Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'شرک کیا ہے'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. سوال یہ ہے کہ کب کوئ ہستی الٰہ بن جاتی ہے کسی ہستی کے بارے میں کیا ماننے سے وہ الہٰ بن جا تی ہے(چاہے زبان سے اُس کے لیے الہٰ کا لفظ نہ بھی نکلے) کیسے کوئ ہستی اللہ کے ساتھ شریک ٹھرتی ہے؟؟؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ، شرک کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے جن لوگوں کو رسول محمدﷺ نے توحید کی دعوت دی اُن کا شرک کیا تھا، محمدﷺ کی دعوتِ توحید کیا تھی؟ اللہ کے لیے کس چیز کوخاص کیا گیا ، غیر اللہ سے کس چیز کی نفی کی گئ۔ میرے پیارے رسول جناب محمدﷺ نے نبوت کے آغاز سے لے کر موت تک اپنی زندگی اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے گزاری۔آپ نے اللہ کی رضا کیلئے جو تکالیف اور پریشانیں برداشت کیں لوگوں کو جہنم سے نجات دلانے کیلئے جو قربانیاں دیں وہ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہیں اور آپ کی عظمت کا احساس بھی ہوتا ہے کہ آپ نے کتنا عظیم کام کیا اورآپ سے محبت میں اضافہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو پتھر بھی مار رہے ہیں گالیاں بھی دے رہے ہیں آپﷺ ان کے لیئے دعائے خیر کر رہے ہیں۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ آپ کی سیرت اور دعوت کیسے چلی اس کے لئے میرے پاس جگہ کم ہے سیرت کی کتابیں موجود ہیں ، سیرت ابن ہشام اورالرحیق المحتوم جناب صفی الرحمان مبارکپوری کی بڑی ہی شاندار کتابیں ہیں۔ جناب محمدﷺ نے پوری بصیرت کے ساتھ آپنی دعوت کا آغاز کیا، مکہ جو پورے عرب کا مذہبی مرکز تھا وہاں ان مشرکوں کے عقیدوں کے خلاف بات کرنا ، ان باطل الہوں کی حقیقت بیان کرنا ، توحید کا پیغام دینا بہت مشکل تھا۔ شروع میں آپ ﷺ نے خفیہ دعوت کا آغاز کیا ،جس میں آپﷺ نے کچھ خیر دیکھا اس کو دعوت دی پھر آپﷺ کو اللہ نے حکم دیا اعلانیہ دعوت کا ۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1971 حدیث مرفوع مکررات 27 متفق علیہ 15 عمر بن حفص بن غیاث، حفص بن غیاث، اعمش، عمرو بن مرہ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ (وانذر عشیرتک الاقربین) کہ اے رسول! اپنے رشتہ داروں کو ڈرایئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارنے لگے کہ اے بنی فہر! اے بنی عدی! قریش کے تمام لوگوں کو بلایا جب لوگ آ گئے اور جو نہیں آ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا ابولہب اور قریش بھی آئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہدوں کہ ایک بہت بڑا لشکر تمہارے اوپر حملہ کرنے کو تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرلو گے؟ سب نے کہا ضرور کریں گے کیونکہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں سچی دیکھی ہیں تب آپ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے شرک و کفر سے باز نہ آئے تو تم پر بڑا بھاری عذاب آنے والا ہے ابولہب بولا تو ہلاک ہو کیا تو نے ہمیں اسی لئے یہاں بلایا تھا چنانچہ اس وقت سورت تبت یدا الخ نازل ہوئی۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 503 حدیث مرفوع مکررات 4 متفق علیہ 1 محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، یونس بن بکیر، ہشام بن عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آیت کریمہ نازل ہوئی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈارئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ صفا پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے فاطمہ محمدﷺ کی بیٹی اے صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی میری پھوپھی اے عبدالمطلب کی اولاد میں اللہ کے سامنے تمہارے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا البتہ یہاں میرے مال میں سے جو چاہو لے لو۔ شروع میں تو کفار مکہ نے آپ ﷺ کی دعوت کے بارے میں کچھ سنا تو بھی اہمیت نہ دی لیکن جب لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا خاص کر اعلانیہ دعوت کے بعد تو جناب محمد ﷺ پڑ تکالیف اور مصیبتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 2413 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 0 بنومالک بن کنانہ کے ایک شیخ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذوالمجاز نامی بازار میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے لوگو! لا الہ الا اللہ کا اقرار کرلو تم کامیاب ہوجاؤ گے اور ابوجہل مٹی اچھالتے ہوئے کہتا جاتا تھا لوگو! یہ تمہیں تمہارے دین سے بہکا نہ دے، یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے معبودوں کو اور لات وعزی کو چھوڑ دو، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے، ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کیجئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سرخ چادریں زیب تن فرما رکھی تھیں ، درمیانہ قد تھا، جسم گوشت سے بھرپور تھا، چہرہ نہایت حسین وجمیل تھا، بال انتہائی کالے سیاہ تھے، انتہائی اجلی سفید رنگت تھی اور گھنے بال تھے۔ شرک اصطلاح کے اعتبار سے اللہ کے ساتھ شراکت (ذات، اختیارات، حکم،عبادت،صفات میں)کو کہتے ہیں تو پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ مشرکین مکہ (قرآن کے اولین مخاطب لوگوں )کے اللہ کے بارے میں کیا عقیدے تھے؟؟؟ آج ہمارے آکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم نے یہ مان لیا کہ اس زمین اور آسمان کو ہر چیز کو بنانے والی ذات اللہ ہے، ہر چیز پہ پورا اختیار رکھنے والا اللہ ہے، ہر چیز کا مالک اللہ ہے، ہر چیز کے پاس جو خوبی کمال ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، زمین اور آسمان سے رزق دینے والا اللہ ہے، تو اب ہم شرک کیسے کر سکتے ہیں، بات یہ ہے کہ یہ سب مان لینا صرف اللہ کی ذات کا اقرار ہے اتنا مان لینے سے کوئ شرک سے پاک نہیں ہو جاتا۔ آپ کو شاید حیرانی ہو کو یہ سب تو مشرکینِ مکہ بھی مانتے تھے۔ 1۔ مشرکینِ مکہ کے عقائد اللہ کے بارے میں مشرکین: ہمارے الہٰ کے پاس جو اختیار ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ ہمارے الٰہوں کا مالک اللہ ہے۔ 23.84. قُلۡ لِّمَنِ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ٘ 23.84. پوچھیے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو۔ 23.85. سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ٘ 23.85. فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ 23.86. قُلۡ مَنۡ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبۡعِ وَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ٘ 23.86. دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب کون ہے؟ 23.87. سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ٘ 23.87. وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے (١)۔ 23.88. قُلۡ مَنۡۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ یُجِیۡرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیۡہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ٘ 23.88. پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناہ دیتا ہے (١) اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا (٢) اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ؟ 23.89. سَیَقُوۡلُوۡنَ لِلّٰہِ ؕ قُلۡ فَاَنّٰی تُسۡحَرُوۡنَ ٘ 23.89. یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کر دیئے جاتے ہو (١) 23.90. بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِالۡحَقِّ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ٘ 23.90. حق یہ ہے کہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا ہے اور یہ بیشک جھوٹے ہیں۔ 29.61. وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ٘ 29.61. اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ(١) پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں (٢) 29.62. اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ٘ 29.62. اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ (١) یقیناً اللہ تعالٰی ہرچیز کا جاننے والا ہے (٢)۔ 29.63. وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ٘ 29.63. اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالٰی نے۔ آپ کہہ دیجئے کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، بلکہ ان میں اکثر بے عقل ہیں (١)۔ 31.32. وَ اِذَا غَشِیَہُمۡ مَّوۡجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ فَمِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوۡرٍ ٘ 31.32. اور جب سمندر پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ (نہایت) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے ہیں (١) پھر جب وہ (باری تعالیٰ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں (۲) اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں۔ (۳) 39.38. وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلۡ اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلۡ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖۤ اَوۡ اَرَادَنِیۡ بِرَحۡمَۃٍ ہَلۡ ہُنَّ مُمۡسِکٰتُ رَحۡمَتِہٖ ؕ قُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ؕ عَلَیۡہِ یَتَوَکَّلُ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ ٘ 39.38. اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے۔ آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالٰی مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ تعالٰی مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا یہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے (١) توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (٢)۔ 10.31. قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ٘ 10.31. آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ' اللہ ' (١) تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔ صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 321 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0 عباس بن عبدالعظیم، نضر بن محمد یمامی، عکرمہ یعنی ابن عمار، ابوزمیل، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے لیبک لا شریک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہلاکت ہو تمہارے لئے اس سے آگے نہ کہو مگر مشرکین کہتے مگر ایک شریک۔ اے اللہ تو اس کا مالک ہے اور اس کے مملوک کا بھی، یہ کہتے اور بیت اللہ کا طواف کرتے۔ زرا غور کیجئے جس محمدﷺ کو وہ چالس سال تک عزت والا، امین، سچا مانتے تھے، اُسی محمدﷺ کو جھوٹا، بے دین، فساد پھیلانے والا، کہنے لگے۔جناب محمدﷺ کو گالیاں ،تکالیف جو بن پڑا انہوں نے آپﷺ پر ظلم کئے۔ رسولﷺ کے قتل کا منصوبہ، رسولﷺسے جنگ کرنے لگے، آخر جھگڑا کس بات کا تھا؟ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1088 حدیث مرفوع مکررات 4 متفق علیہ 4 عیاش بن ولید ولید بن مسلم اوزاعی یحیی بن ابی کثیر محمد بن ابراہیم تیمی عروہ بن زبیر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر بن عاص سے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ سخت بات جو مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی وہ مجھے بتاؤ انہوں نے کہا (سنو) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر زور سے گلا گھونٹنے لگا تو حضرت ابوبکر سامنے آئے اور اس کے شانے پکڑ لئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹا یا اور فرمایا کہ تم ایک ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ابن اسحاق نے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1086 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 11 متفق علیہ 9 محمد بن بشار غندر شعبہ ابواسحاق عمرو بن میمون حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد قریش کے کچھ لوگ بھی تھے کہ اتنے میں عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح شدہ اونٹ کی آلائش اٹھا لایا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھایا پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے ہٹایا اور یہ حرکت کرنے والے پر بدعا کرنے لگیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ جماعت قریش کی گرفت فرما یعنی ابوجہل بن ہشام عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کی شعبہ کو شک ہوا ہے تو میں نے ان سب کو جنگ بدر میں مقتول پایا انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا گیا تھا علاوہ امیہ یا ابی کے کہ اس کا جوڑ جوڑ علیحدہ تھا اس لئے اسے کنویں میں نہیں پھینکا گیا۔ طائف میں جناب محمد ﷺکو پتھر مارے گئے گالیاں دی گئیں ، جناب محمدﷺ کو کتنی تکلیف ہوئی اس کا اندازہ آپﷺ کی دعا سے بھی ہوتا ہے اسے ابن ہشام اور ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔ جناب محمد ﷺ کی دعوت توحید کو سمجھنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کو یہ پتا ہو کفار عرب اور جناب محمدﷺ میں جھگڑا کس بات کا تھا؟ بدر، احد، خندق، حنین کی جنگیں کس لیے لڑی گئ تھیں؟ کیا اللہ کی ذات کا اقرار مطلوب تھا؟ یہ تو وہ مانتے تھے۔ کیا یہ مطلوب تھا کہ اس کائنات کو بنانے والا، چلانے والا، زمین اور آسمان سے رزق دینے والا اللہ ہے، ہر چیز پہ پورا اختیار رکھنے والا اللہ ہے؟ یہ تو وہ مانتے تھے۔ کیا یہ مطلوب تھا کہ اللہ کی عبادت کی جاۓ؟ تو اللہ کی عبادت وہ کرتے تھے۔ کیا یہ مطلوب تھا کہ اللہ کل شیء قدیر ہے؟ یہ تو وہ مانتے تھے۔ کیا یہ مطلوب تھا کہ اللہ نفع نقصان کا اختیار رکھتاہے؟ یہ تو مانتے تھے۔ کیا یہ مطلوب تھا کہ اللہ مشکلوں اور پریشانیوں کو دور کرنے والا ہے؟ یہ تو وہ مانتے تھے۔ اللہ اکبر کا ان کو بھی اقرار تھا ، مسلہ یہ تھا کہ جو نام ان لوگوں نے ٹھرائے ان کے پاس کیا کمال ہیں۔ جھگڑا ان باتوں تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی نفع نقصان کا اختیار رکھتی ہے کہ نہیں۔ اللہ کے علاوہ اور بھی کوئ ہستی بھی مشکلوں پریشانیوں کو حل کرنے والی ہے کہ نہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی زمین اور آسمان کی اللہ کی سلطنت میں جو وہ چاہے تصرف کر سکتی ہے کہ نہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی اور ہستی کی عبادت کی جائے کہ نہیں۔ اللہ کے علاوہ کوئی اور ہستی بھی شریعت سازی کا اختیار رکھتی ہے کہ نہیں۔ محتصر لفظوں میں اللہ کی ذات ، اختیارات، زمین اور آسمان کی سلطنت میں کوئ ہستی شریک ہے کہ نہیں۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1268 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2 عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، ابواسحاق، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ احد کے دن جب مشرکوں کے مقابلہ پر گئے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت پر عبداللہ بن جبیر کو سردار مقرر فرما کر ان سے فرمایا تم کو اس جگہ سے کسی حال میں نہ سرکنا چاہئے تم ہم کو غالب دیکھو یا مغلوب اور ہماری مدد کے لئے بھی نہ آنا غرض جب ہماری اور کافروں کی ٹکر ہوئی تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے میں نے ان کی عورتوں کو دیکھا کہ پنڈلیاں کھولے اور پائنچے چڑھائی پہاڑ پر بھاگ رہی ہیں اور ان کی پازیبیں چمک رہی ہیں۔ عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا دوڑو اور مال غنیمت لوٹو، عبداللہ نے منع کیا کہ دیکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے کہ کسی حال میں اپنی جگہ مت چھوڑنا مگر کسی نے نہ مانا آخر مسلمانوں کے منہ پھر گئے اور ستر (70) مسلمان شہید ہو گئے ابوسفیان نے ایک بلند جگہ پر چڑھ کر پکارا اے مسلمانو! کیا محمد زندہ ہیں! حضور نے فرمایا خاموش رہو جواب نہ دو پھر کہنے لگا اچھا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر زندہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چپ رہو جواب مت دو پھر کہا اچھا خطاب کے بیٹے عمر زندہ ہیں پھر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب مارے گئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا اور کہنے لگے او دشمن خدا! تو جھوٹا ہے اللہ نے تجھے ذلیل کرنے کے لئے ان کو قائم رکھا ہے ابوسفیان نے نعرہ لگایا اے ہبل! تو بلند اور اونچا ہے ہماری مدد کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی جواب دو پوچھا کیا جواب دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو اللہ بلند و بالا اور بزرگ ہے، ابوسفیان نے کہا ہمارا مدد گار عزیٰ ہے اور تمہارے پاس عزیٰ نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب دو پوچھا کیا جواب دیں؟ فرمایا کہو اللہ ہمارا مددگار ہے، تمہارا مددگار کوئی نہیں ابوسفیان نے کہا بدر کا بدلہ ہوگیا لڑائی ڈول کی طرح ہے ہار جیت رہتی ہے کہا تم کو میدان میں بہت سی لاشیں ملیں گی جن کے ناک کان کٹے ہوں گے میں نے یہ حکم نہیں دیا تھا اور نہ مجھے اس کا افسوس ہے۔ دوسری اہم بات کے مشرکینِ مکہ نے کن کو الٰہ بنایا تھا، آج ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے الٰہ صرف بت تھے، آکثر علماء عوام کو یہی سمجھاتے ہیں کہ مشرکینِ مکہ کے الٰہ صرف بت تھے اور ہم نے بتوں کے الٰہ ہونے کا انکار کر دیا ہے اس لیے اب ہم شرک سے نجات پا چکے ہیں اور قرآن میں جہاں بھی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ کے الفاظ آئے ہیں اُن سے مراد بت ہیں اور اپنی عوام کو سمجھاتے ہیں کہ یہ وہابی لوگ ظلم کرتے ہیں کہ آیتیں بتوں کے بارے میں ہوتی ہیں لگا یہ اللہ کے نیک بندوں پر دیتے ہیں، یہ گستاخ ہیں۔ مشرکیںِ مکہ کے الٰہ: ود ،سواع، یغوث، نسر ،یعوق، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام،ستارے، جن، فرشتے، لات، منات، عزی،ایساف، نائلہ، شیطان۔ 2۔ مشرکین مکہ کے الٰہ اللہ کے نیک بندے بھی تھے 12.106. وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ ٘ 12.106. ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں (١) 71.23. وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمۡ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسۡرًا ٘ 71.23. اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا) (١) صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2134 حدیث موقوف مکررات 4 متفق علیہ 4 ابراہیم بن موسی، ہشام، ابن جریج، عطار، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بت جو قوم نوح میں تھے وہی عرب میں اس کے بعد پوجے جانے لگے "ود" قوم کلب کا بت تھا جو دومتہ الجندل میں تھے اور "سواع" ہذیل کا اور "یغوث" مراد کا پھر بنی عطیف کا سبا کے پاس جوف میں تھا اور "یعوق" ہمدان کا اور "نسر"حمیر کا "جوذی" الکلاع کے خاندان سے تھا یہ قوم نوح علیہ السلام کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان نیک لوگوں نے وفات پائی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے بت نصب کردیں اور اس کا نام ان (بزرگوں) کے نام پر رکھ دیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا لیکن اس کی عبادت نہیں کی تھی یہاں تک کہ جب وہ لوگ بھی مر گئے اور اس کا علم جاتا رہا تو اس کی عبادت کی جانے لگی۔ اس حدیث سے ایک بڑی ہی اہم بات کا پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلی بار انسانوں میں شرک نیک لوگوں کی محبت کے نام پر، اُن کی شان میں غلو کروا کر شیطان نے داخل کروایا تھا۔ 7.194. اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمۡثَالُکُمۡ فَادۡعُوۡہُمۡ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ٘ 7.194. جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا وہ بندے ہیں تم جیسے بھلا پکارو تو ان کو پس چاہیے کہ وہ قبول کریں تمہارے پکارنے کو، اگر تم سچے ہو‏ 17.56. قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا ٘ 17.56. کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ 17.57. اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ٘ 17.57. جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (١) (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ 16.20. وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ٘ 16.20. اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالٰی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیئے ہوئے ہیں (١)۔ 16.21. اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ٘ 16.21. مردے ہیں زندہ نہیں (١) انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ 25.3. وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ٘ 25.3. ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت و حیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں (١)۔ 25.17. وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَقُوۡلُ ءَاَنۡتُمۡ اَضۡلَلۡتُمۡ عِبَادِیۡ ہٰۤؤُلَآءِ اَمۡ ہُمۡ ضَلُّوا السَّبِیۡلَ ٘ 25.17. اور جس دن اللہ تعالٰی انہیں اور سوائے اللہ کے جنہیں یہ پوجتے رہے، انہیں جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کیا یا یہ خود ہی راہ سے گم ہوگئے (١)۔ 25.18. قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ مَا کَانَ یَنۡۢبَغِیۡ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَّخِذَ مِنۡ دُوۡنِکَ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ وَ لٰکِنۡ مَّتَّعۡتَہُمۡ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی نَسُوا الذِّکۡرَ ۚ وَ کَانُوۡا قَوۡمًۢا بُوۡرًا ٘ 25.18. وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ذات ہے خود ہمیں ہی یہ زیبا نہ تھا کہ تیرے سوا اوروں کو اپنا کارساز بناتے (١) بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو آسودگیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ وہ نصیحت بھلا بیٹھے، یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے والے۔ 10.28. وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا مَکَانَکُمۡ اَنۡتُمۡ وَ شُرَکَآؤُکُمۡ ۚ فَزَیَّلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ قَالَ شُرَکَآؤُہُمۡ مَّا کُنۡتُمۡ اِیَّانَا تَعۡبُدُوۡنَ ٘ 10.28. اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ تو ہم ان میں تفرقہ ڈال دیں گے اور انکے شریک (ان سے) کہیں گے کہ تم ہم کو تو نہیں پوجا کر تے تھے۔ ‏ 10.29. فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اِنۡ کُنَّا عَنۡ عِبَادَتِکُمۡ لَغٰفِلِیۡنَ ٘ 10.29. سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواہ کے طور پر کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی (١)۔ تیسری اہم بات کہ مشرکینِ مکہ کے الٰہ بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟؟ دیکھیں سارے مشرک بدنیت نہیں ہوتے ، وہ اپنے گمان میں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے الٰہ بناتے ہیں اُن کا مقصد و نیت نیک ہوتی ہے۔ لیکن شیطان اُن کو اسِ طریق سے گمراہ کرتا ہے کہ وہ شرک کر بیٹھتے ہیں بعض اوقات اللہ کے نیک بندوں کو اللہ کے قریب ہونے کے لیے الٰہ بنا لیتے ہیں(اپنی جہالت میں، نیک بندے کی محبت میں حد کو پار کر جاتے ہیں یہ شیطان کا بڑا ہی خطرناک حملہ ہوتا ہے۔) 