Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'ذوالقرنین حنفی'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. السلام علی من اتبع الھدیٰ اکثر دیوبندی، اہلسنت کو ایک طعنہ دیتے رہتے ہیں کہ ”سُنی(بریلوی) شیعہ بھائی بھائی ہیں۔ ناجانے کس وجہ سے دیوبندیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ اہلسنت بریلوی، شیعوں کی تکفیر نہیں کرتے اور ان کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اس لۓ یہ ان کے بھاٸی ہوۓ،ہم کو بھی کٸ بار یہ طعنہ مل چکا ہے۔ آج ہم اس طعنہ کی حقیقت بیان کریں گے اور یہ بتاٸیں گے کہ اصل میں شیعہ کے بھاٸی کون ہیں اہلسنت یا دیوبندی ؟ ہم نے ذیل میں شیعوں کے بارے میں اہلسنت وجماعت کے اور دیوبندیوں کے فتاویٰ نقل کیے ہیں ان سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شیعوں کے اصل بھاٸی کون ہیں۔ دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوہی سے اسمٰعیل کو کافر کہنے والے شخص کے بارے میں سوال ہوا کہ ایسا شخص خود کافر ہوا یا نہیں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ! جو لوگ مولوی اسماعیل کو کافر کہتے ہیں وہ بتاویل کہتے ہیں، اگرچہ ان کی یہ تاویل غلط ہے لہذا ان لوگوں کو کافر نہیں کہنا چاہیے اور نہ ہی ان کے ساتھ کفار کا معاملہ کرنا چاہیے ”جیسا کہ روافض و خوارج کو بھی اکثر علما کافر نہیں کہتے حالانکہ وہ(رافضی) شیخینؓ و صحابہ کرام کو اور (خوارج) حضرت علیؓ کو کافر کہتے ہیں،پس جب بسبب تاویلِ باطل کے ان کے کفر سے بھی آٸمہ نے تحاشی کی“ تو مولوی اسماعیل کو مردود کہنے والا کو بطریق اولیٰ کافر نہیں کہنا چاہیے۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 192) یہاں پر رشید احمد گنگوہی کہتا ہے کہ روافض و خوارج بھی شیخینؓ و صحابہ کرام اور حضرت علیؓ کو باطل تاویل کے سبب کافر کہتے ہیں تو ہمارے اکثر علما نے ان کو تاویل کی بنا پر کافر نہیں کہا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ نقل فرماتے ہیں کہ! رافضی تبراٸی جو حضرات شیخینؓ کو معاذاللہ بُرا کہے کافر ہے، رافضیوں، ناصبیوں اور خارجیوں کو ”کافر کہنا واجب ہے“ اس سبب سے کہ وہ امیر المومنین عثمانؓ و مولیٰ علیؓ و حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ و حضرت عاٸشہؓ کو ”کافر کہتے ہیں“، (پھر نقل فرماتے ہیں) خلافت صدیقؓ اور خلافت فاروق اعظمؓ اور خلافت عثمانؓ کا منکر کافر ہے،اور جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کا منکر ہو یا شیخینؓ کو بُرا کہے یا حضرت عاٸشہ صدیقہؓ پر تہمت رکھے وہ کافر ہے ”اور اس کی تاویل کی طرف التفات نہ ہو گا نہ اس جانب کہ اس نے راۓ کی غلطی سے ایسا کہا“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 252 تا 255) اعلیٰحضرتؓ یہاں فرماتے ہیں کہ اگر کوٸی شخص صرف حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو بُرا ہی کہہ دے تب بھی وہ کافر ہو جاۓ گا۔ اور ہمارے نزدیک رافضیوں،خارجیوں اور ناصبیوں کو کافر کہنا واجب ہے کیونکہ وہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ و عاٸشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ کو کافر کہتے ہیں۔ اور جو شخص ان کی شان میں گستاخی کر کے کافر ہوا ہو اس کی تاویل پر بھی توجہ نہ دی جاۓ گی اور نہ ہی یہ مانا جاۓ گا کہ اس نے راۓ کی غلطی کی وجہ سے ایسا کہہ دیا۔ جبکہ دوسری طرف رشید احمد گنگوہی کا کہنا تھا کہ اگر کوٸ باطل تاویل کے سبب صحابہ کو کافر کہتا ہے تو اس کو ہمارے علما کافر نہیں کہتے۔(معاذاللہ) رشید احمد گنگوہی سے روافض کے کفر اور ان سے شادی بیاہ کے بارے میں سوال ہوا۔ تو رشید احمد گنگوہی نے جواب دیا کہ! ”رافضی کے کفر میں اختلاف ہے جو علما کافر کہتے ہیں بعض نے اہل کتاب کا حکم دیا ہے بعض نے مرتد کا پس درصورت اہل کتاب ہونے کے عورت رافضیہ سے مرد سُنی(جعلی دیوبندی) کا نکاح درست ہے اور عکس اس کے ناجاٸز اور بصورت ارتداد ہر طرح ناجاٸز ہو گا اور جو ان کو فاسق کہتے ہیں ان کے نزدیک ہر طرح درست ہے“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 198) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوبندیوں کے تین گروہ ہیں جن میں سے ایک کہ نزدیک رافضی صرف فاسق ہیں اور ان سے نکاح جاٸز بھی سمجھتے ہیں اور جو دوسرا گروہ ان کو اہل کتاب سمجھتا ہے وہ بھی ان سے نکاح کو جاٸز سمجھتا ہے۔ جبکہ ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ رافضیوں میں نکاح کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ! ”بالجملہ ان رافضیوں تبراٸیوں کے باب میں حکمِ یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار و مرتدین ہیں انکے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے،ان کے ساتھ مناکت (شادی بیاہ) نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے، معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہیٰ ہے،اگر مرد سُنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہو گا محض زنا ہو گا،اولاد ولدالزنا ہو گی باپ کا ترکہ نہ پاۓ گی اگرچہ اولاد بھی سُنی ہو کہ شرعاً ولدالزنا کا باپ کوٸی نہیں،ان کے مرد عورت،عالم جاہل، کسی سے میل جول، سلام کلام سب سخت کبیرہ اشد حرام، جو ان کے ان ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر پھر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرۓ باجماع تمام آٸمہِ دین خود کافر بے دین ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 269) اعلیٰحضرتؓ نے روافض کے کافر ہونے پر اجماعی حکم بیان کیا کہ ان سے نکاح کسی صورت جاٸز نہیں بلکہ زنا ہے اور اگر سُنی مرد نے کسی رافضیہ عورت سے نکاح کر لیا تو وہ بھی زنا ہے اور جو اولاد ہو گی چاہے وہ سُنی ہی ہو وہ ولدالزنا ہو گی اور ترکہ نہ پاۓ گی۔ ساتھ ہی اعلیٰحضرتؓ نے آٸمہِ دین کا اجماع نقل فرمایا کہ روافض کے کفریہ عقاٸد سے آگاہ ہونے کے بعد بھی جو ان کو مسلمان سمجھے یا ان کے کفر میں شک کرۓ وہ خود کافر و بے دین ہے۔ ایک اور مقام پر رشید احمد گنگوہی سے صحابہ پر طعن و لعنت کرنے والے کے بارے میں سوال ہوا کہ ایسا شخص سنت جماعت سے خارج ہو گا یا نہیں ؟ تو رشید احمد گنگوہی نے جواب دیا کہ! ”جو شخص صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی ”تکفیر“ کرۓ وہ معلون ہے ایسے شخص کو امام مسجد بنانا حرام ہے اور وہ اپنے اس گناہ کبیرہ کے سبب سنت جماعت سے خارج نہیں ہو گا“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 274) یہاں پر رشید احمد گنگوہی کہتا ہے کہ جو صحابہ میں سے کسی کو بھی کافر کہے گا وہ ملعون یعنی لعنتی ہی ہو گا اور اس گناہ کے سبب سنت جماعت (یعنی جماعتِ دیوبند) سے خارج نہ ہو گا بلکہ دیوبندی ہی رہے گا۔ جبکہ اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان بریلویؓ اس مسٸلہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ! ”رافضی جو حضرات شیخینؓ صدیق اکبرؓ و فاروق اعظمؓ خواہ ان میں سے ایک کی شان میں گستاخی کرۓ اگرچہ صرف اس قدر کہ انہیں امام و خلیفہ برحق نہ مانے تو فقہ حنفی کی تصریحات اور آٸمہ کے فتویٰ کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے،اگر ضروریات دین میں سے کسی کا منکر ہو گا تو کافر ہے مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کا منکر ہو، جو رافضی حضرت شیخینؓ کو معاذ اللہ بُرا کہے کافر ہے، شیخینؓ کو بُرا کہنا ایسا ہے جیسے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، جو شیخینؓ کو بُرا کہے یا تبرا بکے کافر ہے،جو خلافتِ شیخینؓ کا انکار کرۓ یا ان سے بغض رکھے کافر ہے کہ وہ تو رسول اللہﷺ کے محبوب ہیں، ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر کسی نبی یا شیخینؓ یا ان میں سے کسی ایک کی گستاخی کر کے کافر ہونے والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، درمختار میں بھی ہے کہ جو حضرات شیخینؓ کو بُرا کہے یا ان پر طعن کرۓ وہ کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف، جلد 14، رسالہ رد الرفضہ، صحفہ نمبر 251 تا 261) اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اہلسنت اور ہمارے آٸمہِ دین کے نزدیک جو صحابہ کی شان میں گستاخی کرۓ یا ان کو کافر کہے وہ جماعت میں رہنا تو دور کی بات ہے اسلام میں بھی نہیں رہتا اور کافر ہو جاتا ہے اور جو انبیا کی گستاخی کرۓ یا حضرت ابوبکر صدیقؓ یا حضرت عمرؓ یا دونوں کی گستاخی کے باعث کافر ہوا ہو تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ رشید احمد گنگوہی خود شیعہ رافضیوں کو کافر سمجھتا تھا یا نہیں ؟ تو رشید احمد گنگوہی شیعہ کی تجہیر و تکفین کے بارے میں کہتا ہے کہ! جو لوگ شیعہ کو کافر کہتے ہیں ان کے نزدیک تو اس کی نعش کو ویسے ہی کپڑے میں لپیٹ کر واب دینا چاہیے،اور جو لوگ فاسق کہتے ہیں ان کے نزدیک ان کی تجہیر و تکفین حسب قاعدہ(مکمل رواجی و شرعی طور پر) ہونا چاہیے ”اور بندہ بھی ان کی تکفیر نہیں کرتا“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، صحفہ نمبر 291) یہاں پر رشید احمد گنگوہی خود اقرار کرتا ہے کہ میں شیعہ کی تکفیر نہیں کرتا یعنی ان کو کافر نہیں مانتا اور شیعوں کی تجہیر و تکفین کو مکمل شرعی طور پر کرنے کا قاٸل ہے۔ جبکہ جب ہمارے امام احمد رضا خان بریلویؓ سے شیعہ کی نماز جنازہ پڑھنے کا سوال ہوا تو فرمایا! ”اگر رافضی ضروریاتِ دین کا منکر ہے، مثلًا قرآن کریم میں کُچھ سوُرتیں یا آیتیں یا کوئی حرف صرف امیر المومنین عثمانؓ یا اور صحابہ خواہ کسی شخص کا گھٹایا ہوا مانتا ہے، یا مولٰی علیؓ خواہ دیگر ائمہ اطہار کو انبیائے سابقین میں کسی سے افضل جانتا ہے۔ اور آجکل یہاں کے رافضی تبرائی عمومًا ایسے ہی ہیں اُن میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے جو ان عقائدِ کفریہ کا معتقد نہ ہو جب تو وہ کافر مرتد ہے اور اس کے جنازہ کی نماز حرام قطعی و گناہ شدید ہے،اگر ضروریات دین کا منکر نہیں ہے مگر تبراٸی ہے تو جمہور آٸمہ کے نزدیک اس کا بھی وہی حکم ہے(یعنی اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جاۓ گی)، اور اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہتے (یعنی ان کی نماز جنازہ نہ پڑھے)، اور اگر صورت پہلی تھی یعنی وہ مُردہ رافضی منکرِ بعض ضروریاتِ دین تھا اور کسی شخص نے باآں کہ اُس کے حال سے مطلع تھا دانستہ اس کے جنازے کی نماز پڑھی اُس کے لئے استغفار کی جب تو اُس شخص کی تجدید اسلام اور اپنی عورت سے ازسر نو نکاح کرنا چاہئے“۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صحفہ نمبر 172،173) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کل کے تمام شیعہ کافر ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے نزدیک تو کسی ایسے شیعہ کا جنازہ پڑھنا بھی جاٸز نہیں جو صرف تفضیلی ہو اور تبرا نہ کرتا ہو،اور اگر کسی نے جان بوجھ کر رافضی منکرِ ضروریات دین کا جنازہ پڑھ لیا تو اس کو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کرنا پڑۓ گا۔ اب آپ خود بتاٸیں کہ ان سب باتوں کے بعد بھی سُنی شیعہ بھاٸی بھاٸی ہیں یا دیوبندی شیعہ بھاٸی بھاٸی ہیں ؟ صحابہؓ کو کافر کہنے والے کو کافر نہ کہنے کے قاٸل دیوبندی ہیں۔ روافض سے نکاح کرنے کے قاٸل دیوبندی ہیں۔ صحابہ کی تکفیر کرنے والا بھی دیوبندی جماعت سے خارج نہیں ہوتا۔ اور دیوبندی علما شیعہ کی تکفیر بھی نہیں کرتے۔ اس سب کے باجود بھی اگر کوٸی دیوبندی یہ کہتا ہے کہ ”سُنی شیعہ بھاٸی بھاٸی“ تو اس کو چاہیے کہ پہلے اپنے ان تمام علما کو جماعتِ دیوبند سے خارج مان کر کافر مانے اور پھر ہماری کتب سے یہ دکھاٸے کہ ہم کہاں پر روافض کی حمایت کرتے ہیں اور کہاں پر ان سے شادی بیاہ کو جاٸز سمجھتے ہیں اور کہاں پر ان کی تکفیر نہیں کرتے ؟ دُعا ہے کہ اللہ سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور شیعوں و دیوبندیوں کا بھاٸی چارہ بڑھاۓ اور دیوبندیوں کا حال شیعوں کے ساتھ فرماۓ۔(آمین) تحقیق ازقلم: مناظر اہلسنت والجماعت محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی
  2. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ شیعوں نے اپنی ایک ویب ساٸیٹ پر ایک پوسٹ اپلوڈ کی جس میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی شرح صحیح مسلم میں علامہ عینیؒ کے قول کو نقل کیا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”میں(عینی) کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہؓ کی خطا کو اجتہادی خطا کیسے کہا جاۓ گا ؟ اور ان کے اجتہاد پر کیا دلیل ہے ؟ حالانکہ ان کو یہ حدیث پہنچ چکی تھی جس میں رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے افسوس ابن سمیہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی،اور ابن سمیہ عمار بن یاسرؓ ہیں،اور ان کو حضرت معاویہ کے گروہ نے قتل کیا،کیا معاویہؓ برابر سرابر ہونے پر راضی نہیں ہیں کہ ان کو ایک اجر مل جاۓ“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس قول کو لکھنے کے بعد شیعہ چیلنج کر رہے ہیں کہ ”کیا کوٸی اہل سنت اس اعتراض کا علمی جواب دے سکتا ہے ؟“ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ شیعہ مکار اور فریبی قوم ہیں،بس اپنے مطلب کی بات نکال کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کوٸی شخص کم علمی میں شیعہ کی آدھی پوسٹ پڑھ کر یہ فتوے بازی نہ شروع کر دے کہ علامہ بدرالدین عینیؒ رافضی تھے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم ان کے اس چیلنج کے جواب کی طرف آتے ہیں کہ ان کے چیلنج کا منہ توڑ جواب اسی کتاب کے اگلے صحفے پر موجود ہے۔ پہلی بات ہی یہ ہے کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے یہ قول ہی اس باب میں نقل کیا ہے کہ ”حضرت معاویہ پر علامہ عینی کے اعتراض کا جواب“ یعنی کہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ اس جگہ ان کے اس اعتراض کا جواب لکھنے لگے ہیں،لیکن شیعہ نے اس سے اگلا صحفہ نہ ہی لگایا ہے نا ہی پڑھا ہو گا۔ علامہ غلام رسول سعیدیؒ علامہ عینیؒ کا یہ قول لکھ کر سب سے پہلے یہ کہتے ہیں حضرت علیؓ کی محبت برحق ہے اور ہمارے ایمان کا جُزو ہے،لیکن حضرت علیؓ کی محبت میں حضرت معاویہؓ پر غیظ و غضب کا اظہار کرنا اور ان کے فضاٸل اور ان کے اجر و ثواب کا انکار کرنا تشیع اور رفض کا دروازہ کھولنا ہے،اور راہِ اعتدال اور مسلک اہلسنت وجماعت سے تجاوز کرنا ہے۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 791) اس کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ،علامہ عینیؒ کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالی علامہ بدالدین عینیؒ کی مغفرت فرماۓ(آمین) انہوں نے امیر معاویہؓ پر اعتراض کیا کہ حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے موقف کا حق ہونا واضح ہو گیا تھا اور لیکن انہوں نے اس کے بعد بھی رجوع نہیں کیا۔ اس کے بعد علامہ عینیؒ کے اعتراض کا جواب کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”علامہ عینیؒ کے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت پہلے تو حضرت معاویہ کے اجتہاد پر کوٸی اعتراض نہیں ہے،ہاں حضرت عمارؓ کی شہادت کے بعد حق ضرور واضح ہو گیا تھا لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو یہاں بھی التباس اور اشتباہ ہو گیا،انہوں نے کہا کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کا باعث حضرت علیؓ ہیں(جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں روایت موجود ہے)،اگر حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ کا قصاص لے لیتے تو جنگ کی نوبت نہ آتی اور نا ہی حضرت عمارؓ شہید ہوتے،حضرت معاویہؓ کی تاویل صحیح نہیں ہے لیکن یہ تاویل بھی ان کی اجتہادی خطا پر مبنی ہے“۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 792) اس جواب کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ عمدة القاری کے شروع میں علامہ عینیؒ نے خود حضرت معاویہؓ کی اجتہادی خطا کا اعتراف کیا ہے وہ اس حدیث کہ ”عمارؓ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار اس گروہ کو جنت کی طرف بلاۓ گا اور وہ لوگ عمارؓ کو دوزخ کی طرف بلاٸیں گے“(یاد رہے یہ جنت و جہنم کے زاٸد الفاظ بخاری کے قدیم نسخوں میں موجود نہیں تھے لیکن بعد میں شامل کر دیے گۓ جو کہ میں اپنی پہلے والی پوسٹ میں ثابت کر چکا ہوں)اس حدیث پر اشکال ہوتا ہے کہ حضرت عمارؓ حضرت علیؓ کی طرف سے لڑے تھے اور ان کو حضرت امیر معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا تو کیا حضرت معاویہؓ کا گروہ باغی اور دوزخ کی طرف دعوت دینے والا تھا ؟ اس کے جواب میں علامہ عینیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمارؓ کو حضرت معاویہؓ کے گروہ نے قتل کیا تھا لیکن وہ خود مجتہد تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ وہ جنت کی دعوت دے رہے ہیں اور اس واقعے کے برعکس تھا اور اپنے ظن کی اتباع کرنے میں ان پر کوٸی ملامت نہیں ہے،اگر تم یہ کہو کہ جب مجتہد صحیح اجتہاد کرے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اگر غلط اجتہاد کرے تو ایک اجر ملتا ہے تو یہاں کیا معاملہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اقناعی جواب دیا ہے اور صحابہ کے حق میں اس کے خلاف کہنا لاٸق نہیں ہے،کیونکہ اللہ نے صحابہ کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کی گواہی دی ہے، قران مجید میں ہے ”تم بہترین امت ہو“ مفسرین نے بیان کیا ہے اس سے مراد ”صحابہ“ ہیں۔ (شرح صحیح مسلم جلد 7 صحفہ نمبر 972) تو اس سے سب سے پہلے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کا چیلنج بلکل فضول اور جاہلانہ تھا اور ساتھ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ بدرالدین عینیؒ حضرت امیر معاویہؓ پر طعن کرنے کے قاٸل نہیں تھے اور نا ہی ان کو جہنمی کہتے تھے بلکہ وہ خود حضرت امیر معاویہؓ کی تاویل کو اجتہادی خطا سمجھتے تھے،اور ان کی فضیلت کے قاٸل تھے۔لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ حق واضح ہونے کے باوجود حضرت امیر معاویہؓ نے رجوع نہیں کیا اور پھر سے تاویل کی جو کہ صحیح نہیں تھی۔ شیعہ حضرات کو بھی چاہیے کہ علما کی بیان کردہ باتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور الٹے سیدھے فضول چیلنج کرنے کی بجاۓ حق کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔ تحقیق ازقلم:محمد ذوالقرنین الحنفی البریلوی
×
×
  • Create New...