصحاب رسولؓ نظر کیوں نہیں آتے! اور جان لو کہ ہم شیعہ کردار پسند ہے نہ کہ شخصیت پسند, اگر شخصیت ہی معیار ایمان ہوتی تو رسول ؐ کے چچا ابو لہب کے بارے بھی فیصلہ کر لوں. بس اتنا ہی کہوں گا کہ قیامت والے دن جناب رسولؐ و بتولؑ کو کیا منہ دیکھاوں گے! سلام ہو اصحاب رسولؐ پر' لعنت ہو دشمنِ بتولؑ پر. اس کا جواب سُنی،ہم شیعوں کو مؤمن و مسلمان نہیں مانتے بلکہ کافر و مرتد مانتے ہیں... ہم سُنّیوں سے پوچھو تو سہی ہم شیعوں کو مؤمن و مسلمان کیوں نہیں مانتے؟ تو سُنو ! رافضیوں سے اصل اختلاف ان کے کُفریہ عقائد پر ہے: ایک تو وہ قرآن کو مکمل نہیں مانتے اور جو مانتے ہیں وہ ان کو کافر نہیں کہتے جو قرآن کو مکمل نہیں مانتے بلکہ ان کو اپنا امام اور مجتہد کہتے ہیں، دوسرا وہ آئمۂ اہل بیت(رضی اللہ عنہم اجمعین) کو انبیاء کرام علیہم السلام سے بڑھاتے اور افضل مانتے ہیں حالانکہ ایک غیر نبی کو ایک نبی سے بڑھانا ایک کفر اور بارہ کو بڑھانا بارہ کفر اور بارہ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کرام علیہم السلام سے بڑھانا کتنے کفر ہوں گے... ضرب خُود دے لو... (یاد رہے ہمارے نزدیک آئمۂ اہل بیت (رضی اللہ عنہم اجمعین) اپنے وقت کے مجتہد ولی اور غوث تھے، نبی اور معصوم نہیں)، تیسرا رافضی شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کو گالی دیتے اور لعنت کرتے ہیں اور یہ ہمارے فقہاء نے کفر لکھا ہے، چوتھا رافضی، امّاں عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ فقہیہ (رضی اللہ عنہا) پر بدکاری کی تہمت رکھتے ہیں اور اس کو امام ذہبی نے کتاب الکبائر میں کفر لکھا ہے. پانچواں رافضیوں کا کلمہ اور اذان الگ ہے اور جو آئمۂ اہلبیت(رضی اللہ عنہم اجمعین) کے کلمہ کے بھی خلاف ہے جیسا کہ خود رافضیوں کی کتب میں بھی لکھا ہے ... یاد رہے کلمہ نبی کا ہوتا ہے غیر نبی کا نہیں. یہ? پنجتن پاک کی نسبت سے فی الحال اتنے باقی پھر سہی. اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حوالے سے رافضیوں کے مقابلے میں ہمارے لیے مولی علی پاک سرکار کرم اللہ تعالیٰ وجہہ اور سبط رسول امام حسن مجتبی(رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور ریحانۂ رسول امام حسین پاک (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اور دیگر آئمۂ اہل بیت کا عمل ہی بطورِ دلیل کافی ہے کہ وہ ان تینوں ہستیوں کو اپنا امام مانتے تھے... اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے. آمین
×
×
  • Create New...