3۔ مشرکینِ مکہ کے الٰہ بنانے کے مقاصد 10.18. وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ اَتُنَبِّـُٔوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ٘ 10.18. اور یہ لوگ اللہ کے سوا (١) ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں (٢) اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں (٣) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالٰی کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں (٤) وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے (٥)۔ 36.74. وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لَّعَلَّہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ٘ 36.74. اور وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں تاکہ وہ مدد کئے جائیں (١)۔ 39.3. اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ فِیۡ مَا ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ٘ دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا) ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا بیشک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔ قوم عاد نے بھی الہٰ اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے بنائے تھے۔ 46.28. فَلَوۡ لَا نَصَرَہُمُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ قُرۡبَانًا اٰلِـہَۃً ؕ بَلۡ ضَلُّوۡا عَنۡہُمۡ ۚ وَ ذٰلِکَ اِفۡکُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ٘ 46.28. پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھو گئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔ اوپر یبان دلائل سے یہ بات صاف صاف ثابت ہوتی ہے کہ عرب کے مشرکین مانتے تھے کہ زمین اور اس کی کل چیزیں اللہ کی ہیں۔ ساتوں آسمانوں کا اور بہت با عظمت عرش کا رب اللہ ہے۔ تمام چیزوں کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا ۔یعنی جسے اللہ پناہ دے اسے کوئ نقصان نہیں پہنچا سکتا جسے اللہ پکڑ لے اسے کوئ چھڑا نہیں سکتا۔ آسمان و زمین کو تخلیق کرنے والا اللہ ہے۔ آسمان اور زمین سے رزق پہنچانے والا اللہ ہے۔ کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھنے والا اللہ ہے ۔ زندہ کو مردہ سے نکالنے والا مردہ کو زندہ سے نکالنے والا اور تمام کاموں کی تدبیر کرنے والا اللہ ہے۔ زمین و آسمان کا خالق اور سورج اور چاند کو کام میں لگانے والا اللہ ہے۔ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے والا اللہ ہے۔ بڑی مشکل پریشانی اللہ ہی دور کرنے والا ہے۔ ہمارے الہٰ جن کو وہ اللہ کا شریک مانتے تھے یہ سفارشی ہیں اللہ کے پاس ہمارے۔ ہمارے الہٰ جن کو وہ اللہ کا شریک مانتے تھے یہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں گیں۔ ہمارے الہٰ جن کو وہ اللہ کا شریک مانتے تھے ان کا مالک بھی اللہ ہے اور جس چیز کا ہمارا الہٰ مالک ہے اس کا بھی مالک اللہ ہے۔ مشرکین مکہ کے الہٰ صرف بت نہیں تھے بلکہ نیک بندے، فرشتے، جن بھی تھے۔ بعض اوقات مشرکین اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے الہٰ بناتے ہیں ان کا مقصد ونیت نیک ہوتی ہے۔ چوتھی اہم بات شرک ہوتا کیا ہے،کسی ہستی کے بارے میں کیا عقائد رکھنے سے وہ الٰہ قرار پاتی ہے ۔ 4۔ شرک کیا ہے؟ 6.136. وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الۡحَرۡثِ وَ الۡاَنۡعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعۡمِہِمۡ وَ ہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا ۚ فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمۡ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ مَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِہِمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ٘ 6.136. اور اللہ تعالٰی نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔ 6.138. وَ قَالُوۡا ہٰذِہٖۤ اَنۡعَامٌ وَّ حَرۡثٌ حِجۡرٌ ٭ۖ لَّا یَطۡعَمُہَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ بِزَعۡمِہِمۡ وَ اَنۡعَامٌ حُرِّمَتۡ ظُہُوۡرُہَا وَ اَنۡعَامٌ لَّا یَذۡکُرُوۡنَ اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا افۡتِرَآءً عَلَیۡہِ ؕ سَیَجۡزِیۡہِمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ ٘ 6.138. اور وہ اپنے خیال پر یہ بھی کہتے ہیں یہ کچھ مویشی ہیں اور کھیت میں جن کا استعمال ہر شخص کو جائز نہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا سوائے ان کے جن کو ہم چاہیں (١) اور مویشی ہیں جن پر سواری یا بار برداری حرام کر دی گئی (٢) اور کچھ مویشی ہیں جن پر لوگ اللہ تعالٰی کا نام نہیں لیتے محض اللہ پر افترا (بہتان) باندھنے کے طور پر (٣)۔ ابھی اللہ تعالٰی ان کو ان کے افترا کی سزا دیئے دیتا ہے۔ 42.21. اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃُ الۡفَصۡلِ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ٘ 42.21. کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں اگر فیصلے کا دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کر دیا جاتا یقیناً (ان) ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ 42.22. تَرَی الظّٰلِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا وَ ہُوَ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیۡ رَوۡضٰتِ الۡجَنّٰتِ ۚ لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ٘ 42.22. آپ دیکھیں گے کہ یہ ظالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہونگے (١) جن کے وبال ان پر واقع ہونے والے ہیں (٢) اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے وہ بہشتوں کے باغات میں ہوں گے وہ جو خواہش کریں اپنے رب کے پاس موجود پائیں گے یہی ہے بڑا فضل۔ 10.18. وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ اَتُنَبِّـُٔوۡنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعۡلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ٘ 10.18. اور یہ لوگ اللہ کے سوا (١) ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں (٢) اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں (٣) آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالٰی کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں (٤) وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے (٥)۔ 17.111. وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ٘ 17.111. اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ۔ 18.26. قُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثُوۡا ۚ لَہٗ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَبۡصِرۡ بِہٖ وَ اَسۡمِعۡ ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ ۫ وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ٘ 18.26. آپ کہہ دیں اللہ ہی کو ان کے ٹھہرے رہنے کی مدت کا بخوبی علم ہے، آسمانوں اور زمینوں کا غیب صرف اسی کو حاصل ہے وہ کیا ہی اچھا دیکھنے سننے والا ہے (١) سوائے اللہ کے ان کا کوئی مددگار نہیں، اللہ تعالٰی اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ 25.2. ۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ٘ 25.2. اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی (١) اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا (٢) نہ اس کی سلطنت میں کوئی ساتھی ہے (٣) اور ہرچیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا (٤) ہے۔ 25.3. وَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اٰلِہَۃً لَّا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ وَ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لِاَنۡفُسِہِمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا وَّ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مَوۡتًا وَّ لَا حَیٰوۃً وَّ لَا نُشُوۡرًا ٘ 25.3. ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت و حیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں (١)۔ 25.55. وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ لَا یَضُرُّہُمۡ ؕ وَ کَانَ الۡکَافِرُ عَلٰی رَبِّہٖ ظَہِیۡرًا ٘ 25.55. یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ تو انہیں کوئی نفع دے سکیں نہ کوئی نقصان پہنچا سکیں، اور کافر تو ہے ہی اپنے رب کے خلاف (شیطان کی) مدد کرنے والا۔ 6.40. قُلۡ اَرَءَیۡتَکُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُ اللّٰہِ اَوۡ اَتَتۡکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیۡرَ اللّٰہِ تَدۡعُوۡنَ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ٘ 6.40. آپ کہئے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ 6.41. بَلۡ اِیَّاہُ تَدۡعُوۡنَ فَیَکۡشِفُ مَا تَدۡعُوۡنَ اِلَیۡہِ اِنۡ شَآءَ وَ تَنۡسَوۡنَ مَا تُشۡرِکُوۡنَ ٘ 6.41. بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے (١) 6.63. قُلۡ مَنۡ یُّنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ تَدۡعُوۡنَہٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ۚ لَئِنۡ اَنۡجٰىنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ ٘ 6.63. آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔ تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ 6.64. قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیۡکُمۡ مِّنۡہَا وَ مِنۡ کُلِّ کَرۡبٍ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ ٘ 6.64. آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔ 14.13. لَہٗ دَعۡوَۃُ الۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَسۡتَجِیۡبُوۡنَ لَہُمۡ بِشَیۡءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیۡہِ اِلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُغَ فَاہُ وَ مَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ ؕ وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ٘ 13.14. اسی کو پکارنا حق ہے (١) جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں (٢) ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے (٣)۔ 34.22. قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۚ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا لَہُمۡ فِیۡہِمَا مِنۡ شِرۡکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنۡہُمۡ مِّنۡ ظَہِیۡرٍ ٘ 34.22. کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو (۱) نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے (۲) نہ ان کا ان میں کوئی حصہ (۳) نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے (٤) 46.4. قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ؕ اِیۡتُوۡنِیۡ بِکِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ ہٰذَاۤ اَوۡ اَثٰرَۃٍ مِّنۡ عِلۡمٍ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ٘ 46.4. آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں کون سا حصہ ہے (۱) اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کوئی کتاب یا کوئی علم ہے جو نقل کیا جاتا ہو میرے پاس لاؤ (۲)۔ 46.5. وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنۡ یَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَنۡ لَّا یَسۡتَجِیۡبُ لَہٗۤ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ وَ ہُمۡ عَنۡ دُعَآئِہِمۡ غٰفِلُوۡنَ ٘ 46.5. اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں (١) 46.6. وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوۡا لَہُمۡ اَعۡدَآءً وَّ کَانُوۡا بِعِبَادَتِہِمۡ کٰفِرِیۡنَ ٘ 46.6. اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔ (۱) 16.17. اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ٘ 16.17. تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کر سکتا؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے (١)۔ 16.18. وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ٘ 16.18. اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے 16.19. وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ٘ 16.19. اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ظاہر کرو اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے (١)۔ 16.20. وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ٘ 16.20. اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالٰی کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیئے ہوئے ہیں (١)۔ 16.21. اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ٘ 16.21. مردے ہیں زندہ نہیں (١) انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے (٢) 17.56. قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا ٘ 17.56. کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔ 17.57. اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا ٘ 17.57. جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (١) (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔ 27.62. اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ٘ 27.62. بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے (١) اور تمہیں زمین کا خلیفہ بنانا ہے (٢) کیا اللہ تعالٰی کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔ 27.64اَمَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ٘ 27.64. کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا (١) اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے (٢) کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔ 27.65. قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ٘ 27.65. کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا (١) انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔ 22.73. یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ٘ 22.73. لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، (١) بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے (٢) وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔ 35.13. یُوۡلِجُ الَّیۡلَ فِی النَّہَارِ وَ یُوۡلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیۡلِ ۙ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ۫ۖ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِیۡرٍ ٘ 35.13. وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو اسی نے کام پر لگا دیا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے یہی ہے اللہ (١) تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ (۲) 35.14. اِنۡ تَدۡعُوۡہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡا دُعَآءَکُمۡ ۚ وَ لَوۡ سَمِعُوۡا مَا اسۡتَجَابُوۡا لَکُمۡ ؕ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُوۡنَ بِشِرۡکِکُمۡ ؕ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثۡلُ خَبِیۡرٍ ٘ 35.14. اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کر سکیں اور قیامت کے روز تمہارے شرک سے انکار کر دیں گے اور (اللہ باخبر) کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا 35.15. ۞ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ٘ 35.15. اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو (۱) اور اللہ بے نیاز (۲) اور خوبیوں والا ہے (۳) 6.71. قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسۡتَہۡوَتۡہُ الشَّیٰطِیۡنُ فِی الۡاَرۡضِ حَیۡرَانَ ۪ لَہٗۤ اَصۡحٰبٌ یَّدۡعُوۡنَہٗۤ اِلَی الۡہُدَی ائۡتِنَا ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ اُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ٘ 6.71. آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے کیا ہم الٹے پھر جائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالٰی نے ہدایت کر دی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بے راہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے ساتھی بھی ہوں کہ ہمارے پاس آ(١)۔ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے (٢) اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے مطیع ہوجائیں۔ پکارنا عبادت ہے 2.186 وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ٘ 2.186. جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں (١) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔ 40.11. قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ٘ 40.11. وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبار مارا اور دوہی بار زندگی دی (۱) اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں (۲) تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے (۳) 40.12. ذٰلِکُمۡ بِاَنَّہٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰہُ وَحۡدَہٗ کَفَرۡتُمۡ ۚ وَ اِنۡ یُّشۡرَکۡ بِہٖ تُؤۡمِنُوۡا ؕ فَالۡحُکۡمُ لِلّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡکَبِیۡرِ ٘ 40.12. یہ اس لئے کہ جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کر دیتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جاتا تھا تو تسلیم کر لیتے تھے تو حکم تو اللہ ہی کا ہے جو (سب سے) اوپر اور (سب سے) بڑا ہے 40.13. ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُنَزِّلُ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا ؕ وَ مَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنۡ یُّنِیۡبُ ٘ 40.13. وہی ہے جو تمہیں اپنی (نشانیاں) دکھلاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے روزی اتارتا ہے (١) نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتے ہیں جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتے ہیں۔ (۲) 40.14. فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ٘ 40.14. تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں (١) 40.15. رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ ۚ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ ٘ 40.15. بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔ 40.16. یَوۡمَ ہُمۡ بٰرِزُوۡنَ ۬ۚ لَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡہُمۡ شَیۡءٌ ؕ لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ ٘ 40.16. جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے (١) ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ (۲)، فقط اللہ واحد و قہار کی۔ 40.59. اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ٘ 40.59. قیامت بالیقین اور بلاشبہ آنے والی ہے، لیکن (یہ اور بات ہے کہ) بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے۔ 40.60. وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ٘ 40.60. اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا (١) یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے (٢) 10.106. وَ لَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ ۚ فَاِنۡ فَعَلۡتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیۡنَ ٘ 10.106. اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کر سکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔ شرک مشرکیں مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ اللہ نے ہمارے الٰہوں(نیک بندوں ، طاغوت) کو اختیارات (نفع نقصان کے، مدد کرنے کے)دیے ہوۓ ہیں، ہمارے الہ اللہ کے دی ہوئ طاقت سے ہی ہماری مدد کریں گیں، دوسرے لفظوں میں، اُن کا دعویٰ تھا کہ ہمارے الٰہوں کا مالک اللہ ہے۔ یعنی اللہ پر جھوٹ باندھ کر آپنے شرک کو دلیل فراہم کرتے تھے۔ کسی بندے کے بارے میں یہ کہنا کہ اللہ نے اسے نفع نقصان کا اختیار دیا ہے یہ اللہ پہ جھوٹ بولنا ہے۔ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ نفع نقصان کا اختیار رکھتی ہے یہی تو ہے اُس ہستی کو الٰہ بنانا۔ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ ہر مشکل پریشانی دور کر سکتی ہے یہی تو ہے اُس کو الٰہ بنانا۔ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ اللہ کی زمین اور آسمان کی اِس سلطنت میں تصرف کر سکتی ہے یہی تو ہے اُس کو الٰہ بنانا۔ کسی ہستی کے بارے میں سمجھنا کہ وہ رزق دینے والی ہے(یعنی رزق کی تقسیم اس کے ذمے ہے جو چاہے کسی کو دے ) بیٹا بیٹی دینے والی ہے یہی تو ہے اس کو الہٰ بنانا۔ کسی ہستی کو اللہ کی ذات کا حصہ، جز(بیٹا،بیٹی) سمجھنا یہی تو ہے اُس ہستی کو الٰہ بنانا۔ کسی ہستی کی عبادت(کسی بھی قسم کی) کرنا یہی تو ہے اُس ہستی کو الٰہ بنانا۔ کسی ہستی کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ مختارِ کل ہے یہی تو ہے اُس ہستی کو الٰہ بنانا۔ جن کو موت آ چکی ہے ان کو پکارنا مدد کے لیے ، مشکلات کے حل کے لیے، دوسرے لفظوں میں، مرے ہوئے سے دعا مانگنا، یہ بلکل بیکار ہے، یہ اس مرے ہوۓ کی عبادت ہے۔ اللہ کے نیک بندے جن کو موت آ چکی ہے، وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ ان کو پکارا جا رہا ہے، وہ لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے،قیامت کے دن وہ انکار کر دیں گے لوگوں کے شرک کا۔ مشرکین مکہ نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے، اپنی جہالت میں، ، نیک نیتی کے ساتھ، نیک لوگوں کی محبت کے نام پہ اُن نیک لوگوں کو الٰہ بنایا۔ کوئ نیک بندہ اپنے نفع نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ وہ خود اللہ سے مدد مانگتا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے اُن کے سارے جھوٹے دعوں کے باطل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اللہ پاک ہے ہر اُس چیز سے جسے اُس کا شریک بناتے ہیں۔ اللہ اپنے اختیارات ،حکم ،سلطنت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ جب کوئ اور نفع نقصان اختیار نہیں رکھتا، جب کوئ اور مختار کل نہیں، جب کسی اور ہستی کا حکم (جو وہ چاہے)اِس زمین اور آسمان میں نہیں چل سکتا ، تو پھر کسی اور ہستی کی عبادت بھی نہیں کی جا سکتی ۔ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے، عبادت کی تمام اقسام اللہ اور صرف اللہ کے لیے۔ جب زمین اور آسمان کا مالک صرف وہ ہے تو پھر زمین اور آسمان میں حکم بھی اُسی کا اور دین بھی اُسی کا چلے گا، حلال اور حرام کرنے کا اختیار بھی صرف اُسی کے پاس ہے۔ کسی اور ہستی کے بارے میں یہ سمجھنا کے وہ بھی حلال اور حرام کرنے کا اختیار رکھتی ہے یہ اس کو الٰہ بنا لینا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ اسباب کے تحت ایک دوسرے سے مدد مانگنا پکارنا یہ شرک نہیں ہے یہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے، ہم اپنے اللہ کے فرمانبردار ہیں، لیکن توکل صرف اور صرف اللہ پر۔ اسباب سے ہٹ کر مدد مانگنا، پکارنا شرک ہے جیسے قبر والوں سے، فوت شدگان سے، جن کو اللہ نے اُٹھا لیا اُن سے۔
×
×
  • Create New...